Monday, August 12, 2019

کیسے کہہ دوں کہ مبارک ہو تمہیں عید کا دن


کیسے کہہ دوں کہ مبارک ہو تمہیں عید کا دن 
خون میں ڈوبا ہوا دستِ حنا لگتا ہے 
میرے کشمیر و فلسطین ہیں غم ناک بہت
 قلب میں درد کا اک تیر چبھا لگتا ہے 




سراپا درد : مشاہد رضوی

Salam E Masnoon !!

Kaese kahe dooN k Mubarak ho tumeN Eid Ka Din,
Khoon Me Dooba hua Dast E Hina Lagta He.

Mere Kashmir Wo Filasteen HaeN Ghamnak Bahot,
Qalb Me Dard Ka Ek Teer Chubha Lagta Hae.

By: Mushahid Razvi

چرم قربانی کے حوالہ سے اتنی بیان بازی کیوں؟


چرم قربانی کے حوالہ سے اتنی بیان بازی کیوں؟



  یہ سب پہ روشن ہے کہ اسلامی دنیا ابھی شدید بحران کا شکار ہے۔ مذہبی منافرت نے اسلام اور مسلمانوں کو اپنے حصار میں لے رکھاہے۔مسلم ممالک کی تاراجی اور مسلمانوں کی تباہی وبربادی کانہ ختم ہونے والا سلسلہ، اب اپنے وطن عزیز میں بھی اپنے خونی پنجے گاڑچکاہے۔ڈاکٹراقبال نے جس عہد میں ناسازگاری حالات کو دیکھ کر قوم مسلم کو’’ *تری بربادیوں کے تذکرے ہیں آسمانوں میں* ‘‘کا پیغام دیا تھا، آج اس سے کہیں بد تر حالات ہمارے یہاں ہیں ،مگر افسوس ہے کہ کل کی سرد مہری سے لے کر آج کی بے حسی تک ہما رے جینے کا ایک ہی انداز رہا، جس میں ماضی سے لا تعلقی ،حال سے مفاہمت اورفکر مستقبل سے بے نیازی کا عنصرغالب ہے *۔ ذاتی مفاد اور اپنی برتری کے اظہار کے لئے منھ میں زبان، قلم میں روشنائی اور وقت میں وسعت سب کچھ ہے ، مگر نہیں ہے تو قوم ،مذہب ،مسلک ،قانون شریعت ،دستور ہند اورشعائر اسلامی کے تحفظ کے لئے زبان میں گویائی ،قلم میں طاقت اوروقت میں برکت ــ(خدا محفوظ رکھے اس بلا سے )* 

👈  ادھر چند برسوں سے ہندوستانی مسلمان کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہیں اور ان میں آئے دن اضافہ ہی ہورہاہے ۔ان میں ایک مسئلہ مدارس کا وجود بھی ہے جو اسلام دشمن عناصر کے طاغوتی نشانہ پر ہے، پھر بھی اہل مدارس اپنی زندگی کی جد وجہد کررہے ہیں اور کرتے ہی رہیں گے کہ ہندوستان میں مدارس کا وجود اسلام کی بقاکا ضامن ہے اور اسلام کی بقاکے لئے ہماری جہد وجہد کا دائرہ انشا ء اللہ کبھی تنگ نہیں ہوسکتا۔
  *ان مسائل میں ایک مسئلہ چرم قربانی کی قیمت کا حیرت ناک حد گرجانا بھی ہے* ۔مدارس کے ذمہ داران اس صورت حال کے سبب ٹوٹ سے گئے ہیں اور نجی مجلسوں سے لے کر سوشل میڈیا تک اس کا رونا رویا جارہاہے ۔ *بعض حضرات نے اس مسئلہ میں انفرادی طور پر ادارہ شرعیہ سے رابطہ کیاکہ اس مسئلہ میں ادارہ کا فرمان کیاہے کیوں کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ ہر مذہبی وملی معاملہ میں ادارہ شرعیہ کے فیصلہ کا انتظار کرتاہے کسی اور کا نہیں ،* چاہے فرد کے اعتبار سے کوئی شخص کتنا ہی بڑاکیوں نہ ہو۔ اس طرح کے متعدد سوالات کے بعد مناسب سمجھتے ہوئے پٹنہ کے مدارس اہل سنت کے ذمہ دارعلما ومدرسین اور ائمہ حضرات کی نشست ادارہ میں بلائی گئی *،جس میں کھال کی موجودہ قیمت ،قیمت کم ہونے کے متعدد اسباب اور اس بحران سے نجات کی صورت کیاہوسکتی ہے، تمام پہلووں پر کھل کر بحث ہوئی ،تو نتیجہ کے طور پر یہ بات سامنے آئی* :
۱)👈اب کھال کی قیمت ۱۵ روپے سے ۲۰ روپے ہے اور یہ اتنی کم ہے کہ چرم وصولنے میں جتناخرچ ہوتاہے اتنا بھی حاصل نہیں ہوپاتا۔
۲)👈بازار میں کچے اور پکے کھال کی قیمت اب بھی اتنی کم نہیں ہے جتنی ہمیں دی جارہی ہے ،یہ مدارس کے ساتھ دھوکہ ہے۔
۳)👈کھال کا سب سے بڑاتاجرہمیں نقصان پہنچاکر کھال سے کھربوں کماتاہے ،یہ مدارس کو نقصان پہنچانے کا دانستہ عمل ہے جس سے بچنے کی راہ نکالی جائے .
۴)👈کھال کی قیمت کم ہونے کا سبب ایک نہیں انیک ہے جیسے :کھال خریدنے والی کمپنیوں کاہمارے ملک سے معاہدہ نہیں کرنا،مارکیٹ میں مصنوعی چمڑے کاپایاجانا،عالمی سطح پر کھال کی قیمتوں کا گرجانا،وغیرہ ۔
 *ان تمام صورتوں کو سامنے رکھ کر ایک بات پر خاص طور سے غور کیاگیاکہ آخر پانچ سالوں میں ہر چیز کی قیمت بڑھی،کھانے پینے کی اشیا،مختلف موسموں کے کپڑے،الکٹرانک سامان ،چھوٹی سے لے کر بڑی ہر چیزکی قیمت دوگنی اورتین گنی ہوگئی، مگر اسی دنیامیں آخر چمڑے نے کیا بگاڑاتھا کہ اس کی قیمت جتنی تھی اتنی بھی نہیں رہنے دی گئی بلکہ اسے گھٹاکر ساڑھے تین سو سے ۲۰؍روپیہ کردی گئی* ۔ایسابھی نہیں کہ چمڑے کاسامان بننا بند ہوگیا ،یا بکنا موقوف ہوگیا ،یااس کا ڈیمانڈ ختم ہوگیا،بلکہ آج بھی مصنوعی چمڑے کے مقابلہ میں چمڑے کا سامان اپنے قیمتی ہونے کا احساس دلاتا ہے اور اہل ثروت اسے بطور تفاخر خریدتے ہیں۔اس سے کوئی بھی سنجیدہ اور مدبر انسان یہ سمجھ سکتاہے کہ عالمی سطح پراسلام دشمن طاقتوں نے یہ سوچ لیاہے کہ چمڑا جب تک مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے وہ مسلمان ہے اور اس ہاتھ سے نکلنے کے بعد وہ ترک مذہب کرکے ہرمذہب والوں کی ضرورت بن جاتاہے۔اس لئے جب تک وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے اس کااستحصال کیاجائے۔اس فکر کو عالمی سطح پر پھیلایا گیا اور دنیا اس فکر کی تابع ہوگئی ۔جولوگ کھال کی قیمت کاالزام *عالمی منڈی پہ رکھ کر میڈیا میں اپنا چہرہ دکھارہے ہیں وہی بتائیں کہ آخر عالمی منڈی میں اس کی قیمت کم ہونے کا سبب کیا ہے اور اس کے ذمہ دار کون ہیں* ؟اس تناظر میں مدارس کے ذمہ داروں کا یہ سمجھنا کہ کھال کی کمی مدارس کے خلاف ایک سازش ہے جسے سنجیدگی سے لینا چاہئے کون سا جرم تھا ؟جسے تختہ مشق بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔

بہرحال ان حالات کے پیش نظر تمام مندوبین نے اتفاق رائے سے *یہ فیصلہ لیا کہ کھالوں کی گری ہوئی قیمت اگر ایک سازش ہے تو اس سے بچنے کی اپنے اختیار میں یہی ایک صورت ہے کہ ہم کھال کو وہاں تک پہنچنے ہی نہیں دیں جو ہمارے مال سے کماکر ہمیں مارنے کی سوچ رہے ہیں،ان کھالوں کو کسی طرح اپنے استعمال میں لائیں ،اپنی فیکٹری قائم کریں اپنا سامان بنائیں اور اگر سب کچھ اختیار میں نہ ہوتو پھراسے دفن کردیں تاکہ کھربوں میں کمانے والے جب اپنا خسارہ دیکھیں گے تو انہیں دوسروں کے خسارہ کا احساس ہوگا* ۔نشست میں ایسی مثالیں بھی آئیں جس میں تھوڑانقصان سہہ کر بڑے فائدہ حاصل کئے گئے ہیں ۔یہ فیصلہ لینے والے سادہ لوح علماتھے،ان کے دل میں کوئی چھل کپٹ نہیں تھا ،انہیں بس کھوئے ہوئے اثاثہ کا غم اور تلافی مافات کی فکر تھی اور بس ۔اس لئے انہوں نے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ لے لیا ۔
  *جب اخبار میں اس میٹنگ کی خبر چھپی تو علمائے اہل سنت کے اس مدبرانہ وحوصلہ مندانہ اقدام کو سراہاگیا، بلکہ یہاں تک کہا گیاکہ یہ فیصلہ بہت پہلے لیاجانا چاہئے تھا ،مگر بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے مسئلہ کاصرف ظاہری رخ دیکھا اور فرمایاکہ یہ عمل ،مال کو ضائع کرنا ہے جو جائز نہیں ہے ۔یہ مسئلہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اور اتنا بدیہی ہے کہ سب کو معلوم ہے۔ایک صاحب نے ایک قدم آگے بڑھ کرملک کے بڑے بڑے دارلافتاسے فتوے منگوالئے کہ کھال کو ضائع کرنا مال کو ضائع کرناہے۔ اگر وہ محترم ادارہ شرعیہ سے بھی رابطہ کرتے تو انہیں اتنی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی ،انہیں یہاں سے بھی وہی جواب ملتا جو دوسرے مفتیان کرام نے دئے ہیں کہ مال کو ضائع کرنا جائز نہیں* ۔مگر یہاں تومخصوص حالات میں کھال کی گری ہوئی قیمتوں میں اضافہ کی راہ ڈھونڈنا تھا جو بہر حال مدارس کے حق میں تھا اور مدارس کے حوالہ سے پوری قوم کے مفاد میں تھا ۔اب یہ مسئلہ محض مال کے ضائع کرنے کا نہیں بلکہ کھال کی قیمتوں میں کمی کے جواسباب پائے جارہے ہیں ان میں تبدیلی حکم کا کوئی سبب پایا جارہاہے کہ نہیں یہ دیکھنے کاتھا ، *جن حضرات کے یہاں سبب پایا جارہاہے انہوں نے مدارس کے فائدے کے لئے یہ قدم اٹھایا اور جن کے نزدیک سبب متحقق نہیں ان کا جواب یقینا عدم جواز ہی کا ہوگا، اس میں کسی کے لئےحظ نفس کا کوئی سامان  نہیں ہے۔جن لوگوں نے کھال کے ضائع کرنے کوناجائز بتایاہے اپنی جگہ صحیح ہیں اور جن لوگوں نے بدلے ہوئے حالات میں اخلاص نیت کے ساتھ یہ اتفاقی فیصلہ لیاہے یقینا وہ بھی ماجور ہیں* ، ہاں جولوگ اس آڑ میں علمائے اہل سنت کے مخلصانہ عمل کی مخالفت میں جوش جنوں کا شکار ہورہے ہیں، انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اللہ ان کی نیتوں سے بھی باخبرہے اورانہیں آخرت میں حساب وکتاب سے بھی گزرناہے ۔
  اخیر میں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ *جن مدارس اور خانقاہوں نے قیمت کم ہونے کے سبب کھال وصولنا چھوڑ دیا تھا یا چھوڑدیاہے کیا وہ بالواسطہ کھال ضائع کرنے کا اشارہ یا کھال ضائع ہونے کا راستہ ہموار نہیں کررہے ہیں* ؟ کل صرف ایک مدرسہ اور خانقاہ نے کھال وصولنا بند کیا تھااب یہ سلسلہ دراز ہوگیا ہے ۔ذراسوچیں اگر ان کی نقل اتارتے ہوئے سبھوں نے کھال وصولنا بند کردیا تو پھر ان کھالوں کا کیا ہوگا ؟یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ ضائع کرنا گناہ ہےاور ضائع کرنے کی راہ ہموار کرنا گناہ نہیں ہے۔قتل کرنا جرم ہے تو قتل کی راہ ہموار کرنا ہی نہیں ،پلاننگ کرنابھی جرم ہے ۔اس لئے کھال وصولنے کا سلسلہ موقوف کرنے والے حضرات کو اپنا بھی محاسبہ کرلینا چاہئے ۔
 *مرید سادہ تو رورو کے ہوگیا تائب* 
 *خداکرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق*
 🖊 *ڈاکٹر محمد امجد رضاامجدؔ* : قاضی شریعت ادارہ شرعیہ بہار پٹنہ  

