Saturday, August 3, 2019

شاید کے اتر جائے ترے دل میں میری بات

جو نادان آج چاروں ہاتھ پاؤں سے اعظم خان کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں  انہیں اس وقت خود معلوم  نہیں کہ وہ  بدترین مسلم مخالف سازشوں کا حصہ بن رہے ہیں جب انہیں ہوش آئے گا تب تک بہت تاخیر ہوچکی ہوگی،،،
جن لوگوں نے حضرت ٹیپو سلطان کی مخبری کی تھی وہ بھی گلمہ گو تھے اور ذاتی مفاد میں انہوں نے سلطان کے ساتھ غداری کی سمجھ رہے تھے کہ ہم خوش عیش رہیں گے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان کی خواتین کی عزتیں تک محفوظ نہ رہ سکیں اور آخر میں ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی ،، آج جو لوگ اپنے اپنے انتقام کی آگ میں بالکل اندھے ہوچکے ہیں اور کسی بھی قیمت میں جوہر یونیورسٹی کو مقفل کرانے اور اعظم خان صاحب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کے لیے ہر کوشش کر رہے ہیں انجام ان کا بھی بہت برا ہوگا اتہاس کے پنوں میں انہیں اسی طرح یاد کیا جائے گا جس طرح ٹیپو سلطان کے غداروں کو صدام حسین کی مخبری کرنے والوں کو ذلت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے ،،

نادانوں ! ہوش کے ناخن لیں اور ذرا سوچیں کہ  شہاب الدین سیوان ،عتیق پھول پور الہ آباد ،مختار مؤو، اکبر احمد ڈمپی، جیسی مضبوط سیاسی مسلم طاقتوں کو بے وزن کردیا گیا ہے ایسے وقت میں اعظم خان صاحب کے حوالے سے گڑے مردے اکھاڑنے کے لیے تصویر کے صرف منفی رخ کو پیش کرنے کے لیے زور قلم زور زبان کا استعمال کیا جانا قابل افسوس ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے ،،

جن احمقوں نے اغیار کی گود میں بیٹھ کر اپنی سیاسی اڑان حاصل کرنے کے لیے اپنوں کے سر قلم کرادہے ان کے انجام سے ہی سبق حاصل کر لیجیے معمر قذافی کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد کیا لیبیا تنزلی کی راہ پر نہیں آیا ؟

صدام حسین کی پھانسی کے بعد کیا عراق بربادی کے راستے پر نہیں ہے ؟؟

یہ جو  اعظم خان کی مخالفت میں آج  پاچاموں سے باہر ہیں اور فرقہ پرستوں کے کمر بند پکڑ کر مسلم مخالف سلگتی آتش میں پیٹرول ڈیزل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں در اصل یہ طبقہ اپنی سیاسی رسہ کشی نکالنے کے لیے پوری ملت اسلامیہ کو تباہی کے دہانے کی طرف ڈھکیل رہا ہے ،
مگر ان خود غرض لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ،
    
      ع چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں ،،

نادانو!  جب مقاصد بڑھے ہوں تو ان مقاصد کی بنسبت چھوٹی باتوں پر دھیان نہیں دیا جاتا یہی عقلمندی اور سمجھداری ہے مثلاً آپ کے مکان میں آگ لگ گئی مکان میں سامان بھی ہے اور سامان کے علاوہ آپ کا کوئ اپنا بھی سلگتے مکان میں بھنسا ہوا اب ایسے میں اپنے کی جان بچانے کے لیے سامان کو نظرانداز کیا جائے گا کہ سامان تو محنت کرنے کے بعد حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن جان چلی گئی تو سامان کا کیا کریں گے ؟  اب اسی طرح ہر طرح کے معاملات کی نوعیت دیکھنا چاہیے اعظم خان سے انتقام لینا زیادہ ضروری ہے یا اپنے بچوں کے تعلیمی مستقبل جوہر یونیورسٹی کو بچانا زیادہ ضروری ہے ؟

