Monday, July 22, 2019

اماں بھائی کب مرے گا؟

عرصہ ہوا ایک ترک افسانہ پڑھا تھا یہ دراصل میاں بیوی اور تین بچوں پر مشتل گھرانے کی کہانی تھی جو جیسے تیسے زندگی گھسیٹ رہا تھا۔ جو جمع پونجی تھی وہ گھر کے سربراہ کے علاج معالجے پر لگ چکی تھی، مگر وہ اب بھی چارپائی سے لگا ہوا تھا۔ آخر اسی حالت میں ایک دن بچوں کو یتیم کر گیا۔ رواج کے مطابق تین روز تک پڑوس سے کھانا آتا رہا، چوتھے روز بھی وہ مصیبت کا مارا گھرانہ کھانے کا منتظر رہا مگر لوگ اپنے اپنے کام دھندوں میں لگ چکے تھے، کسی نے بھی اس گھر کی طرف توجہ نہیں دی۔ بچے بار بار باہر نکل کر سامنے والے سفید مکان کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو دیکھتے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے کھانا تیار ہو رہا ہے۔ جب بھی قدموں کی چاپ آتی انھیں لگتا کوئی کھانے کی تھالی اٹھائے آ رہا ہے مگر کسی نے بھی ان کے دروازے پر دستک نہ دی۔
ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، اس نے گھر سے کچھ روٹی کے سوکھے ٹکڑے ڈھونڈھ نکالے، ان ٹکڑوں سے بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دیا۔ اگلے روز پھر بھوک سامنے کھڑی تھی، گھر میں تھا ہی کیا جسے بیچا جاتا، پھر بھی کافی دیر کی "تلاش" کے بعد دو چار چیزیں نکل آئیں جنھیں کباڑیے کو فروخت کر کے دو چار وقت کے کھانے کا انتظام ہو گیا۔ جب یہ پیسے بھی ختم ہو گئے تو پھر جان کے لالے پڑ گئے۔ بھوک سے نڈھال بچوں کا چہرہ ماں سے دیکھا نہ گیا۔ ساتویں روز بیوہ ماں خود کو بڑی سی چادر میں لپیٹ کر محلے کی پرچوں کی دکان پڑ جا کھڑی ہوئی، دکان دار دوسرے گاہکوں سے فارغ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہوا، خاتون نے ادھار پر کچھ راشن مانگا تو دکان دار نے نا صرف صاف انکار کر دیا بلکہ دو چار باتیں بھی سنا دیں۔ اسے خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑا۔
ایک تو باپ کی جدائی کا صدمہ اور اوپر سے مسلسل فاقہ، آٹھ سالہ بیٹے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ بکھر میں مبتلا ہو کر چارپائی پر پڑ گیا۔ دوا دارو کہاں سے ہو، کھانے کو لقمہ نہی تھا، چاروں گھر کے ایک کونے میں دبکے پڑے تھے، ماں بخار سے آگ بنے بیٹے کے سر پر پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی، جب کہ پانچ سالہ بہن اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بھائی کے پاؤں دبا رہی تھی۔ اچانک وہ اٹھی، ماں کے پاس آئی اور کان سے منہ لگا کر بولی
"اماں بھائی کب مرے گا؟"
ماں کے دل پر تو گویا خنجر چل گیا، تڑپ کر اسے سینے سے لپٹا لیا اور پوچھا "میری بچی، تم یہ کیا کہہ رہی ہو؟"
بچی معصومیت سے بولی
"ہاں اماں! بھائی مرے گا تو کھانا آئے گا ناں!"
اگر ہم اپنے پاس پڑوس میں نظر دوڑائیں تو اس طرح کی ایک چھوڑ کئی کہانیاں بکھری نظر آئیں گی۔ بہت معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں ہمارا معاشرہ مردہ پرست ہو چکا ہے۔ زندگی میں کوئی نہی پوچھتا مگر دم نکلتے وقت ہونٹوں پر دیسی گھی لگا دیا جاتا ہے تا کہ لوگ سمجھیں بڑے میاں دیسی گھی کھاتے کھاتے مرے ہیں۔ غالبا منٹو نے لکھا ہے کہ ایک بستی میں کوئی بھوکا شخص آ گیا، لوگوں سے کچھ کھانے کو مانگتا رہا مگر کسی نے کچھ نہی دیا۔ بیچارہ رات کو ایک دکان کے باہر فٹ پتہ پر پڑ گیا۔ صبح آ کر لوگوں نے دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ اب "اہل ایمان" کا "جذبہ ایمانی" بیدار ہوا، بازار میں چندہ کیا گیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے دیگیں چڑھا دی گئیں، یہ منظر دیکھ کر ایک صاحب نے کہا "ظالمو! اب دیگیں چڑھا رہے ہو، اسے چند لقمے دے دیتے تھ یہ یوں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نا مرتا"۔
کیا ہمارا "جذبہ ایمانی" صرف مردوں کے لیے رہ گیا ہے۔ اپنے ارد گرد موجود زندوں کا خیال رکھیے۔
▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬
یہ کام ہم سب کو مل کر کرنا ہے. ہم سب کے ارد گرد ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو مجبور ہیں، جو بےکس ہیں، جو غریب ہیں. جن پر ہم کبھی توجہ ہی نہی دیتے.
ایک منٹ کو رکیے. اور آنکھیں بند کر کے اپنے ارد گرد معاشرے پر نظر دوڑائیں. اپنے پڑوسیوں پر، اپنے رشتےداروں پر، جو آپ کی گلی میں ٹھیلے والا ہے اس پر، جو ایک مزدور آپ کے محلے میں کام کر رہا ہے اس پر. جو آپ کے ہاں یا اپ کے دفاتر میں چھوٹے ملازم ہیں ان پر.
یہ سب لوگ ہمارے کتنا قریب رہتے ہیں اور ہمیں معلوم بھی نہی ان کے ساتھ کیا کچھ بیت رہی ہے.... ہمیں اس لیے نہی معلوم کہ ہم ان کے قریب رہتے ہوئے بھی ان سے دور ہیں. ہم نے کبھی ان کا احساس کیا ہی نہی. کبھی ہم نے ان سے کچھ پوچھا بھی نہی.(بلکہ شائد ہمیں ان چھوٹے لوگوں سے بات کرتے ہوئے شرم آتی ہے).
ان کو اپنے قریب کیجیے، ان کی جو ممکن ہو مدد کیجیے اور جو آپ کے بس میں نہ بھی ہو تو دل جوئی کیجیے ان کی.
کبھی کبھی مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم "جوش ایمان" میں ایک ایک گلی میں تین تین، چار چار مساجد بنا دیتے ہیں انھیں خوب سجا دیتے ہیں(نمازی چاہے ہر ایک میں دو دو ہی ہوں) لیکن اسی گلی میں کئی غریب رات کو بھوکے سوتے ہیں ان کی طرف کوئی دھیان ہی نہی دیتا. کسی بیمار کے پاس دوائی خریدنے کے لیے پیسے نہی ہوتے، اس کی مدد کو کوئی "صاحب ایمان" آگے نہی آتا..
خدا کے بندوں کا بھی کچھ خیال کیجیے

