Saturday, August 10, 2019

این آر سی اور این پی آر کی حقیقی صورتحال

این آر سی کا ملک بھر میں نفاذ
حقائق واندیشے
یاسر ندیم الواجدی
میں اپنی تحریر کا آغاز اس دعا کے ساتھ کر رہا ہوں کہ خدا کرے اس کا ایک ایک لفظ آگے چل کر غلط ثابت ہو۔ اس تحریر کے پیچھے یہ نیت ہرگز نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں میں خوف ہراس پیدا کیا جائے، لیکن اگر آنے والے خطرات سے ہم اپنے آپ کو باخبر نہ کر پائے تو پھران خطرات کا مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔
این آر سی یعنی شہریوں کا قومی رجسٹر ایک دستوری عمل ہے، جس کی شروعات آزادی کے بعد 1951 میں ہوگئی تھی۔ لیکن ملک کی کرپٹ سیاست کے نتیجے میں یہ رجسٹر اپ ڈیٹ نہیں ہوا، تا آنکہ اسّی کی دہائی میں، آسام میں یہ مسئلہ اٹھا کہ اس علاقے میں لاکھوں بنگلہ دیشی داخل ہوگئے ہیں اور انھوں نے ووٹر آئی ڈی بھی بنالی ہے، جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کی شناخت اور سیاسی حیثیت متاثر ہورہی ہے۔ سالہا سال کی جد وجہد کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ این آر سی کو اپ ڈیٹ کیا جائے اور اس کا معیار یہ ہو کہ 24 مارچ 1971 سے پہلے سے جو لوگ ملک میں رہتے چلے آرہے ہیں، ان کو ملک کا شہری تسلیم کیا جائے۔ جو افراد بعد میں آئے ہیں وہ غیر ملکی قرار دیے جائیں۔ کہنے کو یہ ایک دستوری عمل ہے، لیکن جس طریقے سے آسام میں مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دینے کے لیے اس ہتھیار کا استعمال کیا گیا، اس کو سمجھنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ملک کے پانچویں صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد کے بھتیجے ضیاء الدین علی احمد بھی اپنے آپ کو بھارتی شہری ثابت کرنے کے لیے بقیہ چالیس لاکھ لوگوں کی طرح ابھی تک جد وجہد کررہے ہیں۔ شہریوں کی آخری لسٹ اگست کے آخر میں آنے والی ہے، جن لوگوں کا نام اس لسٹ میں آجاتے گا وہ خوش نصیب ہوں گے، بقیہ لوگوں کو ہائی کورٹ میں جانے کا اختیار ہوگا، وہاں اپنی شہریت ثابت نہ کر پانے کی صورت میں سپریم کورٹ بھی جانے کا اختیار ہوگا۔
دی کاروان میگزین میں سینیر وکیل سنجے ہیگڈے کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے، جس میں وہ شہریت ثابت کرنے کے لیے قائم ٹربیونلز پر سوالیہ نشان لگاتے ہوے کہتے ہیں، کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کچھ لوگوں کو کانٹریکٹر کی حیثیت سے ملازمت دی گئی ہے، ان کا کوئی قانونی بیک گراؤنڈ نہیں ہے، ان افراد پر سخت دباؤ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو غیر ملکی قرار دیں۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے دو شناخت نامے ثبوت کے طور پر پیش کیے، جن میں سے ایک میں اس کے باپ کا نام محمد فلاں ہے، جب کہ دوسرے میں محد (محمد کا مخفف) فلاں، ٹربیونل افسر دونوں کو یہ کہہ مسترد کردیتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے متعارض ہیں۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے جناب ناظم الدین فاروقی صاحب سے میں نے اس تعلق سے گفتگو کی۔ وہ اپنی تنظیم کے ذریعے ایک عرصے سے ایسے افراد کی مدد کر رہے ہیں جن کا نام این آر سی میں آنے سے رہ گیا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کے لوگوں کو بلا کسی اہلیت کے ٹربیونل افسر بنادیا گیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی زندگی ان کے ہاتھ میں دیدی گئی ہے، ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ اور ان کے وکلاء سخت محنت کے باوجود مطلوبہ نتائج نہ نکلنے کی وجہ سے سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ سنجے ہیگڈے کے مطابق: عدالتوں میں جانے والے افراد کو بھی مایوسی کا سامنا ہے، کیوں کہ ہائی کورٹ نے بھی ٹربیونل کے فیصلوں کو باقی رکھا ہے۔ ان افراد کے پاس اتنی مالی استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ سپریم کورٹ تک چلے آئیں۔ یہ ایک عجیب قانون ہے جس کے مطابق فرد کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بغیر کسی شک و شبہ کے ملک کا شہری ہے، گویا ہر فرد کو یہ تسلیم کرکے چلا جارہا ہے کہ وہ غیر ملکی ہے، لہذا اگر کسی شخص کا نام ابراہیم ہے اور اس کے ایک شناخت نامے میں، یہ نام ای سے شروع ہوتا ہے، جب کہ دوسرے میں آئی سے، تو وہ شخص ان شناخت ناموں کی بنیاد پر اپنے آپ کو ملک کا شہری ثابت نہیں کر پائے گا۔
آسام میں ابھی تک اس طریقہ پر عمل ہوتا آرہا ہے۔ ناظم الدین فاروقی صاحب کے مطابق ستر ہزار سے زائد لوگ ڈٹینشن کیمپوں میں بند کردیے گئے ہیں، تقریبا ساڑھے تین لاکھ لوگ گرفتاری کے خوف سے اپنے گھروں سے فرار ہیں اور بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنے تاریک مستقبل سے مایوس ہو کر خودکشی کر چکے ہیں۔
طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون بنائے جانے اور دفعہ370 کے کامیابی کے ساتھ ختم کیے جانے کی وجہ سے، بی جے پی کے حوصلے بلند ہیں۔ رام ناتھ کووند نے بھی اپنے صدارتی خطاب میں (جو دراصل حکومتی پالیسی سے متعلق ہوتا ہے) کہہ دیا ہے کہ موجودہ حکومت آسام کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کا سلسلہ شروع کرنے جارہی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی تین اگست کی اشاعت کے مطابق: سب سے پہلا مرحلہ این پی آر یعنی نیشنل پاپولیشن رجسٹر کا ہے، جس کا آغاز یکم اپریل دو ہزار بیس سے ہوگا اور تیس ستمبر دوہزار بیس کو یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ این پی آر کے تحت گاؤں گاؤں شہر در شہر عام رہائش پذیر لوگوں کا نام، پتہ، فوٹو اور فنگر پرنٹس کا اندراج ہونا ہے۔ عام رہائش پذیر سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی بھی جگہ چھ ماہ یا اس سے زائد عرصے سے مقیم ہیں۔ این پی آر کے ذریعے ملک میں رہائش پذیر لوگوں کا مکمل "ڈیٹا بیس" حکومت کے پاس آجائے گا، اس کے بعد این آر سی کا عمل شروع ہوگا۔
