Sunday, March 31, 2019

اتحاد زندگی اور اختلاف موت

"اتحاد زندگی اور اختلاف موت"
بہت سے مدارس اسلامیہ میں" علمائے کرام " کا جو استحصال ہو رہا ہے وہ سب پر عیاں ہے جو لوگ  چاپلوس ہیں ان کو خود داری مر چکی ہے ان سے سروکار نہیں ہے لیکن  جو خود دار ہیں وہ ضرور آواز اٹھائیں آج میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا جس نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہوا یوں کہ جن مدارس کو مدرسہ بورڈ لکھنؤ کے امتحانات کا جانچ سینٹر بنایا گیا کچھ جگہوں پر  کاپی جانچ کرنے میں کچھ  گڑبڑی پائی گئی جس کی وجہ سے رجسٹرار صاحب نے باقاعدہ لیٹر جاری کرکے پھٹکار لگائی  اور اس کے تعلق سے  صاف ستھرا بنانے کا آڈر جاری کیا جس سے دلال اور دولت کے حریص و لالچی  اور مدارس اسلامیہ کو کاروبار بنانے والے،حرام کمائی کھانے والے منحوس لوگ بوکھلاہٹ کے شکار ہو گئے  اور اپنی غلطی ماننے کے بجائے علمائے کرام کو مکمل  قصور وار ٹھہراتے ہوئے خود کو گندی نالی کا کیڑا ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی تہذیب و ثقافت کا پتہ بتاتے ہوئے" علمائے کرام" کے لیے وہ جملے استعمال کرنے لگے جس کو علمائے کرام کے مقام و مرتبہ کا خیال کرتے ہوئے  آوارہ اور اوباش لڑکے بھی استعمال نہ کریں  اور ایسے موقع  پر وہاں پر موجود علمائے کرام کی خاموشی اس بات پر دال پر ہے کہ ان کا احساس مر چکا ہے ان کو بس اپنی نوکری پیاری ہے کل جب ان کی باری آئے گی تو انہیں اس کا احساس ہوگا! اور کچھ مدارس اسلامیہ کے متظمین ایسے کمینے اور  گستاخِ علمائے کرام  ہیں جو دن و رات صرف علمائے کرام کی برائی کرتے ہیں اور  علماء کرام کی عظمت وعزت سے غافل رہتے ہیں ان کے ساتھ انتہائی نارواتعلقات رکھتے ہیں ان کے بارے میں یہ یقین کر لیں کہ ان کی سخت  گرفت ہوگی اور ان کی کتے یا خنزیر کی طرح موت ہوگی جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو علماءسے بغض رکھنے اور
ان کی گستاخی کرنے سےمنع فرمایا ہے
آپ ﷺکا فرمان ہے کہ" اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلَكَ (مسند البزار :3626 )
ترجمہ:عالم ،متعلم،سامع یا علم سے محبت کرنے والے بنیں اگر اس کے علاوہ پانچویں بنیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔‘‘
یعنی علم وعلماء سے بغض وکدروت کرنے والے نہ بنیں بلكہ محبت كرنے والے بنیں اور حضرت امام احمد بن اوزاعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ"الوقيعة في اھل العلم ولا سيما اکابرھم من کبائر الذنوب"اہل علم کی مذمت و توہین کرنا،خاص طور سے بڑے علماء کرام کی ، کبیرہ گناہوں میں سے ہے ( الرد الوافر لابن ناصر الدين الدمشقي : 283 )
اور علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ‘‘علم اور علماء کی توہین کفر ہے۔ (الاشباہ والنظائر، باب الردۃ : ۱۶۰ )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :لحوم العلماء مسمومة، من شمها مرض، ومن أكلها مات (المعيد في أدب المفيد والمستفيد ،ص: 60)’’علماء کرام کا گوشت زہریلا ہوتا ہے جو اس کو سونگھے گا بیمار پڑ جائے گا اور جو اس کو کھائے گا مر جائے گا۔‘‘ایسے لوگوں کی زندگی باری تعالی تنگ کردیتا ہے اور ایسے افرادکو دنیا میں ہی ذلیل ورسوا کرکے تمام آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنادیتا ہے جو لوگ علماء کرام پر تبرا بازی و الزام تراشی کیا کرتے ہیں۔
اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب میری امت اپنے علماء سے بغض رکھنے لگے گی تو اللہ تعالی ان پر چار قسم کے عذابات مسلط کرے گا:بِالْقَحْطِ مِنَ الزَّمَانِ، وَالْجَوْرِ مِنَ السُّلْطَانِ، وَالْخِيَانَةِ مِنْ ولَاةِ الْأَحْكَامِ، وَالصَّوْلَةِ مِنَ الْعَدُوِّ"قحط سالی ، بادشاہ کی جانب سے مظالم ، حکام کی خیانت ، دشمنوں کے مسلسل حملے (مستدرک حاکم 4؍361) اور امام اہل سنت اعلی حضرت قدس سرہ اپنی کتاب فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں کہ" علمائے دین کی توہین کرناسخت حرام، سخت گناہ، کبیرہ، عالم دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے حضرت  محمد ﷺکا نائب ہے،اس کی تحقیر و توہین معاذ اللہ جناب محمدﷺکی توہین ہے اورمحمد ﷺکی بارگاہ میں گستاخی موجب ِ لعنت ِ الٰہی و عذابِ الیم ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۳ص۶۴۹) حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :من استخف بالعلماء ذھبت آخرتہ"جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اخروی زندگی سے محروم رہے گا اور یہ بھی واضح رہے کہ کمی کوتاہی ہر بندے سے ہوتی ہے علماء کی چھوٹی موٹی کمی کوتاہی پر اپنے منہ کو بند رکھنا چاہیے اپنی زبان کو علماء کی غیبت سے محفوظ رکھنی چاہیے علماء کی خوبی اور نیک باتوں کو اپنانا چاہیے کیونکہ علماء کا مقام امت میں نائبین انبیاء کا ہے، علماء انبیاء کے وارث ہیں جو لوگ  علماء کی شان میں گستاخی کرنا اپنا مقصد سمجھتے ہیں اور ان پر لعن و طعن کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ  علماء کی شان میں گستاخی کرنا، ان کی اہانت کرنا، ان کا مذاق اڑانا اور تحقیر کرنا یہ سب انتہائی نقصان کا باعث ہے ان باتوں سے ایمان جانے کا خطرہ ہے۔حضرت علامہ عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللہ تعالی  جو اکابر صوفیہ میں ہیں انہوں نے کتاب عہد محمدیہ میں لکھا ہے کہ ہم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ عام عہد لیا گیا ہے کہ ہم علماء کی اور صلحاء کی اور اکابر کی تعظیم کیا کریں چاہے وہ خود اپنے علم پر عمل نہ کیا کریں اور ہم لوگ ان کے ذاتی معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دیں اور  مولانا عبد الحی لکھنوی علیہ الرحمہ  اپنے فتوی میں لکھتے ہیں: اگر گالیاں دینے والے کا مقصود علم اور علماء کی تحقیر کی وجہ سے ہے تو فقہاء اس کے کفر کا فتوی دیتے ہیں ورنہ اگر کسی اور وجہ سے ہے تو تب اس شخص کے فاسق و فاجر ہونے میں اللہ کے غصہ اور دنیا اور آخرت کے عذاب کے مستحق ہونے میں شبہ نہیں ہے لہذا علمائے کرام  کے بارے میں اپنی زبانوں کو لگام دینے میں ہی عافیت ہے ان کی شان میں  بے ادبی،  تذلیل، حقارت اور توہین کرنا کسی صورت جائز نہیں ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ ان باتوں سے اہل علم کی شان میں کوئی کمی نہیں آئے گی البتہ اپنا ہی خسارہ اور نقصان ہے۔اور آخری بات یہ ہے کہ اورکوئی  کسی عالم کی توہین کر رہا ہے تو اس گستاخ آوارہ کے خلاف سب علمائے کرام  مل کر آواز اٹھائیں اور  ان کا بائیکاٹ کریں نہ اس کا نکاح  پڑھائیں اور اس کی نماز جنازہ میں شریک ہوں اور مدارس اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے والی تنظیموں کے ذمہ داران  سے گزارش ہے کہ ایسے شخص کے لیے  سخت ایکشن لیں اور  اس کو اس کی اوقات دیکھادیں تاکہ کسی بھی مدرسہ میں کوئی بھی ذمہ دار  کسی بھی عالم کی توہین اور گستاخی کرنے کی ہمت نہ کر سکیں اور یہ بات ہمیشہ ذہن میں کر لیں کہ ان کا کام علمائے کرام کے بغیر نہیں چلے گا ۔

