Saturday, July 27, 2019

گھر کا ماحول

*گھر کا ماحول*

ایک خاتون کہتی ہیں کہ میں ایک بار میں اپنی ایک پرانی دوست کو ملنے اس کے گھر گئی ۔
میری وہ دوست مجھے بہت چاہ سے ملی اور خوشی کا اظہار کیا ۔
ہم دونوں کافی عرصہ بعد ایک دوسرے سے مل کر بہت خوشی محسوس کر رہی تھیں ۔
کچھ دیر ان کے گھر بیٹھنے کے بعد ان کی ایک چھوٹی بیٹی آئی اور کہنے لگی :
*امی امی ! کیا ہم آج جنت میں گھر نہیں بنائیں گے ؟*
میں نے پہلے تو اسے سنا ان سنا کر دیا
مگر وہ بچی بار بار وقفے وقفے سے اپنی امی سے یہ بات پوچھنے لگی حتی کہ اس کی دوسری بہن بھی جو اس سے کچھ بڑی تھی آگئی اور اس نے بھی یہی سوال کیا
تب ان کی ماں نے بچوں کا اصرار اور میرے چہرے پر ظاہر ہونے والی اجنبیت کو اچھی طرح بھانپ لیا تو بولیں :
کیا تم دیکھنا چاہتی ہو کہ یہ بچے کیا کہہ رہے ہیں اور کس طرح یہ جنت میں گھر بناتے ہیں ؟
میں نے کہا بالکل ، کیوں نہیں ۔
میں تو ضرور دیکھنا چاہوں گی ۔
چنانچہ پھر وہ خاتون ایک چٹائی پر بیٹھ گئیں اور اس کے بچے اور بچیاں جو چار پانچ سال سے لے کر دس بارہ سال تک کے تھے سب اس کے ارد گرد بیٹھ گئے ۔
پھر ان کی ماں نے پوچھا :

ہاں بھائی اب ہم جنت میں گھر بنائیں ؟
سب بچوں نے بیک زبان ہو کر کہا : جی ۔
چنانچہ پھر ان کی ماں نے

*اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنے کے بعد سورۃ الاخلاص پڑھنا شروع کیا* اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ ساتھ وہی سورۃ الاخلاص دھرانے لگے اور دس بار انہوں نے یہ سورۃ الاخلاص پڑھ لی
پھر ان کی ماں اپنے بچوں سے بولی :
اب یہ بتاؤ کہ اپنے اپنے اس محل میں کوئی خزانہ بھی رکھنا چاہتے ہو ؟
سب بچوں نے کہا : ہاں
تو پھر ماں نے *لا حول و لا قوۃ الا باللہ* پڑھنا شروع کیا اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ یہی کلمات دھرانے لگے ۔
پھر ماں نے پوچھا : ہاں تو اب تم یہ چاہتے ہو کہ *رسول کریم ﷺ تمہاری بات کا جواب بھی دیں ؟* اور پھر *تم قیامت کے دن رسول کریم ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر سے پیو اور پھر تمہیں کبھی پیاس بھی نہ لگے ؟*
سب بچوں نے پھر جواب ہاں میں دیا
تو اب ماں نے *دورد شریف* پڑھنا شروع کیا اور بچے بھی اپنی ماں کے ساتھ درود شریف پڑھنے لگے ۔
پھر انہوں نے کچھ دیر *سبحان اللہ،الحمد للہ ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ* کا بھی وِرد کیا ۔
آخر میں ان کی ماں نے کہا : ٹھیک ہے بچو ۔
*آج جنت میں گھر بنانے کا کام پورا ۔* اب جاؤ اور اپنا اپنا کام کرو شاباش ۔
مہمان خاتون یہ سب کچھ حیرت انگیز نظروں سے دیکھتی رہی ۔ جب وہ اس عمل سے فارغ ہو گئیں تو میزبان خاتون کہنے لگی :
دیکھیں یہ تو آپ بھی جانتی ہیں کہ سب بچے یہ چاہتے ہیں کہ وہ کچھ دیگر اپنی ماں کے ساتھ بیٹھیں اور اپنی ماں سے کچھ سنیں اور دل بہلائیں ۔
چونکہ ہمارے یہ بچے آج کل کارٹون وغیرہ بھی دیکھتے ہیں اور اس میں یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح کارٹون کے کردار اپنا اپنا گھر بناتے ہیں اور اس میں اپنے لیے خزانے بھی جمع کرتے ہیں تو میں نے چاہا کہ کیوں نہ میں اپنے بچوں کا یہ شوق بھی پورا کروں اور ان کے لیے *اچھی تربیت بھی ہو جائے جو نہ صرف ان کی دنیا کو خوشگوار بنائے بلکہ ان کی آخرت کو بھی سنوار دے ۔*
بس یہی سوچ تھی جس کے نتیجے میں اللہ تعالی نے میرے دل میں یہ ترکیب ڈال دی اور اس کا اثر تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔
وہ مہمان خاتون یہ سب دیکھ کر عزم کر کے اٹھی کہ وہ بھی اپنے گھر میں ایسا ماحول بنائے گی۔۔۔۔۔
*کیوں کہ بچے پال لینا کمال نہیں۔۔۔۔۔۔*
*بچے تو جانور بھی پال لیتے ہیں۔۔۔۔۔*
*تربیت کرنا جانوروں اور انسانوں میں فرق کرتا ہے۔۔۔۔*