حکومت نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ کن بنیادوں پر، آسام کے علاوہ ملک بھر میں فرد کو شہری تسلیم کیا جائے گا۔ اگر آدھار کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کی بنیاد پر این آر سی کا عمل ہوتا ہے تو خطرے کی کوئی بات نہیں ہے، لیکن اگر آسام کا طریقہ کار ملک بھر میں نافذ کیا جاتا ہے تو انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ خدا نخواستہ ہمارا منتظر ہے۔
آسام میں ٹربیونل کے تعصب اور ظلم کے علاوہ یہ طریقہ رہا ہے کہ فرد یہ ثابت کرے کہ اس کے پاس 1971 سے پہلے کا جاری کردہ حکومتی شناخت نامہ جیسے پاسپورٹ، برتھ سرٹیفکیٹ، ایل آئی سی وغیرہ موجود ہے یا نہیں۔ وہ افراد جو 1971 سے پہلے پیدا ہوگئے اور ان کے پاس یہ ڈاکیومنٹس موجود تھے اور ابھی تک ہیں وہ شہری تسلیم کیے جائیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص 1951 سے پہلے پیدا ہوگیا تھا اور اس کا نام اُس دور میں قائم ہوے این آر سی میں ہے تو وہ بھی ملکی شہری ہے۔ جو لوگ 1971 کے بعد پیدا ہوے ہیں، ان کے پاس خواہ پاسپورٹ ہی کیوں نہ ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ اپنے پاسپورٹ کو صرف اپنے والدین کا نام ثابت کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ لیکن اپنے کو شہری ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے والدین یا اس کے دادا دادی میں سے کوئی ایک 1951 کے این آر سی میں ہوں، یا کم از کم 1971 سے پہلے ہی آسام میں داخل ہوچکے ہوں۔ لہذا وہ اپنے والدین یا اجداد کے شناخت نامے پیش کرے، جو ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد کے پاس موجود نہیں ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی رہا ہے کہ اگر اس کے والد نے کوئی جائداد خریدی ہے تو اس کے کاغذات پیش کیے جائیں، جائداد اگر 1971 کے بعد خریدی گئی ہے تو کاغذات میں دادا کا نام ہوگا، لہذا دادا کے نام سے اگر کوئی جائداد 1971 سے پہلے کہیں رجسٹرڈ تھی تو اس کے کاغذات پیش کیے جائیں۔ اس طرح وہ شخص اپنے کو ملکی شہری ثابت کرسکتا ہے۔
ملکی پیمانے پر ہونے والے رجسٹریشن میں اگر اسی طریقے کو اپنایا گیا اور 1971 کو معیار مان لیا گیا تو بھی مصیبت چھوٹی نہیں ہے، لیکن اگر 1951 کو معیار مان لیا گیا تو کروڑوں لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ فوری طور پر اپنی اور اپنے آبا واجداد کے نام جائدادوں کے کاغذات تلاش کیے جائیں، ظاہر ہے کہ جن کی جائدادیں اور مکانات جدی ہوں گے وہی یہ کام کرسکتے ہیں، بقیہ لوگ کم از کم اپنے تمام شناخت ناموں اور ووٹر آئی ڈیز میں نام کی اسپیلنگ درست کرائیں۔ کیوں کہ حکومت کی جانب سے جب این آر سی کے لیے طریقہ کار کا اعلان ہوگا اور قابل قبول ڈاکیومنٹس کی لسٹ جاری ہوگی، اس وقت رشوتوں کا بازار گرم ہوچکا ہوگا، سرکاری ملازم معمولی تصحیح کے لیے ہزاروں نہیں شاید لاکھوں اینٹھ رہے ہوں گے۔
جو لوگ آسام میں آخری لسٹ کے مطابق اپنے کو شہری ثابت نہیں کرپائیں گے وہ بقیہ ستر پچھتر ہزار لوگوں کی طرح ڈٹینشن کیمپس میں ڈال دیے جائیں گے، جس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ وہ ووٹنگ کے حق سے تو محروم ہیں ہی، اپنے ہی مکانوں کے مالکانہ حق سے بھی محروم ہوں گے اور بنگلہ دیش کے بہاری نژاد افراد اور برما کے روہنگیا کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے۔ آسام کے فینانس منسٹر نے ایک انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو ووٹ اور مالکانہ حق سے محروم کردیں گے۔
یہی طریقہ کار اگر خدا نخواستہ ملک بھر میں نافذ کیا گیا اور مشہور صحافی ونود دووا کے مطابق کروڑ دو کروڑ مسلمان اپنے کو شہری ثابت نہ کر پائے تو یہ انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہوگا۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا اس لیے ہے کہ بی جے پی حکومت "سیٹیزن شپ امینڈمنٹ بل" بھی پیش کرنے جارہی ہے، جس کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم اگر اپنے کو شہری ثابت نہیں کر پایا تو ملک میں سات سال رہنے کی بنیاد پر اس کو شہریت عطا کردی جائے گی۔ یہ قانون جہاں ایک طرف شہریوں کے درمیان امتیازی سلوک کا سب سے بڑا مظہر ہوگا، وہیں کتنے ہی مسلمان مجبورا اسلام ترک کرکے کوئی دوسرا مذہب بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ شدت پسند تنظیموں کے لیے عام مسلمانوں کی "گھر واپسی" ایک دیرینہ خواب ہے۔
میری درخواست ہے کہ تمام ملی تنظیمیں اس تعلق سے مل بیٹھیں اور متحد ہوکر تمام امکانات کا جائزہ لیں اور آنے والی ممکنہ مصیبت سے پہلے ہی مکمل تیاری کرلیں۔ اس کے لیے عام مسلمانوں کے کاغذات کی تیاری میں تعاون بھی اپنے ایجنڈے میں شامل رکھیں، ہر تنظیم اگر اپنے طور پر یہ کام کرے گی تو اتنا موثر نہیں گا۔ جو لوگ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں وہ سب سے پہلے تو یہ دعا کریں یہ سب باتیں جھوٹی نکلیں، دوسرے نمبر پر وہ اپنے کاغذات کی تیاری کے لیے کمر کس لیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اسی وقت آتی ہے جب انسان خود متحرک ہوتا ہے حسبنا اللہ نعم الوکیل

