Monday, August 5, 2019

مغربی عورت نامرد اور نااولاد ہے بلکہ نارشتہ بھی۔

مغربی عورت کی کوئی عزت نہیں ہے کوئی شوہر نہیں ہے جو کہے بیگم تم گھر رہو میں ہر چیز تمہیں گھر لا کے دونگا.
وہاں کوئی بیٹا نہیں ہے جو کہے ماں تم گھر سے نہ نکلو مجھے حکم دو.
وہاں کوئی بیٹی نہیں ہے جو کہے ماں تم تھک گئی ہو آرام کرو میں کام کر دونگی
وہاں عورت گھر کے کام خود کرتی ہے...
اور روزی کمانے کے لئے دفتروں میں دھکے بھی خود کھاتی ہے.
کل تک آزادی کے نعرے لگانے والی آج سکون کی ایک سانس کو ترس رہی ہے.
کوئی مرد انہیں نہیں اپناتا
نہ ان کی ذمہ داری اٹھاتا ہے.
وہ صرف استعمال کی جاتی ہیں بس...
مسلمان عورتو !
تم کسی ملکہ سے کم نہیں ہو باپ کے سایہ میں لاڈوں سے پلی ہو.
بھائی تمہارا محافظ ہے
شوہر تمہارا زندگی بھر کا ساتھی ہے.
تم کیا سمجھتی ہو گھر میں بیٹھ کر ہانڈی روٹی کر کے تم ملازمہ ہو؟
نہیں نہیں یہ بھول ہے تمہاری یہ ہانڈی روٹی کا سامان جو تمہارا شوہر لے کر آتا ہے یہ گرمیوں کی دھوپ اور گرم لوُ وجود پگھلنے والے سورج سے لڑ کر لاتا ہے.
تمہیں تو مغربی عورتوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے.
لیکن تم کو آزادی نسواں کے سنہرے خواب دکھا کر تمہارے وقار کو ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے .
اس سازش کو نہیں سمجھو گی تو تم بھی متاعِ کوچہ و بازار بن جاؤ گی.
پلیز یورپی کلچر کی محبت کو دل سے نکال دیجیے ورنہ صرف پچھتاوا ہاتھ آئے گا اور کچھ نہیں.اگر کسی کو کوئ بات بری لگئ ہو تو اسکو اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے.
۔۔۔۔۔۔۔
1.عورت کوٹھے پہ ناچے تو اسکو مجرا کہا جاتا ھے

2.گورنمنٹ کے کہنے پہ ناچے تو یوتھ فیسٹیول

3.تعلیمی اداروں کے کہنے پہ ناچے تو ویلکم/فیئرویل پارٹی

4۔ٹی وی چینلز کے مارننگ شوز میں بےحیائی کا فروغ
تینوں صورتوں میں تماشا ھماری عزت بنی
کوٹھا تو غلط ھے ہی گورنمنٹ اور تعلیمی ادارے بھی غلط ھیں۔ تربیت گاہیں قوم بنا نہیں تباہ کر رہی ہیں۔

کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ۔
مجھے راھزنوں سے گلا نھیں
تیری رھبری کا سوال ھے
۔۔۔۔۔۔۔
‏ھمارے معاشرے کا مرد ۔۔۔۔ جب کسی بھی میدان میں عورت کا مقابلہ نہیں کر پاتا ۔۔۔۔ تو وہ ۔۔۔۔ اس کے کردار پر انگلی اٹھا کر ۔۔۔۔ اسے توڑ دیتا ھے ۔۔۔۔ اور عورت صفائی دینے سے بہتر ہار مان لینا محسوس کرتی ھے ۔۔۔۔ اور مرد ۔۔۔۔ یہ سب کرنے کے بعد بھی ۔۔۔۔ وہ خود کو ۔۔۔۔ مرد کہتا ھے۔۔۔

روہنگیا کے مسلمان ایک جائزہ۔

روہنگيا كے مسلمان : ايك جائزه‏


نوٹ؛

مضمون کی اہمیت کے پیش نظر ہم مرصد الازہر قاہرہ مصر اور پوری جامعہ ازہر ٹیم کے شکری کے ساتھ اسے شائع کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

سلمان آج کے دور میں دنیا کی سب سے زیادہ پسی ہوئی قوم ہے دنیا میں جہاں بھی ظلم و تشدد ہو مسلمان ہی اس کا نشانہ بنتے ہیں ، اور جس طرح كہ فضيلت مآب امامِ اكبر شيخ الازہر صاحب نے بورما ميں ہونے والے واقعات كى شديد مذمت كرتے ہوئے كہا تھا كے اگر دنيا كى كسى اور قوم كے ساتھ ايسے واقعات پيش     آ رہے ہوتے تو شايد دنيا  كا يہ موقف نہ ہوتا، کشمیر سے لیکر فلسطین اور فلسطین سے لیکر شام ،عراق اور اب برما تقریبا ہی سبھی جگہ مسلمانوں پر ظلم و جبر جاری ہے۔
بورما ميں ہونے والے ظلم وستم كے واقعات كو كون نہيں جانتا!! ليكن اس پر مزيد روشنى ڈالنے كے لئے ہم قارئين حضرات كے لئے  روہنگيا اور رخا‏‏ئن كے بارے ميں كچھ  تفصيلى معلومات پيش كرتے ہيں   :
روہنگیا کون ہیں؟
میانمار کی آبادی کی اکثریت بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔ میانمار میں ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ روہنگیا مسلمان ہیں. ان مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر ہیں. حکومت نے انھیں شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے تاہم یہ یہ ميانمار میں نسلوں سے رہ رہے ہیں. ریاست رخائن میں 2012 سے فرقہ وارانہ تشدد جاری ہے. اس تشدد میں بڑی تعداد میں لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگ بےگھر ہوئے ہیں.
بڑی تعداد میں روہنگیا مسلمان آج بھی خستہ کیمپوں میں رہ رہے ہیں. انھیں وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک اور زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. لاکھوں کی تعداد میں بغیر دستاویزات والے روہنگیا بنگلہ دیش میں رہ رہے ہیں جو دہائیوں پہلے میانمار چھوڑ کر وہاں آئے تھے.
رخائن میں کیا ہو رہا ہے؟



