Friday, July 19, 2019

اسکول بچوں کو گھر اور اساتذہ والدین سا لگیں۔

اسکول بچوں کو گھر اور اساتذہ والدین سا لگیں۔مولانا شہادت حسین فیضی۔
بتاریخ 14/و 15/اگست کو مدینہ ایجوکیشن ٹرسٹ کے تحت چل رہے قلندریہ پبلک اسکول اور مدرسہ مدینة الرسول کا تعلیمی و ثقافتی پروگرام فاطمہ سینٹر ہال میں نہایت تزک و احتشام کے ساتھ دو دنوں تک جاری رہا۔مختلف رنگ برنگے پروگراموں میں تقریبا 28 گروپوں میں 60 بچوں نے حصہ لیا اور اپنے علمی،فنی اور ثقافتی جوہر دکھاکر حاضرین کا دل جیت لیا۔جج کے فرائض انجام دے رہے محترمہ ڈاکٹر نکہت پروین ایچ او ڈی؛جے جے کالج نے اپنا تازہ نظم پیش کر بچوں کی حوصلہ افزائی کی: "ضروری نہیں کہ ہر پل زباں پر خدا کا نام آئے- وہ لمحہ بھی عبادت ہے جب انسان کسی کے کام آئے"
پروگرام کے دیگر ججوں میں پروفیسر سمشاد بی ایڈ ڈپارٹمنٹ؛جے جے کالج، پروفیسر عاشق ایچ او ڈی اردو؛ جے جے کالج اور ریسرچ اسکالر محمد نورالدین ازہری جامعہ ملیہ دہلی اور مولانا محبوب عالم فیضی موجود تھے اور ان تمام مہمانوں نے اپنے تآثراتی کلمات بھی پیش کیے۔
نظامت کے فرائض محترمہ ہما نگار،ارم سہیل،شائستہ پروین اور محمد جنید حبیب نے انجام دیے۔نظم و نسق کے فرائض پرویز عالم پرنسپل قلندریہ اسکول،ریاض وارثی،حنا سلطانہ،نیشی پروین،گل افشاں پروین، قاری افتخار احمد اور قاری ساجد نے انجام دیے۔
پروگرام میں کامیاب امیدواروں کے نام یہ ہیں: ڈرامہ کلب سے اول؛ مبین،سمیع،آزاد اور طاہر۔دوم؛امرین،عظمی،سمن،ام ہانی،سامیہ اور عمر جبکہ میوزک کلب سے اول؛ذوالفقار اور جاوید۔ دوم؛ ناہید۔ اسی طرح تقریر میں اول؛ سہانہ اور دوم؛سامیہ جبکہ ریمس کلب سے اول؛ریشمہ اور عقبی گروپ دوم؛ عمر رضا نے حاصل کیے۔
مدینہ ایجوکیشن ٹرسٹ کے ڈائریکٹر مولانا محمد شہادت حسین فیضی نے یوم آزادی کے رسم پرچم کشائی تقریب کے بعد طلبہ، طالبات اور اساتذہ کی محنت و مشقت کو خوب سراہا اور انہیں مختلف ایوارڈز اور سرٹیفیکیٹ سے نوازا اور تقریب میں شریک تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا، کچھ مفید نصیحتیں کیں اور کہا کہ ؛ عنقریب ہم اپنے اسکول کو اپنے تمام اساتذہ اور ممبران کی مدد سے ایسا ڈیزائن کرنا چاہتے ہیں کہ بچوں کو اسکول گھر سے بہتر لگے اور والدین اپنے بچوں کو سزا یہ کہہ کر دینے لگیں کہ" اگر ہماری بات نہیں سنوگے تو آج تمہیں اسکول نہیں جانے دوں گا۔"
محمد فیض وارثی(چیر مین مدینہ ایجوکیشن ٹرسٹ) نے اساتذہ طلبہ اور اسکول کی بہتر کارکردگی پر دلی مبارک باد پیش کی۔ ملک و ملت کے ترقی کی دعاؤں کے ساتھ پروگرام اختتام کو پہنچا، تقریب میں خاصی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی

बच्चों को विधालय और शिछक घर और माता पिता जैसा लगे

बच्चों को विधालय और शिछक घर और माता पिता जैसा लगे - मौलाना शहादत हुसैन फैजी 
दिनांक : 14 / व 15 / अगस्त मदीना एजुकेशन ट्रस्ट के तहत चल रहे कलनदरिया पब्लिक स्कूल और मदरसे मदीनातुर रसुल के शैक्षिनिक व सांस्कृतिक कार्यक्रम फातिमा केंद्र हॉल में उल्लास के साथ दो दिनों तक जारी रहै जिसमें अलग अलग रंगीन कार्यक्रमों में लगभग 28 समूहों में 60 बच्चों ने भाग लिया और अपने ज्ञान, कलात्मक और सांस्कृतिक सार दिखाकर दर्शकों का दिल जीत लिया.जज कर्तव्यों का पालन कर रही Dr निकहत परवीन एच. ओ .डी, जेजे कॉलेज ने अपना ताजा कविता पेश करके शिक्षक , बच्चों को प्रोत्साहित किया "जरूरी नहीं कि हर पल ज़बां पर ईश्वर का नाम आये- वो लम्हा भी पूजा है जब व्यक्ति किसी के काम आए"
कार्यक्रम अन्य जज में प्रोफेसर समशाद बीएड विभाग, जेजे कॉलेज प्रोफेसर ऐशिक एच.ओ.डी उर्दू, जेजे कॉलेज और रिसर्च ऐसकोलर मोहम्मद ननुरुददिन अज़हरी जामिया मिलिया दिल्ली और मौलाना महबूब आलम फ़ैज़ी मौजूद थे और उन सभी मेहमानों ने अपने विचार व्यक्त किए।
कार्यक्रम का संचालन कर्तव्यों सुश्री हुमा निगार, इरम सोहेल, शाहिस्ता प्रवीण और मोहम्मद जुनैद हबीब ने अंजाम दिया। कार्यक्रम आयोजन कर्ता परवेज आलम प्रिंसिपल कलनदरिया स्कूल, रियाज वारसी, हिना सुल्ताना, नीशिय प्रवीण, गुल अफ़शां प्रवीण, कारी इफ्तिखार अहमद और कारी साजिद ने किया है।
विजेता प्रतिभागियों के नाम : नाटक क्लब : प्रथम: मुबीन, शमी, आजाद और ताहिर । दितिय : अमरीन, उजमा, समन, उमे हानी, सामया और उमर संगीत क्लब विजेता: जुल्फिकार और जावेद। दितिय: नाहीद भाषण : प्रथम- सुहाना और द्वितीय, सामया जबकि कविता : प्रथम: रेशमा द्वितीय, उमर रजा ने प्राप्त किए।
मदीना शिक्षा ट्रस्ट के निदेशक मौलाना मोहम्मद शहादत हुसैन फ़ैज़ी ने स्वतंत्रता दिवस के समारोह ध्वज समारोह के बाद छात्रों, छात्राओं और शिक्षकों की मेहनत और परिश्रम को खूब सराहा और उन्हें विभिन्न पुरस्कार और प्रमाण पत्र अवार्ड देकर सम्मानित किया और समारोह में शामिल सभी लोगों को धन्यवाद दिया कुछ उपयोगी नसीहतें कीं और कहा कि, जल्द ही हम अपने स्कूल अपने सभी शिक्षकों और सदस्यों की मदद से ऐसा डिजाइन करना चाहते हैं कि बच्चों को स्कूल घर अच्छा लगे और माता पिता अपने बच्चों को सज़ा यह कहकर देने लगें कि "अगर हमारी बात नहीं सुनोगे तो आज आप स्कूल जाने नहीं देंगे। "
मोहम्मद फैज वारसी (चेयरमैन मदीना एजुकेशन ट्रस्ट) ने शिक्षकों छात्रों और स्कूल बेहतर प्रदर्शन के लिए बधाई दी। देश और मिल्लत विकास की दुआओं के साथ कार्यक्रम अंत पहुंचा, समारोह में काफी तादाद में लोग शामिल हुए। Junaid Habib Skp

