Wednesday, July 24, 2019

مفاجأة

مالت سفينة تجارية من كثرة الحمل فإقترح ربانها أن يتم رمي بعض البضاعة في البحر
فأجمعوا أن يتم رمي كامل بضاعة أحد التجار لأنها كثيرة ، فإعترض التاجر
فثار عليه باقي التجار ولأنه كان تاجر جديد ومستضعف تأمروا عليه و رموه في البحر هو وبضاعته و أكملوا طريق
أخذت الأمواج بالتاجر وألقت به على شاطئ جزيرة مهجورة ..
سقط على ركبتيه وطلب من الله المعونة
مرت عدة أيام كان التاجر يقتات خلالها من ثمار الشجر
ويشرب من جدول مياه قريب .. وينام في كوخ ٍصغير بناه من أعواد الشجر
هبت ريح قوية وحملت معها بعض أعواد الخشب المشتعلة وفي غفلة منه إشتعل كوخه
صرخ لماذا يارب .. ؟
حتى هذا الكوخ الذي يؤويني احترق
و نام التاجر ليلته وهو جائع من شدة الحزن ..
لكن في الصباح كانت هناك مفاجأة بانتظاره .. إذ وجد سفينة تقترب من الجزيرة وتُنزل منها قارباً صغيراً لإنقاذه …
سألهم كيف عرفوا مكانه فأجابوه :
لقد رأينا دخاناً فعرفنا أن شخصاً ما يطلب النجدة لإنقاذه فجئناك
وأخبروه بأن سفينة التجار لم تصل وغرقت في البحر !
فسجد التاجر يبكي ويقول الحمد لله يارب أمرك كله خير
إذا ساءت ظروفك فلا تقنت من رحمة الله.
ضع اسم من أسماء الله الحسني لتكون فرجاً لنا ولكم إن شاء الله

بیوی کو میکے بھیجیں

بیوی کو میکے بھیجیں
ہمارے اک جگری یار کا بہنوئی تھا، خواجہ کہہ لیتے ہیں۔ خواجہ ساب ہم سے کچھ سال بڑے تھے مگر یار باش آدمی تھے۔ باجی کی شادی کے بعد وہ ہفتے میں دو تین بار باجی کو انکے والدین کے گھر لے کر آتے تو ہم گپ شپ مارتے۔ ہولے ہولے ان سے بہت دوستی ہو گئی۔ نوے کی دہائی میں ابھی اک تو سوشل میڈیا نہیں تھا تو شامیں کیا راتیں بھی دوستوں سے مل کر گزرتی تھیں نا کہ صوفے پہ لیتے فیس بک پہ لائک دبا کر۔ دوسرا ابھی “انڈرسٹینڈنگ “ کہنے کا اتنا رواج نہیں ہوا تھا اور بندہ رن مرید ہی کہلاتا تھا۔ اچھا اک تو ہماری وہ باجی ڈاھڈی تھی اور دوسرا خواجہ بھائی زیادہ پڑھے لکھے، تو جب فرینکنس بڑھ گئی بلکہ دوستی ہو گئی تو ہم چھیڑ چھاڑ بھی کر لیتے تھے۔

اک دن کہنے لگے یار آج دال چاول کھائے ہیں پر مزہ نہیں آیا۔ میں نے انکو چھیڑتے ہوے کہا کہ خواجہ بھائی یہ آپ ہر دوسرے دن باجی کو لے کر میکے آ جاتے ہیں کھانا کھانے، جوائیاں نو سورے اینا نہی انا چاہی دا، آپکو اب دال چاول ای ملا کرنے ہیں۔ خواجہ نے سگریٹ کا لمبا کش کھینچا اور پھر کہنے لگے یار تینو اک گل دساں، ہماری ایک ہی بہن ہے۔ باپ کی اتنی لاڈلی تھی کہ باپ اسکو ساتھ بٹھائے بنا روٹی نہیں کھاتا تھا۔ اسکی شادی ہوئی تو اسکے سسرال والے بہت سخت تھے۔ مہینے دو مہینے بعد اسکو ماں باپ کے گھر آنے کی اجازت دیتے تھے۔ میں نے جیسے اپنے باپ کو تڑپتے اور آنسووں سے روتے دیکھا ہے میں بتا نہیں سکتا۔ وہ آخری دنوں میں بھی ہمارے ترلے  کیا کرتا تھا کہ جاو اپنی بہن کو ہی لے آؤ ،کچھ گھنٹوں کو ہی۔ ہم بھائی جاتے تھے، کئی دیر بیٹھ کر کبھی اسکا شوہر اجازت دے دیتا تھا اور کبھی نہیں دیتا تھا اور ہم جب اکیلے واپس آتے تو باپ صافہ منہ پہ رکھ کر ہچکیاں لے کر روتا تھا۔ تو رانا جی، میری بیوی نہیں کہتی، میں روز اس سے کہتا ہوں تم کو تمھاری امی سے ملوا لاؤں؟

