Thursday, August 15, 2019

فکری جنگ اسباب و نتائج

فکری جنگ اسباب و نتائج


فکری،اعتقادی اور مذہبی دنیا میں اختلافی جنگ و جدال کی ایک الگ دنیا آباد ہے،یہ اختلاف اصول و فروع اور فروع کے فروع میں بھی  پائے جاتے ہیں۔ان اختلافات کے کیا نتائج برآمد ہوے یا ہو سکتے ہیں اس سے پہلے یہ سمجھنا مناسب ہے کہ اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ تحقیق سے ظاہر ہے کہ لوگوں کے مابین اختلاف کے یہ اسباب ہیں:


1.      رغبات و خواہشات اور میلان قلب کا مختلف ہونا
2.      زوایہ فکرو نظر اور طریق تفکیر کا اختلاف
3.      وہ فطری اور غیرشعوری وراثتی اختلافات جس سے کوئی مفر نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم اپنی ذاتی اختلاف کو عقلی اور تاریخی رنگ میں رنگ کر اسے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر وہی ایک غلطی ہماری نظر میں صحیح اور دوسروں کی نظر میں غلط یا مفاد پرستی نظر آتی ہے جب کہ کوئی اسے مصلحت بھی کہہ سکتا ہے۔اور ہر کوئی اپنے موقف کو عقلی ،تاریخی اور شرعی دلائل سے تقویت دینا شروع کردیتا ہے۔
ماضی میں ہوے ان اختلافات نے نہ جانے کتنے خونی اور تاریخی جنگ و جدال کو جنم دیے جو بنیادی طور پر تین طرح کے ہیں:
·       باطل کا آپسی اختلاف: یہ مصلحتوں کے آپسی ٹکراو کے نتیجے میں ہوے جن میں اہم عنصر رنگ و نسل کی رہی۔ اللہ فرماتا ہے: بَأْسُهُم بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ" (الحشر: 14). ترجمہ:   ان کی لڑائی تو ان میں آپس میں ہی بہت سخت ہے گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے دل دراصل ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ اس لیے کہ یہ بےعقل لوگ ہیں۔
·       اہل حق کا آپسی اختلاف:  یہ اجتہادی ٹکراو سے پیدا ہوے اور خون ریز جنگیں بھی دیکھیں گئیں۔ حضرت علی و حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے بیچ جو ہوا اسے اس کی ایک نظیر قرار دی جاسکتی ہے۔جسے امام ابن حجر عسقلانے کہ یہ وہی جنگ جس کی طرف حدیث میں آیا کہ::" لا تقوم الساعة حتى يقتتل فئتان عظيمتان، فيكون بينهما مقتلة عظيمة؛ دعواهما واحد" متفق عليه۔ ترجمہ: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو عظیم جماعتیں جنگ نہ کریں گی۔ ان دونوں جماعتوں کے درمیان بڑی خونریزی ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا.. اور اسی تناظر میں ان اختلافات کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جو اہل سنت کے مذاہب فقہیہ کو لے کر ہوتے آئے ہیں جو کہ کئی بار آپسی نزاع اور بہتان تراشی تک پہنچ گئی۔
·       حق و باطل کی جنگ:یہ وہ ٹکراو اور اختلافات ہیں جو باطل نے ہردور میں چھیڑی اور ذاتی باری تعالی  خود اس کا مداوا کرتا رہاہے۔اللہ نے اس حوالے سے فرمایا: "وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ" (البقرة: 251) ترجمہ:  اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے (پر چڑھائی اور حملہ کرنے) سے ہٹاتا نہ رہتا تو ملک تباہ ہوجاتا لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہربان ہے...اور اسی حوالے سے وہ حدیث بھی ہے جو حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لا تَزالُ عِصابةٌ من أُمَّتي يقاتلونَ على أمرِ اللهِ، قاهِرينَ لعَدُوِّهِم، لا يَضرُّهم مَن خالفهم، حتى تأتيَهم الساعةُ وهم على ذلك" صحيح الجامع.
ترجمہ: ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ یا ایک جماعت اللہ تعالیٰ کے حکم پر لڑتی رہے گی اور اپنے دشمن پر غالب رہے گی۔ جو کوئی ان کا خلاف کرے گا ان کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔
مختلف جنگ و جدل کے بیچ جو بات Common ہے وہ یہ ہے کہ ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ حق و صواب اس کے ساتھ ہے۔
اس آپسی اختلاف کا ایک پہلو تو وہ ہے جو اللہ نے فرمایا کہ:وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ" (البقرة: 113). ترجمہ: یہود کہتے ہیں کہ نصرانی حق پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودی حق پر نہیں ، حانکہ یہ سب لوگ تورات پڑھتے ہیں ۔ اسی طرح ان ہی جیسی بات بےعلم بھی کہتے ہیں ۔ قیامت کے دن اللہ ان کے اس اختلاف کا فیصلہ ان کے درمیان کردے گا۔
اور اس کی دوسری کڑی وہ ہے جو ہم مختلف فرقوں کے بیچ دیکھتے ہیں جہاں ہر کوئی اپنے اپنے حق میں ایک ہی آیت سے استدلال کرتے ہیں اور دونوں اسی ایک مصحف سے سچے ہونے کا ایک ساتھ قسم کھاتے ہیں۔ ۔ امام بخاری نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَيْحَ عَمَّارٍ ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النار"۔ ترجمہ:  افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت مارے گی ‘ یہ تو انہیں اللہ کی (اطاعت کیطرف دعوت دے رہا ہو گا لیکن وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے۔  
علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ : اگر یہ کہا جائے کہ اس سے جنگ صفین مراد ہے جو حضرت علی اور حضرت معاویہ کے بیچ تھی اور جس میں حضرت علی کی شہادت کا واقعہ  پیش آیا اور دونوں طرف صحابہ کی ایک جماعت تھی، تو اصحاب معاویہ کے لیے جہنم رسید ہونے کی بد دعا کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا پس منظر یہ ہے کہ دونوں طرف کے فریق مد مخالف سے اس گمان کے ساتھ برسر پیکار تھے کہ وہ انہیں جنت کی طرف بلا رہے ہیں۔لہٰذا وہ مجتہدین ہیں جن پر اپنے ظن و گمان کو حوالے سے ملامت نہیں ہونا چاہیے۔
جنگ و اختلاف کی تیسری  کڑی کی نظیر وہ تعجب خیز واقعہ ہے کہ جہاں فرعون یہ گمان کرتا ہے کہ موسی علیہ السلام فتنہ پرور ہیں(معاذاللہ)۔ قرآن کہتا ہے: "وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَن يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ" (غافر: 26) ترجمہ: اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑ دو کہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو مار ڈالوں اور اسے چاہئے کہ اپنے رب کو پکارے ، مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی (بہت بڑا) فساد برپا نہ کردے۔ ..ابو جہل فرعون کے اسی راہ پر چلتے ہوے جنگ بدر سے کچھ پہلے یہ بیان دیا تھا ،جیسا کہ علامہ ابن جریر نے اپنی تفسیر مین سند صحیح کے ساتھ روایت کی: "كان المستفتح يوم بدر أبا جهل، قال: اللهم أقطعنا للرحم، وأتانا بما لا نعرفه، فأحنه (اقتله) الغداة.
 ترجمہ:یعنی ’’اے اللہ (محمدﷺ ) ہم میں سب سے زیادہ رشتے کاٹنے والا ہے، اور ایسی چیز لے آیا ہے جس سے ہم واقف ہی نہیں ہیں. پس کل تو اسے ہلاک کر دیجیو!‘‘
تو اللہ نے اس حوالے سے آیت کریمہ نازل فرمائی: "إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمْ الْفَتْحُ" (الأنفال: 19).ترجمہ: اگر تم لوگ فیصلہ چاہتے ہو تو وه فیصلہ تمہارے سامنے آموجود ہوا 
اور یہ اختلافات اس لیے بھی اہم ہیں کہ یہ محض اختلاف رائے کی حد تک باقی نہیں رہتے بلکہ اسی سے عدل و انصاف، اصول و قوانین اور پھر عمل و کردار کے خدوخال سلجھائے جاتے ہیں اور وہ فکری ٹکراو عملی زندگی میں اترآتا ہے۔
لیکن یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ کیا کبھی کسی غلطی کرنے والے کو اپنے  ناحق ہونے کا احساس ہوتا ہے یا ہمیشہ شیطان غلطی کو خوبصورت بنا کر اس کی نظروں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہوجاتا ہے؟ اور یہی بات ہے کہ  چور کو لگنے لگتا ہے کہ لوگوں کے مال میں اس کا بھی حق ہے اور جھوٹے کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ وہ سچ بول رہا  ہے اور ظالم وڈکٹیٹر کو یہ لگتا ہے کہ وہ اپنے آباو اجداد کی وراثت کو حاصل کررہا ہے اور ان کے کوابوں شرمندہ تعبیر کررہا ہے اور ملحد و بد دین یہ سمجھتا ہے کہ وہ آزاد ہے اور کسی دوسری کو اس کی آزادی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا حق نہیں ۔لیکن مجھے جس بات کا پورا یقین ہے وہ یہ کہ اللہ سبحانہ تعالی کبھی کسی بندے پر اس  وقت تک پکڑ نہیں کرتا جب تک اس پر حجت نہ قائم ہوجائے۔چنانچہ فرمان باری تعالی ہے: "مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا" (الاسراء: 15) ترجمہ: جو راه راست حاصل کرلے وه خود اپنے ہی بھلے کے لئے راه یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اس کا بوجھ اسی کے اوپر ہے ، کوئی بوجھ والاکسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادے گا اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں۔
 اللہ رب العزت فرماتا ہے: "وَجَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنفُسُهُمْ ظُلْمًا وَعُلُوًّا ۚ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ" (النمل: 14)  ترجمہ: انہوں نے انکار کردیا حانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے صرف لم اور تکبر کی بنا پر ۔ پس دیکھ لیجئے کہ ان فتنہ پرداز لوگوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔
 پس ہر ایک اپنی ذات کو بہتر سمجھ سکتا ہے ۔۔بس اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کی سمجھ اور اس کی اتباع کی توفیق دے، اور باطل کی پرکھ عطا کرے اور اس سے بچنے کی توفیق دے.آمین!
ازقلم: محمد نورالدین الازہری