بانو قدسیہ کا دل ہلا دینے والا مضمون

بانو قدسیہ کا دل ہلا دینے والا مضمون
*مرد_ھوس_کا_پجاری*
*جب عورت مرتی ھے اس کا جنازہ مرد اٹھاتا ھے ۔اس کو لحد میں یہی مرد اتارتا ھے ۔۔۔ پیدائش پر یہی مرد اس کے کان میں اذان دیتا ھے۔ باپ کے روپ میں سینے سے لگاتا ھے بھائی کے روپ میں تحفظ فراہم کرتا ھے اور شوہر کے روپ میں محبت دیتا ھے۔ اور بیٹے کی صورت میں اس کے قدموں میں اپنے لیے جنت تلاش کرتا ھے ۔۔۔ واقعی بہت ھوس کی نگاہ سے دیکھتا ھے ۔۔۔ ھوس بڑھتے بڑھتے ماں حاجرہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفا و مروہ کے درمیان سعی تک لے جاتی ھے ۔۔۔ اسی عورت کی پکار پر سندھ آپہنچتا ھے ۔۔۔ اسی عورت کی خاطر اندلس فتح کرتا ھے۔ اور اسی ھوس کی خاطر 80% مقتولین عورت کی عصمت کی حفاظت کی خاطر موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ واقعی ''مرد ھوس کا پجاری ھے۔''*
*لیکن جب ھوا کی بیٹی کھلا بدن لیے، چست لباس پہنے باہر نکلتی ھے اور اسکو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ھے تو یہ واقعی ھوس کا پجاری بن جاتا ھے ۔۔۔ اور کیوں نا ھو؟؟*
*کھلا گوشت تو آخر کتے بلیوں کے لیے ھی ھوتا ھے ۔۔۔*
*جب عورت گھر سے باھر ھوس کے پجاریوں کا ایمان خراب کرنے نکلتی ھے۔ تو روکنے پر یہ آزاد خیال عورت مرد کو "تنگ نظر" اور "پتھر کے زمانہ کا" جیسے القابات سے نواز دیتی ھے کہ کھلے گوشت کی حفاظت نہیں کتوں بلوں کے منہ سینے چاہیے ھیں*
*ستر ہزار کا سیل فون ہاتھ میں لیکر تنگ شرٹ کے ساتھ پھٹی ھوئی جینز پہن کر ساڑھے چارہزار کا میک اپ چہرے پر لگا کر کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر انڈے کی شکل جیسا چشمہ لگا کر کھلے بال جب لڑکیاں گھر سے باہر نکل کر مرد کی ھوس بھری نظروں کی شکایت کریں تو انکو توپ کے آگے باندھ کر اڑادینا چاہئیے جو سیدھا یورپ و امریکہ میں جاگریں اور اپنے جیسی عورتوں کی حالت_زار دیکھیں جنکی عزت صرف بستر کی حد تک محدود ھے*
*"سنبھال اے بنت حوا اپنے شوخ مزاج کو*
*ھم نے سر_بازار حسن کو نیلام ھوتے دیکھا ھے"*
2
*مرد*
*میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انھیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انھوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہا ھے اور ان کے بعد ھمارا کیا ھوگا؟ میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازارعید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ھاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رھی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ھوگئی آپ نے کرتا خرید لیا اپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کونسی روز پہنی ھے جو خراب ھوگئی ھوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ھے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاو گی۔ ابھی میں ساتھ ھوں جو خریدنا ھے آج ھی خرید لو۔*
*میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔ میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ھوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ھوں لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ھوتی ھوئی آنکھیں بتارھی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ھوچکا، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ھے اسے رونے نہیں دیگا۔*