شادی کی پہلی رات میاں بیوی

شادی کی پہلی رات میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ جب وہ کمرے میں پہنچ جائیں گے تو پھر دروازہ نہیں کھولیں گے چاہے کوئی بھی آ جائے.
ابھی دروازہ بند ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دلہے کے والدین کمرے کے باہر پہنچے تاکہ اپنے بیٹے اور بہو کو نیک تمناؤں اور راحت بھری زندگی کی دعا دے سکیں، دستک ہوئی بتایا گیا کہ دلہے کے والدین باہر موجود ہیں.
دلہا دلہن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا باوجود اس کے کہ دلہا دروازہ کھولنا چاہتا تھا اس نے اپنے فیصلے کو مدنظر رکھا اور دروازہ نہیں کھولا.

والدین ناکام واپس لوٹ گئے.
ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ دلہن کے والدین بھی دلہے کے گھر جا پہنچے تاکہ اپنی بیٹی اور داماد کو اپنی نیک خواہشات پہنچا سکیں اور انہیں سکھی زندگی کی دعا دے سکیں.
ایک بار پھر کمرے کے دروازے پر دستک دی گئی اور بتایا گیا کہ دلہن کے والدین کمرے کے باہر موجود ہیں. دلہا دلہن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر اپنا فیصلہ ذہن میں تازہ کیا.
باوجود اس کے کہ فیصلہ ہو چکا تھا دلہن کی آنسوؤں بھری سرگوشی سنائی دی
نہیں میں اپنے والدین کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی اور فورا دروازہ کھول دیا.
شوہر نے یہ سب دیکھا مگر دلہن کو کچھ نا کہا خاموش رہا.
اس بات کو برسوں بیت گئے ان کے ہاں چار بیٹے پیدا ہوئے اور پانچویں بار ایک بیٹی پیدا ہوئی.
شوہر نے ننھی گڑیا کے اس دنیا میں آنے کی خوشی میں ایک بہت بڑی پارٹی کا انتظام کیا اور اس پارٹی میں ہر اس شخص کو بلایا جسے وہ جانتا تھا اور خوب خوشیاں منائی گئیں.
اس رات بیوی نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اتنی بڑی پارٹی کا اہتمام کیا جبکہ اس سے پہلے چاروں بچوں کی پیدائش پر ہم نے یہ سب کچھ نہیں کیا.
شوہر مسکرایا اور بولا
یہ وہ ہے جو میرے لئے دروازہ کھولے گی.
بیٹیاں ہمیشہ قیمتی ہوتی ہیں،