خريطة التقسيم السرية للهند وباكستان

خريطة التقسيم السرية للهند وباكستان

تاريخ الانقسام المدني ، الذي كان رمزا للوحدة ، يعني الجزء الموحد من الهند وباكستان.
في يوم الاستقلال الثالث والسبعين: دعنا نعبر عن حقيقة ما حدث.
قرر البريطانيون منح الهند الاستقلال في عام 1947 ، ولكن في الوقت نفسه تم تقسيم الهند إلى جزأين ، وذلك بسب سياسة البريطانية "الانقسام والحكم".
إن تقسيم الهند وباكستان وقصة ترسيم حدودها أمر مثير للاهتمام أيضًا.
تعالوا  نتعرف على كيفية تقسيم الهند.
أعدت حكومة البريطانية خريطة الإنقسام في يوليو 1947 قبل حوالي 5 أسابيع من مغادرة الهند ، ووكلت هذه المسئوليةإلى إدارة تسمى "لجنة حدود بريطانية لترسيم الحدود بين الهند وباكستان". برئاسة سيريل رادكليف.كما تضمنت أربعة من قادة الكونغرس وأربعة زعماء من رابطة عموم الهند الإسلامية في هذه اللجنة.
مرحبًا ، عزيزي و عزيزتي إذا كنت تعتقد أن هذه المقالة جيدة ومفيدة ، يرجى التعليق والمشاركة. شكرا.

Wednesday, August 14, 2019

Independence Day Essay

Independence Day Essay


“Swaraj is my birthright & I shall have it”. – Bal Gangadhar Tilak
“स्वराज मेरा जन्मसिद्ध अधिकार है और मैं इसे ले कर रहूँगा”। –बाल गंगाधर तिलक

Outline (रूपरेखा):

  1. Introduction (परिचय)
  2. Significance of the day, it’s celebration (इस दिन का महत्व, यह एक उत्सव है)
  3. The essential freedom fighters (महत्वपूर्ण स्वतंत्रता सेनानी)
  4. Take pride in your country & rejoice the earned freedom (अपने देश पर गर्व करें और अर्जित स्वतंत्रता का आनंद लें)
  5. Conclusion (निष्कर्ष)

Introduction: The nation hums the songs of patriotism on 15th August every year since India attained independence in1947. The year is a landmark of success in our history. It’s always a scenic thing to gaze at Tiranga flaring high like the skyscraper, with rose petals lying in its feet. The nation bows down in respect of the nation, her pride, her integrity. Our education system reminds us that the mother India is our genesis and her liberation, her independence is a thing of ecstasy.

परिचय: देश हर साल 15 अगस्त को देशभक्ति के गीत गाता है क्योंकि भारत ने 1947 में स्वतंत्रता प्राप्त की थी। यह वर्ष हमारे इतिहास में सफलता का एक ऐतिहासिक दिन है। तिरंगे को लहराते हुए देखना मानो एक गगनचुंबी इमारत की तरह और  इसके पैरों में गुलाब की पंखुड़ियाँ का पडा होना हमेशा ही एक सुंदर दृश्य लगता है। राष्ट्र उसके गौरव, उसकी अखंडता के सम्मान में झुकता है।  हमारी शिक्षा प्रणाली हमें याद दिलाती है कि भारत माता से ही हमारी उत्पत्ति है और उसकी मुक्ति, उसकी स्वतंत्रता परमानंद की चीज है।

Enjoy reading….