حوصلے پست نا کریں اور اس تحریر کو بھی پڑھیے۔

این آر سی ہمیں ڈاکومنٹڈ بنائے گی۔

تفصیلات سے قطع نظر مسلمان جس طرح NRC پر واویلا کر رہے ہیں اس تو یہ لگتا ہے کہ وہ خود ہی طے کر چکے ہیں کہ ان کو پریشان کیا جائے اور ان کی شہریت سلب کر لی جائے۔
بھائیو آسام کی نوعیت دوسری ہے، اس پر دوسری ریاستوں کو قیاس نہ کریں، اگر ہوا بھی تو اسکی نوعیت آسام کی سی نہیں ہو گی۔ پھر کیا آسام میں بڑی فہرست ہندووں کی بھی متاثرین میں نہیں ہے۔ تو آخر مسلمان سب کچھ سب سے پہلے اپنے ذمہ کیوں لے لیتا ہے اگر چہ وہ اصل نشانہ بنتا ہے ۔
البتہ آسام کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت اہم ہو گا، ابھی یہ فیصلہ نہیں آیا ہے اور نہ ہی بل پاس ہوا ہے۔ مگر افواہ ہے کہ فیصلہ بھی آ چکا اور بل بھی پاس ہو گیا ۔ جبکہ ابھی صرف زبانی اظہار ہوا ہے ۔ لوگوں نے جیسے طے کر لیا ہے کہ ہم خود ہی تم کو بتائیں گے کہ ہم کتنے خوفزدہ ہیں اور تم کیسے ہم کو پریشان کر سکتے ہو۔
بالفرض اگر جن خطرات کا اظہار شد و مد کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ حکومت کرنے پر آمادہ ہو جائے تو کون کاغذات تیار کروا لے گا اور کون دے گا کاغذات بنا کر ۔
ارے بھائی یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے ۔ یہ طے کرو کہ ملک گیر سطح پر اگر ایسا قانون آتا ہے تو ہم پوری طاقت سے اس کو ریجیکٹ کریں گے اور کسی حال میں نہیں مانیں گے ، سسک کر مرنے سے بہتر ہے حق کی لڑائی لڑتے ہوئے جان دے دینا۔ آڈیو کے ذریعہ افواہیں پھیلانے والوں کو پکڑ کر جوتے لگانا بہتر ہے۔  ارے سیدھی سی بات ہے کہ اگر قانون اس لیے لایا جائے کہ سب کچھ آپ ڈیٹ ہو جائے تو ٹھیک ، اور اگر اس لیے لایا جائے کہ دو چار کروڑ کو سسکنے کے لیے چھانٹنا ہے تو پھر ایسے قانون کو ماننا گویا کئی نسلوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنا ہو گا ۔ اس لیے پھر سسک سسک کر مرنے سے بہتر ظلم کے خاتمہ کے لیے اور حق کے حصول کے لیے جان دینا ہوگا ۔ آپ نہ صرف ملک گیر بلکہ عالمی سطح کے احتجاج کا ابھی سے موڈ بنا لیجئے بس ۔ باقی اہم دستاویز و کاغذات تو نارمل حالات میں بھی گھر میں ہونا ہی چاہیے۔   
باقی NPR ہونا ہے ، وہ کوئی نئی چیز نہیں ۔ ہوتا آیا ہے مردم شماری کا عمل مگر اس بار کچھ نئے کالم کے ساتھ ہو گا۔ اس میں بالکل مت چوکیے ۔
طارق ایوبی۔
آنکھیں بند کر سونے سے پہلے اسے بھی پڑھیں ایک بار

Thursday, August 8, 2019

جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے

جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے 

جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے یا امت مسلمہ کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ہم جیسے مولوی باہر آجاتے ہیں
أور کہتے ہیں یہ بددین حکمرانوں کی وجہ سے ہے أور ساری ذمہ داری حکمرانوں پہ ڈال دیتے ہیں لیکن کبھی ہم نے یہ کہا کہ أیسے حکمران أور پھر أیسی ذلت و رسوائی ہم مولویوں کی وجہ سے ہے کیونکہ:
ہم نے قرآن کریم کے لقب" مسلمان" کو ناکافی سمجھتے ہوئے  حق و باطل کی پہچان کے لیے ساتھ أور لاحقے لگالیے۔
-ہم نے أپنے سواء سب پہ کافر کافر کے فتوے لگائے ہوئے ہیں أور موجودہ دور میں کافر لفظ کی جگہ ہم "بدعقیدہ/ بد مذہب " کا لفظ استعمال کرتے ہیں تاکہ ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں کچھ بدعتی استعمال کرتے ہیں.
- جب ہم مولویوں کے ہاں ہمارا مخالف مسلک بدعقیدہ/بدمذہب/بدعتی ہے تو پھر  ہم مولوی أسکے ساتھ درج ذیل معاملات کا حکم دیتے ہیں:
- بد عقیدہ کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی.
بد عقیدہ کے ساتھ قربانی نہیں کی جائے گی.
-بدعقیدہ کے ساتھ شادی نہیں ہوسکتی.
بد عقیدہ کے ساتھ معاملات نہیں ہوسکتے.
-بدعقیدہ کی مساجد مساجد ضرارا ہیں.
- بد عقیدہ/ بد مذہب کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی
-بدعقیدہ مسلک کا عالم کافر سے بھی بدتر ہے أور بعض تو  مشرک بولتے ہیں.
( العیاذ باللہ)
أور پھر توہین علماء کے فتوے عام لوگوں پہ لگاتے ہیں یہ نہیں کہتے کہ علماء کی توہین سب سے زیادہ تو ہم مولوی ہی کرتے ہیں۔
-مساجد کی توہین ہم کرتے ہیں ، علماء کی توہین ہم کرتے ہیں ، دینی کتب کی توہین ہم کرتے ہیں ، دینی محافل کی توہین ہم کرتے ہیں ، مدارس کی توہین ہم کرتے ہیں سب توہینوں کے مرتکب ہم مولوی ہیں اور فتوے لبرل پہ لگاتے ہیں ۔۔
-مسلمانوں کے مسلکی اتحاد کی بات کرنے کو حرام قرار دیتے ہیں أور منافقت سے تعبیر کرتے ہیں
لیکن بد عقیدہ کا پیسوں والا چیک حلال ہے أس وقت استفسار نہیں کرتے کہ یہ کس بدعقیدہ مسلک کا ہے۔۔
ہم مولوی الا بعض کے بڑے دوغلے ہیں کبھی نہیں کہتے یہ ذلت و رسوائی ہماری وجہ سے ہے حکمرانوں کی وجہ سے نہیں ۔۔
أور عوام ہمیں آپسی اختلافات کی وجہ سے منتخب ہی نہیں کرتی أور یہی اللہ رب العزت کی پکڑ کی علامت ہے۔۔
لیکن دوسری طرف عوام اتنی بیوقوف ہے کہ وہ ہم مولویوں کی ہر بات پہ اعتبار کرلیتی ہے أور ذمہ دار حکمرانوں کو سمجھتی ہے۔۔۔۔۔
ہم مولویوں پر افسوس!
اب پکار رہے ہیں سعودیہ کو ، حکومت کو لیکن مجال ہے کہ ہم أپنی حرکتوں کی اصلاح کرلیں۔۔۔۔
یا اللہ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں ہمیں معاف فرمادے اور ہمارے کشمیری بھائیوں کی حفاظت فرما....
آمین یا رب العالمین۔
ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)


