Friday, July 26, 2019

ضمير فوشو

*سر فروشی کی تمنا آج میرے دل میں ہے*
*دیکھتے ہیں زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے*

ضمیر فروشوں اور دین کے جھوٹے ٹھیکے داروں نے اسی شعر کو پڑھ کر امت کے سر کٹوا ڈالے، امت کے غریبوں کو، رسول اللہﷺ کے دیوانوں کو مروا ڈالا، لیکن خود آج تک ظالموں کے خلاف کھڑے نا ہوئے،
انکے سر فروشی کی تمنا آج تک باہر نہیں آئی،
ہر روز موب لنچگ کے نام پر مسلمانوں کو مار جا رہا ہے، بیٹیوں کی عزتیں تار تار کی جارہی ہیں، زبردستی کفریہ نعروں پر مجبور کیا جارہا ہے، ہمیں دوسرے نمبر کا شہری قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے،
مدارس و مساجد پر حملہ ہو رہے ہیں،
تبھی ذہنوں میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر  ان ظلم و ستم کی آندھیوں سے ہمیں نجات کون دلائے گا،
اس غریب امت کا سہارا کون بنے گا ، ان بیٹیوں کا محافظ کون ہے، کوئی تو ہو گا؟
یا پھر کوئی ہمارا قائد نہیں،کوئی ہمارا مرشد و رہبر نہیں؟
تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو جلسوں میں آکر جذباتی تقریریں کرتے ہیں؟
یہ کون لوگ ہیں جو دین محمد اور امت مسلمہ کے لیے مر مٹنے کی چیج چیخ کر قسمیں کھاتے ہیں؟
یہ کون لوگ ہیں جو چند جملے بول کر غریبوں کے پیسوں سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں، اور موٹے موٹے نذرانے لے جاتے ہیں؟

*جناب فاتح کشمیر صاحب،*
آپ کے بہادری کے چرچے تو بہت دور دور تک ہیں، ایوبی ابن زیاد، محمد بن قاسم کے بعد آنکھیں ترس رہی تھیں کسی فاتح کو دیکھنے کے لیے، پھر آپ پیدا ہوئے، یقین جانیں ہمیں تو لگا عالمگیری دور آنے والا ہے، کفر و ظلمت کی بدلیاں چھٹنے والی ہیں،
تبھی آپ کے کارنامے، آپ کے فتوحات نے آپ کو ہمارے لئے آئیڈیل بنا ڈالا،
اور دنیا کی سب سے متنازعہ جگہ جس کے سلسلے میں مذاکرات، اور جنگیں بے سود رہیں، آپ نے اس متنازعہ علاقے کو آپ نے فتح کر لیا، ارے آپ تو فاتح اعظم، بطل جلیل، رجل عظيم ہیں،
لیکن جب اخلاق کو شہید کیا گیا، جب تبریز کو پیٹا جا رہا تھا، تب آپ کہاں تھے کس محاذ پر مصروف جنگ تھے؟
فاتح صاحب جلدی آؤ، اناؤ، بہار، جھار کھنڈ، ایم پی اور پورے ہندوستان میں امت پر ظلم ہو رہا ہے،
آؤ ان کافروں کو تہہ و تیغ کردو، ان کافروں پر ہمیں فتح نصرت دلا دو،
ہم مظلوم ہیں ہمیں فاتح بنا دو، ہم مغلوب ہیں، غالب بنا دو، اللہ کے دین کو سر بلند کرنے آجاؤ،
فاتح صاحب یہ امت آپ کو کب سے پکار رہی ہے، اور 2014 سے چیج چیخ کر پکار رہی ہے لیکن آپ آئے نہیں؟
آپ کہاں مصروف ہیں؟ آپ کیوں نہیں آتے؟ کیا آپ فاتح کشمیر نہیں ہیں؟ کیا آپ نے کبھی لڑائی نہیں لڑی؟ کیا آپ نے کبھی کسی کو للکارا نہیں؟ کیا آپ نے کبھی کسی پر فتح حاصل نہیں کی؟
رہنے دیجئے آپ کچھ مت بولئے، آپ کے منہ سے اچھا نہیں لگے گا، ہم بتاتے ہیں آپ نے گالی گلوچ میں فتح حاصل کی ہے،
آپ امت کو لوٹنے والے لٹیروں میں غالب ہیں،
آپ اور آپ کی کتیا فوج امت کو لڑانے اور باٹنے میں سب سے آگے ہے،
آپ تو فتنوں کے بادشاہ ہو، نافرمانوں، سرکشوں، بدتمیزوں، کے سپہ سالار آپ ہی تو ہو،
آپ نے تو ہمارے پیسوں، پر قبضہ کیا ہے، آپ نذرانوں اور نیازوں کے فاتح ہو،
بس کچھ دن اور اس کے بعد اسی گھٹیا ملعون فاتحانہ شان کیساتھ آپ امت مسلمہ کو چھوڑ کر رخصت ہو جائیں گے،
پھر آپ کی کتیا فوج آپ کے مزار پر جہاد اور غزوہ کرے گی، میلہ کروائے گی، اور آپ کے فتنوں، مکاریوں اور لوٹ مار کو کرامت، اور تصلب اور ولایت کا نام دے گی،
خیر آپ کو ایسی فاتحانہ شان مبارک ہو،

