مالت سفينة تجارية من كثرة الحمل فإقترح ربانها أن يتم رمي بعض البضاعة في البحر
فأجمعوا أن يتم رمي كامل بضاعة أحد التجار لأنها كثيرة ، فإعترض التاجر
فثار عليه باقي التجار ولأنه كان تاجر جديد ومستضعف تأمروا عليه و رموه في البحر هو وبضاعته و أكملوا طريق
أخذت الأمواج بالتاجر وألقت به على شاطئ جزيرة مهجورة ..
سقط على ركبتيه وطلب من الله المعونة
مرت عدة أيام كان التاجر يقتات خلالها من ثمار الشجر
ويشرب من جدول مياه قريب .. وينام في كوخ ٍصغير بناه من أعواد الشجر
هبت ريح قوية وحملت معها بعض أعواد الخشب المشتعلة وفي غفلة منه إشتعل كوخه
صرخ لماذا يارب .. ؟
حتى هذا الكوخ الذي يؤويني احترق
و نام التاجر ليلته وهو جائع من شدة الحزن ..
لكن في الصباح كانت هناك مفاجأة بانتظاره .. إذ وجد سفينة تقترب من الجزيرة وتُنزل منها قارباً صغيراً لإنقاذه …
سألهم كيف عرفوا مكانه فأجابوه :
لقد رأينا دخاناً فعرفنا أن شخصاً ما يطلب النجدة لإنقاذه فجئناك
وأخبروه بأن سفينة التجار لم تصل وغرقت في البحر !
فسجد التاجر يبكي ويقول الحمد لله يارب أمرك كله خير
إذا ساءت ظروفك فلا تقنت من رحمة الله.
ضع اسم من أسماء الله الحسني لتكون فرجاً لنا ولكم إن شاء الله
Islamic Culture is a platform of interpersonal intelligence. Valuable articles, scientific research and valuable words for great researchers, multilingual writers and thinkers. A collection of articles on humanity and socialism, and how Islam leads towards peace and satisfaction.
Wednesday, July 24, 2019
مفاجأة
بیوی کو میکے بھیجیں
بیوی کو میکے بھیجیں
ہمارے اک جگری یار کا بہنوئی تھا، خواجہ کہہ لیتے ہیں۔ خواجہ ساب ہم سے کچھ سال بڑے تھے مگر یار باش آدمی تھے۔ باجی کی شادی کے بعد وہ ہفتے میں دو تین بار باجی کو انکے والدین کے گھر لے کر آتے تو ہم گپ شپ مارتے۔ ہولے ہولے ان سے بہت دوستی ہو گئی۔ نوے کی دہائی میں ابھی اک تو سوشل میڈیا نہیں تھا تو شامیں کیا راتیں بھی دوستوں سے مل کر گزرتی تھیں نا کہ صوفے پہ لیتے فیس بک پہ لائک دبا کر۔ دوسرا ابھی “انڈرسٹینڈنگ “ کہنے کا اتنا رواج نہیں ہوا تھا اور بندہ رن مرید ہی کہلاتا تھا۔ اچھا اک تو ہماری وہ باجی ڈاھڈی تھی اور دوسرا خواجہ بھائی زیادہ پڑھے لکھے، تو جب فرینکنس بڑھ گئی بلکہ دوستی ہو گئی تو ہم چھیڑ چھاڑ بھی کر لیتے تھے۔
اک دن کہنے لگے یار آج دال چاول کھائے ہیں پر مزہ نہیں آیا۔ میں نے انکو چھیڑتے ہوے کہا کہ خواجہ بھائی یہ آپ ہر دوسرے دن باجی کو لے کر میکے آ جاتے ہیں کھانا کھانے، جوائیاں نو سورے اینا نہی انا چاہی دا، آپکو اب دال چاول ای ملا کرنے ہیں۔ خواجہ نے سگریٹ کا لمبا کش کھینچا اور پھر کہنے لگے یار تینو اک گل دساں، ہماری ایک ہی بہن ہے۔ باپ کی اتنی لاڈلی تھی کہ باپ اسکو ساتھ بٹھائے بنا روٹی نہیں کھاتا تھا۔ اسکی شادی ہوئی تو اسکے سسرال والے بہت سخت تھے۔ مہینے دو مہینے بعد اسکو ماں باپ کے گھر آنے کی اجازت دیتے تھے۔ میں نے جیسے اپنے باپ کو تڑپتے اور آنسووں سے روتے دیکھا ہے میں بتا نہیں سکتا۔ وہ آخری دنوں میں بھی ہمارے ترلے کیا کرتا تھا کہ جاو اپنی بہن کو ہی لے آؤ ،کچھ گھنٹوں کو ہی۔ ہم بھائی جاتے تھے، کئی دیر بیٹھ کر کبھی اسکا شوہر اجازت دے دیتا تھا اور کبھی نہیں دیتا تھا اور ہم جب اکیلے واپس آتے تو باپ صافہ منہ پہ رکھ کر ہچکیاں لے کر روتا تھا۔ تو رانا جی، میری بیوی نہیں کہتی، میں روز اس سے کہتا ہوں تم کو تمھاری امی سے ملوا لاؤں؟