Wednesday, August 7, 2019

یہ عبرت کا وقت ہے۔

اس مضمون کو ضرور پڑھیں __ مکمل پڑھیں
دارالعلوم دیوبند کی لائبریری پر ہی نشانہ کیوں؟ نئے نئے قوانین کیوں پاس کرائے جارہےہیں؟ آج ملک کے حالات اسقدر خطرناکی پر کیسے چلے گئے، ہماری کوتاہیاں کیا ہیں؟ اور اب علاج کیا ہے؟ 

   ملک کی نازک ترین صورت حال
اس وقت ملک آزادی کے بعد سے اب تک کی تاریخ میں سب سے زیادہ پُر خطر اور نازک صورت حال سے گذر رہا ہے، یہ حالات یوں ہی نہیں آئے ہیں بلکہ غیروں کی شبانہ روز محنتوں اور منظم کوششوں اور ہماری غفلت اور غلط پالیسیوں کے نتیجہ میں ہم پر مسلط ہوئے ہیں، یہ موقع اسباب و احتساب کا نہیں بلکہ مستقبل کے تحفظ کے لیے خاکہ تیار کرنے کا ہے، کیوں کہ اسباب و احتساب کی بحث چھڑی تو ہماری رگِ اختلاف پھڑکے گی، ہم وقت و حالات کی نزاکت سے قطعِ نظر مخاصمت و مخالفت سے باز نہ رہ سکیں گے۔
*پارلیمنٹ کے اس سیشن میں تین قانون پاس ہوئے ہیں، UAPA قانون محض مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے اور انھیں بلا دلیل دہشت گرد بنا کر جیلوں میں ٹھونسنے کا ایک ذریعہ ہے،* RTI قانون میں ترمیم کے ذریعہ حکومت نے اپنے آپ کو بالکل ہی محفوظ (Secure) کرلیا ہے، طلاقِ ثلاثہ قانون نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دینے کا الارم بجا دیا ہے، یہ اب تک کا سب سے لولا، لنگڑا، گنجلک اور غیر واضح قانون ہے، طلاق واقع نہیں ہوگی مگر مرد کو سزا ملے گی، نفقہ دینا پڑے گا، پھر سزا کاٹنے کے بعد اسی خاتون کے ساتھ رہنا ہوگا، اس درمیان متاثرہ خاتون اور بچوں کا ہر ممکن استحصال ہوگا، اس کی ذیلی شقوں کی رُو سے قانون حضانت، قانون نفقہ اور خلع کے ساتھ طلاق بائن کی ہر شکل کو کالعدم قرار دے دیا گیا، صرف طلاق رجعی کی اجازت دی گئی ہے جس کا اختیار بہرحال مرد کو ہے، مگر اس صورت میں عورت کیا کرے گی جب وہ صرف طلاق بائن اور خلع کا مطالبہ کرتی ہے، اس صورت میں کیا ہوگا، بہرحال اس موضوع پر مجھے یہاں کچھ نہیں عرض کرنا ہے، جو کچھ لکھنا تھا وہ ہم ۲۰۱۶ء میں لکھ چکے، بحمد للہ اہل علم نے اس کی پذیرائی کی تھی مگر افسوس کہ ارباب اختیار نے طالب علمانہ معروضات کو کوئی اہمیت نہ دی، اب بھی اگر طلاق ثلاثہ کے عنوان سے کوئی مہم چلائی گئی تو صرف قومی سرمایہ برباد ہوگا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا، اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اگر اس قانون کی ذیلی شقوں کو خواتین کی تنظیموں کے ذریعہ چیلنج کیا جائے تو کچھ بات بن سکتی ہے، کیونکہ اس صورت میں بات وزن دار ہوگی جبکہ طلاق ثلاثہ کا عنوان ہی ہمارے موقف کو بے وزن کردیتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کا ایجنڈا رکھتی ہے، طلاق ثلاثہ کا قانون لوگوں کے بقول اس کی طرف ایک قدم ہے، لیکن مجھے اس سے اختلاف ہے، بی جے پی کا مقصد صرف مسلمانوں کو پریشان کرنا اور مفلوج کرنا ہے، یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ دیگر وجوہات اور بالخصوص ہندوئوں کے مختلف طبقات کے پیش نظر بہت مشکل ہے اگرچہ ناممکن نہیں، طلاق ثلاثہ قانون کے لیے بی جے پی آخر اس قدر بے تاب کیوں ہوئی؟ اس کے جواب میں بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کے دراصل اس چیلنج کا بی جے پی نے جواب دیا جو ’’دین دستور بچائو تحریک‘‘ کے ذریعہ بار بار کیا گیا کہ ’’شریعت میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘، اس میں شدت اس لیے آئی کہ بورڈ کے مؤقر اسٹیج سے وامن میشرم کو بار بار خطاب کا موقع دیا گیا اور انھوں نے کھل کر برہمنزم کے خلاف بات کی، یونیفارم سول کوڈ پر واویلا کیا، بی جے پی کو لعن طعن کیا، یاد رکھنا چاہیے کہ اقلیت میں رہنے والی قومیں چیخ پکار اور زبانی چیلنج سے نہیں مضبوط حکمتِ عملی اور خاموش حکمت سے مورچے فتح کیا کرتی ہیں، یہاں تو پشت پر کوئی سہارا بھی نہ تھا، گرتی ہوئی دیوار کا سہارا لینا اور اس کو سہارا دینا دونوں ہی حکمتِ عملی کے خلاف ہے اور پھر اس کے علاوہ ہم نے کوئی آپشن تیار بھی نہیں کیا، سوچیے ذرا طلاق بل پر راجیہ سبھا سے تمام سیکولر پارٹیوں نے واک آئوٹ کیا، آخرکیوں؟ UAPA بل کی لوک سبھا میں کانگریس نے مخالفت کی مگر راجیہ سبھا میں سپورٹ کیا، آخر کیوں؟ غور کیجئے بہت سے عقدے کھلتے چلے جائیں گے۔
