Wednesday, December 30, 2020

قرآن_کا_حکم_ہے_سائنس_پڑھو




وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

 اورہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
ہم مسلمان ہیں اور ہم نے قرآن کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اس کے بعد بھی  ہم ذلیل و خوار ہیں؟ اس کی وجہ کیاہے؟کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں؟ اور رسمی طور پر قرآن سے منسلک ہیں؟ یا اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ ہم نے مسلمان ہونے اور قرآن نہ چھوڑنے کا صحیح مفہوم نہیں سمجھا ہے؟۔ آئیے ہم اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے متعدد طبقات کا ذکر ہے۔ مثلا مسلمان، مومن، محسن، متقی،صالح، قانع اور صابرو شاکر وغیرہ۔ لیکن ہم یہاں صرف مسلمانوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ جس کی جانب علامہ اقبال نے مذکورہ شعر میں اشارہ کیا ہے کہ کس طرح کے مسلمان گزشتہ زمانے میں معزز تھے؟ کیاوہ تارک الدنیا مسلمان تھے؟ مجذوب وپاگل تھے، پیادہ پا، گدڑی پوش، ملنگ، ملیچھ، خاک آلود، خاک نشیں، ٹاٹ پوش، نیم برہنہ، اور نیم پاگل، وغیرہ تھے؟ یا وہ مسلمان معزز تھے جنہوں نے دنیا کو فتح کیا۔ جاہ و حشم کے ساتھ دنیا پر حکومت کی، بڑے بڑے شہر بسائے، حفاظت کے لیے قلعے اور آرام کے لیے محلات کی تعمیر کی، خشکی اور تری میں سفری سہولت کے لیے نئے نئے ایجادات کیے، عمدہ اور لذیذ کھانوں کے اسباب پیدا کیے، عمدہ اور آرام دہ لباس کے لیے کارخانے قائم کیے، علاج و معالجہ کے لیے شفاخانہ اور دوا ساز کمپنیاں قائم کیں، سائنس ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس وغیرہ کے لیے تجربہ گاہیں اور ریسرچ سینٹر بنائے،علمی و تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ کس طرح کے مسلمانوں کو آپ کامیاب اور معزز سمجھتے ہیں؟ یا ہم کس طرح کے مسلمان بننا چاہتے ہیں؟ اس طرح کے اور بھی سیکڑوں سوالات ہیں،لیکن دو لفظوں میں اگر ہم اپنی‌تنزلی اور مغلوبیت کا راز بتاسکیں تو وہ ہے ہمارا فکری تضاد،کہ ہم بات کرتے‌ہیں‌معزز،محترم،اشرف اور خیرامت کی لیکن روش اپناتے ہیں کاہلی،سستی،بزدلی،قلندری،فقیری اور جاہلیت کی۔
 اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم فکری تضاد کا شکار ہوکر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کی خواہش تو ہے کہ ہمیں شان و شوکت کی زندگی نصیب ہو جو کہ ایک اسلامی‌سوچ بھی  ہے۔ لیکن ہم نے طریقہ اپنا رکھا ہے Dark Age کے رہبانیوں اور پادریوں کا جہاں ہر طرف جہالت اور توہم پرستی کا دور دورہ تھا۔ہم فخرکناں ہیں تارک الدنیا مجذوب اور خاک نشین ہونے پر۔ یعنی تسخیرکائنات کے رموز و معارف اور قدیم و جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم جس سے یہ اعجاز حاصل ہوتا ہے اسے علم دنیا کہہ کر ہم نے مسترد کر دیاہے اور اپنی ساری توانائی ایسے علم و ہنر کے حصول میں صرف کردی جس سے محض مجذوب، خاک نشیں، اورتارک الدنیا ہوا جاسکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات اور اس کے انقلابی مزاج‌ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مقدس میں جو ہمیں تعلیم دی ہے اس میں دنیا و آخرت کی کامیابی اور عزت و حشمت کا حکم ہے۔ میں قرآن مقدس سے تین حوالے پیش کرتا ہوں۔
(1) چنانچہ اللہ تعالی نے  سورہ "البقرہ"کی آیت نمبر 201/ 202  میں مسلمانوں کو جو سب سے بہتر دعا مانگنے کا سلیقہ سکھایا ہے وہ یہ ہے۔ ترجمہ: "مسلمانوں میں سے جو لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں اچھی زندگی عطا فرما اور آخرت میں بھی اچھائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا۔ تو اللہ تعالی وہ سب کچھ دیتا ہے جو وہ مانگتے ہیں یا کماتے ہیں اور اللہ تعالی جلد حساب لینے والا ہے۔"
 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ہمیں سب سے پہلے اچھی دنیا مانگنے کا حکم دیا ہے اور ظاہر ہے کہ جب ہم اللہ تعالی سے اچھی دنیا مانگیں گے تو اچھی دنیا کے لیے کوشش بھی کریں گے تبھی ہم مومن کامل اور عامل قرآن ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے "تم ہی سر بلند رہو گے شرط ہے کہ مومن رہو."( آیت نمبر139 سورہ آل عمران)
گویا کہ مسلمانوں کا معزز ہوناایمان کے شرائط میں سے ہے اور دنیا کی اچھی زندگی کے لیے جس علم کا حصول ضروری تھا   غلط فہمی سے ہم نے اس کو علم دنیا کہہ کر اس سے دوری اختیار کرلی ہے جسکے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
(2) اللہ تعالی نے غار حرا میں جو پہلی پانچ آیتیں نازل فرمائی تھی وہ سب کے سب علم سے ہی متعلق ہیں۔مفسرین فرماتے ہیں کہ پہلی وحی میں إقرأ یعنی لفظ پڑھ کی تکرار بتاتا ہے کہ قرآن و اسلام کا پہلا مطالبہ ہم سب سے حصول علم کا ہے۔
پہلی وحی کے ابتدائی پانچ آیتوں کا مفہوم سمجھیں؛
(١) پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے ساری کائنات کی تخلیق فرمائی ہے تمہارے فائدے کے لیے۔ اپنے  رب کے نام سے ان حقائق و خصائل کی معرفت حاصل کرو جو اللہ تعالی نے اس دنیا میں پیدا فرمایا ہے،تاکہ تم اس سے مستفیض ہو سکو،اور دنیا تمہارے لیے مسخر ہو جائے۔ (٢) پڑھو عناصر اربعہ کے بارے میں جو خون کے لوتھڑے کی شکل میں ہے ،جس سے اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا۔سوچو انسان کی تخلیق کی ابتدا کیسے ہوتی ہے؟ اوراس کی نشونما اور انتہا کیسے ہوتی ہے۔ اس کے تراکیب وحقائق کی معرفت حاصل کرو تاکہ صحت مند رہ سکو اور اللہ کی ربوبیت،خلاقیت اور صانع ازل کی نازک اور پیچیدہ ترین صنعت یعنی جسم انسانی پر غور و فکر کرکے اپنے معبود حقیقی پر ایمان پختہ کر سکو۔ (٣) پڑھو اس رب کے نام  سے جو بڑا ہی کریم ہے کہ اس سے زیادہ کرم والا اور کوئی نہیں ہے، یعنی جو بھی پڑھو اس کے کرم کی بھیک سمجھ کر‌ پڑھو،علم کا دائرہ حلت و حرمت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے، حصول علم میں دامن اسلام اور منہج خداوندی چھوٹنے نہ پائے، کبھی علم کا غرور نہ ہونے پائے،بیشک تمہارا رب بہت ہی کرم فرمانے والا ہے۔
(٤)جس نے علم بالقلم یعنی تحریری علم حاصل کرنے کا حکم دیاہے(جن میں سب سے قیمتی قرآن مقدس ہے ،جس میں  کائنات کی ہر چیز کا روشن بیان ہے۔قلمی تحریر یہ اللہ کی بہت عظیم‌ نعمت ہے۔اس نعمت کے بعد ہم اپنی تحقیق کو لکھنے اور دوسروں کی ریسرچ کو پڑھنے کے قابل ہوے۔)
(٥) اے انسان تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہارے اندر ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ تم معلومات کی ترتیب سے مجہولات کو معلوم کر سکتے ہو۔تم دنیا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے ہو جاننے کی کوشش کرو۔ جان جاؤ کہ یہ دنیا تمہارے فائدے کے لیے ہے اور اس دنیا سے فائدہ تم تبھی اٹھا سکتے ہو جب تمہارے پاس اس کے رموز و حقائق کا علم ہوگا اس لیے اللہ تعالی نے تمہیں وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔
(آیت نمبر 1 تا 5/ سورہ علق پارہ /30)
ان پانچ آیتوں کی شکل میں اللہ کا سب سے پہلا حکم جو مسلمانوں کو دیا گیا وہ خالصتاً وہ علوم ہیں جس کو موجودہ زمانے میں سائنس و ٹیکنالوجی، بائیولوجی، سوشولوجی، میٹرولوجی، کامرس، جغرافیہ وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ جب نازل ہوئی اس وقت نہ تو نماز، روزہ، حج، زکوۃ، وغیرہ  فرض ہوئی تھی۔ اور نہ ہی شراب، جوا اور بیغیر اللہ کا نام لیے ذبح کئے گئے جانور کا گوشت حرام ہوا تھا۔ یعنی اس وقت اوامر و نواہی کا حکم ہی نہیں آیا تھا،جس کو موجودہ دور میں علم دین کہا جاتا ہے، تو اسے پڑھنے کا حکم کیوں کر دیا جائے گا؟ معلوم ہوا کہ ان پہلی پانچ آیاتوں میں ان علوم کو پڑھنےکا حکم دیا گیا جسے نا سمجھی کی وجہ سے ہم علم دنیا کہہ کر دوری بنائےہوئے ہیں۔ قرآن مقدس کی اس طرح کی آیتوں پر عمل نہ کرنے کو ہی علامہ اقبال نے تارک قرآں سے تعبیر کی ہے۔ یعنی اللہ تعالی کے احکامات کو نہ مان کر ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ 
 *(3) سورہ البقرہ آیت نمبر 31سے 34تک کا مفھوم* 
آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالی نے ساری کائنات کی تخلیق کے ساتھ ساتھ فرشتوں اور جناتو ں کو بھی پیدا فرما چکا تھا اور ان تمام تخلیقات میں فرشتوں کا مرتبہ سب سے افضل و اعلیٰ تھا۔ اسی لیے فرشتوں نے تخلیق آدم پر اعتراض کیا تھا۔ اور جب اللہ تعالی نے حضرت آدم کی تخلیق فرمائی تو چاہا کے ایک علمی مظاہرہ کے ذریعے فرشتوں پہ یہ واضح کردیا جائے کہ حضرت آدم تم سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم اس کائنات عالم کی چیزوں کے نام وخاصیت کو بتاؤ۔ جواب میں فرشتوں نے عرض کی کہ یا رب العالمین ہمیں دنیا اور دنیا کی چیزوں سے کیا مطلب؟ ہم تو بس وہی جانتے ہیں جو تو نے ہمیں بتایا ہے.
ہمیں تو صرف تیری ہی فرماں برداری کرنی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام اور اس کی خاصیت بتا دی اور فرشتوں کے سامنے بلا کر حکم دیا کہ اےآدم تم ان چیزوں کے نام اور اس کی خاصیتوں  کو بتاؤ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سب کچھ بتا دیا۔ تواللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ تم نے دیکھ لیا کہ آدم تم سے افضل و اعلی ہیں۔ اس لیے اب سجدہ تعظیمی کرکے ان کی عظمت کو تسلیم کرو۔ تمام فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کر کے ان کی عظمت کو تسلیم لی۔
آدم علیہ السلام پہلےانسان ہیں۔ انہیں اللہ تعالی نے جس چیز کی سب سے پہلے تعلیم دی وہ تعلیم وہی ہے جس کو موجودہ دور میں سائنس و ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس کہا جاتا ہے ہے۔ گویا انسان اول کو خلاق عالم نے سب سے پہلے سائنس کی تعلیم دی، تسخیر کائنات کا علم دیا اور پھر فرشتوں کے سامنے علمی مظاہرہ کروا کر اور فرشتوں سے سجدہ کروا کر اللہ تعالی نے یہ بتا دیا کہ عظمت، بزرگی، شان و شوکت اور جاہ و حشمت، سطوت و نکبت اور رعب و دبدبہ انہیں علوم سے حاصل ہوگی۔ اور جو ان علوم کو حاصل نہیں کریں گے اور یہ کہیں گے کہ ہمیں دنیا سے کیا مطلب ہمیں تو صرف آخرت چاہیے ایسے لوگوں کو ذلیل و خوار ہونا ہوگا، دوسروں کے سامنے جھکنا ہوگا، کیونکہ علم سائنس سے رو گردانی کرنا  یہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کے بھی خلاف ہے اور شان مؤمن کے بھی خلاف ہے۔
 *خلاف پیغمبر کسے راہ گزید 
ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید* 
قرآن و حدیث پہ ہزاروں یونیورسٹیوں میں لاکھوں اسکالرس ریسرچ کر رہے ہیں، تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں۔ لیکن اس کا موضوع ہے فرض، واجب سنت، مستحب، حرام، ناجائز، مکروہ تحریمی اور مکروہ تنزیہی وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ قرآن مقدس کی پہلی آیت پہلے انسان کی پہلی تعلیم اور سب سے بہتر دعا کے ذریعہ اللہ تعالی نے جس علم کو حاصل کرنے کا حکم مسلمانوں کو دیا ہے اس اعتبار سے قرآن و حدیث ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اور ہمارا یہ عمل اللہ تعالی کی مشیت کے بھی خلاف ہے۔ 
مذہب اسلام تقریبا ایک ہزار سال تک حالت نمو یعنی ترقی پذیر رہا۔ ان ہزار سالوں میں جو مسلمان محدث، مفسر، فقیہ اور مجتہد ہوتے تھے وہی بہترین حکیم،طبیب سیاست داں، سپہ سالار، جنرل اور کرنل ہوا کرتے تھے۔ وہی امام مسجد، امیرالمومنین اور بادشاہ وقت بھی ہوا کرتے۔ وہی سائنسداں، ریاضی داں، اور ماہر معاشیات، گورنر اورافسر ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد ایک منظم سازش کے تحت علم کی ناجائز تقسیم علم دین اور علم دنیا سے کی گئی اور یہ سمجھایا گیا کہ علم دین یعنی عقائد کے ساتھ نماز، روزہ وغیرہ کے مسائل و حقائق کی معرفت کی تعلیم ہی اصل تعلیم ہے۔ اور دنیا میں حصول اقتدار اور غلبہ کی کوشش کرنا یہ جہنم کا راستہ ہے اس غلط روی اور غلط زاویہ نظر نے مسلمانوں کو قعر مذلت میں پہنچا دیا ہے۔ جو اس کی منزل نہیں تھی اور جو مسلمانوں کی منزل تھی اس پر غیروں کا قبضہ ہو گیا۔ کہ انہوں نے غیر مسلم ہونے کے باوجود قرآن کے ان احکامات پر عمل کیا جس کا تعلق تسخیر کائنات یعنی سائنس سے تھا۔
اس کی مثال دنیا کے وہ پانچ ممالک ہیں جنہیں اقوام متحدہ میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔اگرمسلمان اپنی حالت میں تبدیلی چاہتے ہیں تو انہیں اپنے فکر و خیال میں تبدیلی لانی ہوگی دین و سنت میں ریسرچ اور تحقیق کے ذریعہ اسے کامل کرنے کی فکر چھوڑنی ہوگی۔ کیوں کہ دین مکمل ہو چکا ہے۔  مزید بیجا تحقیق سے فرقہ بندی ہی پیدا ہوگی۔ اس لیے ہمارے اسلاف نے چار فقہ اسلامی پہ اجماع کرکے اجتہاد کا راستہ بند کردیاہے۔ ضرورت ہے کہ پھر سے مسلمانوں کی جامعات میں ریسرچ اور تحقیق کا موضوع دنیا و مافیہا اور اس سے استفادہ کی صورتیں ہوں۔ ہمیں پھر تسخیر کائنات اور استفادہ من الکائنات کا علم و ہنر سیکھنا ہوگا تبھی ہمیں ہماری منزل ملے گی۔ 
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

