Monday, January 18, 2021

زحمت،رحمت اور فطرت

*زحمت، رحمت اور فطرت*

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس کو مصیبت میں مبتلا فرماتا ہے۔(بخاری: 843 / 2)

اللہ تعالی اپنی شان کے مطابق جو چاہتا ہے کرتا ہے کبھی کسی کو بغیر کسی آزمائش کے ہی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے اور کبھی آزمائشوں کے بعد کامیابیاں عطا فرماتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث پاک میں ہے۔ یقینا آج پوری دنیا کے مسلمان ابتلاء و آزمائش سے دوچار ہیں۔ اب اگر مسلمان ان حالات میں اپنے مصائب و مشکلات اور کٹھنائیوں کو اوسر  کے طور دیکھیں تو ضرور ایک شاندار کامیابی ہماری مقدر ہونے والی ہے۔بیشک ہرسختی کے بعد آسانی ہے.(الشرح:٦) 

اگر کوئی پریشان‌ حال ہے تو اسے آسانی کی امید‌ بھی رکھنی چاہیے.(البقرة:٢٨٠)

میں یہاں اس کی صرف دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔

(1) *جنگ بعاث:-* 

جنگ بعاث ہجرت سے چار یا پانچ سال پہلے یثرب میں اوس و خزرج کے درمیان لڑی جانے والی اس جنگ کا نام ہے جس میں کثیر تعداد میں اوس و خزرج کے جوان اپنے بھائیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ عورتیں بیوہ ہوئیں اور بچے یتیم ہوئے۔ نیز اس آپسی جنگ نے معاشی طور پرانہیں اس قدرکمزور کیا کہ ان میں سے اکثر مفلسی کے شکار ہوگئے۔ اور اس جنگ کے بعد ان میں سے چھ لوگ جب حج کے لیے گئے تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت اس طرح پیش کی کہ "میں لوگوں کو ایک اللہ کے عبادت کی،اور اخلاق حسنہ کے ساتھ اتحاد و بھائی چارگی کی دعوت دیتا ہوں۔ کہ جب کوئی شخص مسلمان ہوتا ہے تو وہ پھر تمام مسلمانوں کا بھائی ہو جاتا ہے اور مسلمان آپس میں مل کر ایک مضبوط دیوار کی طرح ہیں اور ایک جسم کی طرح ہیں کہ تکلیف جسم کے کسی بھی اعضاء میں ہو، اس کا درد پورا جسم محسوس کرتا ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو سن کر ان لوگوں نے فورا اسلام قبول کرلیا۔ کیونکہ جنگ بعاث میں انہیں جو عظیم نقصانات ہوئے تھے اسلام میں انہیں اس کی تلافی نظر آئی۔ جبکہ جنگ بعاث سے پہلے انہی لوگوں کو حج کے موقع پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جب اسلام کی دعوت پیش کی تھی،تو انہوں نے حقارت کے ساتھ اسلام کی دعوت کو ٹھکرا دیا تھا۔ اس لیے کہ اس وقت انہیں اسلام میں اپنی آزادی سلب ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ گویا جنگ بعاث جس میں کافی جانی و مالی نقصانات سے وہ دو چار ہوئے تھے،بعد میں وہی ان کے لیے ایک عظیم کامیابی یعنی حصول ایمان کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد جس نعمت پر اوس وخزرج بہت زیادہ متشکر رہتے تھے وہ نعمت تھی صدیوں پرانی دشمنی کا ختم ہونا۔ اور ایک ترقی پذیر مذہب کا حصہ ہو کر شعور زندگی سے آگاہی اور سماجی وقار کا حاصل کرنا۔

