Monday, July 29, 2019

ولایت کیسے ملتی ہے

وقت کا ولی...... ولایت کیسے ملتی ہے ؟ آئیں آپ کو ولی بناتے ہیں!
ایک صاحب سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ نے کبھی کسی ولی اللہ کو دیکھا ہے ؟
انہوں نے جواب دیا ہاں ابھی دو دن پہلے ہی لاہور اسٹیشن پر دیکھا ہے ۔ ہماری گاڑی جیسے ہی رکی تو قلیوں نے دھاوا بول دیا اور ہر کسی کا سامان اٹھانے اور اٹھا اٹھا کر بھاگنے لگے لیکن میں نے ایک قلی کو دیکھا کہ وہ اطمینان سے نماز میں مشغول ہے ۔
جب اس نے سلام پھیرا تو میں نے اسے سامان اٹھانے کو کہا اس نے سامان اٹھایا اور میری مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا،
میں نے اسے ایک روپیہ کرایہ ادا کردیا ، اس نے چار آنے اپنے پاس رکھے اور باقی مجھے واپس کردئیے ۔ میں نے اس سے عرض کی کہ ایک روپیہ پورا رکھ لو لیکن اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا “نہیں صاحب میری مزدوری چار آنے ہی بنتی ہے” ۔
آپ یقین کریں ہم سب ولی اللہ بننے اور اللہ کے ولیوں کو ڈھونڈنے میں دربدر ذلیل و خوار ہوتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں مشکل ترین ریاضتوں ، مشقتوں اور مراقبوں سے گذرنا پڑےگا ۔
سار ی ساری رات نوافل میں گذارنی پڑےگی یا شاید گلے میں تسبیح ڈال کر میلے کچیلے کپڑے پہن کر اللہ ہو کی صدائیں لگانا پڑے گی تب ہم ولی اللہ کے درجے پر پہنچ جائینگے ۔
آپ کمال ملاحظہ کریں ہماری آدھی سے زیادہ قوم بھی اس کو ہی” پہنچا “ہوا سمجھتی ہے جو ابنارمل حرکتیں کرتا نظر آئیگا ۔ جو رومال میں سے کبوتر نکال دے یا عاشق کو آپ کے قدموں میں ڈال دے ۔
اللہ کا دوست بننے کے لیے تو اپنی انا کو مارنا پڑتا ہے ۔ قربانی ، ایثار اور انفاق کو اپنی ذات کا حصہ بنانا پڑتا ہے ۔
اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے اپنے ابا جی سے پوچھا کہ عشق مجازی اور عشق حقیقی میں کیا فرق ہے ؟
انھوں نے کچھ دیر سوچا اور کہنے لگے “بیٹا ! کسی ایک کے آگے اپنی انا کو مارنا عشق مجازی ہے اور ساری دنیا کے سامنے اپنی انا کو مارلینا عشق حقیقی ہے” ۔
جنید بغدادی اپنے وقت کے نامی گرامی شاہی پہلوان تھے ۔ انکے مقابلے میں ایک دفعہ انتہائی کمزور ، نحیف اور لاغر شخص آگیا ۔ میدان تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا ۔ بادشاہ اپنے پورے درباریوں کے ساتھ جنید بغدادی کا مقابلہ دیکھنے آچکا تھا ۔
مقابلہ شروع ہونے سے پہلے وہ کمزور آدمی جنید بغدادی کے قریب آیا اور کہا دیکھو جنید ! کچھ دنوں بعد میری بیٹی کی شادی ہے میں بے انتہائی غریب اور مجبور ہوں ۔ اگر تم ہار گئے تو بادشاہ مجھے انعام و اکرام سے نوازے گا ۔ لیکن اگر میں ہار گیا تو اپنی بیٹی کی شادی کا بندو بست کرنا میرے لیے مشکل ہوجائیگا ۔
مقابلہ ہوا اور جنید بغدادی ہار گئے ۔ بادشاہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا اس نے دوبارہ اور پھر سہہ بارہ مقابلہ کروایا اور تینوں دفعہ ہار جنید بغدادی کے حصے میں آئی ۔بادشاہ نے سخت غصے میں حکم دیا جنید کو میدان سے باہر جانے والے دروازے پر بٹھا دیا گیا
اور
تمام تماشائیوں کو حکم دیا گیا کہ جو جائیگا جنید پر تھوکتا ہوا جائیگا ۔
جنید بغدادی کی انا خاک میں مل گئی لیکن ان کی ولایت کا فیصلہ قیامت تک کے لیے آسمانوں پر سنا دیا گیا ۔
ولی تو وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کردے۔جو کسی کو جینے کی امنگ دے دے ۔ چہرے پر خوشیاں بکھیر دے ۔ جب کبھی بحث کا موقع آئے تو اپنی دلیل اور حجت روک کر سامنے والے کے دل کو ٹوٹنے سے بچالے اس سے بڑا ابدال بھلا کون ہوگا ؟
رسول خداﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے فرمایا :
”معاذؓ !تمھیں وہ عمل نہ بتاوں جو بغیر حساب کتاب کے تمھیں جنت میں داخل کروادے ؟” معاذؓ نے عرض کی ضرور یا رسول اللہﷺ ۔
آپ نے فرمایا :”معاذ ! مشقت کا کام ہے کروگے ؟” ضرور کروں گا یارسول اللہﷺ ،معاذ نے جواب دیا ۔ آپﷺ نے پھر فرمایا :”معاذ مسلسل کرنے کا کام ہے کروگے ؟” معاذؓ نے جواب دیا کیوں نہیں یا رسول اللہﷺ ۔
آپ نے فرمایا:” اے معاذ ! اپنے دل کو ہر ایک کے لیے شیشے کی طرح صاف اور شفاف رکھنا بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوجاوگے” ۔
معروف کرخیؒ نے فرمایا جس کا ظاہر اس کے باطن سے اچھا ہے وہ مکار ہے اور جس کا باطن اس کے ظاہر سے اچھا ہے وہ ولی ہے ۔ ولایت شخصیت نہیں کردار میں نظر آتی ہے ۔