*مفکر اسلام صاحب،*
پوسٹروں میں اس لقب کیساتھ آپ کا نام دیکھا تو امید کی ٹوٹی ہوئی لڑیاں جڑنے لگیں،
کیونکہ ہم نے ایک سچے مفکر کو دیکھا ہے لیکن اب اسکا مستقر دیار ہند نہیں،
ہم نے سوچا آپ بھی انہیں کیطرح ہونگے اسی لئے جب شریعت پر حملہ ہوا ہم نے آپ کو پکارا،
آپ کو آواز دی ہمیں لگا آپ محافظ شریعت بن کر اٹھے گیں اتحاد کی راہ ہموار کریں گے، احتجاج و التماس کریں گے،
لیکن آپ تو مفکر بطن نکلے، آپ تو مفکراسلام سیٹھ نکلے،
آپ تو صرف اترانا جانتے ہیں، آپ تو بس خلافت اور دولت کے حریص نکلے،
آپ تو اسلام کے نام پر پیٹ پالتے ہیں، آپ تو دست بوسی چائے نوشی کے دلدادہ ہیں ، آپ تو اسٹیج کے فنکار، جھوٹے کلاکار ہیں ،
جو کچھ ہے آپ کی اونچی ٹوپی اور میٹھی آواز میں ہے آپ تو فکر امت سے خالی اور عاری ہیں ،
تمہیں تو عار بھی نہیں دلا سکتے، کیونکہ تم مردہ ضمیر، لکیر کے فقیر، بے تدبیر ہو،
خیر، اللہ سریع الحساب ہے،

*علامہ صاحب*
ارے اس آوارہ لقب سے ملقب بیچارو! تمہیں کیا کہیں، تم میں سے اکثر مردانگی سے دور، نسوانیت سے مغرور، حقیقت سے مفرور، پیٹ سے مجبور ہو،
میں نے سنا تھا کہ علامة کی ۃ برائے مبالغہ ہے،
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس ۃ کو کو تائے تانیث سے بھی کچھ نا کچھ مناسبت اور لگاؤ ہے معناً نہیں تو صورتاً ضرور،
اسی لیے اکثر علاَّمات میں نسوانی فطرتیں آ ہی جاتی ہیں،
اسٹیج ہو، یا مسجد ومدرسہ یا پھر کوئی خانقاہ ہر جگہ علاَّمات اپنی مکاری، ننگے پن کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں،
جس بھی گلی میں جاؤ، چوہے بھلے نا ملیں علامہ تو ضرور مل جائیں گے، کوئی پوسٹر ایسا نہیں جس میں کوئی مولانا صاحب ہوں، سبھی علامہ ہیں،
دو سو روپے لوکل اسٹیجوں پر ملتے ہیں، لیکن ٹوپی پانچ سو والی لگاتے ہیں تاکہ علامہ دِکھ سکیں،
علاَّمات سے بس اتنی گزارش ہے کہ جہاں بھی رہو اہلسنت میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش مت کرو، سب سے زیادہ علامات نے ہی اتحاد کی چادر کو تار تار کیا ہے،
ہمیں معلوم ہے آپ علاّمات کو بہت غصہ آتا ہے لیکن آپ کے غصے اور جلال سے امت کو فائدہ نہیں کیونکہ آپ کو غصہ آتا ہے تو آپ اپنی ہی چوڑیاں توڑ ڈالتے ہو،
اپنی چوڑیاں بچا کر رکھو کسی اسٹیج پر توڑو گے تو معاوضہ بھی مل جائے گا، بار بار بیوہ بننے کی مکاری اسٹیجوں پر ہی نفع بخش ہے ظلم و ظلم وستم سے لڑنے کے لئے علامتِ تانیث بلکہ مردانگی کی ضرورت ہے، جو تمہارے پاس بالکل نہیں.

انہیں بھی کچھ ڈنڈے لگانا ضروری ہے،
وقار ملت، تاج ملت، تاج الخطباء، نقیب ملت، وغیرہ وغیرہ
آپ لوگوں کو کیا کہیں آپ تو خود ہی چوہوں کیطرح چرا چرا کر پیٹ بھرتے ہیں اور گرگٹ کیطرح رنگ بدلتے ہیں ، تمہیں منہ لگانا ہی بے وقاری ہے اور بے عزتی ہے، تمہیں تو تمہارے مریدوں نے جب سے لقب دیا ہے، تبھی سے تمہارے دماغی توازن بگڑ گئے ہیں ، اس لیے تم لوگ اس لائق نہیں کہ تمہیں کچھ کہا جائے، تم اَن آفیشل بھکاری ہو، تمہارا کام تھا بھیک مانگ کر کھانا ،
لیکن آج کل تم لوگ امت کے گھروں میں ڈاکہ زنی کرنے لگے ہو، غریبوں کو لوٹنے لگے ہو، تمہاری حرام خوری زیادہ بہت بڑھ گئی ہے، پہلے والا کام شروع کر دو اس سے توبہ کر لو ورنہ بدنامی کے بعد بھیک بھی نہیں پاؤ گے.