      ع شاید کے اتر جائے ترے دل میں میری بات ،،

ملت کے مفادات کو  اپنے مفادات پر  جو ترجیح نہ دے سکے وہ خود غرض تو ہو سکتا ہے انسانیت نواز نہیں ،،
اس وقت سب سے زیادہ ضروری فرقہ پرستوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لیے پوری قوت کے ساتھ گھڑا ہونا اور یہ اس وقت کا سب سے بڑا مقصد ہے لہذا اپنی سیاسی رنجشیں بھلا کر یا کم از کم بہتر حالات ہونے تک بالائے طاق رکھ کر ظلم و ناانصافی کے خلاف متحدہ آواز بننے کی ضرورت ہے ورنہ پھر انتظار کیجیے اپنی اپنی باری کا اور مرو ذلت کی موت اس کوبرے سانپ کی طرح جو دوسرے سانپ کو مارنے کی ضد میں خود بھی مارا جاتا ہے ،،،،

پہلے اعلی حضرت حج ہاؤس غازی آباد میں بند کیا گیا اب جوہر یونیورسٹی پر خطرات کے بادل منڈرا رہے ہیں کس لال باغ میں ہیں محترم اگلا نمبر آپ کے ادارے کا بھی ہو سکتا ہے ،،
  توصیف رضا مصباحی سنبھلی

اعظم خان اور رام پور وکاس کی داستان

ہمیں شہر کے ایک قریب التکمیل بائی پاس کی تکمیل کی نجی ضرورت کے تحت یوگی حکومت میں کوشش کرنا پڑی, جس کے لیے ہم نے باقی بچے کسانوں کو پچھلے کسانوں سے دوگنا معاوضہ دِلوانے تک کی بات کہی کہ وہ اپنی زمینں بائی پاس کو دے دیں, لیکن وہ نہیں مانے, حالاں کہ شروع میں اُنہوں نے خود ہی کہا تھا کہ دو گنا معاوضہ مل جائے بس, لیکن پی ڈبلیو ڈی اتنے پر راضی ہو گیا تو تین گنا کا مطالبہ رکھ دیا, ہم نے بہت منت سماجت کی لیکن نہیں مانے,

پھر کسی طرح تین گنا تک کی بات پی ڈبلیو ڈی سے منوائی تو کسانوں نے پھر دھوکہ دیا اور اب چار گنا پر پہنچ گئے, حتی کہ ایک کسان نے ہم سے کہا کہ اگر تمیں جلدی ہے تو میرے حصہ کی زمین کے چار گنا میں 32 لاکھ روپے کم ہیں وہ آپ اپنے پاس سے پورے کر دیں اور بائی پاس نکلوا لیں, ورنہ دھمکی کی کہ میں کورٹ جا کر بائی پاس کو برسوں تک لٹکا دوں گا, نتیجتاً وہ بتیس لاکھ کا اضافی چارج ہمیں نجی طور پر بکراہت قبول کرنا پڑا,

ہم نے اس کسان سے خفیہ سمجھوتہ کر لیا کہ ٹھیک ہے یہ 32 لاکھ کی اضافی رقم ہم پوری کر دیں گے مگر تم باقی کسانوں کو مت بتانا, اور وہ ڈھائی یا تین گنا پر راضی ہیں تو اُنہیں اُتنے میں رجسٹری کروانے دینا, لیکن دوسرے کی مجبوری کا ذرہ برابر احساس نہ کرنے والے اس کسان نے دوسرے ہی دن سب کسانوں کو بتا دیا کہ میں نے اپنا چار گنا پکا کر لیا, باقی تم جتنے میں رجسٹری کراو تم جانو, نتیجتاً دوسرے کسان بھی چار گنا پر پہنچ گئے اور اپنے پچھلے وعدے سے مکر گئے,

ہم چوں کہ بے حد مجبور تھے تو ہم نے اب اس کے لیے کوشش کی, اور بڑے سیاسی رسوخ کے ذریعہ اور پی ڈبلیو ڈی سے ہزار گزارش کر کے اسے چار گنا معاوضہ دینے پر کسی طرح راضی کیا, تو اب بھی صرف یہ ہوا کہ اُن میں سے آدھے ہی کسان رجسٹری کرا پائے, جب کہ بقیہ آدھوں نے آٹھ گنا کی ڈمانڈ بڑھا ڈالی, نتیجہ یہ ہوا کہ اتنی کوشش کے بعد بھی آدھا ہی بائی پاس نکل پایا اور آدھا آج بھی ویسا ہی کھیت پڑا ہے,

