Friday, August 16, 2019

ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﺎﮞ

ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﺎﮞ

ﺑﮭﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﯿﮧ ﺟﻨﮓ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﮑﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﭘﺮ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﻧﻈﺮ ﺁ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ . ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺍﻥ ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺷﺐ ﻭ ﺭﻭﺯ ﺑﮭﺎﺭﺗﯽ ﻓﻠﻤﯿﮟ، ﮈﺭﺍﻣﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺳﻨﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ . ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﻮﺳﭧ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻨﺪ ﺧﻮﺵ ﻓﮩﻤﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﺪﮨﯽ ﮐﺮ ﺩﻭﮞ .
ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺑﺮﺣﻖ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺿﺮﻭﺭ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮ ﮔﯽ . ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﻏﺰﻭﮦ ﺁﺧﺮ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ . ﻏﺰﻭﺍﺕ ﺗﻮ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﻏﺰﻭﮦ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻨﻔﺲ ﻧﻔﯿﺲ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﮞ . ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺏ ﺗﮏ ﮐﺴﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﻏﺰﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﺣﺘﯽٰ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﮐﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﻟﮍﯼ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﻨﮕﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻟﻤﻼﺣﻢ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻏﺰﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ . ﮬﻨﺪ ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﻏﺰﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﺮﭘﺮﺳﺘﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ . ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﺟﺴﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ .
ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﺮ ﺟﻨﮓ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ . ﻧﺎ ﺗﻮ ﭘﯿﻨﺴﭩﮫ ﺍﻭﺭ ﺍﮐﮩﺘﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﻨﮕﯿﮟ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﮨﯽ ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﮍﯼ ﻭﮦ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﯽ .
ﺑَﻘِﻴَّﺔُ ﺑْﻦُ ﺍﻟْﻮَﻟِﻴﺪ ، ﺻَﻔْﻮَﺍﻥَ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻌﺾ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﺑﻮ ﮨﺮﯾﺮﮦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ
ﺿﺮﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﯾﮏ ﻟﺸﮑﺮ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻥ ﻣﺠﺎﮨﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮨﻨﺪﻭﻭﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﯿﮍﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮑﮍ ﮐﺮ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻋﯿﺴﯽٰ ﺍﺑﻦ ﻣﺮﯾﻢ ﮐﻮ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ - ﺍﺑﻮ ﺑﺮﯾﺮﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻧﯿﺎ، ﭘﺮﺍﻧﺎ ﻣﺎﻝ ﺳﺐ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﭘﺲ ﺟﺐ ﺍﻟﻠﻪ ﻓﺘﺢ ﺩﮮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻭﺍﭘﺲ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻋﯿﺴﯽٰ ﮐﻮ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎ ﺷﻮﻕ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﮮ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ - ﺍﺱ ﭘﺮ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻨﺴﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮑﻞ ﻣﺸﮑﻞ .
 ‏( ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻔﺘﻦ ﻧﻌﯿﻢ ﺑﻦ ﺣﻤﺎﺩ ‏)

ﮬﻨﺪ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﻌﮧ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺑﻌﯿﻦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﻧﺰﻭﻝ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﻗﺮﯾﺐ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﻮ ﮔﺎ . ﺁﭖ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺎ ﻧﺰﻭﻝ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﮐﯽ ﺑﯿﻌﺖ ﺧﻼﻓﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺕ ﯾﺎ ﻧﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﮨﻮ ﮔﺎ . ﺁﭖ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﺜﺎﻝ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﯾﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﮐﯽ ﺧﻼﻓﺖ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﺑﯿﺲ ﻣﯿﮟ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭ ﭘﭽﯿﺲ ﺳﮯ ﺩﻭ ﮨﺰﺍﺭﺳﺘﺎﺋﯿﺲ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮ ﮔﯽ . ‏( ﯾﮧ ﺻﺮﻑ ﻣﺜﺎﻝ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﺎﻝ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺐ ﮨﻮ ﮔﺎ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﮩﺘﺮ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ ‏)
ﻧﻌﯿﻢ ﺑﻦ ﺣﻤﺎﺩ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻔﺘﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺟﺐ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﻧﺠﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮑﮍ ﮐﺮ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻭﮦ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴٰﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﻮ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ . ﺟﺐ ﺷﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﮐﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻤﻠﺤﻤۃ ﺍﻟﮑﺒﺮﯼٰ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮﯾﻦ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﻣﺴﺘﻔﯿﺪ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺗﻮ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﺸﺮﻗﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﻧﺎ ﺭﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﻧﮯ ﺑﻠﮑﻞ ﺍﺳﯽ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﮐﯽ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻭ ﺳﺮﭘﺮﺳﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻓﻀﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﺟﮩﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺍﻓﻀﻞ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﮩﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ . ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﮯ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ . ﺍﺱ ﮐﮯﻋﻼﻭﮦ ﭘﺎﮎ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮓ ﮐﻮ ﺟﮩﺎﺩ ﻋﻈﯿﻢ ﺗﻮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﺴﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮩﯿﮟ .

ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﺍﮨﻢ ﺑﺎﺕ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﭼﻠﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺁﺯﻣﺎﺋﯿﺶ ﮐﯽ ﺑﮭﭩﯽ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﮐﻨﺪﻥ ﺑﻨﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ . ﺍﮔﺮ ﻟﻮﮒ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻓﯿﺲ ﺑﮏ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﻧﮕﻠﯿﺎﮞ ﭼﻼ ﮐﺮ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺳﺘﻢ ﺑﮭﺮﮮ ﺟﻤﮩﻮﺭﯼ ﻧﻈﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﺼﮧ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ، ﺳﻮﺩ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ، ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ، ﻇﻠﻢ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮐﺮ، ﻣﻼﻭﭦ ﮐﺮ ﮐﮯ، ﻧﺎﭖ ﺗﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ، ﻧﻤﺎﺯﯾﮟ ﻏﺎﺭﺕ ﮐﺮ ﮐﮯ، ﻓﻠﻤﯿﮟ ﮔﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﭺ ﮔﺎﻧﮯ ﮐﺮ ﮐﮯ، ﺷﺮﺍﺑﯿﮟ ﭘﯽ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺑﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﮐﯽ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ . ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﯿﻨﮓ ﺭﯾﭗ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻇﻠﻢ ﻭ ﺳﺘﻢ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻗﺎﺋﻢ ﻭ ﺩﺍﺋﻢ ﺭﮨﮯ، ﻇﺎﻟﻢ ﺩﻧﺪﻧﺎﺗﺎ ﭘﮭﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺍﻡ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺗﻤﺎﺷﺎﺋﯽ ﺑﻨﯽ ﺭﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﯾﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺟﯿﺴﯽ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ ﺟﺎﺋﮯ؟ ﺭﺏ ﮐﻌﺒﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮩﯿﮟ . ﺁﭖ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ، ﺷﺎﻡ، ﻋﺮﺍﻕ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﮟ . ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﮩﺪﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﻼﺣﻢ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮐﯽ ﺑﮭﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﮐﻨﺪﻥ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺟﺐ ﺟﮩﺎﺩ ﻋﻈﯿﻢ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﭘﺎﮎ ﺻﺎﻑ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﻼﺹ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺳﻌﺎﺩﺕ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﯿﮟ . ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ، ﺑﻠﮑﻞ ﻭﯾﺴﺎ ﻧﺎ ﺳﮩﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺯﺑﺮﺩﺳﺖ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﻣﺎﺭ ﭘﮍ ﮐﮯ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﯾﻨﮧ، ﻗﻄﺮﯾﻨﮧ، ﻋﺎﻟﯿﮧ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﻮ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻓﯿﺲ ﺑﮑﯽ ﻣﺠﺎﮨﺪ ﺍﺱ ﺑﮭﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﺟﻼﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﺧﻼﺹ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻗﻮﻡ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻭ ﺳﺮﺑﺮﺍﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﻭﮦ ﮬﻨﺪ ﻟﮍﻧﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ .
  ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻭﺍﺳﻄﮧ ﮨﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮯ ﺁﭖ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﺨﺖ ﺁﺯﻣﺎﺋﯿﺶ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﺧﺮﻭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺟﻞ ﮐﺮ ﺑﮭﺴﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﮮ . ﺁﻣﯿﻦ .