دوستو گو زمانہ کافی بدل چکا ہے، شہروں کا کلچر تو کافی بدلا ہے۔ لیکن اگر آپ کسی کی بیٹی لے ہی آئے ہیں تو یاد رکھئیے کسی کے جگر کا ٹکڑا کاٹ کر لائے ہیں۔ آپکی “حاکمیت” یا “شوہریت” کی بنیاد بیوی کو اس کے میکے سے کاٹنے پر منحصر نہیں ہونی چاہیے۔ کوشش کیجئیے آپکی بیوی کو خود نا کہنا پڑے، اسے بار بار پوچھتے رہیے کہ اگر وہ اپنے ماں باپ کو مس کر رہی ہے تو آپ اسے اسکے گھر والوں سے ملا لائیں یا بھیج دیں۔ شادی میں باہمی محبت کا یہ پہلا زینہ ہے۔ اور پھر یاد رکھئیے کہ کل آپ کی بیٹی نے
بھی تو سسرال جانا ہے، اور یہ تڑپ بہت ظالم ہوتی ہے۔

وہ کاغذ کے ٹکڑوں پہ چور اور سپاہی

بہــت یاد آتا ہــــے گـــــــــزرا زمانہ۔
وہ گاؤں کی گلیوں میں پِیپَل پرانا

وہ باغوں میں پیــڑوں پہ ٹائر کے جھولے
وہ بارش کی بوندوں میں چھت پر نہانا

وہ اِملی کے پیـــڑوں پہ پتھر چلانا
جو پتھر کسی کو لگے بھـــاگ جانا

چھپا کر کے سب کی نظر سے ہمیشہ
وہ ماں کے دوپٹــــے سے سکے چرانا

وہ سائیکل کے پہئے کی گاڑی بــنـانا
بڑے فخــر سے دوسروں کو سکھانا

وہ ماں کی محبت وہ والد کی شفقت
وہ ماتھــــے پہ کاجل کا ٹیـــــکا لگانا

وہ کاغـــذ کی چـــــڑیا بنا کـــر اڑانا
وہ پڑھنے کے ڈر سے کتابیں چھپانا

وہ نرکل کی قلموں سے تختی پہ لکھنا
وہ گھر سے ســـــــبق یاد کرکے نہ جانا

وہ گرمی کی چھٹی مزے سے بِتــانا
وہ نانی کا قصّہ کہــــــــانی ســــنانا

وہ گاؤں کے میلے میں گــــڑ کی جلیبی
وہ سرکس میں خوش ہوکے تالی بجانا

وہ انگلی چھــــــــــپا کر پہیلی بجھـــانا
وہ پیچھے سے ”ہو“ کر کے سب کو ڈرانا

وہ کاغذ کے ٹکڑوں پہ چور اور سپاہی
وہ شادی میں اڑتا ہوا شـــــــــــامیانہ

مگر یادِ بچپـــــــن کہیں ســـــو گئی ہے
کہ خوابوں کی جیسے سحر ہو گئی ہے

یہ نفرت کی آندھی عداوت کے شعلے
یہ سیاست دلوں میں زہر بو گئی ہے

زباں بند رکھنے کا آیا زمانہ
لبوں پہ نہ آئے امن کا ترانہ

کہ جب مل کے رہتے تھے سب ہی مسلماں
نہیں آئـــــــــــے گا اب وہ موسـم سہـــانا

محرم میں لاٹھی کھیل اور ورزش کے شرعی احکام

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل میں

اسوقت ہر طرف مسلمانو پر ظلم و ستم ہو رہے ہیں کہیں گائے کے نام پر کہیں چور کہ کر اور اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ چند اوباش قسم کے لوگ جن کے ہاتھ ڈنڈا لاٹھی ہوتی ہے اور ڈنڈے سے مار مار مسلم کو شہید کر دیتا ہے اسوقت مسلم کے پاس سوائے رحم کی بھیک مانگنے کے کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے
ہمارا مسلم تربیت یافتہ بھی نہیں ہوتا کہ اسکی لاٹھی چھین کر اس پر حملہ کرے یا اپنا بچاؤ کرے اگر ہم لوگ نوجوانو بچوں کی تربیت اور دنو میں کرتے ہیں تو ہم پر بےشمار پابندیاں عائد ہوتی ہے لیکن یہی تربیت محرم الحرام میں کرتے ہیں یعنی لاٹھی بھالا تلوار کی تربیت ہوتی ہے تو کوئی پابندی نہیں چونکہ یہاں کے لوگ جانتے ہیں کہ مسلمان محرم الحرام میں یہ سب کھیل کھیلتے ہیں
سوال ہے کہ ان صورتوں میں جبکہ یہ لاٹھی کا کھیل صرف اور صرف نوجوانو بچوں کو تربیت یافتہ بنانا ہو محرم الحرام میں کھیلنا از روئے شرع کیسا ہے؟
برائے کرم جواب سے نوازیں
والسلام
محمد ممتاز رضا
خادم تنظيم اہلسنت جھارکھنڈ
الجواب بعون الملک الوہاب محرم الحرام میں ڈھول باجے کے بغیر لاٹھی کھیل سکتے ہیں کیونکہ اسلام میں پاک اور بامقصد ورزش اور کھیل کود کو جائز قرار دیا گیا ہے، بلکہ ایسی ورزش اور کھیلوں کی ترغیب دی گئی ہے، نیز جسمانی اور غیرجسمانی  قوت کے حصول کی دعوت بھی دی گئی ہے، ارشاد باری تعالی ہے: تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو (سورہ انفال: 60) واعدوالھم مااستطعتم من قوة ومن رباط الخيل ترھبون بہ” عدواللہ وعدوکم
اللہ تعالی نے اپنے نیک بندے طالوت کو بنی اسرائیل میں بادشاہ بناکر مبعو ث فرمایا  تو انھیں علم کے ساتھ جسمانی قوت بھی عطا فرمائی، ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ نے اسی کو تم پر برگزیده کیا ہے اور اسے علمی اور جسمانی برتری بھی عطا فرمائی ہے ۔(سور ہ بقرہ: 247)