اور اس چار گنا تک بھی ہمیں بھاجپا کے ایک مرکزی وزیر اور صوبائی نائب وزیر اعلی تک کا سورس ڈلوانا پڑا, دو مرتبہ ہم اس کے لیے ڈی ایم سے ملے, متعدد بار اے ڈی ایم سے ملے, اور پی ڈبلیو ڈی تو مسلسل دو سال جانا پڑا, کسانوں نے ڈی ایم کی کئی میٹنگوں میں نہ اے ڈی ایم کی بات مانی اور نہ ڈی ایم کی, ایک وِدھایک تک نے گزارش کی جو نظر انداز کردی,

پھر جو آدھے کسان چار گنا پر مان گئے تھے وہ پی ڈبلیو ڈی سے کروڑوں لے کر آرام سے بیٹھ گئے اور کھیت کے پیڑ نہیں کاٹ رہے تھے تاکہ جلد روڈ پڑے جو ہماری فوری ضرورت تھی یہاں تک کہ مہینوں ہمیں گزارش کرتے گزر گئے, عذر تھا کہ لکڑی کٹان والے ریٹ زیادہ مانگ رہے ہیں, نوبت یہ ہوئی کہ اُن کی زمینوں کی لکڑی کٹان میں چالیس ہزار ہم نے اپنی جیب سے بھرے, تب جا کر لکڑی کٹی,

تو یہ ہے کسانوں کا ظلم, جب کہ بائی پاس نکلنے کا اصل فائدہ بھی اُنہیں کو ہوا اور کروڑوں میں ہوا, جو زمینیں دو تین لاکھ روپے بیگھہ تھیں وہ ایک دم تیس چالیس لاکھ روپے بیگھہ پہنچ گئیں, یعنی اگر کسی کی دس بیگھہ زمین تھی تو بائی پاس سے قبل تیس لاکھ کی تھی لیکن ایک ڈیڑھ بیگھہ زمین بائی پاس میں دینے کے بعد سیدھے تین کروڑ کی ہو گئی, جس کی ہم دہائی بھی دیتے تھے, مگر اُن ظالموں پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا,

تو دوستو!
میں نے اپنا یہ تھکا دینے والا تجربہ آپ کے سامنے اس لیے رکھا تاکہ آپ سمجھ سکیں کہ اس دنیا میں کسان بھی ایک سے ایک حرامی پڑا ہے, نام ہی کسان ہے ورنہ کوئی مجبور مل جائے تو یہ کسان بھی پورا شیطان بن جاتا ہے, ساتھ ہی صد فی صد اِس حقیقی تجرے سے میں آپ کو یہ بھی سمجھانا چاہتا ہوں کہ آپ اگر گاوں کے مکھیہ اور شہر کے ودھایک ہیں اور وکاس کرانا چاہتے ہیں تو سختی ناگزیر ہے, ورنہ اُلٹے لوگ آپ کو کھا جائیں گے, ایک مسئلہ نہ سُلجھا پائیں گے اور مدتِ کار گزر جائے گی,

میری اس کہانی سے آپ اندازہ لگائیں کہ ایک ذرا سے کام میں کتنی دشواریاں آئیں اور پھر مسلسل ڈھائی سال بعد یہ بائی پاس مکمل ہوا اور وہ بھی ون سائڈ کا, تو جو ارب ہا ارب روپے کا وکاس کرائے اور پورا شہر تعمیر و تزیین کے مرحلے سے گزارے, وہ اتنے نخرے کیسے برداشت کرے گا؟ اور یہی سب کرے گا تو کام کب کرے گا؟ لوگ اعظم خاں کی سختی کے شکوے کرتے ہیں, لیکن مجھے کوئی بتائے کہ یوپی کے کس شہر میں اتنا کام ہوا ہے؟ بلکہ شاید پورے ملک میں رامپور کی مثال نہ ملے, تو کام زیادہ, اس لیے سختی زیادہ,

تو وکاس پرش کے لیے کچھ ظالم بننا بھی اُس کی مجبوری یے, یا پھر آپ کچھ نہ کریں بس میٹھی میٹھی باتیں کریں اور ہر کام کو کہہ دیں کہ ہاں ہو جائے گا, اور آنے والے کے کاندھے پر ہاتھ پِھرا کر ایسے ہی بے وقوف بنا کر بھیج دیں, اور اگر کوئی زیادہ شور مچائے تو اس کو تھوڑا لالچ دے دیجیے, شرابی ہو تو شراب پلا دیجیے, پیسے کا لالچی ہو تو اس کو ایک آدھ اسکیم کا فائدہ پینچا دیجیے اور بس, باقی سماج کو مرنے دو, جیسا کہ آج کے ناکارہ لیڈران اکثر یہی کرتے ہیں, بدنامی بھی نہیں ہوتی, لوگ کہتے ہیں ارے یہ نیتا جی بڑے اچھے ہیں.

میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر اعظم خاں اتنے سخت نہ ہوتے تو کچھ نہ کر پاتے, یہ جو بڑی بڑی سڑکیں, کشادہ بائی پاس, عظیم الشان حیات گیٹ, نجات گیٹ, بی اماں گیٹ, اردو گیٹ, مارکیٹس, پارکس, سیورج, فلائی اوور, بس اڈہ, ہاسپٹل, نگر پالکہ بلڈنگ, گاندھی مال, گاندھی سمادھی چوک, تین تین رامپور پبلک اسکولس, اور شان دار اور خوب صورت ترین محمد علی جوہر یونیورسٹی.......یہ سب خواب ہی ہوتا, زمین پر کچھ نہ ہوتا, ہاں ہم جیسے بے وقوف ضرور خوش ہوتے کہ ہمارا چبوترا نہ ٹوٹا.
از ناصر رامپوری مصباحی

Thursday, August 1, 2019

قصة و عبرة

قصة و عبرة
            ﻗﺮﺭ ﻣﻠﻚ ﻓﻲ ﺇﺣﺪﻯ ﺍﻟﺒﻼﺩ ﺍﻟﻘﺪﻳﻤﺔ ﺃﻥ ﻳﻐﻴﺮ ﻭﺯﻳﺮ ﺍﻗﺘﺼﺎﺩﻩ ﺍﻟﺬﻱ ﻓﺸﻞ ﻓﻲ
        ﺗﻮﻓﻴﺮ ﺍﻟﺤﻴﺎﺓ ﺍﻟﻜﺮﻳﻤﺔ ﻟﺸﻌﺒﻪ ، ﻓﺄﻋﻠﻦ ﻓﻲ ﺍﻷﺳﻮﺍﻕ ﺃﻥ ﻣﻦ ﻳﺜﻖ ﺑﻨﻔﺴﻪ
ﻭﻳﺮﻯ ﺃﻥ ﻟﺪﻳﻪ ﺍﻟﻘﺪﺭﺍﺕ ﺍﻟﻜﺎﻓﻴﺔ ﻟﻠﻔﻮﺯ ﺑﻤﺜﻞ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﻤﻨﺼﺐ ﺃﻥ ﻳﺘﻘﺪﻡ
ﻟﻠﻤﺴﺎﺑﻘﺔ ...
ﺗﻘﺪﻡ ﻋﺸﺮﺓ ﺃﻓﺮﺍﺩ .
ﻓﺄﻋﻄﻰ ﺍﻟﻤﻠﻚ ﻛﻞ ﻣﻨﻬﻢ 1000 ﻗﻄﻌﺔ ﺫﻫﺒﻴﺔ ﻭﻗﺎﻝ ﻟﻬﻢ ... ﻋﻮﺩﻭﺍ ﻟﻲ
ﺑﻌﺪ 3 ﺃﺷﻬﺮ ﻷﺭﻯ ﻣﺎﺫﺍ ﻓﻌﻠﺘﻢ ﺑﻬﺎ ...