Significance of the Independence dayIndia attained Independence at midnight, 11 PM on 14th August. Though officially we celebrate and commemorate it on 15th August and call it independence day. The day reminds all Indians of fervour, the bloodshed, the stories that India’s history had witnessed. The day reminds us of our oppression and liberation.

स्वतंत्रता दिवस का महत्व: भारत ने 14 अगस्त की आधी रात, 11 बजे स्वतंत्रता प्राप्त की।  हालांकि आधिकारिक तौर पर हम इसे 15 अगस्त को मनाते हैं और इसे स्वतंत्रता दिवस कहते हैं। यह दिन सभी भारतीयों के उत्साह, रक्तपात, उन कहानियों की याद दिलाता है जो भारत के इतिहास की गवाह थीं।  यह दिन हमें अपने उत्पीड़न और मुक्ति की याद दिलाता है।

The essential freedom fightersIt’s true that when India was wailing in the clutches of British government, raging and demanding freedom, it wasn’t just one person but the entire folk. Though, we remember only a few faces of the struggle because they were visible in the fight and hence stood apart and out. People like Mahatma Gandhi, Mangal Pandey, Bal Gangadhar Tilak, B.R Ambedkar, Sardar Vallbhai Patel and many more, they became the main face of it. They’re not with us anymore but their ideas remain all around us, in our constitutional framework as well as our lives.

Enjoy reading….

महत्वपूर्ण स्वतंत्रता सेनानी: यह सच है कि जब भारत ब्रिटिश सरकार के चंगुल में फँसा हुआ था, उग्र था और आजादी की मांग कर रहा था, तो यह सिर्फ कोई एक व्यक्ति नहीं बल्कि पूरा देश था।  हालांकि, हमें संघर्ष के केवल कुछ ही चेहरे याद हैं क्योंकि वो ही इस लड़ाई में प्रत्यक्ष रूप से सामने आये और इसीलिए उन्हें हम जानते हैं। महात्मा गांधी, मंगल पांडे, बाल गंगाधर तिलक, बीआर अंबेडकर, सरदार वल्लभ भाई पटेल और बहुत से लोग, इसका मुख्य चेहरा बने। वे अब हमारे साथ नहीं हैं, लेकिन उनके विचार हमारे चारों ओर बने हुए हैं, हमारे संवैधानिक ढांचे के साथ-साथ हमारे जीवन में भी।

Take pride in your country & rejoice the earned Independence: India is the largest democracy in the world, and soon it’s going to be the country of largest population too. India is a sovereign, secular and socialist state. The nation is coloured with multiculturalism. One should take pride in cultures and diversities of India, and shall never forget the struggle of Independence. The story of independence would keep the spirit of every young blood high. It’s necessary to rejoice the earned independence and never let it go.

अपने देश पर गर्व करें और अर्जित स्वतंत्रता का आनंद लें: भारत दुनिया में सबसे बड़ा लोकतंत्र है, और जल्द ही यह सबसे बड़ी आबादी का देश भी बनने जा रहा है।  भारत एक संप्रभु, धर्मनिरपेक्ष और समाजवादी राज्य है। राष्ट्र बहुसंस्कृतिवाद से रंगा है। किसी को भारत की संस्कृतियों और विविधताओं पर गर्व करना चाहिए, और स्वतंत्रता के संघर्ष को कभी नहीं भूलना चाहिए। स्वतंत्रता की कहानी प्रत्येक युवा रक्त की भावना को उच्च बनाए रखेगी।  अर्जित स्वतंत्रता का आनंद लेना आवश्यक है और इसे कभी भी जाने न दें।

Enjoy reading….

Conclusion: Embrace your country with its History, its people, its languages, cities and villages. Know that you’re important to your country and vice versa. The hard earned freedom is your chance to make the best out of it and make nation, India proud.

निष्कर्ष: अपने देश को इसके इतिहास, इसके लोगों, इसकी भाषाओं, शहरों और गांवों के साथ गले लगाएँ। इस बात को समझें कि आप अपने देश के लिए महत्वपूर्ण हैं और देश भी आपके लिए। कड़ी मेहनत से मिली इस आजादी का फायदा लो, देश का गौरव बढाओ, आपके पास ये मौका है।

This is a useful Essay on Independence day for class 5 students or above.

Thanking to  

Independence Day Speech

Independence Day Speech


  • Good morning to the respected chief guest, principal sir, teachers, parents and all my dear friends.
  • (आदरणीय मुख्य अतिथि, प्रधानाचार्य, शिक्षक, माता- पिता और मेरे सभी प्रिय मित्रों को सुप्रभात।)
  • Today, we are here to celebrate the independence day of our nation.
  • (आज, हम अपने राष्ट्र के स्वतंत्रता दिवस का जश्न मनाने के लिए यहां हैं।)
  • This day is the most important day for all of us, because on this day in 1947, we got independence from the British rule.
  • यह दिन हम सभी के लिए सबसे महत्वपूर्ण दिन है, क्योंकि 1947 को इसी दिन, हमें ब्रिटिश शासन से स्वतंत्रता मिली थी।
  • Great freedom fighters like Mahatma Gandhi, Bhagat Singh, Subhash Chandra Bose and many others devoted their entire life for the Independence of our country.
  • महान स्वतंत्रता सेनानियों जैसे महात्मागांधी, भगतसिंह, सुभाष चंद्र बोस और कई अन्य लोगों ने हमारे देश की स्वतंत्रता के लिए अपना पूरा जीवन समर्पित कर दिया।
  • Their sacrifice can never be forgotten.
  • उनके बलिदान को कभी भुलाया नहीं जा सकता।
  • They’re not with us anymore but their ideas remain all around us, in our constitutional framework as well as our lives.
  •  वे अब हमारे साथ नहीं हैं, लेकिन उनके विचार हमारे चारों ओर हैं, हमारे संवैधानिक ढांचे के साथ-साथ हमारे जीवन में भी।
  • We are fortunate that we are born in an independent country and that’s why we have our own fundamental rights.
  • हम भाग्यशाली हैं कि हम एक स्वतंत्र देश में पैदा हुए हैं और इसीलिए हमारे अपने मौलिक अधिकार हैं।
  • We can now speak against the evil without fear.
  • अब हम बिना किसी डर के बुराई के खिलाफ बोल सकते हैं।

Enjoy reading….


