Sunday, August 25, 2019

لڑکی کی میڈیکل تعلیم؟

اس تحریر پر کوئی فقہ،شریعہ و قانون کے ماہر اپنی تحقیق پیش کردیں تو مہربانی ہوگی۔
لڑکی کی میڈیکل تعلیم؟
ایک صاحب نے مجھے تحریر کیا :
" میں ایک ڈاکٹر ہوں _ میرا پورا گھرانہ دینی رجحان رکھتا ہے _ میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنانا چاہتا ہوں ، لیکن سسرال کے لوگ مخالفت کر رہے ہیں _ کیا شرعی اعتبار سے لڑکیوں کو میڈیکل تعلیم دلانے میں کوئی حرج ہے؟
میں نے انہیں یہ مختصر جواب دیا :
* آپ کی سسرال والوں کی مخالفت کی وجہ شاید یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ لڑکی کو ڈاکٹر بننے کے بعد اسے عورتوں کے ساتھ مردوں کا علاج بھی کرنا پڑے گا _ اگر ایسا ہے تو اس وجہ سے مخالفت درست نہیں _ شرعی طور پر اجازت ہے کہ عورت مردوں کا علاج کرسکتی ہے _ امام بخاری نے اپنی صحیح میں بعض ایسی احادیث درج کی ہیں جن سے عورتوں کے ذریعے مردوں کا علاج ثابت ہے _ انھوں نے ان احادیث پر یہ عناوین (ترجمۃ الباب) قائم کیے ہیں :
باب ھل یداوي الرجل المرأة أو المرأة الرجل 
(اس چیز کا بیان کہ کیا مرد عورت کا علاج کرسکتا ہے؟ یا عورت مرد کا علاج کرسکتی ہے؟) 
باب المرأة ترقى الرجل 
(اس چیز کا بیان کہ عورت مرد کا علاج کرسکتی ہے)
* یہ کیسا دینی گھرانہ ہے جو لڑکی کی میڈیکل تعلیم میں رکاوٹ بن رہا ہے؟
* عجیب بات ہے کہ مسلمان گھرانے اپنی عورتوں کا علاج مردوں سے کرانا تو گوارا کرتے ہیں ، لیکن ایسی خواتین ڈاکٹرس تیار نہیں کرتے جو ان کی عورتوں کا علاج کر سکیں _(منقول )

آہ میرے مدینے کا مظلوم!