میانمار میں موگڈوو سرحد پر نو پولیس افسران کے مارے جانے کے بعد گزشتہ ماہ ریاست رخائن میں سیکورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا تھا. کچھ حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ روہنگیا کمیونٹی کے لوگوں نے کیا تھا. اس کے بعد سکیورٹی فورسز نے موگڈوو ضلع کی سرحد کو مکمل طور پر بند کر دیا اور ایک وسیع آپریشن شروع کر دیا.
روہنگیا کارکنوں کا کہنا ہے کہ 100 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے. ميانمار کے فوجیوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے سنگین الزام لگ رہے ہیں جن میں تشدد، عصمت دری اور قتل کے الزامات شامل ہیں. تاہم حکومت نے اسے سرے سے مسترد کر دیا ہے. کہا جا رہا ہے کہ فوجی روہنگیا مسلمانوں پر حملے میں ہیلی کاپٹر بھی استعمال کر رہے ہیں.
میانمار میں 25 سال بعد گزشتہ سال  اليكشن ہوئے تھے. اس انتخاب میں نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی پارٹی نیشنل لیگ فور ڈیموکریسی کو  بہت بڑى كاميابى حاصل ہوئى، تاہم آئینی قوانین کی وجہ سے وہ الیکشن جیتنے کے بعد بھی صدر نہیں بن پائی تھیں ليكن  کہا جاتا ہے کہ اصل کمان سو چی کے ہاتھوں میں ہی ہے.
بین الاقوامی سطح پر سو چی نشانے پر ہیں. الزام ہے کہ انسانی حقوق کی علم بردار ہونے کے باوجود وہ خاموش ہیں. حکومت سے سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آخر رخائن میں صحافیوں کو کیوں نہیں جانے دیا جا رہا؟ صدر کے ترجمان زاو ہنی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس کی غلط رپورٹنگ ہو رہی ہے.آنگ سان سو چی ابھی اپنے ملک کی حقیقی لیڈر ہیں. تاہم ملک کی سلامتی آرمڈ فورسز کے ہاتھوں میں ہے. اگر سوچی بین الاقوامی دباؤ میں جھکتی ہیں اور ریاست رخائن کو لے کر کوئی قابل اعتماد انکوائری کراتی ہیں تو انہیں آرمی سے تصادم کا خطرہ اٹھانا پڑ سکتا ہے اور ان کی حکومت خطرے میں آ سکتی ہے.
گزشتہ چھ ہفتوں سے آنگ سان سو چی مکمل طور پر خاموش ہیں. وہ اس معاملے میں صحافیوں سے بات بھی نہیں کر رہیں. جب اس معاملے میں ان پر دباؤ پڑا تو انھوں نے کہا تھا کہ رخائن اسٹیٹ میں جو بھی ہو رہا ہے وہ 'رول آف لا' کے تحت ہے. اس معاملے میں بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھ رہی ہے. میانمار میں روہنگیا کے بارے میں ہمدردی نہ کے برابر ہے اور روہنگیا کے خلاف آرمی کے اس اقدام کی جم کر حمایت ہو رہی ہے.
بنگلہ دیش کے اعتراض
بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے  میانمار کے سفیر سے اس معاملے پر گہری تشویش ظاہر کی ہے. بنگلہ دیش نے کہا کہ پریشان لوگ سرحد پار کر محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں یہاں آ رہے ہیں.
بنگلہ دیش نے کہا کہ سرحد پر نظم و ضبط قابو میں رکھا جانا چاہیے. بنگلہ دیش اتھارٹی کی جانب سے سرحد پار کرنے والوں کو پھر سے میانمار واپس بھیجا جا رہا ہے. ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے.
بنگلہ دیش روہنگیا مسلمانوں کو پناہ گزین کے طور پر قبول نہیں کر رہا. روہنگیا پناہ گزین 1970 کی دہائی سے ہی میانمار سے بنگلہ دیش    آ رہے ہیں. ہیومن رائٹس واچ كى  ایک سیٹلائٹ تصویر کے مطابق   گزشتہ چھ ہفتوں میں روہنگیا مسلمانوں کے 1،200 گھر گرا دیے گئے ہيں .