*آخری گزارش :*
پیر صاحب، علامہ صاحب، صوفی صاحب، محدث صاحب، مقرر صاحب، پیرزادہ صاحب، ولیعہد صاحب، کچھ تو ہم امت کے لیے کرو، ورنہ ہم آپ کے مزار پہ کیسے آئیں گے، یہ کافر ہمیں ٹرینوں اور بسوں میں بھی نشانہ بناتے ہیں، ہمیں آپ کے عرس میں آنا ہے، مزار پر چادر چڑھانا ہے، نذرانہ دینا ہے، آپ حضرات کو جلسے میں بلانا ہے، چیخ کر نعرہ لگا کر جلسے کو کامیاب بنانا ہے ،
اگر حالات ایسے ہی رہے تو ہم آپ کے عرس میں نہ آ سکیں گے، پھر آپ کے شہزادے، پیرزادے کیا کھائیں گے؟
مقرر صاحب جلسے بند ہوجائیں گے تو تمہارا گھر کیسے بنے گا؟ بیوی کو مزار پر کیسے لے جاؤ گے؟
ابھی ہم امت کو آپ لوگوں پر بہت خرچ کرنا ہے،
ہم ہی سلامت نہ رہے تو آپ بےکار ہوجاؤ گے، آپ کی عزت، عظمت، آپ کے جلوے، جاہ جلال ہم سے ہیں،
ہم نہ رہے تو آپ کو کون پوچھے گا؟ کوئی نہیں پوچھے گا، ہم اسی طرح مرتے رہے تو ہم پہلے ختم ہو جائیں گے پھر آپ کی باری آئے گی،
تب تک آپ کی تدفین کے لئے کوئی باقی نہ رہے گا،
خیر ہم امت کے غریبوں سے تو آپ بڑی ٹوپی والے، مقرر، صوفی، پیر علامہ، محدث، وغیرہ وغیرہ صاحب ملاقات بھی نہیں کرتے،
تو بھلا ہمارے لیے آپ لوگ جان کیا دیں گے، قربانی کیا دیں گے، آپ لوگ تو سیٹھوں کے یہاں کھاتے ہیں، وہیں قیام کرتے ہیں، انہیں سے ملاقات کرتے ہیں،
اور انہیں کے لیے دل سے دعا بھی کرتے ہیں ، آپ ہمارے لیے دعا تک نہیں کرتے پھر تو ہمارے لئے جان دینا، احتجاج کرنا، و التماس کرنا آپ سے کیوں کر ممکن ہاں شاید اپنی فکر کر لو.

کسی کو لگے کہ میں نے کسی کی گستاخی کی ہے تو مجھ سے لڑنے جھگڑنے اور گالی دینے سے پہلے امت کے لیے کچھ کر گزرے میں اسکے پیروں پر گر کر معافی مانگ لوں گا،
سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اور دین ہی سے سب کو عزتیں اور عظمتیں ملی ہیں، جو اس امت کا وفادار نہیں،
جو تبلیغ دین کے نام پر اس امت کو لوٹے اس کا ادب احترام ہم نہیں کرتے، اور نہ کریں گے، چاہے کتنی بھی اس کی کرامتیں اور جلوے بیان کئے جائیں.

*نـــــوٹ:*
ہمارے اسلاف جو اس دار فانی سے کوچ کر گئے وہ اس تحریر کی زد میں ہر گز نہیں،
نیز میری یہ تحریر داد اور واہ واہی بٹورنے کیلئے نہیں ہے یہ ایک درد اور تکلیف ہے، بے شک اللہ عزوجل دل کے ارادوں کو جانتا ہے، اسی امید و آس ہے وہی سب کا کارساز ہے.

تحریر چوروں سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو چرانے کی ہرگز کوشش نہ کریں ورنہ انجام برا ہوگا.
🖊..... *ذوالفقار احمد رضوی سبحانی*
📍................ *زلفی سبحانی*

ضمیر فروشوں

*سر فروشی کی تمنا آج میرے دل میں ہے*
*دیکھتے ہیں زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے*

ضمیر فروشوں اور دین کے جھوٹے ٹھیکے داروں نے اسی شعر کو پڑھ کر امت کے سر کٹوا ڈالے، امت کے غریبوں کو، رسول اللہﷺ کے دیوانوں کو مروا ڈالا، لیکن خود آج تک ظالموں کے خلاف کھڑے نا ہوئے،
انکے سر فروشی کی تمنا آج تک باہر نہیں آئی،
ہر روز موب لنچگ کے نام پر مسلمانوں کو مار جا رہا ہے، بیٹیوں کی عزتیں تار تار کی جارہی ہیں، زبردستی کفریہ نعروں پر مجبور کیا جارہا ہے، ہمیں دوسرے نمبر کا شہری قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے،
مدارس و مساجد پر حملہ ہو رہے ہیں،
تبھی ذہنوں میں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر  ان ظلم و ستم کی آندھیوں سے ہمیں نجات کون دلائے گا،
اس غریب امت کا سہارا کون بنے گا ، ان بیٹیوں کا محافظ کون ہے، کوئی تو ہو گا؟
یا پھر کوئی ہمارا قائد نہیں،کوئی ہمارا مرشد و رہبر نہیں؟
تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو جلسوں میں آکر جذباتی تقریریں کرتے ہیں؟
یہ کون لوگ ہیں جو دین محمد اور امت مسلمہ کے لیے مر مٹنے کی چیج چیخ کر قسمیں کھاتے ہیں؟
یہ کون لوگ ہیں جو چند جملے بول کر غریبوں کے پیسوں سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں، اور موٹے موٹے نذرانے لے جاتے ہیں؟