میں تاریخ سے لڑنا نہیں چاہتا اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 10 دن بند رہا تب بھی ٹھیک اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 7 دن بند رہا تب بھی ٹھیک
میرا نظریہ ہے کہ حضرت حسینؓ کاپانی بند نابھی کیا گیا ہو تب بھی نواسہ رسولؐ مظلوم ہے
لیکن تاریخ کو چھیڑنے کی بجائے تاریخ کا مطالعہ کرتاہوں تو مجھے نظر آتاہے کہ اسلام کی تاریخ میں صرف حضرت حسینؓ کی ہی شھادت مظلومانہ یا دردناک نہیں بلکہ اگر ہم 10 محرم کہ طرف جاتے ہوئے رستہ میں 18 ذی الحجہ کی تاریخ پڑھیں تو ایک ایسی شھادت دکھائی دیتی ہے
جسمیں شھید ہونیوالے کا نام حضرت عثمانؓ ہے
جی ہاں وہی عثمانؓ جنہیں ہم ذالنورین کہتے ہیں
وہی عثمانؓ جسے ہم داماد مصطفیؐ کہتے ہیں
وہہی عثمان جسے ہم
جامع القرآن کہتے ہیں
وہی عثمانؓ جسے ہم خلیفہ سوم کہتے ہیں
وہی عثمانؓ جو حضرت علیؓ کی شادی کا سارا خرچہ اٹھاتے ہیں
وہی عثمانؓ جسکی حفاظت کیلئے حضرت علیؓ اپنے بیٹے حضرت حسینؓ کو بھیجتے ہیں
وہی عثمانؓ جسے جناب محمد رسول اللہؐ کا دوہرا داماد کہتے ہیں
خیر یہ باتیں تو آپکو علما۶ و خطبا۶ حضرات بتاتے رہتے ہیں
کیونکہ حضرت عثمانؓ کی شان تو بیان کی جاتی
حضرت عثمانؓ کی سیرت تو بیان کیجاتی ہے
حضرت عثمانؓ کی شرم حیا کے تذکرے کئے جاتے ہیں انکے قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات سنائے جاتے ہیں
لیکن بد قسمتی ہے یہ کہ انکی مظلومیت کو بیان نہیں کیا جاتا انکی دردناک شھادت کے قصہ کو عوام کے سامنے نہیں لایاجاتا
تاریخ کی چیخیں نکل جائیں اگر عثمانؓ کی مظلومیت کا ذکر کیا جائے
لیکن میں اتنا جانتاہوں کہ عثمان وہ مظلوم تھا
جسکا 40 دن پانی بند رکھا گیا آج وہ عثمان پانی کو ترس رہاہے جو کبھی امت کیلئے پانی کے کنویں خریدا کرتاتھا
حضرت عثمانؓ قید میں تھے تو پیاس کی شدت سے جب نڈھال ہوئے تو آواز لگائی ہے کوٸی
جو مجھے پانی پلائے ؟
حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو مشکیزہ لیکر علیؓ عثمان ؓ کا ساقی بن کر پانی پلانے آرہے ہیں
ہائے ۔۔۔
آج کربلا میں علی اصغر پر برسنے والے تیروں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر برسنے والے تیروں کا ذکر نہیں ہوتا باغیوں نے حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر تیر برسانے شروع کئے تو علیؓ نے اپنا عمامہ ہوا میں اچھالا تاکہ عثمانؓ کی نظر پڑے اور کل قیامت کے روز عثمانؓ اللہ کو شکایت نا لگاسکے کہ اللہ میرے ہونٹ جب پیاسے تھے تو تیری مخلوق سے مجھے کوئی پانی پلانے نا آیا
کربلا میں حسینؓ کا ساقی اگر عباس تھا
تو مدینہ میں عثمانؓ کا ساقی علیؓ تھے
اس عثمانؓ کو 40 دن ہوگئے ایک گھر میں بند کیئے ہوئے جو عثمانؓ مسجد نبوی کیلئے جگہ خریدا کرتاتھا
آج وہ عثمانؓ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتا جسکی محفل میں بیٹھنے کیلئے صحابہ جوق درجوق آیاکرتے تھے
40 دن گزر گئے اس عثمانؓ کو کھانہ نہیں ملا جو اناج سے بھرے اونٹ نبیؐ کی خدمت میں پیش کردیا کرتاتھا
آج اس عثمان کی داڑھی کھینچی جارہی ہے جس عثمان سے آسمان کے فرشتے بھی حیاکرتے تھے
آج اس عثمانؓ پر ظلم کیا جارہا ہے جو کبھی غزوہ احد میں حضور نبی کریمؐ کا محافظ تھا
آج اس عثمانؓ۔کا وہ ہاتھ کاٹ دیا گیا جس ہاتھ سے آپؐ کی بیعت کہ تھی
ہائے عثمان میں نقطہ دان نہیں  جو تیری شھادت کو بیان کروں اور دل پھٹ جائیں آنکھیں نم ہوجائیں
آج اس عثمانؓ کے جسم پر برچھی مار کر لہو لہان کردیا گیا جس عثمان نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا
آج آپؐ کی 2 بیٹیوں کے شوہر کو ٹھوکریں ماری جارہی ہیں
18 ذی الحجہ 35 ھجری ہے جمعہ کا دن ہے حضرت عثمانؓ روزہ کی حالت میں ہیں باغی دیوار پھلانگ کر آتے ہیں اور میرے پیارے عثمانؓ کی داڑھی کھینچتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں ایک باغی پیٹھ پر برچھی مارتاہے ایک باغی لوہے کا آہنی ہتھیار سر پر مارتاہے ایک تلوار نکالتا ہے میرے عثمانؓ کو ذبح کرتا ہے
اللہ دیکھ رہا ہے
عثمان کا ذبح ہونا
فرشتے دیکھ رہے ہیں
عثمان کا شھید ہونا
چرند پرند دیکھ رہے ہیں
عثمان کا قربان ہونا
قرآن سامنے پڑا تھا خون قرآن پر گرتا ہے
تو قران بھی عثمانؓ کی شھادت کا گواہ بن گیا
عثمانؓ زمین پر گر پڑے
تو عثمانؓ کو ٹھوکریں مارنے لگے جس سے آپ کی پسلیاں تک ٹوٹ گئیں
بالآخر حضرت عثمانؓ باغیوں کے ظلم سے شھید ہوگئے۔
کاش کہ اس مظلوم کو کوٸی  بیان کرتا
کاش کہ اس مظلوم کو کوٸی بیان کرتا
اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی
دیا خون صحابہؓ نے پھر اس میں بہار آئی::
منقول

