Tuesday, August 13, 2019

جب چرم قربانی کی مالی حیثیت ختم ہو جائے


 جب چرم قربانی کی مالی حیثیت ختم ہو جائے
 جب چرم قربانی کی مالی حیثیت ختم ہو جائےتو بھی دیگر ناقابل انتفاع اعضا کی طرح اس کی تدفین جائز ہے،یہی میرا اصل مدعا تھا جسے بیان کیا گیا ہے،مگر قربانی سے قبل علمائے کرام اور مفتیان عظام نے عموما اس دوسری شق کو نظر انداز کردیا، جس سے ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی، یہی شق اگر پہلے بیان کردی جاتی تو بہت سے ادارے مزید مالی بھران سے بچ جاتے، مگر سیوا ایسا نہیں کیا جاسکتا، رہ گئی میری ایک پوسٹ یاکمنٹ کو یہ رنگ دینا کہ مفتی نظام الدین پر بے جااعتراض ہے تو یہ وہی غلطی ہے جس کاالزام خود مفتی نظام الدیں صاحب قبلہ مصباحی صدر شعبہ افتا اشرفیہ، مبارک پور اور ان کے ہم خیال دیگر محققین ومفتیان کرام پر ایک طبقہ لگاتا رہاہے، کہ وہ بعض مخصوص علمی شخصیت کے خلاف فتوی دیتے ہیں، حق یہ ہے کہ اہل علم اور مفتیان کرام جب بھی کوئی علمی یافکری خصوصا فقہی رائے پیش کرتے ہیں تو صرف رائے ہوتی ہے، کسی کے خلاف اعلان جنگ نہیں، میری اس پوسٹ کو اعتراض کانام دینا یہ عابد مصباحی جیسے بد طینت اور بغض پرور شخص کاکام ہوسکتا ہے،سوئے اتفاق مولانا رضاء الحق جیسے عالم دین بھی اس کی سازش کا شکار ہوگئے اور اسے نمک مرچ لگاکر اس اعتراض کو مزید گہرا کردیا. میں جو پوسٹ کی تھی وہ دراصل ایک ظریفانہ پوسٹ تھی، یعنی میڈیا کی زبان میں حالات حاضرہ پر تبصرہ، اب اس کو کسی ایک فرد سے جوڑنا انتہائی درجہ بد دیانتی ہے، چرم قربانی کے بارے میں مفےی نظام الدین صاحب قبلہ اس رائے میں متفرد نہیں ہیں، یہی رائے زیادہ تر مفتیان کرام کی ہے جیسا کہ روایت چلی آرہی ہے، مسئلہ اس و و ت پیدا ہوتا ہے جب کسی فقیہ کی رائے کو وحی الہی کادرجہ دے دیا جاتاہے، حالانکہ مفےی نظام الدین قبلہ کی تحقیقات فقہیہ عالیہ اسی روش کے خلاف ٹھوس علمی احتجاج ہیں، جس میں خود معترف اور قائل ہوں، اور مسلسل میڈیا میں ان کی خوبی کا اعلا ن واظیار ڈنکے کی چوٹ پر کرتا رہاہوں.
میں مفتیان کرام بالخصوص مولانا رضاء الحق راج محلی مصباحی سے معذرت کے ساتھ یہ استفسار کرنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ ضرور واضح کریں کہ موجودہ حالات میں چمڑا مال ہے یا نہیں، جب کہ یہ چمڑا ایک دہائی قبل تین سو سے زائد مالیت کا ہوا کرتا تھا،قصائی اور تجاران چرم ایڈوانس میں رقم دے دیا کرتے تھے، مگرآج اسے کوئی مفت میں لینے کے لیے تیار نہیں ہے، ممکن ہے ملک کے بعض دیگر علاقوں میں صرت حال تھوڑی مختلف ہومگر دہلی جہاں اربوں روپے کا چمڑا بکتا تھا اور مدارس اسلامیہ اور مسلم تنظیمیں مالامال ہوجاتی تھیں، لیکن میں کل شب میں نے دہلی کے تمام دوستوں کو فون کرلیا مگر کسی کا چمڑا بکا نہیں تھا، میں نے دہلی کی صورت حال کو اپنی تنقیدی پوسٹوں میں بھی ظاہر کیاہے،کسی بھی مدرسے میں میرے علم کے مطابق خریدار نہیں آیا، میں بے وقوف ہوسکتا ہوں مگر وہ علما جو بڑے ذہین وفتین ہیں اور جن کا چرم کے تاجروں سے اچھے معاملات ہیں وہ بھی اپنا چرم نہیں بیچ سکے، حضرت قاری شان محمدصاحب خطیب وامام رضا مسجد خریجی کو فون کیا کیونکہ ان کے ایک رشتہ دار چمڑے کا کام کرتے ہیں، ا نھوں نے کہا کہ پہلے آپ چمڑا خریجی پہنچائیں،پھر دیکھیں گے، دیکھنے کا مطلب یہ میرے یہاں سے خریجی کم از بیس کیلو میٹر ہے، جس کا کرایہ ٹمپو سے کم از کم پندرہ سو روپے ہوئے، اور چمڑے کی قیمت بعض خوش قسمت مقامات پر دس روپے تھا اور زیادہ تر جگہوں پر دو روپے اور پانچ روپے تھا، اور پچاس فیصد جگہیں وہ تھیں جہاں کوئی مفت بھی لینے کو تیار نہیں، اب اگر میں اپنا چمڑا پہنچاتا تو کرایہ پندرہ سوروپےبہوتا اور مجھے دس روپے کے حساب سے اسی چمڑے کے آٹھ سو روپے ملتے مدرسے کو سات سو روپے کا نقصان ہوتا، اب میرے کمنٹ پر بھونکنے والے بتائیں کہ چمڑا مال رہا یا وبال جان بنا؟ مولانا بدرالدین صاحب وجے وہا،مولانا عبد الرشید صاحب موہن گارڈن، قاری انصار رضا شیو وہار، قاری آصف اسوہ مصطفی آباد، مولانا زین اللہ نظامی جسولہ وہار، مولانا شکیل احمد شاہین باغ، جناب ظیر بھائی شاہین باغ، مولانا محمد یعقوب صاحب بٹلہ ہاؤس وغیرے سے رابطہ کیا مگر آہ وبکا اور رنج وغم کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا، خود پچھلے سال چمڑا بڑی مشکل سے تیس روپے میں بکا تھا،امسال بعض علما نے مشورہ دیا کہ چمڑے کے ساتھ روپے بھی ادا کریں، دہلی میں بھیمتعدد مقامات پر ایسا کیا گیا، میں بھی اعلان کیا مگر لوگوں کو عجیب لگا، کہ یار چمڑا بھی دواور پیسہ بھی،چند لوگوں نے دیا باقی لوگ نظریں بچاکر چمڑا اسٹاک کرتے چلے گئے.میں مفتیان کرام کی توجہ چاہتا ہوں کہ یہ صورت حال افراط زر کی ہے جب پیسے کی قیمت گھت جائے اور سامان یعنی مارکیٹ کی ڈیمانڈ بڑھ جائے مثلا افریقہ کے بعض غریب ملکوں میں بوریوں میں روپیہ بھر کر سبزیاں خریدنے اور ریستوران میں چائے پینے جاتے ہیں, آج ایران کی صورت ح یہی ہے، امریکی پابندیوں کی وجہ سے سخت افراط زر کا شکار ہے، بینکوں کا انٹرسٹ جائز ہے، وجہ بیان کی گئی کہ اگر یہ رقم سرمایہ دار مسلمان بینکوں سے حاصل نہیں کریں گے تو رہ رقم مفاد مسلمان کے کے خلاف استعمال ہوگی مثال پیش کی جاتی ہے کہ بائی کلہ ممبئی کا شاندار تاریخی چرچ بھی ایک یا چند مسلمانوں کے انٹرسٹ کی رقم سے بناہے، اسی واقعے کے  بعد ہند کےمفتیان کرام کا رجحان انٹرسٹ کے جواز کی طرف ہوگیا، ممکن ہے دوستی شرعی وجوہات بھی ہوں، اس سے مجھے انکار نہیں، اور کمال تو یہ ہے کہ بریلویوں کے مقابلے میں دیا نہ وہابیہ اور غیرمقلدیت کارخ انٹرسٹ کے سے زیادہ سخت ہے. 