ابراہیم بن ادھمؒ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور چند دن رہنے کی اجازت مانگی آپ نے دے دی ۔ وہ کچھ دن ساتھ رہا اور انتہائی مایوس انداز میں واپس جانے لگا ۔ ابراھیم بن ادھمؒ نے پوچھا کیا ہوا برخوردار ! کیوں آئے تھے اور واپس کیوں جارہے ہو ؟ اس نے کہا حضرت آپ کا بڑا چرچا سنا تھا ۔ اس لیے آیا تھا کہ دیکھوں کہ آپ کے پاس کونسی کشف و کرامات ہیں ۔
اتنا بول کر وہ نوجوان خاموش ہوگیا ۔ ابراھیم بن ادھمؒ نے پوچھا پھر کیا دیکھا ؟ کہنے لگا میں تو سخت مایوس ہوگیا ۔ میں نے تو کوئی کشف اور کرامت وقوع پذیر ہوتے نہیں دیکھی ۔ ابراھیم بن ادھمؒ نے پوچھا نوجوان ! یہ بتاو اس دوران تم نے میرا کوئی عمل خلاف شریعت دیکھا ؟ یا کوئی کام اللہ اور اس کے رسول کے خلاف دیکھا ہو ؟
اس نے فورا ًجواب دیا نہیں ایسا تو واقعی کچھ نہیں دیکھا ۔ابراھیم بن ادھمؒ مسکرائے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے بیٹے ! میرے پاس اس سے بڑا کشف اور اس سے بڑی کرامت کوئی اور نہیں ہے ۔
جو شخص فرائض کی پابندی کرتا ہو ۔
کبائر سے اجتناب کرتا ہو ۔
لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرتا ہو ۔
آپ مان لیں کہ اس سے بڑا ولی کوئی نہیں ہوسکتا ہے ۔اللہ کے ولی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ صاحب حال ہوتا ہے ۔نہ ماضی پر افسوس کرتا ہے اور نہ مستقبل سے خوفزدہ ہوتا ہے ۔
اپنے حال پر خوش اور شکر گذار رہتا ہے ۔جو اپنے سارے غموں کو ایک غم یعنی آخرت کا غم بنا کر دنیا کے غموں سے آزاد ہوجائے وہی وقت کا ولی ہے ۔
ایک صحابیؓ نے پوچھا یارسول اللہﷺ ایمان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا صبر کرنا اور معاف کرنا ۔آپ یقین کریں تہجد پڑھنا ، روزے رکھنا آسان ہے لیکن کسی کو معاف کرنا مشکل ہے ۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا اسلام کا حسن یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلائواور ہمیشہ اچھی بات زبان سے نکالو ۔جو صبر کرنا سیکھ لے ، بھوکوں کو کھانا کھلائے ، ہمیشہ اچھی بات اپنی زبان سے نکالے اور لوگوں کے لیے اپنے دل کو صاف کرلے اس سے بڑا ولی بھلا اور کون ہوسکتا ہے ؟
یاد رکھیں جو لوگوں سے شکوہ نہیں کرتا جس کی زندگی میں اطمینان ہے وہی ولی ہے ۔ جس کے دل کی دنیا میں آج جنت ہے وہی وہاں جنتی ہے اور جس کا دل ہر وقت شکوے ،شکایتوں ، حسد ، کینہ ، بغض ، لالچ اور ناشکری کی آگ سے سلگتا رہتا ہے وہاں بھی اس کا ٹھکانہ یہی ہے ۔
فرائض کی پابندی کیجیے ،
کبائر سے اجتناب کیجیے ،
حال پر خوش رہیے ،
لوگوں کی زندگیوں میں آسانیا ں پیدا کیجیے ،
اور وقت کے ولی بن جائیے..!

قربانی کے متعــــلق عــــوام کی غلط فہمیاں

*قربانی کے متعــــلق عــــوام کی غلط فہمیاں
           *بشــکل ســوال و جــواب*
*سوال نمبر☜30:ـــ* عوام میں مشہور ہے کہ قربانی کے بکرے کا دانت والا ہونا ضروری ہے اگر دانت والا نہ ہو تو اسکی قربانی جائز نہیں ـــ کیوں؟
*جواب☜:ـــ* قربانی کے بکرے کا کم سے کم سال بھر کی عمر کا ہونا ضروری ہے،دانت والا ہونا ضروری نہیں لہٰذا اگر بکرا سال بھر کا ہے تو اسکی قربانی جائز ہے اگرچہ اسکے دانت نہ نکلے ہوں ــ
_(فتاوی فیض الرسول،ج۲،ص ۴۵۶)_
*سوال نمبر☜31:ــ* عوام میں یہ مسئلہ بہت مشہور ہے کہ جس چُھری میں تین کیلیں اور لکڑی کا دستہ نہ ہو، تو اس چھری سے ذبح کرنا جائز نہیں؟
*جواب☜:ــ* یہ غلط مشہور ہے صحیح مسئلہ یہ ہے کہ ہر چھری اور ہر دھاردار چیز سے ذبح کرنا جائز و درست ہے ــ
_( بہارشریعت،ح۱۵،ص۳۱۶)_
*سوال نمبر☜32:ــ* عوام میں مشہور ہے کہ اونٹ کو تین جگہ ذبح کیا جاتا ہے؟
*جواب☜:ــ* یہ مسئلہ غلط مشہور ہے،سنت طریقہ یہ ہیکہ اونٹ کو ایک بار نحر کیاجائےــ تین جگہ ذبح کرنا مکروہ ہے کہ بلا وجہ ایذا دینا ہے ــ
_(بہارشریعت،ح۱۵،ص۳۹۲)_
*سوال نمبر☜33:ــ* ذبح کے وقت اگر ساری گردن کٹ گئی تو کیا ذبیحہ حلال ہے؟
*جواب☜:ــ* ذبح کے وقت اگر ساری گردن کٹ گئی اور سر جدا ہو گیا توبھی اس ذبیحہ کا کھانا حلال ہے مگر ایساکرنامکروہ ہےــ
_(بہارشریعت،ح۱۵،ص۳۹۲)_
*سوال نمبر☜34:-* ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا بھول گیا تو وہ ذبیحہ حلال ہے یاحرام؟
*جواب☜:-* اگر کوئی ذبح کے وقت بسم اللہ کہنا بھول گیا تو وہ ذبیحہ حلال ہےــ
_(ہدایہ،ح۴،ص۶۳۳)_
*سوال نمبر☜35:-* جس جانور کا کوئی عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہو اسکی قربانی جائز نہیں تو خصی جسکے پورے خصیے کٹے ہوتے ہیں اسکی قربانی کیسے جائز ہے؟