جہاں تک ہو سکے اس واقعے کو پھیلائیں تاکہ خیر کے متلاشی اور لوگ بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں۔

لطیفہ

ایک بزرگ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک مسجد کے جاہل ٹرسٹیان ایک عالم دین کا انٹرویو لینے کے لیے جمع ہوئے بہت کچھ پوچھنے اور اسناد دیکھنے کے بعد بولے حضرت آپ کو کتنے لہجے آتے ہیں؟
     عالم صاحب بولے میں پڑھ رہا ہوں آپ لوگ غور سے سنیں!
      پہلے انھوں نے ناک سے پڑھا صدر صاحب نے پوچھا یہ کون سا لہجہ ہے؟ حضرت بولے لہجہ خیشومیہ ہے. صدر نے کہا سبحان اللہ دوبارہ دانت دباکر پڑھا تو سکریٹری نے پوچھا یہ کون سا لہجہ ہے؟ حضرت بولے لہجہ سِنّیہ ہے. تیسری مرتبہ بلند آواز میں پڑھا تو خازن صاحب نے پوچھا یہ کون سا لہجہ ہے ؟حضرت بولے یہ لہجہ جہریہ ہے. چوتھی بار ذرا پست آواز میں پڑھا تو جوائنٹ سیکریٹری نے کہا یہ کون سا لہجہ ہے؟ حضرت بولے یہ لہجہ سریہ ہے. پانچویں مرتبہ خوب ٹھہر ٹھہر کر لمبی قرات کی تو ایک ممبر نے پوچھا یہ کون سا لہجہ ہے؟حضرت بولے لہجہ ترتیلیہ ہے قرآن پاک میں آیا ہے "ورتل القرآن ترتیلا" اور ابھی کوئی اور لہجہ ایجاد کرنا چاہ ہی رہے تھے کہ سب بول پڑے بس کیجیے حضرت اتنے اور ایسے ایسے لہجے میں تو آج تک ہم لوگوں نے تلاوت سنی ہی نہیں تھی آپ تو بہت بڑے قاری ہیں ماشاءاللہ آپ کا انتخاب کیا جاتا ہے.
    م_ش_ا_علیمی بلرامپوری

گھر واپسی


*مٹی کے برتنوں سے اسٹیل اور پلاسٹک کے برتنوں تک اور پھر کینسر کے خوف سے دوبارہ مٹی کے برتنوں تک آجانا،*
*انگوٹھا چھاپی سے پڑھ لکھ کر دستخطوں (Signatures) پر اور پھر آخرکار انگوٹھا چھاپی (Thumb Scanning) پر آجانا،*
*پھٹے ہوئے سادہ کپڑوں سے صاف ستھرے اور استری شدہ کپڑوں پر اور پھر فیشن کے نام پر اپنی پینٹیں پھاڑ لینا،*
*زیادہ مشقت والی زندگی سے گھبرا کر پڑھنا لکھنا اور پھر پی ایچ ڈی کرکے واکنگ ٹریک (Walking Track) پر پسینے بہانا،*
*قدرتی غذاؤں سے پراسیس شدہ کھانوں (Canned Food) پر اور پھر بیماریوں سے بچنے کے لئے دوبارہ قدرتی کھانوں (Organic Foods) پر آجانا،*
*پرانی اور سادہ چیزیں استعمال کرکے ناپائدار برانڈڈ (Branded) آئٹمز پر اور آخر کار جی بھرجانے پر پھر (Antiques) پر اِترانا،*
*بچوں کو جراثیم سے ڈراکر مٹی میں کھیلنے سے روکنا  اور ہوش آنے پر دوبارہ قوتِ مدافعت (Immunity) بڑھانے کے نام پر مٹی سے کھلانا_*
*اسکی اگر تشریح کریں تو یہ بنے گی کہ ٹیکنالوجی نے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ مغرب نے تمہیں جو دیا اس سے بہتر وہ تھا جو تمہارے دین نے اور تمہارے رب نے تمہیں پہلے سے دے رکھا تھا_                                                        *منقول

بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی!

بھیک دینے سے غریبی ختم نہیں ہوتی!
"ہم نے دو نوعمر بچوں کو لیا
ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجا
اور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا،
شام کو بھکاری بچہ آٹھ سو اور مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا.
اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔
*دراصل بحیثیت قوم، ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں.*
ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں
اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئی.
*ہونا تو یہ چاہئے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیں اور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں*
ہمارے استاد فرماتے ہیں کہ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے.
اس کے برعکس
اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تو
وہ اپنی جائز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا.
کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں؟ بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں.
مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں.
*اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں.
یاد رکھئے!
*بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی،بلکہ بڑھتی ہے.*
خیرات دیں،
منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ،
اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی.
*باقی مرضی آپ کی"*

پڑوسی سے حُسن سلوک

پڑوسی سے حُسن سلوک
پڑوسی گھرانوں کے بڑے افراد کا احترام کریں اور ان کے چھوٹے بچوں سے حسنِ سلوک برتیں ۔ ایک شخص نے اللہ عزوجل کے مَحبوب ﷺ  کی خدمتِ باعظمت میں عرض کی :
''یارسول اللہ ﷺ ! مجھے کیونکر معلوم ہو کہ میں نے اچھا کیا یا برُا ؟ ''
ارشاد فرمایا:
''جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیا تو بے شک تم نے اچھا کیا ، اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برُا کیا تو بے شک تم نے برُا کیا ۔''
*(سنن ابن ماجہ ،کتاب الزہد ،باب الثناء الحسن ، الحدیث۴۲۲۳،ج۴،ص۴۷۹)*
ہمارے بزرگان دین کا اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کیسا برتاؤ ہوا کرتا تھا  ۔۔۔ اس کے لئے آئیے ایک زبردست واقعہ پڑھیں ۔۔۔
    حضرت سیدنا مالک بن دیناررحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ایک مکان کرایہ پر لیا، اس مکان کے پڑوس میں ایک یہودی کا مکان تھا اورحضرت سیدنامالک بن دیناررحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کاحجرہ اس یہودی کے مکان کے دروازے کے قریب تھا۔ اس یہودی نے ایک پرنالہ بنارکھا تھا اور ہمیشہ اس پرنالہ کی راہ سے نجاست حضرت سیدنا مالک بن دیناررحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے گھرمیں پھینکا کرتا تھا۔ اس نے مدت تک ایساہی کیا۔ مگر حضرت سیدنا مالک بن دیناررحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے کبھی شکایت نہ فرمائی۔
    آخرایک دن اس یہودی نے خودہی حضرت سیدنا مالک بن دیناررحمۃاللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا: ''حضرت ! آپ کومیرے پرنالے سے کوئی تکلیف تونہیں ہوتی؟ ''
آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:
''ہوتی توہے مگرمیں نے ایک ٹوکری اورجھاڑورکھ چھوڑی ہے۔ جو نجاست گرتی ہے، اس سے صاف کردیتا ہوں۔
اس یہودی نے کہا :
''آپ اتنی تکلیف کیوں کرتے ہیں ؟ اورآپ کوغصہ کیوں نہیں آتا ؟ ''
فرمایا:
''میرے پیارے اللہ عزوجل کاقرآن میں فرمان عالیشان ہے :
" وَالْکٰظِمِیۡنَ الْغَیۡظَ وَالْعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیۡنَ "
*﴿۱۳۴﴾*
ترجمہ کنزالایمان :
" اور غصہ پینے والے اورلوگوں سے درگزرکرنے والے اورنیک لوگ اللہ عزوجل کے محبوب ہیں."
*(پ۴،ال عمران۱۳۴)*
یہ آیات مقدسہ سن کروہ یہودی بہت متأثرہوا، اوریوں عرض گزارہوا،
" یقینا آپ کا دین نہایت ہی عمدہ ہے، آج سے میں سچے دل سے اسلام قبول کرتاہوں ۔''
پھر اس نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔
*(تذکرۃالاولیاء،ذکر مالک بن دینار رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ،ج۱،ص۵۱)*
*منجانب : سوشل میڈیا ، دعوت اسلامی*