اس معاملے کا اب ایک دوسرا پہلو ملاحظہ کریں. جس نظر رکھنا ہر درد مندمفتی جے لیے ضروری ہے وہ یہ کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو جن حالات کا سامنا ہے وہ فقہی کتابوں کی قدیم جزئیات سے بہت ھد تک مختلف ہے، ہندوستان اگر چہ ایک جمہوری ملک ہے، جس کا آئین ہے اور عدلیہ ہے، جس پر ہمیں پورا بھروسہ بھی ہے مگر اسی کے ساتھ ساتھ اس ملک میں مسلم دشمن فرقہ پرست طاقتوں کی بھی کمی نہیں ہے، جن میں خاص طور آر ایس ایس قابل ذکر ہے باقی تنظیمیں اسی کی جائز یا ناجائز اولاد ہیں، ان سب کا ایک مطمح نظر ہے کہ کسی طرح سے مسلمانوں سے ان ملی و ذہبی تشخص چھین لیا جائے، اس راہ میں ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ مدارس اسلامیہ ہیں، اس لیے ان کی توڑ کوشش ہے کہ کسی طرح تمام مدارس کو بند کردیا جائے، یاان کا زور توڑ دیاجائے، ان کو مالی وسماجی لحاظ سے بے دست وپا کردیا جائے، یا کم از کم ان کے رول جو محدود کردیا آئے، یوپی کے مدرسوں میں گورنمنٹ جو آید دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں مدرسوں پر جوغیر شرعی قوانین نافذ کرتی ہے وہ بھی اسی مکروہ منصوبے کاایک حصہ ہے، دارالعلوم ندوۃ العلما پر بلااشتعال فائرنگ(اس سال میں ہی ندوہاسٹوڈینٹ یونین کاپرسیڈینڑ تھا، میرے ہی ہوسٹل پر حملہ ہوا تھا، ہم زمین پر لیٹ گئے تھے، ہمارے روم کی دیواریں آرمی کی رائفل کی گولیوں سے چھلنی ہوگیا تھا، ابھی حال ہی میں بغیر کسی قانونی حق کے دارالعلوم دیوبند کی لائبریری پر چھاپہ اور حملہ بھی اسی ناپاک منصوبے کا ایک حصہ ہے، مولانامحمد علی جوہر یونیورسٹی پر حملہ آور چھاپہ اور اس کے تمام اثاثہ جات کی لوٹ پاٹ اور اعظم خان پرپچاس سے زائد مقدمات کا رجسٹریشن اسی منصوبے کاایک حصہ ہے، یعنی مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں اپاہج بنادیا جائے،اب اصل مدعا پر آتا ہوں، وہ یہ مالیات کسی بھی تنظیم یاتحریک یا تعلیمی و تربیتی ادارہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، پیسہ نہیں ہوتا تو عالی گرھ یونیورسٹی سے لے کر الجامعۃ الاشرفیہ تک اور دارالعلوم دیوبند سے لے کر ندوۃ العلما تک کوئی ادارہ تعمیر نہیں ہوتا خواہ ان کاعقیدہ ومسلک کچھ بھی یو، مدرسوں کاذریعہ آمدنی صدقہ، زکات، عطیات، فطرہ وچرم قربانی ہے، ایام قرباں میں میں مدارس ایک جھٹکے میں حسب حیثیت، ہزاروں، لاکھوں روپے جمع کرلیتے تھے، پورے ملک میں چرم قربانی کاکاروبار ہزاروں کروڑ روپے کاہے، اسی لیے قربانی کا چمڑا فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کے کھٹکتا رہاہے اور اس شعبے کو وہ مکمل طور پر مفلوج کردیا چاہتے تھے، اور بالآخر پچھلی نصف دہائی کے عرصے میں وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوتے دکھ رہے ہیں،کیونکہ اہل مدارس نے بکروں کی کھا کھینچنے اور اسے لوٹنے کے سوا اس کی حفاظت اور سرمایہ کاری کا کوئی نظم نہیں قائم کءا ہے، دعوت اسلامی کے بارے میں سناہے کہ انھوں نے بڑے بڑے ڈپو بنارکھے ہیں جہاں چمڑے کو محفوظ کیا جاتاہے اور غالبا ایسا پاکستان میں ہے، ہندوستان میں کیا پوزیشن ہے مجھے معلوم نہیں، در ہونا یہ چاہیے کہ کم از کم ضلعی یا تحصیل کی سطح پر چمڑا اسٹور کرنے اور اس کا محفوظ بنانے کا مرکز قائم کیا جائے اور ایک ضلع یاتحصیل کے چرم کو ایک رجسٹر میں مندرج کر کے سب کے حصے محفوظ کردیں، اور فورخت ہونے کے بعد سب کے حصے کی رقم ادارے کے اکاؤنٹ میں منتقل کردیا جائے. اگر ایسا نہیں کرسکے تو اگلے سال ہر مفتی کو یہ اعلان کرناہڑے گا کہ چرم قربانی اب مال نہ رہا،. 
اسی مسئلے کاایک پہلو اور رکھنا آتا ہوں، وہ یہ کہ ہندوستان دنیا مین گوشت کا مبر ایک کااکسپورٹر ہے، کل تقریبا بتیس بڑی بیف کمپنیاں ہیں جن میں سے بڑا الکبیر ہے جوایک نان مسلم کاہے، اسی طر پچانوے فیصد کمپنیاں غیر مسلموں کی ہیں، ان کمپنیوں کے خلاف ہندو تنظیموں نے کبھی کوئی آواز بلند نہیں کی اور نہ حکومت نے کوئی کاروائی کی بلکہ ان سے ہزاروں کروڑ کا الیکشن فنڈ میں چندہ لیتی ہیں، معلوم ہوا کہ گئو رکشا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف جوآتنک جاری ہے اس کاسبب مذہبی سے زیادہ معاشی ہے، ہندو تنظیمیں نہیں چ؛ ہتیں کہ یہ کاروبار مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے یاان کی خوشحالی کاذریعہ بنے، پورے ملک میں جانوروں کی خریدوفروخت کاکام کرنے والے آج جانوروں کی زندگی جینے پر مجبور ہیں، کانپور میں چمڑا صنعت سے مسلمانو ہر ریال اور ڈالر کی بارش ہوتی تھی، مگر آج ساری ٹینریاں بند ہوچکی ہیں، چمڑا فیکٹری کا پانی مقدس دریا میں نہ جائے مگر روزانہ لاکھوں جلے ہوئے انسان ان کے حوالے کیے جاتے ہیں، اس پر کسی کواعتراض نہیں، کانپور کی ٹینری اجڑنے سے لاکھوں مسلمانوں کے بچے فاقہ کررہے ہیں اور گداگری پر مجبور ہیں، لاکھوں مزدوروں نے روزی روٹی کھودیا، ارب پتی مسلمان اج عید بقرعید میں بچوں کے لیے نئے کپڑے بنوانے سے کتعارہے ہیں، ان مسلمانوں کےیے کون آواز اٹھائے، مولوی عابد رضا مصباحی یامولانا رضاء الحق مصباحی؟
چمڑے اور ہڈی کاسارا کارخانہ جین برادری کے ہاتھوں میں ہے، گائے کی چربی اور سور کی چربی کا معاملہ انھیں کے ذریعے ہندوستان نفرت کاسبب بنا، پورے سال کڑوروں اربوں ٹن چمڑا ان کو سلاٹر ہاؤس ؤں اور نیٹ فیکٹریوں سے مل. جاتاہے، ان جو س ال میں ایک اہل مدرسہ اگر چمڑا نہ بھی دیں توسن کمپنیوں کو ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا، اس لیے بائیکاٹ کاکءڑا بھی اپنے دماغ سے اہل مدرسہ نکال دیں. 
زمینی حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے مسلمان کاروباریاں سے ملیں اور چمڑے کے تحظ اور سرمایہ کاری کی راہ نکالیں. افسو کہ ان پڑھ کسانوں نے آلو پیاز مچھلی کواستور کر نے کے لیے کولڈ اسٹ وریج بنا لیا مگر بڑے بڑے علامی مفتی، منطقی، فلسفی، صرف فلسفہ بگھارے رہ گئے، وجہ یہی ہے، کہ علما درسگاہ اور دارالافتا تک محدود ہیں، عملی زندگی سے یہ کوسوں دور ہیں، ایسے مفتیان کرام اپنے آپ کو حنگی بلکہ امام اعظم کاتلمیذ کہتے ہیں.جب کہ اعظم فرماتے ہیں کہ فقیہ کے لیے بازار میں أنا جانا مارکیٹ ریٹ معلوم کرتے رہنااز حد ضروری ہے جب کہ ایسے متمام موقر علما اور مفتیان کرام جاسوسا سلف شاگرد لاتے ہیں ءانوکر شاکر یاگھر والے، بلکہ بازار جانا وہ خلاف شان سمجھتے ہیں. 
سالک مصباحی کی اس نسئلے ہر جوبھی کمنٹ یاپوسٹ ہے اس انھیں حالات کے تناظر میں پڑھاجا ورنہ عابد مصباحی کی طرح مجھ بھونکتے رہیے مجھ پر کچھ فرق نہیں پڑتا. میں بستر پر لیٹے پیٹے یہ پوسٹ لکھ رہاہوں کل دن رات کی محنت نے پیچیش اور بخار نے حملہ کردیاہے، ایک مزدور بھر کام کرتا ہے. ام کو پانچ سو روپے کے کر گھنر جاتاہے، مجھے بہت سے لوگوں کی طرح کل چرم قربانی کاایک پیسہ بھی نہیں ملا، کئی گھنٹوں کی جان توڑ محنت کے بعد بڑی مشکل سے چمڑے کو ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہوئے، دفن کریں تو بھی مسئلہ اور بازار تب بھی مسئلہ مگر دفن کرنے کی سورت میں یہ تسلی ہوگی کہ میرے چرم قربانی کے سرمائے سے مسلمانوں کاقتل عام یا وب لنچنگ کرنے کے لیے ترشول اور تلواریں تو نہیں خریدی جائیں گی؟ 
سالک مصباحی دہلوی
مورخہ 13اگست،بروز منگل
بارہ بج کر دس منٹ