ایک عورت کی نایاب خوبی

*پھر لوگ کہتے ہیں کہ عورت نے کیا کیا ھے*۔
جب کوئی عورت بچے کی پیدائش کے وقت تکلیف سے چیخ رہی ہوتی ہے تڑپ رہی ہوتی ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس وقت اس کے شوہر کو لا کے ادھر کھڑا کروں تا کہ اسے پتا چلے اس کی بیوی اس کی نسل کی خاطر کیسے تڑپ رہی ہے تا کہ اسے بعد میں وہ زندگی میں کبھی نا کہہ سکے
کہ تم نے کیا ہی کیا ہے میری خاطر؟؟
تم نے اولاد پیدا کر کے کوئ انوکھا کام نہیں کیا
کبھی اسے گھر سے نکال دینے اور طلاق کی دھمکی نہ دے
ایک پل میں نہ کہہ دے اس کے ماں باپ کو کہ لے جاؤ اپنی بیٹی کو :
کاش ۔ ۔ ۔
کاش کہ ایک پل میں عورت کو ایک کوڑی کا کر دینے والے مرد بھی اس تکلیف کا اندازہ کر سکیں جو بیس ہڈیوں کے ایک ساتھ ٹوٹنے کے برابر ہوتی ہے۔

ایک عورت کی نایاب خوبی

*مرد کو سمجھنے کی جتنی صلاحیت اللہ پاک نے عورت کو بخشی ھے مرد کو اس کی ھوا بھی نہیں لگی* ،،
مرد کے معاملے میں خود اللہ پاک نے عورت میں وہ (Sensor) لگایا ھے جو دھواں سونگھ کر آگ کی خبر دیتا ھے ،، (MBA) شوھر دوست کو گھر لاتا ھے اور مڈل پاس بیوی اس کو دس منٹ میں بتا دیتی ھے کہ اس کی نظر ٹھیک نہیں ،، عورت میں مرد کے بارے میں اتنی (Applications) رکھی گئ ھیں کہ وہ اس کی نظر پڑھ سکتی ھے ، اس کی چال پڑھ سکتی ھے ، اس کے الفاظ پڑھ سکتی ھے ،، یہانتک کہ وہ مرد کی مصنوعی اور حقیقی مسکراھٹ کے فرق کو دن اور رات کی طرح جانتی ھے