نصاب تعلیم

تعلیم کسی بھی معاشرے کی ترقی کےلیے کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔
تعلیم کی مثلث ہے؛ استاد ،طالب علم اور نصاب جس میں نصاب پہلی اینٹ ہے جس پر کسی قوم کی تعلیمی عمارت استوار ہوتی ہے۔
" تعلیمی نصاب یا Curriculum ”کا لفظی مطلب ہےایسا راستہ جس پر دوڑ لگائی جائے”ْ۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تعلیمی نصاب کے راستے بچوں کے لیے اتنے کٹھن ہیں کہ ان کے لیے منزل تک پہنچنا دشوار ہوچکا ہے۔
ایک اچھانصاب نہ صرف طالب علم کو خواندہ بنانا ہے بلکہ طالب علم کو اس کے ماحول سےمطابقت پیدا کرنے اور معاشی سرگرمیوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بھی بناتا ہے۔
تعلیمی نصاب کا اولین مقصدطالب علم کی ایسی تربیت کرنا ہے کہ وہ عملی زندگی میں پیش آنے والے مسائل کو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سلجھاتے ہوئے معاشرے میں باوقارشہری کی حیثیت سے زندگی گزار سکے۔ 
طالب علم کی کردار سازی کے علاوہ اس کی فکری، تمدنی اور تہذیبی تربیت کا انحصار بھی تعلیمی نصاب پر ہوتاہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی نصاب اس بنیاد پر مرتب کیا جاتا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں سے فارغ ہونے والے طلبااور طالبات اپنے مضا مین میں ماہر ہوں۔
اگر کوئی طالب علم معاشیات سیکھ رہا ہے تو اسے ایک اچھا ماہر اقتصادیات اور ذمہ دار شہری بن کر نکلناہوگا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارا تعلیمی نصاب اس معیار پر پورا نہیں اترتا جوطلباء کو ڈگری دینے کے علاوہ انہیں عملی زندگی میں کامیاب اور مہذب شہری بناسکے۔
ہمارے نظام تعلیم کا کوئی سمت متعین نہیں کہ ہمیں اپنے طالب علم کو کیا پڑھانا ہے؟ اور کس طرح پڑھانا ہے؟
ہمارے مدرسوں کا نصاب بجائے تطبیق کے بیشترجذباتیت پر مبنی ہے اور عصری اداروں کے نصاب میں فرسودہ روایات اور گھسی پھٹی کہانیوں کو نصاب کا حصہ بنا کر طلباء کی سوچ کو محدود کر دیا گیا ہے۔
ہر گزرتے دن کےساتھ سائنس ترقی کر رہی ہے۔لیکن ہمارے ہاں آج بھی گزشتہ صدی کا نصاب رائج ہے جس میں کئی نسلوں سے ترمیم نہیں کی گئی۔
عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق ہم تعلیم کے میدان میں اقوام عالم سے دو دہائیاں پیچھے ہیں۔
نصاب تعلیم نسل نو کی نفسیات و ماحول کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔
مشہور فلسفی وہائٹ ہیڈ کا قول ہے “علم زیادہ ہے اور زندگی چھوٹی، اس لیے زیادہ مضامین مت پڑھائیں لیکن جو کچھ پڑھائیں اسے بھرپور انداز میں پڑھائیں”۔
ہمارے یہاں نصاب میں معیار کے بجائے مقدار پرزور دیا جاتا ہے۔
موجودہ دور میں درسی کتابیں اتنی ضخیم ہوچکی ہیں کہ بچے کے لیے ان کا پڑھنا تو کجا اٹھانا بھی بوجھ ہوتا ہے۔
درسی نصاب کی موجودہ کتابوں میں غیر ضروری مواد زیادہ ہوتا ہے جس کا عام زندگی سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ نصاب میں اکثر ابواب اتنے خشک اور بورنگ ہوتے ہیں کہ ان میں بچے کی دلچسپی کے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی۔ 
کتابوں کے اسباق بھی بےترتیب ہوتے ہیں جن سے بچوں کو اپنا ذہنی تسلسل برقرار رکھنے میں خاصی دشواری ہوتی ہے۔
نصاب کو عام فہم اور دلچسپ انداز میں ترتیب دیا جانا چاہیے۔
ملک کے مختلف دینی اداروں میں اپنا مخصوص تعلیمی نصاب رائج ہے جو کبھی ایک دوسرے کی نفی بھی کرتا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں تفریق اور عدم توازن کی فضا فروغ پارہی ہے۔
ایک بچے کی زبان کچھ اور ہوتی ہے لیکن اس کا نصاب کسی اور زبان میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔
جرمنی، فرانس، چین ، جاپان سمیت ایسے کئی ممالک ہیں جنہوں نے اپنی ضروریات کے پیش نظر انگریزی کے بجائے اپنی قومی زبانوں میں تعلیمی نصاب تشکیل دیا اور آج ان کی شرح خواندگی اور معاشی ترقی دنیا کے لیے روشن مثال ہے۔
دینی نصاب تعلیم کا انحصار ریاستی ملکی اور عالمی سطح پر تبلیغی و دعوتی پالیسی پر ہوتا ہے جس میں مستقبل کے اہداف کا تعین کیا جاتا ہے اور درآمدہ ممکنہ مسائل اور چیلنجز کو فیس کرنے کوشش ہوتی ہے۔لہذا وقت اور حالات کے تحت جہاں دیگر ریاستی امور و معاملات تغیرات سے گزرتے ہیں وہیں تعلیمی اہداف کی جہتیں بھی لچکدار ہونی چاہیے۔
[ ] مدارس اسلامیہ میں جدید تعلیمی تکنیک کا فقدان ہے۔ اور جو منہج رائج ہے وہاں تطور عنقا ہے۔جب کہ زمانہ تغیر پذیر اور انسان جدت پسند ہے۔
[ ] (تلخیص ایک غیر مرقوم مضمون سے۔ م ں الأزهري)
[ ] یہ مضمون مدارس دینیہ کے لیے کارگر اور نتیجہ خیز نصاب کی ترتیب کے جذبے سے پوسٹ کر رہا ہوں تاکہ آپ حضرات اس پہلو پر اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی مشورے دیں۔۔۔ امید کہ آپ حضرات اس میں دلجسپی دکھائیں گے اور مفید معلومات فراہم کریں گے۔۔۔