تقسیمِ ہند کے زخم

تقسیمِ ہند کے زخم


۱۵ اگست ۱۹۴۷ یہ وہ دن ہے جس دن ہمارا ملک انگریزوں کے غاصبانہ پنجۂ اقتدار سے آزاد ہوا، اس موقع پر جہاں آزادیٔ وطن کے وہ حسین لمحات ہمارے ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگتے ہیں جن کے تخیّل سے ہمارے قلب وجگر فرحت  شادمانی سے کھیل اٹھتے ہیں، وہیں تقسیم ہند کے وہ بھیانک مناظر بھی ہمارے خیالات میں گشت کرنے لگتے ہیں جن کے تصوّر سے جسم  وجاں شکستہ اور دل و دماغ افسردہ ہوجاتے ہیں۔
یہ ایک عیاں حقیقت ہے تقسیم ہند تاریخ کا وہ زخم ہے جو شاید کبھی نہ بھر سکے، جس دن تقسیم کی قراداد منظور ہوئی تھی اسی دن سے اس وطن عزیز کی مٹی نے وہ سب کچھ دیکھا جو ایک خونی انقلاب کی فطرت ہے، جسے سننے کے لیے پتھر کا کلیجہ چاہئیے، اس تقسیم کی وجہ سے ملک نے نہ صرف کئی حصوں میں بٹ کر اپنی متحدہ طاقت کھوئی تھی؛ بلکہ تقسیم کے اعلان کے ساتھ ساتھ ملک کے کئی گوشے قتل وغارت گری کی آماجگاہ بن گئے تھے، صوبہ پنجاب میں تبادلہ آبادی کی بنا پر فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے، مغربی پنجاب میں مسلمان اپنے پڑوسی ہندوؤں اور سکھوں کا قتل عام کر رہے تھے تو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کو چن چن کر بےدریغ قتل کیا جارہا تھا، مغرب سے آنے والی ٹرینیں مسلمانوں کی لاشوں سے تو مشرق سے جانے والی ٹرینیں مسلمانوں کی لاشوں سے بھری رہتی تھیں، دوسری طرف جب ہندو اور سکھ دہلی میں پناہ گزین ہوئے تو اُن کی شدت کی وجہ سے دہلی کی فضا بھی خون اُبلنے لگی، جگہ جگہ بڑی تعداد میں مسلمانوں کو شہید اور بچوں کو بےرحمی سے ذبح کیا گیا، عصمت عفّت کی پیکار عورتوں کی عزت و ناموس کو تار تار کیا گیا، جہاں کوئی مسلمان نظر آتا اسے موت کی نیند سلا دیا جاتا، مکانات تباہ کر دیے گیے، جامع مسجد اور ہمایوں کے مقبرے میں اس قدر لوگ پناہ لیے ہوئے تھے کہ قدم رکھنے کی بھی کوئی جگہ باقی نہیں تھی، گویا منشا یہ تھا کہ مسلمان یا تو اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں یا پاکستان جانے کے لیے تیار ہوجائیں، یہ نفرت و عداوت کی وہ آگ تھی جس کے شعلے آج تک سرد نہ ہوسکے، چنانچہ آج بھی ہمارے ملک میں پاکستان کے نام پر آئے دن قتل غارت گری کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس تقسیم کے نتیجے میں فرقہ پرست ہندوؤں کو تو غیر متوقع کامیابی حاصل ہوئی، ملک کے بڑے بڑے آثار و ذخائر اُن کی تحویل میں چلے گئے، ہزاروں سال بعد منماني اور منچاہی حکومت کرنے کا موقع ملا (ہندوستان کے موجودہ حالات جس کی منھ بولتی تصویر ہیں) جس کا تصور کرنا بھی اُن کے لیے مشکل تھا اور قوم مسلم کا ناقابل تلافی نقصان ہوا، ملی قوت و وحدت کا شیرازہ بکھر گیا، پاکستان میں اسلامی ریاست کا قیام (جس کی بنیاد پر نظریۂ پاکستان کے علمبرداروں نے قیام پاکستان کے تحریک چلائی تھی) بھی تصوّر تک ہی محدود رہا اور صرف چند بکھرے گوشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ۔ ۔ ۔ ۔!!
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ۔ ۔ ۔!!
ازقلم:  محمد زید عظیمی




Thursday, August 15, 2019

فکری جنگ اسباب و نتائج

فکری جنگ اسباب و نتائج


فکری،اعتقادی اور مذہبی دنیا میں اختلافی جنگ و جدال کی ایک الگ دنیا آباد ہے،یہ اختلاف اصول و فروع اور فروع کے فروع میں بھی  پائے جاتے ہیں۔ان اختلافات کے کیا نتائج برآمد ہوے یا ہو سکتے ہیں اس سے پہلے یہ سمجھنا مناسب ہے کہ اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ تحقیق سے ظاہر ہے کہ لوگوں کے مابین اختلاف کے یہ اسباب ہیں:


1.      رغبات و خواہشات اور میلان قلب کا مختلف ہونا
2.      زوایہ فکرو نظر اور طریق تفکیر کا اختلاف
3.      وہ فطری اور غیرشعوری وراثتی اختلافات جس سے کوئی مفر نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم اپنی ذاتی اختلاف کو عقلی اور تاریخی رنگ میں رنگ کر اسے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر وہی ایک غلطی ہماری نظر میں صحیح اور دوسروں کی نظر میں غلط یا مفاد پرستی نظر آتی ہے جب کہ کوئی اسے مصلحت بھی کہہ سکتا ہے۔اور ہر کوئی اپنے موقف کو عقلی ،تاریخی اور شرعی دلائل سے تقویت دینا شروع کردیتا ہے۔
ماضی میں ہوے ان اختلافات نے نہ جانے کتنے خونی اور تاریخی جنگ و جدال کو جنم دیے جو بنیادی طور پر تین طرح کے ہیں:
·       باطل کا آپسی اختلاف: یہ مصلحتوں کے آپسی ٹکراو کے نتیجے میں ہوے جن میں اہم عنصر رنگ و نسل کی رہی۔ اللہ فرماتا ہے: بَأْسُهُم بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ" (الحشر: 14). ترجمہ:   ان کی لڑائی تو ان میں آپس میں ہی بہت سخت ہے گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے دل دراصل ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ اس لیے کہ یہ بےعقل لوگ ہیں۔
·       اہل حق کا آپسی اختلاف:  یہ اجتہادی ٹکراو سے پیدا ہوے اور خون ریز جنگیں بھی دیکھیں گئیں۔ حضرت علی و حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے بیچ جو ہوا اسے اس کی ایک نظیر قرار دی جاسکتی ہے۔جسے امام ابن حجر عسقلانے کہ یہ وہی جنگ جس کی طرف حدیث میں آیا کہ::" لا تقوم الساعة حتى يقتتل فئتان عظيمتان، فيكون بينهما مقتلة عظيمة؛ دعواهما واحد" متفق عليه۔ ترجمہ: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو عظیم جماعتیں جنگ نہ کریں گی۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان بڑی خونریزی ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا.. اور اسی تناظر میں ان اختلافات کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جو اہل سنت کے مذاہب فقہیہ کو لے کر ہوتے آئے ہیں جو کہ کئی بار آپسی نزاع اور بہتان تراشی تک پہنچ گئی۔
·       حق و باطل کی جنگ:یہ وہ ٹکراو اور اختلافات ہیں جو باطل نے ہردور میں چھیڑی اور ذاتی باری تعالی  خود اس کا مداوا کرتا رہاہے۔اللہ نے اس حوالے سے فرمایا: "وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ" (البقرة: 251) ترجمہ:  اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے (پر چڑھائی اور حملہ کرنے) سے ہٹاتا نہ رہتا تو ملک تباہ ہوجاتا لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہربان ہے...اور اسی حوالے سے وہ حدیث بھی ہے جو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لا تَزالُ عِصابةٌ من أُمَّتي يقاتلونَ على أمرِ اللهِ، قاهِرينَ لعَدُوِّهِم، لا يَضرُّهم مَن خالفهم، حتى تأتيَهم الساعةُ وهم على ذلك" صحيح الجامع.
ترجمہ: ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ یا ایک جماعت اللہ تعالیٰ کے حکم پر لڑتی رہے گی اور اپنے دشمن پر غالب رہے گی۔ جو کوئی ان کا خلاف کرے گا ان کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔
مختلف جنگ و جدل کے بیچ جو بات Common ہے وہ یہ ہے کہ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ حق و صواب اس کے ساتھ ہے۔
اس آپسی اختلاف کا ایک پہلو تو وہ ہے جو اللہ نے فرمایا کہ:وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ" (البقرة: 113). ترجمہ: یہود کہتے ہیں کہ نصرانی حق پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں ، حانکہ یہ سب لوگ تورات پڑھتے ہیں ۔ اسی طرح ان ہی جیسی بات بےعلم بھی کہتے ہیں ۔ قیامت کے دن اللہ ان کے اس اختلاف کا فیصلہ ان کے درمیان کردے گا۔
اور اس کی دوسری کڑی وہ ہے جو ہم مختلف فرقوں کے بیچ دیکھتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنے اپنے حق میں ایک ہی آیت سے استدلال کرتے ہیں اور دونوں اسی ایک مصحف سے سچے ہونے کا ایک ساتھ قسم کھاتے ہیں۔ ۔ امام بخاری نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَيْحَ عَمَّارٍ ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النار"۔ ترجمہ:  افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت مارے گی ‘ یہ تو انہیں اللہ کی (اطاعت کیطرف دعوت دے رہا ہو گا لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے۔  
علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ : اگر یہ کہا جائے کہ اس سے جنگ صفین مراد ہے جو حضرت علی اور حضرت معاویہ کے بیچ تھی اور جس میں حضرت علی کی شہادت کا واقعہ  پیش آیا اور دونوں طرف صحابہ کی ایک جماعت تھی، تو اصحاب معاویہ کے لیے جہنم رسید ہونے کی بد دعا کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا پس منظر یہ ہے کہ دونوں طرف کے فریق مد مخالف سے اس گمان کے ساتھ برسر پیکار تھے کہ وہ انہیں جنت کی طرف بلا رہے ہیں۔لہٰذا وہ مجتہدین ہیں جن پر اپنے ظن و گمان کو حوالے سے ملامت نہیں ہونا چاہیے۔
جنگ و اختلاف کی تیسری  کڑی کی نظیر وہ تعجب خیز واقعہ ہے کہ جہاں فرعون یہ گمان کرتا ہے کہ موسی علیہ السلام فتنہ پرور ہیں(معاذاللہ)۔ قرآن کہتا ہے: "وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ" (غافر: 26) ترجمہ: اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو مار ڈالوں اور اسے چاہئے کہ اپنے رب کو پکارے ، مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی (بہت بڑا) فساد برپا نہ کردے۔ ..ابو جہل فرعون کے اسی راہ پر چلتے ہوے جنگ بدر سے کچھ پہلے یہ بیان دیا تھا ،جیسا کہ علامہ ابن جریر نے اپنی تفسیر مین سند صحیح کے ساتھ روایت کی: "كان المستفتح يوم بدر أبا جهل، قال: اللهم أقطعنا للرحم، وأتانا بما لا نعرفه، فأحنه (اقتله) الغداة.
 ترجمہ:یعنی ’’اے اللہ (محمدﷺ ) ہم میں سب سے زیادہ رشتے کاٹنے والا ہے، اور ایسی چیز لے آیا ہے جس سے ہم واقف ہی نہیں ہیں. پس کل تو اسے ہلاک کر دیجیو!‘‘
تو اللہ نے اس حوالے سے آیت کریمہ نازل فرمائی: "إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمْ الْفَتْحُ" (الأنفال: 19).ترجمہ: اگر تم لوگ فیصلہ چاہتے ہو تو وه فیصلہ تمہارے سامنے آموجود ہوا 
اور یہ اختلافات اس لیے بھی اہم ہیں کہ یہ محض اختلاف رائے کی حد تک باقی نہیں رہتے بلکہ اسی سے عدل و انصاف، اصول و قوانین اور پھر عمل و کردار کے خدوخال سلجھائے جاتے ہیں اور وہ فکری ٹکراو عملی زندگی میں اترآتا ہے۔
لیکن یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ کیا کبھی کسی غلطی کرنے والے کو اپنے  ناحق ہونے کا احساس ہوتا ہے یا ہمیشہ شیطان غلطی کو خوبصورت بنا کر اس کی نظروں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوجاتا ہے؟ اور یہی بات ہے کہ  چور کو لگنے لگتا ہے کہ لوگوں کے مال میں اس کا بھی حق ہے اور جھوٹے کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ وہ سچ بول رہا  ہے اور ظالم وڈکٹیٹر کو یہ لگتا ہے کہ وہ اپنے آباو اجداد کی وراثت کو حاصل کررہا ہے اور ان کے کوابوں شرمندہ تعبیر کررہا ہے اور ملحد و بد دین یہ سمجھتا ہے کہ وہ آزاد ہے اور کسی دوسری کو اس کی آزادی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا حق نہیں ۔لیکن مجھے جس بات کا پورا یقین ہے وہ یہ کہ اللہ سبحانہ تعالی کبھی کسی بندے پر اس  وقت تک پکڑ نہیں کرتا جب تک اس پر حجت نہ قائم ہوجائے۔چنانچہ فرمان باری تعالی ہے: "مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا" (الاسراء: 15) ترجمہ: جو راه راست حاصل کرلے وه خود اپنے ہی بھلے کے لئے راه یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہے ، کوئی بوجھ والاکسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادے گا اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں۔
 اللہ رب العزت فرماتا ہے: "وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ" (النمل: 14)  ترجمہ: انہوں نے انکار کردیا حانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف لم اور تکبر کی بنا پر ۔ پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرداز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔
 پس ہر ایک اپنی ذات کو بہتر سمجھ سکتا ہے ۔۔بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کی سمجھ اور اس کی اتباع کی توفیق دے، اور باطل کی پرکھ عطا کرے اور اس سے بچنے کی توفیق دے.آمین!
ازقلم: محمد نورالدین الازہری