*- جھوٹ پکڑنے والی مشین کو دھوکا دیا جا سکتا ھے* ،

عورت کو دھوکا دینا ناممکن ھے ، وہ مروت سے چپ کر جائے تو اس کی مہربانی ھے ،جھگڑا دفتر میں ھوتا ھے اور اس کی خبر وہ آپ کا مُکھڑا دیکھ کر دے دیتی ھے ،، آپ ٹریفک وارڈن سے لڑ کر مسکراتے ھوئے گھر میں داخل ھوں مگر وہ اچانک پیچھے سے آ کر کہتی ھے " کس سے لڑ کر آئے ھو ؟ " اور آپ کا تراہ نکل جاتا ھے ،،، جس خدا نے عورت کو جسمانی طور پہ نازک بنایا ھے اس خدا نے نفسیاتی طور پر اس کو بڑا قوی بنایا ھے ،پیغمبروں کی حفاظت عورت کو سونپی گئ ھے ،، کتنے بڑے امتحان کے لئے بھولی بھالی مریم علیہ السلام کو چنا گیا ھے " موسی علیہ السلام کی ماں سے کیا کام لیا ؟ موسی علیہ السلام کی 9 سال کی بہن سے کیا کام لے لیا ؟ فرعون کی بیوی سے کیا کام لے لیا ؟ اور شیخِ مدین کی بیٹی نے باپ کے سامنے اجنبی موسی کا پورا (Curriculum) بیان کیا تھا یا نہیں ؟ کیا وہ ان کو جانتی تھی ؟ اسے کیسے پتہ چل گیا کہ وہ مارشل آرٹس کے ماھر ھیں اور امین بھی ھیں حیاء والے بھی ھیں،
جس اللہ نے عورت کو جسمانی طور پہ کمزور بنایا ھے اس اللہ نے ہی اسے نفسیاتی طور پر بہت مظبوط بھی بنایا ہے..!
لہذا عورتوں کو ہر لحاظ سے کمزور سمجھنا یہ مردوں کی غلط فہمی ہے ۔اور ایک عورت کو وہی مقام دینا چاہیے جو ایک مرد اپنے لیے حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ان کی عزت ان کا اخترام ایسا ہی ضروری ہے جیسے وہ اپنےلیے دوسروں سے سوچتا ہے ۔

قرآن مجید میں سولہ دلوں کا ذکر

قرآن مجید میں سولہ دلوں کا ذکر
*(۱) سخت دل :* یہ ایسے دل ہیں جو عبرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی سخت ہی رہتے ہیں ۔ مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کا ر تمہارے دل سخت ہو گئے ہیں پتھروں کی طرح سخت بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے کیونکہ پتھروں میں کوئی تو ایسا بھی ہوتا ہےجس میں سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ۔کوئی پھٹتا ہے اور اسمیں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرزکر گر بھی جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان (سخت دل والوں) سے بے خبر نہیں (الم:ع۷)

*(۲) زنگ آلود دل:* اعمال بد کی وجہ سے دلوں پر زنگ چڑھ جاتا ہے ۔اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے انسانوں کو حق بات بھی افسانہ ہی نظر آتی ہے۔ بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔(المطففین:۱۴)

*(۳) گناہ آلود دل:* شہادت کو جو لوگ چھپاتے ہیں اور حق بات کہنے سے گریز کرتے ہیں سمجھ لو ان کے دل گناہ آلودہو گئے ہیںاور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر
نہیں۔ (البقرہ:۲۸۳)

*(۴) ٹیڑھے دل:* جو لوگ فتنہ وفسادپھیلاتے ہیں جان لو کہ ان کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ۔لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے رہتے ہیں اور ان کو معنیٰ پہنانے کی کو شش کرتے ہیں ۔حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (آل عمران :۷)

*(۵) دانش مند دل :* جسے دل کی کجی کا خوف ہو وہ دانش مند ہے۔دانش مند دل والے اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ (آل عمران:۸)

*(۶) نہ سوچنے والے دل:* جو لوگ اپنے دلوں سے سوچتے نہیں وہ جہنمی ہیںاور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے جن اور انسان ہیں جن کو ہم نے جہنم کیلئے پیدا کیا ہے ۔ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ۔ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں۔ (البقرہ)

*(۷) لرز اٹھنے والے دل:* اللہ کا ذکر سن کر جس کا دل لرز اٹھے وہ سچا مومن ہے ۔(الانفال:۳)

*(۸) ٹھپہ لگے ہوئے دل:* جو حد سے گذر جائیگا اس کے دل پر ٹھپہ لگ جا ئیگا۔یعنی ہدایت حاصل نہ کر سکے گا ۔اس طرح ہم حد سے گذر جانےوالوں کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیتے ہیں(یونس:۴۷)

*(۹) مطمئن دل:* اللہ کی یاد کرنے والا دل ہی مطمئن ہوتا ہے ۔اور ہم ہی اسے اطمنان دیتے ہیں۔ (الرعد:۲۸)

*(۱۰) مجرم دل:* اللہ کا کلام سننے کے بعد آگ کی طرح گرم ہو نے والا مجرم دل رکھتا ہے اس کے دل میں جرائم کی گرمی ہوتی ہے
(سورہ زمر:۱۱)