ایک بگڑے ہوئے نوجوان کی داستان

جوانی چڑھ گئی تو میں گھر دیر سے آنے لگا، رات دیر تک گھر سے باہر رہنا اور سارا سارا دن سوئے رہنا معمول بن گیا، 
امی نے بہت منع کیا لیکن میں باز نہ آیا۔ شروع شروع میں وہ میری وجہ سے دیر تک جاگتی رہتی بعد میں سونے سے پہلے فریج کے اوپر ایک چٹ چپک ا کر سو جاتی، جس پر کھانے کی نوعیت اور جگہ کے بارے میں لکھا ہوتاتھا۔ آہستہ آہستہ چٹ کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور "گندے کپڑے کہاں رکھنے ہیں اور صاف کپڑے کہاں پر رکھے ہیں" جیسے جملے بھی لکھے ملنے لگے، نیز یہ بھی کہ آج فلاں تاریخ ہے اور کل یہ کرنا ہے پرسوں فلاں جگہ جانا ہے وغیرہ وغیرہ ۔یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا ۔ ۔ ۔
ایک دن میں رات دیر سے آیا، بہت تھکا ہوا تھا۔ حسب معمول فریج پر چٹی لگی ہوئی دیکھی لیکن بغیر پڑھے میں سیدھا بیڈ پر گیا اور سو گیا۔ صبح سویرے والد صاحب کی چیخ چیخ کر پکارنے سے آنکھ کھلی۔ ابو کی آنکھوں میں آنسو تھے انہوں یہ اندوہناک خبر سنائی کہ بیٹا تمھاری ماں اب اس دنیا میں نہیں رہیں ۔ میرے تو جیسے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، غم کا ایک پہاڑ جیسے میرے اوپر آگرا۔ ۔ ۔ ۔ ابھی تو میں نے امی کے لئے یہ کرنا تھا ، وہ کرنا تھا۔ ۔ ۔ ابھی تو میں سدھرنے والا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ میں تو امی سے کہنے والا تھا کہ اب میں رات دیر سے نہیں آیا کروں گا ۔ ۔ ۔ تدفین وغیرہ سے فارغ ہو کر رات کو جب میں نڈھال ہوکر بستر پر دراز ہوا تو اچانک نجھے امی کی رات والی چٹی یاد آگئ، فورا گیا اور اتار کر لے آیا، اس پر لکھا تھا:"بیٹا آج میری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے، میں سونے جا رہی ہوں ، تم جب رات کو آؤ تو مجھے جگا لینا، مجھے ذرا ہسپتال تک لے جانا ۔ ۔۔ "