*جواب☜:-* اصل میں کان وغیرہ کسی دوسرے عضو کا تہائی سے زیادہ کٹا ہونا چونکہ عیب ہے اسلئے ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں اور خصیے کا کٹا ہونا عیب نہیں،اسلئے کہ عیب اسکو کہتے ہیں جس کے سبب چیز کی قیمت تاجروں کی نگاہ میں کم ہوجائے اور خصیتین کاٹنے کے سبب خصی کی قیمت تاجروں کی نگاہ میں کم نہیں ہوتی بلکہ زیادہ ہوجاتی ہے لہٰذا وہ عیب نہیں بلکہ خوبی ہے اسلئے خصی کی قربانی صرف جائز نہیں بلکہ افضل ہےـ
_(فتاوی فیض الرسول،ج۲،ص۴۵۸)_
*سوال نمبر☜36:-* عوام میں مشہور ہے کہ میت کی طرف سے قربانی کی جائے تو گھر والے اس گوشت کو نہیں کھا سکتے،پورے گوشت کو صدقہ کرنا واجب ہے یہ مسئلہ کہاں تک درست ہے؟
*جواب☜:-* یہ مسئلہ غلط مشہور ہے صحیح مسئلہ یہ ہے کہ اس گوشت کو سب کھا سکتے ہیں
البتہ میت نے اگر وصیت کی تھی پھر اسکی طرف سے قربانی کی تو گھر والے نہیں کھا سکتے بلکہ اس صورت میں کل گوشت کو صدقہ کرنا واجب ہےــ
_(بہارشریعت،ح۱۵،ص۳۴۵)_
*سوانمبر☜37:-* عوام میں مشہور ہےکہ جس شخص پر قربانی واجب ہے اسکے لئے یہ ضروری ہے کہ ذی الحجہ کے چاند دیکھنے کے بعد سے نہ ناخن تراشے نہ بال بنوائےـ یہ مسئلہ کہاں تک صحیح ہے؟
*جواب☜:-* یہ مسئلہ ضروری نہیں بلکہ استحبابی ہے کرے تو بہتر ہے نہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ــ
_(فتاوی افضل المدارس؛ج۱؛ص۱۳۷)_
*سوال نمبر☜38:-* بعض جگہ عوام میں یہ مشہور ہے کہ تقسیم کرنے سے پہلے قربانی کے گوشت پر فاتحہ پڑھناضروری ہے ـ اگر فاتحہ نہ پڑھی جائے تو قربانی جائز نہیں ہوتی عوام کا یہ خیال کہاں تک درست ہے؟
*جواب☜:-* عوام کا یہ خیال کہ قربانی کے گوشت پر اگر تقسیم سے پہلے فاتحہ نہ پڑھی جائے تو قربانی جائز نہیں ہوتی،فاسد اور لغو خیال ہےکیونکہ قربانی جائز ہونے کے لئے فاتحہ پڑھنا ضروری نہیں البتہ کوئی اگر فاتحہ پڑھنا چاہے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن فاتحہ پڑھنے کو ضروری سمجھنا غلط ہےــ
_(فتاوی مرکزتربیت افتا؛ج۲،ص۳۲۲)_
*سوال نمبر☜39:-* کیا ذبیحہ حلال ہونے کے لئے چھری میں لکڑی کادستہ ہونا ضروری ہے؟
*جواب☜:-* ذبیحہ حلال ہونے کے لئے چھری میں لکڑی وغیرہ کا دستہ ہوناضروری نہیں بنا دستہ والی چھری سے بھی ذبح کرنے سے جانور حلال ہوجاتا ہے-
_(فتاوی امجدیہ؛جلد۳،ص۲۹۴)_
*سوال نمبر☜40:-* قربانی کا گوشت کافر کو دینا جائز ہے یا نہیں؟
*جواب☜:-* قربانی کا گوشت کافر کو دینا شرعا جائز نہیں ـ
_(فتاوی فیض الرسول؛ج۲،ص۴۵۷)_
*سوال نمبر☜41:-* کیا نابالغ بچے کا ذبیحہ جائز نہیں؟
*جواب☜:-* نابالغ بچہ اگر ذبح کرنا جانتا ہے تو اسکا ذبیحہ بلا کراہت جائز ہے کیونکہ ذبح کرنے کے لئے شریعت میں بالغ ہونا شرط نہیں ــ
_(در مختار؛ج۹،ص۴۳۰)_
*سوال نمبر☜42:-* غیر روزہ دار کا ذبیحہ حلال ہے یا حرام؟
*جواب☜:-* غیر روزہ دار کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے اسے روزہ دار و غیر روزہ دار سب کھا سکتے ہیں ـ
_(فتاوی فقیہ ملت؛ج۲،ص۲۴۱)_
*سوال نمبر☜43:-* کیا عورت جانور ذبح نہیں کر سکتی؟
*جواب☜:-* ذبح کر سکتی ہے اسکے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے اور مرد و عورت سب کھا سکتے ہیں ــ
_(فتاوی رضویہ؛ج۸؛ص۳۳۲)_
*سوال نمبر☜44:-* اپنی طرف سے نہ کرکے اوروں کے نام سے قربانی کرنا کیسا ہے؟
*جواب☜:-* جو شخص مالک نصاب ہے اس پر اپنے نام سے قربانی کرنا واجب ہے اگر وہ شخص اپنے نام سے قربانی نہ کر کے اوروں کے نام سے قربانی کریگا تو گنہگار ہوگا ــ
_(فتاوی فیض الرسول؛ج۲؛ص۴۴۰)_
*سوال نمبر☜45:-* اوجھڑی کھانا کیسا ہے؟
*جواب☜:-* اوجھڑی کھانا مکروہ تحریمی  قریب حرام کے ہےــ
ماخوذ و مرجع
ماہنامہ کنزالایمان شمارہ اکتوبر ۲۰۱۵
               *عــــــرض*
```آپ جملہ قارئین کرام سے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے گزارش کی جاتی ہے کہ ہماری اس کاوش سے خود بھی نفع اٹھائیں  اور اپنے محبین و مخلصین کو شئیر کرکے انہیں بھی فائدہ پہنچا کر عند اللہ ماجور و عند الناس مشکور ہوں جزاک اللہ خیرا

مسلمان کیا ہم اب بھی نہیں سمجھیں گے؟

جب فرانسیسی جنرل "گورو" نےشام میں قدم رکھا صلاح الدین ایوبی کی قبر پرگیا اور قبر کو لات مارکرکہا:
"اٹھوصلاح الدین ہم پھرآگئے"
جب فرانسیسی جنرل "لیوتی" نے مراکش میں قدم رکھا تویوسف بن تاشفین کی قبر کے پاس گیا اور قبرکو لات مارکرکہا:
"اے تاشفین کے بیٹے اٹھو ہم تمہارے سرہانے پہنچ گئے ہیں"
جب صلیبیوں نے دوبارہ اندلس پر قبضہ کیا تو "الفونسو" نے حاجب منصور کی قبر پر سونے کی چارپائی بچھائی اور بیوی کو لے کر شراب پی کر لیٹ گیا اور کہا:
"دیکھو میں نے مسلمانوں کی سلطنت پر قبضہ کرلیا ہے"
جب یونانی فوج ترکی میں داخل ہوئی تو یونانی فوج کے سربراہ "سوفوکلس وینیزیلوس" خلافت عثمانیہ کے بانی عثمان غازی کی قبر کے پاس گیا اورکہا:
"اٹھو اے بڑی پگڑی والے اٹھو اے عظیم عثمان اٹھو دیکھو اپنے پوتوں کی حالت دیکھوں ہم نے اس عظیم سلطنت کا خاتمہ کیا جس کی تم نے بنیاد رکھی تھی ہم تم سے لڑنے آئے ہیں"
کیا اب بھی کسی کو اس بارے میں شبہ ہے کہ یہ صلیبی جنگجو ہیں۔
اب سلطان صلاح الدین ایوبی،یوسف بن تاشفین،حاجب منصور اور عثمان غازی کے ارواح کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی کہ عالم اسلام کے نوجوان ان کے کارناموں کو بھول گئی اسے فراموش کردیا اور ٹک ٹاک یا اور کتنے نئے طریقوں سے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے تماشہ بنا رہے ہیں اور اگر کسی سے بات کرو تو وہ کہتے ہیں یہ تو ٹیلنٹ ہے۔کیا ان مجاھدین اسلام کا یہ ٹیلنٹ نہیں تھا یا ٹیلنٹ صرف فحاشی اور عریانی کو عروج دینا ہے صرف اپنے آپ کو دنیا کے سامنے رسوا کرنا ہے کیا امت مسلمہ کے نوجوانوں کے پاس اپنے اسلاف کے کارناموں کو زندہ کرنے یا اسے آگے بڑھانے کے لئے اور وقت نہیں یا یہ صلیبیوں کے بچائے ہوئے وہ جال ہے جسمیں ہم بخوشی پھنسے جا رہے ہیں۔۔
مسلمان کیا ہم اب بھی نہیں سمجھیں گے؟

محنتی طلبہ ہر گز مایو س نہ ہوں

محنتی طلبہ ہر گز مایو س نہ ہوں
مدارس میں بہت سے طلبہ ایسے ہو تے ہیں جو کئی کئی ماہ یا سالہا سال محنت کرنے کے باوجود ،علوم و وفنون میں مہارت حاصل نہیں کر پاتے تو مایوس و ناامید ہو کر محنت کرنا چھوڑ دیتے ہیں اس بات پر کہ اتنی محنت کیا بعدہ کسی فن میں ید طولی حاصل نہیں ہے جب کہ دوسرے طالب علم رات و دن سوتے ہیں اس کہ باوجود ماہر علم و فن ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یاد رکھو میرے دوستو!جب کوئی طالب علم خلوص نیت اور شوق ومحنت سے اپنے کام میں مگن ہو تو اسے قطعا نا امید نہیں ہونی چاہیے کیو ں کہ محنتی شخص کبھی ناکام نہیں ہوتا بلکہ کا میابی اس کے قدم چومتی ہے۔ الکاسب حبیب اللہ
محنی طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے امام امحمد بن حنبل رحمةاللہ علیہ کا قول نہا یت ہی قابل توجہ ہے۔ فرماتے ہیں :
مکَثْتُ فی کتا ب الحیض تسع حتی فھمتہ
میں نے کتاب الحیض کو سمجھنے میں نو سال صرف کیے ۔( طبقا ت الحنابلہ )
قوی الحافظہ خیر الاذکیا ہونے کے باوجود امام کیا فرما رہے ہیں قابل غور بات ہے ۔
لہذا محنتی طلبہ کو پریشان ہو کر احساس کمتری کا شکار نہیں ہونی چاہیے ۔اللہ تعالی نے تمام انسانوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔کوئی شخص معمولی سی محنت سے   کام لیتا ہے اور کامیاب ہو جاتا ہے ۔بعض ذہین و فطین کہلانے والے طلبہ نہ اپنی ذہانت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ ہی مطالعہ کرتے ہیں بالاخر ناکامی کا منھ تکتے ہیں ۔بسا اوقات کچھ طلبہ شدید محنت کے باوجود کسی بحث کو نہیں سمجھ پاتے ہیں ایسے طلبہ کو چاہیے کہ محنت کو جاری رکھیں ان شا ءاللہ صلہ ضرور ملے گا ۔من جد وجد واکتسب المقاصد ۔
محمد حاتم رضا

پنڈت نول کشور کو کیوں دفن کیا گیا

پنڈت نول کشور کو کیوں دفن کیا گیا
اس کی چتا پر کئی ٹین گھی کے ڈالے گئے تھے لیکن چتا آگ نہیں پکڑ رہی تھی . وہ کوئی عام ہندو نہیں تھا انڈیا کا بہت بڑا نام تھا. اس لئے اس کی چتا کو آگ نہ لگنے والے واقعے کی خبر منٹوں میں پورے انڈیا میں پھیل گئی .
لوگ جوق در جوق شمشان گھاٹ پہنچنے لگے . اس کی جامع مسجد دلی کے امام بخاری سے بہت دوستی تھی امام صاحب بھی یہ واقعہ سن کر فورآ شمشان گھاٹ پہنچے . انہوں نے اس کے لواحقین کو سمجھایا کہ اس کی ارتھی کو آگ نہیں لگے گی چاہے پورے ھندوستان کا گھی اس پر ڈال دو . بہتر یہی ہے اسے دفنا دو.
لہذا پہلی بار ایک ہندو کو جلائے بغیر شمشان گھاٹ کے اندر ہی دفن کرنا پڑا .
اس کی ارتھی کو آگ کیوں نہیں لگ رہی تھی ؟
اس کو آگ کیسے جلا سکتی ہے جس نے قرآن کا احترام مسلمانوں سے بھی بڑھ کر کیا ھو .
کیسے؟ چلیے تاریخ کے صفحوں کو پلٹتے ہیں .
تقسیم ہند کے زمانے میں لاہور کے 2 اشاعتی ادارے بڑے مشہور تھے . پہلا درسی کتب کا کام کرتا تھا اس کے مالک میسرز عطر چند اینڈ کپور تھے. دوسرا ادارہ اگرچہ غیر مسلموں کا تھا لیکن اس کے مالک پنڈت نول کشور قران پاک کی طباعت و اشاعت کیا کرتے تھے نول کشور نے احترام قرآن کا جو معیار مقرر کیا تھا وہ کسی اور ادارے کو نصیب نہ ہوسکا. نول کشور جی نے پہلے تو پنجاب بھر سے اعلی ساکھ والے حفاظ اکٹھے کئے اور ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھا احترام قرآن کا یہ عالم تھا کہ جہاں قرآن پاک کی جلد بندی ہوتی تھی وہاں کسی شخص کو خود نول کشور جی سمیت جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی.