Thursday, August 22, 2019

زندگی کو کامیا ب کیسے بنائیں؟

زندگی کو کامیا ب کیسے بنائیں؟
آپ نے بارہا اپنی زندگی کو بدلنے کا خیال کیا ہوگا لیکن وہ خیال  ایک خیال محض بن کر رہ گیا ہوگا اور عملا آپ جہاں تھے اور جیسے تھے    ٹھیک وہیں رک تھم گئے ہوں گے؟
کبھی آپ نے بہت زور سے ٹھانا ہوگا کہ  اس بار  آپ کم از کم  اپنی زندگی کے اس گوشے کو ضرور بدلوگے  جو آپ کو کافی پریشان کرتا ہے یا اس عادت کو ضرور چینج کروگے جو آپ کو بارہاں رسو اکرتا ہے لیکن حسب معمول ایسا حقیقت میں کچھ بھی نہ  ہوسکے؟
آپ نے بارہا خود سے پوچھا ہوگا کہ میں کیسے اپنی زندگی کو خوبصورت اور پرسکون  بنا سکتا ہوں اور اس کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا!
لیکن شاید آپ  کی رسائی اس جوہر تک نہ ہوئی ہوگی جہاں سے آپ کی زندگی میں تبدیلی متوقع تھے؟
شاید آپ  کو معلوم ہو کہ  تبدیلی کے وہ جواہر عزت نفس ،حمیت،دلجمعی اور عزم مصمم  اور کر گزرنے کا جذبہ صادق  کے علاوہ کچھ اور نہیں!
لیکن چوں کہ  زمانہ تغیر پذیر ہے  اس لیے یقینا آپ نے بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح اپنے آپ میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور محسوس کیا ہوگا ۔بالخصوص ابتدائے حیات کے ان دنوں میں جب کسی خارجی اسباب و عوامل مثلا مطالعہ کتب یا سماجی تبدیلیوں کے پیش نظر غیر شعوری طور آپ کے اندر نئے افکار جنم لے رہے تھے اور آپ کو فکری لحاظ سے تبدیل کر رہے تھے اوریوں آپ تحت الشعور  جسمانی اور فکری لحاظ سے روز افزوں تغیر پذیر تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے جسے آپ کبھی جھٹلا نہیں سکتے کہ بچپن کے دنوں میں ہرکوئی فطری طور پر انتہائی  تیزی کے ساتھ بدلتا ہے اور وہ اس لیے کہ دنیا کی وہ واحد مخلوق بچے ہوتے ہیں جو آنکھ بند کرکے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں  ؟
یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا  ہم شعوری طور پر   اپنی ذات کے اندر  بھی کوئی مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں؟
اس کا جواب بہت سادہ ہے کہ یقینا  ہم ایسا کر سکتے ہیں۔
لیکن دوسرا اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ وہ کیسے؟
تو یہاں بھی جواب بالکل آسان ہے کہ پلاننگ اور پروگرامنگ ،خاص اسٹراٹیجک اور تکنیک کے ذریعے،اپنے فکروخیال اور طریقہ تفکیر   کو وقت کی پکار کے سانچے میں ڈھال کر۔
تو دوستو! کیا اب  بھی اصل تبدیلی کے جوہری نکات  تک آپ کی رسائی نہ ہوسکی؟
اگر ایسا ہے تو لیجیے اس کے چند نکات حاضر ہیں، لکن ٹھہر یے ....پہلے یہ فیصلہ کیجیے کہ کیا واقعی آپ خود کو بدلنا چاہتے ہیں؟ ....اگر جواب ہاں ہے تو یہ عزم  و یقین بھی آپ کو پکا  کرنا ہے کہ آپ ان ہدایات پر چلیں گے،کیوں اس کے بغیر عملی زندگی میں کسی تبدیلی کا خیال  بے فائدہ ہے۔
تبدیلی کے جواہر پارے  یہ ہیں:
1.     سب سے پہلے آپ اس گوشوےکو  ہائی لائٹ کیجیے جسے یا جہاں آپ تبدیلی چاہتے ہیں اور پھر یک سوئی سے اس کے تمام اجزا کا تحلیل و تجزیہ کریں کہ آیا وہ تبدیلی سرے سے ضروری بھی ہے یا نہیں یا ہے تو کیا اس کے پیچھے جتنی جہد مطلوب ہے وہ اس سے زیادہ کارآمد ،ثمر آور اور ضروری بھی ہے یا نہیں اور پھر آخر میں یہ کہ اس کا کون سا حصہ کس قدر اہم ہے اور ہمیں تبدیلی کا آغاز کہاں سے  ،کب سے کرنا ہے اور کتنے دنوں میں اسے پورا  کرنا ہے۔اور پھر یہ کہ اس کا ہدف کیا ہے ۔
2.     اس طرح سے آپ  ایک واضح  میپ تیار کیجیے  اس میں عزم و ارادے کا  جی پی ایس  لگائیں اور آنکھ کھول کر اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ٹھیک اسی ڈائرکشن میں چل پڑیے جو آپ کی منزل کی طرف جاتا ہے۔
3.     جب میپ ورک تیار ہو جائے تو ڈیلی روٹین کا چارٹ تیار کیجیے اور پھر ہر دن کیا کرنا تھا اور آپ نے کتنا کیا اور کتنا باقی ہے اس کا تجزیہ کیجیے بلکہ مراقبہ محاسبہ اور پھر مجاہدہ کیجیے۔
4.     آپ جس تبدیلی کو چاہتے ہیں اسے اپنا اوڑھنا بچھونا اور شوق بنا لیجیے اور پھر اس کو حاصل کرنے کے لیے اس طلب کو جنم دیجیے جو پیاس کے وقت پانی کے لیے اور بھوک لگنے پر کھانے کے لیے ہوتی ہے ۔
5.     تبدیلی کے کچھ ضروری وسائل اگر مطلوب ہیں تو اس پر خاص توجہ دیں اور اس کے حصول کے لیے آج سے ہی تگ و دو شروع کیجیے مثلا آپ کواپنے ٹارگٹ کے لیے کچھ کتابیں مطلوب ہیں جو آپ کے لیے مددگار ہوں گی تو اسے حاصل کیجیے اگر کسی کلاس کی ضرورت ہے تو اسے ممکن بنائیے، اگر سائٹ وزٹ یا مٹنگ کی ضرورت ہے تو اسے پہلے پلان کیجیے اور یوں آپ ممکنہ وسائل کو حاصل کیجیے ۔
6.     آپ سے ملتے جلتے اہداف  کو حاصل کرنے والی شخصیات اگر آپ کی نظر میں ہوں یا اس ہدف پر کسی کا کوئی ریسرچ ہو چکا ہویا آپ کا ہدف کسی کا پیشہ ہو تو آپ ان سے  بالواسطہ یا بلا واسطہ  استفادہ کیجیے۔ان پر کوئی بایوگرافی ،ناول یا ریسرچ  ہو تو اسے حاصل کیجیے۔
7.     آپ اپنے ٹارگٹ کو للچاتی نگاہ اور حسرت بھری  آنکھوں سے دیکھیں اور یہ محسوس کریں کے وہ آپ کے سامنے والی کرسی پر رکھی ہے اور آپ اٹھ کھڑے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں بس وہ آپ کو ملنے والا ہے۔
8.     باربار خود کو یاد دلائیے کہ وہ تمہارے لیے ہی ہے اور تم سے بہتر اس کا کوئی حقدار نہیں اور تم ہی اس کو حاصل کرسکتے ہیں دوسرا کوئی نہیں ۔
9.     آپ اپنی خفیہ اور ظاہری تمام تر صلاحیتوں پر یقین رکھیے اور خود کو حوصلہ مند بنائیے،آپ  اپنے مالی حالت اور عادت و اطوار ہر ایک کو غیر معمولی اہمیت دیں اور جو کچھ حاصل ہے اسے ہی کافی سمجھیے مزید کے طلب میں سب کچھ نہ گنوائیے۔
10.  یقینا آپ نے اگر اوپر کے نقوش کو عملی زندگی میں ڈھال لیا تو دیر سویر صحیح آپ اپنی منزل کو ضرور پہنچیں گے۔خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خوڈ پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
मंजिल से आगे बढ़ कर मंजिल तलाश कर !!
مل جائے تجھکو دریا تو سمندر تلاش کر
मिल जाये तुझको दरया तो समन्दर तलाश कर !!
ہر شیشہ ٹوٹ جاتا ہے پتھر کی چوٹ سے
हर शीशा टूट जाता है पथ्थर की चोट से !!
پتھر ہی ٹوٹ جائے وہ شیشہ تلاش کر
पथ्थर ही टूट जाये वो शीशा तलाश कर !!
سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزرگئیں
सजदों से तेरे क्या हुआ सदियाँ गुजर गयीं !!
دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر
दुनिया तेरी बदल दे वो सजदा तलाश कर !!
ایمان تیرا لُٹ گیا رہزن کے ہاتھوں سے
ईमान तेरा टूट गया रहबर के हाथों से !!
ایماں تیرا بچالے وہ رہبر تلاش کر
ईमान तेरा बचा ले वो रहबर तलाश कर !!
ہر شخص جل رہا ہے عداوت کی آگ میں
हर शख्स जल रहा है अदावत की आग में !!
اس آگ کو بجھا دے وہ پانی تلاش کر
इस आग को बुझा दे वो पानी तलाश कर !!
کرے سوار اونٹ پہ اپنے غلام کو
करे सवार ऊंट पे अपने गुलाम को !!
پیدل ہی خود چلے جو وہ آقا تلاش کر.
पैदल ही खुद चले जो वो आका तलाश कर !!