*یہ کون ہیں جو ہم سے بیعت لیتے ہیں اور ہمارے رہبر ومرشد کہلاتے ہیں ،*
جن کی زیارت کے لئے ہم دھکا مکی کرتے ہیں، جن کی منقبت سن کر ہم نوٹوں کی بارش برساتے ہیں،
جن کے مخالفین کو ہم گالیاں دینا واجب سمجھتے ہیں،
اور جن کی پانچسو کرامتیں ہم روز بیان کرتے ہیں، کیا یہ پیر صاحب ہمارے قائد نہیں؟
یہ تو ہمیں جہنم سے بچانے والے تھے، آخرت کے عذاب سے بچانے والے تھے، رب کی بارگاہ میں شفاعت کرنے والے تھے،
تو کیا یہ ہمیں کافروں کے ظلم سے نہیں بچا سکتے؟ یہ حکومت وقت سے ہمارے لئے مطالبات نہیں کر سکتے؟
اگر نہیں تو پھر کوئی تو بتاؤ، کیا یہ مرشد ہمارے قائد نہیں؟ کیا ہم نے لٹیروں کے ہاتھوں میں ہاتھ دیا ہے؟
انہیں صرف ہماری دولت اور نوٹوں سے محبت ہے، ہم سے ان کا کوئی سروکار نہیں؟

اور یہ مقرر شعلہ بیان صاحب،
*یہ خطیب بے باک صاحب،*
آپ تو بے باک ہیں، نڈر ہیں، آپ تو کسی سے نہیں ڈرتے، آپ تو اسٹیجوں پر شیر ببر کی طرح دھاڑتے ہیں،
آپ تو یوں چیختے ہیں کہ لگتا ہے ابھی کائنات میں انقلاب برپا کردیں گے،
تو پھر آپ کچھ کیوں نہیں کرتے، آپ ہی اس امت کا سہارا کیوں نہیں بن جاتے،
آپ ان ظالم کافروں کے خلاف کیوں نہیں کھڑے ہوتے؟
آپ کیسے بے باک ہو، امت کو لڑانے میں بے باک ہو؟ جھوٹ بولنے میں بے باک ہو؟
ترک صلاۃ میں بے باک ہو؟ جہنم کے عذاب سے نڈر ہو؟
تمہیں اللہ کا خوف نہیں یہ ہے تمہاری بے باکی؟ امت کو لوٹنے میں بے باک ہو؟
پھر تو تم اصلا ڈاکو،چور، فاسق، مردود، شیطان ہو، تم سے اللہ کی پناہ،
ظالموں اہلسنت کو لڑانے، خانقاہوں میں اختلاف پیدا کرنے کے لیے چیختے ہو، ہم مسلمانوں کے درمیان کتوں کی طرح چلا کر ہم ہی سے پیسے اور نذرانے لیتے ہو،
تم جوتوں کے حقدار ہو، امت کا بیڑا تم ہی نے تو غرق کیا ہے، وہ دن بہت قریب ہے جب نوٹوں کی جگہ جوتوں کی بارش ہوگی،

*ارے ملت کے غازی صاحب،*
آپ تو غازی ہو، لقب ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اسلام کے لیے غزوہ کیا ہے، اسلام کے نام پر آپ نے بڑی قربانیاں دی ہونگی،
آج امت کو آپ کی ضرورت ہے، امت آپ کی طرف آس بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے، تبریز انصاری کی مظلوم آہیں آپ کو پکار رہی ہیں،
غازی صاحب آپ بہرے تو نہیں ہوگئے؟ آپ ہماری آہیں نہیں سن رہے ہیں ؟ آپ سو تو نہیں رہے ہیں؟
یا پھر آپ سن کر ان سنی کر رہے ہیں؟
ہم بہت دیر سے چیخ رہے ہیں، اور بلند آواز سے آپ کو پکار رہے ہیں، پھر بھی آپ نہیں سن رہے ہیں؟
مت سنئیے ہماری چیخیں، ہم جان چکے ہیں آپ کو، ہم پتا چل گیا ہے کہ، آپ کس طرح کے غازی ہیں ،
آپ تقریر کو جہاد سمجھتے ہیں ؟ اور نذرانے کو مال غنیمت، اس امت کو لوٹ کر آپ غازی بنے ہیں، امت مسلمہ سے لڑ کر اور امت کو لڑا کر آپ غازی بنے ہیں،
گالی گلوچ کر کے آپ غازی بنے ہیں نا؟
ٹھیک ہے بنے رہو غازی لیکن ایک بات یاد رہے آپ شہید کبھی نہیں بن سکتے ،
ہمارے محلے کا چرسی جام شہادت سے سرفراز ہو سکتا ہے، لیکن تم جیسے نقلی غازی یہ عظمت کبھی نہیں پا سکتے،
امت کے ساتھ غداری کرنے والے غازی نہیں، باغی اور فراڈی کہلاتے ہیں،