دو ایسے ملازم رکھے گئے تھے جن کا صرف اور صرف ایک ہی کام تھا کہ تمام دن ادارے کے مختلف کمروں کا چکر لگاتے رہتے تھے کہیں کوئی کاغذ کا ایسا ٹکڑا جس پر قرآنی آیت لکھی ہوتی اس کو انتہائی عزت و احترام سے اٹھا کر بوریوں میں جمع کرتے رہتے پھر ان بوریوں کو احترام کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا جاتا.
وقت گزرتا رھا طباعت و اشاعت کا کام جاری رھا۔ پھر برصغیر کی تقسیم ھوئی۔ مسلمان ھندو اور سکھ نقل مکانی کرنے لگے۔ نول کشور جی بھی لاھور سے ترک سکونت کرکے نئی دلی انڈیا چلے گئے۔
ان کے ادارے نے دلی مین بھی حسب سابق قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کا کام شروع کر دیا۔ یہاں بھی قرآن پاک کے احترام کا وھی عالم تھا۔ ادارہ ترقی کا سفر طے کرنے لگا اور کامیابی کی بلندی پر پہنچ گیا۔نول کشور جی بوڑھے ھوگئے اور اب گھر پر آرام کرنے لگے جبکہ ان کے بچوں نے ادارے کا انتظام سنبھال لیا اور ادارے کی روایت کے مطابق قران حکیم کے ادب و احترام کا سلسہ اسی طرح قائم رکھا۔
آخرکار نول کشور جی کا وقت آخر آ گیا اور وہ انتقال کرکے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات پر ملک کے طول و عرض سے ان کے احباب ان کے ھاں پہنچے۔ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ ان کے کریا کرم میں شریک ھونے کے لئے شمشان گھاٹ پہنچے۔ ان کی ارتھی کو چتا پر رکھا گیا ۔ چتا پر گھی ڈال کر آگ لگائی جانے لگی تو ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ ھوا۔ نول کشور جی کی چتا آگ نہیں پکڑ رھی تھی۔چتا پر اور گھی ڈالا گیا پھر آگ لگانے کی کوشش کی گئی لیکن بسیار کوشش کے باوجود بے سود۔ یہ ایک ناممکن اور ناقابل یقین واقعہ تھا۔ پہلے کبھی ایسا نہین ھوا تھا۔ لمحوں میں خبر پورے شہر میں پھیل گئی کہ نول کشور جی کی ارتھی کو آگ نہین لگ رھی۔
مخلوق خدا یہ سن کر شمشان گھاٹ کی طرف امڈ پڑی۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رھے تھے اور حیران و پریشان تھے۔ یہ خبر جب جامع مسجد دلی کے امام بخاری تک پہنچی تو وہ بھی شماشان گھاٹ پہنچے۔ نول کشور جی ان کے بہت قریبی دوست تھے۔
اور وہ ان کے احترام قران کی عادت سے اچھی طرح واقف تھے۔ امام صاحب نے پنڈت جی کو مخاطب کرتے ھوئے کہا کہ آپ سب کی چتا جلانے کی کوشش کبھی کامیاب نہین ھو پائے گی۔ اس شخص نے اللہ کی سچی کتاب کی عمر بھر جس طرح خدمت کی ھے جیسے احترام کیا ھے اس کی وجہ سے اس کی چتا کو آگ لگ ھی نہیں سکے گی چاھے آپ پورے ھندوستان کا تیل گھی چتا پر ڈال دیں۔
اس لئے بہتر ھے کہ ان کو عزت و احترام کے ساتھ دفنا دیجئیے۔ چنانچہ امام صاحب کی بات پر عمل کرتے ھوئے نول کشور جی کو شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا۔ یہ تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی ھندو کی چتا کو آگ نہ لگنے کی وجہ سے شمشان گھاٹ میں ھی دفنا دیا گیا ۔
یہ تحریر لکھتے وقت میرا زھن بہت کچھ سوچ رھا ھے۔ میں سوچ رھا ھوں کہ جن کے لئے یہ عظیم کتاب اتاری گئی ھے وہ اس کو پریس کانفرنسوں میں سر پر رکھ کر اس سے اپنے مخالفین پر الزامات لگانے کا کام لیتے ھیں۔
اس سے بڑھ کر اور توھین کیا ھوگی۔
میں یہ بھی سوچ رھا ھوں دوسرے ممالک کے کچھ غیرمسلم اسلام دشمنی میں اس عظیم کتاب کو نذر آتش کرکے سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا کام کر دیا۔
حالانکہ ایسی حرکات سے سوائے نفرت کے اور کچھ بھی حاصل نہیں ھونے والا ھوتا۔
میں نہیں جانتا اس ھندو کا آخرت میں کیا انجام ھوگا لیکن اتنا جان گیا ھوں کہ دنیا میں اس کو آگ لگانا ناممکن ھوگیا تھا کیا آخرت میں آگ اس کے سامنے بے بس ھو جائے گی؟۔
میں یہ بھی سوچ رھا ھوں ایک ھندو احترام قران میں اس دنیا کی آگ سے محفوظ رھا ھم اس کتاب پر ایمان لانے والے اگر اس کی صحیح قدر کریں گے تو یہ آگ ھمیں جہنم کی آگ سے کیوں نہیں بچائے گی؟۔
ان شااللہ میرا ایمان ھے ضرور بچائے گی۔۔۔۔

اے ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ؟

اے ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺩﺭﺳﮕﺎﮨﻮﮞ‘ ﺗﺤﻘﯿﻘﺎﺗﯽ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﯽ
ﻣﺮﮐﺰﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺍﯾﮏ ﺁﻭﺍﺯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ھﮯ‘
ﻣﮕﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ‘
ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﺟﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺭﺗﺎ ﺍﻭﺭ
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻏﯿﺮﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﮔﺘﯽ‘
ﯾﮧ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ:

اے ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ !
ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻏﻼﻣﻮ ! ﺳﻨﻮ !