از قلم : محمد نورالدین ازہری
عربی میں پڑھنے کے لیے کلک کریں!



عورتیں بلاوجہ کیوں روتی ہیں؟

ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺍﻣﯽ ﺁﭖ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﯿﮟ؟
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﻮﮞ۔
ﻟﮍﮐﺎ : ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ۔
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ
ﮐﮩﺎ : ﺗﻢ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﭘﺎﺅ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﻌﻞ۔
ﻟﮍﮐﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺑﺎ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ! ﺍﻣﯽ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﯿﮟ؟
ﺑﺎﭖ : ﺑﯿﭩﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﺭﻭ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﻮﮞ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺍﺳﻮﻗﺖ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﺿﺢ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮧ ﻣﻞ ﺳﮑﺎ۔
۔
ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﺍﻧﺎ ﺑﺰﺭﮒ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻟﮕﺎ۔ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺳﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﺎ۔ ﺍﻥ ﺑﺰﺭﮒِ ﺩﺍﻧﺎ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ :
ﺑﯿﭩﺎ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﻮﺟﮫ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﺮﻡ , ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﺯﺅﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﺮﺍﺣﺖ ﺩﮮ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﻮ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﻗﻮﺕ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻮﮐﮫ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻨﻢ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﮬﺘﮑﺎﺭﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﮩﺎﺭ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺧﺎﺹ ﻗﻮﺕ ﺑﮭﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻏﻤﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺳﺨﺖ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮑﻮﮦ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﮧ ﻻﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﭘﮧ ﻣﻀﺒﻮﻃﯽ ﺳﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮦ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﻧﺎ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﮔﺴﺘﺎﺥ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮ ﻭﮦ ﭘﻠﮏ ﺟﮭﭙﮑﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﺫﯾﺖ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ , ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺗﮑﺎﻟﯿﻒ ﺍﻭﺭ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﺣﺪ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﻨﺪ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎ ﺳﮑﮯ , ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺮﺏ ﮐﻮ ﮐﻢ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻧﺌﮯ ﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻏﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔ ﯾﮩﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻭﺍﺣﺪ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﻧﮑﺘﮧ ﮨﮯ۔
ﺍﺳﻠﺌﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﻋﺰﺕ ﺩﯾﻨﯽ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﻀﺤﮑﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﮌﺍﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ ﭼﺎﮨﮯ ﻭﮦ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﻭﺟﮧ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺋﮯ۔
ﺑﯿﭩﺎ ! ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﯽ ﻧﺎﻟﯽ ﺍﺳﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﻟﻤﺤﮯ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻥ ﻧﺎﻑ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺟﺴﻢ ﭘﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﻮ , ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﯽ ﮨﮯ , ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻧﻮ ﻣﺎﮦ ﺗﮏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻮﮐﮫ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻨﺖ ﺳﯿﻨﺖ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ۔
۔
ﯾﻮﮞ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﮨﻞ ﻭ ﻋﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﺑﻘﯿﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﻟﻐﺰﺷﯿﮟ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﺎﮞ ﻧﺼﯿﺐ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ۔آمین.