میانمار میں جہاد
2015 میں تحریک طالبان کے ایک گروپ جماعۃ الاحرار نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف میانمار میں جہاد شروع کرنے کی اپیل کردی۔ جماعۃ الاحرارکے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا ہم میانمار (برما) کے مظلوم مسلمانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں ،میانمار کے مسلمانوں کو وہاں حکمرانوں کے خلاف جہاد شروع کردینا چاہیے، طالبان کے وسائل اور تربیت فراہمی کی سہولت ان کے لئے حاضر ہے۔
اپنے آڈیو پیغام میں احسان اللہ احسان نے کہا میں برما کے نوجوانوں کو خطاب کر کے کہتا ہوں کہ تلوار اٹھاؤ اور اللہ کے راستے میں قتال شروع کرو، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، ہمارے سنٹر، ہمارے وسائل، ٹریننگ، لوگ اور ہر چیز آپ کی سہولت کیلئے حاضر ہے۔
ليكن کیا راخائن میں کوئی جہاد ہورہا ہے؟
روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ سراسر لسانی مسئلہ ہے اور ان کی عسکری تنظیم اراکان روہنگیا سلویشن آرمی اس معاملے کو قومی جنگ قرار دیتی ہےروہنگیا مسلمانوں کی تنظیم کا قیام 2013 میں کراچی میں پیدا ہونے والے ایک برمی عطااللہ نے کیا جسے ابوامر جنجونی کے نام سے جانا جاتا ہے-عبداللہ سلویشن آرمی کے ترجمان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے معاملے کو جہاد کی کوئی قسم نہ سمجھا جائے، ان کی لڑائی مذہبی نہیں ہے-برما کے حکام بھی رخائن مسلمانوں کی مزاحمت کو جہاد سے تعبیر نہیں کرتے بلکہ انہیں بنگالی دہشت گرد کہتے ہیں، میانمار میں 27 تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے، ان میں ایک سلویشن آرمی بھی ہے اور ان کو بنگالی دہشت گرد قرار دے کر پابندی عائد کی گئی ہے-
برما اور روہنگیا مسلمانوں میں وجہ تنازع  مذہب نہیں، بلکہ شہریت ہے، میانمار انہیں اپنے ملک کا شہری تسلیم نہیں کرتا، انہیں بنیادی حقوق کے ساتھ سفر کی سہولیات سے محروم رکھا ہوا ہے اور شہریت کا یہ تنازع برما کے ایک ڈکٹیٹر کی پالیسی سے شروع ہوا، جس کی حمایت آنگ سانگ سوچی بھی کررہی ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے-میانمار کا معاملہ مذہبی جنگ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف پوری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کا مسئلہ ہے، روہنگیا مسلمانوں پر برمی فوج ظلم کررہی ہے اور دنیا کو تمام تفریقات بالائے طاق رکھ کر اس مسئلے سے نمٹنا ہوگا، بلا شك وشبہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی ایک غیرانسانی فعل ہے مگر اس نسل کشی پہ دکانیں چمکاتے انتہاپسندی کے ٹھیکے دار بھی قابل مذمت ہیں.
  الله رب العزت نے انسان كو اشرف المخلوقات كا درجہ ديا اور انسانى جان كو نہايت  بلند اور  عظيم  مرتبہ ديا ہے، يہاں تك كہ ايك انسان كے قتل كو پورى انسانيت كا خون  كرنے كے برابر  مقرر كيا ہے ، قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ــ’’جس نے کسی انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان کو محفوظ بنایا اور اسی طرح جب کسی نے بے گناہ انسان کا خون بہایا گويا  کہ اس نے انسانیت کا خون کیا ہے‘‘اس بات سے واضح ہوتاہے کہ اسلام کسی بھی صورت میں خون کے بہانے کے حق میں نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ کلام مجید میں  صرف مسلمانوں کے خون کی بات نہیں کی گئى  بلکہ لفظ ناس (یعنی لوگ ) کا استعمال کرکے بات کو  صاف اور واضح  انداز میں بیان فرمادیا کہ اسلام مسلمان يا  غیر مسلمان ،کافر و مومن،فاسق و فاجر،ظالم و عادل سبھی کی جان و مال کی حفاظت کی تاکید کرتاہے تاوقتیکہ ان سے کھلا جرم و ظلم ثابت نہ ہوجائے اور پھر طاغوتیت کے ارتکاب کی صورت میں بھی حدود و قیود مقرر کردی ہیں کہ قصاص میں قتل کیاجائے گا ،  سزا تجویز کرنے کا اختیار  ملك كى حکومت و عدالت کو ہوگا، بذات خود قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا جائے گا،بلكہ اس كو لينا جرم ہوگا ،سزادیتے وقت اس میں مبالغہ و زیادتی نہیں کی جائے گی بقدر جرم سزا مقدر ہوگی۔ كيونكہ اسى طريقہ سےملک و ملت میں امن و سلامتی کی صورتحال مستحکم رہ سکتى ہے۔
عید الاضحى  جوکہ اطاعت، قربانى اور  خوشیوں  کا پيغام لے كر آتى ہے روہنگیا مسلمانو ں پر جاری ظلم وتشدد کی نظر ہوگئی۔ ظلم وتشدد كے  یہ واقعات  روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ پہلی دفعہ تو نہیں ہو ر ہے بلکہ اس سےپہلے بھی روہنگیا کے مسلمان برما کی حکومت اور فوج کے غیض و غضب کاشکار بن چکے ہیں۔ہم سبھی اس سے قبل روہنگیا کے مسلمانوں پر جبر و استعدادکی خبروں سے بے خبر رہتے آئے ہیں۔جب گزشتہ سال روہنگیا کی مسلمانوں پر برما کی زمین تنگ کردی گئی ۔تب ہمیں اخبارات اور سوشل میڈیاکے ذريعہ کسی حد تک آگاہی حاصل ہوتی رہی تاہم بعد میں ظلم و جبر کا سلسلہ تھم گیا۔اور حالات پر کسی حد تک قابو پالیا گیا۔اچانکہ پھر سے 25 اگست کی شام سے سوشل میڈیا پر روہنگیا کے مسلمانوں پر مظالم کی تازہ خبروں، تصاویر اور ویڈیوز نے  نہ صرف مسلمانوں بلكہ انسانيت  کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان پر ايسے  انسانیت سوزمظالم  ڈھائے جارہے ہیں۔جنہیں دیکھ کر انسانیت بھی شرماگئى ہے  ليكن تاریخ پر نظر ڈورانے سے   پتہ چلا کہ اس کے پیچھے بہت سارے عوامل کرفرما ہیں۔