*حیرت کی بات یہ ہے کہ NRC کا بل بھی پاس ہونے کی تیاری ہے، اس قانون کے تحت خبروں کے مطابق آئندہ یکم اپریل سے سیٹزن شپ کا رجسٹریشن شروع ہوگا اور اس میں ایسی پیچیدگیاں پیدا کی جائیں گی کہ کروڑ دو کروڑ مسلمانوں کی نیشنلٹی پر سوالیہ نشان لگا کر انھیں بے گھر کردیا جائے گا، بلکہ بہت ممکن ہے کہ ایسی فہرست تیار کرلی گئی ہو کہ کس کس کو اس کی زد میں لینا ہے، اس کے بعد کا منصوبہ مزید خطرناک ہے، ہم بار بار چیختے رہے، ہمارے طالب علمانہ اداریے اس کے گواہ ہیں، مگر ارباب اختیار نے کبھی گفتگو کے لائق بھی نہ سمجھا،* اب ہم طلاق کے عنوان سے آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں، ابھی تک اسی کے پیچ و خم میں الجھے ہوئے ہیںجبکہ حکومت نے ہمارے تشخصات کو ختم کرنے، بڑے پیمانے پر بے گھر کرنے، قتل عام کرنے کے بڑے بڑے منصوبے تیار کرلیے ہیں، سب کچھ بہت منظم انداز میں ہوگا، آپ کی شہنائیاں بھی بجتی رہیں گی، پیٹ پوجا بھی چلتی رہے گی، جلسے بھی ہوتے رہیں گے، جشن کی تیاریاں بھی جاری رہیں گی اور پریشانیوں کا دائرہ بھی تنگ ہوتا رہے گا، *دیکھا نہیں آپ نے کہ آپ تین طلاق پر ماتم کرتے رہے، جوہر یونیورسٹی اور دیوبند کے وقار پر بٹہ لگنے کا سوگ مناتے رہے اور ادھر کشمیر میں دفعہ ۱۴۴ نافذ ہوگئی، انٹرنیٹ سروسز بند ہوگئیں، اور پھر صبح کو راجیہ سبھا میں صدارتی حکم کے ذریعہ دفعہ 870 اور 35A کو کالعدم دے دیا گیا، آئندہ مزید کیا ہوگا کچھ نہیں کہا جاسکتا، مجھے یقین ہے کہ اس بار ۱۵؍ اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے ملک کی جمہوریت کو ڈکٹیٹرشپ میں تبدیل کرنے والے خطرناک اعلانات ہونے والے ہیں، کشمیر کا تشخص ختم کرنا اس جانب پہلا قدم ہے۔*
*ہم نے بار بار لکھا کہ بدلتے ہوئے ہندوستان میں مدارس کے تحفظ کے تئیں ہم کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں، سال دو سال قبل ہم نے لکھا تھا، کہ اور مجلسوں میں تو بار بار کہا تھا کہ بی جے پی اگر دوبارہ اقتدار میں آئی تو کھل کر مدارس پر ہاتھ ڈالے گی، جس کی ابتدا وہ پہلے ہی کر چکی تھی، مگر کسی نے نہ سنا، اب صورت حال یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند جیسے ادارہ کی لائبریری کی عمارت کو انکوائری کا موضوع بنایا گیا، انکوائری کے لیے پوری طرح فورسز بھیجی گئیں، یہ ایک پیغام تھا کہ جس کو تم سب سے زیادہ محفوظ و محترم سمجھتے ہو، جس پر تمہیں سب سے زیادہ ناز ہے دیکھو وہ بھی ہماری دسترس سے باہر نہیں، ورنہ ایک تعمیراتی کام کی انکوائری کے لیے ایسے فورس نہیں بھیجی جاتی، پھر ملک بھر میں کتنے مٹھوں، مندروں، گردواروں اور نجی عمارتوں اور گھروں کے نقشے پاس کرائے جاتے ہیں، حقیقت میں ایک فیصد لوگ بھی نقشہ پاس نہیں کراتے، پاس کرانے میں اتنی شقیں ہوتی ہیں اور قانونی پیچیدگیاں اور مطالبات ہوتے ہیں کہ جو لوگ پاس بھی کراتے ہیں وہ رشوتیں دے کر کراتے ہیں، آفیسر بدلتے ہیں تو کبھی بھی پھر رشوت کا بھوت منہ پھاڑ دیتا ہے، اس جنگل راج میں صرف دارالعلوم کی لائبریری کیوں نظر آئی؟ سوال ہے غور و فکر کے لیے۔*
اس کے علاوہ بھی متعدد مدارس کے متعلق رپورٹ ملی ہیں جہاں پولیس پہنچ چکی ہے، اول تو ملک میں رہ کر ملک کے قانون کی خلاف ورزی خود ایک جرم ہے، دوسرا جرم وقت رہتے تحفظ کی فکر نہ کرنا ہے۔
*رامپور کی عظیم الشان محمد علی جوہر یونیورسٹی پر بلڈوزر چلانے کے لیے دشمن بے تاب ہے،* اعظم خاں یا ان کی پارٹی سے مجھے کوئی سروکار نہیں بلکہ میں تو ہمیشہ ان کی پارٹی اور ان کا ناقد رہا، مگر اس یونیورسٹی کی تعمیر یقینا مستقبل میں ایک تاریخی کارنامہ شمار کیا جائے گا، اس کی بربادی کے تصور سے بھی نیند اڑ جاتی ہے، یاد رکھیے کہ اگر جوہر یونیورسٹی برباد ہوئی تو پھر ہمارے ادارے اور ہماری تنظیمیں بھی محفوظ نہیں، اعظم خاں سے سینکڑوں اختلاف ہوسکتے ہیں اور ان کی ہزاروں غلطیاں بھی ہیں، مگر اس وقت موقع دوسرا ہے، ترجیحات دوسری ہیں، اس وقت جوبھی زبان کھولے گا اس کی فائلیں کھولنے کا کھیل شروع ہوچکا ہے، اعظم خاں ایک قد آور لیڈر تھا، وہ ٹوٹ گیا اور اس کی یونیورسٹی ٹوٹ گئی تو بہت کچھ ٹوٹنے میں دیر نہیں لگے گی، اس لیے اس وقت اس کی حفاظت ملی فریضہ ہے، *اس وقت سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کو ہراساں کرنے کا طریقہ یہ اپنایا گیا ہے کہ ہر ایک پیچھے ایجنسیاں لگا دی گئی ہیں، اب جس کی کچھ بھی غلطی ہے وہ بولنے اور کچھ کرنے سے قاصر ہے، خواہ وہ غلطی محض الزام ہو یا واقعی غبن، غصب، بے جا استحصال اور اوقاف میں خُرد بُرد حقیقتِ واقعہ ہو، یہی لوگ آئندہ حکومت کے مواقف کے ترجمان بنیں گے، ’’وعدہ معاف گواہ کا قاعدہ بہت پرانا ہے‘‘، اس وقت بولنے کی اجازت صرف اس کو ہے جس کا بولنا حکومت کے لیے کار آمد ہے، یہ کبھی یوں کار آمد ہوتا ہے کہ بی جے پی کمیونل چہرے کے طور پر عام ہندوئوں کو دکھاتی ہے، کبھی عالمی منظر نامہ پر اقلیت کے انٹیلکچول چہرے کے طور پر استعمال کرتی ہے، بہت سے بولنے والے ہیں، جن کی صبح و شام مخالفت کے باوجود نہ بی جے پی ان پر کان دھرتی ہے، نہ ان کو چھیڑتی ہے اور نہ کوئی فائدہ ہی ہوتا ہے، اس وقت ضرورت ہے کہ ایسے تمام لوگوں سے امیدیں توڑ کر سماج کے وہ لوگ میدان میں آئیں جن کی نہ کہیں فائلیں ہوں نہ ان کی دُم دبی ہو، جو کچھ دور چلنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہوں، ایسے لوگ اپنے قائدین سے مل کر مستقبل کا لائحہ عمل بنائیں،*