*جناب فاتح کشمیر صاحب،*
آپ کے بہادری کے چرچے تو بہت دور دور تک ہیں، ایوبی ابن زیاد، محمد بن قاسم کے بعد آنکھیں ترس رہی تھیں کسی فاتح کو دیکھنے کے لیے، پھر آپ پیدا ہوئے، یقین جانیں ہمیں تو لگا عالمگیری دور آنے والا ہے، کفر و ظلمت کی بدلیاں چھٹنے والی ہیں،
تبھی آپ کے کارنامے، آپ کے فتوحات نے آپ کو ہمارے لئے آئیڈیل بنا ڈالا،
اور دنیا کی سب سے متنازعہ جگہ جس کے سلسلے میں مذاکرات، اور جنگیں بے سود رہیں، آپ نے اس متنازعہ علاقے کو آپ نے فتح کر لیا، ارے آپ تو فاتح اعظم، بطل جلیل، رجل عظيم ہیں،
لیکن جب اخلاق کو شہید کیا گیا، جب تبریز کو پیٹا جا رہا تھا، تب آپ کہاں تھے کس محاذ پر مصروف جنگ تھے؟
فاتح صاحب جلدی آؤ، اناؤ، بہار، جھار کھنڈ، ایم پی اور پورے ہندوستان میں امت پر ظلم ہو رہا ہے،
آؤ ان کافروں کو تہہ و تیغ کردو، ان کافروں پر ہمیں فتح نصرت دلا دو،
ہم مظلوم ہیں ہمیں فاتح بنا دو، ہم مغلوب ہیں، غالب بنا دو، اللہ کے دین کو سر بلند کرنے آجاؤ،
فاتح صاحب یہ امت آپ کو کب سے پکار رہی ہے، اور 2014 سے چیج چیخ کر پکار رہی ہے لیکن آپ آئے نہیں؟
آپ کہاں مصروف ہیں؟ آپ کیوں نہیں آتے؟ کیا آپ فاتح کشمیر نہیں ہیں؟ کیا آپ نے کبھی لڑائی نہیں لڑی؟ کیا آپ نے کبھی کسی کو للکارا نہیں؟ کیا آپ نے کبھی کسی پر فتح حاصل نہیں کی؟
رہنے دیجئے آپ کچھ مت بولئے، آپ کے منہ سے اچھا نہیں لگے گا، ہم بتاتے ہیں آپ نے گالی گلوچ میں فتح حاصل کی ہے،
آپ امت کو لوٹنے والے لٹیروں میں غالب ہیں،
آپ اور آپ کی کتیا فوج امت کو لڑانے اور باٹنے میں سب سے آگے ہے،
آپ تو فتنوں کے بادشاہ ہو، نافرمانوں، سرکشوں، بدتمیزوں، کے سپہ سالار آپ ہی تو ہو،
آپ نے تو ہمارے پیسوں، پر قبضہ کیا ہے، آپ نذرانوں اور نیازوں کے فاتح ہو،
بس کچھ دن اور اس کے بعد اسی گھٹیا ملعون فاتحانہ شان کیساتھ آپ امت مسلمہ کو چھوڑ کر رخصت ہو جائیں گے،
پھر آپ کی کتیا فوج آپ کے مزار پر جہاد اور غزوہ کرے گی، میلہ کروائے گی، اور آپ کے فتنوں، مکاریوں اور لوٹ مار کو کرامت، اور تصلب اور ولایت کا نام دے گی،
خیر آپ کو ایسی فاتحانہ شان مبارک ہو،

*مفکر اسلام صاحب،*
پوسٹروں میں اس لقب کیساتھ آپ کا نام دیکھا تو امید کی ٹوٹی ہوئی لڑیاں جڑنے لگیں،
کیونکہ ہم نے ایک سچے مفکر کو دیکھا ہے لیکن اب اسکا مستقر دیار ہند نہیں،
ہم نے سوچا آپ بھی انہیں کیطرح ہونگے اسی لئے جب شریعت پر حملہ ہوا ہم نے آپ کو پکارا،
آپ کو آواز دی ہمیں لگا آپ محافظ شریعت بن کر اٹھے گیں اتحاد کی راہ ہموار کریں گے، احتجاج و التماس کریں گے،
لیکن آپ تو مفکر بطن نکلے، آپ تو مفکراسلام سیٹھ نکلے،
آپ تو صرف اترانا جانتے ہیں، آپ تو بس خلافت اور دولت کے حریص نکلے،
آپ تو اسلام کے نام پر پیٹ پالتے ہیں، آپ تو دست بوسی چائے نوشی کے دلدادہ ہیں ، آپ تو اسٹیج کے فنکار، جھوٹے کلاکار ہیں ،
جو کچھ ہے آپ کی اونچی ٹوپی اور میٹھی آواز میں ہے آپ تو فکر امت سے خالی اور عاری ہیں ،
تمہیں تو عار بھی نہیں دلا سکتے، کیونکہ تم مردہ ضمیر، لکیر کے فقیر، بے تدبیر ہو،
خیر، اللہ سریع الحساب ہے،