میانمار کاصوبہ رخائن جسے اراکان بھی کہا جاتا ہے انسانيت سوز جرائم پر گواہى  دے رہا ہے  ۔عورتوں كى عزت خطره ميں ہے   ۔بچوں اور بوڑھوں پر ترس کھانے والا کوئی نہیں۔اس تناظر میں میانمار کی عالمی امن نوبل انعام یافتہ رہنما کی خاموشی بہت سارے سوالات جنم دے رہی ہے۔میڈیا کے سامنے كہا جاتا ہے  کہ میانمار کے صوبے راخائن میں کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے سب ٹھیک ہے ۔میڈیا میں جو کچھ دیکھا یا جا رہا ہے یہ ماضی سے جڑی خبریں ،تصاویر اور ویڈیوز ہیں جنہیں ایک خاص طبقہ میانمار کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کررہا ہے ۔



2012 سے لے كر آج تك شيخ الازہر نے  ان لا چار مسلمانوں كا ساتھ دينے كى ہر ممكن كوشش كى ہے ، 2015 نےاس مسئلہ كو قريب سے ديكھنے  اور سمجھنے كے لئے  نے بورما كے مسلمانوں كے مفتى سے ملاقات كى، جنورى 2017 ميں ايك بڑے كانفرنس كا انعقاد ہوا جس ميں بورما كے  مختلف مذاہب كے پيروكاروں نے شركت كى  اور جس ميں شيخ الازہر  نے ان كو انسانيت كے  پرچم تلے جمع ہونے كى دعوت دى  ۔ چند دن پہلے ہى آ پ نے ايك پر زور بيان ديا  جس ميں  ہر زمہ دار شخص يا اداره سے  اپنى زمہ دارى اٹھانے كا مطالبہ كيا ، مرصد الازہر نے بھى 2015 سے اس مسئلہ پر روشنى ڈالنے كے لئے " بورما كے مسلمان " كے عنوان سے ايك كتاب لكھى ، ہم دنيا بھر  كى مختلف زبانوں ميں اپنى آواز  پہنچانے كى كوشش كرتے ہيں ،  ہمارا يہ  چھوٹا سا عمل بظاہر چھوٹا ہی صحیح مگر اس کے دور رس اثرات مرتب ہو سكتے  ہیں۔ہم ہر فورم ، ہر سطح اورہر جگہ برما کے مسلمانوں کے حق میں اور برما کی حکومت اور فوج کے ظلم كے  خلا ف اپنا احتجاج ریکارڈ کريں گے . اپنے اس موضوع كا اختتام  ہمش يخ الازہر كے بيان كے آخرى الفاظ سے كرتے ہيں : آپ اس ظالمانہ حملے كے سامنے ڈٹے رہیں ، ہم آپ کے ساتھ ہيں ، اور ہم آپ کو ہرگز بے يار ومددگار نہيں چھوڑيں گے، الله تعالى مددگار اور حامى ہے.. اور جان لو كہ  بے شک الله تعالى فاسدوں كے عمل كو درست نہيں كرتا، اور يہ كہ " جنہوں نے ظلم كيا ہے وه بھى ابھى جان ليں گے كہ كس كروٹ الٹتے ہيں" (سورۀ الشعراء: )

Sunday, August 4, 2019

مسلمان ہندوستان میں سب سے سستا ووٹر ہیں

مسلمان ہندوستان میں سب سے سستا ووٹر ہیں ،انہیں حکومت سے تحفظ کے بدلے کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنی محنت سے کماتے ہیں۔