  • Our independence is priceless. We must respect it. We must also respect the soldiers fighting on borders to protect our nation.
  • हमारी स्वतंत्रता अमूल्य है।हमें इसका सम्मान करना चाहिए। हमें अपने राष्ट्र की रक्षा के लिए सीमा पर लड़ने वाले सैनिकों का भी सम्मान करना चाहिए।
  • At last, I would like to say that we are proud to be Indians. Our country is the best. We love it.
  • अंत में, मैं कहना चाहूंगा कि हमें भारतीय होने पर गर्व है।हमारा देश सर्वश्रेष्ठ है। हमें बहुत पसंद है।
  • Jai Hind, Jai Bharat.
  • जय हिंद, जय भारत।

Tuesday, August 13, 2019

जीवन के हर क्षेत्र में पर्दा है

पर्दा
आप लैटरीन का दरवाजा बंद करते हैं , घर पहुँचते ही डोर बंद कर लेते हैं . पैसे वाले हैं तो AC2 का टिकट लेते हैं और केबिन का पर्दा तान देते हैं .
घर के दरवाजे और खिड़की में पर्दा लगाते हैं .
घर बनाने का महत्त्व पुर्ण कन्सेप्ट ही है के आप परदे में रहें और आप क्या कर रहे हैं कोई दुसरा ना देखे . कोई बिना दस्तक दिये घुस जाये तो आप चीढ जाते हैं.
जीवन के हर क्षेत्र में पर्दा है .
अन्य से परदा आप का निजी अधिकार माना जाता है .
जिस तरह से चहारदिवारी एक घर है , हमारा शरीर हमारे अस्तित्व के लिए एक घर है .

अगर चहारदीवारी से बने घर में किसी का घुसना यानी पर्दा हटाने का अधिकार देना आप की मर्जी है , तो किसी के शरीर से परदा हटाना दुसरे की मर्जी कैसे हो सकती है ?
घर उखाड़ कर साथ ले कर नही चल सकते और बाहर खुले में निकलना होता है तो परदे का प्रारूप कपड़े पर आ कर टिक जाता है .
दरवाजा बंद रखने वाले को आप यह नही कह सकते के तुमहे दरवाजा खुला रखना होगा ,सुरक्षा के दृष्टी से भी नही .
अगर कोई भी महिला या पुरूष अपने शरीर के किसी अंग को अन्य व्यक्ति को दिखाने में सहज नही है तो किस आधार पर उस पर ज़बर्दस्ती की जा सकती है ,या उसका मजाक भी उड़ाया जा सकता है ?
जबकी सभी लोग कहीं ना कहीं परदा ही तो करते हैं ?

(कॉपी-पेस्ट)