(2) رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم کےوصال کے صرف پچیس سال بعد‌، آنے ولے تقریبا پانچ سالوں‌ میں  (یعنی 18 ذی الحجہ 35ھ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت  کے وقت سے لے کر 19 رمضان 40 ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت تک) لگ بھگ ایک لاکھ مسلمان دوسرے مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ جس میں ہزاروں صحابۂ کرام شامل تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد منہج نبوت پر گامزن خلافت راشدہ کے پچیس سالہ دور میں بشمول صحابۂ کرام کے مسلمانوں کی اکثریت دعوت و تبلیغ اور تحریک و جہاد کی جانب گامزن رہی۔ لیکن اس کے بعد کے پانچ سالوں میں ایک لاکھ مسلمانوں کا مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہونا مسلمانوں میں ایک عظیم انقلاب برپا کر گیا۔ اس مصیبت کے نتیجے میں تعلیم یافتہ صحابۂ کرام میں ایک انقلاب پیدا ہوا اور انھوں نے سیکڑوں حفاظ و محدثین کی شہادت کو بے حد seriously لیا اور دن بدن علماء کے اٹھنے کی وجہ سے علم کے اٹھنے اور مٹنے کے خدشے نے انہیں بے چین کردیا اور انھوں نے علوم اسلامیہ کی تدوین و تحقیق اور تراث اسلامی کی حفاظت پر کمر کس لی۔اس کے لیے ہر طرف علمی و تحقیقی تحریک چلائی۔اس کے لیے مخصوص ادارے اور درسگاہیں قائم کی۔یہ تبدیلی اسلام کے لیے بے حد سود مند ثابت ہوا۔ محدثین و مفسرین اور فقہاء صحابہ کی ایک بہت بڑی جماعت نظام خلافت و حکومت اور سیاست سے الگ ہو کر تعلیم قرآن و تفسیر قرآن، تدوین احادیث اور تفہیم دین کے تعلق سے اپنی اپنی درس گاہیں قائم کیں۔ اور دوسری جانب تصنیف و تالیف اور مسائل کے استخراج و استنباط کا اہم کام شروع ہوا۔ آج دنیا کے پاس جو لاکھوں احادیث کا ذخیرہ، سیرت رسول، سیرت صحابہ اور دینی مسائل پر مشتمل جو بڑی بڑی اور ضخیم کتابیں ہیں یہ انہیں صحابۂ کرام کی مرہون منت ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوتے دیکھ کر جہاد و قتال اور حکومت و سیاست سے منہ موڑ کر اپنی پوری توانائی درس قرآن،درس حدیث اور خالص دینی و علمی کاموں میں صرف کردی۔ گویاجنگ جمل، جنگ صفین اور جنگ نہروان جیسے جنگوں نے مسلمانوں کو وہ علمی سرمایہ فراہم کیا جس کی سخت ضرورت تھی۔ ایسی ہزاروں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ لیکن میں یہاں صرف ان دو مثالوں کے بعد مسلمانوں کو  درپیش مسائل وحالات کے تناظر میں ایک مثبت تجزیہ پیش کرتا ہوں۔

6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے ہی ہمارے ملک میں مسلمانوں کے لیے مشکلات اور پریشانیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے صرف ایک جہت سے نہیں بلکہ ہر چہار جانب سے اور مختلف ذرائع اور طریقوں سے مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کی توانائی کو آپسی تنازعات میں الجھا کر اور آپس میں لڑوا کر ختم کرنے کی سازش کی گئی۔ دوسری جانب انہیں احتجاجی جلسہ و جلوس اور پھر کچھ سطحی وعدوں میں الجھا کر جدید عصری علوم سے دور رکھا گیا۔ گویا ہم اپنی تباہیوں کا علاج وقت اور سرمایہ کی بربادی سے کرتے رہے۔ اور جب ہماری حالات و حیثیت کی زمینی تحقیق سامنے آئی تو معلوم ہوا کہ ہم ہریجن اور آدیواسی سے بھی معاشی اور تعلیمی طور پر بہت پیچھے ہو چکے ہیں۔ جبکہ صرف دو سو سال پہلے تک اسی ملک میں تقریبا آٹھ سو سالہ ہماری حکومت رہی ہے۔ جب ہم زمانے میں معزز تھے تو ہمیں زمانے میں معزز ہی رہنا چاہیے تھا کہ ہم مؤمن ہیں۔ لیکن ہم ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ ہمارے قائدین کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

 مسلمانوں کو نہ خواندہ اور قلاش بنانے کے نئے نئے تجربے ہوتے رہے۔ اور ہم گھر، محلہ، گاؤں سے لے کر ملکی سطح اور پھر بین الاقوامی سطح پر ہر جگہ آپسی اختلافات کےفرسودہ موضوعات پہ مناظرہ،مباحثہ، سیمینار وغیرہ منعقد کرکے مزید منتشر ہوکر تباہ و برباد ہوتے رہے اور مرتے مٹتے رہے۔ یہاں تک کہ 2014ء میں کٹر مسلم مخالف اور جارح تنظیم آر ایس ایس کی حمایت سے بی جے پی کی حکومت قائم ہو گئی۔ جس نے سب سے پہلے ان لوگوں کے ذریعے جنہیں انہوں نے اپنے اسکولوں اور کوچنگوں کے ذریعےاعلی عہدے تک پہنچایا تھا۔ تمام آئینی اداروں کو اپنے شکنجے میں لیا۔اور پھر مسلمانوں پر ظلم و ستم کو جائز ٹھہرانے کے لیے غیر قانونی و غیر انسانی قانون سازی کی تاکہ انتظامیہ اور عدلیہ کو مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کرنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ اس کے بعد احتجاج کرنے والوں اور حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو اس بے دردی کے ساتھ سلاخوں میں ڈالا گیا کہ عالمی برادری بھی چیخ اٹھی۔یہاں تک کہ مسلمانوں پر ظلم و استحصال کی مقابلہ آرائی ہو نے لگی کہ مسلمانوں پر جو زیادہ مظالم ڈھاتے ہیں انہیں اعزازات سے نوازا جانے لگا.

