تین قسطیں یکجا
تحریر: شہادت حسین فیضی، کوڈرما جھارکھنڈ
میں مدرسہ کی آفس میں میں تھا کہ ایک حافظ صاحب تشریف لائے جو میرے شاگرد وں میں سے تھے۔ موصوف امام ہیں اور ایک گاؤں کے مکتب میں پڑھاتے ہیں انکی چھ لڑکیاہیں اور شاید سب سے چھوٹے دولڑکے ہیں انہیں اپنی بیٹی کی شادی کرنی تھی جس کا رشتہ طئے ہو چکا تھا اور تاریخ بھی طئے تھی انہوں نے بڑی ہی لجاجت کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کی دعوت پیش کی اورعرض گزار ہوئے کہ حضرت میرے لیے ایک تصدیق نامہ تحریر کر دیں تاکہ کچھ لوگوں سے مل کر بیٹی کی شادی کا انتظام کر سکوں آپ جانتے ہیں کہ میں کثیر العیال ہوں اور آمدنی کے اعتبار سے قلیل ترین آمدنی پہ گزر بسر کرتا ہوں۔ میں نے کہا تشریف رکھیں لکھ دیتا ہوں لیٹرپیڈ نکالا اور پھر لکھنے کی کوشش کی لیکن ہاتھ کانپ گیا اور آنکھ سے آنسوبھی ٹپک پڑے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے تصدیق نامہ لکھنے سے معذرت کرلی۔ میں نے سوچا کہ یا اللہ یہ حافظ صاحب جو شریفانہ وضع قطع رکھتے ہیں انکے سینہ مبارک میں قرآن مقدس جیسی لا ریب کتاب محفوظ ہے،عرصہ سے لوگوں کی امامت کر رہے ہیں اور تعلیم قرآن جیسے عزت و شان والا کام کر رہے ہیں اتنی عظیم شخصیت حقیر سی رقم کے لیے دنیا داروں کے سامنے دست سوال دراز کریں گے؟ بیٹی کی شادی کے لئے انہیں بھیک مانگنا ہوگا؟ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ کوئی کم ظرف انہیں ڈانٹ دے جھڑک دے دروازہ سے باہر کردے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا دنیا والوں پہ عذاب نہ آئے گا؟ یقیناً ایسا ہونا قہر خداوندی کو دعوت دیناہے۔
میں نے کہا ان شاء اللہ آپکی بیٹی کی شادی متعینہ تاریخ پہ ہی ہوگی۔ پھر میں نے انہیں تسلی دی اور کچھ مخصوص رہنمائی بھی کی۔ بیشک اللہ تعالیٰ جو کار ساز و مالک ہے اپنے حبیب پاک ﷺ کے صدقے حافظ صاحب کے مسائل کو حل فرما دیااور شادی بھی ہو گئی۔
ایک عالم دین مسنون وضع قطع کے حامل نوجوان میرے پاس تشریف لائے سلام ودعا کے بعد انہوں نے بہت ہی عاجزی کے ساتھ یہ درخواست کی کہ مجھے کہیں نہ کہیں رکھوادیں خواہ تنخواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ میں بہت ضرورت مند ہوں۔ میں نے کہا کہ حضرت مجھے سوال نہیں کرنا چاہئے لیکن معذرت کے ساتھ کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ آخر آپ کے ساتھ کیا پریشانی لاحق ہو گئی ہے؟کہ آپ کم سے کم تنخواہ میں کام کرنے کو تیار ہیں؟ان کے آنکھوں آنسو آگئے اور وہ رو پڑے۔ میں نے کسی عالم دین کو اپنی ضرورت کے لیے روتے ہوئے پہلی مرتبہ دیکھا تھا اس لیے کافی دیر تک خاموشی کے ساتھ ان کو دیکھتا رہا۔ پھر جب وہ کچھ مطمئن ہوئے تو انہوں نے کہا کہ حضرت میں فلاں گاؤں میں امامت کرتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد نرینہ سے نوازا ،خوشی دوبالا ہوئی لیکن کچھ دنوں کے بعد میرے بچے کی طبیعت خراب ہو گئی اور مجھے باربار اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہوتاتھاجس سے میری غیر حاضری ہونے لگی اور رقم کی ضرورت بھی بڑھنے لگی خیر میں پیشگی تنخوہ اور کچھ لوگوں سے قرض لے کر بچے کا علاج کراتا رہا۔ لیکن گاؤں والے میری غیرحاضری سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے میری چھٹی کر دی۔اب میں مقروض بھی ہوں،بے روزگار بھی ہوں اور میرا بیٹا بیمار بھی ہے۔اسے علاج کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مسائل کو حل فرمادیا بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتابھی ہے اور نوازتا بھی ہے۔
پڑھنے کے بعد مدرسہ ومسجدسے ۳۵سال سے منسلک ہوں اس درمیان اس طرح کے بہت سارے واقعات پیش آئے لیکن ان میں سے ماضی قریب کے یہ دو واقعہ جسکو میں نے پیش کیا ہے علمائے کرام کی زبوں حالی کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں حالانکہ واقعات اور بھی ہیں۔
