Monday, August 19, 2019

میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا


"مؤمنوں متّحد ہوجاؤ"
عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ:
قتلت یوم قتل الثور الابیض
(میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا).
اس کی تفصیل یوں ہے کہ کسی جنگل میں دوبیل رہتے تھے ایک لال اور ایک سفید جن کی آپس میں گہری دوستی تھی.  ایک ساتھ گھومنا پھرنا اور چرنے کیلئے بھی ایک ساتھ آنا جانا.
ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا. اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے.
  شیر نے ایک چال چلی لال بیل سے چکنی چپڑی باتیں کر کے اور روشن مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا. لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا کہ بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر کی دوستی زیادہ محفوظ نظر آ رہی تھی.
  لال بیل جب شیر سے مل گیا اور سفید بیل اکیلا رہ گیا تو چند دنوں کے بعد شیر نے اس کے شکار کا پروگرام بنایا اور اس پر حملہ کر دیا.
پہلے تو دونوں مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے مگر اب اکیلے بیل کیلئے شیر کا مقابلہ مشکل ہو گیا.
سفید بیل نے اپنے ساتھی بیل کو بہت پکارا, بہت آوازیں دیں, پرانی دوستی کے واسطے دئے اور بیل ہونے کے ناطے بھائی چارے کا احساس دلایا.
   مگر شیر کی دوستی کے نشے سے سرشار لال بیل ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی برادری کے ایک فرد کو شیر کے ہاتھوں چیر پھاڑ کا شکار ہوتا دیکھتا رہا.
وہ آج بہت خوش اور مطمئن تھا کہ شکر ہے میں اس کے ساتھ نہیں تھا ورنہ آج میرا کام بھی اس کے ساتھ ہی تمام ہوجاتا.
  تھوڑے دن گذرے کہ شیر نے اسے بھی شکار کرنے کا پروگرام بنا لیا.  جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو  لال بیل نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ... (میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا).
امت مسلمہ بھی آج کل اسی حالت کا شکار ہے.  سب شیر کی دوستی پر خوش اور مطمئن ہیں اور یہ یقین کئے بیٹھے ہیں کہ باقیوں کی باری تو لگ رہی ہے مگر ہماری باری نہیں لگے گی. کیونکہ ہم تو جنگل کے بادشاہ کے دوست اور مقرب ہیں.
ان احمقوں کو یہ سادہ سی حقیقت سمجھ نہیں آ رہی کہ شکاری اور شکار کے درمیان دوستی جیسا غیر فطری رشتہ ہو ہی نہیں سکتا.
ہم نے باری باری افغانستان, عراق, فلسطین, شام, بوسنیا, چیچنیا, کشمیر, برما اور صومالیہ میں مسلمانوں کے خون میں لت پت لاشوں کو تڑپتے دیکھا,  حلب اور ادلب پر کیمیکل بموں کے حملے دیکھے, فلسطینی مسلمانوں کے جنازوں پر بمباریاں دیکھیں, عراق میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے نئے سے نئے حربے دیکھے, برمی مسلمانوں کو زندہ جلانے اور ان کے جسمانی اعضاء کو کاٹ کاٹ کر پھینکتے دیکھا,  افغانستان پر کارپٹ بمباری سے لیکر "بموں کی ماں " کا حملہ دیکھا مگر اس خوشی میں چپ سادھے اطمینان سے بیٹھے ہیں کہ ان سب کی باری تو لگی ہے مگر ہماری نہیں لگے گی.
*ذرا غور کیجیےء بھائی کہ کہیں ہم سب بھی لال بیل تو  نہیں بن گئے ہیں...!!!* 
اللہ نہ کرے کہ ہم پر پچھتاوے کی وہ گھڑی آ جائے جب ہم بھی بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ:
" قتلت یوم قتل الثور الابیض "