ان حالات پہ غور کرنے کے بعد اس حدیث کو ایک بار پھر سے پڑھیں۔ جس کو میں نے شروع میں بیان کیا ہے۔ کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جس کی بھلائی چاہتا ہے اس کو مصیبت میں مبتلا فرماتاہے۔ ہم بے شمار مصائب میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ تو کیا اب ہمارے لیے کامیابی کے راستے کھلنے والے ہیں؟ اور اللہ تعالی کے فرمان کہ ہر سختی کے بعد آسانی ہے کہ مطابق شان و شوکت اور راحت و آرام کے دن آنے والے ہیں؟۔

 ایک کہاوت ہے کہ عقل مند لوگ مصائب کو بھی کامیابی کے مواقع میں تبدیل کر لیتے ہیں اور ہمیں اللہ اور رسول کے فرمان پر ایمان بھی ہے۔ اور یہ یقین بھی ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ عقل مند مسلمان ہیں۔ اگر ان باتوں میں سچائی ہے تو لازما ہمیں اس عالم اسباب میں مثبت اقدام کے ذریعہ کامیابی حاصل کرنا ہوگا۔ مصیبت سے فائدہ اٹھانے کی تین مثالیں پیش کرتا ہوں۔

 *(1) تین طلاق بل:-*

 اس بل کے قانون بن جانے کے بعد مسلمانان ہند نے دوطرح کی تحریکیں شروع کیں:

▪️ کچھ لوگوں نےجلسہ، جلوس، اشتہارات و اخبارات اور شوشل میڈیا کے ذریعے اس کی مخالفت کی۔ کچھ دن سرخیوں میں رہے اور پھر خاموش ہو گئے۔

 ▪️جبکہ اکثریت جس میں "تنظیم اہل سنت ضلع کورما" بھی شامل ہے نے تین طلاق قانون کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے سیمینار اور تعلیمی و تربیتی پروگرام وغیرہ منعد کی  اور عوامی بیداری تحریک چلا کر ایک بارگی تین طلاق کے استعمال سے روکنے کی کوشش کی۔ کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً حرام ہے اور قانونا جرم بھی ہے۔ بے شک اس کے بہتر نتائج سامنے آئے۔

(2) *لو جہاد کے نام پہ بننے والا غیر انسانی قانون:-*

 اس میں بھی مسلمانوں کی ایک بہت ہی چھوٹی تعداد ہے جو اس کو مسلم مخالف قانون بتا کر شور مچا رہی ہے۔ جبکہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اس سے راحت کی سانس لی ہے۔ظاہر ہے کہ وہ مسلم لڑکے جو غیر مسلم لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں وہ اپنے خاندان کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔ اور وہ مسلم سماج کے لیے بھی پریشانی کا سبب ہیں۔ کیونکہ جتنے لڑکے غیر مسلم لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں اتنی ہی مسلم لڑکیاں کنواری رہ جاتی ہیں۔ گویا یہ جو ہو رہا تھا دوہرے خسارے کا کام تھا۔ اب اگر ہم اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کو غیر مسلم سے شادی کرنے کے مضر اثرات سے واقف کراتے ہیں اور حکومت کی جانب سے ظالمانہ کارروائی سے ڈراتے ہیں اور نتیجتا ہمارے بچے اس قبیح فعل سے بچتے ہیں۔ تو یقینی طور پر اس کا فائدہ مسلمان کو ہی ہوگا۔

 *(3)تعلیم اور ملازمتوں میں تعصب:-*

اچھی ملازمت یا اچھی یونیورسٹی وغیرہ میں داخلہ کے لیے اگر مساوی صلاحیت میں تعصب کی بنیاد پر کامیابی نہیں ملتی ہے۔ تو یہاں بھی کچھ لوگ دھوکے میں آکر احتجاج کرتے ہیں۔ جبکہ اس سے بہتر یہ ہے کہ ہم اپنے حریف سے برتر صلاحیت حاصل کریں تاکہ ناکامی کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ اور اگر پھر بھی مقصد میں ناکامی ملتی ہے تو اس وقت بھی ہم فائدے میں ہیں کہ اس وقت ہم اتنی صلاحیت کے مالک ہو چکے ہوں گے کہ اس طرح کی ملازمت ہم دوسروں کو دے سکتے ہیں۔ اس کے عملی نمونے بہت ہیں۔

 الغرض مذکورہ بالا حالات کو اپنے لیے سازگار بنانے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ: 

(1) آپس میں اتحاد قائم کیا جائے۔

(2)  ردعمل اور احتجاج سے باز رہا جائے۔ 

(3) اپنی ساری توانائی اور قوت کو تعلیم،تجارت اور تنظیم و تعمیر میں لگائی جائے۔

(4) منصوبہ بندی اور حکمت عملی جو مسلمانوں کا حق اور خاصہ بھی ہے کو ہمیشہ زیر عمل رکھا جائے۔

(5) تمام مسلمان ایک دوسرے کے خیر خواہ،معاون و مددگار اور محافظ ہو جائیں۔

یہ پانچ باتیں جو قرآن و سنت سے منصوص ہیں اگر ہم نے صدق دل سے عمل کیا تو إن شاء الله! ہم ہی سرخرو اور بلند و بالا ہوں گے۔

محمد شہادت حسین فیضی

9431538584

 

