Saturday, July 27, 2019

ضمیر کو جھیجھوڑنے والا واقعہ

دل کو چھو لینے والا اور ضمیر کو جھیجھوڑنے والا واقعہ
رات کا آخری پہر تھا اور تیز بارش کے ساتھ ساتھ  سردی کا تو پوچھیئے ہی مت ہڈیوں میں گھسی جا رہی تھی  میں اپنی گاڑی سے شہر سے  واپس اپنے  گھر آرہا تھا  کار کے دروازے بند ہونے کے باوجود  سردی محسوس ہو رہی تھی 
دل میں ایک ہی خواہش تھی کہ بس جلدی سے گھر پہنچ جاؤں  اور بستر میں گھس کر سو جاؤں سڑکیں بالکل سنسان تھی یہاں تک کہ کوئی جانور بھی نظر نہیں آ رہا تھا  لوگ اس سرد موسم میں  اپنے گرم بستروں میں دبکے ہوئے تھے
جیسے ہی مینے کار اپنی گلی کی طرف موڑی  تو مجھے کار کی روشنی میں بھیگتی بارش میں ایک سایہ نظر آیا  اس نے بارش سے بچنے کے لیئے سر پر پلاسٹیک کے تھیلے جیسا کچھ اوڑھ رکھا تھا  اور وہ گلی میں رکے ہوئے پانی سے بچتے ہوئے  آہستہ آہستہ جا رہا تھا
مجھے بہت حیرانی ہوئی  کہ اس موسم میں جب کہ رات کا بالکل آخری وقت ہے  کون اپنے گھر سے باہر۔نکل  سکتا ہے  مجھے اس پر ترس آیا کہ پتا نہیں کس مجبوری نے اس کو  ایسی طوفانی بارش میں باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے
ھو سکتا ہے کہ گھر میں کوئی بیمار ہوگا  اور اسے اسپتال لے جانے کے لیئے  کوئی سواری ڈھونڈ رہا ہوگا
مینے اس کے قریب جاکر گاڑی روکی اور شیشا نیچے کر کے پوچھا
کیا بات ہے بھائی صاحب آپ کہاں جا رہے ہو سب ٹھیک تو ہے ایسی کونسی مجبوری آ گئی کہ  ایسی تیز بارش اور اتنی دیر رات سردی میں آپکو  باہر نکلنا پڑا  آئیے میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں 
اس نے میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا
بھائی بہت بہت شکریہ  میں یہاں قریب ہی جا رہا ہوں  اس لیئے پیدل ہی چلا جاؤنگا
مینے پوچھا    لیکن آپ ایسی سردی اور بارش میں جا کہاں رہے ہو
اس نے کہا مسجد
مینے پوچھا اس وقت اس وقت مسجد میں جاکر کیا کروگے
تو اس نے جواب دیا کہ میں اس مسجد میں مؤذن ہوں اور فجر کی اذان دینے کے لیئے جا رہا ہوں
یہ کہہ کر وہ اپنے راستہ پر چل پڑا  اور مجھے ایک نئی سوچ میں گم کر گیا
کیا آج تک ہم نے یہ سوچا ہے سخت سردی کی رات میں طوفان ہو یا بارش  کون ہے جو اپنے  وقت پر اللہ کے بولاوے کی صدا بلند کرتا ہے کون ہے جو آواز بلند کرتا ہے کہ  آؤ نماز کی طرف آؤ کامیابی کی طرف اور اسے اس کامیابی کا کتنا یقین ہے کہ اسے اس فرض ادا کرنے سے نا تو سردی روک سکتی ہے اور ناہی بارش
جب ساری دنیا اپنے گرم بستروں میں نیند کے مزے لے رہی ہوتی ہے  تب وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیئے اٹھ جاتا ہے
اور آج تک ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ان کی تنخواہ کتنی ہوگی  شاید 4000 سے 6000 روپیئے  ایک مزدور بھی روزانہ  400 روپیئے کے مطابق مہینہ 12000 روپیئے کما لیتا ہے ؟
تب مجھے یقین ہوئا کہ ایسے ہی لوگ ہے جن کی وجہ سے  اللہ ہم پر مہربان ہے  ان ہی لوگوں کی برکت سے دنیا کا نظام چل رہا ہے  میرا دل چاہا کہ  نیچے اتر کر اس کو گلے لگاؤں  لیکن وہ جا چکا تھا
اور تھوڑی ہی دیر کے بعد  فضا اللہ اکبر کی صدا سے گونج اٹھی  اور میرے قدم گھر جانے کے بجاء  مسجد کی طرف اٹھ گئے  اور آج مجھے سردی میں نماز کے لیئے جانا گرم بستر اور نیند سے بھی زیادہ اچھا لگتا ہے
اگر پسند آئے اور  دل اجازت دے  تو اپنے دوستوں کو ضرور شیئر کرے