Sunday, August 11, 2019

اسلامی قربانی اور اغراض و مقاصد

اسلامی قربانی اور اغراض و مقاصد
     
    
دنیا بھر کے مسلمان عید الاضحٰی کے موقعے پر اللہ کی رضا کے لیے اس کے حضور جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں، اور اس کا گوشت خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے دوست احباب اور معاشرے کے غریب طبقے کو بھی کھلاتے ہیں۔
یوں تو قربانی کی رسم زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھی۔ من گھڑت دیوی دیوتاؤں کی خوشنودی کے لئے یا نذر و شکر کے پیش نظر قربانی کا عمل ان میں بھی پایا جاتا تھا۔ مگر زمانہ جاہلیت کی قربانی یہ تھی کہ ذبیحہ کو بت کے سامنے رکھ دیا جاتا، یا پہاڑوں پر چھوڑ دیا جاتا۔ اور اس قربانی کا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ قربانی کرنے والے آفات و بلیات سے محفوظ رہ سکیں یعنی ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ہم نے دیوی دیوتاؤں کی خدمت میں قربانی پیش کر دی اب ہم آفات و بلیات سے محفوظ و مامون رہیں گے۔
لیکن اسلامی قربانی کو ذرا غور سے دیکھا جائے تو اس کے مقاصد میں ایسی سطحیت اور توہم پرستی کا شائبہ دور دور تک نظر نہیں آتا بلکہ اسلامی قربانی کے اغراض و مقاصد، حکمتیں اور مصالح و فوائد دیکھ کر اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ مذہب اسلام انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اور اس کا یہ عمل انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔


آئیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کی روشنی میں قربانی کے کیا مقاصد ہیں ؟

١-: قرآن کریم، سورۃ الحج میں اللہ فرماتا ہے : 
 ”لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ․ فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ. “
ترجمہ: "تاکہ حج کے لیے آنے وَالے اپنے اپنے فائدوں کو پہنچ جائیں اور تاکہ قربانی کے مقررَہ دِنوں میں خدا کا نام لے کر ذبح کریں ان مخصوص چوپایوں کو جو خدانے ان کو عطا کیے ہیں۔ تو اے اُمت محمدیہ! تم ان قربانیوں میں سے خود بھی کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج کو بھی کھلاؤ۔" 

اِس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ قربانی کا بنیادی مقصد خالق کائنات کی یاد اور اس کے احکام کی بجاآوری ہے اس جذبے کے ساتھ کہ ہمارے پاس جو بھی ہے سب اللہ کی عطا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ قربانی کے مقاصد و فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ اس کا گوشت خود بھی کھایا جائے اور غریبوں کو بھی کھلایا جائے۔
 غور کریں، اس آیت کے ذریعہ اللہ ہمیں یہ درس دے رہا ہے کہ قربانی کا مقصد انسان کی قلبی کیفیت کا ایسا اِنقلاب ہے کہ وہ مال ومتاع کو اپنا نہ سمجھے بلکہ دل وجان سے اس عقیدے کی مشق کرے کہ حق تعالیٰ ہی اس کا حقیقی مالک ہے، لہذا حکم ملتے ہی اسے راہ خدا میں بے دریغ خرچ کیا جائے اور اس کے ذریعے غربا کی مدد کی جائے، یعنی قربانی کا عمل فتنۂ مال سے حفاظت کا دَرس دیتا ہے۔

٢-: اسی سورہ میں آگے ہے :
” وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ۔“
ترجمہ: ”اور ہم نے ہر اُمت کے لیے اس غرض سے قربانی کرنا مقرر کیا کہ وہ ان مخصوص چوپایوں کو قربان کرتے وقت اللہ کا نام لیا کریں، جو اللہ نے ان کو عطا کیے“۔

اس آیت میں بھی یہی درس دیا گیا کہ حکمِ قربانی کا بنیادی مقصد اس بات کی یاد دہانی کرانا ہے کہ انسان کے پاس جو بھی ہے وہ در حقیقت رب کائنات کا ہے لہذا حکم ربانی ملتے ہی اسے راہ خدا میں قربانی کر دیا جائے۔

٣-: سورة الأنعام میں اللہ فرماتا ہے :
”قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ"۔
ترجمہ : " اے محبوب! تم کہہ دو کہ میری نماز، میری قربانیاں اور میرا جینا اور مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔"

اس آیت میں صاف لفظوں میں یہ پیغام دیا گیا کہ مومن کی نماز، قربانی بلکہ اس کا جینا اور مرنا سب اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ گویا اسلام کے تمام احکام کا بنیادی مقصد بندے کے اندر جاں سپارِی اور جاں نثارِی کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔

٤-: سورۃ الحج میں اللہ فرماتا ہے :
"لن ينال الله لحومها و لا دماءها و لكن يناله التقوى منكم۔"
ترجمہ : " اللہ کو ہرگز نہ ان قربانی کے جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں نہ ان کے خون ہاں تمھاری پرہیز گاری اس تک باریاب ہوتی ہے۔"

اس فرمان سے ظاہر ہو گیا کہ ﷲ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ ہمیں زمانۂ جاہلیت کی قربانی نہیں چاہیے کہ جانور ذبح کر کے اسے پہاڑوں پر رکھ دیا جائے یا بتوں کے سامنے میں رکھ دیا جائے، نہیں ہر گز نہیں، ہمیں تو صرف تقویٰ اور پرہیزگاری مطلوب ہے، ہمیں تو تمھارا اخلاص مقصود ہے، ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ تمھارے ہر عمل صرف اور صرف ہمارے لیے ہو۔ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو قربانی کے جانور کا گوشت اور اس کی کھال سے استفادہ کرنے کی اجازت دی گئی بس یہ شرط عائد کردی گئی کہ قربانی کرنے والے کی نیت خالص ہونی چاہیے کہ وہ ﷲ کی رضا کے لیے اس کا حکم پورا کرے اور اپنی عاجزی و خود سپردگی کا عملی مظاہرہ پیش کرے۔اگر یہ امر موجود ہے تو قربانی مقبول ہے اور یہ عمل روز محشر میں باعث نجات ہے-