بہت سارے لوگ اس طرح کے وقعات بیان کرتے ہیں اور میں نے بھی دو واقعہ بیان کر دیاہے۔واٹس اپ،فیس بک، اخبار ات وغیرہ میں علمائے کرام و ائمہء مساجد کے بارے میں افسوس کے جملے ادا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اور کچھ خانقاہ یہ ا علان کررہے ہیں کہ علماء و ائمہ اس وقت بہت زیا دہ محتاج ہیں ان کی مدد کرنی چاہئے یعنی انہیں بھیک یا خیرات دینی چاہیے۔ پتہ نہیں لوگوں نے ان کی اپیل پہ عمل کیا یا نہیں۔لیکن ایک بات واضح ہو گئی کہ علماء غریب، مفلوک الحال اورقابل رحم اور زکاة وصدقات کے مستحق ہیں۔ اس معلوما ت کے بعد نہ تو کسی عام آدمی نے نہ کسی عالم نے اور نہ ہی کسی مفتی نے اس کا حل پیش کیا کہ علما ء کی مفلوک الحالی کیسے ختم ہوگی۔علماء وائمہ سے ہمدردی رکھنے والے عالموں سے اور غیر عالموں سے گذارش ہے کہ علماء و ائمہ فارغ البال کیسے ہوں اس کی ترکیب بتائی جائے۔ وہ خیرات لینے والے نہ رہیں بلکہ ان کی عالمانہ شان کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ دینے والے ہوں اور یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ کیا ایسا ہوبھی سکتاہے؟ ان شا ء اللہ ایسا ہوگا، لیکن کیسے؟خیرات دینے سے یا غریب علماء کانفرنس کرنے سے؟ یا علماء کی تنظیم بنانے سے؟ یا احتجاجی مظاہرہ کرنے سے؟ کیا ان سب کے علاوہ دین وسنت میں کوئی ایسی ترکیب ہے جس پہ عمل کرکے علماء باوقار ہوں؟ ان سوالوں کے جواب عنایت کریں کرم ہوگا۔
قارئین کے جواب کا انتظار رہے گا تاکہ کوئی ٹھوس پالیسی بنائی جاسکے۔
زبوں حالی کے اسباب
وجہ اول:
قیام مدارس اسلامیہ کے مقاصد کی غلط تعبیرو تعین۔ کہ فارغین مدارس اسلامیہ صرف امام،مؤذن و مکتب کے معلم ہی بنیں گے۔ انہیں بس انہیں کاموں کے لیے تیار کیا جائے گا، کیوں کہ ان کی تعلیم پہ زکوٰۃ،خیرات،صدقات کی رقم خرچ کی جاتی ہے …انہیں شرطوں کے ساتھ ہی زکوٰۃ وصدقات جو ان کے لیے حرام تھیں حلال کی گئیں ہیں کہ مدرسہ میں پڑھ کر یہ لوگ امامت کریں گے اور قرآن وحدیث کی تعلیم دیں گے۔ ان کے علاوہ اگرانہیں کوئی اور تعلیم وہنر دیا گیا تو حیلۂ شرعیہ کی جو علت ہے وہ فوت ہوجائے گی۔
گویا اے عالمو،حافظو،قاریو، مفتیو،اور خطیبو! تم زکوٰۃ، فطرات کھا کر پڑھے ہو جو عام لوگوں کے لیے حرام تھی،تم نے اپنے لیے اس کو اسی لیے حلال کیا ہے کہ تم صرف یہی کا م کروگے۔اور یہ کہہ کر علمائے کرام کو روز اول سے ہی احساس کمتری کا شکار بنایا جاتا ہے۔
وجہ دوم:
تمام مدارس اسلامیہ میں داخلہ شوال میں ہو تا ہے اورتکمیل تعلیم کی سند شعبان میں دے کر رخصت کیاجاتاہے۔تعلیم کا دورانیہ دس سا ل کا ہو یا بارہ سال کا، اول دن سے ہی ناظم اعلیٰ ہوں یا مہتمم، صدرالمدرسین ہوں یا عام مدرسین، بچوں کی تعلیم کی ابتداکچھ اس طرح کرتے ہیں۔
مثلاً
(الف) ناظم اعلیٰ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں ”بچے آپ تمام لوگ پابندی سے نماز با جماعت ادا کیا کریں مدرسہ کے صدر صاحب کا گھر قریب ہی ہے وہ آپ کودیکھ رہے ہوتے ہیں۔ خبر دار اگر آپ نماز میں کوتا ہی کریں گے تو صدر صاحب ناراض ہوں گے-اس لیے ان کی ناراضگی سے بچنے کے لیے نمازوں کی پابندی ضروری ہے“۔
(ب) صدرالمدرسین بچوں کوموقع بموقع سمجھاتے رہتے ہیں۔ بچے آپ بڑوں کا ادب کریں راستہ میں جو ملے انہیں سلام کریں ایسا نہ ہو کہ آپ انہیں سلام نہ کریں اور نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائیں کہ اس سے محلے کے لوگ ناراض ہوں گے پھر اگر وہ چندہ دینا بند کردیں گے تو مدرسہ کیسے چلے گا ؟ اس لئے آپ لو گ سلام ضرور کیا کریں۔
(ج) دیگر اساتذہ کچھ اس طرح بچوں کے دل ودماغ پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔کہ بچو! مدرسہ کے عہدیداران اور اراکین واساتذہ کی خوب عزت کریں، ان سے ڈریں، وہ تمہارے لیے بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں۔اگر وہ کچھ بولیں، ڈانٹیں اگرچہ زیادتی ہی کیوں نہ ہو،ان سے منہ نہ لگانا ورنہ خارجہ کردیا جائے گا۔اس لئے کہ وہی لوگ مدرسہ چلاتے ہیں، ہماری تنخواہ اور کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کو تھوڑا برداشت کرنا ہی ہوگا۔خبردار! اگر وہ ناراض ہوگئے تو تمہارا یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔اور اگر وہ خوش ہوئے تو وہ بہت نوازیں گے۔