*(۱۱) کانپ اٹھنے والے دل:* اللہ کا ذکر سن کر جس کا دل کانپ اٹھے وہ مومن ہے ۔(الحجر)

*(۱۲) اندھے دل :* جو نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی عبرت حاصل نہ کرے اس کا دل اندھا ہے ۔(الحج۴۵)

*(۱۳) قلب سلیم دل :* حشر کے دن صرف قلب سلیم ہی فائدہ دے گا ۔جب کہ نہ کوئی مال فائدہ دے گا نہ اولاد بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لئے ہوئےاللہ کے حضور حاضر ہو۔( الشعر۸۸۔۸۹)

*(۱۴) بے ایمان دل:* جس کا دل کڑھنے لگے سمجھ لو کہ وہ بے ایمان اور منکر آخرت ہے۔(الزمر۴۵)

*(۱۵) متکبر دل:* اللہ ہر متکبر اور جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا (المومن۳۴)

*(۱۶) ایمان والے دل :* جن لوگوں کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلتے ہیں وہ ایمان والے ہیں ۔ (الحدید۱۶)

عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح

عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح
بشکل سوال و جواب
         
:سوال:-عوام میں مشہور ہے کہ روزہ رکھنے کے لئے سحری کھانا ضروری ہے تو کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب :-روزہ رکھنے کیلئے سحری کھانا ضروری نہیں بغیر سحری کے بھی روزہ رکھنا جائز ہے البتہ مستحب یہ ہے کہ سحری کھا کر روزہ رہے
(فتاوی فیض الرسول
ص 513 ج 1)
:سوال:-کیا انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
:جواب :-نہیں! انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
(فتاوی فیض الرسول
ص 516 ج 1)
:سوال :-ناپاکی کی حالت میں میاں بیوی روزہ رہے تو روزہ ہوتا ہے یا نہیں ؟
:-جواب :-ناپاکی  کی حالت میں روزہ رہے تو روزہ ہو جائے گا البتہ نماز نہ پڑھنے کے سبب دونوں گنہگار ہوں گے
(فتاوی فیض الرسول
ص514 ج 1 )
:-سوال :-2⃣1⃣ کیا رمضان کی راتوں میں میاں بیوی کا ہم بستر ہونا گناہ ہے ؟
:-جواب :-رمضان کی راتوں میں میاں بیوی کا ہم بستر ہونا گناہ نہیں بلکہ جس طرح رمضان کی راتوں میں کھانا پینا جائز ہے اسی طرح میاں بیوی کا ہم بستر ہونا بھی جائز ہے