ﺟﺎﺀ 9 ﻣﻦ ﺍﻟﻤﺘﺴﺎﺑﻘﻴﻦ ﻭﻣﻌﻬﻢ ﺃﻛﻴﺎﺱ ﻛﺒﻴﺮﺓ ﻣﻦ ﺍﻟﻨﻘﻮﺩ ...
ﻓﺎﺳﺘﻌﺮﺽ ﺍﻷﻭﻝ : ﺟﺌﺖ ﻟﻚ ﺳﻴﺪﻱ ﺑـ 15 ﺍﻟﻒ ﻗﻄﻌﺔ ﺫﻫﺒﻴﺔ !
ﺍﻟﺜﺎﻧﻲ ﺯﺍﺩ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﻗﺎﻝ : ﺃﻧﺎ 16 ﺃﻟﻒ ﻗﻄﻌﺔ ...
ﻭﺑﻘﻲ ﺍﻟﺘﺴﻌﺔ ﻳﺘﻨﺎﻓﺴﻮﻥ ﻭﺍﻟﻤﻠﻚ ﻻ ﻳﺴﺘﻤﻊ ﺇﻟﻴﻬﻢ ﻭﻻ ﻳﻬﺘﻢ ﺑﺄﺭﻗﺎمهم ...
ﻓﻨﻈﺮ ﺍﻟﻤﻠﻚ ﻟﻠﻌﺎﺷﺮ ﻭﻗﺎﻝ ﻟﻪ : ﺃﻳﻦ ﺍﻟﻤﺎﻝ؟
ﻓﺘﺮﺩﺩ ﺍﻟﺸﺎﺏ ﺑﺎﻟﻜﻼﻡ ﺑﻌﺪ ﺃﻥ ﺭﺃﻯ ﺗﻔﻮﻕ ﺧﺼﻮﻣﻪ ﻋﻠﻴﻪ ...
ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﺍﻟﻤﻠﻚ : ﻣﺎ ﺑﻚ ﻫﻞ ﺃﺳﺮﻓﺘﻬﺎ ﻋﻠﻰ ﺭﻏﺒﺎﺗﻚ ﻭﺷﻬﻮﺍﺗﻚ ؟
ﺍﻟﺸﺎﺏ : ﻻ ﻳﺎ ﺳﻴﺪﻱ !
ﺍﻟﻤﻠﻚ : ﻣﺎﺫﺍ ﺇﺫﻥ؟
ﺍﻟﺸﺎﺏ : ﻟﻘﺪ ﺍﺷﺘﺮﻳﺖ ﻳﺎ ﺳﻴﺪﻱ ﻗﻄﻌﺔ ﺃﺭﺽ ﺯﺭﺍﻋﻴﺔ ﻭﻋﻴﻨﺖ ﻓﻴﻬﺎ ﺑﻌﺾ
ﺍﻟﻌﻤﺎﻝ .. ﻭﻫﻨﺎﻙ ﺍﻗﺘﺮﺣﻮﺍ ﺷﺮﺍﺀ ﺑﻌﺾ ﺍﻟﻤﺎﺷﻴﺔ ... ﻭﺍﻵﻥ ﻟﻴﺲ ﻟﺪﻱ ﺃﻱ
ﻣﺎﻝ ﺣﺘﻰ ﻳﺨﺮﺝ ﺍﻟﻤﺤﺼﻮﻝ ﻭﻧﺒﻴﻌﻪ !
ﻧﻈﺮ ﺍﻟﻤﻠﻚ ﻟﻠﺸﺎﺏ ﻭﻗﺎﻝ ﻟﻪ : ﺃﻧﺖ ﻭﺯﻳﺮﻱ !
ﺍﻧﺘﺸﺮﺕ ﺍﻟﻀﺠﺔ ﻓﻲ ﺍﻟﻘﺎﻋﺔ ﺑﺴﺒﺐ ﺍﻟﻤﻔﺎﺟﺄﺓ ﺍﻟﺘﻲ ﻟﻘﻴﻬﺎ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﺍﻷﺧﺮﻭﻥ
ﺍﻟﺬﻳﻦ ﺗﺎﺟﺮﻭﺍ ﻭﻧﺠﺤﻮﺍ ﺑﺤﺼﺪ ﻣﺎ ﻟﻦ ﻳﺤﺼﺪﻩ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺸﺎﺏ ﻭﻟﻮ ﺑﻌﺪ 3 ﺃﻋﻮﺍﻡ
ﺭﺑﻤﺎ .!
ﻓﻨﻄﻖ ﺍﻟﻤﻠﻚ : ﻣﻦ ﻗﺎﻝ ﻟﻜﻢ ﺇﻥ ﺍﻻﻗﺘﺼﺎﺩ ﻫﻮ ﺗﻨﻤﻴﺔ ﺍﻟﻤﺎﻝ؟ .. ﺫﻟﻚ ﺍﺳﻤﻪ
ﺗﺠﺎﺭﺓ ، ﺃﻣﺎ ﺍﻻﻗﺘﺼﺎﺩ ﻓﻬﻮ ﻛﻴﻒ ﺗنفق ﺍﻟﻤﺎﻝ ﺑﺤﻴﺚ ﻳﺒﻘﻰ ﺩﻭﻣﺎً ﻗﺎﺩﺭﺍً ﻋﻠﻰ
ﺗﺴﻴﻴﺮ ﺃﻣﻮﺭ ﺣﻴﺎﺗﻚ ﺑﺎﻟﺸﻜﻞ ﺍﻷﻓﻀﻞ .
ﺍﻟﺤﻜﻤﺔ : ﻻ ﺗﻌﺘﻘﺪ ﺃﻥ ﺍﻻﻗﺘﺼﺎﺩ ﺍﻟﺤﻘﻴﻘﻲ ﻓﻲ ﻣﺎﻟﻚ ﻫﻮ ﺃﻥ ﺗﻨﻤﻴﻪ ﺑﻞ ﺃﻥ
ﺗﻌﺮﻑ ﻛﻴﻒ ﺗﻨﻔﻘﻪ ﺑﺤﻴﺚ ﻳﺴﺎﻋﺪﻙ ﻓﻲ ﺣﻴﺎﺗﻚ ﺑﺸﻜﻞ ﻣﻨﺎﺳﺐ
منقول