بھارت کے ہر ایک شہری کو اپنا نام پتہ درج کروانا ضروری ہے


رجسٹر NRIC
بھارتی شہریت قانون 1955 کی دفعہ 14 K کے مطابق بھارت کے ہر ایک شہری کو اپنا نام پتہ بھارتی باشندوں کے قومی رجسٹر NRIC میں درج کروانا ضروری ہے. 
1 اپریل 2020 سے 30ستمبر 2020 تک پورے ملک میں(National population register) NPR کو نافذ کیا جائے گا.
شہروں و دیہاتوں میں دو دو مرتبہ کیمپ لگائے جائیں گے اور ہر باشندے کو اس کی اطلاع کی جائے گی.
2011 کی مردم شماری میں جن کا نام درج ہے ان کے گھر سرکاری نمائندہ خود فارم لے کر جائے گا.
ایک فارم ہوگا جس کا نام KYR
(Know Your Resident) 
ہے جس میں یہ کالم بھرنے ہوں گے.
1.نام
2.ولدیت یا مکھیا کا نام
3.ماں کا نام
4.بیوی کا نام
5.جنس
6. تاریخ پیدائش
7..مقام پیدائش.
8..نیشنلٹی
9.موجودہ رہائش کا پتہ جہاں شہری 6 مہینہ رہ چکا ہو اور آگے 6 مہینہ یا ایک سال رہنے کا ارادہ رکھتا ہو.
10.شہری کا مستقل پتہ
11.مشغلہ
12.تعلیمی لیاقت
13.فوٹو گراف کے ساتھ بایومیٹرک پہچان یعنی دسوں انگلیوں اور دونوں آنکھوں کے پرنٹ وغیرہ شامل ہیں.
اور ان کالم کی تصدیق کے لیے مندرجہ ذیل دستاویزات میں سے کم از کم تین کو بطور ثبوت فارم کے ساتھ جمع کرنا ہوگا. جس کا ویری فکیشن حکومت آدھار کارڈ کے محکمہ UIDAI سے کرائے گی.
*دستاویزات کی فہرست:*
1.برتھ سرٹیفکیٹ
2.راشن کارڈ
3.ووٹر آئی ڈی کارڈ
4.بینک پاس بک
5.زمین کا بیع نامہ
6.سرکاری ملازمت کے جاب کارڈ
7.پاسپورٹ
8.آدھار کارڈ
9.پریوارک رجسٹر کی نقل
10.ہائی اسکول انٹر کے اسناد اگر موجود ہوں تو.
11.ڈرائیونگ لائسنس
12.ایل.پی.جی گیس کنیکشن
13.بجلی کنیکشن
14.پین کارڈ
اس لیے خاموشی کے ساتھ اپنے ان کاغذات کو درست کرائیں اورمتعلقین کے بھی کاغذات درست کرائیں.
ملی و سماجی تنظیمیں اور سماجی کارکنان بھی قانونی بیداری کےعنوان سے گاؤں دیہاتوں میں کیمپ لگا کر عوام الناس کے یہ دستاویز درست کرائیں.
یاد رہے سبھی کاغذات میں نام پتہ ولدیت اور تاریخ پیدائش ایک ہونے چاہئیں.
اس سلسلہ میں ہم سماجی کارکنوں کو تربیت بھی دیں گے ان شاءاللہ.
جو لوگ اس تربیتی کیمپ میں شریک ہونا چاہتے ہوں یا اس سلسلہ میں کوئی بھی معلومات چاہتے ہوں وہ ہمیں ان نمبرات پر کال کرسکتے ہیں.
فقط و السلام
مہدی حسن عینی

Sunday, August 18, 2019

لطیفہ جو آپ کو پاگل کر دے

مدرسے کے ایک نگراں نے جو کم پڑھا لکھا تھا بچوں کو رات دیر سے گیٹ میں چوری چھپے داخل ہوتے ہوئے پکڑ لیا
نگراں نے کہا سب اپنا اپنا نام بتاؤ
١ میزان ابن منشعب کلکتہ

۲ گلستاں ابن بوستاں لکھنؤ

٣ ہدایۃ النحو ابن کافیہ گجرات

۴ مرقات ابن مشکوٰۃ بهار

٥ ہدایہ ابن بدایہ بنگال

٦ مختصرابن مطول مہاراشٹر

۷ میبذی ابن سراجی جھارکھنڈ

۸ درمختار ابن ردالمحتار بنگلور

۹ بخاری ابن طحاوی دہلی

١۰ جلالین ابن جمالین آسام

:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
صبح مہتمم صاحب کے پاس نام کی پرچی پہونچی مہتمم صاحب دیکھ کر مسکراکر رہ گئے

 😄😃😀😀😃😄


اس لطیفے کا لطف طلباء اور علماء کو آئے گا...