نبی کریم ﷺ نے توانا وتندرست مومن کی تعریف فرمائی ہے: آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: کمزور مومن کےمقابلے طاقتور وتوانا مومن بہترین ہے اور اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے۔ (مسلم) حدیث میں ''قوت'' سے جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ ہمت، حوصلہ، شخصیت اور ارادہ  بھی مراد ہے۔ ۔تاکہ اس کے ذریعے بندہ عبادات اور جہاد کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔چوںکہ محرم الحرام میں اکھاڑہ کے نام پر اوزار کے پرمیشن کا مدار ہے اس لے محرم الحرام میں اکھاڑہ قاءیم کرنا اس  میں لاٹھی نیزہ و تیر اندازی تلوار چلانا وغیرہ جسمانی ورزش سے متعلق ہر امور شرعی رعایت کے ساتھ کر سکتے ہیں کیونکہ اس کھیل میں ورزش کا بھرپور سامان ہے۔ اگر ستر کی رعایت اور انہماک کے بغیر کھیلا جائے، تو جائز ہوگا؛ بلکہ نیک مقصد کے لیے مستحسن قرار دیاجائے گا
فی زمانہ سالوں سال پرکٹس کی ضرورت ہے اسے صرف محرم الحرام تک محدود نہ کیا جائے ہرگلی ہر نکڑ پر اکھاڑہ گھر بنایا جائے
عبدہ المذنب محسن رضا ثقافی

صدرمفتی ادارہ شرعیہ اڈیشا کٹک

Tuesday, July 23, 2019

تاریخ اسلامی کا سبق آموز واقعہ

دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص  کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں۔
"یا عمر ؓ یہ ہے وہ شخص!"

سیدنا عمر ؓ  ان سے پوچھتے ہیں۔
"کیا کیا ہے اس شخص نے؟"

"یا امیر المؤمنین، اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل  کیا ہے۔"

"کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟"
سیدنا عمرؓ ان سے پوچھتے ہیں۔

سیدنا عمر ؓ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں۔
"کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟"

وہ شخص کہتا ہے :
"ہاں امیر المؤمنین،  مجھ سے قتل ہو گیا ہے ان کا باپ۔"

"کس طرح قتل کیا ہے؟"
سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔

"یا عمرؓ، ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے  ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔"

"پھر تو قصاص دینا  پڑے گا، موت ہے اس کی سزا۔"
سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں۔ نہ ہی اس شخص سے اس کے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر  شریف خاندان  سے ہے؟ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں؟ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر ؓ کو مطلب ہی کیا ہے؟؟؟ کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر ؓپر کوئی بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے  پر عمرؓ کو  روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ  قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے۔
"اے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں۔ مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تا کہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اس کے بعد واپس آ جاؤں گا۔"

سیدنا عمر ؓ کہتے ہیں:
"کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء  میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟"

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو  ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک بھی جانتا ہو۔ اس کے قبیلے، خیمے یا  گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔

کون ضمانت دے اس کی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا  زمین کے ٹکڑے  یا کسی اونٹ کے سودے  کی ضمانت کا معاملہ ہے؟  ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے، جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔

اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض  کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کی لئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ ؓ  پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود حضرت عمر ؓ  بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت  نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کے لئے چھوڑ دیئے جائیں؟  یا پھر اس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا  جائے؟  واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!