(فتاوی فیض الرسول
ص 516 ج1 )
:-سوال :-3⃣1⃣افطار کی دعا افطار کے   بعد  پڑھے یا پہلے ؟
:-جواب :-افطار کے بعد پڑھے (فتاوی فیض الرسول
ص 651 ج 4)
:-سوال :- 4⃣1⃣درمیان اذان افطار کریں یا اذان کے بعد ؟
:-جواب :-سورج ڈوبنے کے بعد بلا تاخیر فورا افطار کریں اور اگر افطار سے پہلے اذان شروع ہو جائے تو ٹھوڑا کھا پی کر ٹھہر جائیں اور اذان کا جواب دیں پھر اس کے بعد جو چاہیں کھائیں پئیں اس لئے کہ اذان کے وقت جواب کے علاوہ کسی دوسرے کام میں مشغول ہونا منع ہے
(فتاوی فیض الرسول
ص 514 ج  1 )
:-سوال :-5⃣1⃣ کیا روزہ دار کیلئے دوپہر بعد مسواک کرنا مکروہ ہے ؟
:-جواب :-مسواک دوپہر سے پہلے کرے یا دوپہر کے بعد کسی وقت مکروہ نہیں
بہار شریعت میں ہے" اکثر لوگوں میں مشہور ہے کہ دوپہر بعد روزہ دار کے لئے مسواک کرنا مکروہ ہے یہ ہمارے مذہب کے خلاف ہے "
(ص 997 ج 5
مکتبہ المدینہ)
:-سوال:-6⃣1⃣کچھ لوگ اعتکاف میں چپ چاپ بیٹھے رہنے کو ضروری سمجھتے ہیں کہ بولنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے  کیا یہ صحیح ہے ؟
:-جواب :- اعتکاف میں نہ چپ رہنا ضروری ہے اور نہ محض خاموشی کوئی عبادت بلکہ حالت اعتکاف میں قرآن مجید کی تلاوت کرے تسبیح درود کا ورد رکھے نوافل پڑھے اور دینی کتابوں کا مطالعہ کرے محض چپ چاپ بیٹھے نہ رہے البتہ بری باتوں سے چپ رہنا ضروری ہے
(درمختارص 441 ج 3)
:-سوال :- 7⃣1⃣کیا کھٹی ڈکار آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
:-جواب :-کھٹی ڈکار آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ سحری کے وقت کھانے میں احتیاط برتنا چاہئیے
(فتاوی رضویہ
ص 516 587 ج 4 )
:-سوال :-8⃣1⃣جمعہ کو روزہ کے لئے خاص کرنا کیسا ہے ؟
:-جواب :- جمعہ کو روزہ کے لئے خاص کرنا منع ہے البتہ جمعہ کے پہلے یا بعد ایک دن اور روزہ رکھے تو اب جمعہ کے دن رکھنے میں کوئی حرج نہیں
(صحیح مسلم شریف
ص 360 ج 1 )