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﺳﻮﮐﮫ ﮔﺌﮯ
ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺝ ﮈﻭﺏ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﺏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﻄﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻭﺍﺳﻄﮧ؟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮباﺯﻭ ﺍﺏ ﺷﻞ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﻠﻮﺍﺭیں زنگ آلود‘

ﺍﺏ ﮨﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺁﻗﺎﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺳﺐ ﮨﻤﺎﺭﮮ
ﻏﻼﻡ ﮨﻮ۔
ﺩﯾﮑﮭﻮ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺳﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﮐﯿﺴﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻏﻼﻣﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻧﭽﮯ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﺎﻻ ﮨﮯ‘

ﮨﻤﺎﺭﺍ لباﺱ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻃﻮﺭ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺮﻓﺨﺮ ﺳﮯ
ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ
ﺑﭽﮯ ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻗﻮﻣﯽ ﻧﺸﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺷﻌﺎﺭ ﭨﺎﺋﯽ
ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮑﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻟﺒﺎﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫﮐﺮ
ﮐﯿﺴﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻝ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ؟
ﮨﻢ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﻧﮩﯿﮟ تھے‘ ﮨﻢ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﻭﺩﻣﺎﻍ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻏﻼﻡ ﺑﻨﺎ ﭼﮑﮯ تھے‘ ﺍﺏ ﺗﻢ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮ‘ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﮯ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮ‘

اﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ۔
ﺍﺏ ﺗﻢ ھﺮﺷﻌﺒﮧ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﮨﻮ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻃﻮﺭ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻣﺎﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮨﯿﮟ‘
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺳﮑﻮﻟﻮﮞ اﻭﺭ ﮐﺎﻟﺠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻣﺮﺗﺐ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﻧﺼﺎﺏ ﮨﮯ‘

تمھاﺭﮮ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ
ﺟﯿﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﮑﮧ ﮨﮯ‘
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﮑﮯ ﮐﻮ ﮨﻢ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﭩﯽ ﮐﺮ ﭼﮑﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻢ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﮑﻢ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺳﺮﺗﺎﺑﯽﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﺗﻢ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺮﺑﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮﻗﺮﺽﺩﺍﺭ ﮨﻮ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﻌﯿﺸﺖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻗﺒﻀﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ‘

تمھاﺭﯼ ﻣﻨﮉﯾﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺭﺣﻢ ﻭﮐﺮﻡ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﺗﺠﺎﺭﺗﯽ ﺍﺩﺍﺭﮮ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﮑﮯ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘

ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮍﺍ ناﺯ ﺗﮭﺎ ‘ ﺗﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ”ﺫﺭﺍ ﻧﻢ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﭩﯽ ﺑﮍﯼ ﺯﺭﺧﯿﺰ ﮨﮯ ﺳﺎﻗﯽ“
ﺗﻮ ﺳﻨﻮ! ﺍﺱ ﺯﺭ ﺧﯿﺰ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﻮ ﮨﻢ ﻧﮯ ھﯿﺮﻭﺋﻦ ﺑﮭﺮﮮ ﺳﮕﺮﯾﭧ‘ ﺷﮩﻮﺕ ﺍﻧﮕﯿﺰ ﺗﺼﻮﯾﺮﻭﮞ ‘
ﮨﯿﺠﺎﻥ ﺧﯿﺰ ﺯﻧﺎ ﮐﮯ ﻣﻨﺎﻇﺮ ﺳﮯ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﮨﻮﺱ زﺭ ﮐﺎ ﺁﺏِ ﺷﻮﺭ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﮐﮯ ﺑﻨﺠﺮ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔

تمھیں اﭘﻨﯽ ﺍﻓﻮﺍﺝ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﺍ ﮔﮭﻤﻨﮉ ﺗﮭﺎ‘
ﺍﺏ ﺟﺎﺅ! ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﮯ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﺧﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ‘ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ تمھاﺭﺍ ﺳﺎﺭﺍ ﻧﻈﺎﻡ ﺩﺭﮨﻢ ﺑﺮﮨﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ‘
ﺍﺏ ﺗﻢ ﺑﻐﯿﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻟﺌﮯ ﮐﺴﯽ ﭘﺮ ﻓﻮﺝ ﮐﺸﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ۔

بوﺳﻨﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺍﻕ ﮐﮯ ﺣﺸﺮ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ۔

ﺟﺎﺅ ! ﺍﺏ ﻋﺎﻓﯿﺖ ﺍﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﻮ ﻃﺮﺯ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻃﺮﺯ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ‘
ﺍﺱ ﺳﮯ ﺳﺮﻣﻮ ﺍﻧﺤﺮﺍﻑ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ‘
ﺧﺒﺮ ﺩﺍﺭ ! ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻏﻼﻣﯽ ﺳﮯ نکلنے ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻣﯿﺪ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ھﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺗﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﻮ ﮔﮯ‘
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺟﺘﻨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﮯ ﻣﺤﺮﮐﺎﺕ ﮨﻮﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﯾﻌﻨﯽ اﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﭘﺨﺘﮕﯽ ‘ ﺟﻮﺵِ ﺟﮩﺎﺩ‘
ﺑﺎﻟﻎ ﻧﻈﺮﯼ ‘ ﻏﯿﺮﺕ ﺩﯾﻦ ﻭﮦ ﺳﺐ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ‘ ﻣﻔﮑﺮﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻋﺎﻟﻤﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﭼﻨﺪ ﺁﺳﺎﺋﺸﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﭨﯽ ﻭﯼ ﮐﮯ
ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﮮ ﮐﺮ‘
ﺳﻨﮕﮭﺎﺭ ﻭ ﺁﺭﺍﺋﺶ ﺣﺴﻦ ﮐﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ اﺗﺮ ﻭﺍﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﻋﺮﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﻓﺤﺶ ﻓﻠﻤﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺮﺩﺍﻧﮕﯽ ﮐﯽ ﺟﮍ ﮐﺎﭦ ﺩﯼ ﮨﮯ۔
ﺍﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﻟﺪ‘ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﺎﺭﻕ‘
ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻼﺡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﭨﯿﭙﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ھﻮﺳﮑﺘﺎ۔

اﻭﺭ ﺳﻨﻮ ! ﮨﻢ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ‘
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ‘
ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻋﻠﻤﺄ ﮐﮯ‘ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﺍﻭﺭﻣﺪﺭﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺗﮑﻔﯿﺮ ﮐﺮﮐﮯﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﻟﮍ ﻟﮍ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﻭﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺎ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﺍﻧﺸﻮﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻔﮑﺮﻭﮞ ﻧﮯ ترﻗﯽ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮈﺭﻥ ﮐﮩﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﺷﻮﻕ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺤﺪ اﻭﺭ ﺯﻧﺪﯾﻖ ﺑﻦ ﮐﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻓﻠﺴﻔﮯ ﮐﯽ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﮐﯽ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮔﺎﮨﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺼﺎﺏ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ
ﻧﻮﺟﻮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻭﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﻃﺮﯾﻘﮯ
ﺳﮯ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ ﺑﻐﺎﻭﺕ ﭘﺮ ﺍﮐﺴﺎﯾﺎ‘
تمھارے ﺻﺎﺣﺒﺎﻥ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻭﺳﺎﺋﻞ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺀ‘ ﺑﮯﻏﯿﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺩﯾﻦ‘ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﺮﺳﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﮨﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﯽ ﺍﺷﺎﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ‘

ھﻢ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺷﮑﺮ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯿﮟ ‘ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻣﺬﮨﺐ ﻧﮯ
ﮐﯿﺴﯽ ﮐﯿﺴﯽ ﭘﺎﺑﻨﺪﯾﺎﮞ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻟﮕﺎﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﻭﮦ ﺣﺮﺍﻡ ‘ ﯾﮧ ﺟﺎﺋﺰ ﻭﮦ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ‘ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮ تنگ ﮐﺮﺩﯼ ﺗﮭﯿﮟ‘ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ رﺍﺳﺘﮧ ﺩﮐﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺣﺮﺍﻡ ﺣﻼﻝ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﺳﮯ آﺯﺍﺩ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔ ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ

اے ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ ! ﺍﮮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻏﻼﻣﻮ !
ﮐﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﻮ  ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

(ﻣﺄﺧﻮﺫ: ﻣﻐﺮﺑﯽ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﺤﺪﺍﻧﮧ
ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﺎ ﻧفﻮﺫ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺳﺒﺎﺏ)

اہل سنت کی شیرازہ بندی

اہل سنت کی شیرازہ بندی ـــــ مسائل اور امکانات
از:مولانا محمد احمد مصباحی ناظم تعلیمات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ،یوپی
                        .................................................  
       آج جب ہم اہل سنت کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ان میں بنیادی فکری و اعتقادی اتحاد کے باوجود عالمی یا ملکی یا صوبائی یا  ضلعی سطح پر عملاً کوئی باضابطہ ارتباط نظر نہیں آتا۔یوں اپنی نجی ضروریات اور وقتی کاموں کے لیے لوگ آپس میں رابطہ ضرور رکھتے ہیں مگر جماعتی و اجتماعی انداز میں کوئی باقاعدہ تنظیم کسی میدان میں نہیں۔  نہ کوئی دعوتی  و اصلاحی مرکز ہے جس پر سب متفق ہوں، نہ کوئی روحانی قیادت ہے جو سب کا مرجع اور سب پر اثر انداز ہو، نہ کوئی تعلیمی  و تربیتی ادارہ ہے  جس میں سب کے لیے کشش ہو  اور جس کی پیشوائی  سب کو قبول ہو ، نہ کوئی  علمی تحقیقی تصنیفی انجمن ہے جسے قبول عام حاصل ہو ، نہ دوسرے سماجی رفاہی قومی میدانوں میں کام کی کوئی اجتماعی ہیٔت ہے جو قابل ذکر ہو۔ اور سیاسی میدان تو بالکل خالی ہے ، اس میں نہ ہماری کوئی نمائندگی ہے، نہ قومی و ملکی سطح پر ہمارا کوئی نام و نشان ۔یہ پورا وسیع  و عریض میدان غیروں کے لیے محفوظ ہے۔
اس سے انکار نہیں کہ  انفرادی طور پر جماعت میں بہت سارا کام ہورہاہے  اور اسی کی بدولت جماعت کا کارواں کسی طرح    رواں دواں  ہے لیکن اجتماعیت اور تنظیم کی شان ہی الگ ہے اور اس کے ثمرات وبرکات ہمہ گیر اور پائدار ہیں۔
مسائل: اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل سنت وجماعت جن کا وجود عہد رسالت سے آج تک پورے تسلسل کے ساتھ  چلاآرہاہے، یہی ہمیشہ  بیرونی واندرونی سازشوں کا نشانہ بنے۔     خارجی طاقتوں کا نشانہ بھی یہی رہے اور داخلی فتنوں کا شکار بھی یہی ہوئے ۔ خلافت راشدہ کے دور اخیر میں خوارج کا گروہ ہمارے ہی درمیان سے نکلا اور خود مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہوا، اس کے بعد بھی ہر دور میں ایک تسلسل کے ساتھ فتنے اٹھتے، فرقے بنتے اور باطل مذاہب بڑھتے رہے۔  اہل سنت کی تعداد گھٹتی رہی ، اہل حق کو اکثر ادوار میں بیرونی دشمنوں سے بھی مقابلہ کرنا پڑا اور عوام کو داخلی فتنوں سے بچانے کے لیے بھی سرگرم رہنا پڑا۔ ان کی دردمندی ، مخلصانہ سرگرمی اور ہمہ جہت مساعی کا نتیجہ یہ ہوا کہ  بہت سے فرقوں کا خاتمہ ہوگیا اور آج ان کی طرف  اپنے کو منسوب کرنے والا کوئی نہ رہا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے اٹھائے ہوے کچھ خیالات بعد کے نئے فرقوں میں در آئے  اور ان کے اثرات آج بھی باقی ہیں مگر قدیم علماے حق اور ان کے معاونین  سے جو کچھ ہوسکتا تھا اس میں انھوں نے کوئی کسر روا                             نہ رکھی۔
اب اہل سنت پر جن فرقوں کا حملہ زیادہ شدت سے ہورہا ہے  وہ تقریباً دوسوسال پہلے کی پیداوار ہیں، یہ اہل سنت ہی کے درمیان سے نکلے اور ایک نیا مذہب بنا کر  اہل سنت کو صراط مستقیم سے ہٹانے  اور نئے جال میں پھنسانے کی مہم تیزی سے شروع کردی۔ اس کے لیے انھوں نے مختلف حربے استعمال کیے:
۱-کتابیں لکھیں  جن میں اہل سنت کے عقائد  و معمولات کو شرک قراردیا۔
۲-اجتماعات اور جلسے کرکے  لوگوں کا ذہن مسموم کرنے کی کوشش کی۔
۳-لوگوں سے مکانوں ، دکانوں پر ملاقات کرکے انھیں اپنی طرف مائل کیا۔
۴-اہل سنت کے درمیان اپنے مکاتب ومدارس قائم کرکے تعلیم و تربیت کے نام پر ہماری نسل کو قریب کیا  پھر اسے اپنا ہم عقیدہ اور اپنے مذہب کا داعی ومبلغ بنادیا اسی طرح اہل سنت کے درمیان  مسجدیں بنائیں  یا ان  کی مسجدوں پر قبضہ کیا پھر نمازیوں کو اپنا ہم عقیدہ بنالیا۔
۵-اسکول اور کالج قائم کرکے عصری تعلیم کا شوق دلایا پھر طلبہ کے ذہن میں اپنا عقیدہ اور مذہب بھی اتار دیا۔
۶- کلمہ ونماز کی تبلیغ کے نام پر ایک جماعت قائم کی اور اس کے ذریعے  اہل سنت کے بےشمار افراد اور چھوٹی بڑی بہت سی آبادیوں کو  اپنا ہم نوا بنالیا۔
۷-ان کے علاوہ تحقیق و تصنیف، سیاسی وسماجی نقل و حرکت اور دوسرے ہر قسم کے ذرائع سے لوگوں کو پہلے اپنا مداح  و معتقد پھر اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کی۔