٥-: سورۃ الصافات میں اللہ فرماتا ہے :
"فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَنَادَيْنَاهُ أَن يَا إِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ۔"
ترجمہ : " تو جب ابراہیم و اسماعیل دونوں نے ہمارے حکم پر سر تسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ، اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم! بےشک تم نے خواب سچ کر دکھایا، ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔"

اس واقعے کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو  حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صورت میں بڑھاپے میں ایک اولاد عطا کی۔ مختلف امتحانوں سے گزرنے کے بعد جب حضرت اسماعیل علیہ السلام لڑکپن کی عمر کو پہنچے اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دل میں ان کی بے پناہ محبت پیدا ہو گئی تو ﷲ تعالی نے ان کا امتحان لینے کے لئے انہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا حکم خواب میں دیا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے یہ خواب اپنے صاحبزادے کو سنایا تو انہوں نے بھی فرمانبرداری اور اطاعت کے جذبے سے کہا کہ آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کر گزریں آپ مجھے شاکر و صابر پائیں گے۔
 لیکن ﷲ تعالیٰ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مقصود نہ تھی بلکہ یہ امتحان لینا تھا کہ باپ بیٹے ہمارے حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہیں یا نہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کے مقابل ﷲ کی محبت و اطاعت کو ترجیح دیتے ہیں یا نہیں۔۔۔۔ چنانچہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنا ارادہ انجام دینے کے لئے چھری چلاتے ہیں تو چھری نہیں چلتی اور اتنے ہی میں ایک جنتی مینڈھا من جانب اللہ چھری کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے اور چھری چلتی ہے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام قریب بیٹھے ہوئے ہیں اور  ان کی جگہ ایک مینڈھا ذبح ہو گیا ہے اور ندا آتی ہے کہ آپ نے خواب سچ کر دکھایا ہے اور آپ سچوں میں سے ہیں۔
اللہ رب العزت کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اس نے قیامت تک کے مسلمانوں پر قربانی واجب کر دی اور سنت ابراہیمی کو زندہ رکھنا ضروری قرار دے دیا۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے :

"عَنْ أَبِي دَاوُدَ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ , قَالَ : قُلْنَا " يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا هَذِهِ الأَضَاحِي ؟ قَالَ : سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السلام۔" 
ترجمہ : "صحابۂ کرام نے پوچھا، یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔" 

قرآن و حدیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی قربانی کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے اندر وہی روح اور وہی کیفیت پیدا کرنا ہے جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنی زندگی میں کیا تھا۔ عیدالاضحٰی میں جانوروں کی قربانی اس بات کو یاد دلانے کے لیے کی جاتی ہے کہ یہ سرمایہ اور یہ جانور سب اللہ کے دیے ہوئے ہیں بلکہ ہماری اولاد اور خود ہماری جان در اصل ہماری نہیں، بلکہ ہماری جان، ہمارا مال سب اللہ کا ہے اور ہمارے پاس بطور امانت ہے لہذا ہم وقت آنے پر ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔
اس طرح قربانی کے مقصد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک اجتماعی مقصد اور دوسرا ذاتی مقصد ۔
قربانی کا اجتماعی مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے اہلِ ثروت اور مالدار لوگ اللہ کی راہ میں جانور قربان کریں اور اس کا گوشت غریبوں اور حاجت مندوں میں تقسیم کریں جو اپنی غربت اور فقر کی وجہ سے اچھی غذا سے محروم رہتے ہیں۔
اور قربانی کا ذاتی مقصد یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کیا جائے ۔ قربانی کا مطلب ہی قربِ الٰہی کا حصول ہے۔ جب کوئی شخص قربانی کرتا ہے تو اللہ کی بارگاہ میں اس کا تقویٰ اور اخلاص دیکھاجاتا ہے۔ اور اس مقصد کا حصول اسی وقت ممکن ہوگا جب خالص اللہ کی رضا کے لیے قربانی کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات یہ نہیں دیکھتی کہ وہ جانور جو قربانی کے لیے پیش کیے گئے ان کی مالیت اور جسامت کیا ہے بلکہ وہ قربانی کرنے والے دلوں کی کیفیت پر نظر رکھتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ قربانی کرنے والے کی نیت کوئی مادی منفعت یا محض نام و نمود ہو ، اللہ رب العزت کو ایسی قربانی کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ اس قربانی کو قبول کرتا ہے جس کی اساس تقویٰ پر رکھی گئی ہو۔
محمد ہارون فتح پوری
                                پیرن پور، فتح پور
                                    ( پہلی قسط )

کیا کافر شخص کو قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں؟

کیا کافر شخص کو قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں؟

جواب أز ابن طفیل الأزہری ( محمد علی)

تمام فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ أگر کوئی کافر حربی ہو تو أسکو گوشت نہیں دے سکتے رہی بات کافر غیر حربی یا ذمی( اقلیتیں) تو أنکو دے سکتے ہیں جس پہ دلائل آگے آرہے ہیں ، 
لیکن ایک بات یاد رکھیں:
 حربی کا معنی یہ ہر گز نہیں ہوتا کہ آپ ایک کافر ملک میں رہ رہے ہیں 
أور بعض علاقوں میں کچھ کافر مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں تو آپ سب پر کافر حربی کا فتوی جاری کردیں  بلکہ کافر حربی وہ ہوگا جسکو أس ملک کی طرف سے قانونی إجازت ہو مسلمانوں کو مارنے کی یا أس ملک میں عبادت کی اجازت نہ ہو قانونی طور پہ  تو وہ ملک حربی کہلاتا ہے أور أس میں رہنے والے حربی یا کوئی دار حرب سے جا ملے 
یہی حضور صلی الله علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہے جو آپ نے مدینہ منورہ میں یہودیوں کے ساتھ معاملہ فرمایا أسکی روشنی میں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے کسی ایک قبیلہ کے نقصان پہچانے کی وجہ سے باقی قبیلوں کو حربی نہ کہا بلکہ جب جب جس قبلہ کی  طرف سے مجموعی طور پہ جو فعل صادر ہوا تو صرف ان پہ حربی ہونے کا حکم صادر فرمایا یہی حکم عکس ملک پہ بھی لگے گا۔
 أگر قانونی إجازت نہیں  أور مسلمانوں کو عبادت کی بھی إجازت ہے  أور وہ کسی دار حرب سے بھی نہیں ملا تو وہ کافر حربی نہیں کہلائے گا بلکہ وہ مجرم ہوگا أور قانون میں أسکی سزا مقرر ہے تو باقی کفار حربی نہیں کہلائیں گے
أور یہی إمام أبو حنیفہ کی تعریف کے مطابق بھی صحیح ہے جسکو إمام کاسانی نے بدائع میں بڑے أحسن انداز میں بیان کیا ہے.