خود سیدنا عمرؓ  سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں،
"معاف کر دو اس شخص کو۔"

"نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے، اس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا"، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔

حضرت عمرؓ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں۔
"اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس شخص کی ضمانت دے؟"

حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں۔
"میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!"

سیدنا عمرؓ کہتے ہیں۔
"ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔"

"چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو"، ابوذر ؓ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔

عمرؓ: "جانتے ہو اسے؟"

ابوذرؓ: "نہیں جانتا اسے"

عمرؓ: "تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟"

ابوذرؓ: "میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا، انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔"

عمرؓ: "ابوذرؓ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔"

"امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔"
سیدنا عمرؓ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کے لئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے،  اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر  واپس آنے کیلئے۔
اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر ؓ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا،
عصر کے وقت  شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔

حضرت ابوذرؓ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر حضرت عمرؓ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

"کدھر ہے وہ آدمی؟"
سیدنا عمرؓ سوال کرتے ہیں۔

"مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین"،
ابوذر ؓ مختصر جواب دیتے ہیں۔

ابوذرؓ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں آج معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔

محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا  ہونے جا رہا ہے؟

یہ سچ ہے کہ ابوذرؓ سیدنا عمرؓ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ سے ان کے جسم کا ٹکڑا  مانگیں تو عمرؓ دیر نہ کریں، کاٹ کر ابوذرؓ کے حوالے کر دیں۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں  اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے۔ بےساختہ حضرت عمرؓ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔

حضرت عمرؓ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
"اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا"

"امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ہے، بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو  پرندوں کے چوزوں کی طرح  صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے"۔

سیدنا عمرؓ نے ابوذرؓ کی طرف رخ کر کے پوچھا۔
"ابوذرؓ، تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟"

ابوذرؓ نے کہا،
"اے عمرؓ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔"

سیدنا عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دونوں نوجوانوں سے پوچھا۔
"کہ کیا کہتے ہو اب؟"

نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا،
"اے امیر المؤمنین، ہم اس شخص کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے"۔

سیدنا عمرؓ  اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔

"اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔"

"اے ابوذرؓ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے"۔

اور

"اے شخص،  اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے"۔

اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔

محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں،
"قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمرؓ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں"۔

اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے کو، جس نے ترجمہ کر کے اس پیغام کو اپنے احباب تک پہنچایا۔

اور اے اللہ، جزائے خیر دینا ان کو بھی، جن کو یہ پیغام اچھا لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں۔