مولانارضاء الحق مصباحی راج محلی کی تحریر حسب ذیل ہے

"قربانی کی کھال سے متعلق ایک فتوے پر بے جا اعتراض کا جواب #
سراج الفقہاء مفتی نظام الدین رضوی صدر شعبہ افتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور سمیت جن مفتیان کرام نے قربانی کی کھال سے متعلق حکم شرعی بیان کیا ہے کہ قربانی کی کھال کادام چاہے جتنا کم ہو' اس کو جلاکر یادفن کرکے ضائع کرنا جائز نہیں ۔اس کی وجہ یہ بیان کی گئ ہے کہ وہ مال ہے اور اضاعت مال کی شرع اجازت نہیں دیتی ۔۔مسئلہ واضح ہے کہ اگرقربانی کی کھال کی مالیت کسی مقام پہ مفقود ہوجاے، کوئ خریدنے والا ملے نہ ہدیہ میں قبول کرنے والا ملے 'نہ کھال کا مالک اسے استعمال کرنے پر قادر ہو تواب اس کی مالی حیثیت باقی نہ رہی لہذا قربانی کے جانور کے دوسرے ناقابل انتفاع اعضا کی طرح کھال کو بھی دفن کرنے کا حکم ہوگا۔۔اگر کسی مقام پہ اس کی مالیت مفقود ہوگئ ہے تو وہاں وہ حکم شرع بھی مفقود ہوگا۔کیوں کہ حکم کی بنیاد وجود مالیت ہے۔جہاں یہ مفقود تو وہ مفقود۔۔۔لہذا بیان کردہ حکم شرع پر اعتراض لغو ۔۔۔
*رضاء الحق مصباحی راج محلی
١١،ذوالحجہ ١۴۴٠ھ"

(دراصل ہوا کیا ہے؟)
عالمی سامراجی طاغوتی سرمایہ دار طاقتوں کو شروع سے ہی برصغیر پاک و ہند کے مدارس و جامعات کے بارے میں شدید تحفظات رہے ہیں، کیونکہ یہ ان کے سیاسی معاشی اور معاشرتی ایجنڈے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں.
عالمی طاقتیں تسلسل کے برصغیر کے حکمرانوں سے ان مدارس و جامعات کو نتھ ڈالنے کا مطالبہ کرتی چلی آ رہی ہیں.
لیکن یہاں کے حکمران مذہب کی خاطرخواہ قوت کے پیش نظر ان کے مطالبات کو حیلے بہانے سے ٹالتے رہے ہیں.
لیکن اب ان مطالبات میں جب شدت آئی اور عالمی طاقتوں نے بازپرس کی کہ ان مدارس کو مالی قوت کہاں سے فراہم ہو رہی ہے؟ تو انہیں بتایا گیا کہ زیادہ تر ان کا انحصار زکوٰۃ و عطیات اور قربانی کی کھالوں پر ہے.. تو مذکورہ ہر دو ذرائع پر حملے کا باقاعدہ پلان ترتیب دیا گیا..
زکوٰۃ وصولی کی راہوں کو مسدود کرنے کے لیے باقاعدہ ایک ضوابط نامہ ترتیب دے کر دینی مدارس کو پابند کیا گیا کہ وہ اپنے مخیرین کے نام سامنے لائیں، مقصد یہ تھا کہ اس طرح مخیرین پر ان کی آمدنی کو بنیاد بنا کر ہاتھ ڈالا جا سکے.
کھالوں کے حوالے سے پلان یہ تیار کیا گیا کہ ایک طرف تو مدارس کے لیے اجازت نامے کو لازمی قرار دے دیا گیا، جس میں اس مرتبہ تیرہ شرائط کے ساتھ کھالوں کی وصولی کی اجازت دی گئی.. دوسری طرف چمڑے کے تاجروں کے ساتھ باقاعدہ ساز باز کر کے کھالوں کی قیمت کو شرم ناک حد تک گرا دیا گیا... ساتھ ہی قیمتوں کے کنٹرول کو برقرار رکھنے کے لیے تمام تاجروں کو لائسنس کا پابند کر دیا گیا تاکہ مقابلہ بازی میں قیمتوں کے ریٹ بڑھنے نہ پائیں.
اس طرح عالمی طاقتوں کا جہاں مدارس کی کمر توڑنے کا ملعون ایجنڈا کامیاب ہوا وہاں برصغیر کی حکومتوں کو  خوب سرمایہ لوٹنے کا بھی موقع فراہم ہوا..
زیر نظر اسکرین شاٹ مولانا انصار مصباحی صاحب کے پوسٹ پر راقم کا تبصرہ تھا، دوسرے تبصرے میں میں نے یہ سوال کیا تھا کہ چمڑے کے مال ہونے کا تعین ہم کس وجہ سے کرتے ہیں؟
لیکن جواب سے محروم رہنے پر اب یہ سوال میں اہل علم کے سامنے پیش کرتا ہو اگر اس سوال کا جواب مل گیا تو شاید چمڑے کے سلسلے میں ابھی جو مختلف اداروں، مفتیان کرام اور علماء کے درمیان رسہ کشی چل رہی ہے اس کا حل سامنے آجائے اور بعض شدت پسند مولویوں کی تفسیق و تضلیل کا بازار بھی سرد پڑ جائے۔
دو دنوں پہلے "الکلیم دارالافتاء سیتا مڑھی بہار" نام کے اکاؤنٹ سے مجھ سے ذاتی میسینجر پر رابطہ کرکے میرے ایک کمنٹ میں شیئر کئے گئے اخباری تراشے کا اسکرین شاٹ پیش کرکے مجھ سے سوال کیا گیا کہ کھال وصولنے کا فیصلہ شرعی ہے یا غیر شرعی؟
میں نے مطالبہ کیا کہ پہلے آپ اپنا تعارف کرائیں کہ آپ کون ہیں اس کے بعد میں آپ سے اس مسئلہ پر گفتگو کروں گا کیوں کہ مجھے یہ اکاؤنٹ مشتبہ لگا، عام طور سے سوشل میڈیا پر دارالافتاء کسی کے ذاتی اکاؤنٹ سے نہیں بل کہ پیج سے چلتے ہیں اس اکاؤنٹ کا نام "الکلیم دارالافتاء سیتا مڑھی بہار" ہے اور پروفائل کے مطابق اس اکاؤنٹ کو استعمال کرنے والا ممبئی میں رہتا بھی ہے اور ممبئی کا رہنے والا بھی ہے، اور اس اکاؤنٹ سے کھال کے دفن کرنے کے عدم جواز پر مختلف مکاتب فکر کے اداروں کے فتاوے شئیر کیے گئے ہیں اور بعض فتاوی "رجوع لازم" کے شدت آمیز لاحقے کے ساتھ شیئر کیے گئے ہیں۔
بہر حال اگر چرم قربانی کی مالی حیثیت نص سے صراحتاً ثابت ہے تو اہل علم اس کی طرف رہنمائی فرمادیں اور جواز عدم جواز کی بحث ہی ختم!
میرے محدود مطالعہ میں مسند امام احمد بن حنبل کی ایک روایت ہے جسے امام احمد بن حنبل نے مسند المدنیین کے تحت حضرت قتادہ بن النعمان سے مروی ایک حدیث نقل فرمایا ہے جس میں قربانی کی کھال کے تعلق سے یہ الفاظ ہیں:
وَاسْتَمْتِعُوا بِجُلُودِهَا وَلَا تَبِيعُوهَا
"قربانی کی کھال سے نفع اٹھاؤ اور اسے فروخت نہ کرو"
اس روایت کی روشنی میں دو باتیں صراحتاً سمجھ میں آرہی ہیں:
١- قربانی کی کھال ذاتی استعمال میں لایا جائے لیکن یہ حکم وجوبی نہیں۔ (اس کو صدقہ کرنا بہر صورت لازم نہیں)
٢- اور اگر ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتے تو اس کو فروخت بھی نہ کریں
اور ساتھ ہی ساتھ اشارتاً یہ بھی سمجھ میں آیا کہ:
١- عہد نبوی میں کھالوں کی خرید و فروخت ہو تی تھی
٢- اور اسی کی وجہ سے اس کی مالی حیثیت بھی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قربانی کرنے والا کھال کو ذاتی طور پر استعمال میں لانا بھی نہیں چاہتا اور فروخت بھی نہیں کرسکتا تو کیا کرے؟
فقہاء کرام نے بیان کیا کہ ایسی صورت میں کھال کو غریبوں کو صدقہ کردے۔ غریبوں کو صدقہ کرنے کا مقصد یہی ہے کہ غریب اس کو اپنے ذاتی استعمال میں لاکر اپنی ضرورت پوری کرلے یا اگر ذاتی استعمال میں نہیں لا سکتا تو اسے فروخت کرکے اپنی ضرورت پوری کرلے کیوں کہ قربانی کی کھال فروخت کرنے کی ممانعت اس کو نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھال کی خرید و فروخت بند ہو جائے یا فروخت کا نفع معدوم ہوجائے تو اس کی مالی حیثیت برقرار رہے گی؟
اس کی اضاعت سے اضاعت مال کا تحقق ہوگا؟
اور اس کی اضاعت کرنے والے پر اضاعت مال کا حکم لگے گا؟