Sunday, January 10, 2021

*صبر کرنے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا*

 

ایک عینی مشاھدہ: ایک شخص زمین کے ایک ٹکڑے کا دعویدار تھا۔ اور محلے والوں کا کہنا تھا کہ یہ زمین صرف اس کی نہیں ہے بلکہ پورے گاؤں والوں کی ہے۔ وہ شخص اپنے اہل و عیال کے ساتھ زمین پر قبضہ کرنے کی نیت سے وہاں آکر بیٹھ گیا۔ دوسری جانب محلے والے انہیں وہاں سے بھگانے کے لیے شورو غل کے ساتھ زدوکوب کرنے لگے۔ وہ شخص صبر کرتا رہا اور بدلے میں نہ اس نے ہاتھ اٹھایا اور نہ ہی زبان درازی کی بلکہ خاموشی کے ساتھ دفاع کرتا رہا۔ وہ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی جوابی کاروائی یا کسی بھی طرح کی بدزبانی سے‌دور رکھا۔ اہل محلہ کے کسی‌ بھی طرح کے ظلم کے خلاف وہ صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتا رہا۔ ایک دن اچانک سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے  اس کی موت ہوگئی۔ اب پورے محلے والوں کی ہمدردی اس کے ساتھ ہو گئی۔ لوگوں نے زمین  اس کے بچوں کے حوالے کردیا اور ماضی کی تمام تر تلخیاں اس گھر کے صبر استقلال کی وجہ سے یکسر ختم ہو گئیں۔ نتیجہ اس کے حق میں اس لیے ہوا کہ اس نے صبر کیا۔ ورنہ اگر وہ بھی جوابی کارروائی کرتا اور اہل‌محلہ میں سے کوئی ایک بھی دکھی  یا زخمی ہوا ہوتا یا کوئی فوت ہوجاتا تو انجام الٹا ہوتا۔

بات زمین کی آگئی ہے تو ایک حدیث بھی پڑھ لیں۔ ترجمہ: حضرت ابو سلمہ روایت کرتے ہیں کہ میرے اور کچھ لوگوں کے درمیان زمینی تنازعہ تھا۔ تو انھوں نے اس کا تذکرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ تو انہوں نے فرمایاکہ۔ اےابوسلمہ زمین کے معاملے میں بچو (اور اس کو چھوڑ دو) کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی دوسرے کی زمین ایک بالشت بھی قبضہ کرلی تو اسے قیامت میں سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ (بخاری: ج 1- ص332) 

بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ جس نے کسی دوسرے کی زمین ایک بالشت بھی قبضہ کرلی تو اسے قیامت میں سات زمینوں میں دھنسایا جائے گا۔ (بخاری: ج 1- ص332) 

 ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت ابو سلمہ کو نہ لڑائی جھگڑا کی صلاح دی اور نہ ہی کیس مقدمہ کرنے کی بلکہ صبر کرنے کی تلقین کی کہ اس میں دنیا کا بھی فائدہ ہے اور آخرت کا بھی۔

 *صبر :* 

صبر کا مفہوم بہت ہی وسیع معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کو صبر سے زیادہ بہتر اور زیادہ وسیع چیز بخشی نہیں گئی ہے (بخاری) 

اس حدیث پاک کے مفہوم کو ہم مختلف جملوں میں استعمال کر سکتے ہیں مثلا:

(1) زندگی کے اعلی اقدار میں صبر سے زیادہ مؤثر کوئی دوسرا عمل نہیں ہے۔

(2) جس کو صبر کی خوبی حاصل ہوگئی وہ سب سے زیادہ طاقتور انسان بن گیا۔

(3) جمالیاتی خوبیوں میں صبر سب سے افضل و اعلیٰ خوبی ہے۔

(4) صبر کے مقابلے میں مادی ضروریات، اعلی اقدار کو ختم کرتی ہے۔

(5) جس کو صبر کی دولت مل گئی اس کو دنیا کی ساری دولت و عزت مل گئی۔ 

(6)وہ عمل جو تمام بھلائیوں، خوبیوں اور محاسن کا جامع ہو۔اسکا نام صبر ہے۔

(7) صبر کے بغیر اعلی تہذیب و تمدن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

(8) جس پر کسی دوسری چیز کو ترجیح نہیں دی جاسکتی وہ صبر ہے۔ 

(9)صبر کے ذریعہ ہی ذہن و فکر میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔

(10)صابر سب سے پہلے اپنی مدد آپ کرتا ہے۔

(11) صبر کرنے والا ہر طرح کی پریشانی، مشکلات اور تنگی سے نجات پاتا ہے۔

(12) صبر کرنے والے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت و برکت رہتی ہے۔

 اس کے اور بھی مفہوم بیان کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کا سب سے جامع مفہوم آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے 63 سالہ حیات طیبہ ہے جو صبر و شکر کا مجموعہ ہے۔