عالمِ دین سے شادی کرنے کے فوائد

*عالمِ دین سے شادی کرنے کے فوائد*
آج کل اسکول میں تھوڑا بہت پڑھ لکھ کر لڑکیوں کا مزاج اس طرح ہوجاتا ہے کہ اگر ان کے نکاح کے لیے کوئی عالم یا داڑھی والا دیندار لڑکا تجویز کیا جائے تو وہ منع کردیتی ہیں کہ ہمیں مولانا اور داڑھی والے سے شادی نہیں کرنی؛ یعنی ہیرو ٹائپ لڑکا ہی چاہیے؛
شاید انہیں مولاناؤں کی خوبیوں اور ان کے ساتھ شادی کرنے کے فوائد کا علم نہیں ورنہ وہ اپنے لیے عالم لڑکے کو
ہی ترجیح دیں؛ چنانچہ مندرجۂ ذیل میچند فوائد کا ذکر کیا جاتا ہے.
❶ نیک صالح عالم جہیز کی مانگ نہی کرتا.
❷عالم اپنی بیوی کے مکمل حقوق سے واقف ہوتا ہے اور حق تلفی نہیں کرتا.
❸ عالم اپنی بیوی کو بہت خوش رکھتا ہے.
❹عالم اپنی بیوی کا گھر اور کچن کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتا ہے.
❺عالم اپنی بیوی کو پردے میں رکھتاہے؛کیوں کہ بے پردہ عورت شیطان کا نوالہ ہوتی ہے.
❻عالم اپنی بیوی کی دنیا و آخرت دونوں کا خیال رکھتا ہے اس لیے اس کو دین دار بناتا ہے، نماز ، روزہ کی تاکید کرتا
ہے.
❼عالم کی بیوی کی معاشرے میں الگ ہی شان ہوتی ہے، سبھی عورتیں ادب سے پیش آتی ہیں.
❽عالم اپنی بیوی کی تلخ باتوں پر جلدیغصہ نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو بہت جلد اپنے غصے پر قابو پا لیتا ہے
❾عالم اپنی بیوی پر ظلم و ستم نہیں کرتا، اس کو بے جا ڈانٹتا ڈپٹتا نہیں اور نا ہی اس پر ہاتھ اٹھاتا ہے.
0❶عالم نہ ہی کنجوس ہوتا ہے اور نہ ہی فضول خرچ کرنے والا؛ بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق تمام ضروریات پوری کرتا ہے.
❶❶عالم سود، جوا ، لاٹری اور تمام حرام کمائی سے بچتا ہے اور اپنے اہل و عیال کو بھی محفوظ رکھتا ہے.
❷❶عالم اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرتا ہے اور انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے.
❸❶عالم اپنی بیوی کو روٹھنے نہیں دیتا، اگر روٹھ جائےتو منا لیتا ہے.
❹❶عالم اپنی بیوی سے بے وفائی نہیں کرتاـ یہی وجہ ہے کہ عالم کے یہاں طلاق کی نوبت کم آتی ہے.
❺❶عالم معاشرے کا شریف انسان ہوتا ہے، کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتا.
•┈┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈┈

مضبوط چوکھٹ یہی شوہر ہیں

مضبوط چوکھٹ یہی شوہر ہیں
★ایک پرانے اور بوسیده مکان میں ایک غریب مزدور رہتا تھا مکان کیا تھا بس آثار قدیمہ کا کھنڈر ہی تھا. غریب مزدور جب سرشام گھر لوٹتا اس کی بیوی معصومیت سے کہتی:-
*"اب تو گھر کا دروازه لگوادیں، کب تک اس لٹکے پردے کے پیچھے رہنا پڑے گا اور ہاں! اب تو پرده بھی پرانا ہو کر پھٹ گیا ہے. مجھے خوف ہے کہیں چور ہی گھر میں نہ گھس جائے"*
شوہر مسکراتے ہوئے جواب دیتا:- *"میرے ہوتے ہوئے بھلا تمہیں کیا خوف؟ فکر نہ کرو میں ہوں نا تمہاری چوکھٹ"*
غرض کئی سال اس طرح کے بحث ومباحثے میں گزر گئے، ایک دن بیوی نے انتہائی اصرار کیا کہ گھر کا دروازه لگوادو.
بالآخر شوہر کو ہار ماننا پڑی اور اس نے ایک اچھا سا دروازه لگا دیا.اب بیوی کا خوف کم ہوا اور شوہر کے مزدوری پر جانے کے بعد گھر میں خود کو محفوظ تصور کرنے لگی.
ابھی کچھ سال گزرے تھے کہ اچانک شوہر کا انتقال ہوگیا.اور گھر کا چراغ بجھ گیا، عورت گھر کا دروازه بند کیے پورا دن کمرے میں بیٹھی رہتی،
ایک رات اچانک چور دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوگیا، اس کے کودنے کی آواز پر عورت کی آنکھ کھل گئی،اس نے شور مچایا.محلے کے لوگ آگئے،اور چور کو پکڑ لیا.جب دیکھا تو معلوم ہوا کہ وه چور پڑوسی ہے.
*اس وقت عورت کو احساس ہوا کہ چور کے آنے میں اصل رکاوٹ دروازه نهیں میرا شوہر تھا.اس چوکھٹ سے زیاده مضبوط وه چوکھٹ(شوہر) تھی.*
*سبق:-شوہر میں لاکھ عیب ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ مضبوط چوکھٹ یہی شوہر ہیں،ہماری شادی شده ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو چاہیے کہ ان چوکھٹوں کی خوب دیکھ بھال کیا کریں.اور الله کا شکر ادا کیا کریں۔*۔ ۔ ۔ ۔

میاں بیوی کے جھگڑے

صبح ہی صبح میاں بیوی کا خوب جھگڑا ہو گیا، بیگم صاحبہ غضبناک ہو کر بولیں... "بس، بہت کر لیا برداشت، اب میں مزید ایک منٹ بھی تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی"
میاں جی بھی طیش میں تھے... بولے...
"میں بھی تمہاری شکل دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکا ہوں... دفتر سے واپس آوُں تو مجھے نظر نہ آنا گھر میں... اٹھاوُ اپنا ٹین ڈبا اور نکلو یہاں سے"... میاں جی غصے میں ہی دفتر چلے گئے...
بیگم صاحبہ نے اپنی ماں کو فون کیا اور بتایا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بچوں سمیت میکے واپس آ رہی ہے... اب مزید نہیں رہ سکتی اس جہنم میں...
ماں نے کہا "بندے کی پتر بن کے آرام سے وہیں بیٹھ، تیری بڑی بہن بھی اپنے میاں سے لڑ کر آئی تھی، اور اسی ضد میں طلاق لے کر بیٹھی ہوئی ہے، اب تو نے وہی ڈرامہ شروع کر دیا ہے.. خبردار جو ادھر قدم بھی رکھا تو.... صلح کر لے میاں سے... اب وہ اتنا بُرا بھی نہیں ہے"...
ماں نے لال جھنڈی دکھائی تو بیگم صاحبہ کے ہوش ٹھکانے آئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں... جب رو کر تھکیں تو دل ہلکا ہو چکا تھا...
میاں کے ساتھ لڑائی کا سین سوچا تو اپنی بھی کافی غلطیاں نظر آئیں...
منہ ہاتھ دھو کر فریش ہوئی اور میاں کی پسند کی ڈش بنانی شروع کر دی... اور ساتھ سپیشل کھیر بھی بنا لی... سوچا شام کو میاں جی سے معافی مانگ لوں گی، اپنا گھر پھر بھی اپنا ہی ہوتا ہے...
شام کو میاں جی گھر آئے تو بیگم نے ان کا اچھے طریقے سے استقبال کیا... جیسے صبح کچھ بھی نہ ہوا ہو...
میاں جی کو بھی خوشگوار حیرت ہوئی...
کھانا کھانے کے بعد میاں جی جب کھیر کھا رہے تھے تو بولے
"بیگم، کبھی کبھار میں بھی زیادتی کر جاتا ہوں.. تم دل پر مت لیا کرو، بندہ بشر ہوں، غصہ آ ہی جاتا ہے"....
میاں جی بیگم کے شکر گزار ہو رہے تھے... اور بیگم صاحبہ دل ہی دل میں اپنی ماں کو دعائیں دے رہی تھیں... جس کی سختی نے اس کو یوٹرن لینے پر مجبور کیا تھا...ورنہ تو جذباتی فیصلے نے گھر تباہ کر دینا تھا...!!
۔
سبق: اگر والدین اپنی شادی شدہ اولاد کی ہر جائز ناجائز بات کو سپورٹ کرنا بند کر دیں تو رشتے بچ جاتے ہیں۔ آزما لیجئے۔