خريطة التقسيم السرية للهند وباكستان

خريطة التقسيم السرية للهند وباكستان

تاريخ الانقسام المدني ، الذي كان رمزا للوحدة ، يعني الجزء الموحد من الهند وباكستان.
في يوم الاستقلال الثالث والسبعين: دعنا نعبر عن حقيقة ما حدث.
قرر البريطانيون منح الهند الاستقلال في عام 1947 ، ولكن في الوقت نفسه تم تقسيم الهند إلى جزأين ، وذلك بسب سياسة البريطانية "الانقسام والحكم".
إن تقسيم الهند وباكستان وقصة ترسيم حدودها أمر مثير للاهتمام أيضًا.
تعالوا  نتعرف على كيفية تقسيم الهند.
أعدت حكومة البريطانية خريطة الإنقسام في يوليو 1947 قبل حوالي 5 أسابيع من مغادرة الهند ، ووكلت هذه المسئوليةإلى إدارة تسمى "لجنة حدود بريطانية لترسيم الحدود بين الهند وباكستان". برئاسة سيريل رادكليف.كما تضمنت أربعة من قادة الكونغرس وأربعة زعماء من رابطة عموم الهند الإسلامية في هذه اللجنة.
مرحبًا ، عزيزي و عزيزتي إذا كنت تعتقد أن هذه المقالة جيدة ومفيدة ، يرجى التعليق والمشاركة. شكرا.

Wednesday, August 14, 2019

Independence Day Essay

Independence Day Essay


“Swaraj is my birthright & I shall have it”. – Bal Gangadhar Tilak
“स्वराज मेरा जन्मसिद्ध अधिकार है और मैं इसे ले कर रहूँगा”। –बाल गंगाधर तिलक

Outline (रूपरेखा):

  1. Introduction (परिचय)
  2. Significance of the day, it’s celebration (इस दिन का महत्व, यह एक उत्सव है)
  3. The essential freedom fighters (महत्वपूर्ण स्वतंत्रता सेनानी)
  4. Take pride in your country & rejoice the earned freedom (अपने देश पर गर्व करें और अर्जित स्वतंत्रता का आनंद लें)
  5. Conclusion (निष्कर्ष)

Introduction: The nation hums the songs of patriotism on 15th August every year since India attained independence in1947. The year is a landmark of success in our history. It’s always a scenic thing to gaze at Tiranga flaring high like the skyscraper, with rose petals lying in its feet. The nation bows down in respect of the nation, her pride, her integrity. Our education system reminds us that the mother India is our genesis and her liberation, her independence is a thing of ecstasy.

परिचय: देश हर साल 15 अगस्त को देशभक्ति के गीत गाता है क्योंकि भारत ने 1947 में स्वतंत्रता प्राप्त की थी। यह वर्ष हमारे इतिहास में सफलता का एक ऐतिहासिक दिन है। तिरंगे को लहराते हुए देखना मानो एक गगनचुंबी इमारत की तरह और  इसके पैरों में गुलाब की पंखुड़ियाँ का पडा होना हमेशा ही एक सुंदर दृश्य लगता है। राष्ट्र उसके गौरव, उसकी अखंडता के सम्मान में झुकता है।  हमारी शिक्षा प्रणाली हमें याद दिलाती है कि भारत माता से ही हमारी उत्पत्ति है और उसकी मुक्ति, उसकी स्वतंत्रता परमानंद की चीज है।

Enjoy reading….

Significance of the Independence dayIndia attained Independence at midnight, 11 PM on 14th August. Though officially we celebrate and commemorate it on 15th August and call it independence day. The day reminds all Indians of fervour, the bloodshed, the stories that India’s history had witnessed. The day reminds us of our oppression and liberation.