جب چرم قربانی کی مالی حیثیت ختم ہو جائے


 جب چرم قربانی کی مالی حیثیت ختم ہو جائے
 جب چرم قربانی کی مالی حیثیت ختم ہو جائےتو بھی دیگر ناقابل انتفاع اعضا کی طرح اس کی تدفین جائز ہے،یہی میرا اصل مدعا تھا جسے بیان کیا گیا ہے،مگر قربانی سے قبل علمائے کرام اور مفتیان عظام نے عموما اس دوسری شق کو نظر انداز کردیا، جس سے ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی، یہی شق اگر پہلے بیان کردی جاتی تو بہت سے ادارے مزید مالی بھران سے بچ جاتے، مگر سیوا ایسا نہیں کیا جاسکتا، رہ گئی میری ایک پوسٹ یاکمنٹ کو یہ رنگ دینا کہ مفتی نظام الدین پر بے جااعتراض ہے تو یہ وہی غلطی ہے جس کاالزام خود مفتی نظام الدیں صاحب قبلہ مصباحی صدر شعبہ افتا اشرفیہ، مبارک پور اور ان کے ہم خیال دیگر محققین ومفتیان کرام پر ایک طبقہ لگاتا رہاہے، کہ وہ بعض مخصوص علمی شخصیت کے خلاف فتوی دیتے ہیں، حق یہ ہے کہ اہل علم اور مفتیان کرام جب بھی کوئی علمی یافکری خصوصا فقہی رائے پیش کرتے ہیں تو صرف رائے ہوتی ہے، کسی کے خلاف اعلان جنگ نہیں، میری اس پوسٹ کو اعتراض کانام دینا یہ عابد مصباحی جیسے بد طینت اور بغض پرور شخص کاکام ہوسکتا ہے،سوئے اتفاق مولانا رضاء الحق جیسے عالم دین بھی اس کی سازش کا شکار ہوگئے اور اسے نمک مرچ لگاکر اس اعتراض کو مزید گہرا کردیا. میں جو پوسٹ کی تھی وہ دراصل ایک ظریفانہ پوسٹ تھی، یعنی میڈیا کی زبان میں حالات حاضرہ پر تبصرہ، اب اس کو کسی ایک فرد سے جوڑنا انتہائی درجہ بد دیانتی ہے، چرم قربانی کے بارے میں مفےی نظام الدین صاحب قبلہ اس رائے میں متفرد نہیں ہیں، یہی رائے زیادہ تر مفتیان کرام کی ہے جیسا کہ روایت چلی آرہی ہے، مسئلہ اس و و ت پیدا ہوتا ہے جب کسی فقیہ کی رائے کو وحی الہی کادرجہ دے دیا جاتاہے، حالانکہ مفےی نظام الدین قبلہ کی تحقیقات فقہیہ عالیہ اسی روش کے خلاف ٹھوس علمی احتجاج ہیں، جس میں خود معترف اور قائل ہوں، اور مسلسل میڈیا میں ان کی خوبی کا اعلا ن واظیار ڈنکے کی چوٹ پر کرتا رہاہوں.
میں مفتیان کرام بالخصوص مولانا رضاء الحق راج محلی مصباحی سے معذرت کے ساتھ یہ استفسار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ ضرور واضح کریں کہ موجودہ حالات میں چمڑا مال ہے یا نہیں، جب کہ یہ چمڑا ایک دہائی قبل تین سو سے زائد مالیت کا ہوا کرتا تھا،قصائی اور تجاران چرم ایڈوانس میں رقم دے دیا کرتے تھے، مگرآج اسے کوئی مفت میں لینے کے لیے تیار نہیں ہے، ممکن ہے ملک کے بعض دیگر علاقوں میں صرت حال تھوڑی مختلف ہومگر دہلی جہاں اربوں روپے کا چمڑا بکتا تھا اور مدارس اسلامیہ اور مسلم تنظیمیں مالامال ہوجاتی تھیں، لیکن میں کل شب میں نے دہلی کے تمام دوستوں کو فون کرلیا مگر کسی کا چمڑا بکا نہیں تھا، میں نے دہلی کی صورت حال کو اپنی تنقیدی پوسٹوں میں بھی ظاہر کیاہے،کسی بھی مدرسے میں میرے علم کے مطابق خریدار نہیں آیا، میں بے وقوف ہوسکتا ہوں مگر وہ علما جو بڑے ذہین وفتین ہیں اور جن کا چرم کے تاجروں سے اچھے معاملات ہیں وہ بھی اپنا چرم نہیں بیچ سکے، حضرت قاری شان محمدصاحب خطیب وامام رضا مسجد خریجی کو فون کیا کیونکہ ان کے ایک رشتہ دار چمڑے کا کام کرتے ہیں، ا نھوں نے کہا کہ پہلے آپ چمڑا خریجی پہنچائیں،پھر دیکھیں گے، دیکھنے کا مطلب یہ میرے یہاں سے خریجی کم از بیس کیلو میٹر ہے، جس کا کرایہ ٹمپو سے کم از کم پندرہ سو روپے ہوئے، اور چمڑے کی قیمت بعض خوش قسمت مقامات پر دس روپے تھا اور زیادہ تر جگہوں پر دو روپے اور پانچ روپے تھا، اور پچاس فیصد جگہیں وہ تھیں جہاں کوئی مفت بھی لینے کو تیار نہیں، اب اگر میں اپنا چمڑا پہنچاتا تو کرایہ پندرہ سوروپےبہوتا اور مجھے دس روپے کے حساب سے اسی چمڑے کے آٹھ سو روپے ملتے مدرسے کو سات سو روپے کا نقصان ہوتا، اب میرے کمنٹ پر بھونکنے والے بتائیں کہ چمڑا مال رہا یا وبال جان بنا؟ مولانا بدرالدین صاحب وجے وہا،مولانا عبد الرشید صاحب موہن گارڈن، قاری انصار رضا شیو وہار، قاری آصف اسوہ مصطفی آباد، مولانا زین اللہ نظامی جسولہ وہار، مولانا شکیل احمد شاہین باغ، جناب ظیر بھائی شاہین باغ، مولانا محمد یعقوب صاحب بٹلہ ہاؤس وغیرے سے رابطہ کیا مگر آہ وبکا اور رنج وغم کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا، خود پچھلے سال چمڑا بڑی مشکل سے تیس روپے میں بکا تھا،امسال بعض علما نے مشورہ دیا کہ چمڑے کے ساتھ روپے بھی ادا کریں، دہلی میں بھیمتعدد مقامات پر ایسا کیا گیا، میں بھی اعلان کیا مگر لوگوں کو عجیب لگا، کہ یار چمڑا بھی دواور پیسہ بھی،چند لوگوں نے دیا باقی لوگ نظریں بچاکر چمڑا اسٹاک کرتے چلے گئے.میں مفتیان کرام کی توجہ چاہتا ہوں کہ یہ صورت حال افراط زر کی ہے جب پیسے کی قیمت گھت جائے اور سامان یعنی مارکیٹ کی ڈیمانڈ بڑھ جائے مثلا افریقہ کے بعض غریب ملکوں میں بوریوں میں روپیہ بھر کر سبزیاں خریدنے اور ریستوران میں چائے پینے جاتے ہیں, آج ایران کی صورت ح یہی ہے، امریکی پابندیوں کی وجہ سے سخت افراط زر کا شکار ہے، بینکوں کا انٹرسٹ جائز ہے، وجہ بیان کی گئی کہ اگر یہ رقم سرمایہ دار مسلمان بینکوں سے حاصل نہیں کریں گے تو رہ رقم مفاد مسلمان کے کے خلاف استعمال ہوگی مثال پیش کی جاتی ہے کہ بائی کلہ ممبئی کا شاندار تاریخی چرچ بھی ایک یا چند مسلمانوں کے انٹرسٹ کی رقم سے بناہے، اسی واقعے کے  بعد ہند کےمفتیان کرام کا رجحان انٹرسٹ کے جواز کی طرف ہوگیا، ممکن ہے دوستی شرعی وجوہات بھی ہوں، اس سے مجھے انکار نہیں، اور کمال تو یہ ہے کہ بریلویوں کے مقابلے میں دیا نہ وہابیہ اور غیرمقلدیت کارخ انٹرسٹ کے سے زیادہ سخت ہے. 