ہندستان کے لیے 850 سال پہلےکی پشین گوئیاں سچ ثابت ہوئیں


ہندستان کے لیے 850 سال پہلےکی پشین گوئیاں سچ ثابت ہوئیں  
حضرت نعمت اللہ شاہ کا تعلق ایران سے تھا اور آج سے 850 سال پہلے اُنہوں نے اپنے فارسی اشعار میں دُنیا کے متعلق بہت سے پیش گوئیاں کیں اور اُن کی پیش گوئیوں کی سچائیوں نے دور حاضر میں اہل دانش کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھاہے۔
نعمت اللہ شاہ صاحب کے اشعار جن میں انہوں نے آنے والے وقت کے متعلق بتایا ہے کی تعداد 2000 سے زیادہ ہے اس آرٹیکل میں ہم نعمت اللہ شاہ صاحب کے اُن اشعار کو شامل کررہے ہیں جن میں انہوں نے ہندوستان پاک و ہند کے متعلق پیش گوئیاں کیں جن میں سے بہت سی ماضی میں پوری ہوگئیں اور باقی مستقبل میں پُوری ہوتی دیکھائی دے رہی ہیں۔
ماضی میں پُوری ہونے والی چند اہم پیش گوئیاں
راست گوئیم بادشاہ در جہاں پیدا شود نام او تیمور شاہ صاحبقراں پیدا شود
ترجمہ : میں سچ بتاتا ہوں دُنیا میں ایک بادشاہ پیدا ہوگا جس کا نام تیمور شاہ ہوگا اور وہ صاحب قراں ہوگا
تاریخ جانتی ہے کہ نعمت اللہ شاہ نے یہ پیش گوئی 850 سال پہلے کی اور پھر اہل دانش نے دیکھا کے 1398 میں یعنی پیش گوئی کے 228 سال بعد تیمور شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور محمد تغلق کو شکست دی اور اپنی بادشاہت قائم کی۔
شاہ بابر بعد ازاں در ملک کابل بادشاہ پس بہ دہلی والئی ہندوستاں پیدا شود
ترجمہ : اس کے بعد کابل کا بادشاہ بابر دہلی میں ہندوستان کی والی اور بادشاہ بنے گا
اہل دانش ورطہ حیرت میں ہیں کے نعمت شاہ صاحب بابر کے ہندوستان پر حملے کے 350 سال پہلے اُسے اُس کے نام سے جانتے تھے۔
باز نوبت از ہمایوں از رسد زولجلال
ہم دراں افغاں یکے از آسماں پیدا شود
ترجمہ: پھر پروردیگار ذولجلال کی طرف سے بادشاہی ہمایوں کو ملے گی اور پھر افغانستان سے شیر خان ظاہر ہوگا۔
یہ پیش گوئی بھی من و عن پوری ہوگئی اور دُنیا نے دیکھا کے شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
دلمیان ملک پنجابش شود شہرت تمام
قوم سکھانش مرید و پیرآں پیدا شود
ترجمہ: ملک پنجاب کے درمیان میں اُسے شہرت ملے گی اور سکھوں کی قوم اُس کی مرید ہو جائے گی
یہ پیش گوئی 1441 میں پُوری ہوئی اور بابا گُرو نانک پیدا ہوئے جو سکھوں کے پہلے گُرو ہیں جن کا انتقال 1538 میں ہُوا۔
قوم سکھانش چیرہ دستی ہاکند در مسلمین
تا چہل ایں جورہ بدعت اندر اں پیدا شود
ترجمہ : سکھ قوم مسلمان قوم پر ظلم و ستم کرے گی اور یہ سلسلہ 40 سال تک جاری رہے گا
بعد ازاں گیرد نصاری ملک ہندویاں تمام
تا صدی حکمش میاں ہندوستاں پیدا شود
ترجمہ : اس کے بعد عیسائی ملک ہندوستان پر قبضہ کریں گے اور یہ قبضہ ایک سو سال تک جاری رہے گا
ہندوستان میں گوروں کی حکومت میں لارڈ کرزن جو ہندوستان کے وائسرائے تھے نے نعمت شاہ صاحب کی یہ پیش گوئی ہند میں بیان کرنا یہ کہہ کر ممنوع قرار دے دیا تھا کے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ برطانیہ ہندوستان پر صرف 100 سال حکومت کرے۔
وا گزارند ہند را از خود مگر از مکرشاں
خلفشار جاں کسل در مرد ماں پیدا شود
ترجمہ : پھر انگریز ہندوستان کو خود ہی چھوڑ کر چلے جائیں گے مگر اپنی چالاکی اور مکر سے لوگوں کے درمیان ایک جان لیوا جھگڑا چھوڑ جائیں گے۔
خطے کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اہل دانش کا کہنا ہے کہ یہ *جھگڑا کشمیر* کی وجہ سے ہے۔
دو حصص چوں ہند گردد خون آدم شد رواں
شورش و فتنہ فزوں از گماں پیدا شود
ترجمہ : ہندوستان جب دو ٹکڑے ہوگا تو انسانوں کو بے دریغ قتل کیا جائے گا اور فتنہ اور فساد کی کوئی انتہا نہی ہو گی
برصغیر پاک و ہند کے قیام پر 2 ڈیڑھ ملین سے زیادہ لوگوں کا قتل ہُوا اور کئی ملین لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔
*پاکستان بننے کے بعد کی چند اہم پیش گوئیاں*
نعرہ اسلام بلند شد بست وسہ ادوار چرغ بعد ازاں بار و گریک قہر شاں پیدا شود
ترجمہ : نعرہ اسلام 23 سال تک سر بُلند رہے گا اور پھر دوسری مرتبہ اُن پر قہر نازل ہو گا)
1947 سے 1971 تک پاکستان اور بنگلہ دیش ایک ہی ملک تھے اور پھر 1971 میں مشرقی پاکستان ہم سے جُدا ہو گیا۔
حال کے متعلق چند اہم پیش گوئیاں
بنی تو قاضیاں رابر مسند جہالت
گیرند رشوت از خلق علامہ با بہانہ
ترجمہ  *قاضی (جج) جہالت کی مسند پر دیکھے گا اور بڑے بڑے علم والے لوگ بہانوں سے لوگوں سے رشوت لیں گے*