Wednesday, August 21, 2019

राजा बनो मौत के मुंह में चले जाओ


किसी मुल्क़ में एक क़ानून था कि वो एक साल बाद अपना बादशाह बदल लेते।
उस दिन जो भी सब से पहले शहर में दाख़िल होता उसे बादशाह चुन लेते
और इससे पहले वाले बादशाह को एक बहुत ही ख़तरनाक और मीलों फैले जंगल के बीचों बीज छोड़ आते जहां बेचारा अगर दरिंदों से किसी तरह अपने आप को बचा लेता तो भूख- प्यास से मर जाता ।
दरबारियों ने उसे इस मुल्क़ का क़ानून बताया कि हर बादशाह को एक साल बाद जंगल में छोड़ दिया जाता है और नया बादशाह चुन लिया जाता है । ये सुनते ही वो परेशान हुआ
लेकिन फिर उसने अपनी अक़्ल को इस्तिमाल करते हुए कहा कि मुझे उस जगह लेकर जाओ जहाँ तुम बादशाह को छोड़कर आते हो।

दरबारियों ने सिपाहियों को साथ लिया और बादशाह सलामत को वो जगह दिखाने जंगल में ले गए , बादशाह ने अच्छी तरह उस जगह का जायज़ा लिया और वापस आ गया
अगले दिन उसने सबसे पहला हुक्म ये दिया कि मेरे महल से जंगल तक एक सड़क तामीर की जाये और जंगल के बीचों बीज एक ख़ूबसूरत महल तामीर किया जाये जहां पर हर किस्म की सहूलियतें मौजूद हों और महल के इर्द गिर्द ख़ूबसूरत बाग़ लगाए जाएं
कुछ ही अर्से में सड़क और महल बनकर तैय्यार हो गए एक साल के पूरे होते ही बादशाह ने दरबारियों से कहा कि अपनी रस्म पूरी करो और मुझे वहां छोड़ आओ जहां मुझ से पहले बादशाहों को छोड़ के आते थे।


आज राजा की विदाई का आखिरी दिन है!
लोग नहीं चाहते भी विदाई का इंतजारकर रहे हैं!
अचानक उनसे राजा उत्पन्न होता है
दूसरे लोगो से वह खुश होकर मिलता है

दरबारियों ने कहा कि बादशाह सलामत आज से ये रस्म ख़त्म हो गई क्योंकि हमें एक अक़लमंद बादशाह मिल गया है
वहाँ तो हम इन बेवक़ूफ बादशाहों को छोड़कर आते थे जो एक साल की बादशाही के मज़े में
बाक़ी की ज़िंदगी को भूल जाते और अपने लिए कोई इंतिज़ाम ना करते,
लेकिन आप ने अक़्लमंदी का मुज़ाहरा किया कि आगे का ख़ूब बंदोबस्त फ़र्मा लिया।
हमें ऐसे ही अक़लमंद बादशाह की ज़रूरत थी
अब आप आराम से सारी ज़िंदगी राज़ करें
 लिखित