 *حیات طیبہ کے چند گوشے* 

(1) ظالم کےظلم پہ مظلوم جب خاموش رہتا ہے تو اللہ تعالی ظالم سے بدلہ لیتا ہے۔ صحن کعبہ میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کو دعوت دیتے ہوئے دیکھ کر ابوجہل نے غصے میں جل بھن کر آقا کریم پر پتھر پھینک دی جس سے چوٹ لگی اور خون بہنے لگا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم زخم کو دبا کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرنے لگے۔ ٹھیک اسی وقت حضرت حمزہ ابن ابی طالب تشریف لائے۔ کسی نے کہا کہ دیکھ ابوجہل نے تمہارے بھتیجے کو زخمی کر دیا ہے۔ اور جب حضرت حمزہ نے آقا کریم کا خون دیکھا تو ان کا بھی خون کھول گیا۔ اور انہوں نے اسی وقت ابو جہل کی خبر لی اور خوب پٹائی کر دی۔ یہاں تک کہ وہ معافی مانگنے لگا۔ تو اسے چھوڑ کر حضرت حمزہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے کہ آپ خوش ہو جائیں میں نے ابو جہل سے بدلہ لے لیاہے۔ جواب میں حضور نے فرمایا کہ ابو جہل کو زیادہ سخت چوٹ اس وقت لگے گی جب آپ ایمان لے آئیں گے۔ اور مجھے بھی اسی وقت سچی خوشی ہوگی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ طیش میں آکر اسی وقت داخل اسلام ہو گئے۔ ("رحمۃ اللعالمین" از قاضی محمد سلیمان ص: 63/ ج 1)

آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی معجزہ ہے لیکن سادگی اتنی ہے کہ تمام انسانوں کے لیے آپ کی زندگی کو اللہ تعالی نے نمونہ بنا دیا ہے۔

(2) اللہ تعالی فرماتا ہے۔ نیکی اور بدی برابر نہیں ہے۔ جب کسی سے بحث ہوجائے تو سب سے بہتر جملوں سے بحث کرو۔ ایسا کرنے سے تمہارے درمیان اور اس کے درمیان جو دشمنی ہے وہ دوستی میں بدل جائے گی اور وہ تمہارا گہرا دوست ہو جائے گا۔ اور یہ دولت صرف اور صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے۔ (جسے دشمن کو دوست بنانے کا ہنر آگیا) وہ بہت بڑا نصیب والا ہے۔(حم السجدة:34-35)

صابروں کے جملے ہمیشہ میٹھے ہوتے ہیں اس لئے جو ان سے گفتگو کرتا ہے وہ اس کا اسیر ہو جاتا ہے۔ حیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ گوشہ ملاحظہ کریں۔ حضرت زید بن سنعہ رضی اللہ عنہ یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں نبی آخر الزماں کی تمام صفات کو دیکھ لیا تھا۔ انہیں صرف ایک صفت(صبر) کی آزمائش کرنی تھی۔ کہ آخری نبی کی صفت ان کی کتاب میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ انہیں جتنا زیادہ غصہ دلایا جائے گا وہ اتنا ہی نرم ہوتے جائیں گے۔(یعنی ردعمل اور غصہ ان میں ہوگا ہی نہیں) اس کے لئے انہوں نے آقا کریم صلی اللہ وسلم کو قرض دیا اور وصولی کے ليے وقت مقررہ سے پہلے ہی تقاضا کرنے حضور کے گھر پہنچ گئے۔ اور سخت جملوں کے ساتھ تقاضہ کرنے لگے۔ جوں جوں یہ سخت سے سخت جملے استعمال کرتے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نرم اور اچھے سے اچھے جملوں سے اس کا جواب دیتے۔ حضرت عمر جو وہاں موجود تھے برداشت نہیں کر سکے۔ اور آقا کریم سے اس کے ساتھ سختی کرنے کی اجازت چاہی تو حضور نے فرمایا عمر جاؤ اس کا قرض ادا کر دو۔ اور تم نے جو ان کو ڈانٹا ہے اس کے بدلے میں کچھ زیادہ ہی دے دینا۔ اس واقعہ کے بعد حضرت زید مسلمان ہوگئے۔ اور اعلان فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی ایک ہے۔ اور آپ اللہ تعالی کے سچے رسول ہیں۔

(3) صبر کا ایک ماخذ صبورہ ہے جس کا معنی بنجر زمین کے ہیں یعنی اس میں دانہ اور پانی جو بھی ڈالا جائے لیکن اس میں پودا نہیں اگتا۔ ایسا ہی معاملہ صابر کے ساتھ بھی ہے کہ اس کے ساتھ جس طرح سے بھی پیش آ یاجائے اس میں ردعمل کا اور انتقام کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے کے رد عمل کے طور پر کیا جانے والا کام، اور بولے جانے والے جملے گھر، سماج اور معاشرہ میں انتشار،انتقام اور لڑائی جھگڑے کے سبب بنتے ہیں۔ نیز یہ انسانیت، مصلحت اور سنت رسول کے خلاف ہیں۔