خونی رشتے

سبق آموز کہانیاں
کہتے ہیں کہ ایک دن گاؤں کے کنوئیں پہ عجیب ماجرا ھوا کہ جو ڈول بھی کنوئیں میں ڈالا جاتا واپس نہ آتا جبکہ رسی واپس آ جا تی ، سارے لوگ خوفزدہ ھو گئے کہ اندر ضرور کوئی جن جنات ھے جو یہ حرکت کرتا ھے ،
آخر اعلان کیا گیا کہ جو بندہ اس راز کا پتہ لگائے گا اس کو انعام دیا جائے گا ،، ایک آدمی نے کہا کہ اس کو انعام کی کوئی ضرورت نہیں مگر وہ گاؤں والوں کی مصیبت کے ازالے کے لئے یہ قربانی دینے کو تیار ھے مگر ایک شرط پر ،،
شرط یہ ہے کہ میں کنوئیں میں اسی صورت اتروں گا جب رسا پکڑنے والوں میں میرا بھائی بھی شامل ھو ،،
اس کے بھائی کو بلایا گیا اور رسہ پکڑنے والوں نے رسا پکڑا اور ایک ڈول میں بٹھا کر اس بندے کو کنوئیں میں اتار دیا گیا ، اس بندے نے دیکھا کہ کنوئیں میں ایک مچھندر قسم کا بندر بیٹھا ھوا ھے جو ڈول سے فورا رسی کھول دیتا ہے ،،
اس بندے نے اپنی جیب کو چیک کیا تو اسے گڑ مل گیا ،، اس نے وہ گڑ اس بندر کو دیا یوں بندر اس  سے مانوس ھو گیا ، بندے نے اس بندر کو کندھے پر بٹھایا اور نیچے سے زور زور سے رسہ ہلایا ،،
گاؤں والوں نے رسا کھینچنا شروع کیا اور جونہی ڈول اندھیرے سے روشنی میں آیا وہ لوگ بندر کو دیکھ کر دھشت زدہ ھو گئے کہ یہ کوئی عفریت ہے جس نے اس بندے کو کھا لیا ھے اور اب اوپر بھی چڑھ آیا ھے ،
وہ سب رسہ چھوڑ کر سرپٹ بھاگے مگر اس بندے کا بھائی رسے کو مضبوطی سے تھامے اوپر کھینچنے کی کوشش کرتا رھا تا آنکہ وہ کنارے تک پہنچ گیا ،
کنوئیں سے نکل کر اس نے بندر کو نیچے اتارا اور لوگوں کو اس بندر کی کارستانی بتائی پھر کہا کہ میں نے اسی لئے اپنے بھائی کی شرط رکھی تھی کہ اگر میرے ساتھ کنوئیں میں کوئی ان ھونی ھو گئ تو تم سب بھاگ نکلو گے جبکہ بھائی کو خون کی محبت روکے رکھے گی ،
یاد رکھیں کوئی لاکھ اچھائی کرے مگر خونی رشتے آخرکار خون کے رشتے ہی ہوتے ہیں ، ان کی قدر کریں.