*یاد رکھیے اس وقت ایمان اور شریعت پر عمل کے علاوہ تین چیزیں مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرسکتی ہیں،*
*ان میں سے پہلی چیز* مسلکی عصبیت اور سلکی تنگیوں سے باہر آ کر شریعت کی وسعتوں کو ملحوظ رکھنا، *دوسرے* تمام لوگوں کا متحد ہونا، *تیسرے* دیگر اقدامات کے ساتھ سڑک کی لڑائی (Street Fight)، جمہوریت اور اقلیت میں یہ تینوں ہی چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں، اگر ان کی اہمیت کو اب بھی نہ سمجھا گیا تو اگلے چند مہینے بہت اچھی طرح سمجھا دیں گے۔ (اللہم احفظنا من کل شر و مکروہ)
*مودی کے دورۂ اسرائیل کے وقت جب وہ فلسطینی مظلوم بچے سے نہیں ملا تھا تو کچھ عقل کے مارے اس پر واویلا کر رہے تھے، اس وقت ہم نے لکھا تھا کہ* ہر ملک اپنی خارجہ پالیسیوں میں اپنے مفادات کو سامنے رکھتا ہے، ہندوستان کی خارجہ پالیسی بھی اپنے مفادات پر مبنی ہوتی ہے، جب تک خلیجی ممالک کی اسرائیل سے دوستی ڈھکی چھپی تھی یا تعلقات مخالفت کے پردہ میں استوار تھے تب تک یہاں کی خارجہ پالیسی میں بھی اسرائیل کو وہ مقام حاصل نہ تھا، جب ذرا تعلقات میں وسعت آئی، سعودیہ میں امریکی فوجی اڈہ قائم ہوا تو ہندوستان میں اسرائیلی سفارت خانہ کھلا اور جب سعودیہ امارات اسرائیل کے سامنے برہنہ ہوکر سامنے آگئے تو ہندوستان کے فرسٹ رینک کے آفیسر اسرائیل ٹریننگ کے لیے جانے لگے، جب ہم نے عرب ممالک کی پالیسیوں پر نقد کیا تو بعض عقل کے کورے کہنے لگے اپنے ملک کے حالات سے بے خبر چلے ہیں دنیا پر تنقید کرنے، ذرا غور کیجئے تو جس تیزی کے ساتھ سعودیہ و امارات کی پالیسیاں بدلی ہیں اور اسرائیل سے تعلقات استوار ہیں اسی تیزی کے ساتھ وطن عزیز کے حالات اور پالیسیوں میں تبدیلی آئی ہے، سوچیے ہم جس اسلام کی یہاں تصویر پیش کرتے ہیں اس کے برخلاف مسلم ممالک کا کیا رویہ ہے اور سعودیہ کس راہ پر چل پڑا ہے، *جب سعودیہ مفتی عام اسرائیل سے جنگ کو حرام کہے، حماس کے خلاف متحد ہونے کو ملی فریضہ کہے، جب سعودیہ تجزیۂ نگار کساب العتیبی منصوص مسجد اقصیٰ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اسے محلے کی مسجد قرار دے، جب سعودی بلاگر محمد السعود اسرائیل سے مسجد اقصیٰ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کی درخواست کرے تو پھر اس ملک کی حکومت جو کچھ کر رہی ہے اس پر تعجب کیسا؟* پارلیمنٹ میں اگر اویسی کو مسلم ممالک کی مثال دی جائے تو تعجب کیسا؟ کل تک تو آپ کہتے تھے کہ عرب ممالک کی پالیسیوں پر تنقید کرنا ہی فضول ہے، ہم نے تو پہلے اور بہت پہلے لکھا تھا کہ ہندوستان آج بھی مسلمانوں کے لیے دنیا بھر میں سب سے پرسکون ملک ہے، جس قدر اپنے تشخص کے ساتھ مسلمان یہاں رہتا ہے دنیا کے کسی ملک حتی کہ سعودیہ میں بھی نہیں رہتا ہے، ہم نے لکھا تھا کہ ضرورت ہے کہ اس کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں کیونکہ یہود جو اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں ان کو یہ کبھی بھی گوارا نہیں، آخر وہ سب کچھ رفتہ رفتہ آنکھوں کے سامنے ہے، *جس تیزی کے ساتھ عربوں کے تعلقات اسرائیل سے بڑھے، اسی تیزی کے ساتھ ہند- اسرائیل دوستی میں اضافہ ہوتا گیا، اس وقت وہ اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، اور اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی دوستی اور سرپرستی کا نتیجہ ہے، کیونکہ نسل پرست کی دوستی نسل پرست سے ہی ہوسکتی ہے* اور قرآن مجید کی زبان میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ کچھ یہی کہانی سناتی ہے لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین اٰمنوا الیھود والذین اشرکوا۔
*یہ باتیں میں نے اس لیے لکھی ہیں اور ان کی فوری اہمیت اس لیے ہے کہ ابھی یکے بعد دیگرے کئی قوانین میں ترمیم کی تیاری ہے،* سب سے اہم ترمیم سوسائٹی ایکٹ سے متعلق ہے، کسی بھی قوم کی کمر توڑنے اور اس کی ترقی پر قدغن لگانے کا آسان طریقہ ہے کہ اس کی تنظیموں کو ختم یا محدود کردیا جائے، اگر تنظیموں پر ہاتھ ڈالا گیا تو صرف ہمارا اتحاد ہی ہمیں بچا سکتا ہے، جس طرح مختلف فیہ مسائل میں ہاتھ ڈالا گیا تو صرف شریعت کی وسعتیں ہی تحفظ فراہم کرسکتی ہیں کیونکہ یکے بعد دیگرے مسائل کھڑے کرنے کی مکمل تیاری ہے۔
اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ یہ وقت ہے رجوع و انابت الی اللہ کا، شریعت کو گلے لگانے کا یہ وقت ہے اتحاد امت کا، اپنی روش کو بدلنے اور اپنے رویّہ کو درست کرنے کا، اب بالکل بھی وقت نہیں بچا ہے، اگر اب بھی کوئی خاکہ اور لائحہ عمل نہ تیار کیا گیا تو اس ملک میں آئندہ طویل عرصہ تک ہماری نسلیں غلام ہوں گی۔
ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی 
مدیر: ماہنامہ ندائے اعتدال، علی گڑھ