دوستو گو زمانہ کافی بدل چکا ہے، شہروں کا کلچر تو کافی بدلا ہے۔ لیکن اگر آپ کسی کی بیٹی لے ہی آئے ہیں تو یاد رکھئیے کسی کے جگر کا ٹکڑا کاٹ کر لائے ہیں۔ آپکی “حاکمیت” یا “شوہریت” کی بنیاد بیوی کو اس کے میکے سے کاٹنے پر منحصر نہیں ہونی چاہیے۔ کوشش کیجئیے آپکی بیوی کو خود نا کہنا پڑے، اسے بار بار پوچھتے رہیے کہ اگر وہ اپنے ماں باپ کو مس کر رہی ہے تو آپ اسے اسکے گھر والوں سے ملا لائیں یا بھیج دیں۔ شادی میں باہمی محبت کا یہ پہلا زینہ ہے۔ اور پھر یاد رکھئیے کہ کل آپ کی بیٹی نے
بھی تو سسرال جانا ہے، اور یہ تڑپ بہت ظالم ہوتی ہے۔
وہ کاغذ کے ٹکڑوں پہ چور اور سپاہی
بہــت یاد آتا ہــــے گـــــــــزرا زمانہ۔
وہ گاؤں کی گلیوں میں پِیپَل پرانا
وہ باغوں میں پیــڑوں پہ ٹائر کے جھولے
وہ بارش کی بوندوں میں چھت پر نہانا
وہ اِملی کے پیـــڑوں پہ پتھر چلانا
جو پتھر کسی کو لگے بھـــاگ جانا
چھپا کر کے سب کی نظر سے ہمیشہ
وہ ماں کے دوپٹــــے سے سکے چرانا
وہ سائیکل کے پہئے کی گاڑی بــنـانا
بڑے فخــر سے دوسروں کو سکھانا
وہ ماں کی محبت وہ والد کی شفقت
وہ ماتھــــے پہ کاجل کا ٹیـــــکا لگانا
وہ کاغـــذ کی چـــــڑیا بنا کـــر اڑانا
وہ پڑھنے کے ڈر سے کتابیں چھپانا
وہ نرکل کی قلموں سے تختی پہ لکھنا
وہ گھر سے ســـــــبق یاد کرکے نہ جانا
وہ گرمی کی چھٹی مزے سے بِتــانا
وہ نانی کا قصّہ کہــــــــانی ســــنانا
وہ گاؤں کے میلے میں گــــڑ کی جلیبی
وہ سرکس میں خوش ہوکے تالی بجانا
وہ انگلی چھــــــــــپا کر پہیلی بجھـــانا
وہ پیچھے سے ”ہو“ کر کے سب کو ڈرانا
وہ کاغذ کے ٹکڑوں پہ چور اور سپاہی
وہ شادی میں اڑتا ہوا شـــــــــــامیانہ
مگر یادِ بچپـــــــن کہیں ســـــو گئی ہے
کہ خوابوں کی جیسے سحر ہو گئی ہے
یہ نفرت کی آندھی عداوت کے شعلے
یہ سیاست دلوں میں زہر بو گئی ہے
زباں بند رکھنے کا آیا زمانہ
لبوں پہ نہ آئے امن کا ترانہ
کہ جب مل کے رہتے تھے سب ہی مسلماں
نہیں آئـــــــــــے گا اب وہ موسـم سہـــانا
محرم میں لاٹھی کھیل اور ورزش کے شرعی احکام
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل میں
ہمارا مسلم تربیت یافتہ بھی نہیں ہوتا کہ اسکی لاٹھی چھین کر اس پر حملہ کرے یا اپنا بچاؤ کرے اگر ہم لوگ نوجوانو بچوں کی تربیت اور دنو میں کرتے ہیں تو ہم پر بےشمار پابندیاں عائد ہوتی ہے لیکن یہی تربیت محرم الحرام میں کرتے ہیں یعنی لاٹھی بھالا تلوار کی تربیت ہوتی ہے تو کوئی پابندی نہیں چونکہ یہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ مسلمان محرم الحرام میں یہ سب کھیل کھیلتے ہیں
فی زمانہ سالوں سال پرکٹس کی ضرورت ہے اسے صرف محرم الحرام تک محدود نہ کیا جائے ہرگلی ہر نکڑ پر اکھاڑہ گھر بنایا جائے
عبدہ المذنب محسن رضا ثقافی
صدرمفتی ادارہ شرعیہ اڈیشا کٹک
Tuesday, July 23, 2019
تاریخ اسلامی کا سبق آموز واقعہ
دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں۔
"یا عمر ؓ یہ ہے وہ شخص!"