مولانا رومی کی ایک دلچسپ حکایت

مولانا رومی کی ایک دلچسپ حکایت
صدیوں پہلے کسی بزرگ کی شیطان سے ملاقات ہوگئی، بزرگ نے شیطان سے پوچھا ’’ تم بظاہر ایک عام سی مخلوق دکھائی دیتے ہو لیکن تم بیٹھے بیٹھے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو کیسے لڑا دیتے ہو ‘‘ شیطان مسکرایا ، اس نے بزرگ کو اپنی انگلی دکھائی اور آہستہ سے بولا ’’لوگوں کو میں نہیں لڑاتا ، میری یہ انگلی لڑاتی ہے ‘‘ بزرگ نے پوچھا ’’ وہ کیسے ‘‘ شیطان نے کہا ’’ آپ میرے ساتھ ذرا بازار تک چلئے ‘‘ بزرگ اس کے ساتھ چل پڑے ، شیطان انہیں ایک حلوائی کی دکان پر لے گیا ، اس نے بزرگ کو ایک سائیڈ پر کھڑا کیا ، حلوائی کی شیر ے والی کڑاہی میں انگلی ڈبوئی اور یہ انگلی سامنے دیوار پرلگا دی ، دیوار پر شیرے کا ایک دھبہ سا بن گیا ، بزرگ نے دیکھا چند لمحوں میں شیرے کے دھبے پر مکھیاں جمع ہوگئیں ، دیوار کے دوسرے کونے پرایک چھپکلی بیٹھی تھی ، چھپکلی نے مکھیاں دیکھیں تو وہ ان کی طرف لپکی ، حلوائی کے سٹول کے نیچے ایک بلی تھی ، بلی نے چھپکلی دیکھی تو وہ سٹول کے نیچے سے نکلی اور اس نے چھپکلی پر جمپ لگا دیا۔ اس دوران بازار سے ایک وزیر کا نوکر کتا لے کر گزر رہا تھا ، کتے نے بلی دیکھی تو اس نے رسی چھڑاکر بلی پر حملہ کردیا ، بلی دکان کے اندر بھاگ گئی لیکن کتا مٹھائی پر چڑھ گیا اور اس نے ساری مٹھائی خراب کر دی ، حلوائی کو غصہ آگیا، اس نے جلیبیاں تلنے والا چھاننا کتے کے سر پر دے مارا ، کتے نے چیخ ماری اور بازار میں گر کر دم توڑ دیا ، وزیر کا نوکر بھاگتا ہوا آیا، اس نے حلوائی کو گریبان سے پکڑا اور اسے بازار سے نکال کر مارنے لگا ، حلوائی کے ملازم شور سن کر باہر آئے اور انہوں نے وزیر کے نوکر کو مارنا شروع کردیا۔ اتنے میں اس لڑائی کی اطلاع وزیر کے دفتر تک پہنچ گئی ، وزیر نے اپنے سپاہی بازار کی طرف دوڑا دئیے ، سپاہی حلوائی کی دکان پر پہنچے اوروہ حلوائی کے نوکروں کو مارنے لگے ، یہ زیادتی دیکھ کر دوسرے دکاندار اپنی دکانوں سے باہر نکلے اور انہوں نے سپاہیوں کو مارنا شروع کردیا ۔ قصہ مختصر یہ لڑائی چند لمحوں میں پورے شہر میں پھیل گئی اور درجنوں افراد دیکھتے دیکھتے زخمی ہوگئے۔ بزرگ شیطان کے ساتھ کھڑے ہو کر حیرت سے سارا تماشا دیکھ رہے تھے ، شیطان نے آخر میں ان کی طرف دیکھا اور مسکرا کر بولا ’’ کیوں صاحب کیسا لگا ‘‘ بزرگ نے پوچھا ’’کیا یہ سارا تمہارا انگلی کا کھیل تھا ‘‘ شیطان نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ نہیں ‘‘ یہ سارا غصے ، منافقت ،حسد ، انتقام کا کھیل تھا ’’ بزرگ نے پوچھا کیا مطلب ؟ شیطان بولا ، اللہ نے انسان میں غصے انتقام ، حسد کا جذبہ رکھا ہے ، جب کسی شخص ، کسی طبقے شہر یا قوم میں یہ جذبے بڑھ جائیں تو اس پوری قوم ، اس پورے شہرکو تباہ کرنے کیلئے میری انگلی کا ایک دھبہ کافی ہوتا ہے ۔ ’’بزرگ خاموشی سے سنتے رہے ، شیطان بولا ’’ دنیا میں یہی جذبے میرے گھر ہیں ‘‘ اور جس شخص کے اندر یہ جذبے موجود ہوں میں اس کے اندر سے کبھی نہیں نکلتا ‘‘ بزرگ سنتے رہے شیطان بولا ، لیکن جو قوم اور انسان اپنے غصے اور اپنے انتقام پر قابو پا لے ، میں اس شخص اور اس قوم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دور ہو جاتا ہوں ۔