Saturday, March 30, 2019

اذان بلال اور سورج کا نکلنا

اذان بلال اور سورج کا نکلنا
عوام الناس سے لے کر خواص تک ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان میں لکنت تھی جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ اذان کے کلمات کو صحیح طور پر ادا نہیں کر پاتے تھے؛ ایک مرتبہ آپ کو اذان دینے سے روکا گیا اور جب آپ نے اذان نہیں دی تو سورج ہی نہیں نکلا!
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت بلال کی "سین" اللہ تعالی کے نزدیک "شین" ہے-
اس واقعے کو کچھ مقررین بڑے شوق سے بیان کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو بھی ایسی مسالے دار روایات سننے میں بڑا مزا آتا ہے-
کئی معتبر علما نے اس روایت کا رد کیا ہے اور اسے موضوع و منگھڑت قرار دیا ہے لیکن پھر بھی کچھ مقررین اپنی عادت سے مجبور ہیں- مقررین کی پیشہ ورانہ مجبوری اُنھیں ایسی روایات چھوڑنے نہیں دیتی،
ع    ذرا سا جھوٹ ضروری ہے داستاں کے لیے
اس روایت کے متعلق علماے محققین کی آرا ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:
(1) امام ابن کثیر (م774ھ) اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے-
(البداية والنهاية، ج5، ص477)
(2) امام شیخ عبد الرحمن سخاوی (م904ھ) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد برہان سفاقسی کے حوالے سے علامہ جمال الدین المزی کا قول نقل کرتے ہیں کہ یہ روایت عوام کی زبانوں پر تو مشہور ہے لیکن ہم نے کسی بھی کتاب میں اسے نہیں پایا-
(المقاصد الحسنة، ص190، ر221)
(3) امام سخاوی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ ابن کثیر نے کہا کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور اسی طرح علامہ جمال الدین المزی کا قول گزر چکا-
(ایضاً، ص397، ر582، ملتقطاً)
(4) علامہ عبد الوہاب شعرانی (م973ھ) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ عوام کی زبان پر تو مشہور ہے لیکن اصول میں ہم نے اس بارے میں کوئی تائید نہیں دیکھی-
(البدر المنیر فی غریب احادیث البشیر والنذیر، ص117، ر915 بہ حوالہ جمال بلال)
(5) علامہ شعرانی مزید لکھتے ہیں کہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں-
(ایضاً، ص186، ر1378)
(6) امام ملا علی قاری حنفی (م1014ھ) نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے-
(الاسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الکبری، ص140 ،ر76)
(7) علامہ بدر الدین زرکشی (م794ھ) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ حافظ جمال الدین المزی فرماتے ہیں کہ یہ روایت عوام کی زبان پر تو مشہور ہے لیکن اس بارے میں ہم نے امہات الکتب میں کچھ بھی نہیں دیکھا اور اس روایت کے بارے میں شیخ برہان الدین سفاقسی کا بھی یہی قول ہے-
(اللآلی المنثورۃ فی الاحادیث المشھورۃ، ص207، 208)
(8) علامہ ابن المبرد المقدسی (م909ھ) اس روایت کو لکھنے کے بعد علامہ جمال الدین المزی کا قول نقل کرتے ہیں کہ مستند کتب میں اس کا کوئی وجود نہیں-
(التخریج الصغیر والتحبیر الکبیر، ص109، ر554)
(9) علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی (م1162ھ) اس روایت کو لکھنے کے بعد امام جلال الدین سیوطی کا قول نقل کرتے ہیں کہ امہات الکتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا اور امام ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور علامہ جمال الدین المزی سے نقل کرتے ہوئے شیخ برہان سفاقسی فرماتے ہیں کہ عوام کی زبان پر تو ایسا مشہور ہے لیکن اصل کتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا-
(کشف الخفاء و مزیل الالباس، ص260، ر695)
(10) علامہ عجلونی مزید لکھتے ہیں کہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں-
(ایضاً، ص530، ر1520)
(11 تا 15) اس روایت کا رد ان کتب میں بھی موجود ہے:
"تمیز الطیب من الخبیث"، "تذکرۃ الموضوعات للھندی"، "الدرر المنتثرۃ للسیوطی"، "الفوائد للکرمی"، "اسنی المطالب"-
(16) علامہ شریف الحق امجدی (م1421ھ) لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ بعض کتابوں میں درج ہے لیکن تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ روایت موضوع، منگھڑت اور بالکلیہ جھوٹ ہے-
(فتاوی شارح بخاری، ج2 ،ص38)
(17) علامہ عبد المنان اعظمی (م1434ھ) لکھتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان سے معزول کرنے کا ذکر ہم کو نہیں ملا بلکہ عینی جلد پنجم، صفحہ نمبر 108 میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کے لیے سفر اور حضر ہر دو حال میں اذان دیتے اور یہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ دونوں حضرات کی آخری زندگی تک مؤذن رہے-
(فتاوی بحر العلوم، ج1، ص109)
(18) مولانا غلام احمد رضا لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ موضوع و منگھڑت ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کلمات اذان صحیح (طور پر) ادا نہیں ہو پاتے تھے-
(ملتقطاً: فتاوی مرکز تربیت افتا، ج2، ص647)
ان دلائل کے بعد اب اس روایت کے موضوع و منگھڑت ہونے میں کوئی شک باقی نہیں.
کے,المصباحی