*علامہ صاحب*
ارے اس آوارہ لقب سے ملقب بیچارو! تمہیں کیا کہیں، تم میں سے اکثر مردانگی سے دور، نسوانیت سے مغرور، حقیقت سے مفرور، پیٹ سے مجبور ہو،
میں نے سنا تھا کہ علامة کی ۃ برائے مبالغہ ہے،
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس ۃ کو کو تائے تانیث سے بھی کچھ نا کچھ مناسبت اور لگاؤ ہے معناً نہیں تو صورتاً ضرور،
اسی لیے اکثر علاَّمات میں نسوانی فطرتیں آ ہی جاتی ہیں،
اسٹیج ہو، یا مسجد ومدرسہ یا پھر کوئی خانقاہ ہر جگہ علاَّمات اپنی مکاری، ننگے پن کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں،
جس بھی گلی میں جاؤ، چوہے بھلے نا ملیں علامہ تو ضرور مل جائیں گے، کوئی پوسٹر ایسا نہیں جس میں کوئی مولانا صاحب ہوں، سبھی علامہ ہیں،
دو سو روپے لوکل اسٹیجوں پر ملتے ہیں، لیکن ٹوپی پانچ سو والی لگاتے ہیں تاکہ علامہ دِکھ سکیں،
علاَّمات سے بس اتنی گزارش ہے کہ جہاں بھی رہو اہلسنت میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش مت کرو، سب سے زیادہ علامات نے ہی اتحاد کی چادر کو تار تار کیا ہے،
ہمیں معلوم ہے آپ علاّمات کو بہت غصہ آتا ہے لیکن آپ کے غصے اور جلال سے امت کو فائدہ نہیں کیونکہ آپ کو غصہ آتا ہے تو آپ اپنی ہی چوڑیاں توڑ ڈالتے ہو،
اپنی چوڑیاں بچا کر رکھو کسی اسٹیج پر توڑو گے تو معاوضہ بھی مل جائے گا، بار بار بیوہ بننے کی مکاری اسٹیجوں پر ہی نفع بخش ہے ظلم و ظلم وستم سے لڑنے کے لئے علامتِ تانیث بلکہ مردانگی کی ضرورت ہے، جو تمہارے پاس بالکل نہیں.

انہیں بھی کچھ ڈنڈے لگانا ضروری ہے،
وقار ملت، تاج ملت، تاج الخطباء، نقیب ملت، وغیرہ وغیرہ
آپ لوگوں کو کیا کہیں آپ تو خود ہی چوہوں کیطرح چرا چرا کر پیٹ بھرتے ہیں اور گرگٹ کیطرح رنگ بدلتے ہیں ، تمہیں منہ لگانا ہی بے وقاری ہے اور بے عزتی ہے، تمہیں تو تمہارے مریدوں نے جب سے لقب دیا ہے، تبھی سے تمہارے دماغی توازن بگڑ گئے ہیں ، اس لیے تم لوگ اس لائق نہیں کہ تمہیں کچھ کہا جائے، تم اَن آفیشل بھکاری ہو، تمہارا کام تھا بھیک مانگ کر کھانا ،
لیکن آج کل تم لوگ امت کے گھروں میں ڈاکہ زنی کرنے لگے ہو، غریبوں کو لوٹنے لگے ہو، تمہاری حرام خوری زیادہ بہت بڑھ گئی ہے، پہلے والا کام شروع کر دو اس سے توبہ کر لو ورنہ بدنامی کے بعد بھیک بھی نہیں پاؤ گے.

*آخری گزارش :*
پیر صاحب، علامہ صاحب، صوفی صاحب، محدث صاحب، مقرر صاحب، پیرزادہ صاحب، ولیعہد صاحب، کچھ تو ہم امت کے لیے کرو، ورنہ ہم آپ کے مزار پہ کیسے آئیں گے، یہ کافر ہمیں ٹرینوں اور بسوں میں بھی نشانہ بناتے ہیں، ہمیں آپ کے عرس میں آنا ہے، مزار پر چادر چڑھانا ہے، نذرانہ دینا ہے، آپ حضرات کو جلسے میں بلانا ہے، چیخ کر نعرہ لگا کر جلسے کو کامیاب بنانا ہے ،
اگر حالات ایسے ہی رہے تو ہم آپ کے عرس میں نہ آ سکیں گے، پھر آپ کے شہزادے، پیرزادے کیا کھائیں گے؟
مقرر صاحب جلسے بند ہوجائیں گے تو تمہارا گھر کیسے بنے گا؟ بیوی کو مزار پر کیسے لے جاؤ گے؟
ابھی ہم امت کو آپ لوگوں پر بہت خرچ کرنا ہے،
ہم ہی سلامت نہ رہے تو آپ بےکار ہوجاؤ گے، آپ کی عزت، عظمت، آپ کے جلوے، جاہ جلال ہم سے ہیں،
ہم نہ رہے تو آپ کو کون پوچھے گا؟ کوئی نہیں پوچھے گا، ہم اسی طرح مرتے رہے تو ہم پہلے ختم ہو جائیں گے پھر آپ کی باری آئے گی،
تب تک آپ کی تدفین کے لئے کوئی باقی نہ رہے گا،
خیر ہم امت کے غریبوں سے تو آپ بڑی ٹوپی والے، مقرر، صوفی، پیر علامہ، محدث، وغیرہ وغیرہ صاحب ملاقات بھی نہیں کرتے،
تو بھلا ہمارے لیے آپ لوگ جان کیا دیں گے، قربانی کیا دیں گے، آپ لوگ تو سیٹھوں کے یہاں کھاتے ہیں، وہیں قیام کرتے ہیں، انہیں سے ملاقات کرتے ہیں،
اور انہیں کے لیے دل سے دعا بھی کرتے ہیں ، آپ ہمارے لیے دعا تک نہیں کرتے پھر تو ہمارے لئے جان دینا، احتجاج کرنا، و التماس کرنا آپ سے کیوں کر ممکن ہاں شاید اپنی فکر کر لو.