میں یہ کوئی فرضی کہانی پیش نہیں کر رہا ہوں بلکہ دوران طالب علمی میں نے یہ سب کچھ دیکھا ہے اور ابھی بھی دیکھتا ہوں، اورمیں نے پہلے بھی سنا ہے اور اب بھی سنتا ہوں۔
شروع سے اخیر تک بچوں کو صدر صاحب،سکریٹری صاحب، اراکین، عوام سے ڈرایا جاتا ہے اور انہی لوگوں کو خوش کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسی کو دین کی خدمت کہتے ہیں۔اور اس طرح غیر محسوس طور پر علماء کرام کو شروع ہی سے مرعوب ومغلوب بنایا جاتا ہے۔نتیجتاً انکے دلوں میں عوام کا خوف اور اسباب سے محبت،اللہ کے خوف اور رسول کی محبت سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
مثال اول:- ایک مرتبہ مجھ سے ایک صاحب نےکہا کہ ہمارے گاؤں میں فلاں مولانا صاحب امام ہیں جب وہ ہمارے یہاں ہوتے ہیں تو نماز بھی پڑھاتے ہیں اور لوگوں کو نماز کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ لیکن جب وہ گھر جاتے ہیں تووضع قطع کے ساتھ نمازیں بھی چھوڑتے ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ یہاں عوام کے ڈر سے نماز پڑھتے ہیں اور پڑھاتے ہیں انہیں دوران تعلیم عوام سے ہی ڈرناسکھایا گیا ہے اور عوام کو خوش رکھنے کا طریقہ ہی بتایا گیا ہے۔تو انہوں نے جو سیکھا ہے اسی پہ وہ عمل پیرا ہیں۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟۔
و ہ پڑھ رہے تھے تو عوام کو خوش کرنے کے لئے اورآج وہ پڑھا رہے ہیں تو عوام کو خوش کرنے کے لئے۔نہ کل للہیت تھی نہ آج للہیت ہے۔الا ماشاء اللہ!
مثال دوم:- ہمیں دس بارہ سال تک خوشامد پرستی سکھائی جاتی ہے نتیجتاًہم خوشامد پرست ہو جاتے ہیں، اور ہمیں بھی خوشامد پرستی ہی اچھی لگتی ہے۔ ہم سوال کرنے سے ڈرتے ہیں اور ہم سے کوئی سوال کرتا ہے تو ہم اسے ڈراتے ہیں۔کل مدرسہ سے خارجہ کا ڈر تھا اور آج بزرگوں کا بے ادب کہہ کر سماج، معاشرہ، واٹس اپ،اور اسلام سے بھی خارجہ کر دیا جاتا ہے یاخارج کردئیے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔
وجہ سوم:- ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مدارس اسلامیہ کے فارغین کو دوران تعلیم دس بارہ سال تک تسلسل کے ساتھ ان کے ذہن و فکر پہ ایک لکیر کھینچ دی جاتی ہے اور مسلسل کہا جاتا ہے کہ جتنی بحثیں کرنی ہو،سوال کرنا ہو اس دائرہ کے اندر رہ کر ہی کرنا ہے۔ اور اگر کوئی طالب علم جرأت و ہمت کرکے کچھ سوال کر بھی دیا تو اس کو مطمئن کرنے کے بجائے اس سے کہا جاتا ہے کہ تم فلاں امام سے زیادہ جانتے ہو؟ انہو ں نے جو کہا ہے وہی صحیح ہے اور تمہارے ذہن میں جو بات آئی ہے وہ غلط ہے۔ اب اگر اس نے پھر سوال کردیا کہ کیوں غلط ہے؟ تو اسے ڈانٹ دیا جاتاہے اور خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اس کے باوجود اگر وہ خاموش نہ ہوا تو بزرگوں کا بے ادب کہہ کر خارجہ کر دیا جاتا ہے۔ اور اسکے خارجہ کو بطور عبرت تمام لڑکوں میں تشہیر کی جاتی ہے کہ سوال کروگے تو یہی انجام ہوگا۔خیر چاہتے ہو تو مغلوب الذہن بن کر علم حاصل کرو۔
الغرض قدامت پرستی واکابر پرستی کی ایک دیوار ہے جس سے باہر جانے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔
پوری دنیا میں صرف ایک کتاب ہے جسے حرف آخر کی حیثت حاصل ہے وہ قرآن مقدس ہے۔ اس کے بعد ہزاراوں ہزار کتابیں جو صحیح ہیں ان میں سے بعض اصح کتب بعد کتاب اللہ کے د رجے کے ہیں۔ جیسے بخاری شریف وغیرہ لیکن خطاکا امکان اس میں بھی موجود ہے۔
ایسے ہی انبیاء ومرسلین معصوم ہیں انکے علاوہ حرف آخر کوئی نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ذہن وفکر پہ یہ کہہ کر تالا لگادیاجاتا ہے کہ ہمارے اکابرین کے اقوال حرف آخر ہیں، ان میں قیل و قال کرنا گمراہیت ہے۔ یہ فکر ی انجماد ہمیں لکیر کا فقیر بنا کر رکھا ہے۔ اور ہمیں نئی منزل اور نئی جہت میں جاکر دین کے ساتھ دنیا کی خوش حالی حاصل کرنے سے روکتا ہے۔