سوء الظن

سوء الظن



يقول رجل ﺿﺮﺑﻨﻲ ﺃﺣﺪهم ﺑﻌصا ﺃﺳﻔﻞ ﺭﺟﻠﻲ ﻣﻦ ﺍﻟﺨﻠﻒ ﺑﻴﻨﻤﺎ كنت ﺃﺳﻴﺮ ﻓﻲ ﺍﻟﻄﺮﻳﻖ ﻓﺸﻌﺮﺕ ﺑﺎﻟﻐﻀﺐ ﺍﻟﺸﺪﻳﺪ ﻭاﻟﺘﻔﺖ ﺑﺴﺮﻋﺔ ﻷﺭﻯ ..
ﻣﻦ ﺍﻟﺬﻱ ﺿﺮﺑﻨﻲ ﻭﻟﻤﺎﺫﺍ !!
ﻭﺗﻔﺎﺟﺄﺕ ﺑﺄﻥ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻀﺮﺑﺔ ﺃﺗﺖ ﻣﻦ ﻋصا ﺭﺟﻞ ﺃﻋﻤﻰ ﻳﺘﺤﺴﺲ ﻃﺮﻳﻘﻪ ﺑﻌﺼﺎﻩ ... ﻓﺘﺤﻮﻟﺖ ﻣﺸﺎﻋﺮ ﺍﻟﻐﻀﺐ ﻋﻨﺪﻱ ﺇﻟﻰ ﻣﺸﺎﻋﺮ ﺷﻔقة ﻭﺃﺧﺬﺗﻪ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﻤﻜﺎﻥ ﺍﻟﺬﻱ ﻳﻘﺼﺪﻩ ..
ﻓﻌﺮﻓﺖ ﺃﻥ ﻣﺸﺎﻋﺮ ﺍﻹﻧﺴﺎﻥ ﺗﺘﻐﻴﺮ ﻋﻨﺪﻣﺎ ﻳﻐﻴﺮ ﻓﻬﻤﻪ ﻭﺗﺤﻠﻴﻠﻪ ﻟﻠﻤﻮﺍﻗﻒ !!!
ﻛﻢ ﻇﻠﻤﻨﺎ ﺃﻧﺎسا ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻗﺼﺪﻫﻢ ﻣﺎ ﻓﻬﻤﻨﺎﻩ !!
وكم ظلمنا أناساً لم يفهموا قصدنا!!
ﺃﺣﺴﻦ ﺍﻟﻈﻦ ﻭﻻ ﺗﺘﺴﺮﻉ .. ﻓﻲ ﺍﻟﺤﻜﻢ ﻋﻠﻰ ﺍﻷﻣﻮﺭ !!!
بسبب سوء الظن: كرِهنا بعضنا ، وقلَ لقاؤنا ، وقطعنا أرحامنا ، وأحبابنا فاسألوا الله حسن الظن بالناس ؛ ففيه راحة للقلب ، وسلامة للصدر.