اس معاملے کا اب ایک دوسرا پہلو ملاحظہ کریں. جس نظر رکھنا ہر درد مندمفتی جے لیے ضروری ہے وہ یہ کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا ہے وہ فقہی کتابوں کی قدیم جزئیات سے بہت ھد تک مختلف ہے، ہندوستان اگر چہ ایک جمہوری ملک ہے، جس کا آئین ہے اور عدلیہ ہے، جس پر ہمیں پورا بھروسہ بھی ہے مگر اسی کے ساتھ ساتھ اس ملک میں مسلم دشمن فرقہ پرست طاقتوں کی بھی کمی نہیں ہے، جن میں خاص طور آر ایس ایس قابل ذکر ہے باقی تنظیمیں اسی کی جائز یا ناجائز اولاد ہیں، ان سب کا ایک مطمح نظر ہے کہ کسی طرح سے مسلمانوں سے ان ملی و ذہبی تشخص چھین لیا جائے، اس راہ میں ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ مدارس اسلامیہ ہیں، اس لیے ان کی توڑ کوشش ہے کہ کسی طرح تمام مدارس کو بند کردیا جائے، یاان کا زور توڑ دیاجائے، ان کو مالی وسماجی لحاظ سے بے دست وپا کردیا جائے، یا کم از کم ان کے رول جو محدود کردیا آئے، یوپی کے مدرسوں میں گورنمنٹ جو آید دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں مدرسوں پر جوغیر شرعی قوانین نافذ کرتی ہے وہ بھی اسی مکروہ منصوبے کاایک حصہ ہے، دارالعلوم ندوۃ العلما پر بلااشتعال فائرنگ(اس سال میں ہی ندوہاسٹوڈینٹ یونین کاپرسیڈینڑ تھا، میرے ہی ہوسٹل پر حملہ ہوا تھا، ہم زمین پر لیٹ گئے تھے، ہمارے روم کی دیواریں آرمی کی رائفل کی گولیوں سے چھلنی ہوگیا تھا، ابھی حال ہی میں بغیر کسی قانونی حق کے دارالعلوم دیوبند کی لائبریری پر چھاپہ اور حملہ بھی اسی ناپاک منصوبے کا ایک حصہ ہے، مولانامحمد علی جوہر یونیورسٹی پر حملہ آور چھاپہ اور اس کے تمام اثاثہ جات کی لوٹ پاٹ اور اعظم خان پرپچاس سے زائد مقدمات کا رجسٹریشن اسی منصوبے کاایک حصہ ہے، یعنی مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں اپاہج بنادیا جائے،اب اصل مدعا پر آتا ہوں، وہ یہ مالیات کسی بھی تنظیم یاتحریک یا تعلیمی و تربیتی ادارہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، پیسہ نہیں ہوتا تو عالی گرھ یونیورسٹی سے لے کر الجامعۃ الاشرفیہ تک اور دارالعلوم دیوبند سے لے کر ندوۃ العلما تک کوئی ادارہ تعمیر نہیں ہوتا خواہ ان کاعقیدہ ومسلک کچھ بھی یو، مدرسوں کاذریعہ آمدنی صدقہ، زکات، عطیات، فطرہ وچرم قربانی ہے، ایام قرباں میں میں مدارس ایک جھٹکے میں حسب حیثیت، ہزاروں، لاکھوں روپے جمع کرلیتے تھے، پورے ملک میں چرم قربانی کاکاروبار ہزاروں کروڑ روپے کاہے، اسی لیے قربانی کا چمڑا فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کے کھٹکتا رہاہے اور اس شعبے کو وہ مکمل طور پر مفلوج کردیا چاہتے تھے، اور بالآخر پچھلی نصف دہائی کے عرصے میں وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوتے دکھ رہے ہیں،کیونکہ اہل مدارس نے بکروں کی کھا کھینچنے اور اسے لوٹنے کے سوا اس کی حفاظت اور سرمایہ کاری کا کوئی نظم نہیں قائم کءا ہے، دعوت اسلامی کے بارے میں سناہے کہ انھوں نے بڑے بڑے ڈپو بنارکھے ہیں جہاں چمڑے کو محفوظ کیا جاتاہے اور غالبا ایسا پاکستان میں ہے، ہندوستان میں کیا پوزیشن ہے مجھے معلوم نہیں، در ہونا یہ چاہیے کہ کم از کم ضلعی یا تحصیل کی سطح پر چمڑا اسٹور کرنے اور اس کا محفوظ بنانے کا مرکز قائم کیا جائے اور ایک ضلع یاتحصیل کے چرم کو ایک رجسٹر میں مندرج کر کے سب کے حصے محفوظ کردیں، اور فورخت ہونے کے بعد سب کے حصے کی رقم ادارے کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا جائے. اگر ایسا نہیں کرسکے تو اگلے سال ہر مفتی کو یہ اعلان کرناہڑے گا کہ چرم قربانی اب مال نہ رہا،. 
اسی مسئلے کاایک پہلو اور رکھنا آتا ہوں، وہ یہ کہ ہندوستان دنیا مین گوشت کا مبر ایک کااکسپورٹر ہے، کل تقریبا بتیس بڑی بیف کمپنیاں ہیں جن میں سے بڑا الکبیر ہے جوایک نان مسلم کاہے، اسی طر پچانوے فیصد کمپنیاں غیر مسلموں کی ہیں، ان کمپنیوں کے خلاف ہندو تنظیموں نے کبھی کوئی آواز بلند نہیں کی اور نہ حکومت نے کوئی کاروائی کی بلکہ ان سے ہزاروں کروڑ کا الیکشن فنڈ میں چندہ لیتی ہیں، معلوم ہوا کہ گئو رکشا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف جوآتنک جاری ہے اس کاسبب مذہبی سے زیادہ معاشی ہے، ہندو تنظیمیں نہیں چ؛ ہتیں کہ یہ کاروبار مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے یاان کی خوشحالی کاذریعہ بنے، پورے ملک میں جانوروں کی خریدوفروخت کاکام کرنے والے آج جانوروں کی زندگی جینے پر مجبور ہیں، کانپور میں چمڑا صنعت سے مسلمانو ہر ریال اور ڈالر کی بارش ہوتی تھی، مگر آج ساری ٹینریاں بند ہوچکی ہیں، چمڑا فیکٹری کا پانی مقدس دریا میں نہ جائے مگر روزانہ لاکھوں جلے ہوئے انسان ان کے حوالے کیے جاتے ہیں، اس پر کسی کواعتراض نہیں، کانپور کی ٹینری اجڑنے سے لاکھوں مسلمانوں کے بچے فاقہ کررہے ہیں اور گداگری پر مجبور ہیں، لاکھوں مزدوروں نے روزی روٹی کھودیا، ارب پتی مسلمان اج عید بقرعید میں بچوں کے لیے نئے کپڑے بنوانے سے کتعارہے ہیں، ان مسلمانوں کےیے کون آواز اٹھائے، مولوی عابد رضا مصباحی یامولانا رضاء الحق مصباحی؟
چمڑے اور ہڈی کاسارا کارخانہ جین برادری کے ہاتھوں میں ہے، گائے کی چربی اور سور کی چربی کا معاملہ انھیں کے ذریعے ہندوستان نفرت کاسبب بنا، پورے سال کڑوروں اربوں ٹن چمڑا ان کو سلاٹر ہاؤس ؤں اور نیٹ فیکٹریوں سے مل. جاتاہے، ان جو س ال میں ایک اہل مدرسہ اگر چمڑا نہ بھی دیں توسن کمپنیوں کو ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا، اس لیے بائیکاٹ کاکءڑا بھی اپنے دماغ سے اہل مدرسہ نکال دیں. 
زمینی حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے مسلمان کاروباریاں سے ملیں اور چمڑے کے تحظ اور سرمایہ کاری کی راہ نکالیں. افسو کہ ان پڑھ کسانوں نے آلو پیاز مچھلی کواستور کر نے کے لیے کولڈ اسٹ وریج بنا لیا مگر بڑے بڑے علامی مفتی، منطقی، فلسفی، صرف فلسفہ بگھارے رہ گئے، وجہ یہی ہے، کہ علما درسگاہ اور دارالافتا تک محدود ہیں، عملی زندگی سے یہ کوسوں دور ہیں، ایسے مفتیان کرام اپنے آپ کو حنگی بلکہ امام اعظم کاتلمیذ کہتے ہیں.جب کہ اعظم فرماتے ہیں کہ فقیہ کے لیے بازار میں أنا جانا مارکیٹ ریٹ معلوم کرتے رہنااز حد ضروری ہے جب کہ ایسے متمام موقر علما اور مفتیان کرام جاسوسا سلف شاگرد لاتے ہیں ءانوکر شاکر یاگھر والے، بلکہ بازار جانا وہ خلاف شان سمجھتے ہیں. 
سالک مصباحی کی اس نسئلے ہر جوبھی کمنٹ یاپوسٹ ہے اس انھیں حالات کے تناظر میں پڑھاجا ورنہ عابد مصباحی کی طرح مجھ بھونکتے رہیے مجھ پر کچھ فرق نہیں پڑتا. میں بستر پر لیٹے پیٹے یہ پوسٹ لکھ رہاہوں کل دن رات کی محنت نے پیچیش اور بخار نے حملہ کردیاہے، ایک مزدور بھر کام کرتا ہے. ام کو پانچ سو روپے کے کر گھنر جاتاہے، مجھے بہت سے لوگوں کی طرح کل چرم قربانی کاایک پیسہ بھی نہیں ملا، کئی گھنٹوں کی جان توڑ محنت کے بعد بڑی مشکل سے چمڑے کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہوئے، دفن کریں تو بھی مسئلہ اور بازار تب بھی مسئلہ مگر دفن کرنے کی سورت میں یہ تسلی ہوگی کہ میرے چرم قربانی کے سرمائے سے مسلمانوں کاقتل عام یا وب لنچنگ کرنے کے لیے ترشول اور تلواریں تو نہیں خریدی جائیں گی؟ 
سالک مصباحی دہلوی
مورخہ 13اگست،بروز منگل
بارہ بج کر دس منٹ