سیدنا عمر ؓ ان سے پوچھتے ہیں۔
"کیا کیا ہے اس شخص نے؟"
"یا امیر المؤمنین، اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔"
"کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟"
سیدنا عمرؓ ان سے پوچھتے ہیں۔
سیدنا عمر ؓ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں۔
"کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟"
وہ شخص کہتا ہے :
"ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے ان کا باپ۔"
"کس طرح قتل کیا ہے؟"
سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔
"یا عمرؓ، ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔"
"پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اس کی سزا۔"
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں۔ نہ ہی اس شخص سے اس کے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے؟ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں؟ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر ؓ کو مطلب ہی کیا ہے؟؟؟ کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر ؓپر کوئی بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔
وہ شخص کہتا ہے۔
"اے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں۔ مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تا کہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اس کے بعد واپس آ جاؤں گا۔"
سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں:
"کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟"
مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک بھی جانتا ہو۔ اس کے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔
کون ضمانت دے اس کی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے، جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔
اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کی لئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔
محفل میں موجود صحابہ ؓ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود حضرت عمر ؓ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کے لئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!
خود سیدنا عمرؓ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں،
"معاف کر دو اس شخص کو۔"
"نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے، اس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا"، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔
حضرت عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں۔
"اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس شخص کی ضمانت دے؟"
حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں۔
"میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!"
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
"ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔"
"چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو"، ابوذر ؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔
عمرؓ: "جانتے ہو اسے؟"
ابوذرؓ: "نہیں جانتا اسے"
عمرؓ: "تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟"
ابوذرؓ: "میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔"
عمرؓ: "ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔"
"امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔"
سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کے لئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔
اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر ؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا،
عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔
حضرت ابوذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر حضرت عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔
"کدھر ہے وہ آدمی؟"
سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔
"مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین"،
ابوذر ؓ مختصر جواب دیتے ہیں۔
ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں آج معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟
یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں، کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کر دیں۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے۔ بےساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔
حضرت عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
"اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا"
"امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ہے، بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے"۔
سیدنا عمرؓ نے ابوذرؓ کی طرف رخ کر کے پوچھا۔
"ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟"
ابوذرؓ نے کہا،
"اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔"
سیدنا عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دونوں نوجوانوں سے پوچھا۔
"کہ کیا کہتے ہو اب؟"
نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا،
"اے امیر المؤمنین، ہم اس شخص کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے"۔
سیدنا عمرؓ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔
"اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔"
"اے ابوذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے"۔
اور
"اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے"۔
اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔
محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں،
"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرؓ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں"۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے کو، جس نے ترجمہ کر کے اس پیغام کو اپنے احباب تک پہنچایا۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دینا ان کو بھی، جن کو یہ پیغام اچھا لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں۔
آمین یا رب العالمین۔
شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دلربا کے ہاتھ
یا جاں سے گزر جائیں
شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دلربا کے ہاتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’معیشت‘ ممبئی کے صحافی دانش ریاض نے گزشتہ 15جولائی کو لکھا کہ...... ’’ممبئی کی لوکل ٹرین میں پہلی بار شدت سے احساس ہوا کہ حالات بہت خراب ہیں ۔ اگر آپ لڑائی کے موڈ میں نہ ہوں تو بھی آپ کو اکسایا جائے گا ۔.... ‘‘
نوفارغ شدہ علماء ہوشیار
اس کے بعد عبد اللہ بن بیہ کی موجودگی میں پوپ نے مراکش کا دورہ کیا اور اس کے سامنے اذان اور چرچ کا گانا دونوں ایک ساتھ پڑھے گئے۔ یوٹیوب پر اس کی ویڈیو موجود ہے۔ حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے اپنے ٹویٹر ہینڈل کے ذریعے اس فکر کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
Featured Post
*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...
-
نظامت کے واسطے بہترین اشعار ایک موقع پر ڈاکٹر راحت اندوری نے کہا تھا کہ اگر خلاف ہے تو ہونے دو کوئی جان تھوڑئ ہے ...
-
جو ممالک اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں، ان میں سب سے پہلا نمبر نیوزی لینڈ کا، دوسرا لکسیم برگ، تیسرا آئر لینڈ، چوتھا آئیس لینڈ...
-
صبح کی سیر دل کے دورے اور فالج کے خطرے کو کم کر دیتی ہے . یہ خون کی گردش کو بہتر بناتا ہے . واک اچھا کولیسٹرول ہے اور ایل ڈی ایل کی سطح ( ...