من روائع ماقرأت من وصية أم لابنها


من روائع ماقرأت من وصية أم لابنها وهي والله كلمات رائعة جديرة بالتأمل وحري بنا أن نتدبر معانيها جيدا ونتعلمها ونعلمها لأبنائنا الذين هم جيل المستقبل وعمد الأمة واليكم كلمات هذه الأم الرائعة واتمنى أن تحوز على اعجابكم :
يابني.... اياك أن تتكلم في الأشياء...وفي الناس...الا بعد أن تتأكد من صحة المصدر....
واذا جاءك أحد بنبأ...فتبين قبل أن تتهور...واياك والشائعة.....
لا تصدق كل مايقال ولا نصف ماتبصر....
اذا ابتلاك الله بعدو قاومه بالاحسان اليه.....ادفع بالتي هي أحسن...فالعداوة يمكن أن تنقلب حبا...
فـــــتـــصـــوَّر
اذا أردت أن تكتشف صديقا ....... سافر معه.....
ففي السفر ينكشف الانسان.....
يذوب المظهر وينكشف المخبر....
ولماذا سمي السفر سفرا؟
اذا هاجمك الناس وأنت على حق.....أو قذفوك بنقد فافرح.....
انما يعنون أنك ناجح ومؤثر....
فالكلب الميت لايركل...
ولا يرمى الا الشجر المثمر....
عندما تنتقد أحدا فبعين النحل تعوَّد أن تبصر ولا تنظر للناس بعين ذباب فتقع على ماهو مستقذر....
نم باكرا فالبركة في الرزق صباحا......
وأخاف أن يفوتك رزق الرحمن لأنك تسهر....
سأحكي لك قصة المعزة والذئب حتى لاتأمن من يمكر.....
حينما يثق بك أحد فإياك ثم إياك أن تغدر....
سأذهب بك لعرين الأسد....للغابة.....
وسأعلمك أن الأسد لم يصبح ملكاً لأنه يزأر
انما لأنه عزيز النفس لا يقع على فريسة غيره مهما كان جائعا يتضور.......
فلا تسرق جهد غيرك فتتجور..........
سأذهب بك للحرباء حتى تشاهد بنفسك حيلتها....
فهي تلوِّن جلدها بلون المكان تتكرر.......
لتعلم أن هناك في البشر مثلها نسخ.....
وأن هناك منافقين.....
وهناك أناس بكل لباس تتدثر....وبدعوى الخير تتستر.....
يا بني..... تعوَّد أن تشكر......
اشكر الله فيكفي أنك مسلم......
ويكفي أنك تمشي......
وتسمع.......
وتبصر.......


المــرأة والذهــب

المــرأة والذهــب



يحكى أن إمرأة فقيرة كانت تحمل إبنها مرت في طريقها بالقرب من كهف فسمعت صوتا آتيا من أغوار الكهف يقول لها "إدخلي وخذي كل ما ترغبين ولكن لا تنسي الأساس والجوهر فبعد خروجك من الكهف سيغلق الباب إلى الأبد ... إنتهزي الفرصة ولكن خذي حذرك من عدم نسيان ما هو الأساس والأهم لك ! وما إن دخلت المرأة حتى بهرتها ألوان الجواهر ولمعان الذهب ... فوضعت إبنها جانبا وبدأت تلتقط الذهب والجواهر وراحت تملأ جيوبها وصدرها بالذهب وهى مذهولة ... راحت تحلم بالمستقبل اللامع الذي ينتظرها ... وعاد الصوت ينبهها أنه باقي لك ثمان ثواني ... لا تنسي الأساس . وما أن سمعت أن الثواني على وشك أن تمضي ويغلق الباب ... فانطلقت بأقصى سرعة إلى خارج الكهف وبينما جلست تتأمل ما حصلت عليه ... تذكرت أنها نسيت ابنها داخل الكهف وأن باب الكهف سيبقى مغلقا إلى الأبد وأحزانها لن تمحوها ما حصلت عليه من الجواهر والذهب 
.المعنى و الأساس هكذا الدنيا ... خذ منها ما تريد ولكن لا تنسى الأساس وهــو :
٭صالح الأعمال٭ فلا ندري متى يغلق الباب