#نوٹ: اہل علم اپنی تحقیق پیش فرمائیں اور پوسٹ کو بنا سمجھے اضاعت مال کی حرمت یا عدم جواز کے فتاوے جواب میں شئیر کرنے سے گریز کریں کیوں کہ یہاں بحث کا یہ موضوع ہے ہی نہیں۔
شکریہ
عرفان احمد ازہری
یاد رہے کہ اب تیسرا اقدام یہ کیا جا رہا ہے کہ ان مدارس و جامعات کو سرکاری امتحانات کا پابند کر کے ان کی خود مختار تہذیبی فکر کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پر زور شور سے عمل شروع ہو چکا ہے.

ایسے میں جب تک تمام مدارس کی جملہ تنظیمات سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہو کر کسی فکری  پالیسی کے تحت اس اسلام دشمن ایجنڈے کی مزاحمت نہیں کرتیں تب تک تمام مدارس مکمل طور پر شدید خطرات کی زد میں ہیں.
اب عالمی اور قومی طاقتیں دینی مدارس کی قوت کو توڑنے کے خلاف فیصلہ کن جنگ کرنے کے لیے میدان میں اتر چکی ہیں.
علامہ منظر محسن

لماذا يقتل الناس في القرن الحادي والعشرين الحيوانات في عيد الأضحى باسم الله؟

لماذا يقتل الناس في القرن الحادي والعشرين الحيوانات في عيد الأضحى باسم الله؟

 وفقًا لموقع: (http://www.adaptt.org/killcounter.html)   فهناك 150 مليار حيوان تقتل كل عام على أيدي بشر في القرن الحادي والعشرين .
في هذا القرن الحادي والعشرين ، يتم ذبح مئات الملايين من الحيوانات للحوم في جميع أنحاء العالم يوميًا للأثرياء القادرين على شرائها.
إذا كان المسلمون يذبحون الحيوانات مرة في سنة باسم الله لمشاركتهم مع الفقراء حتى يتمكن الفقراء أيضا من تناول الطعام والاستمتاع ببعض اللحوم ، لأن اللحم بعد الذبح يقسم في ثلاث حصص ومنها حصة للفقراء وحصة للأقرباء والأحباء وحصة للأسرة  فهذا لماذا يزعجك يا انسان؟
إذا كنت تعتقد أن هذا الحيوان يجب ألا يقتل من أجل الغذاء البشري ، فعليك أن تبدأ حملتك ضده في المجتمعات الغربية حيث يوجد أعلى استهلاك اللحوم وأعلى هدر للطعام.
يتم ذبح أكثر من 9 مليارات حيوان للطعام في الولايات المتحدة سنويًا وفقا لموقع :(59Billion Land and Sea Animals Killed for Food in the US in 2009)
في المملكة المتحدة(uk) ، يتم ذبح حوالي 22 مليون حيوان يوميًا من أجل الغذاء ؛ 919000 في ساعة ؛ 15000 في الدقيقة و 255 في كل ثانية تذبح لغذاء البشري ليس للفداء في حضرة الإله . (The slaughter of farmedanimals in the UK)
في عام 2009 ، قُتل 59 مليار من الحيوانات البرية والبحرية في الولايات المتحدة من أجل الغذاء وفقا لموقع : (59 Billion Land andSea Animals Killed for Food in the US in 2009).
إذا كنت مهتمًا برفاهية الحيوانات ، فقبل معارضة ذبح الحيوانات للحصول على الطعام ، يجب عليك القيام بحملات ضد الممارسات القاسية والشريرة التي يشارك فيها الناس في القتال الثيران ، مصارعة الديوك ، قتال الكلاب ، صيد الثعلب ، صيد الدب والصيد الكأس ، الخ.
يجب أن تشعر بالقلق أيضًا حيال الحيوانات التي قتلت من أجل فرائها فقط وليس للطعام 50 مليون في السنة وفقا لموقع :(Fur| Liberation BC).
كل عمليات القتل هذه يدينها الإسلام بشدة.

رأيت حيث كان الهندوس في نيبال يقتلون بوحشية مئات الآلاف من الجاموس بوحشية من أجل حسن الحظ (ليس من أجل الغذاء) .
ذبح خمسة آلاف جاموس في بداية الاحتفال الهندوسي الذي يرى أن 300000 حيوان قد قُتلوا ليجلبوا للمصلين حظًا سعيدًا.
هذا ما يحدث في القرن الحادي والعشرين.  


Monday, August 12, 2019

کیسے کہہ دوں کہ مبارک ہو تمہیں عید کا دن


کیسے کہہ دوں کہ مبارک ہو تمہیں عید کا دن 
خون میں ڈوبا ہوا دستِ حنا لگتا ہے 
میرے کشمیر و فلسطین ہیں غم ناک بہت
 قلب میں درد کا اک تیر چبھا لگتا ہے 




سراپا درد : مشاہد رضوی

Salam E Masnoon !!

Kaese kahe dooN k Mubarak ho tumeN Eid Ka Din,
Khoon Me Dooba hua Dast E Hina Lagta He.

Mere Kashmir Wo Filasteen HaeN Ghamnak Bahot,
Qalb Me Dard Ka Ek Teer Chubha Lagta Hae.