بدلنے کے تین اصول

بدلنے کے تین اصول۔۔
صحبت ۔۔محنت۔۔استقامت
مسلک کے لحاظ سے تعصب نہ ہو
سیاست کے نام پر ٹسل نہ ہو
لسانیت کے نام پر نفرت نہ ہو
قومیت کے نام پر امتیاز نہ ہو
عزت دو محبت دو یہی دعوت کا پیغام ہے
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد رہا
آپ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے کھوئے ہوے ماضی کو بحال کریں تو باقیوں کا ذہن بنانا ہوگا انسانیت کا درد رکھنا ہوگا۔۔۔۔
آج ہم نے ہر کام کو کام سمجھا ہے لیکن دعوت کا کام جو ہم پر فرض ہے اسے کام کیوں نہیں سمجھتے۔دین کے اس کام کو کام سمجھیں۔۔
شیطان اگر ہم سے بڑے بڑے گناہ نہیں کرواپاتا تو صبح و شام ہم سے مومنوں کی بے حرمتی کروایا رہتا ہے۔ اگر آپ نے کسی برائی کو ختم کرنے پر کوئی عملی قربانی نہیں دی اور صرف باتیں بنائیں تو سمجھو کہ تم صحیح معنوں میں قوم کا ہمدرد نہیں ہو۔۔۔
محمد بن حسن الشيباني: ہم اگر سو گئے تو ان کا کیا ہوگا جو ہم پر تکیہ کرکے سو گئے ہیں۔۔۔
رویہ behaviour بدلنے کے سات مراحل ہیں؛
1:سوچ۔۔۔۔ اس لیے سوچو اور اتنا سوچو کہ وہ آپ کو عمل پر امادہ کردے۔ اور سوچنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ سوچی ہوئی چیز کو نہ سوچو بلکہ کچھ نیا سوچو۔
2۔ مزعومہ عقیدے believe... جب تک آپ اسے درست نہیں کرتے آپ کا رویہ نہیں بدلے گا۔ آپ نے دماغ میں مان لیاہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے یا لوگوں کا ماننا ہے کہ آپ سے یہ کام نہیں ہوسکتا تو سمجھیے کہ آپ کا عقیدہ ٹھیک نہیں ۔ اس لیے خود کو بدلنا ہے یا سماج کو بدلنا ہے تو اسے ٹھیک کیجیے۔
3۔تجربہ ۔۔۔ اس کا تجربہ یہ کہتا ہے ۔میرا تجربہ یہ کہتا۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے مجھے ویسا نہیں کرنا چاہیے یہ اپنے آپ میں ایک غلط تجربہ ہے اگر آپ بدلاو چاہتے ہیں تو ان تمام تجربات سے اوپر اٹھنا ہوگا۔اور کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ آپ لوگوں کے لیے تجربہ اور ریسرچ بن جائیں۔
4۔ تربیت۔۔ اپنی ذات کی تربیت کیجیے اور اتنی اچھی تربیت کیجیے کہ لوگ آپ کو دیکھ کر اپنی اصلاح شروع کردیں۔
5۔ علم و نالج۔ صحیح علم اور نالج اکٹھا کیجیے کیوں کہ غلط علم غلط راستے کی طرف آپ کو ڈھکیل سکتا ہے۔
6۔ شخصیت کی نوع۔ types of personality.
7۔ فطرت nature..
آخری بات اور سب سے اہم بات یہ ہےکہ شروع کے پانچ مراحل وہ ہیں جسے ہم خود بدل سکتے ہیں۔ ہم سب کے اندر یہ طاقت ہے کہ اگر ان پانچوں میں کہیں کوئی کمی ہے تو ہم اسے درست کر سکتے ہیں اور جس دن ہم ان پانچ کو درست کرلیں ہمارا رویہ بدل جائے گا۔۔ لیکن آخر کے دو ہم نہیں بدل سکتے لیکن یہ بھی بدل جاتے ہیں اگر شروع کے پانچ بدل گئے۔۔