*اشتہار*
گرد انگ از با رشوت در چنگ قاضی آری
چوں سگ پئے شکاری قاضی کند بہانہ
ترجمہ : جج کو اگر چند سکے چاندی مٹھی میں رشوت دے گا توقاضی شکاری کُتے کی طرح بہانے کرے گا
پاکستان کے موجودہ عدالتی نظام کو دیکھیں تو یہ پیش گوئی بلکل سچ ہے *جسے پتہ نہیں نعمت شاہ صاحب نے 850 سال پہلے کیسے محسوس کیا*۔
از اہل حق نا بینی درآں زماں کسے را
دوزوان و رہزنے رابر سر نہند عمامہ
ترجمہ : *ایسے وقت میں تو کسی کو اہل حق نہ دیکھے گا اور لوگ چوروں اور ڈاکوں کے سر پر دستار رکھیں گے*
پاکستانی سیاست دان جنہوں نے اس ملک کو لوٹ کھایا ہم دیکھتے ہیں لوگ اُن کے سروں پر دستار سجاتے ہیں۔
*مستقبل کے متعلق چند اہم پیش گوائیاں*
اندر نمازباشند غافل ہمہ مسلماں
عالم اسیر شہوت ایں طور درجہانہ
روزہ نماز طاعت یکدم شوند غائب
در حلقہ مناجات تسبیح از ریانہ
ترجمہ : مسلمان نماز سے غافل ہوجائیں گے اور شہوت کے قیدی بن جائیں گے اور دنیا میں ایسا ہی ہوگا، روزہ نماز اور احکام ایک دم غائب ہو جائیں گے اور مناجات کی محفلوں میں ریاکارانہ ذکرواذ کار ہوگا
بعد آں شود چوں شورش در ملک ہند پیدا فتنہ فساد برپا بر ارض مشرکانہ
ترجمہ : اس کے بعد ہندوستاں میں ایک شورش ظاہر ہوگی اور مشرکانہ سرزمین پر فتنہ اور فساد برپا ہوجائے گا
درحین خلفشارے قومے کہ بت پرستاں
بر کلمہ گویاں جابراز قہر ہندوانہ
ترجمہ : اس خلفشار کے وقت پر بت پرست کلمہ گو مسلمانوں پر اپنے ہندوانہ قہر و غضب کے ذرئیے جابر ہوں گے
یہ دو اشعار اگر حال کے آئینے میں دیکھے جائیں تو پلوامہ کی دہشت گردی اور ہندوستان کا جاہرانہ رویہ یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ یہ اشعار نعمت اللہ شاہ صاحب نے اسی وقت کے لیے لکھے ہیں اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہندوستان پاکستان پر حملے سے باز نہیں رہے گا۔
بحر صانت خود از سمت کج شمالی
آید برائے فتح امداد غائبانہ
ترجمہ : مدد کے لیے شمال و مشرق سے غائبانہ امداد آئے گی
آلات حرب و لشکر در کار جنگ ماہر
باشد صہیم مومن بے حد و بیکرانہ
ترجمہ : جنگی ہتھیاروں سے لیس ماہر جنگی حکمت عملی والا لشکر آئے گا جس سے مسلمانوں کو زبردست قوت ملے گی
عثمان عرب و فارس ہم مومنان اوسط از جذبہ اعانت ائیند والہانہ
ترجمہ : *عرب، تُرک، ایران اور مشرق وسطی والے امداد کےجذبے سے دیوانہ وار آئیں گے*
اعراب نیز ائیند از کوہ دشت و ہاموں
سیلاب اتشیں شد از ہر طرف روانہ
ترجمہ : پہاڑوں بیابانوں کی طرف سے اعراب آئیں گے اور آگ کا سیلاب ہر طرف رواں دواں ہو گا
چترال نانگا پربت باسین ملک گلگت
پس ہائے ملک ہائے تبت گیر نار جنگ آنا
ترجمہ : چترال نانگا پربت چین اور گلگت ساتھ ملیں گے لڑنے کے لیے اور تبت کا علاقہ میدان جنگ بنے گا
یکجا شوند عثمان ہم چینیاں و ایران
فتح کند ایناں گل ہند غازیانہ
ترجمہ : ترکی چین اور ایران اکھٹے ہو جائیں گے اور ہندوستان کو غازیانہ فتح کر لیں گے
غلبہ کنند ہمچوں مورد ملخ شباشب
حقا کہ قوم مسلم گروند فاتحانہ
ترجمہ یہ چیونٹیوں اور مکڑیوں کی طرح راتوں رات میں غلبہ حاصل کریں گے اور میں قسم کھاتا ہوں کے مسلمان قوم فاتح ہوگی۔
بعد از فریضد حج پیش از نماز فطرہ
از دست رفتہ گیرند از ضبط غاصبانہ
ترجمہ : فریضہ حج کے بعد اور نماز عید سے پہلے ہاتھ سے نکلے ہوئے علاقوں کو واپس حاصل کر لیا جائے گا جو غاصبانہ قبضے کی زد میں آئے تھے
رود اٹک نہ سہ بار از خون اہل کفار
پر مے شودبہ یکبار جریان جاریانہ
ترجمہ : دریائے اٹک کا پانی تین بار کافروں کے خون سے بھر کر جاری ہوگا
پنجاب شہر لاہور کشمیر ملک منصور
دو آب شہر بجنور گیرند غالبانہ
ترجمہ : شہر لاہور پنجاب کشمیر دریائے گنگا اور جمنا کا علاقہ اور بجنور شہر پر مسلمان غالبانہ قبضہ کریں گے۔
دریائے اٹک کا تین بار دشمن کے خون سے بھر کر جاری ہونا اور ان علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہونے کی پیش گوئی سے مسلمانوں کی فتح کی طرف نشاندہی کی گئی ہے انشااللہ۔
ای غزوہ تابہ شش ماہ پیوستہ ہم بشر با
مسلم بفضل اللہ گروند فاتحانہ
ترجمہ  *یہ لڑائی چھ ماہ تک جاری رہے گی اور مسلمان اللہ کے فضل سے فتح سے ہمکنار ہوں گے*
حضرت کی آگ کے سیلاب کی پیش گوئی سے لگتا ہے کہ ہندوستان ایٹمی جنگ ضرور چھیڑے گا اور اس شعر میں مسلمانوں کی فتح کی نوید ہے ....انشااللہ