عصر حاضر میں میری مبلغ علمی میں چنیدہ چنیدہ ممالک ہیں جیسے کشمیر و فلسطین وغیرہ وغیرہ جہاں مسلمان رہتے ہیں أور وہ دار حرب بھی ہیں
 لیکن کثیر ممالک عصر حاضر میں دار حرب نہیں تو لہذا آپ کفار کو قربانی کا گوشت دے سکتے ہیں درج ذیل دلائل کی روشنی میں بلکہ أنکو گوشت میں کچھ نہ کچھ حصہ دینا ایک مستحسن عمل ہے تالیف قلوب کے تحت:

پہلی دلیل:

اللہ رب العزت فرماتا ہے:

" لا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ"[الممتحنة : 8 ]

ترجمہ:

اللہ تمہیں ( کفار میں سے) أن لوگوں کے ساتھ إحسان اور إنصاف کرنے سے منع نہیں فرماتا جنہوں نے تمارے ساتھ قتال نہیں کیا أور نہ تمہیں گھروں سے بے دخل کیا ، بے شک اللہ إنصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے.

لہذا یہ آیت إسلام کے حسن تعامل کی عظیم مثال پیش کرتی ہے أور ترغیب دے رہی ہے کہ جو تمہارے ساتھ اچھا کرے تم بھی أسکے ساتھ اچھا کرو تو لہذا قربانی کا گوشت دینا بھی ( أن تبروھم) کے تحت جائز ہے.

دوسری دلیل:

اللہ رب العزت فرماتا ہے:

"لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ"[الحج:28 ]

ترجمہ: تاکہ أنکے لیے جو فوائد ہیں أسکا مشاہدہ کریں ، أور ( اللہ رب العزت) نے مویشی چوپائے جو أنکو عطاء کیے ہیں أن میں سے ( قربانی) کے مقررہ دنوں اللہ کا نام لے کر ذبح کریں ، پس وہ أن میں سے خود بھی کھائیں أور خستہ حال محتاجوں کو بھی کھلائیں.

اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے ( خستہ حال محتاجوں) کا ذکر مطلقاً فرمایا ہے بغیر مسلم یا غیر مسلم کی قید کے لہذا قربانی کا گوشت جس طرح مسلمان کو دینا جائز ہے إسی طرح غیر مسلم کو بھی دینا جائز ہے.

اعتراض: 

اس آیت میں تو حربی و غیر حربی کی بھی قید نہیں تو پھر آپ نے کیوں کہا کہ کافر حربی کو نہیں دے سکتے؟

جواب:

کافر حربی کی قید سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 8 میں وارد ہوچکی ہے جسکو پہلے نقل کیا جاچکا ہے لہذا اس وجہ سے کافر حربی کو دینا جائز نہیں باقی میں آیت أپنے عموم پہ رہے گی.

تیسری دلیل:

إمام ترمذی حضرت مجاہد سے روایت کرتے ہیں حضرت عبد اللہ بن عمرو کے لیے أنکے گھر میں ایک بکری ذبح کی گئی تو جب آپ گھر تشریف لائے تو آپ نے فرمایا:

أهديتم لجارنا اليهود؟ أهديتم لجارنا اليهود؟

کیا تم نے ہمارے یہودی پڑوسی کو (گوشت) کا ہدیہ دیا ؟ کیا تم نے ہمارے پڑوسی کو (گوشت) کا ہدیہ دیا؟

پھر آپ نے پڑوسی کے حقوق والی حدیث سنائی.

( سنن ترمذی ، باب ماجاء فی حق الجوار ، حدیث نمبر: 1943 ، إمام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے اس طریق سے)

اللہ أکبر! یہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین کا حسن تعامل لہذا اسلام نے ہمیشہ حق پڑوسی ، حق دوستی، حق وطنی کے تحت غیر مسلم کے ساتھ حسن معاملہ کا حکم دیا ہے ،اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہوگیا کہ جانور کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز ہے۔

اعتراض:

 یہاں تو مطلقاً بکری کا ذکر ہے قربانی کا تو نہیں آپ قربانی کے گوشت پہ کیسے استدلال کرسکتے ہیں؟

جواب:

جب بکری ذبح کرنے کا مطلقاً ذکر ہے تو ہم قربانی یا غیر قربانی کی قید کیسے لگاسکتے ہیں لہذا اطلاق سے استدلال بالکل واضح ہے کہ قربانی کا ہو یا غیر قربانی کا غیر مسلم کو أسکا گوشت دے سکتے ہیں۔
علامہ ابن حجر العسقلانی نے بھی حدیث کے عموم کی طرف إشارہ کیا ہے 
( فتح الباری ، باب الوصاءۃ بالجار ، ج: 10 ، ص : 442 )
أگر مان بھی لیا جائے کہ یہ بکری غیر قربانی کی تھی تو بھی علت مشترکہ سے جائز ہے وہ یہ کہ اس بکری کا گوشت دینا بھی ہدیہ ہے أور قربانی کا گوشت دینا بھی ہدیہ لہذا  کفار کو ہدیہ  دینا بالاتفاق جائز ہے إسی لیے 
فتاوی ہندیہ میں ہے:

ويهب منها ماشاء للغني والفقير والمسلم والذمي .

ترجمہ:
 وہ أس ( قربانی) میں سے امیر، غریب ، مسلم أور ذمی کافر کو جیسے چاہے ہبہ کرسکتا ہے.

( الفتاوی الھندیہ ، الباب السادس فی بیان ما یستحب فی الأضحیۃ و الانتفاع بھا ، ج: 5 ، ص : 300 )

أور إمام ابن قدامہ فرماتے ہیں:

فجاز إطعامه للذمي كسائر طعامه ، ولأنه صدقة تطوع ، فجاز إطعامها الذمي والأسير كسائر صدقة التطوع.