حلال گوشت کی پہچان

حلال گوشت کی پہچان.
ایک بار میں بکرےکاگوشت خریدنے گیا تو مسلم قصاب کی دکان بند تھی. تھوڑی دور پر دوسری دکان تھی وہاں گیا تو وہ دکان غیر مسلم کی تھی. میں نے پوچھا گوشت حلال ہے یا جھٹکا؟
اس نے کہا روز مولوی صاحب حلال کر کے جاتے ہیں.
میں نے گوشت لے لیا. گھر ایا تو مجھے شک ہوا. میں نے گوشت چیک کیا. ثابت ہوا کہ وہ حلال نہیں تھا. میں نے سارا گوشت پھینک دیا.
    اگر اپ کے ساتھ ایسا ہو تو اپ کیا کروگے  ؟
اگر گوشت کے حلال ہونے پر شک ہو تو.  گوشت کو پانی میں ڈال کر چھوڑ دو. اگر کچھ دیر بعد گوشت نرم اور پلپلا ہو جائے تو سمجھ لو حلال ہے اور اگر گوشت سخت ہوجائے تو سمجھ لو گوشت جھٹکے کا ہے اور حرام ھے. حرام اس لیے ہے کہ اس جانور کے جسم سے خون باہر نہیں نکلے. اور خون کھانا پینا حرام ہے کیونکہ اس سڑے سوکھے خون میں بیماریوں کا انبار ہوتا ھے.
نیت: -
نویت ان اذبح اربع ارکات حتی یخرج دم مسفوحا حلالا طیبا سنت ابراھیم خلیل اللہ بسم اللہ اللہ اکبر.
نیت کی میں نے ذبح کی. چاروں رگوں کے کاٹنے کی.یہاں تک سانس اور خون جسم سے نکل جائیں اور حلال اور پاک ہوجائے.حضرت ابراھیم کی سنت ھے. اس اللہ کے نام سے شروع جو عظیم ترین ھے.
حکمت :-
حکمت یہ ہے کہ جب گوشت سے تمام خون باہر نکل جاتا ھے تو رگ و ریشے خالی ہوجاتے ہیں اور جب گوشت کو پانی میں ڈالتے ہیں تو ان رگ و ریشوں میں پانی داخل ہوجاتا ھے جس کے سبب گوشت نرم اور پلپلا ہوجاتا ھے لیکن...
جب گوشت اور رگ و ریشے میں خون موجود ہو(جھٹکا) تو پانی میں ڈالتے ہی رگ و ریشے میں موجود خون سکڑجاتے ہیں اور گوشت سخت ہوجاتا ھے.
میڈیکل سائنس بھی جھٹکا کو نقصان دہ تسلیم کرچکی ہے.  اس لیے جب بھی گوشت استعمال کریں تو اسے استعمال سے پہلے پانی میں ڈال کر جانچ لیں.
قسیم اختر.

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...