سائکل میں  پنچر لگانے سے لے کر صدرجمہوریہ ہند تک کے عہدے کوانہوں نے خوبصورت بنایا۔
 پھلوں کی فروخت سے لے کر سپریم کورٹ کے جج تک۔
بریانی بنانے سے لے کر آی بی (I.B.)چیف تک۔
کباب  بنانے سے لے کر چیف الیکشن کمشنر تک.
ایک مرتبہ تو وہ آرمی چیف تک ہوتے ہوتے رہے۔
کسانی کرنے سے لے کر فوج تک۔
سپہ سالاری میں انہوں نے پرمویر چکر بھی حاصل کیا۔
پدمشری سے لے کر بھارت رتن تک۔
اور موٹر ورکشاپ سے فائر میزائل تک کام کیا۔
ہر شعبے اور فیلڈ  میں اپنا ڈنکا بجایا ہے۔ فلم ، فن ، ادب ، موسیقی یا کچھ بھی ہو آپ مسلمانوں کے بغیر ان فنون کا ہندوستانی ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔
اور انہوں نے  یہ سب کچھ بغیر کسی رزرویشن کے ، سرکاری مدد کے اور بنا کسی سورس پیروی کے حاصل کیا ہے۔
اگر آپ حقیقی میرٹ کے بارے میں بات کریں تو یہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ہی ہیں، لیکن 70 سال گزر جانے کے بعد بھی ، انہیں اپنے ووٹ کے بدلے میں جو ضرورت ہے وہ سیکیورٹی ہے؟
مسلمانوں کا ووٹ کتنا سستا ہے!
اگر کوئی عورت بیئر بار میں برہنہ ناچتی ہے تو، کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
اگر کوئی عورت بیکنی پہن کر کلب میں رقص کرتی ہے تو، کسی کو کوئی دشواری نہیں ہوتی۔
اگر کوئی عورت غیر مردوں کے ساتھ جِسم کے کاروبار میں سوتی ہے تو، کسی کو کوئی حرج نہیں ہوتا۔
 لیکن جب ایک مسلمان عورت اپنے جسم کو پردے سے ڈھانپتی ہے،جب وہ اپنے حیاء کی حفاظت کرتی ہیں،جب وہ معاشرے کو بے راہ روی سے بچانے کی سوچتی ہیں تو، پوری دنیا کے لوگوں کے سینے پرسانپ لوٹ جاتا ہے دوہرا رویہ یہ کہ وہ یہ بھی  کہتا ہے کہ اسلام میں عورتوں کو آزادی حاصل نہیں!
واہ رے جاہلو!
سمجھ نہیں آتا کہ وہ خواتین کو بے نقاب کیوں کرنا چاہتے ہیں؟
دنیا کی تاریخ  میں سب سے زیادہ بے گناہوں کا قتل عام  کس نے کیا؟
·        نمبر ایک:  ہٹلر...
کیا تم جانتے ہو یہ کون تھا؟
ہٹلر ایک جرمن "کرسچن" تھا لیکن میڈیا نے کبھی بھی "عیسائیوں" کو دہشت گرد نہیں کہا۔
·        نمبر دو:  جوزف اسٹالن
اس نے لگ بھگ 20 ملین انسانی جانیں لیں، جس میں 14.5 ملین کو تڑپا تڑپا کر ماراگیا۔
کیا یہ مسلمان تھا؟
·        نمبر تین : ماؤ سوسنگ (چین)
اس نے 14 سے 20 ملین انسانوں کو ہلاک کیے۔
کیا یہ مسلمان تھا؟
·        نمبر چار : بینیٹو مسولینی (اٹلی)
اس نے تقریبا 400 ہزار افراد کا قتل عام کیا۔
کیا یہ مسلمان تھا؟
·        نمبر پانچ : اشوکا
اس  نے کالنگا جنگ میں 100 ہزار افراد کو ذبح کیا۔
کیا یہ مسلمان تھا؟
·        نمبر چھ : "امبرگو" جسے جارج بش نے عراق بھیجا تھا۔
عراق میں 10 لاکھ سے زیادہ انسان ہلاک کر دیے گئے جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔
کیا وہ بھی مسلمان تھا؟
آج یہ دیکھا جاتا ہے کہ غیر مسلم معاشرے میں "جہاد" کے نام پر ایک خوف اور گھبراہٹ ہے لیکن میڈیا سچائی نہ بتاتا ہے اور نہ ہی دکھاتا ہے۔
"جہاد" ایک عربی لفظ ہے جو ایک دوسرے عربی لفظ "جہد" سے مشتق ہے ، جس کا مطلب ہے "برائی" اور "ناانصافی" کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ، ظلم  کے خلاف کھڑا ہونا یا انصاف کے لئے لڑنا۔
جہاد کا مطلب معصوموں اور بے گناہوں کی جان لینا یا قتل کرنا ہرگز نہیں۔
جہاد کا مطلب  صرف اتنا ہے کہ ہم برائی کے خلاف کھڑے ہیں ، برائی کے ساتھ نہیں۔
    کیا حقیقت میں اسلام پریشانی ہے؟
1.      پہلی جنگ عظیم (1930 کی دہائی میں پہلی جنگ عظیم) ، جس میں 17 ملین ہلاک ہوئے۔جسے غیر مسلم ممالک نے کیا۔
2.      دوسری جنگ عظیم (دوسری جنگ عظیم 1939 -1945) ، جہاں 50 سے 55 ملین اموات ہوئیں۔
یہ کام بھی غیر مسلموں نے ہی کیا۔
3.      ناگاساکی ہیروشیما جوہری حملے جس میں 200،000 لوگوں کی جانیں گئیں۔یہ حملے بھی غیر مسلم (امریکہ) نے کیا۔
4.      ویتنام کی جنگ میں 5 لاکھ افراد ہلاک ہوے۔
یہ کام بھی غیر مسلموں نے ہی کیا۔
5.      بوسنیا / کوسوو کی لڑائی میں قریب پانچ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔
یہ کام بھی غیر مسلم نے کیا۔
6.      عراق کی جنگ میں اب تک 12،000،000 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔جو غیر مسلم نے کیا۔
7.      1975-1979 تک، کمبوڈیا میں تقریبا 30 لاکھ افراد مارے گءے ، یہ کام بھی غیر مسلم نے ہی کیا۔
8.       آج افغانستان ، شام ، فلسطین اور برما میں لوگ مارے جارہے ہیں۔
کیا مسلمانوں نے یہ سب کیا؟
مسلمان دہشت گرد نہیں ہے ، اورجو دہشت گرد ہے وہ  مسلمان نہیں ہے۔
بتائے گئے سروے کی روشنی میں جب یہ بات ثابت ہوچکی کہ مسلمان ہمیشہ اور ہردور میں بے گناہ رہا ہے اور ہمیشہ اس نے ظلم کے خلاف جہاد کی ہے تو آج ان کے ساتھ جو دوہرے رویے اپنائءے جا رہے ہیں انہیں بے نقاب کرنا ہوگا۔
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں ، میڈیا غلط ہاتھ میں ہے ، لہذا وہ لوگ غلط معلومات لوگوں تک پہنچاتے ہیں ، لیکن موبائل فون ہمارے ہاتھ میں ہے ، لہذا ہمیں صحیح معلومات کو پھیلانا ہوگا۔