By: Mushahid Razvi

چرم قربانی کے حوالہ سے اتنی بیان بازی کیوں؟


چرم قربانی کے حوالہ سے اتنی بیان بازی کیوں؟



  یہ سب پہ روشن ہے کہ اسلامی دنیا ابھی شدید بحران کا شکار ہے۔ مذہبی منافرت نے اسلام اور مسلمانوں کو اپنے حصار میں لے رکھاہے۔مسلم ممالک کی تاراجی اور مسلمانوں کی تباہی وبربادی کانہ ختم ہونے والا سلسلہ، اب اپنے وطن عزیز میں بھی اپنے خونی پنجے گاڑچکاہے۔ڈاکٹراقبال نے جس عہد میں ناسازگاری حالات کو دیکھ کر قوم مسلم کو’’ *تری بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں میں* ‘‘کا پیغام دیا تھا، آج اس سے کہیں بد تر حالات ہمارے یہاں ہیں ،مگر افسوس ہے کہ کل کی سرد مہری سے لے کر آج کی بے حسی تک ہما رے جینے کا ایک ہی انداز رہا، جس میں ماضی سے لا تعلقی ،حال سے مفاہمت اورفکر مستقبل سے بے نیازی کا عنصرغالب ہے *۔ ذاتی مفاد اور اپنی برتری کے اظہار کے لئے منھ میں زبان، قلم میں روشنائی اور وقت میں وسعت سب کچھ ہے ، مگر نہیں ہے تو قوم ،مذہب ،مسلک ،قانون شریعت ،دستور ہند اورشعائر اسلامی کے تحفظ کے لئے زبان میں گویائی ،قلم میں طاقت اوروقت میں برکت ــ(خدا محفوظ رکھے اس بلا سے )* 

👈  ادھر چند برسوں سے ہندوستانی مسلمان کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہیں اور ان میں آئے دن اضافہ ہی ہورہاہے ۔ان میں ایک مسئلہ مدارس کا وجود بھی ہے جو اسلام دشمن عناصر کے طاغوتی نشانہ پر ہے، پھر بھی اہل مدارس اپنی زندگی کی جد وجہد کررہے ہیں اور کرتے ہی رہیں گے کہ ہندوستان میں مدارس کا وجود اسلام کی بقاکا ضامن ہے اور اسلام کی بقاکے لئے ہماری جہد وجہد کا دائرہ انشا ء اللہ کبھی تنگ نہیں ہوسکتا۔
  *ان مسائل میں ایک مسئلہ چرم قربانی کی قیمت کا حیرت ناک حد گرجانا بھی ہے* ۔مدارس کے ذمہ داران اس صورت حال کے سبب ٹوٹ سے گئے ہیں اور نجی مجلسوں سے لے کر سوشل میڈیا تک اس کا رونا رویا جارہاہے ۔ *بعض حضرات نے اس مسئلہ میں انفرادی طور پر ادارہ شرعیہ سے رابطہ کیاکہ اس مسئلہ میں ادارہ کا فرمان کیاہے کیوں کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ ہر مذہبی وملی معاملہ میں ادارہ شرعیہ کے فیصلہ کا انتظار کرتاہے کسی اور کا نہیں ،* چاہے فرد کے اعتبار سے کوئی شخص کتنا ہی بڑاکیوں نہ ہو۔ اس طرح کے متعدد سوالات کے بعد مناسب سمجھتے ہوئے پٹنہ کے مدارس اہل سنت کے ذمہ دارعلما ومدرسین اور ائمہ حضرات کی نشست ادارہ میں بلائی گئی *،جس میں کھال کی موجودہ قیمت ،قیمت کم ہونے کے متعدد اسباب اور اس بحران سے نجات کی صورت کیاہوسکتی ہے، تمام پہلووں پر کھل کر بحث ہوئی ،تو نتیجہ کے طور پر یہ بات سامنے آئی* :
۱)👈اب کھال کی قیمت ۱۵ روپے سے ۲۰ روپے ہے اور یہ اتنی کم ہے کہ چرم وصولنے میں جتناخرچ ہوتاہے اتنا بھی حاصل نہیں ہوپاتا۔
۲)👈بازار میں کچے اور پکے کھال کی قیمت اب بھی اتنی کم نہیں ہے جتنی ہمیں دی جارہی ہے ،یہ مدارس کے ساتھ دھوکہ ہے۔
۳)👈کھال کا سب سے بڑاتاجرہمیں نقصان پہنچاکر کھال سے کھربوں کماتاہے ،یہ مدارس کو نقصان پہنچانے کا دانستہ عمل ہے جس سے بچنے کی راہ نکالی جائے .
۴)👈کھال کی قیمت کم ہونے کا سبب ایک نہیں انیک ہے جیسے :کھال خریدنے والی کمپنیوں کاہمارے ملک سے معاہدہ نہیں کرنا،مارکیٹ میں مصنوعی چمڑے کاپایاجانا،عالمی سطح پر کھال کی قیمتوں کا گرجانا،وغیرہ ۔
 *ان تمام صورتوں کو سامنے رکھ کر ایک بات پر خاص طور سے غور کیاگیاکہ آخر پانچ سالوں میں ہر چیز کی قیمت بڑھی،کھانے پینے کی اشیا،مختلف موسموں کے کپڑے،الکٹرانک سامان ،چھوٹی سے لے کر بڑی ہر چیزکی قیمت دوگنی اورتین گنی ہوگئی، مگر اسی دنیامیں آخر چمڑے نے کیا بگاڑاتھا کہ اس کی قیمت جتنی تھی اتنی بھی نہیں رہنے دی گئی بلکہ اسے گھٹاکر ساڑھے تین سو سے ۲۰؍روپیہ کردی گئی* ۔ایسابھی نہیں کہ چمڑے کاسامان بننا بند ہوگیا ،یا بکنا موقوف ہوگیا ،یااس کا ڈیمانڈ ختم ہوگیا،بلکہ آج بھی مصنوعی چمڑے کے مقابلہ میں چمڑے کا سامان اپنے قیمتی ہونے کا احساس دلاتا ہے اور اہل ثروت اسے بطور تفاخر خریدتے ہیں۔اس سے کوئی بھی سنجیدہ اور مدبر انسان یہ سمجھ سکتاہے کہ عالمی سطح پراسلام دشمن طاقتوں نے یہ سوچ لیاہے کہ چمڑا جب تک مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے وہ مسلمان ہے اور اس ہاتھ سے نکلنے کے بعد وہ ترک مذہب کرکے ہرمذہب والوں کی ضرورت بن جاتاہے۔اس لئے جب تک وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے اس کااستحصال کیاجائے۔اس فکر کو عالمی سطح پر پھیلایا گیا اور دنیا اس فکر کی تابع ہوگئی ۔جولوگ کھال کی قیمت کاالزام *عالمی منڈی پہ رکھ کر میڈیا میں اپنا چہرہ دکھارہے ہیں وہی بتائیں کہ آخر عالمی منڈی میں اس کی قیمت کم ہونے کا سبب کیا ہے اور اس کے ذمہ دار کون ہیں* ؟اس تناظر میں مدارس کے ذمہ داروں کا یہ سمجھنا کہ کھال کی کمی مدارس کے خلاف ایک سازش ہے جسے سنجیدگی سے لینا چاہئے کون سا جرم تھا ؟جسے تختہ مشق بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔

بہرحال ان حالات کے پیش نظر تمام مندوبین نے اتفاق رائے سے *یہ فیصلہ لیا کہ کھالوں کی گری ہوئی قیمت اگر ایک سازش ہے تو اس سے بچنے کی اپنے اختیار میں یہی ایک صورت ہے کہ ہم کھال کو وہاں تک پہنچنے ہی نہیں دیں جو ہمارے مال سے کماکر ہمیں مارنے کی سوچ رہے ہیں،ان کھالوں کو کسی طرح اپنے استعمال میں لائیں ،اپنی فیکٹری قائم کریں اپنا سامان بنائیں اور اگر سب کچھ اختیار میں نہ ہوتو پھراسے دفن کردیں تاکہ کھربوں میں کمانے والے جب اپنا خسارہ دیکھیں گے تو انہیں دوسروں کے خسارہ کا احساس ہوگا* ۔نشست میں ایسی مثالیں بھی آئیں جس میں تھوڑانقصان سہہ کر بڑے فائدہ حاصل کئے گئے ہیں ۔یہ فیصلہ لینے والے سادہ لوح علماتھے،ان کے دل میں کوئی چھل کپٹ نہیں تھا ،انہیں بس کھوئے ہوئے اثاثہ کا غم اور تلافی مافات کی فکر تھی اور بس ۔اس لئے انہوں نے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ لے لیا ۔
  *جب اخبار میں اس میٹنگ کی خبر چھپی تو علمائے اہل سنت کے اس مدبرانہ وحوصلہ مندانہ اقدام کو سراہاگیا، بلکہ یہاں تک کہا گیاکہ یہ فیصلہ بہت پہلے لیاجانا چاہئے تھا ،مگر بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے مسئلہ کاصرف ظاہری رخ دیکھا اور فرمایاکہ یہ عمل ،مال کو ضائع کرنا ہے جو جائز نہیں ہے ۔یہ مسئلہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اور اتنا بدیہی ہے کہ سب کو معلوم ہے۔ایک صاحب نے ایک قدم آگے بڑھ کرملک کے بڑے بڑے دارلافتاسے فتوے منگوالئے کہ کھال کو ضائع کرنا مال کو ضائع کرناہے۔ اگر وہ محترم ادارہ شرعیہ سے بھی رابطہ کرتے تو انہیں اتنی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی ،انہیں یہاں سے بھی وہی جواب ملتا جو دوسرے مفتیان کرام نے دئے ہیں کہ مال کو ضائع کرنا جائز نہیں* ۔مگر یہاں تومخصوص حالات میں کھال کی گری ہوئی قیمتوں میں اضافہ کی راہ ڈھونڈنا تھا جو بہر حال مدارس کے حق میں تھا اور مدارس کے حوالہ سے پوری قوم کے مفاد میں تھا ۔اب یہ مسئلہ محض مال کے ضائع کرنے کا نہیں بلکہ کھال کی قیمتوں میں کمی کے جواسباب پائے جارہے ہیں ان میں تبدیلی حکم کا کوئی سبب پایا جارہاہے کہ نہیں یہ دیکھنے کاتھا ، *جن حضرات کے یہاں سبب پایا جارہاہے انہوں نے مدارس کے فائدے کے لئے یہ قدم اٹھایا اور جن کے نزدیک سبب متحقق نہیں ان کا جواب یقینا عدم جواز ہی کا ہوگا، اس میں کسی کے لئےحظ نفس کا کوئی سامان  نہیں ہے۔جن لوگوں نے کھال کے ضائع کرنے کوناجائز بتایاہے اپنی جگہ صحیح ہیں اور جن لوگوں نے بدلے ہوئے حالات میں اخلاص نیت کے ساتھ یہ اتفاقی فیصلہ لیاہے یقینا وہ بھی ماجور ہیں* ، ہاں جولوگ اس آڑ میں علمائے اہل سنت کے مخلصانہ عمل کی مخالفت میں جوش جنوں کا شکار ہورہے ہیں، انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اللہ ان کی نیتوں سے بھی باخبرہے اورانہیں آخرت میں حساب وکتاب سے بھی گزرناہے ۔
  اخیر میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ *جن مدارس اور خانقاہوں نے قیمت کم ہونے کے سبب کھال وصولنا چھوڑ دیا تھا یا چھوڑدیاہے کیا وہ بالواسطہ کھال ضائع کرنے کا اشارہ یا کھال ضائع ہونے کا راستہ ہموار نہیں کررہے ہیں* ؟ کل صرف ایک مدرسہ اور خانقاہ نے کھال وصولنا بند کیا تھااب یہ سلسلہ دراز ہوگیا ہے ۔ذراسوچیں اگر ان کی نقل اتارتے ہوئے سبھوں نے کھال وصولنا بند کردیا تو پھر ان کھالوں کا کیا ہوگا ؟یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ ضائع کرنا گناہ ہےاور ضائع کرنے کی راہ ہموار کرنا گناہ نہیں ہے۔قتل کرنا جرم ہے تو قتل کی راہ ہموار کرنا ہی نہیں ،پلاننگ کرنابھی جرم ہے ۔اس لئے کھال وصولنے کا سلسلہ موقوف کرنے والے حضرات کو اپنا بھی محاسبہ کرلینا چاہئے ۔
 *مرید سادہ تو رورو کے ہوگیا تائب* 
 *خداکرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق*
 🖊 *ڈاکٹر محمد امجد رضاامجدؔ* : قاضی شریعت ادارہ شرعیہ بہار پٹنہ  

Sunday, August 11, 2019

اسلامی قربانی اور اغراض و مقاصد

اسلامی قربانی اور اغراض و مقاصد
     
    
دنیا بھر کے مسلمان عید الاضحٰی کے موقعے پر اللہ کی رضا کے لیے اس کے حضور جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں، اور اس کا گوشت خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے دوست احباب اور معاشرے کے غریب طبقے کو بھی کھلاتے ہیں۔
یوں تو قربانی کی رسم زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھی۔ من گھڑت دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے یا نذر و شکر کے پیش نظر قربانی کا عمل ان میں بھی پایا جاتا تھا۔ مگر زمانہ جاہلیت کی قربانی یہ تھی کہ ذبیحہ کو بت کے سامنے رکھ دیا جاتا، یا پہاڑوں پر چھوڑ دیا جاتا۔ اور اس قربانی کا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ قربانی کرنے والے آفات و بلیات سے محفوظ رہ سکیں یعنی ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ہم نے دیوی دیوتاؤں کی خدمت میں قربانی پیش کر دی اب ہم آفات و بلیات سے محفوظ و مامون رہیں گے۔
لیکن اسلامی قربانی کو ذرا غور سے دیکھا جائے تو اس کے مقاصد میں ایسی سطحیت اور توہم پرستی کا شائبہ دور دور تک نظر نہیں آتا بلکہ اسلامی قربانی کے اغراض و مقاصد، حکمتیں اور مصالح و فوائد دیکھ کر اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ مذہب اسلام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور اس کا یہ عمل انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔


آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کی روشنی میں قربانی کے کیا مقاصد ہیں ؟

١-: قرآن کریم، سورۃ الحج میں اللہ فرماتا ہے : 
 ”لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ․ فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ. “
ترجمہ: "تاکہ حج کے لیے آنے وَالے اپنے اپنے فائدوں کو پہنچ جائیں اور تاکہ قربانی کے مقررَہ دِنوں میں خدا کا نام لے کر ذبح کریں ان مخصوص چوپایوں کو جو خدانے ان کو عطا کیے ہیں۔ تو اے اُمت محمدیہ! تم ان قربانیوں میں سے خود بھی کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو بھی کھلاؤ۔" 

اِس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ قربانی کا بنیادی مقصد خالق کائنات کی یاد اور اس کے احکام کی بجاآوری ہے اس جذبے کے ساتھ کہ ہمارے پاس جو بھی ہے سب اللہ کی عطا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ قربانی کے مقاصد و فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ اس کا گوشت خود بھی کھایا جائے اور غریبوں کو بھی کھلایا جائے۔
 غور کریں، اس آیت کے ذریعہ اللہ ہمیں یہ درس دے رہا ہے کہ قربانی کا مقصد انسان کی قلبی کیفیت کا ایسا اِنقلاب ہے کہ وہ مال ومتاع کو اپنا نہ سمجھے بلکہ دل وجان سے اس عقیدے کی مشق کرے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا حقیقی مالک ہے، لہذا حکم ملتے ہی اسے راہ خدا میں بے دریغ خرچ کیا جائے اور اس کے ذریعے غربا کی مدد کی جائے، یعنی قربانی کا عمل فتنۂ مال سے حفاظت کا دَرس دیتا ہے۔

٢-: اسی سورہ میں آگے ہے :
” وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ۔“
ترجمہ: ”اور ہم نے ہر اُمت کے لیے اس غرض سے قربانی کرنا مقرر کیا کہ وہ ان مخصوص چوپایوں کو قربان کرتے وقت اللہ کا نام لیا کریں، جو اللہ نے ان کو عطا کیے“۔

اس آیت میں بھی یہی درس دیا گیا کہ حکمِ قربانی کا بنیادی مقصد اس بات کی یاد دہانی کرانا ہے کہ انسان کے پاس جو بھی ہے وہ در حقیقت رب کائنات کا ہے لہذا حکم ربانی ملتے ہی اسے راہ خدا میں قربانی کر دیا جائے۔