مدینہ ایجو کیشن ٹرسٹ کا ماسٹر پلان برائے طلبہ مدارس

مدینہ ایجو کیشن ٹرسٹ کا ماسٹر پلان برائے طلبہ مدارس
طلبہ مدارس بالعموم اور فارغین مدارس کو بالخصوص انگریزی زبان و ادب،کمپیوٹر، بقدر ضرورت انٹرنیٹ، میڈیا اور ٹکنیکل کورسیز و پروگرام کی تعلیم دینے کے لیے مدینہ ایجوکیشن ٹرسٹ، جولوہ آباد، کوڈرما نے پہلی بار ایک ماسٹرپلان ان کے لیے ترتیب دیا ہے۔جسے ولایتی سطح پر آنے والے وقتوں میں مختلف اداروں میں پہنچایا جائے گا۔ 
عنقریب اس کی پہلی اور مرکزی سینٹر کا اعلان کیاجائے گا۔
واضح رہے کہ الگ الگ صوبوں میں بھی اس کی مختلف شاخیں قائم کی جائیں گی۔ لیکن ابتداء میں یہ کام ضلع کوڈرما و نواح سے ہوتا ہوا صوبائی سطح پر کام کرےگا۔
آج کے زمانے میں وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کے لیےفضلائے مدارس کا انگریزی زبان و ادب اور کمپیوٹر کی تعلیم سے مزین ہونا بےحد ضروری ہے۔
اسی تقاضےکے پیشِ نظر ٹرسٹ نے فضلائے مدارس کے لیے اپنے اعتبار کا پہلا کورس “ڈپلوما اِن انگلش لینگویج اینڈ کمپیوٹر" ماہرین اسکالروں کی نگرانی میں ترتیب دیاہے۔ جسے سب سے پہلے ٹرسٹ کے تحت چل رہے ادارہ مدرسہ مدینة الرسول میں لانچ کیا جانا ہے۔ اور یہ کام ٹاسک رہائشی کوچنگ سینٹر اور قلندریہ پبلک اسکول کے تعاون سے پورا کیا جائے گا۔
۔دو سالہ اس کورس کو پڑھنے والے فضلائے مدارس معیاری انگریزی میں بولنے اور لکھنے پر قادر ہونے کے ساتھ جنرل اسٹڈیز اور کمپیوٹر سائنس میں بھی جہاں قابلِ قدرمقام حاصل کریں گے وہیں وہ اپنی زندگی کو معیاری بھی بنا سکیں گے۔

"ویلن ٹائن ڈے "