ایک ملک کا حکمران بنانے کا انوکھا طریقہ


نئے بادشاہ کا انتخاب  اس شرط پر کہ سال پورا ہونے پر اسے موت کے منہ میں جاناہوگا
ایک ملک کا حکمران چن نے کا بالکل انوکھا طریقہ تھا،وہ سال کے ختم ہوتے ہی ایک نئے بادشاہ کو اس شرط پر  تخت نشین  کرتے کہ سال پورا ہوتے ہی اسے ایک جزیرے میں نظر بند کردیا جائے گا۔یہ جزیرہ کوئی غیر معمولی جزیرہ نہ تھا،یہاں ہر طرح کے درندے اور خونخوار جانور پائے جاتے تھے،مانو کہ وہ کسی شکاری کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہوں۔جب کوئی انسان اس سن سان جزیرے میں داخل ہوتا وہ کسی نہ کسی درندے کی خوراک بن جاتا۔
کسی کو معلوم نہیں ہے کہ اس  جنگل نما جزیرے میں جانے کے بعد کتنے بادشاہوں کی موت ہوئی ، اس بار ، شہر میں داخل ہونے والا نوجوان کسی دور دراز کے علاقے سے چن کر لایا گیا تھا، سب نے آگے بڑھ کر اس کو مبارکباد دی۔اور اسے بادشاہت کی چابی سونپ دی گئی۔وہ تخت پر بیٹھتے ہی حیرت زدہ  ہونے کے ساتھ ساتھ  بہت خوش ہوا، اس نے پوچھاکہ جو بادشاہ  مجھ سے پہلے تھا وہ کہاں گیا؟
درباریوں نے اسے ملک کا قانون بتایا ؟ کہ ہر شہنشاہ کو ایک سال بعد جنگل نما جزیرے میں چھوڑ دیا  جاتا ہے اور ایک نیا شہنشاہ چن لیا جاتا ہے۔ یہ سن کر وہ ایک بار پھر پریشان ہو گیا۔
لیکن پھر اس نے اپنی دانشمندی کا استعمال کرتے ہوئے کہا: کہ مجھے اس جگہ لے چلوجہاں تم پرانے بادشاہوں کو چھوڑ آتے ہو۔
درباریوں نے سپاہیوں کو ساتھ لیا اور بادشاہ سلامت کو جنگل میں لے گئے تاکہ انہیں وہ جگہ دکھائیں۔وہاں پہنچ کر  شہنشاہ اس جگہ کا اچھی طرح جائزہ لے کر واپس لوٹ آتا ہے۔
دوسرے دن وہ  پہلا حکم یہ دیتا ہے کہ میرے محل سے جنگل تک ایک سڑک بنائی جائے اور جنگل کے وسط میں ایک خوبصورت محل تعمیر کیا جائے ،جہاں ہر طرح کی سہولیات موجود ہوں اور محل کے آس پاس خوبصورت باغات لگائے جائیں۔
بادشاہ کے حکم پر کام شروع ہوا ،اس دوران بادشاہ نے نہایت ہی سادہ زندگی گزارنا شروع کی، اس نے گو کہ خود کو کسی معمولی رعایہ کی زندگی میں ڈھال لی ہو۔وہ اپنی تمام تر آمدنی کو نئے جزیرے کی تعمیر میں صرف کرتا رہا۔خود اپنی نگرانی میں سارے کام کرواتا،یہاں تک کہ وقت رہتے وہ ویران جزیرہ ایک خوبصورت شہر میں تبدیل ہو چلا تھا۔
دھیرے دھیرے وقت گزرا اور سال پورے ہوے اور حسب دستور لوگوں نے نم آنکھوں سے بادشاہ کو جہنم نما جزیرے میں چھوڑنے کی تیاری شروع کردی۔
ہر طرف مایوسی کا پہرہ  تھا،اور لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ بادشاہ اتنا سادہ اور رعایہ پرور ہے، وہ اب ہم سے دور ہو رہا ہے، یہ سوچ کر لوگوں پر غم کے بادل گہرے ہو رہے تھے۔ہر کوئی دل ہی دل میں یہ دعائیں کر رہا تھا کہ کسی قدر یہ بادشاہ ہمیں چھوڑ کر نہ جائے۔
آج بادشاہ کی الواداعی کا آخری دن ہے!
 بلکہ ایک محسن کی جدائی کا آخری دن!
 لوگ بھاری دل سے جدائی کے پل کا انتظار کر رہے ہیں!
 اچانک بادشاہ ان کے سامنے رونما ہوتا ہے اور  لوگوں سے ہنس مکھ چہرے اور خوش و خرم لہجے میں ملتا ہے،لوگ دوسرے بادشاہوں کے برخلاف اس بادشاہ کو خوش دیکھ کر سکتے میں چلے جاتے ہیں............ ہر ایک اپنی طرف سے اس مسکراتے چہرے کی تعبیر شروع کردیتا ہے... کوئی کہتا ہے کہ زندگی میں سادگی سے جینے والے موت سے نہیں ڈرتے...تو کوئی کہتا ہے کہ یہ اللہ والے ہیں انہیں دنیا کا کوئی غم نہیں... غرض کہ ہر کوئی خود کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کسی کو حقیقت کا علم نہ تھا، یہاں تک کہ کسی نے ہمت جٹائی اور سوال کر ہی ڈالا کہ بادشاہ سلامت دوسرے بادشاہوں کے برخلاف آپ پر جدائی کے کوئی آثار کیوں نہیں؟ 
بادشاہ نہایت  سنجیدگی سے مسکرا کر جواب دیتا ہے کہ :
ان بادشاہوں کو وہاں جانے سے ڈر اس لیے لگتا تھا کہ وہ اس مختصر زندگی میں اس قدر مست ہوگئے تھے کہ انہیں کل کی کوئی خبر ہی نہیں تھی اور مجھے کوئی شرمندگی اس لیے نہیں کہ ہم نے سب کچھ کل اور وہاں کے لیے ہی کیا ہے.. ہم نے ایک سال کی اس چھوٹی سی لذت کو بھلا کر اس کل کی تیاری میں خود کو لگادیا تھا جہاں مجھے پوری زندگی رہنی ہے اور آج میں پوری تیاری کے ساتھ وہاں جا رہا ہوں، اب ہمیں وہاں جانے میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
 سنو اب وہ ویران اور کال کوٹھری نما جزیرہ خوبصورت جنت کی شکل اختیا کر چکا ہے۔
یہ سن کر درباریوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت اب پرانے رسم و رواج کا خاتمہ ہوچکا ہے ، کیونکہ ہمیں ایک عقلمند بادشاہ کی تلاش تھی جو آج ہمیں  مل گیا ہے،وہاں تو ہم ان بے وقوف شہنشاہوں کو چھوڑ دیتے تھے جو ایک سال کی خودمختاری کا لطف اٹھاتے تھے۔اپنی ساری زندگی کو بھول جاتے اور اپنے لئے کچھ نہ کرتے،”لیکن آپ نے دانشمندی کا مظاہرہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ کے علاوہ کوئی دوسرا ہمار بادشاہ نہیں ہوسکتا ! ہمیں اسی طرح کے ایک ذہین بادشاہ کی ضرورت تھی۔
"اب آپ آرام سے اسی ملک میں  زندگی بسر کریں !
دوستو! اس واقعہ سے پتہ چلا کہ یہ زندگی بہت تھوڑی ہے اور ہمیں دوسری زندگی میں کب جانا ہے اس کا کسی کو علم نہیں۔ اس لیے ہمیں آنے والی زندگی کو اس چھوٹی سی زندگی پر ترجیح دینی چاہیے۔ اس دنیا کو مسافر کی طرح جیو جس کی منزل دوسری دنیا ہے اور وہ ہے آخرت کی دنیا۔
ازقلم : محمد نورالدین ازہری
ہندی میں پڑھنے کے لیے کلک کریں