Tuesday, August 6, 2019

What’s the need to slaughter millions of animals on the Eid day?

QuestionerWhat’s the need to slaughter millions of animals on the Eid day? Wouldn’t it be better to use the money and open up schools and hospitals in the country where people need such services?





Moderator: I just want to add that in the Quran it says that neither the blood nor the flesh of the animal slaughtered reaches God but it’s your Taqwa (God Loving and Fearing attitude) (that reaches God).

JavedAhmad Ghamidi:  Behind this, what’s at work, is the understanding of existence of God. We live in this world with relations. I have a relationship with my mom, my dad etc. It’s quite possible that there are certain expectations and demands from me by my relatives or my country or my nation.

I also have a relationship with God which is the most significant relationship in my life because He is my Creator. It is important that there’s an expression of this relationship.

A human being does not only have an external existence, he/she also has an internal truth. Notice that you held a large parade just recently, you commemorated the war of September, you celebrated Independence Day… Why, what’s the reason? You spend billions on these events too. The reason is that you can observe the nation, you can feel the belonging to your country and freedom has a factual testimony rooted in reality for you.
The relation with God, on the other hand, has not remained a fact of life with you nowadays. So if you want to strengthen your relationship with God, then look at the philosophy behind this (Qurbani).
The philosophy is such that one would say, ‘O my Lord, you have created this world in which there’s a tension/struggle between me and the Satan. (You want me to be good whereas Satan invites me to be arrogant and rebel against you). Therefore, I forward myself (my own life) to you in this war’. This act (of slaughtering an animal for God) becomes a significantly important gesture (and metaphorical substitute to presentation of our own life in the way of God).

Because we are not aware of it’s reality and do not have the knowledge and understanding of our relationship with God, we ask such questions. We have to lead balanced lives, meaning that we should express our relationship with God as well as with parents and nation and country.

The result of putting a stop for doing this act does not mean that that money will go somewhere else. When we talk about a human being, all aspects of a human life gets manifested. When I do things for my mother, for my wife, for my dad, for my country; you will not ask this question there. You will speak of emotions and sentiments to justify.

A similar thing happens here. You are presenting life as a substitute of your own life to God. Before getting into such discussions with people, ask them to have an understanding of God and their relationship with God. Then provide that space for this relationship, which is necessary. Then you will realize that the largest space in your life deserves to be for God. That’s when you will not think this way. We are to feed people, establish schools and other such works. You should be content that people have much higher potential than this. Once the right emotions and understandings are founded and triggered, then they will spend for other humanitarian works too. But the emotion and sentiment that’s kept alive here is not to be taken for granted.


(Translation : by Wais Popalyar)

Hi, dear if you think that this article is good and advantageous so kindly comment and share. Thanks

Articles Hub: What’s the need to slaughter millions of animals o...: why is qurbani? Questioner : What’s the need to slaughter millions of animals on the Eid day? Wouldn’t it be better to use the money a...

Monday, August 5, 2019

کیا روحانی قربانی جائز ہے ؟


جب ایک دوست نے یہ سؤال کیا تو مجھے کچھ دیر کے لیے ہنسی آئی أور عرض کیا جی جائز ہے لیکن شرط کے ساتھ ،
پہلے تو یہ بات یاد رکھیں کہ روحانی قربانی سے مراد وہ قربانی ہے جو میت کی طرف سے کی جاتی ہے۔
أور تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ أگر میت نے نذر مانی ہو یا وصیت کی ہو تو أسکی طرف سے قربانی كرنا واجب ہے لیکن أسکے مال کے ثلث ( تہائی )مقدار تک أگر ورثہ إجازت نہ دیں ، أور أگر إجازت دے دیں تو پھر جتنے کی بھی قربانی آئے کریں گے۔۔۔
اختلاف أس وقت ہے جب میت نے نذر نہ مانی ہو أور نہ ہی وصیت کی ہو تو جمہور فقہائے کرام جیسے أئمہ حنفیہ وغیرہ کے ہاں جائز ہے
أور یہی حضور صلی الله علیہ وسلم أور صحابہ کرام کے فعل سے ثابت ہے لیکن إس میں بھی شرط یہ ہے کہ وہ أسکو واجب قربانی کی جگہ متبادل سمجھ کر نہ کرے کیونکہ روحانی قربانی نفل ہے أور زندہ کی طرف سے قربانی واجب ہے عند الحنفیہ وروایہ عن إمام احمد وقول عند المالکیہ ومن وافقہ اور باقیوں کے ہاں سنت مؤکدہ ہے
ہاں أگر واجب قربانی بھی کرتا ہے أور پھر میت کی طرف سے روحانی قربانی بھی کرتا ہے تو جائز ہے۔

( مذہب حنفی بدائع الصنائع میں دیکھ سکتے ہیں ، فصل شرائط جواز اقامۃ الواجب فی الاضحیۃ، ج :5 ، ص :72 )

لہذا أگر استطاعت ہو تو روحانی قربانی کے لیے جانور میں حصہ ڈال سکتا ہے یا جانور خرید سکتا ہے أور أسکا ثواب بھی پہنچے گا۔
أگر واجب قربانی چھوڑ کر روحانی قربانی کرتا ہے تو تب بھی میت کو ثواب پہنچے گا لیکن روحانی قربانی کے مقابلے میں واجب کو ترک کرنا جائز نہیں أور نہ ہی سنت مؤکدہ کو۔