علماءودانشوران كا باہمي ربط وقت کی بڑی ضرورت


فكروعمل
علماءودانشوران كا باہمي ربط وقت کی بڑی ضرورت
ھندوستان کےمعروضی حالات میں وقت کا بڑا داعیہ یہ ہے کہ ہمارےوہ حساس علماءومشائخ مفکرین ومدبرین جونہ صرف یہ کہ مسلمانوں کےعالمی، قومی اور مقامی مسائل و ترجیحات سے واقف وآگاہ ہیں بلکہ ملت کے تئیں مخلص جذبات کی تسکین کے لیے صلاحیت و وسائل کے اعتبار سے سیاسی،سماجی،علمی مسائل و ضروریات کی گتھیاں سلجھانے کی انفرادی کوششوں میں مصروف اورسرگرم رہتے ہیں وہ اب اپنی فردیت کو اشتراکیت کا جامہ پہناکر، انفرادی کارگزاریوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر مشترک ملی وقومی، شرعی وسیاسی مسائل و ضروریات کی عقدہ کشائی کرنے،باہمی افتراق وانتشار کی برہم زلفوں کو سنوارنے اور امت مسلمہ کے فکری، علمی، اخلاقی،اقتصادی انحطاط و زوال کے اسباب و علل کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرنے لئے اداروں، خانقاہوں کے انتساب کے باہمی افتخار،نسلی تفوّق و برتری کے ذہنی خمار،علمی مکابرہ و مجادلہ کے ماحولیاتی اثرات اور ان کے علاوہ ذاتی بغض وعناد کو پیدا کرنے والے دوسرے مھلک امراض کو شکست دیکر صرف اللہ و رسول صلي اللہ علیه وسلم کی رضا کے واسطے اولا خود کو مربوط و منظم کریں.پھر تنظیم کے متعینہ اہداف واغراض کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لائحۂ عمل،طریقۂ کار،صلاحیت و ذوق کے اعتبار سے اعضاء تنظیم کو تقسیم کار اور علمی و فکری مواد کی ہدایت و راہنمائی کے لئے ایسے تجربہ کار اور سینیرعلماء و مشائخ ،مفکرین و مدبرین کی نگرانی و سر پرستی حاصل کریں کہ جن کی ذوات قدسیہ جماعت اہلسنت کے صالح عقائد و نظریات کی صحیِح ترجمانی، علوم کی ترویج و اشاعت، تصنیف و تألیف،دعوت و تبلیغ، فروغ سنیت کے لئے اداروں، تحریکوں کی منصوبہ بندی اور قیام کی عظیم خدمات کی بنیاد پر اہل علم و فن کے ما بین منفرد اور مثالی تسلیم کی جاتی ہیں. ان شاء اللہ نتائج بھت بہتر ہوں گے.
واضح رہے کہ میری یہ مختصر تحریرصرف حساس علماء کی بارگاہ میں ایک عریضہ ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں.۶ گر قبول افتد زہے عز و شرف.
ہاں تحریر کے آخری جملوں میں اپنے ان احباب علماء و دانشوران کو جو میری اس تحریر کی لفظی غلطیوں کو نظر انداز کرکے اس کے مقصد سے متفق ہوں گے حق محبت سمجھ کر یہ مشورہ ضرور دونگا کہ اسلام دشمن طاقتوں کی بربریت و جفاکشی،علماء سو اور سیاسی لیڈران کی ضمیر فروشی کے اس نازک دور میں ہندوستان کی سر زمین پر بظاہر ایسی کوئی مؤثر طاقت و قوت نظر نہیں آتی کہ  جس کی قیادت کے زیر سایہ مسلمانان ہند اپنے شرعی معاملات میں غیروں کی بیجا مداخلت کا دفاع ، ملی، مذبی تشخص و وقار کی  حفاظت اور الجھے ہوئے مسائل کا حل منظم انداز سے کر سکیں بس اھل بصیرت و بصارت علماء و مشائخ اہل فکر ونظر دانشوران کا باہمی ربط ہی ھند کے مسلمانوں کوحالات سے مقابلہ کرنے کی ہمت و توانائی دیکر بے لگام ، بد گمان اور مایوس ہونے سے بچا سکتا ہے.علامہ اقبال نے کہا تھا
فردملت ربط سے قائم ہے تنہاکچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
   فاضل مصباحی