کیا ہوگا اگر مرنے کے بعد پتہ چلے کہ جنت و جہنم کا کوئی وجود نہیں؟

ایک سچی کہانی ایک ایسے شخص کی جس نے ایک نماز پڑھنے والے شخص سے دریافت کیا کہ کیا ہوگا اگر مرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوکہ  نہ ہی جنت  و جہنم کا وجود ہے نہ ہی کوئی سزا اور جزا ہے پھر تم کیا کروگے ؟
اس کا جو جواب ملا وہ بہت ہی حیران کن اور تعجب خیز ہے لیجئے پوری کہانی *فرض کریں اگر* آپ کے پیش خدمت ہے :
   کہتے ہیں سنہ 2007م کی بات ہے لندن کے ایک عربی ریسٹورینٹ میں ہم لوگ مغرب کی نماز سے تھوڑی دیر پہلے ڈنر کےلئے داخل ہوئے 
 ہم لوگ ہوٹل میں بیٹھے اور ویٹر آڈر لینے کے لئے آگیا میں نے مہمانوں سے چند منٹ کے لئے اجازت طلب کی اور پھر واپس آگیا اتنے میں مہمانوں میں سے ایک شخص نے سوال کیا ڈاکٹر صاحب آپ کہاں گئے تھے آپ نے تو بڑی تاخیر کردی کہاں تھے ؟
میں نے کہا:  میں معذرت خواہ ہوں  در اصل میں نماز پڑھ رہا تھا 
اس نے مسکراتے ہوئے کہا آپ اب تک نماز پڑھتے ہیں؟ میرے بھائی آپ تو قدامت پسند ہیں 
میں نے بھی مسکراتے ہوئےپوچھا قدامت پسند ؟وہ کیوں ؟کیا اللہ تعالی صرف عربی ممالک میں ہے لندن میں نہیں ہے؟
اس نے کہا:ڈاکٹرصاحب میں آپ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ آپ اپنی جس کشادہ ظرفی کیلئے معروف ہیں اسی  کشادہ قلبی سے مجھے تھوڑا سا برداشت کریں گے
میں نے کہا: جی مجھے تو بڑی خوشی ہوگی لیکن میری ایک شرط ہے 
اس نے کہا :جی فرمائیں 
میں نے کہا : اپنے سوالات مکمل کرلینے کے بعد تمہیں ہار یا جیت کا اعتراف کرنا پڑے گا ٹھیک ہے ؟
اس نے کہا ٹھیک ہے مجھے منظور ہے اور یہ  رہا میرا وعدہ 
میں نے کہا :چلو بحث شروع کرتے ہیں ...فرمائیں 
اس نے کہا :آپ کب سے نماز پڑھ رہے ہیں؟ 
میں نے کہا سات سال کی عمر سے میں نے اس کو سیکھنا شروع کیا اور نو سال کی عمر میں پختہ کرلیا تب سے اب تک کبھی نماز نہیں چھوڑا اور آئندہ بھی ان شاء اللہ نہیں چھوڑوں گا . 
اس نے کہا ٹھیک ہے .. مرنے کے بعد اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ نہ جنت و جہنم کا وجود ہے نہ  ہی کو ئی جزا وسزا  ہے پھر آپ کیا کروگے ؟
میں نے کہا :تم سے کئے گئے عہد کے مطابق پوری کشادہ قلبی سے تمہارے سوالات کا آخر تک جواب دوں گا 
فرض کریں نہ ہی جنت وجہنم کا وجود ہوگا نہ ہی کوئی جزا وسزا ہوگی تو میں ہرگز ہی کچھ نہ کروں گا اس لئے کہ  در اصل میرا معاملہ ایساہی ہے جیسا کہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا :"الہی میں نے تیرے عذاب کے خوف اور جنت کی آرزو میں تیری عبادت نہیں کی ہے بلکہ میں نے اس لئے تیری عبادت کی ہے کیونکہ تو عبادت کے لائق ہے 
اس نے کہا : اور آپ کی وہ نمازیں جس کو دسیوں سال سے آپ پابندی کے ساتھ پڑھتے آرہے ہیں پھر آپکو معلوم ہو کہ نمازی اور بے نماز دونوں برابر ہیں جہنم نام کی کوئی چیز نہیں ہے پھر کیا کریں گے 
میں نے کہا:مجھے اس پر بھی کچھ پچھتاوا نہیں ہوگا کیونکہ کہ ان  نمازوں  کو ادا کرنے میں مجھے صرف چند منٹ ہی لگتے ہیں چنانچہ میں انھیں جسمانی ورزش  سمجھوں گا
 اس نے کہا:اور روزہ خصوصاً لندن میں کیونکہ یہاں روزے کا وقفہ ایک دن میں 18گھنٹے سے بھی تجاوز کرجاتا ہے ؟
میں نے کہا :میں اسے روحانی ورزش سمجھو ں گا چنانچہ وہ میری روح اور نفس کے لئے اعلی طرز کی ورزش ہے اسی طرح اس کے اندر صحت  سے جڑے بہت سارے  فوائد بھی ہیں جس کا فائدہ میری زندگی ہی میں مجھے مل چکا ہے اور  کئی  بین الاقوامی غیر اسلامی اداروں کابھی یہ ماننا ہے کہ کچھ وقفے تک کھاناپینا بند کرنا جسم کیلئے بہت مفید اور نفع بخش ہے  
اس نے کہا:آپ نے کبھی شراب پی ہے ؟
میں نے کہا :میں نے اس کو کبھی ہاتھ تک نہیں لگایا 
اس نے تعجب سے کہا: کبھی نہیں 
میں نے کہا کبھی نہیں 
اس نے کہا: اس زندگی میں اپنے آپ کو شراب نوشی کی لذت اور اس کے خمار  کے سرور سے محرومی کے بارے میں کیا کہیں گے اگر آپ لئے وہی ظاہر ہوا جو میں نے فرض کیا ہے؟ 
میں نے کہا: شراب کے  اندر  نفع  سے زیادہ  نقصان  ہے اور  میں سمجھوں گا کہ میں نے اپنے آپ کو اس  نقصان دہ چیز سے بچالیا ہے اور  اپنے  نفس  کو اس سے دور رکھا ہے چنانچہ  کتنے  ہی لوگ ایسے ہیں جو  شراب کی وجہ سے بیمار ہوگئے اور  کتنے ہی  ایسے ہیں جنھوں نے شراب کی وجہ سے اپنا گھربار  مال  واسباب سب تباہ وبرباد کرلیا ہے 