مولانارضاء الحق مصباحی راج محلی کی تحریر حسب ذیل ہے

"قربانی کی کھال سے متعلق ایک فتوے پر بے جا اعتراض کا جواب #
سراج الفقہاء مفتی نظام الدین رضوی صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور سمیت جن مفتیان کرام نے قربانی کی کھال سے متعلق حکم شرعی بیان کیا ہے کہ قربانی کی کھال کادام چاہے جتنا کم ہو' اس کو جلاکر یادفن کرکے ضائع کرنا جائز نہیں ۔اس کی وجہ یہ بیان کی گئ ہے کہ وہ مال ہے اور اضاعت مال کی شرع اجازت نہیں دیتی ۔۔مسئلہ واضح ہے کہ اگرقربانی کی کھال کی مالیت کسی مقام پہ مفقود ہوجاے، کوئ خریدنے والا ملے نہ ہدیہ میں قبول کرنے والا ملے 'نہ کھال کا مالک اسے استعمال کرنے پر قادر ہو تواب اس کی مالی حیثیت باقی نہ رہی لہذا قربانی کے جانور کے دوسرے ناقابل انتفاع اعضا کی طرح کھال کو بھی دفن کرنے کا حکم ہوگا۔۔اگر کسی مقام پہ اس کی مالیت مفقود ہوگئ ہے تو وہاں وہ حکم شرع بھی مفقود ہوگا۔کیوں کہ حکم کی بنیاد وجود مالیت ہے۔جہاں یہ مفقود تو وہ مفقود۔۔۔لہذا بیان کردہ حکم شرع پر اعتراض لغو ۔۔۔
*رضاء الحق مصباحی راج محلی
١١،ذوالحجہ ١۴۴٠ھ"

(دراصل ہوا کیا ہے؟)
عالمی سامراجی طاغوتی سرمایہ دار طاقتوں کو شروع سے ہی برصغیر پاک و ہند کے مدارس و جامعات کے بارے میں شدید تحفظات رہے ہیں، کیونکہ یہ ان کے سیاسی معاشی اور معاشرتی ایجنڈے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں.
عالمی طاقتیں تسلسل کے برصغیر کے حکمرانوں سے ان مدارس و جامعات کو نتھ ڈالنے کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہیں.
لیکن یہاں کے حکمران مذہب کی خاطرخواہ قوت کے پیش نظر ان کے مطالبات کو حیلے بہانے سے ٹالتے رہے ہیں.
لیکن اب ان مطالبات میں جب شدت آئی اور عالمی طاقتوں نے بازپرس کی کہ ان مدارس کو مالی قوت کہاں سے فراہم ہو رہی ہے؟ تو انہیں بتایا گیا کہ زیادہ تر ان کا انحصار زکوٰۃ و عطیات اور قربانی کی کھالوں پر ہے.. تو مذکورہ ہر دو ذرائع پر حملے کا باقاعدہ پلان ترتیب دیا گیا..
زکوٰۃ وصولی کی راہوں کو مسدود کرنے کے لیے باقاعدہ ایک ضوابط نامہ ترتیب دے کر دینی مدارس کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے مخیرین کے نام سامنے لائیں، مقصد یہ تھا کہ اس طرح مخیرین پر ان کی آمدنی کو بنیاد بنا کر ہاتھ ڈالا جا سکے.
کھالوں کے حوالے سے پلان یہ تیار کیا گیا کہ ایک طرف تو مدارس کے لیے اجازت نامے کو لازمی قرار دے دیا گیا، جس میں اس مرتبہ تیرہ شرائط کے ساتھ کھالوں کی وصولی کی اجازت دی گئی.. دوسری طرف چمڑے کے تاجروں کے ساتھ باقاعدہ ساز باز کر کے کھالوں کی قیمت کو شرم ناک حد تک گرا دیا گیا... ساتھ ہی قیمتوں کے کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لیے تمام تاجروں کو لائسنس کا پابند کر دیا گیا تاکہ مقابلہ بازی میں قیمتوں کے ریٹ بڑھنے نہ پائیں.
اس طرح عالمی طاقتوں کا جہاں مدارس کی کمر توڑنے کا ملعون ایجنڈا کامیاب ہوا وہاں برصغیر کی حکومتوں کو  خوب سرمایہ لوٹنے کا بھی موقع فراہم ہوا..
زیر نظر اسکرین شاٹ مولانا انصار مصباحی صاحب کے پوسٹ پر راقم کا تبصرہ تھا، دوسرے تبصرے میں میں نے یہ سوال کیا تھا کہ چمڑے کے مال ہونے کا تعین ہم کس وجہ سے کرتے ہیں؟
لیکن جواب سے محروم رہنے پر اب یہ سوال میں اہل علم کے سامنے پیش کرتا ہو اگر اس سوال کا جواب مل گیا تو شاید چمڑے کے سلسلے میں ابھی جو مختلف اداروں، مفتیان کرام اور علماء کے درمیان رسہ کشی چل رہی ہے اس کا حل سامنے آجائے اور بعض شدت پسند مولویوں کی تفسیق و تضلیل کا بازار بھی سرد پڑ جائے۔
دو دنوں پہلے "الکلیم دارالافتاء سیتا مڑھی بہار" نام کے اکاؤنٹ سے مجھ سے ذاتی میسینجر پر رابطہ کرکے میرے ایک کمنٹ میں شیئر کئے گئے اخباری تراشے کا اسکرین شاٹ پیش کرکے مجھ سے سوال کیا گیا کہ کھال وصولنے کا فیصلہ شرعی ہے یا غیر شرعی؟
میں نے مطالبہ کیا کہ پہلے آپ اپنا تعارف کرائیں کہ آپ کون ہیں اس کے بعد میں آپ سے اس مسئلہ پر گفتگو کروں گا کیوں کہ مجھے یہ اکاؤنٹ مشتبہ لگا، عام طور سے سوشل میڈیا پر دارالافتاء کسی کے ذاتی اکاؤنٹ سے نہیں بل کہ پیج سے چلتے ہیں اس اکاؤنٹ کا نام "الکلیم دارالافتاء سیتا مڑھی بہار" ہے اور پروفائل کے مطابق اس اکاؤنٹ کو استعمال کرنے والا ممبئی میں رہتا بھی ہے اور ممبئی کا رہنے والا بھی ہے، اور اس اکاؤنٹ سے کھال کے دفن کرنے کے عدم جواز پر مختلف مکاتب فکر کے اداروں کے فتاوے شئیر کیے گئے ہیں اور بعض فتاوی "رجوع لازم" کے شدت آمیز لاحقے کے ساتھ شیئر کیے گئے ہیں۔
بہر حال اگر چرم قربانی کی مالی حیثیت نص سے صراحتاً ثابت ہے تو اہل علم اس کی طرف رہنمائی فرمادیں اور جواز عدم جواز کی بحث ہی ختم!
میرے محدود مطالعہ میں مسند امام احمد بن حنبل کی ایک روایت ہے جسے امام احمد بن حنبل نے مسند المدنیین کے تحت حضرت قتادہ بن النعمان سے مروی ایک حدیث نقل فرمایا ہے جس میں قربانی کی کھال کے تعلق سے یہ الفاظ ہیں:
وَاسْتَمْتِعُوا بِجُلُودِهَا وَلَا تَبِيعُوهَا
"قربانی کی کھال سے نفع اٹھاؤ اور اسے فروخت نہ کرو"
اس روایت کی روشنی میں دو باتیں صراحتاً سمجھ میں آرہی ہیں:
١- قربانی کی کھال ذاتی استعمال میں لایا جائے لیکن یہ حکم وجوبی نہیں۔ (اس کو صدقہ کرنا بہر صورت لازم نہیں)
٢- اور اگر ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتے تو اس کو فروخت بھی نہ کریں
اور ساتھ ہی ساتھ اشارتاً یہ بھی سمجھ میں آیا کہ:
١- عہد نبوی میں کھالوں کی خرید و فروخت ہو تی تھی
٢- اور اسی کی وجہ سے اس کی مالی حیثیت بھی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قربانی کرنے والا کھال کو ذاتی طور پر استعمال میں لانا بھی نہیں چاہتا اور فروخت بھی نہیں کرسکتا تو کیا کرے؟
فقہاء کرام نے بیان کیا کہ ایسی صورت میں کھال کو غریبوں کو صدقہ کردے۔ غریبوں کو صدقہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ غریب اس کو اپنے ذاتی استعمال میں لاکر اپنی ضرورت پوری کرلے یا اگر ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتا تو اسے فروخت کرکے اپنی ضرورت پوری کرلے کیوں کہ قربانی کی کھال فروخت کرنے کی ممانعت اس کو نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھال کی خرید و فروخت بند ہو جائے یا فروخت کا نفع معدوم ہوجائے تو اس کی مالی حیثیت برقرار رہے گی؟
اس کی اضاعت سے اضاعت مال کا تحقق ہوگا؟
اور اس کی اضاعت کرنے والے پر اضاعت مال کا حکم لگے گا؟