این آر سی کا ملک بھر میں نفاذ


این آر سی کا ملک بھر میں نفاذ ..حقائق واندیشے

میں اپنی تحریر کا آغاز اس دعا کے ساتھ کر رہا ہوں کہ خدا کرے اس کا ایک ایک لفظ آگے چل کر غلط ثابت ہو۔ اس تحریر کے پیچھے یہ نیت ہرگز نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں میں خوف ہراس پیدا کیا جائے، لیکن اگر آنے والے خطرات سے ہم اپنے آپ کو باخبر نہ کر پائے تو پھران خطرات کا مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔
این آر سی یعنی شہریوں کا قومی رجسٹر ایک دستوری عمل ہے، جس کی شروعات آزادی کے بعد 1951 میں ہوگئی تھی۔ لیکن ملک کی کرپٹ سیاست کے نتیجے میں یہ رجسٹر اپ ڈیٹ نہیں ہوا، تا آنکہ اسّی کی دہائی میں، آسام میں یہ مسئلہ اٹھا کہ اس علاقے میں لاکھوں بنگلہ دیشی داخل ہوگئے ہیں اور انھوں نے ووٹر آئی ڈی بھی بنالی ہے، جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کی شناخت اور سیاسی حیثیت متاثر ہورہی ہے۔ سالہا سال کی جد وجہد کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ این آر سی کو اپ ڈیٹ کیا جائے اور اس کا معیار یہ ہو کہ 24 مارچ 1971 سے پہلے سے جو لوگ ملک میں رہتے چلے آرہے ہیں، ان کو ملک کا شہری تسلیم کیا جائے۔ جو افراد بعد میں آئے ہیں وہ غیر ملکی قرار دیے جائیں۔ کہنے کو یہ ایک دستوری عمل ہے، لیکن جس طریقے سے آسام میں مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دینے کے لیے اس ہتھیار کا استعمال کیا گیا، اس کو سمجھنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ملک کے پانچویں صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد کے بھتیجے ضیاء الدین علی احمد بھی اپنے آپ کو بھارتی شہری ثابت کرنے کے لیے بقیہ چالیس لاکھ لوگوں کی طرح ابھی تک جد وجہد کررہے ہیں۔ شہریوں کی آخری لسٹ اگست کے آخر میں آنے والی ہے، جن لوگوں کا نام اس لسٹ میں آجاتے گا وہ خوش نصیب ہوں گے، بقیہ لوگوں کو ہائی کورٹ میں جانے کا اختیار ہوگا، وہاں اپنی شہریت ثابت نہ کر پانے کی صورت میں سپریم کورٹ بھی جانے کا اختیار ہوگا۔
دی کاروان میگزین میں سینیر وکیل سنجے ہیگڈے کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے، جس میں وہ شہریت ثابت کرنے کے لیے قائم ٹربیونلز پر سوالیہ نشان لگاتے ہوے کہتے ہیں، کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کچھ لوگوں کو کانٹریکٹر کی حیثیت سے ملازمت دی گئی ہے، ان کا کوئی قانونی بیک گراؤنڈ نہیں ہے، ان افراد پر سخت دباؤ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو غیر ملکی قرار دیں۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے دو شناخت نامے ثبوت کے طور پر پیش کیے، جن میں سے ایک میں اس کے باپ کا نام محمد فلاں ہے، جب کہ دوسرے میں محد (محمد کا مخفف) فلاں، ٹربیونل افسر دونوں کو یہ کہہ مسترد کردیتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے متعارض ہیں۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے جناب ناظم الدین فاروقی صاحب سے میں نے اس تعلق سے گفتگو کی۔ وہ اپنی تنظیم کے ذریعے ایک عرصے سے ایسے افراد کی مدد کر رہے ہیں جن کا نام این آر سی میں آنے سے رہ گیا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کے لوگوں کو بلا کسی اہلیت کے ٹربیونل افسر بنادیا گیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی زندگی ان کے ہاتھ میں دیدی گئی ہے، ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ اور ان کے وکلاء سخت محنت کے باوجود مطلوبہ نتائج نہ نکلنے کی وجہ سے سخت مایوسی کا شکار ہیں۔  سنجے ہیگڈے کے مطابق: عدالتوں میں جانے والے افراد کو بھی مایوسی کا سامنا ہے، کیوں کہ ہائی کورٹ نے بھی ٹربیونل کے فیصلوں کو باقی رکھا ہے۔ ان افراد کے پاس اتنی مالی استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ سپریم کورٹ تک چلے آئیں۔ یہ ایک عجیب قانون ہے جس کے مطابق فرد کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بغیر کسی شک و شبہ کے ملک کا شہری ہے، گویا ہر فرد کو یہ تسلیم کرکے چلا جارہا ہے کہ وہ غیر ملکی ہے، لہذا اگر کسی شخص کا نام ابراہیم ہے اور اس کے ایک شناخت نامے میں، یہ نام ای سے شروع ہوتا ہے، جب کہ دوسرے میں آئی سے، تو وہ شخص ان شناخت ناموں کی بنیاد پر اپنے آپ کو ملک کا شہری ثابت نہیں کر پائے گا۔
آسام میں ابھی تک اس طریقہ پر عمل ہوتا آرہا ہے۔ ناظم الدین فاروقی صاحب کے مطابق ستر ہزار سے زائد لوگ ڈٹینشن کیمپوں میں بند کردیے گئے ہیں، تقریبا ساڑھے تین لاکھ لوگ گرفتاری کے خوف سے اپنے گھروں سے فرار ہیں اور بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنے تاریک مستقبل سے مایوس ہو کر خودکشی کر چکے ہیں۔
طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون بنائے جانے اور دفعہ370 کے کامیابی کے ساتھ ختم کیے جانے کی وجہ سے، بی جے پی کے حوصلے بلند ہیں۔ رام ناتھ کووند نے بھی اپنے صدارتی خطاب میں (جو دراصل حکومتی پالیسی سے متعلق ہوتا ہے) کہہ دیا ہے کہ موجودہ حکومت آسام کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کا سلسلہ شروع کرنے جارہی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی تین اگست کی اشاعت کے مطابق: سب سے پہلا مرحلہ این پی آر یعنی نیشنل پاپولیشن رجسٹر کا ہے، جس کا آغاز یکم اپریل دو ہزار بیس سے ہوگا اور تیس ستمبر دوہزار بیس کو یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ این پی آر کے تحت گاؤں گاؤں شہر در شہر عام رہائش پذیر لوگوں کا نام، پتہ، فوٹو اور فنگر پرنٹس کا اندراج ہونا ہے۔ عام رہائش پذیر سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی بھی جگہ چھ ماہ یا اس سے زائد عرصے سے مقیم ہیں۔ این پی آر کے ذریعے ملک میں رہائش پذیر لوگوں کا مکمل "ڈیٹا بیس" حکومت کے پاس آجائے گا، اس کے بعد این آر سی کا عمل شروع ہوگا۔