گیرٹ ولڈرز ملعون کے الفاظ پڑھیں

ویسے آپ سب کو گیرٹ ویلڈرز ملعون سے لیکر امریکہ انڈیا اور اسرائیل سمیت سب دشمنوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ وہ آپ کو جگانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں، اس کے ساتھ جتنی لعن تعن آپ ان سب پہ کرتے ہیں اس میں سے تھوڑی سی نکال کر خود پہ بھی کر لیا کریں کہ آپ بالکل بھی جاگنا نہیں چاہتے ۔
سات فٹ سات انچ لمبا اور ساڑھے نو سو پاؤنڈ وزنی سی بی یو کلسٹر بم جب امریکی بی-ون بمبار طیارے سے ریلیز ہوکر نیچے کی طرف آتا ہے ، تو فری فال کرتے ہوے فضا ہی میں وہ کھل جاتا ہے اور اس میں سے سینکڑوں بمبلسٹس (سمارٹ بم) نکل کر پھیل جاتے ہیں اور وسیع علاقہ تباہی کی زد میں آجاتا ہے ۔
آپ کو بات یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان سینکڑوں بمبلسٹس اور سینکڑوں اقسام کے مخلتف پونڈز کے جتنے بھی امریکی بمب ہیں ان میں بالکل بھی قطعی طور پہ ایسا کوئی سینسر نہیں ہوتا جو بریلوی دیوبندی وہابی کا فرق کرکے کسی کو بائی پاس یا کسی کو مار سکتا ہوں ۔
میں نے کسی فرقے کا فلسطینی نہیں دیکھا جو اسرائیلی مظالم سے بچ نکلے، بھارت میں جب ڈنڈوں اور تلواروں سے مسلمانوں کے ٹکڑے کرنا شروع کئے جاتے ہیں تو مارنے والے جانتے تک نہیں ہوتے کہ مرنے والا بریلوی تھا یا دیوبندی یا اہلحدیث،
میں نے ابھی تک ایسا خودکش حملہ آور نہیں دیکھا جس کے دھماکے سے نکلے نٹ بولٹ اور بال بیرنگز ڈھونڈ ڈھونڈ کر کسی خاص مکتبہ فکر کے بندے کے پرخچے اُڑائیں
آپ پہ حملہ آور آپ کا دشمن آپ کا کوئی حریف آپ کے سنی دیوبندی وہابی سلفی یا آپ کے پنجابی پٹھان بلوچی کشمیری سندھی ہونے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ، اسے ایک مسلمان کو مارنا ہوتا ہے وہ گیرٹ ویلڈرز جیسا ہو تو اسے بس ایک مسلمان کا دل دکھانا ہوتا ہے، وہ جارج بش ہو اوبامہ، مودی ٹرمپ یا نیتن یاہو ہو تو اس کو صرف مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانا ہوتی ہیں ، انہیں فرق نہیں پڑتا کسی کے گیارہویں منانے سے یا رفع الدین کرنے سے یا جماعت میں وقت دینے یا نا دینے سے،
یہ فرق یہ تفریقیں صرف آپ لوگ اہنے ذہنوں میں بٹھائے بیٹھیں ہیں۔
پھر بھی کتنے خوشنصیب ہیں آپ کہ آپ کو مارنے والے ابھی بھی آپ کو امت سمجھتے ہیں ۔
کلسٹر بم میں بند بمبلسٹس کی طرح ۔
ہیں نا
سالار عبداللہ 

عمدہ گفتگو

دنیا بھر میں اور خصوصاً جنوبی ایشیا میں کچھ عرصہ پہلے تک تقریباً سبھی مسلمان اچھی طرح جانتے تھے کہ اہلِ تصوف کا سماع نہ کوئی تفریحی سرگرمی ہے، نہ ہی کوئی ثقافتی مظاہرہ. اور یہ بھی واضح تھا کہ اس کا مقصد تفنن طبع بھی نہیں. اہل تصوف کے لیے سماع کی حیثیت وہ نہیں ہے جو مثلاً ایک عام باذوق شخص کے لیے محفل موسیقی کی ہوتی ہے. سماع حصولِ لذتِ ظاہر کا ذریعہ نہیں، ایک شیوہء طریقت ہے جس کی معنویت صوفیہ کے حلقوں میں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے. سماع صوفیہ کے لیے اپنی کوتاہیوں اور محرومیوں پر نوحہ و زاری ہے. غم و اندوہ کے دنوں میں باطنی حزن و ملال کے اظہار کی ممانعت کیسے ہو سکتی ہے؟ اسی احترام اور باہمی محبت کی وجہ سے بہت سے دیگر مسالک کے سلجھے ہوئے افراد بھی محافل سماع میں شرکت کرتے تھے اور اب بھی بہت سے لوگ یہ عملِ خیر انجام دیتے ہیں، اگرچہ یہ تعداد روز بہ روز کم ہوتی جاتی ہے.
اگر صوفیوں میں سے کچھ لوگ سماع کو عام محفل موسیقی ہی سمجھتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں. انھیں اپنے فکر و عمل کی اصلاح کرنی چاہیے. اگر سماع کے آداب ملحوظ نہیں رکھے جاتے ہیں تو یہ بھی بالکل غلط ہے. آداب کے ساتھ ہو تو سماع ہے ورنہ عام محفل موسیقی سے بھی بد تر ہے. نیز اہل تصوف کو یہ ادراک، اعتراف اور اظہار بھی کرتے رہنا چاہیے کہ سماع کسی صوفی پر بھی فرض نہیں ہے اور نہ ہی دین کا حصہ ہے.
انگریزوں نے اپنے استعماری مقاصد کے حصول کے لیے مختلف اسلامی مسالک میں دوریوں کو فروغ دیا جس میں مختلف زمانوں میں مختلف عالمی چال بازیوں کی وجہ سے شدت آتی گئی. گزشتہ دو تین عشروں سے اہل تصوف اپنے بہت سے ہم دردی رکھنے والوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں. اب اہل تصوف کسی مسلمان کو مشرک لگتے ہیں، کسی کو بدعتی، کسی کو گمراہ، کسی کو اہل بیت کے غالی عقیدت مند، کسی کو غمِ حسین کا احترام نہ کرنے والے، کسی کو جاہل اور کسی کو بے عمل لگنا شروع ہو گئے ہیں. اہل تصوف کا دامن ان تمام تہمتوں سے بری ہے. البتہ صوفیہ کی صفوں میں بھی کم پڑھے لکھے اور عقائد و اعمال میں کوتاہی کرنے والے لوگ ہیں اور اس صورت حال سے کوئی مسلک بھی محفوظ نہیں ہے.
پروفیسر معین نظامی صاحب دام ظلہ