از قلم : محمد نورالدین ازہری
جامعہ ازہر مصر

For Unmarried Sisters

For Unmarried Sisters:

I know you are very tired because of remaining still you unmarried.
You have been having a very hard time trying to get married. You see your friends getting married all around but you still unmarried. You look through your friends wedding photos their childrens on Facebook whatsapp and social media. Some friends ask you ' when are you getting married?' You don't have an answer. Answering this question is very sad than being a single.

Many girls face the common challenge that comes along with the marriage process. As a girl I also know how tough this and how painful this situation.

Don't fear about your sins repent to Allah. Don't fear duas are not being answered.
Don't giveup on mery of Allah
Allah is generouse  and most bounteous.

Cry only infront of Allah, not infront of others because only Allah can help you while others will just pity you.

And remember Allah is the best giver and the forgiver. He is the best listener.

Hasbunallah.

══════════════════
Dr Fatima Aliv Head of IT  Department , Al-Azhari Community Support
══════════════════

دیر تک دیکھئے، دور تک سوچئے

'تین طلاق قانون'
دیر تک دیکھئے، دور تک سوچئے

محی الدین غازی

'تین طلاق قانون' کے مضمرات بہت گہرے ہیں، اس میں شبہ نہیں کہ یہ ملک میں پنپنے والی ہندتوا طاقتوں کی سوچی سمجھی گہری سازش کا شاخسانہ ہے۔ اگر یہ ایک سادہ اصلاحی کوشش ہوتی جیسا کہ دعوی کیا جارہا ہے تو اس طرح ہرگز نہیں انجام دی جاتی جس طرح اسے انجام دیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اتنی بھی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی جتنی دو آدمیوں کے بیچ کسی چھوٹے سے تنازعے میں دکھائی جاتی ہے۔ اور بدنیتی کا تو اس طرح کھل کر اظہار کیا گیا کہ اس پر ہلکا سا بھی پردہ نہیں رہ گیا۔

اس میں شک نہیں کہ یہ معاملہ مسلم پرسنل لا میں مداخلت کا کھلا آغاز ہے۔ اور اس آغاز کے لئے تین طلاق کے مسئلے کو بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا گیا ہے۔ (شرعی حکم سے قطع نظر) تین طلاق کے عمل میں ایسی خرابی ہے جو خود اس لفظ سے ظاہر ہوتی ہے۔ تین طلاق دینے کا منظر خود اس کے خراب ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس ایشو کا انتخاب کیا گیا۔

ہمیں یہ ماننا چاہئے کہ مسلم معاشرے میں تین طلاق کا رواج مسلم معاشرے کی کمزوری بن چکا ہے۔ اور یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ تین طلاق کا شرعی حکم اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جتنا بڑا مسئلہ تین طلاق کا رواج ہے۔ اگر کبھی کبھار، دس ہزار طلاقوں میں ایک بار، تین طلاق کا واقعہ پیش آجائے تو تین کو تین ماننے میں بھی زیادہ مضائقہ محسوس نہیں ہوگا۔ لیکن اگر تین طلاق ہی ذہنوں میں بیٹھ جائے، اور وہی طلاق کا عام طریقہ سمجھ لیا جائے، اور ایک طلاق کا تصور ہی ذہنوں سے نکل جائے، تو یہ بہت بڑی خرابی کی بات ہے۔