ترجمہ:
یہ بھی جائز ہے کہ اس [قربانی کے گوشت]سے ذمی کافر کو بھی کھلایا جائے جیسے أسکے باقی کھانے ہیں۔۔۔، کیونکہ یہ نفلی صدقہ ہے، اس لئے یہ ذمی اور قیدی کو کھلانا جائز ہے، جیسے کہ دیگر نفلي صدقات انہیں دئے جا سکتے ہیں.

( المغنی لابن قدامہ ، مسألہ : 7879 ، ج : 9 ص : 450 )

لہذا قرآن و أحادیث اور فقہائے کرام کی تائیدات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دیا جاسکتا ہے بلکہ آج کے دور میں ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ گوشت میں سے کچھ نہ کچھ حصہ غیر مسلم کو دیں أور خاص کر أنکو جنکے گھروں میں غیر مسلم ملازم ہوتے ہیں تاکہ وہ إسلام کے اس عظیم حسن معاملہ و معاشرہ کو محسوس کریں.

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

عید کی نماز کا طریقہ

عید کی نماز کا طریقہ

  *پہلے نیت کریں

☽ نیت کرتا ہوں میں دو رکعت نماز عید کی زائد چھ تکبیروں کے ساتھ منہ میرا کعبہ شریف کی طرف
واسطے اللہ تعالی کے پیچھے اس امام کے.

امام تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھ کرثنا پڑھےگا ہمیں بھی تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھ لینا ہے اس کے بعد تین زائد تكبيریں ہوں گی.

⛤ پہلی تکبیر کہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے

⛤دوسری تکبیر كہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے

⛤تيسری تکبیر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لینا ہے

اسكے بعد امام قرآت کرےگایعنی سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھے گااور رکوع سجدہ کرکے پہلی رکعت مکمل ہوگی

🌹دوسری رکعت کے لئے اٹھتے ہی امام قرآت کرے گا یعنی سورہ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھےگا اس کے بعدرکوع میں جانے سے پہلے زائد تینوں تكبيرے ہوں گی

⛤پہلی تکبیر کہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے

⛤دوسری تکبیر كہہ كر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑدینا ہے

⛤تيسری تکبیر کہہ کر ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دینا ہے

یہاں تک زائد تكبيرے مکمل ہوگئ.
☽ اب اس کے بعد بغیر ہاتھ اٹھاے تکبیر کہہ کر رکوع میں جاینگے.
☽اور بس آگے کی نماز دوسری نمازوں کی طرح پڑھنا ہےپھر سلام پھیرنا ہوگی.
*نماز عید سے پہلے خوب شئیر کریں اللہ عمل کی توفیق عطاءفرمائے*