عبرت ناک شارٹ اسٹوری

💞آج ایک قصائی کی دوکان پر بیٹھا تھا کہ ایک نوجوان سفید پوش چہرے پر داڑھی, سر پر ٹوپی, آنکھوں پر عینک لگائے دوکان میں داخل ہوا دوکان پر کافی بھیڑ تھی لوگوں کی آواز سے دوکان گونج رہی تھی بھا ئی ۱کلو گوشت دینا بھائی آدھا کلو گوشت دینا جیسے ھی نوجوان داخل ہوا قصائی نے سارے گاہکوں کو چھوڑ کر اس نوجوان سے مخاطب ہوا آدھا کلو نوجوان نے کہا, قصائی نے فوراً بہترین گوشت کا ٹکڑا کاٹا اور بوٹی بنا کر دے دی نوجوان نے پیسے دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو قصائی نے لینے سے انکار کر دیا نوجوان نے کہا جاوید بھائی! آپ ہمیشہ ایسا ھی کرتے ہیں قصائی مسکرا دیا اور نوجوان دوکان سے باہر نکل گیا لوگ گلے شکوے کرنے لگے کہ ھم کب سے کھڑے ھیں اور قصائی کو چربی چڑھی ہے گاہک کی قدر نہیں ہے  میرا تجسس بڑھا میں دوکان خالی ھونے کاانتظار کرنے لگا گاہک نپٹا کر جیسے ہی قصائی خالی ہوا میں نے کھا ۱کلو گوشت کرنا
پھر میں نے کہا ابھی جو نوجوان آپ کی دوکان سے گوشت لے کر گیا آپ کا کوئی قریبی رشتہ دار لگتا ہے سارے گاہک چھوڑ کرآپ نے سب سے پہلے  اُس کو گوشت دیا قصائی مسکرایا اور بولا جی نہیں
میں تعجب میں پڑھ گیااور بولا پھر ؟
قصائی بولا وہ میری مسجد کے امام صاحب ہیں جو شخص میری آخرت بنانے کی فکر میں رہتا ہے اور میری نمازوں کی ذمہ داری لے رکھی ہے میرے بچوں کو قرآن اور حدیث کا درس دیتا ہے کیا دنیا میں میں اس کے ساتھ اچھامعاملہ نہ کروں
میں نے کہا اوہ!! اچھا مگر تم نے پیسے کیوں نہیں لیے؟
قصائی پھر مسکرایا اور بولا کیا تمھیں نہیں پتا مسجدوں کے اماموں کو کیا دیا جاتا ہے اتنے کا تو صاحب آپ مہینے میں سگریٹ پی جاتے ہو
میں سوچنے لگا واقعی بات میں تو دم ہے
قصائی پھر بولا صاحب یہ ہماری قوم کا سرمایہ ھے ان کو بچانا ہماری ذمہ داری ہے بازار کی تمام دوکان والوں نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ مولانا صاحب سے کوئی پیسہ نہیں لے گے صرف میں ہی نہیں یہ ناؤ یہ راشن والا یہ ٹیلر وہ ڈاکٹر صاحب میڈکل والا کرانا والا دودھ والا اور سبزی والا کوئی ان سے پیسے نہی لیتا بھائی اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں اور پھر مسکرا کر کھا صاحب آدھا کلو گو شت کے بدلے جنت زیادہ منافع کا سودا ہے یہ لیجیے آپ کے گوشت کی تھیلی اس نے کہا اور میں نے پیسہ قصائی کی طرف بڑھایا اور کہا پر بھائی میں تو جاب کرتا ہوں کاش میں  بھی اس طرح کی کوئی مدد کرسکتا قصائی نے کہا بہت آسان ہے سامنے گلی میں مولانا نے سائیکل بننے کے لیے دی ہے آپ دوکان والے کو چپے سے بل ادا کر دیجے اور اس سے کہہ دیجئے کہ مولانا سے پیسے نہ لینے میں مسکرایا اور دوکان سے نکل گیا اس قصائی سے آج مدد  کا ایک نیا سبق  جو سیکھا...
یاد رہے کہ ان مولویوں میں سو برائی سہی.لیکن اس انٹرنیٹ کے دور میں ہمارے دین کے ورثہ کی مکمل حفاظت کی ہوئی ہے.ایک نقطہ میں تبدیلی نہ ہو سکی.جیسے چودہ سو سال پہلے ہمارے آقا صلی اللّٰه علیہ وآله وسلم نے یہ امانت اس امت کے علماء کو دی تھی. بنی اسرائیل کے علماء کی طرح دین کا سودا نہیں کیا.آئیں دین بچائیں جیسے قصائی نے سیکھایا.

علماء اکرام اور اپنے اساتذہ کی عزت و قدر کیجئے۔“

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...