"ویلن ٹائن ڈے "
مغربی تہذیب نے بہت سے بے ہودہ رسوم و رواج کو جنم دیا۔ اوربدتہذیبی اور بد کرداری کے نئے نئے طریقوں کو ایجاد کیا۔جس کی پلیٹ میںاس وقت پوری دنیا ہے اور بطور خاص مسلم معاشرہ اس کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہوتے جارہا ہے۔ مختلف عنوانات سے دنوں کو منانے اور اس میں رنگ ریلیاں رچانے کے کلچر کو فروغ دینا شروع کیا۔اور اس کی آڑ میں بہت سی خرافات و اہیات اور بد اخلاقی و بے حیائی کو پھیلانے لگے۔چناں چہ ان ہی میں ایک 14 فروری کی تاریخ ہے جس کو ’’یوم عاشقاں ‘‘یا ’’یوم ِ محبت ‘‘کے نام سے منانا جاتا ہے اور تمام حدوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہر ہوتا ہے۔ اور تہذیب وشرافت کے خلاف کاموں کو انجام دیا جاتا ہے۔ اور ناجائز طور پر اظہار محبت کے لئے اس دن کاخاص اہتما م کیا جاتا ہے۔ چند سال قبل یہ لعنت اس درجہ ہمارے معاشرہ میں عام نہیں تھی لیکن اب رفتہ رفتہ نوجوان طبقہ اس کا غیر معمولی اہتمام کرنے لگا ہے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء وطالبات میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے اور گویا کہ یہ دن ان کے لئے دیگر تمام دنوں سے زیادہ اہمیت کا حامل بن گیا کیوں کہ اس دن وہ اپنی آرزو کی تکمیل اور اپنے جذبات کا اظہار کرسکتے ہیں اور غیر شرعی و غیر اخلاقی طورپر محبت کا راگ الاپ سکتے ہیں۔جب کہ شرعی اور اخلاقی نیز معاشرتی اعتبار سے اس کی بہت ساری خرابیاں اور مفاسد ہیں لیکن ان تمام کو بالائے طاق رکھ کر جوش ِ جنوں اور دیوانگی میں اس دن کو منانے کی فکروں میں اضافہ ہی ہوتے جارہا ہے۔آئیے اس کی حقیقت اورتاریخ کو جانتے ہیں تاکہ اس لعنت سے مسلم نوجوانوں کو بچایاجا سکے۔
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں بہت سے اقوا ل ہیں، اس کی ابتداء کے لئے کئی ایک واقعات کو منسوب کیا جاتا ہے۔ جن میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ :سترھویںصدی عیسوی میںروم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک راہبہ کی محبت میں مبتلا ہوگیا، چوں کہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا، اس لئے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ جسمانی تعلقات بھی قائم کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جا ئے گا۔راہبہ نے اس پر یقین کرلیا اور دونوں نے سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموما ہوا کرتا ہے یعنی ان دونوں کو قتل کردیا گیا۔ کچھ عرصے بعد چند لوگوں نے انھیں محبت کا شہید جان کر عقیدت کا اظہار کیا اور ان کی یاد میں یہ دن مناناشروع کردیا۔( ویلنٹائن ڈے :7)
بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اسی کے نام کردیا۔ کئی شرکیہ عقائد کے حامل لوگ اسے یونانی کیوپڈ( محبت کے دیوتا ) اور وینس ( حسن کی دیوی ) سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ لوگ کیوپڈ کوویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنی محبت کے زہر بھجے تیر نوجوان دلوں پر چلاکر انہیں گھائل کرتا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔( پادریوںکے کرتوت:285)اور بعض نے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ:سینٹ ویلنٹائن ڈے کو آج کل جس طرح عاشقوں کے تہوار کے طور پر منایا جارہا ہے یاویلنٹائن کارڈ بھیجنے کی جو نئی روایت چل پڑی ہے اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق یاتو رومیوں کے دیوتا لوپرکالیا کے حوالہ سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوار بار آوری یا پرندوں کے ایام اختلاط سے ہے۔ (ویلنٹائن ڈے، تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 40)