Saturday, August 10, 2019

این آر سی اور این پی آر کی حقیقی صورتحال

این آر سی کا ملک بھر میں نفاذ
حقائق واندیشے
یاسر ندیم الواجدی
میں اپنی تحریر کا آغاز اس دعا کے ساتھ کر رہا ہوں کہ خدا کرے اس کا ایک ایک لفظ آگے چل کر غلط ثابت ہو۔ اس تحریر کے پیچھے یہ نیت ہرگز نہیں ہے کہ لوگوں کے دلوں میں خوف ہراس پیدا کیا جائے، لیکن اگر آنے والے خطرات سے ہم اپنے آپ کو باخبر نہ کر پائے تو پھران خطرات کا مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔
این آر سی یعنی شہریوں کا قومی رجسٹر ایک دستوری عمل ہے، جس کی شروعات آزادی کے بعد 1951 میں ہوگئی تھی۔ لیکن ملک کی کرپٹ سیاست کے نتیجے میں یہ رجسٹر اپ ڈیٹ نہیں ہوا، تا آنکہ اسّی کی دہائی میں، آسام میں یہ مسئلہ اٹھا کہ اس علاقے میں لاکھوں بنگلہ دیشی داخل ہوگئے ہیں اور انھوں نے ووٹر آئی ڈی بھی بنالی ہے، جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کی شناخت اور سیاسی حیثیت متاثر ہورہی ہے۔ سالہا سال کی جد وجہد کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ این آر سی کو اپ ڈیٹ کیا جائے اور اس کا معیار یہ ہو کہ 24 مارچ 1971 سے پہلے سے جو لوگ ملک میں رہتے چلے آرہے ہیں، ان کو ملک کا شہری تسلیم کیا جائے۔ جو افراد بعد میں آئے ہیں وہ غیر ملکی قرار دیے جائیں۔ کہنے کو یہ ایک دستوری عمل ہے، لیکن جس طریقے سے آسام میں مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دینے کے لیے اس ہتھیار کا استعمال کیا گیا، اس کو سمجھنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ملک کے پانچویں صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد کے بھتیجے ضیاء الدین علی احمد بھی اپنے آپ کو بھارتی شہری ثابت کرنے کے لیے بقیہ چالیس لاکھ لوگوں کی طرح ابھی تک جد وجہد کررہے ہیں۔ شہریوں کی آخری لسٹ اگست کے آخر میں آنے والی ہے، جن لوگوں کا نام اس لسٹ میں آجاتے گا وہ خوش نصیب ہوں گے، بقیہ لوگوں کو ہائی کورٹ میں جانے کا اختیار ہوگا، وہاں اپنی شہریت ثابت نہ کر پانے کی صورت میں سپریم کورٹ بھی جانے کا اختیار ہوگا۔
دی کاروان میگزین میں سینیر وکیل سنجے ہیگڈے کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے، جس میں وہ شہریت ثابت کرنے کے لیے قائم ٹربیونلز پر سوالیہ نشان لگاتے ہوے کہتے ہیں، کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کچھ لوگوں کو کانٹریکٹر کی حیثیت سے ملازمت دی گئی ہے، ان کا کوئی قانونی بیک گراؤنڈ نہیں ہے، ان افراد پر سخت دباؤ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو غیر ملکی قرار دیں۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے دو شناخت نامے ثبوت کے طور پر پیش کیے، جن میں سے ایک میں اس کے باپ کا نام محمد فلاں ہے، جب کہ دوسرے میں محد (محمد کا مخفف) فلاں، ٹربیونل افسر دونوں کو یہ کہہ مسترد کردیتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے متعارض ہیں۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے جناب ناظم الدین فاروقی صاحب سے میں نے اس تعلق سے گفتگو کی۔ وہ اپنی تنظیم کے ذریعے ایک عرصے سے ایسے افراد کی مدد کر رہے ہیں جن کا نام این آر سی میں آنے سے رہ گیا ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کے لوگوں کو بلا کسی اہلیت کے ٹربیونل افسر بنادیا گیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی زندگی ان کے ہاتھ میں دیدی گئی ہے، ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ اور ان کے وکلاء سخت محنت کے باوجود مطلوبہ نتائج نہ نکلنے کی وجہ سے سخت مایوسی کا شکار ہیں۔ سنجے ہیگڈے کے مطابق: عدالتوں میں جانے والے افراد کو بھی مایوسی کا سامنا ہے، کیوں کہ ہائی کورٹ نے بھی ٹربیونل کے فیصلوں کو باقی رکھا ہے۔ ان افراد کے پاس اتنی مالی استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ سپریم کورٹ تک چلے آئیں۔ یہ ایک عجیب قانون ہے جس کے مطابق فرد کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ بغیر کسی شک و شبہ کے ملک کا شہری ہے، گویا ہر فرد کو یہ تسلیم کرکے چلا جارہا ہے کہ وہ غیر ملکی ہے، لہذا اگر کسی شخص کا نام ابراہیم ہے اور اس کے ایک شناخت نامے میں، یہ نام ای سے شروع ہوتا ہے، جب کہ دوسرے میں آئی سے، تو وہ شخص ان شناخت ناموں کی بنیاد پر اپنے آپ کو ملک کا شہری ثابت نہیں کر پائے گا۔
آسام میں ابھی تک اس طریقہ پر عمل ہوتا آرہا ہے۔ ناظم الدین فاروقی صاحب کے مطابق ستر ہزار سے زائد لوگ ڈٹینشن کیمپوں میں بند کردیے گئے ہیں، تقریبا ساڑھے تین لاکھ لوگ گرفتاری کے خوف سے اپنے گھروں سے فرار ہیں اور بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو اپنے تاریک مستقبل سے مایوس ہو کر خودکشی کر چکے ہیں۔
طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون بنائے جانے اور دفعہ370 کے کامیابی کے ساتھ ختم کیے جانے کی وجہ سے، بی جے پی کے حوصلے بلند ہیں۔ رام ناتھ کووند نے بھی اپنے صدارتی خطاب میں (جو دراصل حکومتی پالیسی سے متعلق ہوتا ہے) کہہ دیا ہے کہ موجودہ حکومت آسام کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں این آر سی اپ ڈیٹ کرنے کا سلسلہ شروع کرنے جارہی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی تین اگست کی اشاعت کے مطابق: سب سے پہلا مرحلہ این پی آر یعنی نیشنل پاپولیشن رجسٹر کا ہے، جس کا آغاز یکم اپریل دو ہزار بیس سے ہوگا اور تیس ستمبر دوہزار بیس کو یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ این پی آر کے تحت گاؤں گاؤں شہر در شہر عام رہائش پذیر لوگوں کا نام، پتہ، فوٹو اور فنگر پرنٹس کا اندراج ہونا ہے۔ عام رہائش پذیر سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی بھی جگہ چھ ماہ یا اس سے زائد عرصے سے مقیم ہیں۔ این پی آر کے ذریعے ملک میں رہائش پذیر لوگوں کا مکمل "ڈیٹا بیس" حکومت کے پاس آجائے گا، اس کے بعد این آر سی کا عمل شروع ہوگا۔
حکومت نے ابھی تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ کن بنیادوں پر، آسام کے علاوہ ملک بھر میں فرد کو شہری تسلیم کیا جائے گا۔ اگر آدھار کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کی بنیاد پر این آر سی کا عمل ہوتا ہے تو خطرے کی کوئی بات نہیں ہے، لیکن اگر آسام کا طریقہ کار ملک بھر میں نافذ کیا جاتا ہے تو انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ خدا نخواستہ ہمارا منتظر ہے۔
آسام میں ٹربیونل کے تعصب اور ظلم کے علاوہ یہ طریقہ رہا ہے کہ فرد یہ ثابت کرے کہ اس کے پاس 1971 سے پہلے کا جاری کردہ حکومتی شناخت نامہ جیسے پاسپورٹ، برتھ سرٹیفکیٹ، ایل آئی سی وغیرہ موجود ہے یا نہیں۔ وہ افراد جو 1971 سے پہلے پیدا ہوگئے اور ان کے پاس یہ ڈاکیومنٹس موجود تھے اور ابھی تک ہیں وہ شہری تسلیم کیے جائیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص 1951 سے پہلے پیدا ہوگیا تھا اور اس کا نام اُس دور میں قائم ہوے این آر سی میں ہے تو وہ بھی ملکی شہری ہے۔ جو لوگ 1971 کے بعد پیدا ہوے ہیں، ان کے پاس خواہ پاسپورٹ ہی کیوں نہ ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ اپنے پاسپورٹ کو صرف اپنے والدین کا نام ثابت کرنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ لیکن اپنے کو شہری ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے والدین یا اس کے دادا دادی میں سے کوئی ایک 1951 کے این آر سی میں ہوں، یا کم از کم 1971 سے پہلے ہی آسام میں داخل ہوچکے ہوں۔ لہذا وہ اپنے والدین یا اجداد کے شناخت نامے پیش کرے، جو ظاہر ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد کے پاس موجود نہیں ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ بھی رہا ہے کہ اگر اس کے والد نے کوئی جائداد خریدی ہے تو اس کے کاغذات پیش کیے جائیں، جائداد اگر 1971 کے بعد خریدی گئی ہے تو کاغذات میں دادا کا نام ہوگا، لہذا دادا کے نام سے اگر کوئی جائداد 1971 سے پہلے کہیں رجسٹرڈ تھی تو اس کے کاغذات پیش کیے جائیں۔ اس طرح وہ شخص اپنے کو ملکی شہری ثابت کرسکتا ہے۔
ملکی پیمانے پر ہونے والے رجسٹریشن میں اگر اسی طریقے کو اپنایا گیا اور 1971 کو معیار مان لیا گیا تو بھی مصیبت چھوٹی نہیں ہے، لیکن اگر 1951 کو معیار مان لیا گیا تو کروڑوں لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ فوری طور پر اپنی اور اپنے آبا واجداد کے نام جائدادوں کے کاغذات تلاش کیے جائیں، ظاہر ہے کہ جن کی جائدادیں اور مکانات جدی ہوں گے وہی یہ کام کرسکتے ہیں، بقیہ لوگ کم از کم اپنے تمام شناخت ناموں اور ووٹر آئی ڈیز میں نام کی اسپیلنگ درست کرائیں۔ کیوں کہ حکومت کی جانب سے جب این آر سی کے لیے طریقہ کار کا اعلان ہوگا اور قابل قبول ڈاکیومنٹس کی لسٹ جاری ہوگی، اس وقت رشوتوں کا بازار گرم ہوچکا ہوگا، سرکاری ملازم معمولی تصحیح کے لیے ہزاروں نہیں شاید لاکھوں اینٹھ رہے ہوں گے۔
جو لوگ آسام میں آخری لسٹ کے مطابق اپنے کو شہری ثابت نہیں کرپائیں گے وہ بقیہ ستر پچھتر ہزار لوگوں کی طرح ڈٹینشن کیمپس میں ڈال دیے جائیں گے، جس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ وہ ووٹنگ کے حق سے تو محروم ہیں ہی، اپنے ہی مکانوں کے مالکانہ حق سے بھی محروم ہوں گے اور بنگلہ دیش کے بہاری نژاد افراد اور برما کے روہنگیا کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے۔ آسام کے فینانس منسٹر نے ایک انٹرویو میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو ووٹ اور مالکانہ حق سے محروم کردیں گے۔
یہی طریقہ کار اگر خدا نخواستہ ملک بھر میں نافذ کیا گیا اور مشہور صحافی ونود دووا کے مطابق کروڑ دو کروڑ مسلمان اپنے کو شہری ثابت نہ کر پائے تو یہ انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ ہوگا۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا اس لیے ہے کہ بی جے پی حکومت "سیٹیزن شپ امینڈمنٹ بل" بھی پیش کرنے جارہی ہے، جس کے مطابق کوئی بھی غیر مسلم اگر اپنے کو شہری ثابت نہیں کر پایا تو ملک میں سات سال رہنے کی بنیاد پر اس کو شہریت عطا کردی جائے گی۔ یہ قانون جہاں ایک طرف شہریوں کے درمیان امتیازی سلوک کا سب سے بڑا مظہر ہوگا، وہیں کتنے ہی مسلمان مجبورا اسلام ترک کرکے کوئی دوسرا مذہب بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ شدت پسند تنظیموں کے لیے عام مسلمانوں کی "گھر واپسی" ایک دیرینہ خواب ہے۔
میری درخواست ہے کہ تمام ملی تنظیمیں اس تعلق سے مل بیٹھیں اور متحد ہوکر تمام امکانات کا جائزہ لیں اور آنے والی ممکنہ مصیبت سے پہلے ہی مکمل تیاری کرلیں۔ اس کے لیے عام مسلمانوں کے کاغذات کی تیاری میں تعاون بھی اپنے ایجنڈے میں شامل رکھیں، ہر تنظیم اگر اپنے طور پر یہ کام کرے گی تو اتنا موثر نہیں گا۔ جو لوگ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں وہ سب سے پہلے تو یہ دعا کریں یہ سب باتیں جھوٹی نکلیں، دوسرے نمبر پر وہ اپنے کاغذات کی تیاری کے لیے کمر کس لیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اسی وقت آتی ہے جب انسان خود متحرک ہوتا ہے حسبنا اللہ نعم الوکیل