کسی کو لگے کہ میں نے کسی کی گستاخی کی ہے تو مجھ سے لڑنے جھگڑنے اور گالی دینے سے پہلے امت کے لیے کچھ کر گزرے میں اسکے پیروں پر گر کر معافی مانگ لوں گا،
سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اور دین ہی سے سب کو عزتیں اور عظمتیں ملی ہیں، جو اس امت کا وفادار نہیں،
جو تبلیغ دین کے نام پر اس امت کو لوٹے اس کا ادب احترام ہم نہیں کرتے، اور نہ کریں گے، چاہے کتنی بھی اس کی کرامتیں اور جلوے بیان کئے جائیں.

*نـــــوٹ:*
ہمارے اسلاف جو اس دار فانی سے کوچ کر گئے وہ اس تحریر کی زد میں ہر گز نہیں،
نیز میری یہ تحریر داد اور واہ واہی بٹورنے کیلئے نہیں ہے یہ ایک درد اور تکلیف ہے، بے شک اللہ عزوجل دل کے ارادوں کو جانتا ہے، اسی امید و آس ہے وہی سب کا کارساز ہے.

تحریر چوروں سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو چرانے کی ہرگز کوشش نہ کریں ورنہ انجام برا ہوگا.
🖊..... *ذوالفقار احمد رضوی سبحانی*
📍................ *زلفی سبحانی*

Wednesday, July 24, 2019

دعوة لاغتنام فرصة التسجيل في برنامج أكاديمية أربن للشيخ/الأستاذ محمدنورالدين الأزهري

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ "


الأخ/ـت المكّرم/ـة 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
يسرّنا أن نبلغكم بفتح باب التسجيل للموسم الأول في برنامج أكاديمية:
 أربن
 www.urbanpro.com 
للشيخ/الأستاذ محمدنورالدين الأزهري
 فيرجى لمن يودّ التسجيل وتحصيل العلم اللغة العربية بطريقة سهلة ميسّرة دون عناء, و دون قيود الزمان والمكان, وذلك بعد النجاحات الكبيرة التي حقّقها البرنامج في المواسم السابقة بفضل الله تعالى.
لذا نهيب بكم المبادرة بالتسجيل واغتنام هذه الفرصة العظيمة لتحصيل العلم اللعة الضا و التمهر في نطقها.

علماً أن المقاعد المتاحة للتسجيل محدودة 

برنامج أكاديمية أربن للشيخ/الأستاذ محمدنورالدين الأزهري  
(https://www.urbanpro.com/branch/enquiryLocation)

موبايل نمبر ٩٧١٧٠٢٣٩٧٠ 


 هو عبارة عن برنامج تعليمي يهدف إلى تقريب اللعة الضا و التمهر في نطقها للراغبين فيه وذلك بطريقة سهلة مناسبة حتى لمن لا يستطيع التفرغ لطلب العلم، عن طريق شبكة الإنترنت، وعن طريق قناة زاد علمية ZAD TV.
الهدف الأساسي لبرنامج الأكاديمية هو توعية المسلم بما لا يسعه جهلُه من دينه، ونشر وترسيخ العلم اللغوي العربي الرصين، القائم على كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم، صافياً نقيًّا، وبطرحٍ عصريّ ميسّر وبإخراجٍ احترافيٍّ.
ماهي شروط التسجيل وماذا أحتاج للدراسة؟
- يسرنا في برنامج الأكاديمية أن نقبل جميع الراغبين في تعلم العلم الشرعي دون الحاجة لحصولهم على شهادات معينة 
- يجب ألا يقل عمر المتقدم عن 16 سنة.
- أن يقوم المتقدّم بإتمام عملية التسجيل في الموقع على الوجه المطلوب.
- لا يحتاج المشارك لمتابعة الدراسة إلا أن يتوفر لديه جهاز متصل بالانترنت ( هاتف او آيباد او حاسب) وبريده الإلكتروني