▪️آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم چل رہے تھے کہ ایک دیہاتی پیچھے سے آیا اور دوش مبارک پر رکھی چادر کو زور سے کھینچا جس سے گردن سرخ ہو گئی۔ پھر اس نے بلند آواز سے کہا کہ اےمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے اتنا اتنا اور فلاں فلاں سامان دو۔ یہ سب جو تمہارے پاس ہے وہ نہ تیرا ہے نہ تیرے باپ کا ہے۔ اگر ردعمل اور غصہ سے اس کا جواب دیا جاتا تو اس دیہاتی کی زندگی خطرے میں تھی۔ لیکن آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پوری بات صبر و تحمل کے ساتھ سن کر ارشاد فرمایا۔ کہ آپ نے بالکل سچ کہا ہے۔ بیشک یہ چیزیں نہ میری ہیں نہ میرے باپ کی۔ بلکہ میں اللہ تعالی وحدہٗ لاشریک کا بندہ ہوں اور یہ سب اللہ تعالی کا دیا ہوا ہی ہے۔ پھر حضور نے صحابہ کو حکم دیا کہ جو کچھ یہاں ہے وہ انہیں دے دو۔ وہ دے دیا گیا۔ لیکن اس دیہا تی کو یہ بہت کم لگا اور اس نے پھر ایک سخت جملہ کہا۔ اور یہ کہا کہ مجھے کچھ دیا ہی نہیں گیا ہے۔ یہ حقیر سی چیز لینے کے لیے میں یہاں نہیں آیا ہوں؟۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے ساتھ اپنا گھر لے گئے ان کی ضیافت کی۔ دوسرے دن انہیں ان کی خواہش کے مطابق مال و دولت دی۔ تو وہ بہت خوش ہوا۔ اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نےآپ کو دنیا کا سب سے اچھا اور سب سے زیادہ سخی پایا ہے۔ تو حضور نے فرمایا کہ جاؤ یہ جملہ میرے صحابہ سے کہہ دو تاکہ وہ بھی تم سے خوش ہو جائیں۔ انہوں نے صحابہ کے پاس جا کر وہ خوش کن جملے بھی کہے اور واپس آکر مسلمان بھی ہو گئے۔

(4) صبر کا مفہوم یہ بھی ہے کہ فریق ثانی کی طرف سے جو بھی اشتعال انگیزی کی جائے یا مصیبتیں ڈالی جائیں یا ظلم و زیادتی کی جائے ان سب کو خاموشی کے ساتھ برداشت کیا جائے۔ اور پھر جب حالات نارمل ہو جائیں تو عقل و فہم کا استعمال کر کے مثبت اقدام کے ذریعہ اس نفرت کو کم یا ختم کرنے کی کوشش کرنے کا نام صبر ہے۔ اس لیے کہ جب آدمی بے صبری کے ساتھ اپنے مقابل کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو اس وقت اس کے پاس سفلی جذبات اور سطحی محرکات ہوتے ہیں۔ اب وہ اس وقت جو بھی کرے گا یا بولے گا اس سے غلطیاں سرزد ہوں گی۔ جو بعد میں اس کے لیے رسوائی کا سبب ہو گا۔ جب کہ ان حالات میں صبر کرنے والا یعنی وقتی ردعمل سے عاری شخص ہر حال میں محفوظ و مامون ہوتا ہے۔ اس کو اس واقعہ سے سمجھتے ہیں۔

غزوہ مریسیع جس کو غزوہ بنی مصطلق بھی کہتے ہیں۔ جو ماہ شعبان 5 ہجری مطابق 626 عیسوی کو پیش آیا تھا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کے ساتھ حسب سابق فتح کے بعد بھی کچھ دنوں کے لیے چشمہ مریسیع کے پاس ہی قیام پذیر رہنا پسند فرمایا۔ کہ ایک دن حضرت عمر فاروق کے غلام جہجاہ غفاری کنواں کے پاس پانی لینے کے لیے گئے اسی وقت سنان بن دبرجہنی بھی کنواں سے پانی نکالنے کے لیے وہاں پہنچ گئے۔ دونوں نے بے صبری کا مظاہرہ کیا۔ نتیجتاً دونوں کے ڈول ٹکرائے۔ اور پھر دونوں میں دھکا مکی ہوگئی۔ اور تیز آواز میں بحث بھی کرنے لگے یہاں تک کہ دونوں میں لڑائی ہوگئی۔ اور جہجاہ غفاری نے ایک ضرب لگائی جس سے سنان کا خون بہنے لگا۔ وہ گھبرا کر یا معاشر الانصار کی صدا بلند کر دی۔ جواب میں جہجاہ نے بھی یا معاشر المہاجرین کی آواز بلند کی۔ اب انصار و مہاجرین دونوں کود پڑے۔ قریب تھا کہ انصار و مہاجرین جو آپس میں بھائی بھائی بنے ہوئے تھے جنگ چھڑ جاتی فی الفور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز میں فرمایا کہ تم لوگ بے صبری میں جاہلیت کی صدا بلند کر رہے ہو جب کہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ دونوں کو الگ کیا اور فورا کوچ کرنے کا حکم صادر فرمایا کہ کہیں بات اور نہ بڑھ جائے۔ غزوہ مریسیع کی کامیابی صرف دو بے صبروں کی وجہ سے ناکامی میں بدل جاتی کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حسن ترکیب سے تنازع ختم ہوا اور بھائی چارگی جو انصار و مہاجرین میں تھی باقی رہی۔ اس واقعہ میں ایک اور بات جو ہمارے لیے سبق ہے وہ یہ ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروپ کو الگ کر دیا۔ ان کے درمیان فوری طور پر فیصلہ نہیں کیا کہ ایسے ماحول میں فیصلہ کے نفوذ بھی  محال ہو جاتا ہے اور بات بننے کے بجائے اور بھی بگڑ جاتی ہے۔