رَٹّا مار مقرر

رَٹّا مار مقرر
علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں کہ حامد بن عباس کا ایک دوست بیمار ہو گیا تو عیادت کے لیے اس نے اپنے بیٹے کو بھیجنے کا ارادہ کیا- بھیجتے وقت اپنے بیٹے کو نصیحت کی:
بیٹا! جب وہاں داخل ہو جاؤ تو اونچی جگہ بیٹھنا اور مریض سے پوچھنا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟ جب وہ کہے کہ فلاں فلاں تکلیف ہے، تو جواب میں کہنا کہ انشاء اللہ ٹھیک ہو جاؤ گے- پھر پوچھنا کہ کون سے حکیم سے علاج کرواتے ہو؟ جب وہ کسی حکیم کا نام لے تو کہنا کہ اچھا ہے، مبارک ہے- پھر کہنا کہ غذا (کھانے) میں کیا استعمال کرتے ہو؟ جب وہ کسی غذا کا نام بتائے تو کہنا کہ اچھا کھانا ہے، بہتر غذا ہے-

بیٹا اپنے باپ کی نصیحتوں کو سن کر عیادت کے لیے وہاں پہنچا تو مریض کے سامنے ایک مینار تھا، وہ نصیحت کے مطابق اس پر بیٹھا تو اچانک وہاں سے گر پڑا اور مریض کے سینے پر جا پڑا اور اسے مزید تکلیف میں مبتلا کر دیا- پھر مریض سے پوچھا کہ آپ کو کیا تکلیف ہے؟
مریض نے کہا کہ مرض الموت میں ہوں- اِس نے کہا کہ انشاء اللہ بہت جلد نجات پاؤ گے! (یعنی جانے کا وقت قریب ہے)
پھر پوچھا کہ کس حکیم سے دوائی لیتے ہو؟
مریض نے کہا کہ ملک الموت!
اس نے کہا کہ مبارک ہے، با برکت ہے- پھر پوچھا کہ کون سی غذا استعمال کرتے ہو؟
مریض نے کہا کہ مارنے والا زہر! اِس نے کہا کہ بہت مزے دار اور اچھی غذا ہے!

(ملخصاً: اخبار الحمقی والمغفلین مترجم، ص278، 279، ط کرمانوالہ بک شاپ لاہور)

فی زمانہ اکثر مقررین کا معاملہ بھی اس سے کافی ملتا جلتا ہے- مذکورہ بیٹے نے جس طرح اپنے باپ کی نصیحت کو سمجھنے کی بجائے رٹ لیا اسی طرح ہمارے جوشیلے مقررین "بارہ تقریریں" اور "پچیس خطبات" وغیرہ رٹ کر میدان تقریر میں اتر جاتے ہیں اور پھر انجام کا اندازہ آپ مذکورہ بالا واقعے سے لگا سکتے ہیں-