Tuesday, December 29, 2020

امارت_و_قیادت_کا_اسلامی_فلسفہ_اور_جدید_چیلنجز

گرداب سامنے ہے ،کوئی بادباں نہیں
اب دیکھنا ہےجاکے ٹھہرتے ہیں ہم کہاں
امیر کی فرماں برداری : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے ایمان والو !اللہ تعالی اور رسول کی اطاعت کرو۔ اور ان کی اطاعت کرو جو تمہارےامیر ہیں. (سورۃ النساء / 59 ) اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے بعد اپنے امیر کا حکم تسلیم کرنا واجب ہے۔
مذکورہ آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے لیے کسی کو اپنا امیر تسلیم کرنا بھی واجب ہے اور یہ حکم ہر سطح پر نافذ ہے۔ خاندان، ادارہ، جماعت، تنظیم، علاقہ، صوبہ اور ملکی سطح پہ بھی کسی نہ کسی کی سربراہی تسلیم کرنا واجب ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم تین آدمی ایک ساتھ سفر کرو تو آپس میں ایک کو امیر بنا لو۔ (مجمع الزوائدجلد نمبر 05 صفحہ نمبر 224)
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم صبح قیامت تک کے تمام مسلمانوں کے لیے یکساں طور پر نافذ ہے۔ کہ مسلمانوں کی چھوٹی سی چھوٹی جماعت بھی امیر سے خالی نہ رہے۔ تاکہ مسلمانوں میں ڈسیپلین اور نظم و ضبط ہر مقام پر قائم رہے۔ اور کوئی فرد کسی بھی وقت مطلق العنان نہ رہے بلکہ ہر مسلمان ہر وقت اور ہر جگہ ایک جامع نظم و ضبط کا پابند رہے۔ جس کی سب سے بہتر مثال نماز اور حج وعمرہ ہے۔
اس سلسلہ میں مزید پانچ احادیث کریمہ ملاحظہ کریں جو بہت ہی مفید ہیں۔
(1) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ (صحیح البخاری جلد دوم صفحہ نمبر 10 57)
(2) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "سنو اور اطاعت کرو خواہ تم پر ایک حبشی غلام کو ہی حاکم بنا دیا جائے، جس کا سر انگور کے برابر ہو۔" (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ نمبر 10 57)
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو اپنے امیر کا کوئی حکم ناگوار معلوم ہو تو اس کو صبر کرنا چاہیے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی الگ ہو کر رہے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ نمبر 10 57)
(4) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ایک بالشت کے برابر بھی جماعت سے الگ ہوا اس نے اپنے گلے سے اسلام کا پھندا اتار دیا۔ اور جو شخص کسی امیر سے بیعت کیے بغیر مرگیا اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ اور جو شخص عصبیت کے جھنڈے تلے لڑتا ہوا مرا وہ جاھلیت کی موت مرا۔ (مجمع الزوائد جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 224 ) یعنی ایسا شخص جس نے کسی کی سربراہی تسلیم نہیں کی اور مرگیا یا وہ آدمی جو کسی عصبیت یعنی برادری یا خاندانی، علاقائی لڑائی میں شریک ہو کر مارا گیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔
(5) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مسلمان شخص پر حاکم کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے خواہ پسند کرے یا ناپسند جب تک کہ وہ کوئی گناہ کا حکم نہ دے اور جب وہ گناہ کا حکم دے تو نہ اس کی سنے اور نہ ہی اطاعت کرے۔ (صحیح مسلم جلد دوم صفحہ نمبر 125)
قرآن مقدس احادیث کریمہ اور آثار صحابہ سے یہ بات واضح ہوگئ کہ مسلمان دنیا کے جس حصہ میں بھی آباد ہو اس پر واجب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ منسلک رہے اور کسی نہ کسی کو اپنا امیر بنا لے اور امیر خواہ وہ جس سطح کا ہو اس کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے۔ جب تک کہ کوئی گناہ کا حکم نہ دے۔
موجودہ دور میں جبکہ پوری دنیا سے اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ ہاں کچھ ممالک میں مسلمان حکمران ہیں جو مورثی بادشاہ ہونے کی حیثیت سے ہیں یا ایسی جمہوریت کے ذریعہ سے ہیں جس میں عقل نہیں سر گنے جاتے ہیں۔ اور یہ دونوں طریقے اسلامی منہج کے خلاف ہیں۔ ان حالات میں پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے کوئی ایک امیر کا ہونا محال ہے۔اور تمام مسلمانوں کا تو چھوڑیئے اکثر مسلمانوں کا متفق ہونا بھی محال ہے۔ اور وہ ممالک جہاں مسلمان حکمران نہیں ہیں بلکہ مسلمان اقلیت میں ہیں ان ممالک میں ملکی، صوبائی اور ضلعی سطح پہ بھی متفقہ قیادت کا ہونا مشکل ہے۔ ان حالات میں قرآن و سنت میں جو امیر کے اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب بھی دین و سنت میں موجود ہے۔ اس لیے کہ دین اسلام ایک کامل دین ہے جس میں ہر طرح کے حالات اور ہر علاقہ جات کے ساتھ ہر زمانے کے مشکلات کا حل موجود ہے۔ سبحان اللہ۔ صحیح بخاری شریف جلد دوم صفحہ نمبر 1057 کی یہ حدیث کریمہ پڑھیں۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار غور سے سنو! تم میں سے ہر شخص حاکم ہے۔ اور ہر شخص سےاس کی رعایا کے بارے میں (دنیا میں بھی اور قیامت میں بھی) پوچھا جائے گا ۔پس جو لوگوں کا حاکم ہے(خواہ وہ ملکی سطح کا ہو یا علاقائی سطح کا) اس سے اس کے ماتحت رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ (اور اگر اس سطح کی قیادت موجود نہیں ہے تو) گھر کا سربراہ مرد ہے اور اس سے اس کے گھر والوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ ایسا ہی عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی حاکمہ ہے اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔یہاں تک کہ گھر کا نوکر بھی اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اس سے بھی اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ آخری جملہ کے طور پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سے تاکیدا فرمایا کہ سنو تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔
 اس حدیث کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ دنیا کا ہر مسلمان حاکم ہے اور ذمہ دار شہری ہے ۔اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بس جو مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو تلاش کرکے ادا کرتے ہیں یا ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ یقینی طور پر دنیا میں کامیاب مسلمان اورکامیاب شہری ہیں۔ اور جو ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے بلکہ ہر وقت  صرف اپنے ذاتی  حق کے متلاشی رہتے ہیں یا پھر غیر ذمہ دارانہ حرکت وعمل کے ساتھ من مانی کرتے ہیں جیسا کہ موجودہ دور میں مسلمانوں کی عادت و خصلت اور چلن ہے۔ تو ایسی قوم ،جماعت یا فرد کی تباہی یقینی ہے ۔ مطلق العنان اور خود غرضانہ عمل دنیا کی تباہی کے ساتھ آخرت میں جہنم جانے کا سبب ہے ۔اس تعلق سے یہ حدیث پاک بھی پڑھ لیں۔ حضرت عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" اللہ کے قانون (جوقانون فطرت ہے) کو قائم رکھنے والے اور اس کو توڑنے والے کی مثال ایسے لوگوں کی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے بارے میں یہ طے کیا کہ کچھ لوگ کشتی کے نچلے حصہ میں رہیں گے اور کچھ لوگ اوپری حصے میں رہیں گے۔ پس جو لوگ نیچے تھے انہیں پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا پڑتا تھا(جو انہیں ناگوار گزرتی تھی ) تو انہوں نے یہ طے کیا کہ کیوں نہ ہم نیچے کے حصہ میں جو ہم لوگوں کا حصہ ہے سوراخ کر لیں تاکہ آسانی سے ہمیں پانی مل جائے اور ان کی ناگواری سے بھی بچ جائیں۔ اب اگر اوپر والے نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو سبھی کشتی والے ہلاک ہو جائیں گے۔ اور اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑ لیں تو سب بچے رہیں گے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 24 93)
آج نہ ہمارا کوئی سربراہ ہے اور نہ ہی ہم کسی کو سربراہ ماننے کو تیار ہیں۔ نہ ہمارے درمیان اجتماعیت ہے نہ جماعت ہے  نہ نظم و نسق ہے۔ اس سبب سے ہم دھنی ہوئی روئی کی طرح ہلکے ہو گئے ہیں۔ ہم بھاری بھرکم آندھی طوفانوں سے نہیں بلکہ ہلکے پھلکے سکے اور ہلکی پھلکی پھونک سے ہی ادھر سے ادھر ہو جاتے ہیں۔ ہر دن تباہ بھی ہو رہے ہیں ،قتل بھی کیے جا رہے ہیں، اور ہماری عزت و عصمت بھی لوٹی جا رہی ہے۔
اور اس کے خلاف ہر شخص الگ الگ ڈفلی بجا رہا ہے اور صرف اپنے مفاد کی بات کرتا ہے اور بعض تو اپنے مفاد کے لیے قوم کی عزت و آبرو کا بھی سودا کر لیتے ہیں۔ خود غرضی اور مفاد پرستی مسلمانوں میں اس قدر حاوی ہے کہ اس میں بڑے بڑے صاحب دستار اور دانشوران قوم و ملت سب شامل ہو رہے ہیں۔ جب کہ اجتماعیت اور ایثار و قربانی کے ساتھ جذبہ خیر خواہی یہ وہ صفات تھے جس کی بنیاد پر مسلمانوں نے ایک مختصر مدت میں دنیا کے بہت بڑے حصے پر اسلامی پرچم بلند کیا۔ ہمیں اپنے قائدین کی قیادت کو تسلیم کرنی چاہیے خواہ وہ کمتر ہوں یا برتر۔ اس کی مثال حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا اٹھارہ (١٨) سالہ حضرت اسامہ بن زید کو سپہ سالار بنانا ہے جس لشکر میں اکابیر صحابہ موجود تھے۔ اور جب کچھ لوگوں نے صدیق اکبر سے اس کی شکایت کی تو وہ خود لشکر کو روانہ کرنے کے لیے لشکر گاہ تشریف لے گئے۔ اور حضرت اسامہ کو حکم دیا کہ آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں۔ اور لشکر کی قیادت کریں۔ الحکم فوق الادب کے تحت جب وہ گھوڑے پر سوار  ہو گئے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آگے بڑھ کر گھوڑے کی لگام تھام لی اور پیدل چلنے لگے۔ اپنے اس عمل سے حضرت صدیق اکبر نے آنے والی امت کے ساتھ ساتھ موجودہ صحابۂ کرام کو بھی درس دیا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا سالار بدلا نہ جائے گا۔ بلکہ اس کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ امیر المؤمنین اس کے گھوڑے کی لگام تھام کر خادم کی طرح پیدل چل رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر وہ صحابہ کرام جنہیں حضرت اسامہ کے غلام زادہ اور نوجوان ہونے پر اعتراض تھا وہ بھی حضرت اسامہ کے مطیع و فرماں بردار ہو گئے۔ حضرت اسامہ جنگ جیت کر کامیابی کے ساتھ واپس ہوئے۔
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو کس نے  -  وہ کیا تھا زور حیدر، فقر بو ذر، صدق سلیمانی
 ہم مسلمانوں کے لیے واجب ہے کہ ہم اپنے قائد کی قیادت تسلیم کریں۔ وہیں ہمارے قائدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی اپنی قیادت کو تسلیم کرانے کے لیے قائدانہ صلاحیت کا استعمال کریں۔ جیسا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے فیصلے اور حضرت اسامہ بن زید کی سپہ سالاری کو تسلیم کرانے کے لیے عملی اقدام کیا۔ 
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے ہیں اور ہمیں بھی یہ درس دیا کہ ہم بھی دنیا کے ہر شخص کے لیے رحمت بن جائیں۔ اور اس کے لیے ایک جملے میں اس کا نسخہ عطا فرمایا کہ" تم میں سے کامل مومن وہ ہے جو اپنے بھائی کیلئے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے" (بخاری شریف جلد اول صفحہ نمبر 6)
اس حدیث کے پس منظر میں تاریخ صحابہ کا ایک واقعہ پیش ہے۔
ایک صحابی اپنا قیمتی گھوڑا ضرورتا فروخت کر رہے تھے۔ ایک دوسرے صحابی حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جنہیں گھوڑے کی ضرورت تھی خریدنے کے لیے ان کے پاس گئے اور قیمت دریافت کیا۔ انہیں چونکہ جلدی فروخت کرنی تھی اس لیے کم قیمت پانچ سو (٥٠٠) درہم بتایا۔ خریدنے والے نے گھوڑے پر سواری کر کے اسے آزمایا اور کہا کہ یہ گھوڑا تو زیادہ قیمت کا ہے ،تو اس کا چھ سو درہم لے لے۔ انھوں نے کہا میں راضی ہوں۔ پھر اس نے کہا کہ سات سو درہم لے لو۔ کہا میں اس پہ بھی راضی ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے پھر سے کہا کہ دیکھو تمہارے گھوڑے کی صحیح قیمت آٹھ سو(٨٠٠) درہم ہے۔ یہ آٹھ سو درہم لو اور گھوڑا مجھے دے دو۔ انہوں نے درہم وصول کر کے گھوڑا حوالے کردیا۔ گھوڑا لینے کے بعد انھوں نے دریافت فرمایا کہ اے بھائی آپ کا گھوڑا جو آٹھ سو درہم کا تھا،آپ پانچ سو درہم میں کیوں فروخت کر رہے تھے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے سخت ضرورت تھی اس لیے مجبورا میں کم قیمت میں  بیچ رہا تھا تاکہ جلد فروخت ہو جائے۔لیکن اب آپ بتائیے کہ آپ کو یہ گھوڑا کم قیمت میں مل رہا تھا تو آپ نے اس کی زیادہ قیمت کیوں ادا کی؟ انھوں نے کہا کہ میری بھی ایک مجبوری تھی۔ دریافت فرمایا وہ کیا؟ انہوں نےجواب دیا کہ میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "جو تم اپنے لیے پسند کرو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرو۔" میں چاہتا ہوں کہ مجھے سودااچھا ملے تو میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ  میرے بھائی کو صحیح قیمت ملے۔ مجھے اپنے بھائی سے نقد دے کر سودا خریدنا ہے، اس کی مجبوری نہیں! اور کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا یہ انسانیت کے خلاف ہے۔ 
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا  -  لیا جائے گا تجھ سے کام دنیاکی امامت کا
مسلمانوں کو ایسے ہی قیادت کی ضرورت  ہے۔لیکن اگر قیادت ایسی نہ بھی ہو تب بھی مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ کسی نہ کسی کی قیادت کو تسلیم کریں۔
اب ڈوبنا ہے    بیچ      سمندر میں دیکھنا                 -    گرداب سامنے ہے ،کوئی بادباں نہیں
اب دیکھنا ہے! جاکے ٹھہرتے ہیں ہم کہاں  -گرتے ہی جارہے، جو گرے آسماں سے ہم
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