स्वतंत्रता दिवस का महत्व: भारत ने 14 अगस्त की आधी रात, 11 बजे स्वतंत्रता प्राप्त की।  हालांकि आधिकारिक तौर पर हम इसे 15 अगस्त को मनाते हैं और इसे स्वतंत्रता दिवस कहते हैं। यह दिन सभी भारतीयों के उत्साह, रक्तपात, उन कहानियों की याद दिलाता है जो भारत के इतिहास की गवाह थीं।  यह दिन हमें अपने उत्पीड़न और मुक्ति की याद दिलाता है।

The essential freedom fightersIt’s true that when India was wailing in the clutches of British government, raging and demanding freedom, it wasn’t just one person but the entire folk. Though, we remember only a few faces of the struggle because they were visible in the fight and hence stood apart and out. People like Mahatma Gandhi, Mangal Pandey, Bal Gangadhar Tilak, B.R Ambedkar, Sardar Vallbhai Patel and many more, they became the main face of it. They’re not with us anymore but their ideas remain all around us, in our constitutional framework as well as our lives.

Enjoy reading….

महत्वपूर्ण स्वतंत्रता सेनानी: यह सच है कि जब भारत ब्रिटिश सरकार के चंगुल में फँसा हुआ था, उग्र था और आजादी की मांग कर रहा था, तो यह सिर्फ कोई एक व्यक्ति नहीं बल्कि पूरा देश था।  हालांकि, हमें संघर्ष के केवल कुछ ही चेहरे याद हैं क्योंकि वो ही इस लड़ाई में प्रत्यक्ष रूप से सामने आये और इसीलिए उन्हें हम जानते हैं। महात्मा गांधी, मंगल पांडे, बाल गंगाधर तिलक, बीआर अंबेडकर, सरदार वल्लभ भाई पटेल और बहुत से लोग, इसका मुख्य चेहरा बने। वे अब हमारे साथ नहीं हैं, लेकिन उनके विचार हमारे चारों ओर बने हुए हैं, हमारे संवैधानिक ढांचे के साथ-साथ हमारे जीवन में भी।

Take pride in your country & rejoice the earned Independence: India is the largest democracy in the world, and soon it’s going to be the country of largest population too. India is a sovereign, secular and socialist state. The nation is coloured with multiculturalism. One should take pride in cultures and diversities of India, and shall never forget the struggle of Independence. The story of independence would keep the spirit of every young blood high. It’s necessary to rejoice the earned independence and never let it go.

अपने देश पर गर्व करें और अर्जित स्वतंत्रता का आनंद लें: भारत दुनिया में सबसे बड़ा लोकतंत्र है, और जल्द ही यह सबसे बड़ी आबादी का देश भी बनने जा रहा है।  भारत एक संप्रभु, धर्मनिरपेक्ष और समाजवादी राज्य है। राष्ट्र बहुसंस्कृतिवाद से रंगा है। किसी को भारत की संस्कृतियों और विविधताओं पर गर्व करना चाहिए, और स्वतंत्रता के संघर्ष को कभी नहीं भूलना चाहिए। स्वतंत्रता की कहानी प्रत्येक युवा रक्त की भावना को उच्च बनाए रखेगी।  अर्जित स्वतंत्रता का आनंद लेना आवश्यक है और इसे कभी भी जाने न दें।

Enjoy reading….

Conclusion: Embrace your country with its History, its people, its languages, cities and villages. Know that you’re important to your country and vice versa. The hard earned freedom is your chance to make the best out of it and make nation, India proud.

निष्कर्ष: अपने देश को इसके इतिहास, इसके लोगों, इसकी भाषाओं, शहरों और गांवों के साथ गले लगाएँ। इस बात को समझें कि आप अपने देश के लिए महत्वपूर्ण हैं और देश भी आपके लिए। कड़ी मेहनत से मिली इस आजादी का फायदा लो, देश का गौरव बढाओ, आपके पास ये मौका है।

This is a useful Essay on Independence day for class 5 students or above.