شرف الدین یحی منیری کا ایک خط اپنے مرید کے نام

*مسلمان کے مسلمان ہونے اور دعوی مسلمانی پر دلیل میں مخدوم الملک شرف الدین یحی منیری بہاری کا ایک خط اپنے مرید کے نام*
*جو ہم لوگوں کے لیئے بھی درس عظیم*
اے بھائی کام بہت دشوار ہے اور مسلمان ہونا بہت مشکل ہے جہاں تک موقع ملے ایمان کا غم کرنا چاہیے اس لیے کہ جب ہم نے لااله الاالله کا دعوی کیاہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں تواس دعوی کے درست ہونے کی دلیل یہ ہوگی کہ ہم اللہ کے سوا کسی سے خوف نہیں کرتےاور کسی سے امید نہیں رکھتے ۔
اور جب ہم دوسرے سے ڈرتےہیں اور دوسرے سے امید رکھتے ہیں تو یہ دعوٰی پر دلیل نہ ہوئی اور دعوی بے دلیل جھوٹ ہوتا ہے اور صرف زبانی ایمان کل قیامت کے دن کسی کام کا نہیں ہوگا اگر محض زبانی ایمان کل قیامت کےدن کام آتا تو تمام منافقین رہائی وچھٹکاراپاجاتے ۔اس کی جان پر رحمت ہو جس نے یہ کہا ہے۔۔۔۔ ع
صوفی وسیہ پوش شدی چلہ دار
ایں جملہ شدی ولے مسلمان نہ شدی
(صوفی ہوئے سیہ پوش ہوئے چلہ دار بنے یہ سب ہوئے لیکن مسلمان نہ ہوئے)
اور اسی طرح کوئی کافر طبیب ہم سے کہے کہ فلاں چیز نہ کھاو یہ تمہارے لئے نقصان دہ ہے اسی وقت ہم چھوڑ دیتے ہیں اور نہیں کھاتے، کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبران علیہم السلام تشریف لائے اور سب نے یہی کہا۔حب الدنيا راس كل خطيئة(تمام گناہوں کاسرچشمہ دنیا کی محبت ہے)اور ہم رات دن دنیا طلبی میں مصروف ومنہمک ہیں یہ تو ایسا ہی ہوا کہ ہم کافر طبیب کی بات پر یقین رکھتے ہیں مگر جملہ پیغمبران علیہم السلام کی باتوں پرنہیں بتاو یہاں ایمان کہاں ہے۔۔۔۔۔
سودہ گشت ازسجدہ راہ بتاں پیشانیم
چند خودراتہمت دین مسلمانی نہم
(بتوں کی راہ میں سر رکھتےرکھتےمیری پیشانی گھس گئی اس حال میں کب تک میں خود کو مسلماں کہلاتارہوںگا)
اوراسی طرح کے لوگ مجھے اگر دیکھ رہے ہوں توان کی نظروں کے سامنے میں کوئی گناہ نہیں کرسکتا اورخدائے تعالی مجھے دیکھ رہاہے اس کی نگاہوں کے سامنے سینکڑوں گناہ کرتارہتاہوں تویہ ویسا ہی ہے کہ مخلوق سے ڈرتاہوں اورخالق سے نہیں ڈرتا اور جو مخلوق سے ڈرتا ہے اور خالق سے نہیں ڈرتا وہ مومن ہے یاکافر؟؟؟ع
آج کی رات کا نشہ کل جب ٹوٹے گا تو معلوم ہوجائے گا۔۔( تر جمہ از فارسی مصرع)
ہرشخص ایسی خستہ حالی میں مبتلا ہے پھرلوگ کہتے ہیں کچھ لکھئے کیالکھوں اگر لکھونگا تو یہی لکھونگا اسی مختصر سی تحریر پر خوب غوروخوض کرو یہی کافی ہے اور فضول بکواس کرنے والے جودودھ پیتے بچے کی طرح ہیں ان سے خود کودوررکھو
اے بھائی!آنکھ والوں کی نگاہ میں یہ لوگ جوخود کوایک شخص سمجھتے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے ماں کے پیٹ میں ہوں یاباپ کی پشت میں ہوں یہ بھی نہیں بلکہ عدم میں ہیں۔۔۔۔ع
ہرکہ شد زلحظہ خود خوشنود
سالہابندشد بدوزخ بود
(ایساشخص جواپنے آپ سے خوشنود ہے اسنے مدتوں کےلئے خود کو دوزخ کے قید خانہ میں ڈال لیا ہے۔۔
                  والسلام
                خاکسارشرف منیری
راقم الحروف الامجدی۔۔۔۔۔۔مخدوم الملک مخدوم جہاں شیخ شرف الدین یحی منیری کے اس عارفانہ نکات خط سے پتہ چلتا ہے کہ واقعی
۱۔۔۔ ہم خدائے تعالی سے خوف کا دعوٰی تو کرتے ہیں مگر دلیل ندارد
۲۔۔۔۔آقائےدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کادم بھرتے ہیں مگر دلیل ندارد
۳۔۔۔۔ہم اپنی ظاہری صحت کے لئے دنیاوی طبیبوں کی بات مان لیتے ہیں مگر باطنی صحت کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کی باتیں نہیں مانتے۔۔ اللہ اکبر
۴۔۔۔۔مخلوق کے سامنے گناہ کرتے شرماتے مگر جو خدا ہمیں ہمیشہ دیکھتا ہے اس کے سامنے سینکڑوں گناہ کرتے رہتے ہیں۔۔۔اللہ اللہ
۵۔۔۔۔۔اور ہم باطنی اعتبار سے کھوکھلے ہیں مگر اپنے آپ کو فردکامل سمجھ بیٹھے ہیں تو گویاکہ ہم کالعدم ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طالب دعا سگ بارگاہ اولیافریدالقادری امجدی کوڈرما جھارکھنڈ

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...