جبکہ اسلام دین فطرت ہے اور اس میں ہر سوال کا جواب موجود ہے ہر مسئلہ کا حل موجود ہے۔ اسلام کبھی کسی کے ذہن وفکر پہ پہرہ نہیں بیٹھاتا بلکہ اسلام تو آزادی فکر و رائے کا حمایتی ہے۔ ہاں سلیقہ مندی ضروری ہے، تہذیب وشائستگی لازمی ہے۔
گویا خوداری اور خودی کو ختم کرکے علمائے کرام کو نفس کشی کے نام پرتدریجاًگداگری سکھائی جاتی ہے اور اس کے نتیجے ہمارے سامنے ہیں۔
وجہ چہارم:- علماء وحفاظ کی جماعت یہ مظلوموں کی جماعت ہے۔وہ اس طرح کہ پڑھنے کے وقت ان پہ جو رقم صرف کی گئی وہ اس کے مستحق نہیں تھے بلکہ انکے لیے حرام تھی، لیکن مجبوراًانہیں عالم وحافظ بنانے کے لیے حلال کی گئی ہے۔ یعنی حرام کو حلال کہہ کر ان کو کھلایا گیااور ان پراحسان بھی جتایا گیا کہ آپ حضرات کی تعلیم ہماری زکوٰۃ وفطرہ کی رقم سے ہوئی ہے۔پھر جب یہ تعلیم یافتہ ہوگئے یعنی عالم،حافظ،مفتی بن گئے تو انہیں روز گار کے طور پر وہ کام دیا گیا جس کی اجرت لینی جائز نہیں تھی لیکن انکی مجبوری کو دیکھ کر انکے لیے حلال کیا گیا۔
امامت کرنا،آذان دینا،دین کی دعوت دینا، قرآن وحدیث کی تعلیم دیناوغیرہ۔یہ وہ عظیم کام ہیں جس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ دنیاوالوں سے اس کی اجرت لینا حرام و ناجائز تھی۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لیکرحضور اکر ﷺ تک جتنے انبیاء ومرسلین تشریف لائے کسی نے بھی دین کی تبلیغ واشاعت کے بدلے میں امت سے اجرت قبول نہیں کی۔
خلفائے راشدین،صحابہء کرام، تابعین،تبع تابعین، ائمۂ مجتہدین وغیرہم رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی دینی تبلیغ واشاعت اور امامت وخطابت کی اجرت قبول نہیں کی ہے۔
کیوں؟
اس لئے کہ یہ اتنا اہم کام ہے کہ اس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ دنیا کا کوئی شخص اس کی اجرت یا قیمت دے ہی نہیں سکتا تو پھر اس کالینا کیونکر جائز ہو گا؟۔
لیکن ہم علماء کرام اور حفاظان عظام کو بلی کا بکرا بنایا گیا اور ہم ہی لوگوں نے یہ فتویٰ دیا کہ اب لوگوں میں للہیت باقی نہیں رہی،اس لئے امامت و خطابت کی اجرت لینا جائز ہے۔اور ہم اجرت لیکر امامت بھی کرتے ہیں،خطابت بھی کرتے ہیں اور دینی تعلیم بھی دیتے ہیں۔
اس کو آپ اس طرح سمجھیں کہ پڑھنے کے وقت جو جائز نہیں تھاوہ جائز بنا کر ہم کو پڑھایا گیا اور جب پڑھ چکے توہمیں ایسا روزگار دیا گیا جو جائز نہیں تھا لیکن ہما رے لیے جائزکیا گیا۔ اور اب جن لوگوں نے مذکورہ دونوں صورتوں میں جواز کا فتویٰ دیا ہے اگر ان کا فتویٰ امکان خطا کے طور پر غلط ہو گیا تو ہم علمائے کرام و حفاظان عظام کی پوری زندگی گویاکہ حرام وناجائز کاموں میں گزری ہیں۔ العیاذ باللہ۔
ذبوں حالی کے اسباب تو اور بھی ہیں، لیکن میں اسی پہ اکتفا کرتا ہوں۔
زبوں حالی کا تدارک
علماء کی زبوں حالی کے تدارک کی چار صورتیں پیش کرتا ہوں جو میرے فکر و خیال میں بہتر ہے تا ہم خطا کا امکان موجود ہے۔
اول:- قیام مدارس اسلامیہ کے مقاصد کی صحیح تعبیر وتشریح۔
(۱) مدارس اسلامیہ دینی تعلیم کے لیے قائم کیے گئے ہیں اور دینی تعلیم سے مراد صرف نماز،روزہ،حج اور زکوٰۃ کی تعلیم نہیں ہے۔ بلکہ اس میں ہروہ علم شامل ہے جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچتی ہے۔ ہاں اس کے ہر رکن و طریقہ اورذریعہ میں شریعت کی پاسداری لازمی ہے۔ یعنی مدارس اسلامیہ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل شرعیہ کی بھی تعلیم دی جائے اور معاشی خوشحالی اور صحت مند زندگی کے لیے وہ علوم وفنو ن بھی قرآن وحدیث کے حوالے سے سکھائے جائیں جواس کے لیے ضروری ہوں۔اس کی مثال اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات پاک ہے کہ انہوں نے عقائد اور نمازوغیرہ کے ساتھ طب، حکمت،اور دوسرے سائنسی واقتصادی اور معاشراتی علوم فنون بھی حاصل کیے۔ ان میں مہارت تامہ کے ساتھ کتابیں بھی تصنیف کی۔کیا ہمارے لیے ان کی زندگی نمونۂ عمل نہیں ہے؟ اگر ہے تو ہمیں بھی اپنے مدارس میں بچوں کو حسب لیاقت ان علوم و فنون سے آراستہ کرنا چاہیے جن کو حاصل کرنے کے بعد مدرسے کے فارغین صرف امامت و خطابت اور مکتب میں پڑھانے کو مجبور نہ ہوں۔