حکومت نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ کن بنیادوں پر، آسام کے علاوہ ملک بھر میں فرد کو شہری تسلیم کیا جائے گا۔ اگر آدھار کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کی بنیاد پر این آر سی کا عمل ہوتا ہے تو خطرے کی کوئی بات نہیں ہے، لیکن اگر آسام کا طریقہ کار ملک بھر میں نافذ کیا جاتا ہے تو انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ خدا نخواستہ ہمارا منتظر ہے۔
آسام میں ٹربیونل کے تعصب اور ظلم کے علاوہ یہ طریقہ رہا ہے کہ فرد یہ ثابت کرے کہ اس کے پاس 1971 سے پہلے کا جاری کردہ حکومتی شناخت نامہ جیسے پاسپورٹ، برتھ سرٹیفکیٹ، ایل آئی سی وغیرہ موجود ہے یا نہیں۔ وہ افراد جو 1971 سے پہلے پیدا ہوگئے اور ان کے پاس یہ ڈاکیومنٹس موجود تھے اور ابھی تک ہیں وہ شہری تسلیم کیے جائیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص 1951 سے پہلے پیدا ہوگیا تھا اور اس کا نام اُس دور میں قائم ہوے این آر سی میں ہے تو وہ بھی ملکی شہری ہے۔ جو لوگ 1971 کے بعد پیدا ہوے ہیں، ان کے پاس خواہ پاسپورٹ ہی کیوں نہ ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ اپنے پاسپورٹ کو صرف اپنے والدین کا نام ثابت کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ لیکن اپنے کو شہری ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے والدین یا اس کے دادا دادی میں سے کوئی ایک 1951 کے این آر سی میں ہوں، یا کم از کم 1971 سے پہلے ہی آسام میں داخل ہوچکے ہوں۔ لہذا وہ اپنے والدین یا اجداد کے شناخت نامے پیش کرے، جو ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد کے پاس موجود نہیں ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی رہا ہے کہ اگر اس کے والد نے کوئی جائداد خریدی ہے تو اس کے کاغذات پیش کیے جائیں، جائداد اگر 1971 کے بعد خریدی گئی ہے تو کاغذات میں دادا کا نام ہوگا، لہذا دادا کے نام سے اگر کوئی جائداد 1971 سے پہلے کہیں رجسٹرڈ تھی تو اس کے کاغذات پیش کیے جائیں۔ اس طرح وہ شخص اپنے کو ملکی شہری ثابت کرسکتا ہے۔
ملکی پیمانے پر ہونے والے رجسٹریشن میں اگر اسی طریقے کو اپنایا گیا اور 1971 کو معیار مان لیا گیا تو بھی مصیبت چھوٹی نہیں ہے، لیکن اگر 1951 کو معیار مان لیا گیا تو کروڑوں لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ فوری طور پر اپنی اور اپنے آبا واجداد کے نام جائدادوں کے کاغذات تلاش کیے جائیں، ظاہر ہے کہ جن کی جائدادیں اور مکانات جدی ہوں گے وہی یہ کام کرسکتے ہیں، بقیہ لوگ کم از کم اپنے تمام شناخت ناموں اور ووٹر آئی ڈیز میں نام کی اسپیلنگ درست کرائیں۔ کیوں کہ حکومت کی جانب سے جب این آر سی کے لیے طریقہ کار کا اعلان ہوگا اور قابل قبول ڈاکیومنٹس کی لسٹ جاری ہوگی، اس وقت رشوتوں کا بازار گرم ہوچکا ہوگا، سرکاری ملازم معمولی تصحیح کے لیے ہزاروں نہیں شاید لاکھوں اینٹھ رہے ہوں گے۔
جو لوگ آسام میں آخری لسٹ کے مطابق اپنے کو شہری ثابت نہیں کرپائیں گے وہ بقیہ ستر پچھتر ہزار لوگوں کی طرح ڈٹینشن کیمپس میں ڈال دیے جائیں گے، جس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ وہ ووٹنگ کے حق سے تو محروم ہیں ہی، اپنے ہی مکانوں کے مالکانہ حق سے بھی محروم ہوں گے اور بنگلہ دیش کے بہاری نژاد افراد اور برما کے روہنگیا کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے۔ آسام کے فینانس منسٹر نے ایک انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو ووٹ اور مالکانہ حق سے محروم کردیں گے۔
یہی طریقہ کار اگر خدا نخواستہ ملک بھر میں نافذ کیا گیا اور مشہور صحافی ونود دووا کے مطابق کروڑ دو کروڑ مسلمان اپنے کو شہری ثابت نہ کر پائے تو یہ انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہوگا۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا اس لیے ہے کہ بی جے پی حکومت "سیٹیزن شپ امینڈمنٹ بل" بھی پیش کرنے جارہی ہے، جس کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم اگر اپنے کو شہری ثابت نہیں کر پایا تو ملک میں سات سال رہنے کی بنیاد پر اس کو شہریت عطا کردی جائے گی۔ یہ قانون جہاں ایک طرف شہریوں کے درمیان امتیازی سلوک کا سب سے بڑا مظہر ہوگا، وہیں کتنے ہی مسلمان مجبورا اسلام ترک کرکے کوئی دوسرا مذہب بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ شدت پسند تنظیموں کے لیے عام مسلمانوں کی "گھر واپسی" ایک دیرینہ خواب ہے۔
میری درخواست ہے کہ تمام ملی تنظیمیں اس تعلق سے مل بیٹھیں اور متحد ہوکر تمام امکانات کا جائزہ لیں اور آنے والی ممکنہ مصیبت سے پہلے ہی مکمل تیاری کرلیں۔ اس کے لیے عام مسلمانوں کے کاغذات کی تیاری میں تعاون بھی اپنے ایجنڈے میں شامل رکھیں، ہر تنظیم اگر اپنے طور پر یہ کام کرے گی تو اتنا موثر نہیں گا۔ جو لوگ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں وہ سب سے پہلے تو یہ دعا کریں یہ سب باتیں جھوٹی نکلیں، دوسرے نمبر پر وہ اپنے کاغذات کی تیاری کے لیے کمر کس لیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اسی وقت آتی ہے جب انسان خود متحرک ہوتا ہے۔ حسبنا اللہ ونعم الوکیل.