٣-: سورة الأنعام میں اللہ فرماتا ہے :
”قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ"۔
ترجمہ : " اے محبوب! تم کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانیاں اور میرا جینا اور مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔"

اس آیت میں صاف لفظوں میں یہ پیغام دیا گیا کہ مومن کی نماز، قربانی بلکہ اس کا جینا اور مرنا سب اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ گویا اسلام کے تمام احکام کا بنیادی مقصد بندے کے اندر جاں سپارِی اور جاں نثارِی کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔

٤-: سورۃ الحج میں اللہ فرماتا ہے :
"لن ينال الله لحومها و لا دماءها و لكن يناله التقوى منكم۔"
ترجمہ : " اللہ کو ہرگز نہ ان قربانی کے جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمھاری پرہیز گاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔"

اس فرمان سے ظاہر ہو گیا کہ ﷲ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ ہمیں زمانۂ جاہلیت کی قربانی نہیں چاہیے کہ جانور ذبح کر کے اسے پہاڑوں پر رکھ دیا جائے یا بتوں کے سامنے میں رکھ دیا جائے، نہیں ہر گز نہیں، ہمیں تو صرف تقویٰ اور پرہیزگاری مطلوب ہے، ہمیں تو تمھارا اخلاص مقصود ہے، ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ تمھارے ہر عمل صرف اور صرف ہمارے لیے ہو۔ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو قربانی کے جانور کا گوشت اور اس کی کھال سے استفادہ کرنے کی اجازت دی گئی بس یہ شرط عائد کردی گئی کہ قربانی کرنے والے کی نیت خالص ہونی چاہیے کہ وہ ﷲ کی رضا کے لیے اس کا حکم پورا کرے اور اپنی عاجزی و خود سپردگی کا عملی مظاہرہ پیش کرے۔اگر یہ امر موجود ہے تو قربانی مقبول ہے اور یہ عمل روز محشر میں باعث نجات ہے-

٥-: سورۃ الصافات میں اللہ فرماتا ہے :
"فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ۔"
ترجمہ : " تو جب ابراہیم و اسماعیل دونوں نے ہمارے حکم پر سر تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ، اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم! بےشک تم نے خواب سچ کر دکھایا، ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔"

اس واقعے کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو  حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں بڑھاپے میں ایک اولاد عطا کی۔ مختلف امتحانوں سے گزرنے کے بعد جب حضرت اسماعیل علیہ السلام لڑکپن کی عمر کو پہنچے اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دل میں ان کی بے پناہ محبت پیدا ہو گئی تو ﷲ تعالی نے ان کا امتحان لینے کے لئے انہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا حکم خواب میں دیا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یہ خواب اپنے صاحبزادے کو سنایا تو انہوں نے بھی فرمانبرداری اور اطاعت کے جذبے سے کہا کہ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کر گزریں آپ مجھے شاکر و صابر پائیں گے۔
 لیکن ﷲ تعالیٰ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مقصود نہ تھی بلکہ یہ امتحان لینا تھا کہ باپ بیٹے ہمارے حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہیں یا نہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کے مقابل ﷲ کی محبت و اطاعت کو ترجیح دیتے ہیں یا نہیں۔۔۔۔ چنانچہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنا ارادہ انجام دینے کے لئے چھری چلاتے ہیں تو چھری نہیں چلتی اور اتنے ہی میں ایک جنتی مینڈھا من جانب اللہ چھری کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے اور چھری چلتی ہے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام قریب بیٹھے ہوئے ہیں اور  ان کی جگہ ایک مینڈھا ذبح ہو گیا ہے اور ندا آتی ہے کہ آپ نے خواب سچ کر دکھایا ہے اور آپ سچوں میں سے ہیں۔
اللہ رب العزت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اس نے قیامت تک کے مسلمانوں پر قربانی واجب کر دی اور سنت ابراہیمی کو زندہ رکھنا ضروری قرار دے دیا۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے :

"عَنْ أَبِي دَاوُدَ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ , قَالَ : قُلْنَا " يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا هَذِهِ الأَضَاحِي ؟ قَالَ : سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السلام۔" 
ترجمہ : "صحابۂ کرام نے پوچھا، یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔" 

قرآن و حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی قربانی کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے اندر وہی روح اور وہی کیفیت پیدا کرنا ہے جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔ عیدالاضحٰی میں جانوروں کی قربانی اس بات کو یاد دلانے کے لیے کی جاتی ہے کہ یہ سرمایہ اور یہ جانور سب اللہ کے دیے ہوئے ہیں بلکہ ہماری اولاد اور خود ہماری جان در اصل ہماری نہیں، بلکہ ہماری جان، ہمارا مال سب اللہ کا ہے اور ہمارے پاس بطور امانت ہے لہذا ہم وقت آنے پر ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔
اس طرح قربانی کے مقصد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک اجتماعی مقصد اور دوسرا ذاتی مقصد ۔
قربانی کا اجتماعی مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے اہلِ ثروت اور مالدار لوگ اللہ کی راہ میں جانور قربان کریں اور اس کا گوشت غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم کریں جو اپنی غربت اور فقر کی وجہ سے اچھی غذا سے محروم رہتے ہیں۔
اور قربانی کا ذاتی مقصد یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کیا جائے ۔ قربانی کا مطلب ہی قربِ الٰہی کا حصول ہے۔ جب کوئی شخص قربانی کرتا ہے تو اللہ کی بارگاہ میں اس کا تقویٰ اور اخلاص دیکھاجاتا ہے۔ اور اس مقصد کا حصول اسی وقت ممکن ہوگا جب خالص اللہ کی رضا کے لیے قربانی کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات یہ نہیں دیکھتی کہ وہ جانور جو قربانی کے لیے پیش کیے گئے ان کی مالیت اور جسامت کیا ہے بلکہ وہ قربانی کرنے والے دلوں کی کیفیت پر نظر رکھتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ قربانی کرنے والے کی نیت کوئی مادی منفعت یا محض نام و نمود ہو ، اللہ رب العزت کو ایسی قربانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ اس قربانی کو قبول کرتا ہے جس کی اساس تقویٰ پر رکھی گئی ہو۔
محمد ہارون فتح پوری
                                پیرن پور، فتح پور
                                    ( پہلی قسط )

کیا کافر شخص کو قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں؟

کیا کافر شخص کو قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں؟

جواب أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)

تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ أگر کوئی کافر حربی ہو تو أسکو گوشت نہیں دے سکتے رہی بات کافر غیر حربی یا ذمی( اقلیتیں) تو أنکو دے سکتے ہیں جس پہ دلائل آگے آرہے ہیں ، 
لیکن ایک بات یاد رکھیں:
 حربی کا معنی یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ آپ ایک کافر ملک میں رہ رہے ہیں 
أور بعض علاقوں میں کچھ کافر مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں تو آپ سب پر کافر حربی کا فتوی جاری کردیں  بلکہ کافر حربی وہ ہوگا جسکو أس ملک کی طرف سے قانونی إجازت ہو مسلمانوں کو مارنے کی یا أس ملک میں عبادت کی اجازت نہ ہو قانونی طور پہ  تو وہ ملک حربی کہلاتا ہے أور أس میں رہنے والے حربی یا کوئی دار حرب سے جا ملے 
یہی حضور صلی الله علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے جو آپ نے مدینہ منورہ میں یہودیوں کے ساتھ معاملہ فرمایا أسکی روشنی میں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے کسی ایک قبیلہ کے نقصان پہچانے کی وجہ سے باقی قبیلوں کو حربی نہ کہا بلکہ جب جب جس قبلہ کی  طرف سے مجموعی طور پہ جو فعل صادر ہوا تو صرف ان پہ حربی ہونے کا حکم صادر فرمایا یہی حکم عکس ملک پہ بھی لگے گا۔
 أگر قانونی إجازت نہیں  أور مسلمانوں کو عبادت کی بھی إجازت ہے  أور وہ کسی دار حرب سے بھی نہیں ملا تو وہ کافر حربی نہیں کہلائے گا بلکہ وہ مجرم ہوگا أور قانون میں أسکی سزا مقرر ہے تو باقی کفار حربی نہیں کہلائیں گے
أور یہی إمام أبو حنیفہ کی تعریف کے مطابق بھی صحیح ہے جسکو إمام کاسانی نے بدائع میں بڑے أحسن انداز میں بیان کیا ہے.