حضرت ازہری میاں کے بعد


حضرت ازہری میاں کے انتقال اور مولانا عسجد رضا خاں کے انتخاب کے بعد ہمیں لگا تھا کہ جماعتِ بریلوی کے ساتھ خود جماعتِ مسلمین میں جو انتشار ہے اُس میں کمی آئے گی, لیکن حال ہی میں مولانا عسجد رضا خاں سے منسوب ایک بیان نے ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا, اور اب ہمیں لگتا ہے کہ خاندانِ رضوی کی طرف سے تفریق بین المسلمین کی کوششوں کا سلسلہ حسبِ روایت جاری رہے گا,
حسبِ روایت والی بات ہم اِس لیے کہہ رہے ہیں کہ یہی تفریق بین المسلمین مولانا احمد رضا خاں (اللہ اُنہیں معاف کرے) زندگی بھر کرتے رہے, اور مولانا اسمعیل دہلوی کی تقویت الایمان کے بعد بر صغیر کی دوسری سب سے تفریق انگیز اور فتنہ پرور کتاب حسام الحرمین غریب ملتِ مسلمہ کو تحفہ میں گئے, بعد میں باپ کے مشن کو بیٹے نے چلایا لیکن داخلِ بریلویت زیادہ انتشار سے بہرحال آپ بچے,
لیکن حضرت ازہری میاں نے پھر حدیں توڑ دیں, آپ زندگی بھر بلا استثناے خیش و یگانہ, انتشار, انتشار اور صرف انتشار کرتے رہے, ازہری میاں کے مثبت کام جو بھی ہوں لیکن ایک نمبر کا منفی کام تفریقِ ملتِ مسلمہ ہے, محترم اپنے جد امجد فاضل بریلوی کی روش پر چلتے رہے بلکہ انتشار کے معاملے میں تو فاضل بریلوی کے گروہ تک میں نقب زنی کر ڈالی, زندگی بھر یہ سُنی نہیں وہ سُنی نہیں کا وظیفہ پڑھ پڑھ کر,
اور افسوس کہ ازہری صاحب کے بعد اب مولانا عسجد رضا بھی اسی تفریق کی راہ چلتے دکھائی دے رہے ہیں, حالاں کہ مولانا کا معاملہ علم کے حوالے سے بہت مختلف ہے, اور وہ یہ کہ مولانا ایک ناقص مولوی ہیں, عمل و کردار بھی بتانے والے آج بہت سے لوگ ہیں, اس اعتبار سے مولانا کا زیادہ اثر لوگوں پر نہیں پڑے گا, تاجر خطیبوں اور تاجر خلیفاؤں کو چھوڑ کر,
لیکن میں یہاں بریلوی مسلک کے ذریعہ جو ایک صدی سے آج تک مسلمانوں کی صفوں میں نفرت پھیلائی گئی ہے اور ملت کو توڑ توڑ کر جو اُس کا حشر بُرا کیا گیا ہے, اس کو مجموعی طور پر سوچتا ہوں تو سچ مچ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ آج جو بُرا حال ملتِ ہند کا ہے تو اُس کو اِس حالت تک پہنچانے میں کس کا رول زیادہ ہے, آر ایس ایس کا؟ یا بریلوی مسلک کا؟,
کیوں کہ مجموعی طور پر ہندوستانی مسلمانوں کو دو طریقے پر کم زور کیا گیا ہے ایک دشمن کو مضبوط کر کے, یعنی مسلمانوں کے خلاف سنگھی ذہنیت کو زیادہ سے زیادہ متحد کیا گیا اور یہ کام آر ایس ایس نے کیا, اور دوسرا کام مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ توڑا گیا اور یہ کام تقویت الایمان کے بعد اُس کی بہن کتاب حسام الحرمین نے کیا,
ویسے ہمارا تو عسجد رضا خاں کو بھی یہی مشورہ ہے کہ وہ اپنے پُرکھوں کی تفریق والی روش سے توبہ ہی کرلیں تو بہتر ہے, کیوں وہ اپنی اس روش سے سواے اپنے بڑوں کو ایکسپوز کرنے کے کچھ نہیں کر پائیں گے, بلکہ تفریق کی راہ چل کر آج کے حالات میں تو سیدھے سیدھے اپنے بزرگوں کو گالیاں ہی دِلوائیں گے, کیوں کہ لوگوں کا صبر جواب دے رہا ہے. اللہ تعالی مولانا کو ہدایت نصیب کرے. آمین!
از ناصر رامپوری مصباحی