 صبر کا سب سے اعلیٰ اور بہترین قسم یہ ہے کہ جب کوئی کسی کو تکلیف پہنچائے تو بدلے میں اس کو بھی تکلیف نہ دے بلکہ اس کے ساتھ بھلائی کرے اور اس کے لیے خیر کی دعا کرے۔ اور یہ صفت تمام انبیاء و مرسلین کی ہے۔ تمام نبیوں اور رسولوں نے اپنی اپنی امت سے کہا ہے کہ۔ تم جو ہمیں ستا رہے ہو اس پر ہم ضرور باالضرور صبر کرتے ہیں۔ (ابراہیم:12)

یعنی ہم بدلے میں تمہارے ساتھ ظلم و ستم کا معاملہ نہیں کریں گے۔ بلکہ ہم تمہاری بھلائی کی کوشش کرتے رہیں گے۔

الغرض صبرایک فولادی قوت کا نام ہے جس سے بڑے سے بڑا معرکہ سر کیا جاسکتا ہے۔ اور کامیابیوں کے بلند ترین مقام تک پہنچاجاسکتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.

 محمد شہادت حسین فیضی

9431538584

Sunday, January 3, 2021

تاریخ اسلام کا ایک ورق

*اہل طائف کا شرطیہ اسلام قبول کرنا*
طائف مکہ مکرمہ سے تقریبا ایک سو ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر چھوٹے چھوٹے پہاڑوں سے گھراہوا ایک خوبصورت و خوشحال شہر تھا۔ اس کے قرب و جوار کے علاقے میں انگور، سیب اور انار جیسے خوش رنگ و خوش ذائقہ پھلوں کے بکثرت باغات تھے۔ دوسرے خطۂ عرب کے مقابلے میں وہاں کے باشندے علم و ہنر میں مہارت رکھتے تھے۔ علم طب اور علم نجوم کے ماہرین کی ایک بڑی جماعت وہاں موجود تھی۔ پورے خطۂ عرب میں عربوں کی ملکیت والا وہ واحد قلعہ بند شہر تھا جس کے کنارے اونچی اونچی فصیلیں تعمیر تھیں، جسے ایرانی ماہرین آرکٹیچر اور  انجینئروں نے عربی طرز تعمیر اور خوبیوں کے ساتھ ڈیزائن کیا تھا۔ اس کی دیوار اتنی مضبوط تھی کہ منجنیق کے ذریعے پھینکے گئے بڑے بڑے پتھروں سے بھی مخدوش نہیں ہوئی۔
 *اہل طائف کو اسلام کی پہلی دعوت*
12 فروری 610 عیسوی کو پہلی وحی نازل ہوئی تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کے درمیان اعلان نبوت کے ساتھ دعوت توحید دینی شروع کی۔ تو آپ کے خونی رشتہ داروں کے ساتھ پورا اہل مکہ آپ کا جانی دشمن ہو گیا۔ تاہم حضرت ابو طالب کے بنو ہاشم کے سردار ہونے کی وجہ سے اور ان کے رعب و دبدبہ کی وجہ سے اتلاف جان کا خطرہ نہیں تھا لیکن 5 رجب عام الحزن کو ان کے وصال کے بعد جب بنو ہاشم کی روایات کے مطابق ابولہب بنو ہاشم کا سردار ہوا تو اس نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی درمیان صرف 35 دن کے بعد 10 رمضان کو حضرت ام المومنین خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا کا وصال ہو گیا۔ اسی لیے اس کا نام عام الحزن ہے۔ قبائلی معاشرہ میں بغیر کسی قبیلے کی حمایت کے کسی شخص کا کوئی تحریک چلانا تو دور کی بات ہے زندہ رہنا مشکل ہے۔ ان حالات میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مضبوط قبیلے کی حمایت کی سخت ضرورت تھی۔ اس کے لیے سب سے پہلے انھوں نے طائف جانا پسند فرمایاکہ قریش کے بعد سب سے مضبوط اور طاقتور قبیلہ طائف کے بنو ثقیف‌کا تھا۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنے خادم حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ طائف تشریف لے گئے اور وہاں کے ہر گھر میں جا کر توحید کی دعوت دی۔ یہاں تک کہ طائف کے جو تین بڑے سردار تھے عبد یالیل بن عمرو۔ مسعود بن عمرو اور حبیب بن عمرو یہ تینوں سگے بھائی تھے۔ ان کے یہاں بھی جا کر انفرادی طور پر دعوت پیش کی۔ لیکن کسی نے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول نہیں کی بلکہ الٹا بداخلاقی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ اوباش لڑکوں کو لگا دیا کہ انہیں پتھر مار کر شہر سے باہر نکال دیں۔ حضور سخت کبیدہ خاطر ہوئے لیکن رحمة اللعالمین تھے اس لیے اس دعا کے ساتھ شہر سے باہر نکلے کہ یا اللہ یہ لوگ مجھے نہیں پہچان رہے ہیں انہیں ہدایت عطا فرما تاکہ ان کی نسلیں ایمان لے آئیں۔