واقعہ بہر حال جو بھی ہو اور جس مقصد کے لئے بھی اس کا آغاز کیا گیا ہو لیکن آج اس رسم ِ بد نے ایک طوفان ِ بے حیا ئی برپا کردیا۔ عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہ ٔ نکاح کے تقد س کو پامال کردیا۔ اور نوجوان لڑکو ں اور لڑکیوں میں آزادی اور بے باکی کو پیدا کیا۔ معاشرہ کو پراگندہ کرنے اور حیا و اخلاق کی تعلیمات، اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ بر سرعام اظہار محبت کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ شرم و حیا،ادب وشرافت کو ختم کرڈالا۔اس کی وجہ سے جو نہایت شرمناک واقعات رونماں ہورہے ہیں اور تعلیم گاہوں اور جامعات میں جس قسم کی بے حیائی بڑھتی جارہی ہے اس کے لئے بعض قلم کاروں نے مستقل کتابیں لکھیں ہیں ( اوپر حوالے میں جن کتابوں کے نام ہم نے پیش کئے اس کا مطالعہ بھی کافی ہے ) تاکہ اس بے ہودگی سے نوجوان نسل کو روکا جاسکے۔
ویلنٹائن ڈے کی تباہیاں
ویلنٹائن ڈے نے پاکیزہ معاشرہ کو بڑی بے دردی کے ساتھ بد امن اور داغ دار کیا ہے۔ اخلاقی قدروںکو تہس نہس کیا ہے، اور رشتوں، تعلقات، احترام، انسانیت تمام چیزوں کو پامال کیا ہے۔ لال گلاب اور سر خ رنگ اس کی خاص علامت ہے، پھول کی تقسیم اور اس موقع پر ویلنٹائن کارڈ کا تبادلہ بھی اظہارِمحبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بڑی پیمانے پر اس کی تجارت ہوتی ہے اور ہوس پرست اس کو منھ بولے دام میں خریدتے ہیں۔ منچلوں کے لئے ایک مستقل تفریح کا سامان بن گیا۔ ویلنٹاین کی جھوٹی محبت کا انجام کیا ہوتا ہے اس کو مختصر جملوں میں بیان کیا کہ:٭عشق کا بھوت نفرت میں بدل گیا، محبت کی شادمی کا دردناک انجام، خاوند کے ہاتھوں محبوبہ کا قتل۔ ٭عشق کی خاطر بہن نے بھائی کا قتل کردیا۔٭محبوبہ محبوب سمیت حوالات میں بند۔٭محبت کی ناکامی پر دوبھائیوں نے خود کشی کرلی۔٭محبت کی ناکامی نوجوان ٹرین کے آگے گود گیا، جسم کے دوٹکڑے۔٭ناکام عاشق نے لڑکی کو والدین چچا اور ایک بچی سمیت قتل کرڈالا۔یہ وہ اخباری سرخیا ں ہیں جو نام نہاد محبت کی بناپر معاشرتی المیہ نبی آئے روز اخبارات کی زینت بنتی جارہی ہیں۔( ویلنٹائن ڈے، تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں :119)
آخری بات
یہ وہ تلخ حقائق اورویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریوں کی ایک مختصر روداد ہے،جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کے عنوان سے پوری دنیا میں کیا تباہ مچائی جاتی ہے اور کس طرح ایمان و اخلاق سے کھیلاجاتا ہے،معاشرہ کو بے حیا بنانے اور نوجوانوں میں بے غیرتی اور بے حیائی کو فروغ دینے میں اس دن کی کیا تباہیاں ہیں، اس حقیقت سے کسی عقل مند اور سلیم المزاج انسان کو انکار نہیںہوسکتا کہ اس وقت پوری دنیا میں بے حیائی کو پھیلانے اور بدکاری کو عام کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہورہی ہیں، نوجوانوں کو بے راہ رو کرنے اور بالخصوص مسلم نوجوانوں سے جذبہ ٔ ایمانی کو کھرچنے اور حیا واخلاق کے جوہر سے محروم کردینے کے یہ دن اور اس طرح کے بہت سے حربے اسلام دشمن طاقتیں استعمال کررہی ہیں۔امت ِمسلمہ کے نوجوانوں کو ان تمام لغویات اور واہیات قسم کی چیزوں بچنا ضروری ہے، اور معاشرہ کو پاکیزہ بنانے اور اخلاق وکردار کو پروان چڑھانے کے لئے اس طرح کے بے حیائی کو فروغ دینے والے دنوں کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے، اور ا س کے بالمقابل اسلام کی حیا کی پاکیزہ تعلیمات کو عام کرنے سکولوں،کالجوں، یونیورسٹیوں کے ماحول میں بالخصوص اور نوجوان اپنے افراد واحباب اور دوستوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس دن کو حیا کا دن منانے اور حیا کو عام کرنے کی ترغیب دینے کا دن بتانے کی کوشش کریں۔ ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو بچائیں جو کسی بھی اعتبار سے معاشرہ میں بے حیائی کے پھیلنے کا ذریعہ بنے اور دنیا والوں کو اسلام کی بلند ترین تعلیمات کا خوبصورت نمونہ پیش کرنے والے بنیں۔

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...