عصر حاضر میں میری مبلغ علمی میں چنیدہ چنیدہ ممالک ہیں جیسے کشمیر و فلسطین وغیرہ وغیرہ جہاں مسلمان رہتے ہیں أور وہ دار حرب بھی ہیں
 لیکن کثیر ممالک عصر حاضر میں دار حرب نہیں تو لہذا آپ کفار کو قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں درج ذیل دلائل کی روشنی میں بلکہ أنکو گوشت میں کچھ نہ کچھ حصہ دینا ایک مستحسن عمل ہے تالیف قلوب کے تحت:

پہلی دلیل:

اللہ رب العزت فرماتا ہے:

" لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ"[الممتحنة : 8 ]

ترجمہ:

اللہ تمہیں ( کفار میں سے) أن لوگوں کے ساتھ إحسان اور إنصاف کرنے سے منع نہیں فرماتا جنہوں نے تمارے ساتھ قتال نہیں کیا أور نہ تمہیں گھروں سے بے دخل کیا ، بے شک اللہ إنصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے.

لہذا یہ آیت إسلام کے حسن تعامل کی عظیم مثال پیش کرتی ہے أور ترغیب دے رہی ہے کہ جو تمہارے ساتھ اچھا کرے تم بھی أسکے ساتھ اچھا کرو تو لہذا قربانی کا گوشت دینا بھی ( أن تبروھم) کے تحت جائز ہے.

دوسری دلیل:

اللہ رب العزت فرماتا ہے:

"لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ"[الحج:28 ]

ترجمہ: تاکہ أنکے لیے جو فوائد ہیں أسکا مشاہدہ کریں ، أور ( اللہ رب العزت) نے مویشی چوپائے جو أنکو عطاء کیے ہیں أن میں سے ( قربانی) کے مقررہ دنوں اللہ کا نام لے کر ذبح کریں ، پس وہ أن میں سے خود بھی کھائیں أور خستہ حال محتاجوں کو بھی کھلائیں.

اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے ( خستہ حال محتاجوں) کا ذکر مطلقاً فرمایا ہے بغیر مسلم یا غیر مسلم کی قید کے لہذا قربانی کا گوشت جس طرح مسلمان کو دینا جائز ہے إسی طرح غیر مسلم کو بھی دینا جائز ہے.

اعتراض: 

اس آیت میں تو حربی و غیر حربی کی بھی قید نہیں تو پھر آپ نے کیوں کہا کہ کافر حربی کو نہیں دے سکتے؟

جواب:

کافر حربی کی قید سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 8 میں وارد ہوچکی ہے جسکو پہلے نقل کیا جاچکا ہے لہذا اس وجہ سے کافر حربی کو دینا جائز نہیں باقی میں آیت أپنے عموم پہ رہے گی.

تیسری دلیل:

إمام ترمذی حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عمرو کے لیے أنکے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی تو جب آپ گھر تشریف لائے تو آپ نے فرمایا:

أهديتم لجارنا اليهود؟ أهديتم لجارنا اليهود؟

کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو (گوشت) کا ہدیہ دیا ؟ کیا تم نے ہمارے پڑوسی کو (گوشت) کا ہدیہ دیا؟

پھر آپ نے پڑوسی کے حقوق والی حدیث سنائی.

( سنن ترمذی ، باب ماجاء فی حق الجوار ، حدیث نمبر: 1943 ، إمام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے اس طریق سے)

اللہ أکبر! یہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کا حسن تعامل لہذا اسلام نے ہمیشہ حق پڑوسی ، حق دوستی، حق وطنی کے تحت غیر مسلم کے ساتھ حسن معاملہ کا حکم دیا ہے ،اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہوگیا کہ جانور کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز ہے۔

اعتراض:

 یہاں تو مطلقاً بکری کا ذکر ہے قربانی کا تو نہیں آپ قربانی کے گوشت پہ کیسے استدلال کرسکتے ہیں؟

جواب:

جب بکری ذبح کرنے کا مطلقاً ذکر ہے تو ہم قربانی یا غیر قربانی کی قید کیسے لگاسکتے ہیں لہذا اطلاق سے استدلال بالکل واضح ہے کہ قربانی کا ہو یا غیر قربانی کا غیر مسلم کو أسکا گوشت دے سکتے ہیں۔
علامہ ابن حجر العسقلانی نے بھی حدیث کے عموم کی طرف إشارہ کیا ہے 
( فتح الباری ، باب الوصاءۃ بالجار ، ج: 10 ، ص : 442 )
أگر مان بھی لیا جائے کہ یہ بکری غیر قربانی کی تھی تو بھی علت مشترکہ سے جائز ہے وہ یہ کہ اس بکری کا گوشت دینا بھی ہدیہ ہے أور قربانی کا گوشت دینا بھی ہدیہ لہذا  کفار کو ہدیہ  دینا بالاتفاق جائز ہے إسی لیے 
فتاوی ہندیہ میں ہے:

ويهب منها ماشاء للغني والفقير والمسلم والذمي .

ترجمہ:
 وہ أس ( قربانی) میں سے امیر، غریب ، مسلم أور ذمی کافر کو جیسے چاہے ہبہ کرسکتا ہے.

( الفتاوی الھندیہ ، الباب السادس فی بیان ما یستحب فی الأضحیۃ و الانتفاع بھا ، ج: 5 ، ص : 300 )

أور إمام ابن قدامہ فرماتے ہیں:

فجاز إطعامه للذمي كسائر طعامه ، ولأنه صدقة تطوع ، فجاز إطعامها الذمي والأسير كسائر صدقة التطوع.

ترجمہ:
یہ بھی جائز ہے کہ اس [قربانی کے گوشت]سے ذمی کافر کو بھی کھلایا جائے جیسے أسکے باقی کھانے ہیں۔۔۔، کیونکہ یہ نفلی صدقہ ہے، اس لئے یہ ذمی اور قیدی کو کھلانا جائز ہے، جیسے کہ دیگر نفلي صدقات انہیں دئے جا سکتے ہیں.

( المغنی لابن قدامہ ، مسألہ : 7879 ، ج : 9 ص : 450 )

لہذا قرآن و أحادیث اور فقہائے کرام کی تائیدات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دیا جاسکتا ہے بلکہ آج کے دور میں ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ گوشت میں سے کچھ نہ کچھ حصہ غیر مسلم کو دیں أور خاص کر أنکو جنکے گھروں میں غیر مسلم ملازم ہوتے ہیں تاکہ وہ إسلام کے اس عظیم حسن معاملہ و معاشرہ کو محسوس کریں.

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

عید کی نماز کا طریقہ

عید کی نماز کا طریقہ

  *پہلے نیت کریں

☽ نیت کرتا ہوں میں دو رکعت نماز عید کی زائد چھ تکبیروں کے ساتھ منہ میرا کعبہ شریف کی طرف
واسطے اللہ تعالی کے پیچھے اس امام کے.

امام تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھ کرثنا پڑھےگا ہمیں بھی تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھ لینا ہے اس کے بعد تین زائد تكبيریں ہوں گی.

⛤ پہلی تکبیر کہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے

⛤دوسری تکبیر كہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے

⛤تيسری تکبیر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لینا ہے

اسكے بعد امام قرآت کرےگایعنی سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے گااور رکوع سجدہ کرکے پہلی رکعت مکمل ہوگی

🌹دوسری رکعت کے لئے اٹھتے ہی امام قرآت کرے گا یعنی سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھےگا اس کے بعدرکوع میں جانے سے پہلے زائد تینوں تكبيرے ہوں گی

⛤پہلی تکبیر کہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے

⛤دوسری تکبیر كہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے

⛤تيسری تکبیر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دینا ہے

یہاں تک زائد تكبيرے مکمل ہوگئ.
☽ اب اس کے بعد بغیر ہاتھ اٹھاے تکبیر کہہ کر رکوع میں جاینگے.
☽اور بس آگے کی نماز دوسری نمازوں کی طرح پڑھنا ہےپھر سلام پھیرنا ہوگی.
*نماز عید سے پہلے خوب شئیر کریں اللہ عمل کی توفیق عطاءفرمائے*

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...