بہت ممکن ہے اس قانون سے یہ رواج درست ہوجائے، اور مستقبل میں کبھی اس قانون سے نجات ملے تو اس رواج کا بھی خاتمہ ہوچکا ہو، مگر شریعت پر جو ایک داغ لگایا گیا ہے، کہ شریعت سے جڑی ایک خامی کو مسلمان خود درست نہیں کرسکے، اور اسے ہندوستان کی ہندتوا طاقتوں نے درست کیا ہے، وہ بہت تکلیف دہ اور باعث شرم ہے۔

ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کے یہاں تین طلاق کے غلط رواج نے اسلامی شریعت میں مداخلت کا راستہ آسان کیا ہے۔ یاد رہے کہ جب تک ہم اپنی کمزوریوں کو اچھی طرح نہیں سمجھیں گے، اپنا صحیح دفاع نہیں کرسکیں گے۔ 'تین طلاق قانون' کی دیوار سے سر مارنے کے بجائے، ہمیں آج ہی یہ طے کرنا ہوگا کہ اپنی دوسری کمزوریوں کے سلسلے میں ہمارا فوری موقف کیا ہونا چاہئے۔

ہندتوا طاقتوں کی سیاسی ضرورت یہ ہے کہ وہ ہندو مذہب اور ہندو رسم ورواج اور ہندوانہ تصورات کا خود کو علم بردار بتاتی رہیں، اسی میں ان کی بقا اور برقراری ہے۔ اور چونکہ ان کے بس میں یہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کی تعلیمات پر اپنی برتری ثابت کرسکیں، اس لئے ان کے سامنے ایک راستہ بس یہ بچتا ہے کہ وہ اسلام اور مسلمان دونوں کے کردار کو نشانہ بنائیں۔ مسلمانوں کو اس ملک کے لئے خطرناک بتائیں، اور اسلام کو انسانی قدروں کے لئے نقصان دہ بتائیں۔ وہ لوگ یہ بحث کبھی نہیں کرانا چاہیں گے کہ انسانیت کے لئے بہتری کس مذہب اور نظام میں ہے، ان کا سارا زور اس پر رہے گا کہ اسلام اور مسلمانوں کی اتنی اونچی آواز کے ساتھ کردار کشی کی جائے کہ اس شور شرابے میں پھر کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے۔

اس وقت نظریاتی طور سے ہندوستانی مسلمانوں پر یک طرف جنگ مسلط کردی گئی ہے، مسلمانوں کی اور ان کی شریعت کی خامیوں کا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ اس جنگ سے بہت سے زخم آنے کے اندیشے ہیں، تاہم اس میں بڑا فائدہ یہ پوشیدہ ہے کہ مسلمان اپنی منصبی ذمہ داری سے جو مجرمانہ غفلت برت رہے ہیں، اور دین کی دعوت کو غیر ضروری سمجھ کر اس ملک میں رہ رہے ہیں، اس غفلت سے باہر آنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔

بہترین اور کامل دین رکھنے والی امت کا منصب تو یہ ہے کہ اس کی طرف سے دین کے ہر ہر جزء کو اس اعتماد کے ساتھ پیش کیا جائے کہ اس دین کا ہر جزء انسانیت کے لئے خیر اور بھلائی کا ضامن ہے۔ اس امت کا منصب یہ ہے کہ وہ آگے بڑھ کر انسانوں کے درمیان رائج غلطیوں کی طرف انہیں متوجہ کرے، اور ان کے مذاہب اور قوانین میں پائی جانے والی ظلم کی چھوٹی سے چھوٹی شکل کی بھی نشان دہی کر کے اس کے اوپر بھرپور تنقید کرے۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک عزیز میں رہنے والے مسلمانوں  کی طرف سے یہاں نافذ قوانین اور یہاں رائج تصورات کی خامیاں بتائی جاتیں، ان کی اصلاح کی کوشش کی جاتی، اسلام کی خوبیوں کا خوب چرچا کیا جاتا، اور اقلیت میں ہونے کے باوجود ملک کی سب سے طاقت ور آواز اسلام کے علم برداروں کی آواز ہوتی۔ کیوں کہ وہ آواز اس یقین اور اعتماد سے بھرپور ہوتی کہ اسلام کے ہر جزء میں عدل اور خیر ہے۔

لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تین طلاق کا حوالہ دے کر اسلام کے ایک جزء کو ظلم کی ایک شکل بتاکر پیش کیا جارہا ہے، اور مسلمان نہ تو اس پوزیشن میں ہیں کہ اس کا ظلم نہیں ہونا ثابت کرسکیں، اور نہ اس پوزیشن میں ہیں کہ اس کے غیر اسلامی ہونے کو تسلیم کرسکیں۔ ہندتوا طاقتیں کچھ اس طرح باور کرا رہی ہیں کہ جیسے انگریزوں نے ہندؤوں کی ستی کی ظالمانہ رسم کو ختم کیا اسی طرح وہ مسلمانوں کے یہاں سے تین طلاق کے ظالمانہ قانون کو ختم کرنے جارہی ہیں۔ تہذیبوں اور مذاہب کے معرکے میں اسلام اور اہل اسلام کو اس قدر خفت کا سامنا شاید ہی کبھی کرنا پڑا ہو۔

'تین طلاق قانون" کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اسلامی شریعت کو انسانیت کے پہلو سے عیب دار قرار دیا گیا ہے۔ اور دین کو بدنام کرنے اور اس کی دعوت کے سامنے ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کرنے کی خطرناک سازش رچی گئی ہے۔