ان حرکتوں سے نقصان صرف اہل سنت کو پہنچا، انہی کی تعداد گھٹی ، انہی کے افراد اہل باطل کا نشانہ بنے اور وہی طرح طرح کی سازشوں کا شکار ہوئے۔ اور یہ سلسلہ آج بھی پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔
اب اہل سنت کے سامنے دو چیلنج ہیں (۱) اپنے ٹوٹے ہوئے افراد کو پھر جوڑنا (۲) دیگر افراد کو شکار ہونے سے بچانا
اس کے لیے ضروری ہے کہ دشمن کے پاس جتنے اسلحے اورہتھیار ہیں ان سے زیادہ ہتھیار اور ان سے قوی اسلحےہمارے پاس ہوں ،ان کے اندر جو سرگرمی اور مستعد ی ہے  اس سے زیادہ ہمارے اندر ہو۔
اس کے لیے باہمی اختلاف و انتشار سے دوری اور تحفظ عقائد و فروغ مسلک کے لیے اجتماعیت اور شیرازہ بندی کس قدر ضروری ہے، یہ اہل دانش کے لیے محتاج بیان نہیں۔
امکانات: پیشوایان اہل سنت اور درد مندان ملت اگر دل وجان سے متوجہ ہوں تو اسباب و وسائل کی فراہمی ہمارے لیے بھی ممکن ہے اور ایسا ہوسکتا ہے کہ کام کو مختلف حصوں اور شعبوں میں تقسیم کرکے ہر شعبے کے لیے لائق اور فعال افراد پر مشتمل مجلسیں یا بورڈ  بنادیے جائیں تاکہ کام آسانی سے ہوسکے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ تین چار یا چار پانچ افراد پر مشتمل ایک تھنک ٹینک یا مجلس اعلیٰ ہو جو پوری بالغ نظری کے ساتھ تمام امور کے لیے  منصوبہ سازی، مجالس سازی، اصول سازی اور تنفیذ وترویج کی ذمہ دار ہو۔ اسی طرح مشکلات اور رکاوٹوں پر غور کرنے  اور انھیں دور کرنے پر بھی اس کی نظر ہو۔
یہ کام ممکن ہونے کے ساتھ مشکل ضرور ہے۔ وقت اور سرمایے کی بڑی قربانی چاہتا ہے۔ اتنے بڑے ملک میں  پھیلے ہوئے اہل سنت کی شیرازہ بندی اور ہر خطے کے لوگوں کو  متحرک وفعال بنانا اور  شاطرانہ حملوں کے دفاع کے لیے بیدار وتیار رکھنا کوئی ایسا کام نہیں  جو چند دنوں یا ہفتوں کی محنت میں انجام پذیر ہوجائے۔ مہینوں بلکہ برسوں کی مدت درکار ہے۔
ہوسکتا ہے کہ پہلے ہرعلاقے کا دورہ کرکے وہاں کے حالات اور ضروریات کا جائزہ لیاجائے، قابل عمل اور لائق اعتماد افراد تلاش کیے جائیں، پھر جہاں مکتب ، مسجد، مدرسہ ، اسکول ، کالج، شفاخانہ وغیرہ قائم کرنے کی ضرورت ہو ان کا قیام عمل میں لایا جائے  اور طے شدہ خطوط پر ان کاانتظام معتمد افراد کے سپرد کیا جائے۔ اور  جہاں پہلے سے ادارے قائم ہیں انھیں بھی تنظیم سے منسلک کرنے کی کوشش کی جائے اور انھیں زیادہ فعال اور کارآمد بنایا جائے۔
اس طرح ہر جگہ کے حالات سے واقفیت بھی بہم ہوگی اور ہر علاقے کے نمائندے مجلس اعلیٰ کے ماتحت مجلس منتظمہ یا مجلس شوریٰ میں شامل ہوں گے اور برابر ان سے رابطہ رہ سکے گا۔
بہت بڑی مرکزی عمارت اور بہت سے آفسوں اور ورکروں کی بھی ضرورت ہوگی جو ہرعلاقے کے حالات جاننے ، ان کی رپورٹ پیش کرنے اور عام ضروریات کے لیے اپنے متعلقہ مقامات کا  دورہ کرنے کے ذمہ دار ہوں۔
ساری تفصیلات تھنک ٹینک یا مجلس اعلیٰ طے کرسکتی ہے۔ اگر ملک گیر پیمانے پر آغاز مشکل ہو تو  جس حد تک بآسانی ابتدا ہوسکے اسی حد پر کام شروع کیا جائے۔  اسی طرح جو کام انفرادی طور پر  یا کسی مجلس اور بورڈ کی ماتحتی میں ہورہے ہیں  انہی کو تقویت دی جائے اور جو میدان بالکل خالی ہے اس پر خاص توجہ صرف کی جائے۔
سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ پیش قدمی  کس طرح سے ہو ؟ کہاں سے ہو؟         اور کون کرے؟           بہر حال یہ اقدام ایک یا چند حساس، دردمند ، مخلص اور توانا قلب وجگر کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔ مگر قوم کےخسارے سے صرفِ نظر کسی طرح روا نہیں ۔اقدام ہونا چاہیے اور ضرور ہونا چاہیے۔واللہ الموفق والمعین۔
اندیشے:  اگر سارے اکابر اور پیشوایان قوم اس میں دل چسپی نہیں لیتے تو جو درد مند اور حساس حضرات ہیں وہی پیش قدمی کرکے کام شروع کریں  اور آگے بڑھائیں باقی حضرات سے گزارش کی جائے  کہ اگر حمایت اور مشارکت نہیں کرسکتے تو مخالفت اور رکاوٹ سے بھی باز رہیں    ورنہ احکم الحاکمین کے حضور اہل سنت کے عظیم خساروں کا حساب دینے کے لیے تیار رہیں۔
اگر جماعت کی اکثریت خصوصاً اہل علم و دانش اور اہل ثروت میں یہ احساس بیدار ہوجاتا ہے کہ ہم مسلسل خساروں سے دوچار ہیں اور تلافی کے لیے میدان عمل میں جان ودل ،ہوش وخرد، اور زبان و عمل  کے ساتھ  سرگرم ہونا ضروری ہے  تو کام کی راہیں کھل سکتی ہیں  ورنہ غفلت وبے حسی کے ماحول میں کام یابی کی توقع فضول ہے۔  مگر میرا                        اندازہ ہے کہ اکثریت حساس اور بیدار ہونے کے ساتھ کسی پیش قدمی کی منتظر ہے۔                 رب تعالیٰ ہمارا حسنِ ظن راست فرمائے اور سب کو حسب درجہ ومقام اور حسب ہمت وصلاحیت توفیق عطاء فرمائے ۔
     محمد احمد مصباحی
مرتب:  اختر حسین فیضی مصباحی

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...