(۲) مکتب، مدرسہ،دارالعلوم اور جامعہ یہ جوچار درجے ہیں ان کے نام کے ساتھ اس کی حیثیت کا تعین کیا جائے۔ اب جن اداروں کی جو حیثیت ہو اسی اعتبار سے اس ادارے کا نام رکھا جائے اور اس میں معیاری تعلیم کا انتظام ہو۔اکثر لوگ مکتب کو جامعہ لکھتے ہیں جو اہل خرد کے نزدیک وجہ تضحیک ہے۔
(۳) علم کی تقسیم دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کے نام سے نہ کیا جائے بلکہ مفید علم اور مضر علم کے اعتبار سے کیا جائے۔ جو علم مفید ہے وہ دینی تعلیم میں شامل ہے۔ اور جو علم مضر ہے یعنی جس علم سے انسانیت ومعاشرہ اور دین کو نقصان پہونچتاہو اس کو سیکھناسکھانا دونوں ناجائز و ممنوع ہے۔
(۴) اسکے بعد ان شاء اللہ فارغین مدارس اسلامیہ معاشیات کے لیے مسجد ومدرسہ کے محتاج نہیں رہیں گے اور مدرسہ ومسجد کے لیے بھی اچھے اور قابل امام ومعلم دستیاب ہوں گے اور علماء و ائمہ کی قدر ومنزلت میں اضافہ بھی ہوگاان شاء اللہ تعالیٰ۔
دوم:- طریقۂ تعلیم وتربیت کی اصلاح۔
پوری دنیا میں جہاں بھی تعلیم گاہ ہے خواہ وہ ملک کوئی بھی ہو، وہاں کا معاشرہ جیسا بھی ہو، مذہب،تہذیب وتمدن بھی الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن ایک چیز ہر اچھی تعلیم گاہ کے لیے مشترک ہے وہ یہ کہ وہاں تعلیم حاصل کر رہے بچوں میں تین طرح کی خوبیاں پیدا کی جاتی ہیں۔اب جن اداروں میں ان تین طرح کی خوبیاں پیدا کرنے کی صلاحیت جتنی زیادہوتی ہیں وہ ادارہ اتناہی زیادہ اچھا کہلاتا ہے اور الحمد للہ وہ تینوں خوبیاں قرآن وحدیث سے منصوص ہیں۔
پہلی خوبی:- اعتماد،بھروسہ،یقین۔
طالب علم جو علم حاصل کر رہا ہے اس پر اس کو مکمل اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ علم سب سے بہتر علم ہے۔یہ علم اسکے روشن مستقبل کا ضامن ہے،یہ علم اسے باوقار زندگی جینے کا سلیقہ عطا کرے گا۔اس علم کے ذریعہ ہم وہ راستہ طئے کریں گے جن راستوں پہ چلنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے،جن پراللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں،جن راستوں کی نشاندہی آقا کریم ﷺ نے کی ہے، اس علم کے ذریعہ طالب علم میں خود اعتمادی پیدا ہو، وہ مطمئن ہو کر حصول علم میں مشغول رہے اور ہر دن اسکا اعتماد بڑھتا جائے۔ اساتذہ کی خوشگوار اورپروقار زندگی بچوں کے لیے نقش راہ ہو،نمونہ ہو،اساتذہ کی عزت ووقار دیکھ کر بچوں کو رشک آئے،اساتذہ ایسے قابل،پر اعتماد،خوددار،عزم وحوصلہ سے بھر پور،ماں باپ کی طرح مشفق و مہر بان ہوں،اور اساتذہ و بچوں کے درمیان ایسا پاکیزہ رشتہ ہو کہ جس رشتے کو باپ اور بیٹی کے پاکیزہ رشتہ سے تشبیہ دی جا سکے، اوران کی صحبت وخدمت کو بچے اپنے لیے بہت بڑی نعمت تصور کریں۔ ادارہ میں ایسا پاکیزہ ماحول ہو کہ ہر لمحہ بچوں میں پاکیزہ اعتماد کا اضافہ ہو۔
الغرض تعلیم کا مقصد یہ ہو کہ طالب علم کو اللہ تعالیٰ کی رزاقیت اور اس کی رحمت و مغفرت پہ کامل اعتمادہو، تعلیم کے ذریعہ جو اس میں صلاحیت پیدا ہورہی ہے اس صلاحیت پہ اس کو کامل اعتماد ہو کہ وہ صلاحیت ہمیں دنیا وآخرت میں کبھی بھی ذلیل نہیں ہونے دے گی، بلکہ اس خوبی سے ہمیں دنیا میں بھی عزت ووقار نصیب ہو گی اورآخرت کی کامیابی بھی حاصل ہوگی۔یقینی طور پر وہ مدارس اسلامیہ جو اپنے بچوں میں اس طرح کے اعتماد پیدا کر پارہے ہیں وہ قابل مبارکباد ہیں۔
دوسری خوبی:- ایجاد،اختراع اور نئے رنگ وآہنگ کی تلاش۔
کسی بھی کامیاب تعلیمی ادارے کی یہ روح کی حیثیت ہے کہ وہاں زیر تعلیم بچوں میں کچھ نیا کرنے کاجذبہ، نئی فکر، نئے میدان عمل کی تلاش،انسانیت کی عروج و ارتقاء کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کرنا، افہام وتفہیم،تبلیغ و اشاعت اورتحقیق و تفتیش کے نئے ذرائع وطریقے کا ایجاد کرنا یا استعمال کرنے کا ہنر سیکھنا،جدت طرازی وجدت پسندی کاخوگر بننااور اسکو فروغ دینا،یہ سب اور اس طرح کی دیگر خوبیوں کا پایا جانا ایک کامیاب طالب علم کا خاصہ اور ایک کامیاب تعلیمی ادارے کا حصہ ہے۔