اسلام کی سب بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اول تا آخر خوبیوں سے عبارت ہے۔ دنیا کے کسی مذہب یا نظریے کے ماننے والے اپنے مذہب یا نظریے کی خوبیوں کے سلسلے میں اس قدر پریقین اور پراعتماد نہیں ہوسکتے ہیں، جس قدر اسلام کے ماننے والے ہوسکتے ہیں۔ "صرف خوبیاں" اسلام کا بہت بڑا امتیاز ہے۔ اسلام میں اگر کہیں کوئی خامی نظر آتی ہے تو وہ اسلام کی خامی نہیں ہے، یا تو مسلم علماء کی اجتہادی غلطی ہے، یا مسلم عوام کے رویہ کا بگاڑ ہے۔ ہم ایسی غلطیوں اور ایسے بگاڑ کی اصلاح پر کتنی قدرت رکھتے ہیں، یہی ہمارا امتحان ہے، اور اسی میں ہماری فتح کا راز مضمر ہے۔

مناظروں کے تناظر میں ایک تحریر

مناظروں کے تناظر میں ایک تحریر

ہم مسلمانان اہل سنت و جماعت ایک سچے دین و مسلک سے وابستگی کا اعزاز رکھتے ہیں، مگر افسوس کہ ایک طویل عرصے سے ہماری باگ دوڑ کچھ ایسے ہاتھوں میں ہے جو ناعاقبت اندیشی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں.
مسلکی عقائد و معمولات کے تحفظ کے لیے ڈیڑھ دو صدیوں سے تقریری و تحریری مناظروں کا کلچر ہمیں ورثے میں ملا ہے.
مسلک کی بقا کے لیے گہرا تفکر و تدبر رکھنے والے حضرات طویل غور و خوض کے بعد بجا طور پر اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ مناظروں کے کلچر نے اہل سنت کو نفع کم اور نقصان زیادہ پہنچایا ہے.
ان "ھل من مبارز" قسم کے مناظروں سے جو نقصانات پہنچتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں.

انتشار و افتراق اور فتنہ و فساد میں اضافہ ہوتا ہے.

عداوتیں اور منافرتیں پروان چڑھتی ہیں.

علمی خمار دماغ پہ چڑھ کر اسے آلودہ کر دیتا ہے.

اتحاد و اتفاق پارہ پارہ ہو جاتا ہے .

تزکیہ نفس تباہ و برباد ہو کے رہ جاتا ہے.

فریق مخالف ضد میں آ کر قبول حق سے دور ہو جاتا ہے.

اغیار کو ہنسنے کا موقع فراہم ہوتا ہے.

عوام علماے کرام سے بد ظن ہو جاتے ہیں.

کفر، ضلال، الحاد اور باطل کو پھلنے پھولنے اور کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے.

سیکولر حکومتوں کو مولویوں کی آپس کی پھوٹ پر سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے.

سرمایہ، وقت اور صلاحیت جیسی قیمتی نعمتوں کا سراسر زیان ہوتا ہے.

دعوت و تبلیغ کی راہیں مسدود ہوتی ہیں.

حکمرانوں کے لیے مذہبی طبقے کو اپنے پنجہ استبداد میں دبوچنے میں بہت زیادہ آسانی حاصل ہوتی ہے.

اہل دین کا وقار، رعب اور دبدبہ جاتا رہتا ہے.

دین و مسلک کا نہایت مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے آتا ہے.

مخالفین کو پروپیگنڈے کے لیے بہترین مواد فراہم ہوتا ہے.

لہٰذا ہماری سوچی سمجھی رائے کے مطابق یہ مناظرے باز صرف اپنی وقتی واہ واہ اور علمی دستار اونچی ثابت کرنے کے لیے اہل سنت کو تباہی و بربادی کے عمیق کھائیوں میں دھکیلنے کا سبب بن رہے ہیں، عوام اہل سنت کو ان کے جھنڈے اٹھانے اور نعرے لگانے کی بجائے انہیں اپنے سروں سے اتار پھینکنا چاہیے اور ان کا مکمل سوشل بائیکاٹ کرنا چاہیے، تاکہ انہیں اپنی اس بھیانک غلطی کا احساس ہو اور وہ آئندہ ایسی قبیح و شنیع حرکتوں سے باز آ جائیں.

باقی رہ گیا احقاق حق تو اس کے لیے اصولی طریقہ یہ ہے کہ سو پچاس جید و مستند علماے کرام کا بورڈ بنا کر انہیں مسائل سلجھانے کی ذمے داری سپرد کی جائے.
اگر بوجوہ بورڈ بنانے کے فریضے میں بے توجہی یا تاخیر سے کام لیا جاتا ہے تو بھی احقاق حق کے لیے مروجہ قسم کے مناظروں کی روش ترک کر کے شائستگی، متانت، سنجیدگی وغیرہ آداب اختلاف کی رعایت کرتے ہوئے اپنا اپنا نقطہ نظر تقریرا یا تحریرا لوگوں کے سامنے رکھ دینا چاہیے ، اب صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، اس کا فیصلہ فہیم حضرات خود ہی کر لیں گے.. دھاڑ دھاڑ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.
(عون محمد سعیدی مصطفوی بہاول پور)
21-7-2019

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...