حضور صلی الله علیہ وسلم کا عمل مبارک سنن دار قطنی ،حدیث نمبر: 4761 میں صراحتاً مذکور ہے أور سنن ترمذی و ابن ماجہ میں بھی ہے ، حدیث حسن ہے.
أور صحیح مسلم ، حدیث نمبر 1967  میں ہے:
" باسم الله ، اللهم تقبل من محمد وآل محمد ، ومن أمة محمد ثم ضحى به"

ترجمہ: اللہ کے نام سے ،ائے اللہ! محمد - صلی اللہ علیہ وسلم- کی طرف سے أور محمد کی آل کی طرف سے أور محمد کی امت کی طرف سے قبول فرما ، پھر آپ نے ذبح فرمایا.
مولا علی رضی اللہ عنہ کا عمل السنن الکبری للبیہقی ، حدیث نمبر: 19188 میں مذکور ہے ،
أور إمام بیہقی نے فرمایا:
تفرد به شريك بن عبد الله بإسناده ، وهو إن ثبت يدل على جواز التضحية عمن خرج من دار الدنيا من المسلمين.

قلت: ثبت أصلها من نبينا صلى الله عليه وسلم وكفانا الثبوت منه صلى الله عليه وسلم.

أز ابن طفیل الأزہری( محمد علی)

Islamic Scholars must research on Article 370 & A/35

دفعہ 370 و دفعہ A35 کی اہمیت علماء ضرور پڑھیں  
       بر صغیرکی تقسیم تک برطانوی ہند کا علاقہ برٹش پارلیمنٹ کے پاس کردہ ایکٹ 1935ء کے تحت چلایا جارہا تھا، جس کا براہ راست اطلاق ہندوستانی ریاستوں پر نہیں ہوتا تھا، جس میں ریاست جموں وکشمیر بھی شامل ہے، لیکن ان ریاستوں کے امور خارجہ، بیرونی دفاع اور مواصلات برطانوعی حکومت کے تحت ہی تھے۔ ان ریاستوں کے لئے مرکزی پارلیمنٹ میں نشستیں بھی مقرر تھیں۔ ریاست جموں و کشمیر کے لئے کونسل آف سٹیٹ میں تین جبکہ قانون ساز اسمبلی میں چار نشستیں تھیں۔ آزادئ ہند کے قانون 1947ء کے تحت قائم ہونے والی دو مملکتوں، ہندوستان اور پاکستان کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ اپنا آئین بنانے تک 1935ء کے ایکٹ کو مناسب ترامیم کے تحت اپنا سکتے ہیں ۔ اس ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت ریاستوں کے والیوں کو مقرر کردہ اصولوں کے تحت دو میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، چنانچہ حالات کے جبر کے تحت مہاراجہ کشمیر نے خلاف مسلمہ اصولوں کے امور خارجہ ، دفاع ، مواصلات اور ان سے منسلک معاملات کی حد تک ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا جو گورنر جنرل ہند لارڈ ماونٹ بیٹن نے اس شرط کے ساتھ منظور کیا کہ جب ریاست میں امن بحال ہوگا، تو ریاست کے مستقبل کا فیصلہ عوام رائے شماری کے ذریعہ کریں گے، اسی اصول کا اعادہ سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قرار دادوں کے تحت بھی کیا، جو ابھی تک تشنۂ تکمیل ہیں ۔

 *ضرور پڑھیں:* *مودی بنیادی طور پر دہشتگرد لیڈر ،سری نگر کو براہ راست دہلی کے زیرانتظام لانا چاہتا ہے،شیخ رشید* 

ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی بننے پر کشمیر کے نمائندے بھی اس میں شامل ہوئے، جن کے کہنے پر ہندوستان کے آئین میں کافی بحث و تمحیص کے بعد دفعہ 370 کو شامل کیا گیا، جس کے تحت ریاست کی اپنی آئین ساز اسمبلی کے قیام کو تسلیم کیا گیا ، جس کو یہ اختیار دیا گیا کہ اس کو ریاستی حکومت کے مشورے یا منظوری سے ہندوستانی آئین اور قوانین کے نافذ کئے گئے ان حصوں کے منظور یا مسترد کرنے کا حتمی اختیار حاصل ہوگا، جو دفعہ 370 کے تحت کشمیر میں نافذ کئے گئے ہوں ۔اس دفعہ کے تحت اس بات کا بھی خصوصی طور اندراج کیا گیا کہ ہندوستانی آئین اور قوانین کے وہ حصے جو الحاق نامہ سے مطابقت رکھتے ہیں کا اطلاق صدر ہندوستان ریاستی حکومت کے مشورے اور دیگر دفعات کا اطلاق ریاستی حکومت کی پیشگی منظوری سے کر سکیں گے۔چنانچہ جب 26 جنوری 1950ء کو ہندوستان کے آئین کا نفاذ ہوا، اسی روز صدارتی حکم نامہ کے ذریعہ آئین کی دفعہ 1 کا کشمیر پر اطلاق کیا گیا، جس کے ساتھ ریاست کو ہندوستان کا حصہ بنایا گیا اور ساتھ ہی ہندوستانی آئین کی ان دفعات اور قوانین کا بھی اطلاق ہوا جو دفاع، امور خارجہ اور مواصلات سے متعلق تھیں۔ کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا الیکشن 1951ء میں منعقد ہوا جو اپنی پانچ سالہ مدت 1956ء میں مکمل کرکے تحلیل ہوگئی۔ اس عرصہ کے دورا ن ہندوستانی آئین اور قوانین نافذ کئے گئے، جن حصوں کی آئین ساز اسمبلی نے تو ثیق کی وہ تو اس دفعہ کی روح کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی سب جماعتوں نے تسلیم کئے۔ ان ہی میں سے 1954ء میں نافذ کئے گئے بے شمار قوانین و آئینی دفعات کے ساتھ دفعہ 35A بھی شامل ہے۔آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کے بعد جتنے ہندوستانی قوانین کا اطلاق کشمیر میں کیا گیاہے وہ متنازعہ الحاق نامہ اور ہندوستانی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے،اس وقت تک ہندوستانی آئین کی 395 دفعات میں سے 260 اور 97 مرکزی اختیارات کی انٹریز میں سے 95 کا اطلاق کشمیر میں کیا جا چکا ہے دفعہ 370 کا خول باقی ہے، روح ختم ہو گئی ہے۔ *معلومات عامہ کے لئے جاری کیاگیا ۔*

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...