دعوت و تبلیغ کے اسلامی طریقے

اللہ تعالی فرماتا ہے دعوت دولوگوں کو اپنے رب کے راستے پر چلنے کی حکمت کے ساتھ اور عمدہ نصیحت سے۔اگر دعوت دینے میں بحث و مباحثہ کی نوبت آجائے تو بحث کرنے کے سب سے بہتر طریقہ پہ بحث  کرو۔

اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ کون لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔(النحل آیت: 125)

یہ آیت کریمہ مبلغ اسلام کے لیے ایک ضابطۂ اخلاق اور جامع اصول ہے کہ ایک داعی کو کیسا ہونا چاہیے اور کس طرح سے دعوت دینی چاہیے۔ اس میں پانچ باتیں ہیں:

(1) "اپنے رب تعالیٰ کی طرف بلاؤ"یعنی دعوت خالصتا اللہ تعالی کے لیےہو۔ اپنی ذات کے لیے،اپنی برادری کے لیے اپنی جماعت یا جتھا کے لیے نہ ہو۔ اپنی جمعیت بڑھانے اور دکھانے کے لیے نہ ہو۔

(2) "حکمت کے ساتھ دعوت دو" یعنی اپنے مخاطب کے مطابق دعوت دو کہ اگر مخاطب تعلیم یافتہ ہے تو اس کے عقل و فہم اور معیار  ذوق و شوق کے اعتبار سے ان سے گفتگو کرو۔ دلائل و امتثال بھی ان کی حیثیت کے مطابق ہو۔ اگر وہ سوال کریں یا دانستہ تمہاری بات کاٹ کر جبر و اکراہ یا نہ شائستہ جملوں کے ساتھ طنز و مزاح کرنا چاہتے ہوں، تب بھی ان کی بات خاموشی سے سن کر حسن اخلاق کے ساتھ اور موقع و محل کی نزاکت کے اعتبار سے دعوت کا آغاز کرو۔ فتح مکہ کے موقع پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے اہل مکہ کے مزاج کے مطابق اپنی حکمت عملی کو پیش کیا۔ مختصرا فتح مکہ کا روداد پڑھ لیں۔

مکہ مکرمہ عالم عرب کا مرکز تھا۔ اور اہل مکہ عرب کے سردار تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد تیرہ سال تک ان کے درمیان دین کی تبلیغ کی۔ جس میں صرف سو سوا سو لوگ ہی مسلمان ہوئے اور اس کے بدلے میں ان پر اتنا ظلم ہوا کہ انہیں ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آنا پڑا۔اور صرف آٹھ سال کے بعد جب پھر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کو دین کی دعوت دینی چاہی تو درج ذیل پانچ حکمتوں کے ساتھ اہل مکہ کے سامنے حاضر ہوئے۔

*اہل مکہ کو جنگ کی تیاری کی مہلت نہ دینے کی غرض سے اس رازداری کے ساتھ 10 رمضان 8 ہجری مطابق یکم جنوری 630 عیسوی کو مدینہ سے روانہ ہوئے کہ اہل مدینہ کو بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔

* "مرالظہران"  پہنچ کر جب لوگ خیمہ زن ہوئے تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہر شخص الگ الگ آگ جلا کر کھانا بنائے۔ مقصد تھا کہ جب دس ہزار جگہ آگ جلے گی تو کثرت کا مظاہرہ ہوگا۔ تاکہ اہل مکہ مقابلے کے بارے میں سوچیں بھی نہیں۔

* ابوسفیان، حکیم اور بدیل ان تینوں نے جب یہ منظر دیکھا تو کانپ گئے۔ پھر یہ تینوں مسلمان پہرے داروں کے ذریعہ گرفتار کیے گیےاور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی پناہ میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے گئے۔ انہوں نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا تو آپ نے فرمایاکہ مکہ جا کر اعلان کر دیں کہ جو لوگ اپنے گھر کا دروازہ بند کرکے اپنے گھر میں رہیں گے یا حرم میں ہونگے یا ابو سفیان کے گھر میں پناہ لیں گے۔ ان سب کو پناہ دی جاتی ہے۔

* حضرت عباس کو حکم دیا کہ مکہ جانے سے پہلے ان تینوں کو فلاں درّہ (Mountain Pass) کے پاس لے جائیں جہاں ایک ایک کرکے فوج گزرے گی یہ منظر بھی انہیں دکھا دیں تاکہ اہل مکہ کو مسلمانوں کی طاقت کے بارے میں یہ لوگ اپنا مشاہدہ بتا سکیں۔

* حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ جب تک کوئی شخص تم پر جان لیوا حملہ نہ کرے کسی سے کوئی تعرض نہ کرنا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اپنی حکمت بالغہ سے جنگ و جدال اور قتل و غارت گری اور شکست و فتح کو دعوت دین میں تبدیل کر دیا اور تمام اہل مکہ کو حرم میں جمع کر کے یہ اعلان فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ وہی سلوک کرتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا تو سوائے چند لوگوں کے پورا مکہ داخل اسلام ہو گیا۔

(3) "مواعظ حسنہ" اس وعظ و نصیحت کو کہتے ہیں کہ خیر و فلاح کی دعوت اس خوش اسلوبی سے دیا جائے کہ پتھر دل انسان بھی موم کی طرح نرم ہو جائے۔ اور دعوت کا یہ طریقہ عام مسلمانوں کے لیے ہے جس میں کم علم اور بے علم سب شامل ہیں۔ انہیں للہیت، خلوص اور شفقت و محبت کے ساتھ  پر اثر انداز میں خطاب کرنا چاہیے کہ ان کا ذوق واشتیاق بیدار ہو جائے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات اس کی بہترین مثال ہیں۔ اور اسلاف کی تقریریں بھی ہمارے لیے نمونہ ہیں۔

(4) ایسے لوگوں تک دین کی دعوت پہنچانا جو ضدی اور بحث و تکرار والے ہیں یا وہ لوگ خود کسی مذہب کے مبلغ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جو لوگ مبلغ ہوتے ہیں وہ تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس دیگر مذاہب کے تعلق سے معلومات بھی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں بحث و مباحثہ ناگزیر ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اگر دین کی دعوت دینے میں بحث کی نوبت آجائے تو راہ فرار اختیار نہ کرو اور نہ ہی اسلام کو کمزور ظاہر کرو۔ بلکہ انتہائی سنجیدگی اور صبر و تحمل کے ساتھ انکی باتیں غور سے سنو۔ اور جو ان کا انداز بیاں ہو اس سے بہتر انداز میں اس کا جواب دو۔ وہ تمہیں ہزار غصہ دلائیں لیکن آپ غصہ میں نہ آئیں۔ بلکہ ہر مرتبہ خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دیں۔ اگر وہ شدت کریں تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلم کے واقعۂ طائف کی سنت کو ادا کریں۔ پھر بھی ان کی بھلائی کی ہی بات کریں۔ بے شک اسلام کی یہ وہ طاقت ہے جس نے ملکوں کو توبعد میں فتح کیا دلوں کو پہلے فتح کیاہے۔ کہ اس نے طاقت سے زیر نہیں کیا بلکہ خود نرم و ملائم ہو کر ظالم و جابر کو بھی نرم اور مسخر کرلیا۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی بہن اور بہنوئی نے کیا۔

(5) "دعوت دین کا کام اس طرح  کرو کہ اس میں تفوق، تفاخراور خود نمائی نہ ہو" بلکہ ساری محنت و مشقت صرف اور صرف اللہ تعالی کی کبریائی اور رضا کے لیے ہو۔ کہ اللہ تعالی خوب جانتا ہے کہ کون بندہ ہدایت یافتہ ہے اور کون گمراہ ہے۔ تمہارے کہنے سے کوئی گمراہ نہ ہو گا اور نہ ہی تمہارے کہنے سے کوئی جنتی و پرہیزگار ہو گا۔ اس لیے تمہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون گمراہ ہے اور کون ہدایت یافتہ ہے۔ تمہیں صرف ہدایت کی دعوت دینی ہے۔ ہماری تمام تر کوششوں کا محور صرف اور صرف دعوت ہونی چاہیے۔

*روشنی سب کے لیے*

یہ اور بات کہ آندھی ہمارے بس میں نہیں 

مگر چراغ جلانا تو اختیار میں ہے

آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امتیازی شان اور خودنمائی سے کس حد تک بچا کرتے تھے۔ کچھ واقعات پیش ہیں۔

 روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ سفر میں تھے آپ نے اپنے صحابہ کو ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا۔ ایک شخص بولا میں اس کو ذبح کروں گا، دوسرے نے کہا میں اس کی کھال اتاروں گا، تیسرے نے کہا میں اس کو بناؤں گا۔ تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں لکڑی لاؤں گا۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ! ہم لوگ یہ سب کام کر لیں گے۔آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: "میں جانتا ہوں کے تم لوگ کر لو گے، مگر میں امتیاز کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ تعالی کوبھی یہ پسند نہیں کہ اس کا کوئی بندہ اپنے ساتھیوں کے درمیان امتیازی شان و شوکت کے ساتھ رہے"۔یہ عمل آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا جبکہ صحابہ کی عقیدت و محبت جو ان سے تھی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

 حضورصلی اللہ علیہ وسلم اسلامی سلطنت کے حاکم مطلق تھے۔ آپ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات قانون الہی کا درجہ رکھتی تھی۔

*صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن سعود قریش مکہ کے سفیر بن کر تشریف لائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جب آپ وضو کرتے ہیں تو لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ آپ کا غسالہ زمین پر گرنے سے پہلے ہاتھ میں لے لیں اور بطور تبرک سر آنکھوں پہ ملیں۔ *شان رسالت مآب میں ادب کا یہ حال تھا کہ لوگ ملاقات کے لیے ناخن سے آپ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے یا بیٹھ جاتے اور جب خودآقاکریم باہر تشریف لاتےتو شرف یاب ہوتے۔

*حنین اور احد میں جب کفار نے تیروں سے حملہ کیا تو کچھ صحابۂ کرام نے حضور کو اپنے گھیرے میں میں لے لیا۔ اور تیروں کو اپنے ہاتھ اور جسم سے اس طرح روکتے تھے کہ گویا وہ انسان نہیں لکڑی کے ہیں۔ 

*اکثر صحابہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ ہم ادبا آقا کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے۔

 آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت بہت بلند و بالا تھی لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو بلند و بالا بنا کر پیش نہیں کیا بلکہ خود کو ایک داعی کی حیثیت سے پیش کیا اور ہمارے لیے نمونہ یہ دیا کہ داعی کو ازخودامتیازپسند نہیں ہونا چاہیے۔

*اہل مدینہ اپنی معلومات کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لیے مدینہ سے باہر ہوکر شاہراہ مکہ کی جانب آگے بڑھ کر دو دن سے انتظار کر کے واپس جا چکے تھے۔ تیسرے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت صدیق اکبر کے ساتھ بالکل مساویانہ حیثیت سے تشریف فرما ہوئے تو اہل مدینہ جنہوں نے حضور کو دیکھا نہیں تھا وہ صدیق اکبر کی طرف پہلے متوجہ ہوتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اس وقت میری عمر 9 سال کی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے در و دیوار حضور کے رخ زیبا سے چمک رہے ہیں، جیسے کہ سورج طلوع ہو گیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق حضور کے ہم عمر تھے دونوں میں بہت کم فرق تھا اہل مدینہ چونکہ حضور کو دیکھے نہ تھے اس لیے پہچاننے میں دقت ہو رہی تھی۔ چند لمحوں میں ہی زائرین کی بھیڑ لگ گئی۔ صدیق اکبر لوگوں کی اس پریشانی کو سمجھ گئے تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی چادر تان کر حضور اکرم پر سایہ کر دیا۔ تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ خادم کون ہیں اور مخدوم کون ہے۔

*خاک کے‌زروں کو ہمدوش ثریا کردیا*

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی تربیت کا اثر صحابۂ کرام کی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے اور خلفائے راشدین تو اس کے صف اول میں ہیں۔

*حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ کچھ اکابر صحابہ کو حضرت اسامہ بن زید کی سپہ سالاری پر اعتراض ہے تو آپ نے مناظرانہ طریقہ نہیں اپنایا۔ بلکہ داعیانہ اور قائدانہ کردار اپنا یا۔ وہ اس طرح کے آپ رضی اللہ عںہ خود لشکر کو روانہ کرنے کے لیے لشکر گاہ تشریف لے گئے اور حضرت اسامہ کو حکم دیا کہ آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں۔ الحکم فوق الادب کے تحت وہ گھوڑے پر سوار ہو گئے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر ان کے گھوڑے کی لگام تھام لی اور پیدل چلنے لگے۔ اپنے اس عمل سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وہاں موجود صحابہ کرام کے ساتھ آنے والی امت کے لیے ایک نمونہ قائم کر دیا کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا سپاہ سالار بدلہ نہ جائے گا۔ اور نہ ہی وہ لشکر رد کی جائے گی جس کو آقا کریم نے روانہ فرما تھا۔ 

یہ منظر دیکھ کر جن صحابہ کرام کو حضرت اسامہ کی سپہ سالاری پر اعتراض تھا انہوں نے خود سے ہی اپنی اصلاح کر لی۔ اور ایک غلام زادے کی سربراہی میں اکابر صحابہ بھی ایک عام سپاہی کی طرح شریک کار رہے۔ حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دینے کا یہ عملی طریقہ ہے۔

*بیت المقدس کے فاتح اول حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہیں۔ انہوں نے بھی بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے دینی دعوت کا عملی مظاہرہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ جس قوم سے مصالحت کی باتیں کرنے جارہے تھے ان کے یہاں ایک چھوٹا سا افسر بھی دس پہرے داروں کے درمیان رہتا ہے۔ کیونکہ انہیں اللہ تعالی کے مقابلے بندوں سے زیادہ خوف ہے۔ جب کہ مومن کامل اللہ تعالی سے اتنا زیادہ ڈرتا ہے کہ دنیا کی ہر طاقت سے وہ بے خوف ہو جاتا ہے۔ فاروق اعظم سے لوگوں نے کہا کہ دنیاوی عظمت و شان کے ساتھ تشریف لے جائیں۔ انہوں نے لاحول پڑھا اور فرمایا کہ ہمارے لیے دین اسلام کی عظمت ہی کافی ہے۔ چنانچہ روز مرہ کے معمولی استعمال کے پیوند لگے کپڑے اور صرف ایک خادم اور ایک اونٹ کے ساتھ اس طرح سفر کرتے ہوئے بیت المقدس پہنچے کہ ایک میل فاروق اعظم اونٹ پر سوار ہوتے اور پھر ایک میل ان کا خادم اونٹ پر سوار ہوتااور وہ پیدل چلتے۔ فاروق اعظم کی شکل میں اس حقیقی دین اسلام کو دیکھ کر ہی بغیر کسی مزاحمت کے بیت المقدس کی کنجی ان کے حوالے کردی گئی۔

*غزوہ بدر میں 313 مسلمانوں کے لیے ایک گھوڑا اور 80 اونٹ تھے تھے۔ انہیں اونٹوں پہ باری باری سے تین سے چار آدمی سفر کر رہے تھے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ حضرت علی اور مرثدابن ابو مرثد کو رکھ لیا تھا۔ یہ دونوں آقا کریم سے عرض کرتے کہ آپ ہی سوار رہیں۔ ہمیں حضور کی اونٹنی کی لگام پکڑنے کا موقع مل گیا ہے یہی ہماری خوش بختی ہے۔ جواب میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے "تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقتور بھی نہیں ہو اور نہ ہی ایسا ہے کہ تم دونوں کو مجھ سے ثواب کی زیادہ ضرورت ہے۔ طلب نیکی اور طاقت میں جب ہم سب برابر ہیں تو سب کو برابر موقع ملنا چاہیے"۔ 

کیا مساوات کی دعوت اس سے بہتر طریقے سے دی جاسکتی ہے؟

*میدان محشر میں اکثر لوگ حقوق العباد میں ہی پکڑے جائیں گے اس کی اہمیت کو پیش کرنے اور اس سے بچنے کی دعوت دینے کے لیے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیات ظاہری کے آخری ایام میں تمام صحابہ کرام کو مسجد نبوی میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ جب سب جمع ہوگئے تو حضرت علی اور ابن عباس کے سہارے ممبر پر تشریف فرما ہوئے۔ اور حقوق العباد کی اہمیت پر گفتگو کی۔ اور اس کا عملی مظاہرہ کرنے کے لیے اعلان فرمایا کہ: "میں طویل مدت تک تمہارے درمیان رہا ہوں اور اگر مجھ پہ کسی کا قرض ہو یا مجھ سے کسی پہ کوئی زیادتی ہوئی ہو، تو آج ہی طلب کر لو"۔  ایک شخص نے ایک قرض کی یاد دہانی کرائی تو حضرت ابن عباس کو اسے ادا کرنے کا حکم دیا۔ اور حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ یارسول اللہ فلاں موقعے پر آپ کے کوڑے سے میری پیٹھ میں چوٹ لگی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑا منگوایااور چادر کو پیٹھ سے اتار دی اور فرمایا کہ آگے بڑھو اور بدلہ لے لو۔ وہ آگے بڑھے اور مہر نبوت کو چوم کر قدموں پہ گر پڑے۔ اور عرض کی یارسول اللہ مجھے بدلہ مل گیا۔

 اگر مسلمان ماضی کی طرح روشن مستقبل کے خواہاں ہیں توانہیں ماضی کے اسلامی اخلاق و آداب کے ساتھ دعوت و تبلیغ کے طریقے اور اسلوب بھی ماضی سے سیکھنے ہوں گے۔

محمد شہادت حسین فیضی 

9431538584



اسلام دو،دو،چار کی ہے جہاں جبروتشدد کی کوئی جگہ نہیں

دین اسلام میں جبر واکراہ کی گنجائش نہیں۔

انسان اور جنات کے علاوہ 
دنیا میں جتنے بھی مخلوقات ہیں ان میں ایک نیچر ایسی ہے جو سب میں کامن ہے۔وہ یکساں طور پر رواں دواں ہیں۔ سب کے سب اللہ تعالی کے فرماں بردار ہیں۔وہ سب جبلی طور پر حکم خدا کے اس طرح  پابند ہیں کہ ایک لمحے کے لیے بھی اگر وہ قانون فطرت سے بغاوت کریں تو ان کا وجود ہی ختم ہو جائے۔ مثلا آفتاب و ماہتاب اللہ تعالی کے حکم سے اپنے اپنے محور پر چل رہے ہیں۔ اب اگر وہ اپنے محور سے تھوڑا سا بھی کج ہوں گے تو تباہ ہو جائیں گے۔ اللہ تعالی ساری کائنات کا خالق و مالک ہے۔ پوری کائنات اس کی مرضی اور مشیت کے تابع ہے۔ اس کی مرضی کے بغیر نہ کوئی پیدا ہو سکتا ہے نہ کسی کی موت ہو سکتی ہے۔ اور نہ کسی درخت کا پتہ ہی جنبش کر سکتا ہے۔ الغرض پوری دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالی کی مرضی سے ہوتا ہے۔  لیکن صرف اور صرف دین حق کو اختیار کرنا یا اختیار نہ کرنا یہ اللہ تعالی نے انسانوں اور جناتوں کے اختیار میں دے رکھا ہے۔ ساتھ ہی حق و باطل کو واضح فرما دیا ہے۔ اور اس کی مسلسل وضاحت کے لیے انبیاء ومرسلین مبعوث ہوتے رہےہیں۔ اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب احیائے دین و سنت کے لیے مجددین و اولیاء کا ملین تشریف لا رہے ہیں۔اور ایسا اب اس لیے ہے کہ حضرت آدم سے حضرت عیسی تک لگاتار عقل انسانی ترقی پذیر تھی،علم و معرفت اور شعور و آگہی پروان چڑھ رہے تھے اور وہ سب ترقی کے اس لائبریری کی تعمیر میں اینٹ جوڑ رہے تھے جس کی تعمیر کے بعد علم و شعور کو بقا نصیب ہو۔بلفظ دیگر اس ہارڈڈکس کی تیاری چل رہی تھی جہاں سب کچھ ہمیشہ کے لیے ہو بہو ریکارڈ ہوکر ہمیشہ کے محفوظ ہوجائے۔ نبی آخرالزماں کی بعثت کے وقت انسانی عقل و شعور اور علم و فکر نے وہ روپ لینا شروع کیا جسے اب پائداری حاصل ہونی تھی، اب جو بھی ریکارڈ ہونا تھا وہ تاقیامت باقی رہنا تھا اور ایسا ہی ہوابھی۔ دیگر مذاہب کے برعکس آج ہم یہ بات دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ پر اتاری گئی وحی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین ہمیشہ ہمیش کے لیے کسی بھی طرح کے تغیر و تبدل سے پاک تھا، پاک ہے اور پاک  رہے گا، اب اس میں تحریف کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔جبکہ نبی آخرالزماں سے پہلے یہ صفت ہی ناپید تھی، ایسی کوئی تدبیر ہی نہ تھی جہاں آسمانی صحیفے تغیر و تبدل سے پاک ہوکر نسل درنسل منتقل ہوتے، علم و آگہی اور وسائل خط و کتابت کی وہاں تک رسائی ہی نہیں ہوئی تھی جہاں وہ دین اپنی شکل اول پر باقی رہ پاتے۔ اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء در انبیاء اور رسول در رسول اللہ تبارک و تعالی ہر دور میں ایک صحیفے اور شریعت کے بعد دورسرے صحیفے اور شریعت نئے نئے ایڈیشن کی صورت میں بھیجتا رہا جو اپنے ماقبل کی ملاوٹ کے شکار صحیفے اور شریعت کی تجدید اور فلٹریشن کا کام کرتے۔ لیکن نبی آخرازماں کو اللہ نے قرآن کے ساتھ ایسے دور میں مبعوث فرمایا کہ پھر اس کے بعد ردو بدل اور ملاوٹ کے امکان ہی باقی نہ رہے۔اب شعور انسانی سینہ درسینہ سے بڑھ کر اسے قرطاس و قلم سے محفوظ کرنا شروع کردیا تھا اور اس اہتمام میں انسان نے کمال کردیا۔یہی وجہ ہے کہ اب کسی نئے رسول،پیغمبر اور شریعت کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ اب وہی اسلام جو حضرت سے آدم سے چلاتھا نبی آخرالزماں کے بعد اپنے مکمل اور محفوظ شکل میں قیامت تک کے لیے انسانوں میں باقی رہے گا۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس شریعت کے کامل و مکمل اور ابدی ہونے کا ان الفاظ میں صاف اعلان فرمادیا :