یاسر ندیم الواجدی

ہندستان بڑے کرائسس کی طرف بڑھ چکا




ہندستان بڑے کرائسس کی طرف بڑھ چکا





آج ملک میں بے روزگاری نے 45 سال کا ریکارڈ توڑ رکھا ہے.
کار سیکٹر میں مندی کے سبب اب تک اس کے 300 شو روم بند ہو چکے ہیں.
آٹو سیکٹر سے اب تک ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی نوکریاں چلی گئی ہیں.
جب کہ اسی آٹو سیکٹر سے دس لاکھ نوکریاں مزید جانے کے کگار پر ہیں.
مہندرا جیسی کئی بڑی کار کمپنیوں کا پروڈکشن کئی کئی دن بند رہنے لگا ہے.
 16 سے 30 سال کے نوجوانوں میں 18 سے 20 فی صد بے روزگاری ہے.
اس وقت روپیہ ایشیا کی سب سے بدترین کرنسی بن چکا ہے.
ملک کی جی ڈی پی 6 ساڑھے 6 سے گر کر 4 ساڑھے 4 فی صد کی سطح تک آ گئی ہے.
ورلڈ بینک اور دیگر کئی ایک عالمی اداروں نے روپیہ کی قیمت گھٹا دی ہے.
ملک کے کئی سرکاری ہوائی اڈے اور بی ایس این ایل کی کوڑیوں میں نیلامی عن قریب ہے.
          از ناصر رامپوری مصباحی


Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...