آمین یا رب العالمین۔

شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دلربا کے ہاتھ

خوف سے در گزریں
یا جاں سے گزر جائیں
شاید کہ رفتہ رفتہ لگے دلربا کے ہاتھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’معیشت‘ ممبئی کے صحافی دانش ریاض نے گزشتہ 15جولائی کو لکھا کہ...... ’’ممبئی کی لوکل ٹرین میں پہلی بار شدت سے احساس ہوا کہ حالات بہت خراب ہیں ۔ اگر آپ لڑائی کے موڈ میں نہ ہوں تو بھی آپ کو اکسایا جائے گا ۔.... ‘‘
میں نے اس پر  لکھا کہ آپ کا احساس درست ہے ۔ یہ ممبئی تک ہی محدود نہیں یہاں دہلی میں بھی یہی حال ہے ۔ ٹرین چھوڑئے اپنی کار کے اندر بھی خوف محسوس ہوتا ہے ۔
گزشتہ شب (18جولائی کو) میرے ایک دوست صحافی کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا:۔۔۔۔۔ وہ ایک چوراہے پر ریڈ لائٹ کے سبب رُکے ہوئے تھے ۔ موسم میں کچھ ہلکی سی تبدیلی کے باعث انہوں نے اپنی کار کی کھڑکیوں کے شیشے کھول رکھے تھے ۔ ان کے دائیں طرف ایک آٹو رکشہ آکر رُکا ۔ آٹو والے نے پہلے تو دیکھ کر بُرا سامنہ بنایا اور پھر سگریٹ سلگا کر ایک بڑا سا کش لیا اور پوری طاقت کے ساتھ دھنواں عمداً کار کی اس ونڈو کی طرف چھوڑا جس کا شیشہ کھلا تھا اور جہاں ڈرائیور سیٹ ہوتی ہے ۔
میرے دوست بتاتے ہیں کہ انہوں نے گھٹن اور ناگواری محسوس کی اور اس سے صرف اتنا کہا کہ بھائی یہ کیا کر رہے ہو ۔ اتنا کہنا تھا کہ آٹو ڈرائیورطیش میں آگیا ۔ اس کا جملہ ملاحظہ کیجئے: چڑھالے شیشے ۔ یہ جملہ اس نے انتہائی تلخ' بھدے اور مکروہ لہجے میں ادا کیا ۔ صحافی دوست نے بتایا کہ غصہ تو بہت آیا اور جی میں آیا کہ 100نمبر پر کال کروں لیکن پھر کچھ سوچ کر خاموش ہوگیا ۔
گزشتہ 17جون کو میرے ایک دوسرے صحافی دوست کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا ۔ وہ پابندِ صوم وصلوۃ اور دیانتدار انسان ہیں ۔۔۔۔ وہ پاکستان سے نقل مکانی کرکے آنے والے متعصب قسم کے ہندؤوں کی ایک Posh کالونی میں رہتے ہیں ۔ وزیر اعظم کا سرکاری مکان اس کالو نی سے محض دو کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ فی الواقع یہ کالونی وقف کی زمین پر آباد ہے ۔
تو ہوا یوں کہ 17جون کو شب کے 11بجے یہ سینئرصحافی اپنی کار چلاتے ہوئے گھر واپس آرہے تھے ۔ وہ عموماً بہت احتیاط سے گاڑی چلاتے ہیں ۔ اچانک دائیں طرف سے ان کے سامنے ایک اسکوٹر سوار آگیا ۔ صحافی نے گاڑی کی رفتار پہلے ہی ہلکی کر رکھی تھی ۔ لہذا معمولی سے بریک لگاکرکار کو محفوظ فاصلہ پر روک دیا ۔ لیکن اسکوٹر سوار نے انہیں یہ کہہ کر گالیاں دینی شروع کردیں کہ شراب پی کر گاڑی چلاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔اس پر صحافی کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا ۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے اور کیا کرے ۔
دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہجوم ہوگیا ۔ ہر شخص بلا تحقیق یہی شور مچانے لگا کہ شراب پی کر گاڑی چلا رہا ہے ۔ اتنی دیر میں ایک شخص'  جسم میں موجود الکحل کی مقدار کا پتہ لگانے والا آلہ بھی لے آیا ۔ صحافی کے منہ میں یہ آلہ لگایا گیا  اور ڈکلیر کردیا گیا کہ ہاں شراب پی رکھی ہے ۔ صحافی نے بتایا کہ مجھے سو فیصد یقین ہوگیا کہ یہ لوگ مجھے  Moblynching کے ذریعہ جان سے مارڈالیں گے ۔ اتنے میں اچانک ایک گاڑی آکر رکی اور اس میں پیچھے کی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک شخص نے ایک انگلی منہ تک لے جاکر اشارہ سے لوگوں کو منع کیا اور چلا گیا ۔ اچانک لوگوں کا رویہ بدل گیا اور کہنے لگے کہ چلو جب معافی مانگ لی ہے تو چھوڑ دو‘ کوئی نقصان تو ہوا نہیں ۔
آپ نے دیکھاکہ تین واقعات صحافیوں کے ساتھ ہوئے ہیں ۔ معیشت کے صحافی دانش ریاض کے ساتھ بھی یقیناً کچھ اسی سے ملتا جلتا ہوا ہوگا ۔ گو کہ انہوں نے تفصیل نہیں لکھی ہے ۔ لیکن ان کی دوسطری تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ زیادہ ہی اشتعال انگیز صورتحال نمودار ہوگئی تھی ۔۔۔۔ موخرالذکر صحافی اس قدر سہمے ہوئے ہیں کہ انہوں نے اس واقعہ کا ذکر اپنے بچوں تک سے نہیں کیا ہے' پولس میں تو کیا رپورٹ کریں گے۔۔۔۔