’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔‘‘ (المائدہ3)۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ 

ترجمہ:

 (1) تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت اور عمل کی راہ بنائی ہے

(2) اوراگر اللہ تعالی چاھتا تو بنا دیتا تم سب کو ایک امت

(3) لیکن آزمانا چاہتا ہے تمہیں اس چیز میں جو اس نے تم کو دی ہے

(4) تم نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو

(5) تم سب کو اللہ تعالی کی طرف ہی لوٹ کر آنا ہے پھر اللہ تعالی تمہیں آگاہ کرے گا ان باتوں سے جن میں تم  جھگڑا کرتے تھے (سورہ مائدہ آیت نمبر48)

مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے پانچ باتوں کے بارے میں بتایا ہے:

(1) پہلی بات یہ ہے کہ چونکہ پوری دنیامیں موسم، حالات، زمینیں اور آب و ہوا یکساں نہیں ہیں۔ اس لیے اس میں بسنے والے انسانوں کے مزاج،اخلاق و عادات اور طبیعتیں بھی یکساں نہیں ہوتے۔ تو ہم نے ان کے لیے شریعت اور راہ عمل بھی الگ الگ کر دی ہے۔ اس کی مثال حضرت آدم سے عیسی تک کے تمام انبیاء کی شریعتیں ہیں۔ اور چار فقہہ اسلامی کے علاوہ فروعی اختلافات کی بنیاد پر بننے والی جماعتیں ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ تعالی نے اختلاف کی گنجائش سہولت کے لیے دی ہے۔ جس کو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:  اختلاف امتی رحمۃ۔ میری امت کا اختلاف کرنا رحمت ہے۔

 (2-3) جس طرح اللہ تعالی نے ساری کائنات کو مطیع و فرماں بردار بنایا ہے، چاہتا تو تمام انسانوں اورجناتوں کو بھی دین اسلام کا پابند بنا دیتا اور پوری دنیا کے انسانوں کا ایک ہی مذہب ہوتا۔ سب ایک ہی طرح کے رسم و رواج کے پابند ہوتے۔ پوری انسانیت جامدوساکت ہوتی۔ علامہ بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالی چاہتا تو جبرا ہرایک کو اسلام کا پابند بنا دیتا اور کسی کو مجال انکار نہیں ہوتا۔ لیکن ایسا اس نے نہیں کیا تاکہ لوگوں کی آزمائش ہو جائے کہ کون اپنے اختیار سے اس دین حق کو قبول کرتا ہے اور کون جان بوجھ کر انکار کرتا ہے۔ 

(4) اس آیت سے اللہ تعالی نے یہ وضاحت کر دی ہے کہ تم اس آخری دین، آخری کتاب اور آخری رسول پر ایمان لے آؤ اور نیکی کرنے میں مقابلہ کرو، سبقت کرو۔ آپس میں لڑائی جھگڑا کرکے اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرو۔ اور خاص کر دین کے معاملے میں ہرگز ہرگز جبرواکراہ نہ کرو۔ 

(5) اگر تم مومن ہو تو تمہارا یہ یقین کامل ہونا چاہیے کہ تم سب کو اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے ۔اس دن تم نے دنیا میں جتنے مکروفریب اور جنگ و جدال کیے ہیں اللہ سب سے پردہ اٹھا دے گا،اور سب راز کھول دیے جائیں گے۔ اس لیے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو جواب دہ بنالو۔ تمہاری کامیابی اسی میں ہے۔ نہ کہ لڑنے جھگڑنے میں۔

 *اسلامی سنگ میل اور راہ نجات:* 

ایک منزل یا شہر تک پہنچنے کے متعدد راستے ہو سکتے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور یہ ہمارا مشاہدہ بھی ہے. لیکن انسانوں کے لیے ایک اور منزل ہے جس کو کسی نے نہیں دیکھا ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے بھی کئی راستے ہیں۔ اور وہ راستے بھی بنے بنائے ہیں،ہمیں صرف چلنا ہے۔ وہ ایک ایسی منزل ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے خود سے راستہ بنانے کی اجازت نہیں۔ اس طرح کے متعینہ معلومات کو اگر ہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے جانا تو اس کا نام اسلام اور ایمان ہے اور اس پر عمل پیرا ہونا ہی ہمارے لیے راہ نجات ہے۔ اور اگر ان مسائل کا حل بتوں کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ شرک ہے اور یہی ہمارے لیے راہ نجات سے بھٹکنا ہے۔ اور اگر کسی کو یہ باتیں سمجھائی گئی یا اسے دین کی دعوت دی گئی اور اس نے اس کو ماننے سے انکار کردیا تو یہ کفر ہے۔ بایں طور انسانوں کے تین گروپ(امت) ہو گئے مسلمان، مشرک اور کافر۔ اور ایسا ہونا مشیت الہی ہے۔اور عین تقاضائے فطرت ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ دنیا کا ہر آدمی ایک ہی مذہب کا ہوجائے۔ سب ایک ہی تہذیب وثقافت کے علمبردار رہیں۔ ہر چہار جانب انسانوں میں یکسانیت آجائے۔اور اس کے لیے طاقت کا استعمال کرے تو یہ فطرت کے بھی خلاف ہے اور مشیت الہی کے بھی خلاف ہے۔

 *لااکراہ فی فی الدین:* 

 اللہ تعالی فرماتا ہے دین کے قبول کرنے یا نہ کرنے میں کوئی جورو جبر نہیں ہے۔(البقرہ۔256) اور دین میں زبردستی نہیں ہے۔ دین کے معاملے میں دوسروں پر جبر واکراہ جائز نہیں ہے۔

 *دعوت دین کا اسلامی فلسفہ:* 

  اسلامی فلسفہ یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے نفس پہ جبر واکراہ کرنا چاہیے، اپنے نفس کو ذلیل و رُسوا کرنا چاہیے۔ اور دوسروں کے معاملے میں ہمیشہ نرم گوشہ رکھنا چاہیے، محبت سے پیش آنا چاہیے، دوسروں کو اپنے سے اچھا خیال کرنا چاہیے۔اپنے لیے عزیمت اور دوسروں کے لیے رخصت کی روش پر چلنا چاہیے۔ لیکن ہمارا عمل یہ ہے کہ ہم اپنے ناجائز کاموں کو بھی جواز کی صورت دینے کے لیے حیلے،بہانے بناتے ہیں۔ اور جیسے تیسے کر کے جائز کر لیتے ہیں۔ اور دوسروں کے لیے جبر و اکراہ کی تلوار لے کر کھڑا رہتے ہیں۔ سنی سنائی باتوں پہ ہی فتوی دیتے ہیں۔ دوسروں کے کہنے پہ کسی کو دین میں داخل کر لیتے ہیں۔ کسی کو خارج کر دیتے ہیں۔ دراصل ہم دوسروں کے بارے میں زیادہ سوچنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ اور اپنے کو بھول گئے ہیں۔ دوسروں کو اچھائی کا حکم دیتے ہیں، دوسروں کو اچھا کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، اور دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ اور خود کو بھولے رہتے ہیں۔ جب کہ یہ روش خلاف ایمان ہے۔اسلام نے اس سے ہمیں منع کیا ہے۔ قرآن نے غیر مؤمنانہ صفت کہا ہے :"کہ وہ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور اپنے نفس کو بھول جاتے ہیں"۔(البقرہ۔144)

 *اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں جبر و اکراہ لازما ہے*

مذکورہ بالا سطور کے ذریعے یہ واضح ہو چکا ہے کہ اسلام میں جبر واکراہ نہیں ہے۔ کیونکہ اسلام کے بنیادی عقائد کو ثابت کرنے کے لیے عقلی دلائل و شواہد موجود ہیں۔ اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید باری تعالیٰ ہے۔ کہ ساری کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالی ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے لیے ہزارہا عقلی دلائل و شواہد موجود ہیں جس سے متانت کے ساتھ یہ ثابت  کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ بخلاف دیگر مذاہب کے۔کہ ان کے پاس بت پرستی کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کوئی عقلی دلائل و شواہد نہیں ہیں۔ مثلاً ایک شخص اپنے ہاتھ سے پتھر یا مٹی کی مورتی بنا تا ہے۔ پھر اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اپنی زندگی کی بھیک مانگتا ہے۔ اسی سے دھن، دولت اور کامیابی مانگتا ہے۔ جبکہ وہ محض ایک مٹی یا پتھر کا ٹکڑا ہے۔اب پوری دنیا میں کیا ایسی کوئی دلیل یا ایسی مثال ہے جس کے ذریعے یہ ثابت کیا جاسکے کہ ان بے جان مورتیوں میں نفع یا نقصان پہنچانے کی طاقت ہے؟ یہ پتھر کا ٹکڑا کسی کو زندگی اور دولت دینے کی طاقت رکھتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ نہ ایسی کوئی مثال ہے اور نہ عقلی اورنہ نقلی دلیل ہے۔ اب اگر کوئی شخص جو بت پرست، مشرک ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنا مشرکانہ دین و مذہب دوسروں کے سامنے پیش کرکے انہیں بھی اپنے مذہب میں شامل کرے تو کوئی بھی عقلمند شخص اسکے مشر کانہ عقائد کو تسلیم نہیں کرے گا۔کیونکہ اسے سمجھانے کے لیے اس کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ لازما اسے اپنی بات منوانے کے لیے اسے جبر و اکراہ کرنی ہوگی یا مال و دولت کی لالچ دینی ہوگی۔ *معلوم ہوا کہ دنیا میں جتنے بھی شرکیہ مذاہب ہیں ان کی تبلیغ واشاعت جبرواکراہ یا مال و دولت کی لالچ سے ہی ہوتی ہے اس کے برخلاف چو نکہ مذہب اسلام ایک عقلی اور فطری مذہب ہے، اس کو منوانے اور تسلیم کرانے کے لیے طاقت کے استعمال یادولت کی لالچ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بلکہ مذہب اسلام کی تبلیغ و اشاعت صرف اور صرف دعوت دینے اور سمجھانے سے ہوتی ہے، کہ مذہب اسلام ایک مکمل نظر یۂ حیات ہے جو سمجھنے اور سمجھانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور سلیم الفطرت لوگوں کے لیے اس میں بہت کشش ہے کہ جو دین اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وہ آخر کار سمجھ کر مسلمان ہوہی جاتا ہے۔ اور ضدی و نادان لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کا مذہب ہی اچھا ہے تاہم اب بھی ایسے لوگوں میں اسلام کے قبول کرنے کے امکانات موجود ہیں۔ بشرطے کہ ہم عملی طور پر ان کے سامنے اسلام کی اصلیت کا مظاہرہ کریں۔*

 اس کو سمجھنے کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ وہ ایک تالاب کے کنارے سےگزر رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ بہت سارے پجاری ایک مخصوص رسم و رواج کےساتھ لوگوں کو غسل کرا رہے ہیں اور نذرانہ وصول کر رہے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک پجاری مایوس ہوکر تالاب کے کنارے اکیلا کھڑا ہے۔ حضرت ان کے قریب جا کر دریافت فرما تے ہیں کہ آپ غم زدہ اور مایوس کیوں ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میرا کوئی مرید غسل کرنے کے لیے نہیں آیا ہے اور مجھے پیسے کی سخت ضرورت ہے اس لیے میں مایوس اور پریشان ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ہی آپ غسل کرا دیں مجھے ہی اپنا شیشو سمجھ لیں۔ وہ پجاری خوش ہو کر انہیں پانی کے قریب لے گیا ،تو حضرت نے خود ہی پانی میں جا کر ڈوبکی لگا لی اور پانی سے باہر آکر پجاری کو نذرانہ دے کر آگے اپنی منزل کی جانب چلے گئے۔ دوسرے دن پھر واپس آئے۔ تو پھر تالاب میں ایسے ہی بھیڑ تھی۔ لوگ غسل کر رہے تھے اور اپنے اپنے پجاری کو نذرانے دے رہے تھے۔ اور آج بھی وہ پجاری مایوس اکیلا کھڑا تھا۔حضرت پھر ان کے پاس گئے۔ تالاب میں ڈوبکی لگائی اور پجاری کو کچھ رقم دے کر آگے بڑھ گئے۔ اب وہ پجاری بھی ان کے پیچھے پیچھے آنے لگا۔ جب کچھ دور آگے نکل آئے تو حضرت نے پجاری سے دریافت فرمایا کہ بابا آپ کہاں جا رہے ہیں؟ تو پجاری نے کہا میں آپ کو بھگوان کے روپ میں دیکھ رہا ہوں۔ اب میں جاننا چاہتا ہوں کہ میرا بھگوان کون ہیں؟۔ حضرت نے جواب دیا کہ میں بھگوان نہیں ہوں۔ بلکہ ایک انسان ہوں اور اس اللہ تعالی کا بندہ ہوں جس نے سارے انسانوں کے ساتھ انسانوں کے فائدے کے لیے ساری کائنات کی تخلیق فرمائی ہے۔ وہی مالک ہے، اور وہی عبادت کے لائق ہے، وہی معبود برحق ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ الغرض فلسفہ اسلام کو پیار و محبت کے ساتھ ان کے سامنے پیش فرمایا۔ یہاں تک کہ وہ پجاری حقیقی اسلام سے متاثر ہو کر مسلمان ہوں گیا۔