حوصلے پست نا کریں اور اس تحریر کو بھی پڑھیے۔

این آر سی ہمیں ڈاکومنٹڈ بنائے گی۔

تفصیلات سے قطع نظر مسلمان جس طرح NRC پر واویلا کر رہے ہیں اس تو یہ لگتا ہے کہ وہ خود ہی طے کر چکے ہیں کہ ان کو پریشان کیا جائے اور ان کی شہریت سلب کر لی جائے۔
بھائیو آسام کی نوعیت دوسری ہے، اس پر دوسری ریاستوں کو قیاس نہ کریں، اگر ہوا بھی تو اسکی نوعیت آسام کی سی نہیں ہو گی۔ پھر کیا آسام میں بڑی فہرست ہندووں کی بھی متاثرین میں نہیں ہے۔ تو آخر مسلمان سب کچھ سب سے پہلے اپنے ذمہ کیوں لے لیتا ہے اگر چہ وہ اصل نشانہ بنتا ہے ۔
البتہ آسام کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت اہم ہو گا، ابھی یہ فیصلہ نہیں آیا ہے اور نہ ہی بل پاس ہوا ہے۔ مگر افواہ ہے کہ فیصلہ بھی آ چکا اور بل بھی پاس ہو گیا ۔ جبکہ ابھی صرف زبانی اظہار ہوا ہے ۔ لوگوں نے جیسے طے کر لیا ہے کہ ہم خود ہی تم کو بتائیں گے کہ ہم کتنے خوفزدہ ہیں اور تم کیسے ہم کو پریشان کر سکتے ہو۔
بالفرض اگر جن خطرات کا اظہار شد و مد کے ساتھ کیا جا رہا ہے وہ حکومت کرنے پر آمادہ ہو جائے تو کون کاغذات تیار کروا لے گا اور کون دے گا کاغذات بنا کر ۔
ارے بھائی یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے ۔ یہ طے کرو کہ ملک گیر سطح پر اگر ایسا قانون آتا ہے تو ہم پوری طاقت سے اس کو ریجیکٹ کریں گے اور کسی حال میں نہیں مانیں گے ، سسک کر مرنے سے بہتر ہے حق کی لڑائی لڑتے ہوئے جان دے دینا۔ آڈیو کے ذریعہ افواہیں پھیلانے والوں کو پکڑ کر جوتے لگانا بہتر ہے۔  ارے سیدھی سی بات ہے کہ اگر قانون اس لیے لایا جائے کہ سب کچھ آپ ڈیٹ ہو جائے تو ٹھیک ، اور اگر اس لیے لایا جائے کہ دو چار کروڑ کو سسکنے کے لیے چھانٹنا ہے تو پھر ایسے قانون کو ماننا گویا کئی نسلوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنا ہو گا ۔ اس لیے پھر سسک سسک کر مرنے سے بہتر ظلم کے خاتمہ کے لیے اور حق کے حصول کے لیے جان دینا ہوگا ۔ آپ نہ صرف ملک گیر بلکہ عالمی سطح کے احتجاج کا ابھی سے موڈ بنا لیجئے بس ۔ باقی اہم دستاویز و کاغذات تو نارمل حالات میں بھی گھر میں ہونا ہی چاہیے۔   
باقی NPR ہونا ہے ، وہ کوئی نئی چیز نہیں ۔ ہوتا آیا ہے مردم شماری کا عمل مگر اس بار کچھ نئے کالم کے ساتھ ہو گا۔ اس میں بالکل مت چوکیے ۔
طارق ایوبی۔
آنکھیں بند کر سونے سے پہلے اسے بھی پڑھیں ایک بار

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...