جو لوگ پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرتے ہیں ان کے لئے تو بہ حفاظت مسافت طے کرنا ہر روز مرکر جینے جیسا ہے ۔ میں بھی دہلی میں اپنی گاڑی خود چلاتا ہوں ۔ لیکن میں ہمیشہ' ہر موسم میں کھڑکی کے شیشے بند رکھتا ہوں ۔ ریڈ لائٹ پر رکنے کے دوران تو شیشے بالکل گرے ہوئے نہیں ہونے چاہئیں ۔
میں دہلی میں 32سال سے مقیم ہوں ۔ میں نے پیدل چلنے کے علاوہ رکشہ‘ آٹو‘ ٹیکسی‘ بس اور اسی طرح کے دوسرے تمام ذرائع نقل وحمل خوب استعمال کئے ہیں ۔ لیکن کبھی اتنا خوف محسوس نہیں ہوا جتنا اب اپنی محفوظ سواری کے باوجود ہوتا ہے ۔ جب سے ڈرائیور نے رخصت لی ہے اور گاڑی خود چلانی شروع کی ہے اس وقت سے اب تک کوئی 70ہزار کلو میٹر گاڑی چلاچکا ہوں ۔ لیکن میں بھی اتنا ہی خوف محسوس کر رہا ہوں جتنا دانش ریاض کو ممبئی کی لوکل ٹرین میں سفر کرنے کے دوران محسوس ہوا ۔
اس پوسٹ کے آخر میں آپ ایک تصویر دیکھیں گے ۔ یہ آسام کے سیلاب زدہ موری گاؤں کی 50 سالہ رینا بیگم اور اس کی نوعمر بیٹی کی ہے ۔ اس تصویر میں صاف نظر آرہا ہے کہ گھر میں پانی خطرناک حد تک گھس گیا ہے ۔ بیٹھنے تک کی جگہ نہیں ہے ۔ دونوں تقریباً آدھی آدھی ڈوبی کھڑی ہیں ۔ لیکن NRC کے خوف کے سبب یہ دونوں محفوظ مقام پر جانے کے لئے اپنا یہ سیلاب زدہ گھر چھوڑ نے کو تیار نہیں ہیں ۔ آخر یہ کیسا خوف ہے کہ جس کے آگے بھیانک سیلاب کا خوف پھیکا پڑ گیا ہے ۔ انڈین ایکسپریس اخبار نے اس طرح کے دوسرے بہت سے خوف زدہ گھرانوں کی رپورٹ بڑی تفصیل کے ساتھ دی ہے ۔
خوف نے کسی بھی فرد اور کسی بھی ادارہ کو بخشا نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ انصاف گاہیں بھی اس خوف سے محفوظ نہیں رہ گئی ہیں ۔ جھارکھنڈ میں ایک غیر مسلم لڑکی نے اسلام اور قرآن کی شان میں گستاخی آمیز پوسٹ جاری کیا ۔ ایک دینی ادارہ کی شکایت پر اس کے خلاف مقدمہ ہوا ۔گرفتاری ہوئی۔۔۔مقامی عدالت نے اس کی سرزنش کی ۔ اسے ضمانت اس شرط پر دی کہ وہ پانچ دینی اداروں میں قرآن کے نسخے ہدیہ کرے ۔ لیکن شرپسندوں نے وہ شور مچایا کہ عدالت کو اپنی یہ شرط واپس لینی پڑی ۔
۔۔۔۔  اور خوف کی حدود تو اس وقت ٹوٹ گئیں جب سپریم کورٹ نے کرناٹک کے غیر مطمئن ممبران اسمبلی کے قضیہ میں وہ فیصلہ بھی دیدیا جس کی استدعا کی ہی نہیں گئی تھی ۔ کم سے کم وہ پارٹی تو اس کے سامنے فریق تھی ہی نہیں جس کے خلاف فیصلہ دیدیا گیا۔ کرناٹک کے ناٹک سے جو لوگ واقف ہیں انہیں اندازہ ہوگا کہ یہ فیصلہ کتنا متحیرالعقول ہے ۔
کانگریس اور جنتا دل (یو) کے جن 15ممبران اسمبلی نے استعفی دیا ہے عدالت نے حکم دیا ہے کہ انہیں تحریک اعتماد کی بحث میں حصہ لینے کے لئے مجبور نہ کیا جائے ۔ نلسار لا یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفی حیرت زدہ ہیں کہ سپریم کورٹ نے یہ کیسا حکم صادر کیا ہے ۔ اس حکم سے بظاہر سیاسی پارٹیوں میں کھلے طور پرتوڑ پھوڑ مچانے والی بی جے پی کے سوا اور کسی کو فائدہ نہیں ہوگا ۔ ۔۔۔
اس خوف سے ملک کی جمہوری اقدار کا سب سے بڑا گہوارہ بھی محفوظ نہیں رہا۔۔۔۔ کیا آپ نے لوک سبھا کی وہ کارروائی دیکھی ہے جس میں NIA کو مزید اختیارات دینے کے بل پر بحث کے دوران وزیر داخلہ امت شاہ نے مجلس اتحاد المسلمین AIMMIM کے صدر اسدالدین اویسی کو بالواسطہ دھمکی دیدی تھی۔۔۔؟ امت شاہ نے باقاعدہ انگلی اٹھاکر' غصہ وہیجان بلکہ خلجان کے عالم میں ان سے کہا تھا کہ سننے کی عادت ڈالو' اب یہ نہیں چلے گا۔۔۔۔ ڈرانے کے اس انداز کو خود اویسی صاحب نے بھی محسوس کیا اور پلٹ کر کہا کہ ہمیں انگلی اٹھاکر ڈرانے کی کوشش مت کرنا۔۔۔۔ امت شاہ کو اس پر صبر نہیں آیا۔۔۔ انہوں نے پھر کہا کہ جن لوگوں کے دلوں میں پہلے ہی ڈر بیٹھا ہوا ہے انہیں کیا ڈرانا۔۔۔۔۔
میں پہلی بار خود کو اتنا بے بس محسوس کر رہا ہوں ۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کن الفاظ اور کن جملوں پر ان سطور کا اختتام کروں ۔۔۔۔ سوچ رہا ہوں کہ ہم جیسے سادہ دل عوام کی طرح کیا ہمارے قائدین بھی یہ خوف محسوس کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔؟

نوفارغ شدہ علماء ہوشیار

مدرسہ ڈسکورسز نامی پروگرام سے ہوشیار! 
آج ہی ایک اشتہار دیکھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹ آف ریلیجس اینڈ سوشل تھاٹ کے اشتراک سے مدرسہ ڈسکورسز انڈیا کا پروگرام منعقد ہورہا ہے۔ اس طرح کے پروگرام دن رات منعقد ہوتے ہیں، لیکن جو چیز قابل توجہ تھی، وہ مہمان ذی وقار کا نام تھا: پروفیسر ابراہیم موسی. کلیدی خطاب کے طور پر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کا نام بھی درج تھا۔
میں کل ہی یہ سوچ رہا تھا کہ پاکستان میں غامدی فکر کے ترجمان عمار خان ناصر کے زیر انتظام مدرسہ ڈسکورسز نے اپنے وجود کا احساس دلاکر ابھی تک انڈیا کا رخ کیوں نہیں کیا، لیکن افسوس کہ چند گھنٹوں میں ہی یہ انکشاف ہوگیا کہ انڈیا کا نہ صرف یہ کہ رخ ہوچکا ہے، بلکہ پروگرام کے تئیں مذہبی حلقوں میں اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایک بڑی علمی شخصیت کو دعوت بھی دیدی گئی ہے۔
مدرسہ ڈسکورسز آخر کیا ہے؟ اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس پروگرام کے پیچھے کون سا ادارہ ہے۔ امریکہ کی سب سی بڑی کیتھولک یونیورسٹی نوٹر ڈیم جو امریکی صوبے انڈیانا میں واقع ہے دراصل اس پروگرام کی محرک ہے۔ اس یونیورسٹی کے ایک ذیلی ادارے کے پروفیسر ابراہیم موسی جو اصلا جنوبی افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں مدسہ ڈسکورسز کے ذمے دار بنائے گئے ہیں۔ اس پروگرام کے دوسرے ذمے دار ہیں پروفیسر ماہان مرزا۔ ان دونوں شخصیات کے نظریات پر کچھ کہنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز نامی اس پروگرام کا مقصد کیا ہے۔ نوٹر ڈیم یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر اس پروگرام کا تعارف کراتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ: "اس پروگرام کا مقصد علماء کو پلورلزم، جدید سائنس، اور جدید فلسفہ سے آراستہ کرنا ہے".
پلورلزم ایک جدید اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے: "یہ نظریہ رکھنا کہ میرا مذہب ہی سچائی کا مصدر نہیں ہے، بلکہ حق دیگر مذاہب میں بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح یہ نظریہ رکھنا کہ مختلف مذاہب ایک عالمگیر سچائی کی الگ الگ تعبیرات ہیں"۔ گویا اسلام کو کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے، بلکہ مسیحی اور یہودی مذاہب بھی درست ہیں کیوں کہ وہ حقانیت ہی کی دوسری تشریح ییں۔ اس نظریے کو جدید ترین اصطلاح میں پرینیلزم بھی کہا جاتا ہے۔ لہذا مدرسہ ڈسکورسز میں فضلائے مدارس کو داخل کرکے یہ تربیت دی جائے گی کہ پلورلزم پر کیسے ایمان لایا جاسکتا ہے اور کیسے یہ جاہلی نظریہ آج کے دور میں ضروری ہے۔
اس پروگرام کے ذمے داران نے اپنی فیس بک پروفائل پر چند تصاویر نشر کی ہیں۔ سترہ جون کی پوسٹ میں ماہان مرزا ان تصاویر کے ساتھ لکھتے ہیں کہ "مدرسہ پروجیکٹ پر ایک سیمنار کی میزبانی پر خوش ہوں۔ سیمینار میں اس میدان کے عظیم اسکالرز نے ابراہیم موسی کی سرپرستی میں شرکت کی"۔ اب ذرا اس مختصر سے سیمینار میں شریک دو تین شخصیات کے حالات ملاحظہ کیجیے تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ ایک عیسائی یونیورسٹی کو ہمارے مدارس کے فضلاء کے مستقبل کی فکر کیوں ہے۔
1- محمد فضل۔ یہ صاحب ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور شریعت میں ہم جنس پرستوں کے نکاح کے لیے گنجائش تلاش کرنے کے حوالے سے امریکی مسلم حلقوں میں مشہور ہیں۔
2-سعدیہ یعقوب۔ یہ محترمہ "فتنہ" نامی مسلم فیمنسٹ گروپ کی شریک بانی ہیں۔ اس گروپ کا فیس بک پیج بھی ہے جس پر وقتا فوقتاً علماء اور مذہبی حلقوں کو شدید نشانہ بنایا جاتا ہے، یہ گروہ اسلام کی نسوانیت پسند تشریح کے لیے مشہور ہے۔