 *جس کام میں بھی للہیت اور خلوص ہوگا خواہ وہ کام جیسا بھی ہو اللہ تعالی اسے قبول بھی فرماتا ہے اور عمل کرنے والا اس کی برکتوں سے بھی مالا مال ہوتا ہے* ۔

 آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی تمہارے مالوں اور تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے۔ (مسلم شریف)  آقا کریم ارشاد فرماتے ہیں۔ جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحم نہیں کرتا۔ (متفق علیہ)

تبلیغ دین کے معاملے میں اسلامی فلسفہ کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہم کسی پر جبر و اکراہ نہیں کریں گے بلکہ جس کو ہم دعوت دینا چاہتے ہیں ہم ان کے پاس جا کر عاجزی سے دعوت پیش کریں گے۔ اور مدعو قوم پہ سختی نہیں بلکہ نرمی، شفقت و محبت اور عزت و تکریم کا معاملہ کریں گے۔ سلف صالحین کی زندگی اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ 

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر مسلمان بحیثیت مسلمان وہ ہر وقت اور ہر جگہ مبلغ اور داعی ہے خواہ سفر ہو کہ حضر۔ اور جہاں اسے موقع ملے اسے دین کی دعوت دینی چاہیے جیسا کہ حضرت فخرالدین رازی علیہ الرحمہ نے کیا ۔ اور تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کے پاس آئے یا اس کا گھر آئے اور بد اخلاقی کے ساتھ جبر و اکراہ کا مظاہرہ کرے، تو ان حالات میں بھی ہمیں اپنے پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا چاہیے۔ چند نمونے پیش خدمت ہیں۔

(1)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں یہودیوں کی ایک جماعت آئی اور کہا کہ تم پر موت ہو (السام علیکم) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں ان کی باتیں سمجھ گئی۔ تو میں نے کہا کہ تم پر موت ہو اور اللہ تعالی کی لعنت ہو۔ اس پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اے عائشہ انہیں چھوڑ دو۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے سنا نہیں کہ ان لوگوں نے آپ کو کیا کہا؟ تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "ہر کام میں نرمی کرو، اللہ تعالی نرمی کو پسند فرماتا ہے"۔ (یعنی سختی کرنے والے کے ساتھ بھی نرمی کرو۔ یہ ہے گھر آکر بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ پیش آنے کا اسلامی طریقہ) (بخاری شریف جلد دوم صفحہ نمبر 890)

(2) یحیی بن سعید سے روایت ہے کہ ایک اعرابی مسجد میں داخل ہوا اور پیشاب کرنے لگا تو لوگ اسے مارنے کے لیے اٹھے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس کا پیشاب نہ روکو(بلکہ اس کو پیشاب کرنے دو) اور جب وہ پیشاب کر چکا تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول پانی منگوایا اور اس پر بہا دیا۔ (بخاری شریف)

 اسلامی فلسفہ یہ ہے کہ زیادتی کرنے والوں کے ساتھ بھی پیار اور شفقت کیا جائے۔ اور ان حالات میں غصہ کوضبط کر کے حسن اخلاق سے پیش آنا یہ اسوہ صرف اور صرف میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اور بعد میں ہمارے اسلاف نے اس پرعمل کیا اور آج ہمیں بھی عمل کرنا چاہیے۔

 *تکریم انسانیت:* 

اسلام میں انسانیت کی تکریم کا درس ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم سب شامل ہیں بلکہ مطلق انسان انسان ہونے کے ناطے قابل تکریم و تعظیم ہے اور اس پر جبر و اکراہ کرنا حرام و ناجائز ہے اور ناپسندیدہ ہے۔اور یہ ناپسندیدگی جانوروں کے ساتھ بھی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص جانوروں پر بھی ظلم کرتا ہے تو اس کی بھی گرفت ہوگی۔ یہ حدیث ملاحظہ کریں۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت ایک بلی کو تکلیف دینے کی وجہ سے جہنم میں ڈالی گئی۔ اس عورت نے بلی کو باندھ کر چھوڑ دی تھی یہاں تک کہ وہ بلی بھوک اور پیاس سے مر گئی۔ اس لیے کہ اسے ہمیشہ باندھے رکھتی تھی اور نہ اسے کھلاتی تھی نہ پلاتی تھی اور نہ ہی اسے چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔ (بخاری شریف)

دوسرے احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ وہ عورت بنی اسرائیل کی مسلمان عورت تھی، عابدہ اور زاہد تھی۔لیکن اس نے ایک بلی پہ ظلم کیا اس لیے وہ جہنم میں ڈالی گئی۔ اور اگر کوئی شخص جانور پر بھی رحم کرتا ہے تو اللہ تعالی اس پر بھی نیکی عطا فرماتا ہے، اس کے گناہ کو مٹاتا ہے اور جنت عطا فرماتا ہے۔

یہ حدیث ملاحظہ کریں۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص راستہ چل رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی ۔اس نے ایک کنواں دیکھا جس میں اتر کر اس نے پانی پی لی۔ جب وہ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانف رہا ہے اور شدت پیاس کی وجہ سے مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس نے سوچا کہ یقینا اس کتے کو میری طرح پیاس لگی ہے۔ پس وہ کنویں میں اتر کراپنے موزے میں پانی بھرا اور کتے کے منہ میں ڈال دیا اور کتے نے پانی پی لیا۔ اللہ تعالی کو اس کا یہ عمل پسند آگیا اور اس کی مغفرت فرما دی۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا چوپایوں میں بھی ہمارے لیے اجر ہے؟ فرمایا ہر اس کام میں اجر ہے جو دل پہ اثر کرے (بخاری شریف)

بے شک مذہب اسلام میں کسی بھی زاویۂ نظر سے ظلم و جبر اور اکراہ جائز نہیں ہے اور اسلام میں تبلیغ و اشاعت کے لیے صرف ایک ہی طریقہ بتایا گیا ہے اور وہ ہے دعوت۔ تمام انبیاء و مرسلین داعی تھے اور ہر مسلمان داعی ہے۔ اور آج بھی اگر اسلام پھیل رہا ہے تو دعوت کے ذریعے ہی پھیل رہا ہے۔ بخلاف دیگر مذاہب کے کہ اسلام کے علاوہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں یہودی، عیسائی، بدھشٹ،پارسی، ہندو یہ سب کے سب اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے لالچ اور اکراہ دونوں کا استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے کہ جسے یہ اپنے مذہب میں شامل کرنے کے لیے سمجھانا چاہتےہیں۔ انہیں سمجھانے کے لیے ان کے پاس صاف ستھرا اور پاکیزہ دلیل نہیں ہے۔ انکے مذاھب نہ عقل کے اعتبار سے صحیح ہیں اور نہ ہی روایات کے اعتبار سے صحیح ہیں۔ اس لیے مجبورا انہیں اپنے باطل مذہب کو پھیلانے کے لیے دولت و طاقت کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔

 مذہب اسلام سہل ،آسان اور فطری مذہب ہے لوگ اسے سمجھ کر ہی قبول کرتے ہیں۔

 محمد شہادت حسین فیضی

9431538584

مجاہد_ملت_ایک_انقلابی_اور_ہمہ_گیر_شخصیت

مجاہد_ملت_ایک_انقلابی_اور_ہمہ_گیر_شخصیت#

 -کچھ ایسی ہستیاں بھی عالمِ فانی میں آئی ہیں

 -فنا کے بعد بھی جن کو زمانہ یاد کرتا ہے

وہ لوگ جو اپنے مال کو راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور پھر نہ احسان رکھیں اور نہ تکلیف دیں تو ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔ اور ایسے لوگوں کو نہ کچھ اندیشہ ہے نہ غم.( البقرۃ/262)

بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کے راستے میں تو یہ لوگ اللہ تعالی سے رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ اور اللہ تعالی بہت بخشنے والا ہے۔ اور بہت رحم فرمانے والا ہے.(البقرۃ/218)

مذکورہ بالا آیتوں میں ان خوش نصیب مسلمانوں کا بیان ہے جو ایمان لانے کے بعد اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرتے ہیں اوراللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ جہاد کرتے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت کے امیدوار رہتے ہیں۔ انہیں مقدس لوگوں میں حضرت علامہ الشاہ حبیب الرحمن عباسی قادری رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی ذات گرامی ہے جو راجح قول کے مطابق 8/محرم/1322ھ- بمطابق: 26/ مارچ- 1904ء - بروز: شنبہ- صبح صادق کے وقت دھام نگر،اڑیسہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلۂ نسب حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ ایک دیندار اور بہت بڑے زمیندار، رئیس اعظم اڑیسہ کے چشم و چراغ تھے۔ انہیں بچپن سے ہی دینی ماحول میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔کچھ سن شعور کو پہنچے تو کٹک کے ایک انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرایا گیا لیکن چونکہ انہیں اسکول کا مغربی ماحول پسند نہیں تھا،اس لیےکچھ ہی دنوں کے بعد انہوں نے اسکول کی تعلیم چھوڑ دی اور کہا کہ"دین کی تبلیغ اور جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلش ضرور پڑھنا چاہیے مگر مغربی تہذیب و تمدن کے لیے ہرگز ہرگز انگلش نہ پڑھیں۔" یعنی انہیں انگلش پڑھنا پسند تھا لیکن اسکول کا مغربی ماحول پسند نہیں تھا۔اسکے بعد علامہ عبدالصمد بالیسری اور علامہ مفتی شاہ ظہور حسام صاحب سے گھر پہ ہی درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ اور 1340ھ  میں حضور مجاہد ملت سہسرام تشریف لائے۔ اور وہیں حضرت علامہ عبدالکافی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے ۔ بعدہ 1341ھ میں پہلا حج کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے جامعہ سبحانیہ الہ آباد میں داخلہ لیا اور اپنے پیر و مرشد کے علاوہ دیگر اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ پھر حضور صدر الشریعہ رحمتہ اللہ علیہ سے پڑھنے کے لیے "أجمیر" تشریف لے گئے اور تقریبا 28 سال کی عمر تک حصول علم میں مشغول رہے۔ بعدہ آپ نے جامعہ نعیمیہ مرادآباد اور جامعہ سبحانیہ الہ آباد میں تدریسی خدمات انجام دی۔ پھر 1968ء بمطابق 1387ھ میں جامعہ حبیبیہ الہ آباد میں صدرالمدرسین کے عہدہ پر رہ کر تدریسی خدمت انجام دی۔ چونکہ دینی تبلیغ و اشاعت اور دینی تعلیم کی اجرت لینا جائز نہیں ہے( یہی اصل ہے حالانکہ ضرورتا بعد میں فقہاء نے اسے جائز قرار دیا ہے) اس لیے مجاہد ملت علیہ الرحمہ نے بربنائے تقوی پوری زندگی دین کی خدمت مثلا خطابت، امامت اور درس و تدریس کے بدلے میں نذرانہ قبول نہیں فرمایا۔ بلکہ جس جلسہ یا کانفرنس میں شریک ہوتے وہاں کی ضرورت کے مطابق ادارہ ،مدرسہ اور مسجد کے لیے اپنی جانب سے کچھ عطایات دے کر ہی آتے تھے۔ اسی طرح جن اداروں میں آپ نے درس و تدریس کے خدمات انجام دیے وہاں کی انتظامیہ سے  کبھی تنخواہ نہیں لی بلکہ انتظامیہ کی امداد بھی کرتے اور وہاں زیر تعلیم بچوں کی کفالت بھی فرمایا کرتے تھے۔

 #ان_پر_فتوی_لگایا_گیا

 اللہ تعالی نے مجاہد ملت کو عوام میں قبولیت تامہ عطا فرمائی تھی،جس سے سے کچھ لوگ گھبرا گئے اور ان پر "بشری"نامی کتاب میں تقریظ لکھنے کے سبب کفر کا فتوی لگا دیا۔ اور تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا مطالبہ کیا اور اشتہار بازی شروع کر دی۔ مجاہد ملت نے جو خود علم کے سمندر تھے استقامت کا مظاہرہ کیا یہاں تک کہ بالآخر مولانا وکیل الرحمن صاحب خطیب جامع مسجد روپن لین کلکتہ کی تحریر پہ حضور مفتی اعظم ہند رحمتہ اللہ علیہ نے6/صفر 1393ھ۔ میں جواب نمبر30/71 کی تصدیق فرمائی کہ "ظاہر ہے کہ اس صورت میں مصدق و مصنف 'بشری' پر لزوم تجدید ایمان و تجدید نکاح کا حکم نہیں ہے"۔ الغرض حضور مفتی اعظم ہند کی مداخلت سے کاہل اور ناکارہ فتویٰ بازوں کی زبان خاموش ہوئی۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں ایسے لوگ پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں۔