Friday, March 29, 2019

ضروری اِصْطِلاحات

* ضروری اِصْطِلاحات *
جب ہم علمی کتابیں پڑھتے ہیں تو اُن میں کچھ علامات نظرآتی ہیں ، جن کی تفصیل یہ ہے -
*1:* الخ ( اَ لَ خْ ) ⬅
کسی قول ، مصرعے یا جملے وغیرہ کا کچھ حصہ لکھنے کے بعد " الخ " لکھ دیا جاتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی مزید آگے بھی ہے ، اِسے آخرتک دیکھیں -
مثلاً: مصطفیٰ جان رحمت۔۔۔۔۔الخ
*2:* ١٢ ⬅ بعض کتابوں کے حاشیے کے آخر میں " ١٢ " لکھا ہوتا ہے -
علم اعداد میں لفظِ " حَد " کے بارہ عدد ہیں ، اور حد کا معنیٰ ہے اختتام ؛ تو " ١٢ " کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں پر حاشیے کی عبارت ختم ہوگئی ہے ، حاشیے کی یہی حد ہے -
*3:* منہ ( مِ نْ ہُ ) ⬅
بعض کتابوں کے حاشیے کے آخر میں " منہ " بھی لکھا ہوتا ہے اور یہ مصنف خود لکھتاہے ؛ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ حاشیہ کسی اور کا نہیں ، میرا ( کتاب لکھنے والے کا ) اپنا ہے -
*4:* ١٢منہ ⬅
بعض حواشی میں یہ دونوں ہوتے ہیں ، جن سے یہی مراد ہوتاہے کہ یہ حاشیہ مصنف کا ہے جو کہ یہاں تک ختم ہوگیاہے ( اس سے آگے جواضافہ ہوگا وہ محشی کا ہوگا مصنف کا نہیں ) -
*5:* ایضاً ( اَ یْ ضَ نْ ) ⬅
جب ایک ہی بات ، یا حوالے کو دُھرانا مقصودہوتا ہے ، یا ایک ہی چیز کے مختلف مطالب بیان کرنا ہوتے ہیں تو بار بار تفصیل لکھنے کے بجائے نیچے " ایضاً " لکھ دیا جاتاہے -
مثلاً:
☀️ بخاری شریف کے بیالیسویں صفحے سے دو حدیثیں بیان کرنی ہیں تو پہلی حدیث کے نیچے حوالہ لکھیں گے :
بخاری شریف ص 42 -
اس کے بعد والی حدیثِ پاک لکھ کر حوالہ لکھنے کے بجائے " ایضاً " لکھ دینا ہی کافی ہوگا ؛ اِس سے پڑھنے والا سمجھ جائے گا کہ اِس حدیث کا بھی وہی حوالہ ہے جواوپر والی حدیث کا ہے -
☀️ میرزا داغ دہلوی کہتے ہیں :
جوتم کو ہم سے نفرت ہےتوہم کوتم سے ایضاً ہے
جو تم نظریں بدلتے ہو تو ہم بھی دل بدلتے ہیں
یعنی تم کوہم سے نفرت ہے تو ہم کو بھی تم سے ایضاً ( یعنی نفرت ) ہی ہے -
☀️ " بات " ، ایک لفظ ہے جس کے مختلف معانی ہیں ، جنھیں ہم اس طرح بھی بیان کرسکتے ہیں :
بات: بہ معنیٰ قول - جیسے معروف کاشعرہے:
زلف رخ پہ جوچھٹی رات ہوئی یا نہ ہوئی
کیوں نہ کہتاتھا مری بات ہوئی یا نہ ہوئی
ایضاً : شہرت - جیسے سحر کہتاہے:
اپنی توہرطرح بسر اوقات ہوگئی
وہ بات کی کہ شہر میں اک بات ہوگئی
ایضاً: عادت - جیسے امیر کا شعر ہے:
بت میں نہ وفا کی بات پائی
بے عیب خدا کی ذات پائی
یہاں ہرجگہ لفظِ بات لکھ کر اس کا معنی لکھنے کے بجائے ایضاً لکھ دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ تمام معانی " بات "  کے ہیں -
*6:* ع ⬅
یہ مصرع کی علامت ہے ، علما و اُدَبا جب مصرع نقل کرتے ہیں تو " ع " لگاتے ہیں -
*7:*  ؎  ⬅ یہ شعر یا نظم کی علامت ہے ، اگر آپ اپنی تحریر میں صرف مصرع لکھنا چاہتے ہیں تو " ع " استعمال کریں ، اور اگر ایک یا زیادہ شعر لکھنا چاہتے ہیں تو یہ "   ؎ " علامت استعمال کریں -
اِنھیں گَڈمَڈ نہیں کرنا چاہیے ؛ یہ نہ ہو کہ شعر کی جگہ مصرع کی علامت اور مصرع کی جگہ شعر کی علامت درج کردیں -
راوالپنڈی کے ایک صاحب نے کتاب لکھی تھی جس میں دیگر غلطیوں کے ساتھ ان علامات کو بھی گڈمڈ کردیا تھا -
گجرات کے ایک مفتی صاحب نے دیگر غلطیوں کے ساتھ اس پر بھی اُن کا سخت تعقب کیا اور اِسے کم علمی وجہالت قرار دیا -
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے ساتھ بھی یہ ماجرا پیش آجائے ، اس لیے " ع اور  ؎ " کا استعمال ذہن میں رکھیں.

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...