Thanking to  

Independence Day Speech

Independence Day Speech


  • Good morning to the respected chief guest, principal sir, teachers, parents and all my dear friends.
  • (आदरणीय मुख्य अतिथि, प्रधानाचार्य, शिक्षक, माता- पिता और मेरे सभी प्रिय मित्रों को सुप्रभात।)
  • Today, we are here to celebrate the independence day of our nation.
  • (आज, हम अपने राष्ट्र के स्वतंत्रता दिवस का जश्न मनाने के लिए यहां हैं।)
  • This day is the most important day for all of us, because on this day in 1947, we got independence from the British rule.
  • यह दिन हम सभी के लिए सबसे महत्वपूर्ण दिन है, क्योंकि 1947 को इसी दिन, हमें ब्रिटिश शासन से स्वतंत्रता मिली थी।
  • Great freedom fighters like Mahatma Gandhi, Bhagat Singh, Subhash Chandra Bose and many others devoted their entire life for the Independence of our country.
  • महान स्वतंत्रता सेनानियों जैसे महात्मागांधी, भगतसिंह, सुभाष चंद्र बोस और कई अन्य लोगों ने हमारे देश की स्वतंत्रता के लिए अपना पूरा जीवन समर्पित कर दिया।
  • Their sacrifice can never be forgotten.
  • उनके बलिदान को कभी भुलाया नहीं जा सकता।
  • They’re not with us anymore but their ideas remain all around us, in our constitutional framework as well as our lives.
  •  वे अब हमारे साथ नहीं हैं, लेकिन उनके विचार हमारे चारों ओर हैं, हमारे संवैधानिक ढांचे के साथ-साथ हमारे जीवन में भी।
  • We are fortunate that we are born in an independent country and that’s why we have our own fundamental rights.
  • हम भाग्यशाली हैं कि हम एक स्वतंत्र देश में पैदा हुए हैं और इसीलिए हमारे अपने मौलिक अधिकार हैं।
  • We can now speak against the evil without fear.
  • अब हम बिना किसी डर के बुराई के खिलाफ बोल सकते हैं।

Enjoy reading….


  • Our independence is priceless. We must respect it. We must also respect the soldiers fighting on borders to protect our nation.
  • हमारी स्वतंत्रता अमूल्य है।हमें इसका सम्मान करना चाहिए। हमें अपने राष्ट्र की रक्षा के लिए सीमा पर लड़ने वाले सैनिकों का भी सम्मान करना चाहिए।
  • At last, I would like to say that we are proud to be Indians. Our country is the best. We love it.
  • अंत में, मैं कहना चाहूंगा कि हमें भारतीय होने पर गर्व है।हमारा देश सर्वश्रेष्ठ है। हमें बहुत पसंद है।
  • Jai Hind, Jai Bharat.
  • जय हिंद, जय भारत।

Tuesday, August 13, 2019

जीवन के हर क्षेत्र में पर्दा है

पर्दा
आप लैटरीन का दरवाजा बंद करते हैं , घर पहुँचते ही डोर बंद कर लेते हैं . पैसे वाले हैं तो AC2 का टिकट लेते हैं और केबिन का पर्दा तान देते हैं .
घर के दरवाजे और खिड़की में पर्दा लगाते हैं .
घर बनाने का महत्त्व पुर्ण कन्सेप्ट ही है के आप परदे में रहें और आप क्या कर रहे हैं कोई दुसरा ना देखे . कोई बिना दस्तक दिये घुस जाये तो आप चीढ जाते हैं.
जीवन के हर क्षेत्र में पर्दा है .
अन्य से परदा आप का निजी अधिकार माना जाता है .
जिस तरह से चहारदिवारी एक घर है , हमारा शरीर हमारे अस्तित्व के लिए एक घर है .

अगर चहारदीवारी से बने घर में किसी का घुसना यानी पर्दा हटाने का अधिकार देना आप की मर्जी है , तो किसी के शरीर से परदा हटाना दुसरे की मर्जी कैसे हो सकती है ?
घर उखाड़ कर साथ ले कर नही चल सकते और बाहर खुले में निकलना होता है तो परदे का प्रारूप कपड़े पर आ कर टिक जाता है .
दरवाजा बंद रखने वाले को आप यह नही कह सकते के तुमहे दरवाजा खुला रखना होगा ,सुरक्षा के दृष्टी से भी नही .
अगर कोई भी महिला या पुरूष अपने शरीर के किसी अंग को अन्य व्यक्ति को दिखाने में सहज नही है तो किस आधार पर उस पर ज़बर्दस्ती की जा सकती है ,या उसका मजाक भी उड़ाया जा सकता है ?
जबकी सभी लोग कहीं ना कहीं परदा ही तो करते हैं ?

(कॉपी-पेस्ट)

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...