جبکہ اکثر مدارس اسلامیہ کا حال اقبال کے اس شعر میں ہے۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
یہ مرحلے کٹھن ہیں قوموں کی زندگی میں
الا ما شا ء اللہ۔
بہت سے دینی ادارے ہیں جہاں نئے ر نگ و آہنگ کے ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور طلباء کو نئے چیلنجیز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے،ایسے اداروں کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔نیچے سے لیکر اوپر تک تمام مدارس اسلامیہ میں شروع ہی سے بچوں میں حوصلہ مندی، نیا جوش و جذبہ اورمحنت ولگن کے ساتھ نئی بلندیوں تک رسائی کا عزم واستقلال پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دینی ادارے میں زیر تعلیم بچے بھی احساس کمتری سے باہر نکل کر باوقار زندگی کا شعورحاصل کرسکیں اور زندگی کی حقیقت کو سمجھیں اور حالات کے سامنے زیر نہ ہوں بلکہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
اگر دینی اداروں میں اس طرح کا ماحول اور سازگار فضا نہیں بنائی گئی تو دن بدن مدرسے بھی کمزور ہوں گے اور انکے فارغین بھی۔ دیکھا اور محسوس یہ کیا جا رہا ہے کہ مدرسوں میں پڑھنے کے لیے بچے دستیاب نہیں ہیں۔میں نے اس طرح کابھی اشتہار دیکھاہے کہ معلم کو اتنی اتنی تنخواہ دی جائے گیلیکن شرط یہ ہے کہ کم ازکم دس بچوں کو مدرسہ میں پڑھنے کے لیے لےکر آئیں۔
ضرورت ہے کہ دینی اداروں میں بھی بچوں کو ایسی کھلی فضا فراہم کی جائے جہاں وہ آزادی کے ساتھ سوچ سکیں،سوال کر سکیں، آزادی کے ساتھ لکھ سکیں اور بول سکیں۔ذہنی بالیدگی اور شعور وآگہی کے عروج و ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ آزادانہ ماحول میں دین وسنت پہ عمل کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کاخوف،رسول اللہ ﷺ کی محبت، قرآن و سنت سے تمسک کا بچوں کے درمیان عملی مظاہرہ کیا جائے۔ پھر بچوں سے اساتذہ ومنتظمین کے نقش قدم پہ چلنے کی تلقین کی جائے۔ساتھ ہی تصوف کا رنگ،خدمت خلق کا جذبہ پیدا کیا جائے۔اکثر ہوتایہ ہے کہ اساتذہ ومنتظمین خود کو اصول و ضوابط سے ماوراء تصور کرتے ہیں اور بچوں کو سختی کے ساتھ اصول و ضوابط کا پابند بنانا چاہتے ہیں اور یہی قول وفعل کا تضادبچوں کی زندگی میں منفی اثر ڈالتا ہے۔
مقصود ہے اس بزم میں اصلاح مفاصد
نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا
تیسری خوبی:- کردار سازی
کسی بھی تعلیمی ادارے کی اہمیت وشہرت اور اس کی ناموری اس بنیاد پہ ہوتی ہے کہ وہاں زیر تعلیم طلباء کے کردارو عمل کتنے اچھے ہیں۔ قابل اعتماد، بھروسے مند اور تہذیب واخلاق سے کس قدر آراستہ وپیراستہ ہیں۔ مدارس اسلامیہ میں کردار سازی کاعمل ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں اور یہ اس کا خاصہ بھی ہے۔لیکن موجودہ دور میں حالات نے کچھ ایسے کروٹ بدلے ہیں کہ کردار سازی کا عمل کچھ رک سا گیا ہے اور کچھ بدلا بھی ہے۔آج اکثردینی ادارے دین کیلئے کردار سازی کم کرتے ہیں، مشرب ومسلک کے لیے زیادہ ذہن سازی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے دین وسنت کی روح جو اصل ہے وہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ضرورت ہے کہ کردار سازی کاعمل پھر سے صحابۂ کرام و سلف صا لحین کے نقش قدم پہ چل کر اور قرآن وسنت کے مطابق کی جائے۔ فارغین ادارہ مومن کامل بن کر نکلیں اور انکے کردار وگفتار میں مومنانہ شان اور عالمانہ وقار وعظمت نظر آئے۔انہیں دیکھ کر اور سن کر اللہ یاد آئے،رسول اللہﷺ کی محبت و عقیدت میں اضافہ ہو،سلف صالحین وبزرگان دین کی محبت واطاعت کا جذبہ پیدا ہو،حسن کردار،حسن گفتار اور حسن عمل کا نمونہ نظر آئے ۔