#نوٹ: اہل علم اپنی تحقیق پیش فرمائیں اور پوسٹ کو بنا سمجھے اضاعت مال کی حرمت یا عدم جواز کے فتاوے جواب میں شئیر کرنے سے گریز کریں کیوں کہ یہاں بحث کا یہ موضوع ہے ہی نہیں۔
شکریہ
عرفان احمد ازہری
یاد رہے کہ اب تیسرا اقدام یہ کیا جا رہا ہے کہ ان مدارس و جامعات کو سرکاری امتحانات کا پابند کر کے ان کی خود مختار تہذیبی فکر کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پر زور شور سے عمل شروع ہو چکا ہے.

ایسے میں جب تک تمام مدارس کی جملہ تنظیمات سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہو کر کسی فکری  پالیسی کے تحت اس اسلام دشمن ایجنڈے کی مزاحمت نہیں کرتیں تب تک تمام مدارس مکمل طور پر شدید خطرات کی زد میں ہیں.
اب عالمی اور قومی طاقتیں دینی مدارس کی قوت کو توڑنے کے خلاف فیصلہ کن جنگ کرنے کے لیے میدان میں اتر چکی ہیں.
علامہ منظر محسن

لماذا يقتل الناس في القرن الحادي والعشرين الحيوانات في عيد الأضحى باسم الله؟

لماذا يقتل الناس في القرن الحادي والعشرين الحيوانات في عيد الأضحى باسم الله؟

 وفقًا لموقع: (http://www.adaptt.org/killcounter.html)   فهناك 150 مليار حيوان تقتل كل عام على أيدي بشر في القرن الحادي والعشرين .
في هذا القرن الحادي والعشرين ، يتم ذبح مئات الملايين من الحيوانات للحوم في جميع أنحاء العالم يوميًا للأثرياء القادرين على شرائها.
إذا كان المسلمون يذبحون الحيوانات مرة في سنة باسم الله لمشاركتهم مع الفقراء حتى يتمكن الفقراء أيضا من تناول الطعام والاستمتاع ببعض اللحوم ، لأن اللحم بعد الذبح يقسم في ثلاث حصص ومنها حصة للفقراء وحصة للأقرباء والأحباء وحصة للأسرة  فهذا لماذا يزعجك يا انسان؟
إذا كنت تعتقد أن هذا الحيوان يجب ألا يقتل من أجل الغذاء البشري ، فعليك أن تبدأ حملتك ضده في المجتمعات الغربية حيث يوجد أعلى استهلاك اللحوم وأعلى هدر للطعام.
يتم ذبح أكثر من 9 مليارات حيوان للطعام في الولايات المتحدة سنويًا وفقا لموقع :(59Billion Land and Sea Animals Killed for Food in the US in 2009)
في المملكة المتحدة(uk) ، يتم ذبح حوالي 22 مليون حيوان يوميًا من أجل الغذاء ؛ 919000 في ساعة ؛ 15000 في الدقيقة و 255 في كل ثانية تذبح لغذاء البشري ليس للفداء في حضرة الإله . (The slaughter of farmedanimals in the UK)
في عام 2009 ، قُتل 59 مليار من الحيوانات البرية والبحرية في الولايات المتحدة من أجل الغذاء وفقا لموقع : (59 Billion Land andSea Animals Killed for Food in the US in 2009).
إذا كنت مهتمًا برفاهية الحيوانات ، فقبل معارضة ذبح الحيوانات للحصول على الطعام ، يجب عليك القيام بحملات ضد الممارسات القاسية والشريرة التي يشارك فيها الناس في القتال الثيران ، مصارعة الديوك ، قتال الكلاب ، صيد الثعلب ، صيد الدب والصيد الكأس ، الخ.
يجب أن تشعر بالقلق أيضًا حيال الحيوانات التي قتلت من أجل فرائها فقط وليس للطعام 50 مليون في السنة وفقا لموقع :(Fur| Liberation BC).
كل عمليات القتل هذه يدينها الإسلام بشدة.

رأيت حيث كان الهندوس في نيبال يقتلون بوحشية مئات الآلاف من الجاموس بوحشية من أجل حسن الحظ (ليس من أجل الغذاء) .
ذبح خمسة آلاف جاموس في بداية الاحتفال الهندوسي الذي يرى أن 300000 حيوان قد قُتلوا ليجلبوا للمصلين حظًا سعيدًا.
هذا ما يحدث في القرن الحادي والعشرين.  


Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...