 اسی طرح  غیر اسلامی اداروں کےعالمی رپوٹ کو دیکھنے سے  بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی شراب کے اثرات اور اس کو لگاتار پینے کے انجام سے متنبہ کرتی ہے 
اس نے کہا :حج وعمرہ کا سفر .جب موت کے بعد آپ کو معلوم ہوگا  کہ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے اور اللہ تعالی ہی موجود نہیں ہے؟ 
میں نے کہا: میں عہد کے مطابق چلوں گا اور  پوری کشادہ ظرفی سے تمہارے سوالات کا جواب دوں گا 
میں حج وعمرہ کے سفر کو ایک خوبصورت  تفریحی سفرسے تعبیر کرونگا جس کے اندر  میں نے حد درجے کی فرحت وشادمانی محسوس کی اور اپنی روح کوآلائشوں سے پاک و صاف کیا جس طرح تم نے اپنے اس سفر کے لئے کیا ہے تاکہ تم ایک اچھا وقت گزار سکو اور اپنے عمل کے بوجھ اور معمولات زندگی کی تھکان کو دور کرکے اپنی روح کو تازگی فراہم کرسکو
    وہ میرےچہرے کو کچھ دیر  تک خاموشی سے دیکھتا رہا پھر گویا ہوا :آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرے سوالات کو بڑی کشادہ قلبی کے ساتھ برداشت کیا 
میرے سوالات ختم ہوئے اور میں آپ کے سامنے اپنی ہار تسلیم کرتا ہوں 
میں نے کہا :تمہارا کیا خیال ہے تمہارے ہار تسلیم کرنے کے بعد میرے دل کی کیا کیفیت ہوگی ؟
اس نے کہا :یقیناً آپ بہت خوش ہوں گے 
میں نے کہا: ہرگز نہیں بلکہ اس کے بلکل الٹا... میں بہت دکھی ہوں 
اس نے تعجب سے کہا: دکھی ؟کیو؟
میں نے کہا :اب تم سے سوال کرنے کی میری باری ہے 
اس نے کہا :فرمائیں 
میں نےکہا: تمہاری طرح میرے پاس ڈھیر سارے سوالات نہیں ہیں صرف ایک ہی سوال ہے وہ بھی بہت سادہ اور آسان 
اس نےکہا :وہ کیا ؟
میں نے کہا :میں نے تمہارے سامنےواضح کردیا ہے کہ تمہارے مفروضہ کے واقع ہونے کے بعد بھی میں کسی طرح کے گھاٹے میں نہیں ہوں اور نہ ہی اس میں میرا کسی قسم کا نقصان ہے ... لیکن میرا وہ ایک آسان  سوال یہ ہے کہ تمہارا اس وقت کیا ہوگا اگر حالات تمہارے مفروضہ کےبرعکس ظاہر ہوئے یعنی موت کے بعد تمہیں معلوم ہو کہ اللہ  تعالی بھی موجود ہے جنت و جہنم بھی ہے سزا وجزا بھی ہے اور قرآن کے اندر بیان کئے گئے سارے مشاہد و مناظر بھی ہیں پھر تم  اسوقت کیا کروگے ؟
      وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خاموشی کے ساتھ دیر تک دیکھتا رہا... اور پھر ویٹر نے ہماری میز پر کھانا رکھتے ہوئے ہماری خاموشی کو توڑا 
میں نے اس سے کہا:مجھے ابھی جواب نہیں چاہئے کھانا حاضر ہے ہم کھانا کھائیں اور جب تمہارا جواب تیار ہوجائیگا توبراہ مہربانی  مجھے خبر کردینا ہم کھانے سے فارغ ہوئے اور مجھے اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور میں نے بھی اس وقت اس کو جواب کے لئے کوئی تکلیف نہیں دی... ہم بہت ہی سادگی کے ساتھ جدا ہوگئے 
ایک مہینہ گزرنے کے بعد اس نے مجھ سے رابطہ کیا اور اسی ریسٹورینٹ میں ملاقات کا مطالبہ کیا 
ریسٹورینٹ میں ہماری ملاقات ہوئی ہم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا *کہ اچانک اس نےمیرے کندھے پر اپنا سر رکھ کر مجھے اپنی باہوں میں پکڑ کر رونے لگا* میں نے اپنا ہاتھ اس کی پیٹھ پر رکھا اور پوچھا کیا بات ہے تم کیوں رو رہے ہو 
اس نے کہا: میں یہاں آپ کا شکریہ ادا کرنے اور اپنے جواب سے آپ کو باخبر کرنے لئے آیا ہوں 
بیس سال سے بھی زیادہ عرصہ تک  نماز سے دور رہنے کے بعد اب میں نماز پڑھنے لگا ہوں آپ کے جملوں کی صدائے بازگشت میرے ذہن ودماغ میں بلا توقف گونجتی ہی رہی اور میں نیند کی لذت سے محروم  ہوتا رہا 
آپ نے میرے دل ودماغ اور  جسم  میں آتش فشاں چھوڑ دیا تھا اور وہ میرے اندر اثر کر گیا 
مجھے احساس ہونے لگا کہ جیسے میں کوئی اور انسان ہوں اور ایک نئی روح میرے جسم کے اندر حرکت کر رہی ہے ایک بے مثال قلبی سکون بھی محسوس کر رہا ہوں 
میں نے کہا :ہوسکتا ہے جب  تمہاری بصارت نے تمہاراساتھ  چھوڑ دیا  ہو تب ان جملوں نے تمہاری بصیرت کو بیدار کردیا ہو 
اس نے کہا: بالکل ایسا ہی ہے... یقینا  جب میری بصارت  نے میرا ساتھ چھوڑ دیا توان جملوں نے میری بصیرت کو بیدار کر دیا
اس واقعہ کو پڑھ کر یونہی مت گزرجائیں بلکہ اس کونشر کریں شاید یہ کسی شخص کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے


عربی  سے ترجمہ

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...