مفاجأة

مالت سفينة تجارية من كثرة الحمل فإقترح ربانها أن يتم رمي بعض البضاعة في البحر
فأجمعوا أن يتم رمي كامل بضاعة أحد التجار لأنها كثيرة ، فإعترض التاجر
فثار عليه باقي التجار ولأنه كان تاجر جديد ومستضعف تأمروا عليه و رموه في البحر هو وبضاعته و أكملوا طريق
أخذت الأمواج بالتاجر وألقت به على شاطئ جزيرة مهجورة ..
سقط على ركبتيه وطلب من الله المعونة
مرت عدة أيام كان التاجر يقتات خلالها من ثمار الشجر
ويشرب من جدول مياه قريب .. وينام في كوخ ٍصغير بناه من أعواد الشجر
هبت ريح قوية وحملت معها بعض أعواد الخشب المشتعلة وفي غفلة منه إشتعل كوخه
صرخ لماذا يارب .. ؟
حتى هذا الكوخ الذي يؤويني احترق
و نام التاجر ليلته وهو جائع من شدة الحزن ..
لكن في الصباح كانت هناك مفاجأة بانتظاره .. إذ وجد سفينة تقترب من الجزيرة وتُنزل منها قارباً صغيراً لإنقاذه …
سألهم كيف عرفوا مكانه فأجابوه :
لقد رأينا دخاناً فعرفنا أن شخصاً ما يطلب النجدة لإنقاذه فجئناك
وأخبروه بأن سفينة التجار لم تصل وغرقت في البحر !
فسجد التاجر يبكي ويقول الحمد لله يارب أمرك كله خير
إذا ساءت ظروفك فلا تقنت من رحمة الله.
ضع اسم من أسماء الله الحسني لتكون فرجاً لنا ولكم إن شاء الله

بیوی کو میکے بھیجیں

بیوی کو میکے بھیجیں
ہمارے اک جگری یار کا بہنوئی تھا، خواجہ کہہ لیتے ہیں۔ خواجہ ساب ہم سے کچھ سال بڑے تھے مگر یار باش آدمی تھے۔ باجی کی شادی کے بعد وہ ہفتے میں دو تین بار باجی کو انکے والدین کے گھر لے کر آتے تو ہم گپ شپ مارتے۔ ہولے ہولے ان سے بہت دوستی ہو گئی۔ نوے کی دہائی میں ابھی اک تو سوشل میڈیا نہیں تھا تو شامیں کیا راتیں بھی دوستوں سے مل کر گزرتی تھیں نا کہ صوفے پہ لیتے فیس بک پہ لائک دبا کر۔ دوسرا ابھی “انڈرسٹینڈنگ “ کہنے کا اتنا رواج نہیں ہوا تھا اور بندہ رن مرید ہی کہلاتا تھا۔ اچھا اک تو ہماری وہ باجی ڈاھڈی تھی اور دوسرا خواجہ بھائی زیادہ پڑھے لکھے، تو جب فرینکنس بڑھ گئی بلکہ دوستی ہو گئی تو ہم چھیڑ چھاڑ بھی کر لیتے تھے۔

اک دن کہنے لگے یار آج دال چاول کھائے ہیں پر مزہ نہیں آیا۔ میں نے انکو چھیڑتے ہوے کہا کہ خواجہ بھائی یہ آپ ہر دوسرے دن باجی کو لے کر میکے آ جاتے ہیں کھانا کھانے، جوائیاں نو سورے اینا نہی انا چاہی دا، آپکو اب دال چاول ای ملا کرنے ہیں۔ خواجہ نے سگریٹ کا لمبا کش کھینچا اور پھر کہنے لگے یار تینو اک گل دساں، ہماری ایک ہی بہن ہے۔ باپ کی اتنی لاڈلی تھی کہ باپ اسکو ساتھ بٹھائے بنا روٹی نہیں کھاتا تھا۔ اسکی شادی ہوئی تو اسکے سسرال والے بہت سخت تھے۔ مہینے دو مہینے بعد اسکو ماں باپ کے گھر آنے کی اجازت دیتے تھے۔ میں نے جیسے اپنے باپ کو تڑپتے اور آنسووں سے روتے دیکھا ہے میں بتا نہیں سکتا۔ وہ آخری دنوں میں بھی ہمارے ترلے  کیا کرتا تھا کہ جاو اپنی بہن کو ہی لے آؤ ،کچھ گھنٹوں کو ہی۔ ہم بھائی جاتے تھے، کئی دیر بیٹھ کر کبھی اسکا شوہر اجازت دے دیتا تھا اور کبھی نہیں دیتا تھا اور ہم جب اکیلے واپس آتے تو باپ صافہ منہ پہ رکھ کر ہچکیاں لے کر روتا تھا۔ تو رانا جی، میری بیوی نہیں کہتی، میں روز اس سے کہتا ہوں تم کو تمھاری امی سے ملوا لاؤں؟

دوستو گو زمانہ کافی بدل چکا ہے، شہروں کا کلچر تو کافی بدلا ہے۔ لیکن اگر آپ کسی کی بیٹی لے ہی آئے ہیں تو یاد رکھئیے کسی کے جگر کا ٹکڑا کاٹ کر لائے ہیں۔ آپکی “حاکمیت” یا “شوہریت” کی بنیاد بیوی کو اس کے میکے سے کاٹنے پر منحصر نہیں ہونی چاہیے۔ کوشش کیجئیے آپکی بیوی کو خود نا کہنا پڑے، اسے بار بار پوچھتے رہیے کہ اگر وہ اپنے ماں باپ کو مس کر رہی ہے تو آپ اسے اسکے گھر والوں سے ملا لائیں یا بھیج دیں۔ شادی میں باہمی محبت کا یہ پہلا زینہ ہے۔ اور پھر یاد رکھئیے کہ کل آپ کی بیٹی نے
بھی تو سسرال جانا ہے، اور یہ تڑپ بہت ظالم ہوتی ہے۔

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...