نقلی نقوی اصلی اندھا

*"مختار عباس نقوی: آنکھوں والا اندھا"*

*ہندو انتہا پسند اور ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ملک کی مختلف ریاستوں میں ہجومی تشدد (Mob Lynchings) جنہیں اب ہم پولیٹیکل مرڈر یا پھر مسلمانوں کا جدید شکل میں انکاؤنٹر کرنا کہہ سکتے ہیں۔ جس کی بازگشت ہمارے ملک کی سرحدوں سے نکل کر اب عالمی سطح پر پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے اور جس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہرے ملک اور بیرون ملک میں کیے جارہے ہیں۔ عالمی برادری اور ہر انصاف پسند برادران وطن (غیر مسلم) مسلمانوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہوکر ہجومی تشدد کے واقعات کے خلاف اپنا احتجاج درج کرا رہا ہے۔*
*ہمارے ملک میں حکمراں پارٹی کا ایک ایسا لیڈر بھی ہے جس نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے اور وہ مسلمانوں کے مسائل کو سنگھی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور اس بہادر کا نام ہے مختار عباس نقوی جو مودی کی کابینہ میں اقلیتی بہبود کے مرکزی وزیر ہیں۔ انہوں نے ہجومی تشدد (پولیٹیکل مرڈر اور مسلمانوں انکاؤنٹر)کو لے کر بڑا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موب لینچگ کے زیادہ تر کیس من گھڑت اور جھوٹے ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ موب لینچگ کے جتنے واقعات پورے ملک میں رونما ہورہے ہیں اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سرخیوں کی زینت بن رہے ہیں وہ فرضی اور جھوٹے ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اس کے خلاف ملک و بیرون ملک احتجاج، دھرنے اور مظاہرے بےمعنی ہیں۔*
*بھاجپائیوں نے مختار عباس نقوی کو یونہی داماد نہیں بنایا ہے انہیں حق وفاداری بھی تو ادا کرنا ہے اور اس کام کو بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں اور ان کا حالیہ بیان بھی اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے مختار عباس نقوی وشو ہندو پریشد کے صدر رہے مرحوم اشوک سنگھل کے داماد ہیں ان کی بیٹی سیما سنگھل کے شوہر ہیں۔*
*پوری دُنیا میں ہجومی تشدد (موب لینچگ پولیٹیکل مرڈر اور مسلمانوں کا انکاؤنٹر)کا شور بپا ہے اور جس کے خلاف ہر سطح پر آواز بلند ہورہی ہے اور ہر شخص اپنی سر کی آنکھوں سے اس ظلم وتشدد کو دیکھ رہا ہے۔ لیکن اقلیتی بہبود کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کو دن کے اجالے میں بھی ہندو دہشت گردوں کے ہاتھوں انجام پانے والے ہجومی تشدد ذریعے کے مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات انہیں اپنی آنکھوں سے نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس پس منظر ان کے تعلق سے یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ"اگر ہمارے ملک میں آنکھوں والے اندھے کو دیکھنا ہے تو وہ مختار عباس نقوی کو دیکھ لے۔"*

*محمد خالد داروگر، دولت نگر، سانتاکروز، ممبئی*

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...