سوم: دس بارہ سال کی طویل زندگی مدرسہ میں گزارنے کے بعد بھی طالب علم اگر صوم و صلاۃ کا پابند نہ بن سکا، نفاست وپاکیزگی کا خوگر نہ بنا،صبر و تحمل اور حلم وبرد باری کا پیکر نہ بنا، تو میں سمجھتا ہوں کہ دس بارہ سال اس کے برباد ہوگئے۔ مدرسے کی تعلیم کے بعد دین ودنیا کی کامیابی سے اس کو نزدیک ہونے کے بجائے وہ دور ہو گئے تو یہ قابل افسوس ہے۔کردار سازی:
دینی اداروں میں کردرا سازی کے لیے قرآن وسنت کے حوالے سے تین طرح کے اصول و ضوابط نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ان ضوابط پر روشنی ڈالنے سے پہلے میں تمثیلاً ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔
ایک آفس کے سامنے ایک شخص نے جیب سے چشمہ نکالا اور پہن کر اپنی آفس میں داخل ہوا،انجانے میں چشمے کے ساتھ اس کا بٹوا بھی نکل کر زمین پہ آگرا،وہ شخص آفس کے کاموں میں مشغول ہوگیا اور کافی دیر تک وہ بٹوا یوں ہی زمین پہ پڑارہا، لیکن کسی نے بھی اس کی جانب توجہ نہیں دی۔ کچھ دیر بعد جب وہ شخص باہر نکلا تو اس نے اپنا بٹوا اٹھایا اور چلا گیا۔ میں نے جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ آفس کے چاروں جانب اندر باہر سی سی کیمرے لگے ہوئے ہیں اور یہ سبھی کو معلوم بھی ہے کہ جب بھی کسی نے کسی کا گرا ہوا سامان اٹھایا وہ پکڑا گیا۔ اس لیے اس پور ے کیمپس میں کسی بھی طرح کا کرپشن نہیں ہوتا، یہاں آنے جانے والے لوگ سبھی اچھے اور ایمان دار ہیں۔ بیشک سب اچھے اور ایماندار ہوں گے۔ لیکن انہیں اچھا اور ایماندار بنانے میں سی سی ٹی وی کیمرے کابھی بہت بڑاتعاون ہے۔
زنا جسکی سزا سو کوڑے سے لیکر موت تک کی ہے اس سے روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لاتقربو الزنا۔ زنا کے قریب مت جاؤ۔ زنا کرنا تو بہت ہی سنگین جرم ہے خبردار ایسے ماحول میں بھی نہ جاؤجہاں زنا ہونے کا امکا ن ہو۔ یعنی تدبیر و حکمت اور اسباب و وسائل کو بھی قدر استطاعت استعمال کرنا چاہیے تاکہ اصول و ضوابط میں پاسداری قائم رہے۔
(۱) مدارس اسلامیہ میں بھی با لکل شفافیت ہونی چاہئے۔ ایسا ماحول اور انتظام ہونا چاہیے کہ جہاں جرم کرنا محال ہو جائے۔اس کے لیے دیگر وسائل کے ساتھ پہریدا ر اور سیسی کیمرے لگائے جائیں۔ ساتھ ہی تمام بچوں کے ذہن وفکر میں یہ بات راسخ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے، کراماً کاتبین ہمارے اعمال کو لکھ رہے ہیں،ہمیں قیامت میں اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے،ہمارا کوئی عمل رب قدیر کی گرفت سے باہر نہیں۔
(۲) جس طرح سے سالانہ امتحان میں اچھی کار کردگی پہ انعام دیا جاتا ہے اسی طرح اچھے اخلاق وکردار کا مظاہرہ کرنے والے بچوں کو بھی انعام واکرام سے نوازاجانا چاہیے۔ اور اس کے لیے ایک غیر جانب دار نظام ہو۔ اس لیے کہ اس میں اگر تھوڑی سی بھی جانب داری کی گئی تو سارا انعام واکرام بیکار چلاجائے گا۔ کیوں کہ ایمانداری کی پرکھ با لکل ایمانداری سے ہونی چاہیے۔
(۳) ان سب تدابیر کے باوجود بھی اگر کسی طالب علم سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے ایک متعینہ اصول وضوابط کے تحت ہی کوئی سزا دینی چاہیے اور اس میں بھی ادارہ واساتذہ کو بالکل غیر جانب داری کا مظاہر ہ کرنے کی ضروت ہے۔
ان شاء اللہ العزیز اگر مذکورہ بالا نکات پہ توجہ دی گئی تو علمائے کرام کی زبوں حالی بھی ختم ہو گی اور ائمۂ مساجد، خطبائے کرام ونعت خوان رسو ل اکرم ﷺ کی عزت وقار میں اضافہ بھی ہو گا۔
(۴) دینی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے دل ودماغ میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ تم زکوٰۃ،صدقات کھا کر تعلیم حاصل کرتے ہو۔جو تمہارے لئے جائز نہیں تھا حیلۂ شرعی کے بعد جائز کیا گیا۔ لہٰذا علت حیلۂ شرعیہ کی رعایت ہر حال میں کرنی ہو گی۔
پوری زندگی علمائے کرام اس احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں کہ ذریعۂ تعلیم بوجہ مجبوری ہمارے لیے جائز تھا۔اور کبھی معاشرہ بھی اس کا طعنہ دیتا ہے۔
حیلۂ شرعی کے موجودہ طریقۂ کار:
ابھی دینی اداروں کو فقراء ومساکین کے ماتحت رکھ کر کسی غریب ومسکین شخص یا کسی غریب ومسکین طالب علم کے ذریعہ اموال زکات و صدقات کاحیلۂ شرعی کرتے ہیں اور پھر مدارس اسلامیہ میں اس کو استعمال کرتے ہیں۔ یہی کام وہ دینی تنظیمیں بھی کرتی ہیں جو خود کو پاسبان ملت شمار کرتی ہیں۔
ممکنہ بہتر طریقے کی ضرورت:
میں اس سلسلے میں جسارت وجرأت کے ساتھ، نیز معذرت وتوبہ اور روجوع کے ساتھ ایک معروضہ پیش کرتا ہوں۔ اس سلسلے میں علمائے کرام سے استصواب رائے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی گزارش بھی کرتا ہوں۔
معروضات و نمونے:
مصارف زکوٰۃ و صدقات واجبہ کا ایک مصرف فی سبیل اللہ بھی ہے۔
(١) مجاہدین اسلام جو جہاد میں جاتے ہیں ان کے بارے میں آقا کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنے گھروں سے جہاد کے لیے نکلتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے۔علمائے کرام نے اس حدیث کو سامنے رکھ کر فتویٰ دیا کہ مجاہد بھی مصارف زکوٰۃ میں شامل ہے۔ کہ وہ اللہ کے راستے میں ہے۔
(٢) آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حج بیت اللہ کے لیے گھر سے نکلا وہ اللہ کے راستے میں ہے۔ لہٰذا حاجی بھی فی سبیل اللہ کے ضمن میں مصارف زکوٰۃمیں شامل ہے۔
(٣) رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔من خرج فی طلب العلم فھو فی سبیل اللہ۔ یعنی جو علم حاصل کرنے کے لیے نکلا وہ اللہ کے راستے میں ہے۔
مجاہد وحاجی کی طرح طالب علم کو فی سبیل اللہ میں کیوں شمار نہیں کیا جا سکتا؟ ہا ں میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں اور آپ جیسے عام مسلمان یہ کام نہیں کر سکتے بلکہ فقہائے اسلام ومفتیان عظام ہی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہ انہیں کے دائرۂ اختیار میں ہے۔جو کبھی خود مدرسہ کے طالب علم بھی رہے ہیں!۔۔۔ الا ماشاء اللہ!۔۔۔
اگر طالب علم بھی فی سبیل ا للہ میں شمار ہو جا ئے تو پھر حیلۂ شرعیہ کے بعد حلال ہونے کا مسئلہ ختم ہو جائےگا۔ اور طالب علم بھی مجاہد فی سبیل للہ اور عازم حج بیت اللہ کی طرح ایک منفرد عزت وحشمت کا حامل ہوگا۔
فوائد:
طلبۂ مدارس کی ایک عزت وقار ہوگی،اور پھر علماء کرام و مفتیان عظام و فقہائے اسلا م کو نظر حقارت سے دیکھنے کی کسی کوہمت نہیں ہوگی۔ فراغت کے بعد رقوم مرحومہ کے نام پر یہ دوکام جو ہما رے لیے عام طور پر مختص کیے جاتے ہیں یعنی امامت کرنا اور قرآن پڑھانا اور اصلا جس کی دنیاوی اجرت لینا جائز نہیں ہے۔اور فی زماننا وہ ہمارے لیے بوجہ مجبوری جائزکر کے ہمیں دیا جاجاتاہے اور ہم سے نوکروں جیسا سلوک کرکے ہم سے وہ کام بھی کروایا جاتا ہے جو امام وقت اور دینی معلم کے شان کے خلاف ہے۔اور اس روشن خیالوں کا طعنہ مستزاد، اس کا مداوا کسیقدرممکن ہو سکے گا۔
اس سلسلے میں میرا ناقص مشورہ ہے کہ ہر مسجد کے ساتھ ایک فلاحی ادارہ قائم ہو اور علماء و حفاظ کو اس فلاحی ادارے میں بطور فل ٹائم ملازم تقرر کیا جائے اور انہیں امامت و دعوت کا فی سبیل اللہ کام بطور عظمت دی جائے ،کہ آپ اس فلاحی ادارے کے سربراہ ہیں، اس لیے یہ آپ کی ہی شان وعظمت ہے کہ عوام آپ کی امامت میں نماز اد کریں۔اور دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت اور دعوت و اصلاح آ پ کے ذریعے ہو۔ یہ کام آپ حلقۂ درس میں کریں، تقریرو خطابت سے انجام دیں یا تحریری طور پر کریں، یہ سب آپ کا حسن عمل اور حسن کردار کامظہر ہوگا۔
گاؤں اورقصبات کے وہ لوگ جو سالانہ جلسہ میں پانچ لاکھ خرچ کر سکتے ہیں۔ پانچ لاکھ کے بجٹ سے ایک فلاحی ادارہ ضرور قائم کر سکتے ہیں۔جو ان کے دینی و دنیاوی فلاح کے لیے بہتر ادارہ ہو سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوگا۔ اس کے لیے طویل مدتی پروگرام کے تحت ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر سلیقے سے کوئی کام کیا جائے تو وہ ضرور پورا ہوگا۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ:
گل ادب کو کترتا ہے اب وہی ظالم
جو دیکھنے میں پورا ادیب لگتا ہے