3- ماہان مرزا خود بھی پروگریسیو مسلم یونین نامی تنظیم میں شامل ہیں۔ اس تنظیم کے ویکی پیڈیا پیج پر صاف لکھا ہے کہ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ مساجد میں خواتین کی امامت میں اقتدا درست ہے۔ دو ہزار پانچ میں امینہ ودود نے ایک چرچ میں جمعہ کی امامت کرکے پوری دنیا کے اخبارات کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ یہ تنظیم امینہ ودود کی علی الاعلان حمایت کرتی ہے۔ اس تنظیم کے بانی کا نام ہے امید صفی۔
ماہان مرزا اور امید صفی زیتونہ کالج کے مجلے "رینویٹیو" کے ادارتی بورڈ میں شامل ہیں۔ رینویٹیو لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تجدید کے آتے ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ نوٹر ڈیم نے مدرسہ ڈسکورسز والے پیج پر تجدید نامی ایک اردو مجلے کا لنک بھی دیا ہوا ہے جو یونیورسٹی کی طرف سے شائع ہوتا ہے اور اس کی ادارت انڈیا کے ڈاکٹر وارث مظہری انجام دیتے ہیں۔ معاون ایڈیٹر کے طور پر عمار خان ناصر کا نام ہے جو اس وقت غامدی فکر کے بڑے ترجمان ہیں اور المورد پاکستان کے ذمے داران میں سے ایک ہیں۔
ماہان مرزا جس زیتونہ کالج سے وابستہ ہیں اس کے ذمے دار حمزہ یوسف ایک مشہور مقرر ہیں، لیکن اپنی زندگی کے مختلف اور متضاد اطوار کے لیے جانے جاتے ہیں، حال ہی میں  ٹرمپ انتظامیہ کے مشیر کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا ہے۔ ان کے استاذ عبد اللہ بن بیہ ایک مشہور علمی شخصیت ہیں۔ ان کی سرپرستی میں چند ماہ پہلے دبئی میں پلورلزم کے عنوان کے تحت حکومت کی ایماء پر عالمی کانفرنس ہوئی۔ مدرسہ ڈسکورسز کے ڈائریکٹر ابراہیم موسی دبئی کانفرنس کے مداحین میں شامل ہیں۔
اس کے بعد عبد اللہ بن بیہ کی موجودگی میں پوپ نے مراکش کا دورہ کیا اور اس کے سامنے اذان اور چرچ کا گانا دونوں ایک ساتھ پڑھے گئے۔ یوٹیوب پر اس کی ویڈیو موجود ہے۔ حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم نے اپنے ٹویٹر ہینڈل کے ذریعے اس فکر کے خلاف آواز بلند کی تھی۔
چند روز قبل مدرسہ ڈسکورسز پاکستان کے تحت منعقد ہونے والے پروگرام کی روداد بھی انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ اس پروگرام میں شامل چند مقررین نے جس طرح اپنی فکر کا اظہار کیا اس کے بعد اس گروہ کے عزائم جاننے کے لیے کسی گہرے انویسٹیگیشن کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ سب تفصیلات اس لیے درج کی ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ مدرسہ ڈسکورسز کے نام پر علماء کو بھرتی کرکے انھیں کس طرح ڈھالے جانے اور پھر استعمال کرنے کی کوششوں کا آغاز پاکستان کے بعد انڈیا میں ہونے جارہا ہے اور مغرب کیسے اس جاہلی فکر کو مختلف طریقوں سے اسلامی مشرق پر مسلط کررہا ہے۔ یہ واضح رہے کہ سعودی اسکولوں میں نصاب تعلیم واشنگٹن سے تیار ہورہا ہے، لیکن یہ جبر انڈیا اور پاکستان میں ممکن نہیں ہے، اس لیے یہ طاقتیں اسٹریٹیجی بدل کر مدارس سے وابستہ مذہبی حلقوں تک پہنچ رہی ہیں۔ ہمارے علمائے کرام ہوسکتا ہے کہ ان عزائم سے ناواقف ہوں۔ اس لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونے والے اس پروگرام سے پہلے علمائے کرام کو حقیقت سے آگاہ کردیا جائے۔ امید ہے کہ حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی دامت برکاتہم اور ان جیسی دیگر معتبر شخصیات کا نام ایسے واضح فتنوں کے لیے استعمال نہیں ہوگا۔
یاسر ندیم الواجدی

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...