 #تعلیمی_ادارے_اور_تنظیمیں

آپ نے درجنوں کی تعداد میں مدارس واسکول قائم فرمائے ان میں جامعہ حبیبیہ الہ آباد، مدرسہ قادریہ پانسکوڑہ، جامعہ حنفیہ غوثیہ بجرڈیہہ بنارس، اسلامی مرکز رانچی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ دھام نگر ہائی سکول اور دھام نگر کالج کے لیے آپ نے کافی زمینیں وقف کیں۔ مجاہد ملت جس طرح مدارس کے طلبہ کی کفالت فرماتے، وظیفہ مقرر فرماتے اور حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ وہ ایسا ہی اسکول اور کالج کے طلبہ کی بھی کفالت فرماتے تھے، وظیفہ مقرر کرتے تھے۔ اور زبان و ادب کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم میں مہارت یا کامیابی حاصل کرنے والے طلباء کو مبارکبادی دے کر حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ تنظیمیں بھی انہوں نے بہت بنائی ان میں آل انڈیا تبلیغ سیرت اور تحریک خاکساران حق یہ دونوں ملکی سطح کی تنظیمیں تھیں جو آج بھی قائم ہیں اور قابل ذکر ہیں۔ جسے مزید فعال اور متحرک بنانے کی ضرورت ہے۔ 

 #مدارس_کے_نظام_میں_اصلاح

مدارس کی چھٹیاں کم کیں۔ اور مدارس کے نصاب میں تصوف کی تعلیم کے لیے رسالہ قشیریہ شامل کروایا۔ اور عربی ادب کو کو بھی اہمیت کی جگہ پر رکھا۔ روحانی تربیت کے لیے طریقت و شریعت کا عملی نصاب بنایا۔ اور جسمانی نشونما اور بالیدگی کے لیے خاکساران حق کی تربیت کو لازم قرار دیا۔

 #سیاسی_شعور_و_بصیرت

چونکہ آپ ایک اعلی زمیندار خاندان کے فرد تھے اوروہ تحریک آزادی کے شدت کا زمانہ تھا۔ اس لیے ملکی سیاست سے لازما واقف تھے اور اس میں شامل بھی تھے۔ 1936ء میں دو سال تک کاشتکاری کے لیے نہر میں پانی نہیں چھوڑا گیا جس سے کاشتکاروں کا کافی نقصان ہوا۔ لیکن گورنمنٹ کی جانب سے واٹر ٹیکس کی نوٹس دی گئی۔ مجاہد ملت نے کاشتکاروں کو منظم کر کے کہا کہ ہم ٹیکس نہیں دیں گے۔ جس پر انہیں گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا اور بعد میں ہائی کورٹ سے رہائی ملی۔

 #شریں_بیانی_اور_وسعت_ظرفی

مفتی اعظم ہند اور علامہ حشمت علی خاں و دیگر علمائے کرام کے ساتھ مجاہد ملت کی میٹنگ ہوئی تھی۔ جس میں کافی گرما گرم بحث ہوئی کہ پورے ملک کے تمام تنظیموں کو ایک ہی تنظیم میں ضم کردیا جائے۔ مجاہد ملت نے فرمایا کہ یہ تجویز مجھے منظور ہے لیکن میری بھی ایک بات آپ سب کو تسلیم کرنی ہوگی کہ اس تنظیم کے اغراض و مقاصد میں ملکی سیاست کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ مسلمان حکومت سے لاتعلق رہ کر باوقار نہیں رہ سکتے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم سیاست کو شامل نہیں کریں گے۔ تو مجاہد ملت نے بھی فرمایا کہ ہم اپنی تنظیم کو بھی ضم نہیں کریں گے۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ کمیونسٹوں کی ایک بات بہت اچھی ہے کہ وہ بحث کرتے ہیں تو دشمنوں کی طرح لیکن میٹنگ ختم ہونے کے بعد سب ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ ہمیں بھی اس بحث کو یہیں ختم کرکے مل جل کر رہنا چاہیے۔

 #تحریک_آزادی_میں_حصہ_داری

تحریک آزادی میں بھی انہوں نے حصہ لیا۔ سیاسی بیانات دینے کی وجہ سے آزادی کے پہلے اور آزادی کے بعد بھی کل ملا کر 7 مرتبہ جیل گئے۔ لیکن کبھی معافی نہیں مانگی۔ عربی اردو میں ان کی کتابیں ہیں۔ لیکن انہوں نے شعروشاعری نہیں کی۔ تاہم صرف دو شعرانہوں نے اپنی زندگی میں  تقسیم ہند کے بعد کہا تھا جس میں خود کو مخاطب کیا ہے۔

 "فکر کی کیسے رہیں گے ہند میں! 

ان سے کیا مطلب جو ہیں اب سندھ میں"

"ہاتف غیبی نے دی مجھ کو صدا

سربکف رہنا پڑے گا ہند میں"

پہلے شعر میں انہوں نے کہا کہ ہم بھارتی مسلمانوں کو پاکستانیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہونا چاہئے۔ اور دوسرے شعر میں اس عزم محکم کا اظہار فرمایا کہ ہمیں بھارت میں خود دار اور باوقار زندگی گزارنے کے لیے جہد مسلسل کے ساتھ سر میں کفن باندھ کر اقتدار میں، انتظامیہ میں اور ڈیفینس وغیرہ میں شامل ہونے کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی۔ 

 #سخاوت_اور_تقوی_شعاری

وہ فرماتے تھے کہ مجھے دو باتیں بہت پسند ہیں ایک یہ کہ کوئی نماز پڑھا دے اور میں نماز پڑھ لوں اور دوسری یہ کہ  کوئی دعوت دے اور میں کھا لوں۔ تاکہ دونوں معاملے میں باز پرس سے بچ جاؤں۔ اس سے امامت کی ذمہ داری اور لقمۂ حلال کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کس قدر ان امور میں محتاط تھے۔ اور سخاوت ایسی کے ایک دن بھی بغیر دادودہش کے زندگی نہیں گزاری وہ بھی ایثار کے ساتھ۔ ان کی صحبت میں رہنے والے بتاتے ہیں کہ حضرت حددرجہ محتاط اور سادگی کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔ انکساری ایسی کہ جو بھی ان کا ہاتھ چومتا جھٹ سے وہ بھی ان کا ہاتھ چوم لیتے۔

#ہماری_یادیں

 *مشرقی ہند کے عظیم دینی درسگاہ جامعہ فیض العلوم میں آخری آمد*

آخری حج 1980ء کے بعد حضرت فیض العلوم تشریف لائے۔اس سے قبل بھی دو مرتبہ مجھے ان کی زیارت نصیب ہوئی تھی لیکن شرف بیعت نہ ہوا تھا۔ اس مرتبہ دیگر طلبۂ فیض العلوم کے ساتھ مجھے بھی شرف بیعت حاصل ہوا۔ بیعت کے بعد حضرت نے کچھ خاص نصیحت فرمائی۔پھر میں نے عرض کی کہ ہم لوگوں کو کچھ اوراد و وظائف بتائیں۔حضرت نے فرمایا کہ "آپ لوگ طالب علم ہیں اور بعد میں عالم دین ہوں گے۔اب بھی اور بعد میں بھی آپ کا کام دین سیکھنا اور سکھانا ہے۔اور یہ کام نفلی نمازوں اور نفلی اوراد و وظائف سے زیادہ ضروری ہے اور زیادہ ثواب کا کام ہے۔ آپ لوگ فرائض واجبات اور سنتوں کی پابندی کریں اور تسبیح فاطمہ پڑھا کریں۔بقیہ وقت دینی و علمی کتابوں کے پڑھنے اور پڑھانے میں صرف کریں۔ اللہ تعالی آپ سب کو اچھی دنیا اور اچھی آخرت عطا فرمائے۔

 الحمدللہ میں اپنے پیرو مرشد کے حکم کا پابند ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے بیعت مجاہد ملت کے ہاتھوں میں کی اور تربیت آپ کے خلیفۂ صادق شمس العلماء مفتی نظام الدین بلیاوی ثم الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے پائی۔اور اس طرح بلاواسطہ نہ صحیح بالواسطہ آپ کا فیض مجھے خوب پہنچا ہے۔ شمس العلماء دراصل فیض العلوم میں شیخ الحدیث تھے۔مجھے احادیث کی سند بھی حضرت سے ہی حاصل ہے۔ ان کی تفہیم ضرب المثل تھی۔ ادق مضامین بھی حضرت چند لمحوں میں سمجھا دیا کرتے تھے۔ حضرت کا خصوصی نظر کرم مجھ پہ ہوا کرتی تھی اور میں حضرت کی تربیت کا اثر اپنی زندگی میں آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ میں نے آپ سے ہی درس و تدریس کے اسرار و رموز اور تعلیم و تربیت کے ہنر سیکھی ہے۔ذکر جب مشفق اساتذہ کا چھڑا ہے تو یہ بھی سچ ہے کہ جہد مسلسل کا جذبہ مجھ میں استاذ مکرم قائد اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ کو دیکھ کر آئی ہے۔ میں نے اب تک کی زندگی میں قائد اہلسنت کی طرح جہد مسلسل کرنے والا کسی دوسرے کو نہیں دیکھا ہے۔ خانقاہ حبیبیہ دھام نگر  اڑیسہ  کے موجودہ متولی و سجادہ نشیں حضرت علامہ مولانا سید غلام محمد صاحب قبلہ مد ظلّہ العالی فیض العلوم میں میرے ہم سبق ساتھی تھے۔ موصوف شمس العلماء سے بہتر تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لیے ہی فیض العلوم تشریف لائے تھے۔

 #مجاہد_ملت_اور_طبقات_علماء

حضور مجاہد ملت کے ہم عصر اور مابعد کے علمائے ہند کو دو طبقوں میں رکھا جاسکتا ہے۔ایک علمائے کرام کا وہ طبقہ ہےجس کی نمائندگی حضور مجاہد ملت، حافظ ملت اور قائد اہل سنت وغیرہم  جیسے بالغ نظر ،دوراندیش، دوررس،بلند فکروخیال کے حامل اور  پوری امت مسلمہ کے لیے جذبۂ خیر سے سرشار علماء و قائدین ہیں۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی پوری امت مسلمہ کے لیے وقف کردیں۔جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں نہ صرف مدارس و مساجد قائم فرمائے بلکہ اسی مقدار میں اسکول، کالج، ہاسپیٹل،ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ اور تربیتی مراکز بھی ملک و بیرون ملک قائم کیے۔ ساتھ ہی صالح قیادت و سیاست میں اپنے انمٹ نقوش اور سنگ میل چھوڑے۔ تعمیر ملت اور تنظیم و تحریک سازی میں بنیادی اصول و قواعد متعین کیے۔قدیم صالح اور جدید نافع کے طرز پر نئے نئے پلیٹ فارم قوم و ملت کے نوجوانوں کے لیے کھولے تاکہ وہ دینی اداروں سے نکل کر اعلی عصری اداروں میں اپنی جگہ بناسکیں۔مدارس سے نکل کر یونیورسٹیوں میں جانے کے لیے مراکز قائم کیے۔دینی جلسوں کے ساتھ بوقت ضرورت سیاسی، معاشی، سماجی جلسوں میں بھی شرکت کی اور قیادت کے فرائض انجام دیے۔ حکومت وقت کے غلط اقدام پر تنقید بھی کی اور ملی حقوق کے لیے ان سے مل کر استفادہ بھی کیا جس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔

 اس گروپ کے ہر عالم ایک فرد کامل تھا۔اور ان ہی عالم ربانیین کے لیے وہ فضیلتیں ہیں جو قرآن و حدیث میں علماء کے تعلق سے بیان ہوے ہیں۔

 افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر۔

 ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔

یہ نیک لوگ قوم و ملت کے لیے مشعل راہ تھے۔

اور اس طرح کے علماء آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔ جس کی مثال پروفیسر ڈاکٹر علامہ مولانا سید امین میاں برکاتی مارہروی مدظلہ العالی اور عزیزملت علامہ عبدالحفیظ سربراہ اعلی جامعہ اشرفیہ وغیرہ ہیں۔

دوسرا طبقہ علمائے کرام کا وہ ہے جن کے تعلق سے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:

قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے؟

 کیا جانے یہ بیچارے دو رکعت کے امام! 

ہم لوگ اسی گروپ میں ہیں ہماری فکر صرف اور صرف مدارس،ائمہ مساجد اور مدارس میں پڑھنے والے ملت کے وہ چار فیصد غریب بچے ہیں جن میں سے اکثر بچے درمیان میں ہی تعلیم چھوڑدیتے ہیں۔ یا نامکمل نصاب کی تکمیل کر کے پوری زندگی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور ہم انہیں کے لیے روتے رہتے ہیں۔ جب کہ وہ خود اس ناگفتہ بہ حالات سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم بہت محدود اور سطحی فکر کے لوگ ہیں،ہم بس دورکعت کے امام ہیں اور ہماری سوچ اسلام کے عالمگیر مزاج اور انقلابی خوبیوں سے یکسر دور ہے۔اقبال نے کسی دور میں مسجد و خانقاہ کی چہار دیواری میں محدود رہنے والے اور معاشرتی زندگی سے لاتعلق اور بے پروا ہوجانے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ

ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد۔

جو لوگ امامت، خطابت اورمکتب کی معلمی کو چھوڑ کر دین داری کے ساتھ دیگر جائزملازمت وتجارت وغیرہ کی جانب مائل ہوتے ہیں اور اس کے لیے کوششیں کرتے ہیں۔ تو وہ بالکل کامیاب بھی ہیں۔ پھر انہیں سوالی بن کر کھڑا رہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس گروپ کے علماء کو بھیک کی نہیں بلکہ ایسی دستگیری کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنی حالت بدل سکیں۔ اور دینداری کے ساتھ اچھی دنیا حاصل کرسکیں۔ اس ضمن میں حضور مجاہد ملت کی زندگی کا مطالعہ کریں تو انھوں نے بہت قربانیاں دی ہیں اور اس طبقے کو چہار دیواری سے نکال کر آفاقی وسعت فراہم کرنے میں کافی سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ وہ ہمیشہ طبقۂ علماء کو خود کفیل اور خود دار دیکھنا چاہتے تھے۔

 #مجاہد_ملت_کی_عملی_زندگی_اور_فکر_اقبال_میں_یگانگت

علامہ اقبال نے یہ شعر ان لوگوں کیلئے کہا ہے جو دینی ادارہ چلاتے ہیں یا چلانا چاہتے ہیں۔ 

مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دین

ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلا نا کہیں

وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں 

چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں

 وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے

دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے

 محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ

رنگ پر جو اب نہ آئیں ان افسانوں کو نہ چھیڑ

 #وصال_اور_سفرآخرت 

اللہ تعالی فرماتا ہے اور جو ہجرت کرے اللہ کے راستے میں پائے گا زمین میں پناہ۔ اور روزی کے لیے بہت کشادہ جگہ۔ اور جو نکلے اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے۔ اور گھر واپس آنے سے پہلے ہی اس کی موت ہوجائے۔ تو ان کا اجر اللہ تعالی کے ذمۂ کرم پر ہے۔ اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے (النساء/100)

آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے راستے میں نکلا تو جب تک وہ گھر لوٹ کر نہ آئے تو وہ اللہ کے راستے میں ہی ہے۔ مجاہد ملت رحمۃ اللہ علیہ آخری حج ادا فرمانے کے بعد ممبئی تشریف لائے اور وہ اپنے گھر دھام نگر نہیں گئے بلکہ دینی و ملی کاموں میں مشغول رہے۔ وہاں سے جمشیدپور ہوتے ہوئے کلکتہ گئے اس کے بعد الہ آباد پہنچے۔ اس درمیان سردی شروع ہوئی اور طبیعت بگڑنے لگی۔ جس کی وجہ سے بہت سے پروگرام منسوخ بھی ہوئے اور تقریبا دوماہ الہ آباد میں ہی زیر علاج رہے اور بالآخر علاج کے لیے دوبارہ ممبئی تشریف لے گئے۔وہاں طبیعت میں اتار چڑھاؤ لگا رہا اور بالآخر 6/جمادی الاول 1401ھ بمطابق 13/ مارچ 1981ء کو ممبئ میں ہی آپ کا وصال ہو گیا۔سفر حج میں نکلا ہوا مسافر دردولت کو چھونے سے پہلے ہی جان جان آفریں کو سپرد کرگیا۔

 پہلی جنازے کی نماز ممبئی میں ہوئی پھر کلکتہ میں اور آخری جنازے کی نماز دھام نگر میں ہوئی۔ دھام نگر میں حضرت کا مزار مرجع خلائق ہے۔

محمد شہادت حسین فیضی 

9431538584

Monday, February 10, 2020

ट्रिपल तलाक विधेयक मुस्लिम महिलाओ के लिए काला कानून

ट्रिपल तलाक विधेयक मुस्लिम महिलाओ के लिए काला कानून: एदार ए शरिया झारखंड..

रांची: एदार ए शरिया झारखंड का प्रेस कॉन्फ्रेंस  प्रदेश कार्यालय इस्लामी मरकज हिन्द पीडी रांची में एदार ए शरीया झारखंड के नाजिमे आला मौलाना कुतुबुद्दीन रिजवी की अध्यक्षता में हुई। जिस में ट्रिपल तलाक से संबंधित केंद्र सरकार द्वारा लोक सभा  और राज्य सभा में पारित किए जाने  पर चर्चा हुई एवं इस के हर कानूनी पहलू पर विस्तार से शरीअत एवं संविधान के जानकारों ने अपनी बातें रखीं. विचार विमर्श के बाद सर्वसम्मति से निर्णय लेकर कहा गया कि किंन्द्र सरकार द्वारा लाएगए ट्रिपल तलाक कानुन मुस्लिम महिला विरोधी है इस कानून से उन मुस्लिम महिला को मानसिक, आर्थिक एवं शारीरिक परेशानी बढ़ेगी जो ट्रिपल तलाक से पीड़ित होंगी. चुंके कानुनु के अनुसार जब एक पति अपनी पत्नी को तीन तलाक देगा तो वह तलाक मान्य नहीं होगी और तलाक देने के बावजूद पीड़ित महिला तलाक देने वाले पति की पत्नी रहेगी फिर उस मुस्लिम महिला के पति को क्रिमिनल एकट के तेहत तीन वर्षो की सजा सीधे तोर पर हो जाएगी. सरकार कहती है कि इस दोरान पत्नी एवं बचों का खर्चा पति देगा प्रश्न ये है कि जब पति जेल में बंद कर दिया गया है तो वह खर्च कैसे दे पाएगा बैंक से पैसे निकालने या अपनी संपत्ति बेचने का समय भी नहीं दिया गया फिर अचानक पत्नी अपना एवं अपने बाल बचों की देख रेख स्कूल खान पान फीस दवा एलाज इतनी सारी जिम्मेदारीयौं से वह मुस्लिम महिला मानसिक, शारीरिक एवं आर्थिक रूप से अतिरिक्त टूट जाएगी. फिर सरकार का कहना है कि उस का पति जब जेल से तीन वर्षों बाद बाहर आएगा तो पत्नी को उसी तरह उसी के साथ रहना पडेगा। एदारा ने कहा कि इस जटिल परकरण से मुस्लिम महिला का जीवन नरक बन जायगा एवं उसके लिए जिन्दगी जीना दुश्वार हो जाएगा. उस महिला की तकलीफें बढ़ जाएंगी एवं तनाव पूर्ण जीवन हो जाए गी।ऊलामा ए केराम ने कहा कि शरीअत के अनुसार एक साथ तीन तलाक देने से तीन तलाक मानी जाएगी एवं तलाक देने वाला पति गुनाहगार होगा उस पर दैन मोहर एवं ईददत खर्च वाजिब है पत्नी का सारा सामान भी देना होगा। ऊलामा ने कहा कि उसे तीन नहीं पांच वर्षों की सजा सुनाई जानी चाहिए लेकिन सरकार तलाक को तलाक तो पहले मान कर पत्नी को तो आजाद करने का कानून लाकर पीड़ित महिला को सशक्त करे मगर सरकार को तो चुनावी लाभ लेना है इस लिए मुस्लिम महिला को विकास के रास्ते पर लेजाना नहीं चाहेगी। बैठक में इस विधेयक का कड़ा विरोध किया गया एवं इस को मुस्लिम महिला विरोधी के साथ संविधान में दी गई धार्मिक स्वतंत्रता के विपरीत करार देते हुए नफरत की सेयासत करने एवं मुस्लिम महिलाओं के अधिकारों पर हमला करने का आरोप केंद्र सरकार पर लगाकर देश को कमजोर करने की साजिश बताया. और कहा कि केंद्र सरकार की नीयत साफ है तो हर सरकारी विभागों में 33% आरक्षण निर्धारित कर के दिखाए साथ ही जिन मुस्लिम महिलाओं के पति मॉब लिनचिंग के शिकार हुवे उन महिलाओं के साथ इन्साफ करे. बैठक में एदारा शरिया झारखंड के नाजिमे आला मोलाना क़ुतुबुद्दीन रिजवी, मोलाना जासीमुददीन खां, कारी ऐयूब रिजवी, मुफ्ती अब्दुल मालिक मिस्बाही, मोलाना डॉ ताजउद्दीन रिजवी, मोलाना नेजामुउद्दीन मिस्बाही, मोलाना मुफ्ती फैजूल्लाह मिस्बाही, मोलाना मुजीबउर रहमान, अधिवक्ता इरशाद खान, अधिवक्ता इम्तियाज अली, प्रो अब्दुल कायूम अंसारी, मोलाना मुफ्ती अब्दुल कुद्दूस मिस्बाही, मोलाना अशरफउल्ला फैजी, एस एम मोइन, मोलाना रे‍याजूद्दीन, मौलाना अब्बास, मौलाना आफताब ज़िया, मौलाना शाहिद रज़ा, मौलाना गुलाम हैदर, हाफिज जावेद, मौलाना मंज़ूर हसन बरकाती, मौलाना वारिस जमाल, मौलाना नसीम अख्तर ताज, मौलाना शमशाद मिस्बाही, मौलाना नेजाम मिस्बाही, आदी शामिल थे.
मौलाना कुतुबुददीन रिजवी 
9199780992

تلاوت کلامِ الہیٰ کا فائدہ

٭تلاوت کلامِ الہیٰ کا فائدہ٭

پرانے وقتوں کی بات ہے کہیں ایک بزرگ اپنے نوجوان پوتے کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ ہر روز صبح قرآنِ پاک کی تلاوت کرتے تھے اُن کا پوتا ہمیشہ اُن جیسا بننے کی کوشش کرتا تھا۔

ایک دن پوتا کہنے لگا "دادا جان! میں بھی آپ کی طرح قرآن پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی، اور جو سمجھ آتی ہے جیسے ہی قرآن بند کرتا ہوں بھول جاتا ہوں، ایسے میں قرآن پڑھنے سے ہم کیا سکیھتے ہیں؟"

دادا نے خاموشی سے انگارے والی ٹوکری میں سے انگارہ نکال کر انگیٹھی میں ڈالا اور جواب میں ٹوکری پوتے کو دے کر کہا "جا پہاڑ کے نیچے ندی سے مجھے پانی کی ایک ٹوکری بھر کر لا دے۔۔!"

لڑکے نے دادا کی بات پر عمل کیا لیکن گھر واپس پہنچنے تک تمام پانی ٹوکری میں سے بہہ گیا، دادا مسکرایا اور کہا "ایک بار پھر جاؤ اور اِس مرتبہ زیادہ تیز قدم اُٹھانا اور جلدی کرنا۔۔!" اور اُس کو واپس پھر پانی لینے بھیج دیا۔

اگلی بار لڑکا بہت تیز بھاگا لیکن گھر پہنچنے تک ٹوکری پھر خالی تھی، پھولی ہوئی سانسوں سے اُس نے دادا سے کہا کہ "دادا جان! ٹوکری میں پانی لانا ناممکن ہے، وہ بالٹی میں پانی لے آتا ہے۔"

دادا نے کہا، "مجھے پانی بالٹی میں نہیں، ٹوکری میں ہی چاہیے، تم ٹھیک سے کوشش نہیں کر رہے ہو" اور پھر اُسے نیچے بھیج کر خود دروازے میں کھڑا ہو کر دیکھنے لگا کہ وہ کتنی کوشش کرتا ہے۔

لڑکے کو پتہ تھا کہ یہ ناممکن ہے لیکن دادا کو دیکھانے کے لیے اُس نے ٹوکری پانی سے بھری اور انتہائی سرعت سے واپس دوڑا۔ واپس پہنچنے تک ٹوکری میں سے پانی بہہ چکا تھا اور وہ پھر سے خالی ہو چکی تھی۔
لڑکے نے کہا "دیکھا دادا جان! یہ بے سود ہے۔۔۔!"

دادا نے کہا "ذرا ٹوکری کی طرف دیکھو۔۔!"

لڑکے نے ٹوکری کی طرف دیکھا اور اُسے پہلی بار احساس ہوا کہ ٹوکری پہلے سے مختلف تھی، اب وہ پرانی اور گندی ٹوکری کی جگہ اندر اور باہر سے صاف ستھری ہو چکی تھی۔

دادا نے کہا "بیٹا! جب ہم قرآنِ پاک پڑھتے ہیں چاہے ہم اُس کا ایک لفظ بھی سمجھ نہ پا رہے ہوں، یا یاد نہ کر پا رہے ہوں۔ پھر بھی اُس کی بار بار کی تلاوت ہمیں اندر اور باہر سے ایسے ہی پاک صاف کر دیتی ہے۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ ہماری زندگی بدل دیتا ہے۔"

اللہ ہم سب کو معرفت کے ساتھ قرآن پاک کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔آمین

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...