 *دوسری دعوت*
قبیلہ بنو ثقیف قبیلہ بنو ہوازن کی ہی شاخ تھی جو طائف میں آباد تھی۔ 8 ہجری میں فتح مکہ کے بعد قریش کی خودسپردگی سے ناراض ہوکر قبیلہ بنو ثقیف نے قبیلہ بنو ہوازن کے علاوہ قرب وجوار کے دیگر قبائل کے ساتھ مل کر حنین میں ایک خونریز جنگ کی تھی۔ یہ جنگ 10 شوال مطابق 30 جنوری 630 عیسوی کو ہوئی تھی جس میں چار صحابہ شہید ہوئے اور 70 کفار مارے گئے۔ مسلمانوں کو مال غنیمت کے طور پر (6000) چھ ہزار قیدی، چوبیس ہزار (24000) اونٹ، چالیس ہزار (40000) بکریاں اور چارہزار(4000) اوقیہ چاندی ملے تھے۔
 یہ شکست بنو ہوازن کی تھی اور بنو ثقیف کے لوگ بھاگ کر طائف میں قلعہ بند ہوگئے۔ طائف کا قلعہ بلند اور مضبوط تھا اس لئے منجنیق کے ذریعہ بڑے بڑے پتھر پھینکے گئےلیکن فصیل توڑی نہ جا سکی اور بنو ثقیف کے تیروں کی زد میں آکر 12 صحابہ شہید بھی ہو گئے۔ اور بہت سارے زخمی بھی۔ لوگوں نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے لیے بد دعا کرنے کی گزارش کی توآقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالی سے دعا کی کہ یا اللہ یہ لوگ نا سمجھ ہیں دوسری مرتبہ ہم نے انہیں اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی لیکن یہ جواب میں تیر اور پتھر پھینکتے ہیں یا اللہ انہیں ہدایت دے۔ انہیں اسلام کے لیے میرے پاس آنے کی توفیق عطا فرما۔ پھر صحابہ کو حکم دیا کہ محاصرہ ختم کردیا جائے۔ وہاں سے جعرانہ تشریف لائے۔ قبیلہ ہوازن کے قیدیوں کو اپنی رضاعی بہن حضرت شیما رضی اللہ تعالی عنہا اور ہوازن کےدوسرے لوگوں کی درخواست پر رہا کر دیا گیا اور کچھ ساز و سامان بھی واپس کر دیے گئے۔ اس میں ایک حکمت بھی تھی کہ اس رہائی اور عفو و درگزر سے طائف والوں کو یہ سمجھ آجائے کہ اسلام قبول کرنے کے یہ فائدے ہیں۔
 *تیسری دعوت*
حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا۔ اور اجازت چاہی کہ طائف میں جا کر اسلام کی دعوت دوں۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے مزاج کو سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے فرمایا کہ صبر و حکمت سے کام لینا اور ایک بارگی اپنے اسلام کو ظاہر نہ کرنا۔ لیکن انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف مجھے اپنی کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔ وہ میری باتوں کا انکار نہیں کریں گے۔ اور میری بات مان لیں گے۔ لیکن وہ اپنی اس خوش فہمی کے ساتھ جب طائف پہنچے اور اپنے چھت کی بلندی پر جا کر خود کو مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور اسلام کی دعوت پیش کی۔ تو لوگوں نے تیروں سے حملہ کر کے شہید کر دیا۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی تو ان کے بلندی درجات کی دعا مانگی اور فرمایا کہ عروہ بن مسعود ثقفی میرے بھائی حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی طرح ہیں۔ عملا اور شکلا بھی۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا عروہ کے مثال صاحبِ یسین (حضرت عیسیٰ) جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم کو خدا کی طرف بلایا اور اس نے ان کو شہید کردیا (مستدرک حاکم: ٦١٦/٣)
عروہ بن مسعود ثقفی صاحب یسین(حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام) کی طرح کیسے ہیں، اس مماثلت کو سمجھنے کے لیے ذرا سورۂ یسین کی آیت نمبر 13 سے 25 کا مطالعہ کریں۔
ترجمہ:
 اور بیان کرو ان سے اس شہر والوں کی مثال۔ کہ جب ان کے پاس آئے رسول۔ اور ہم نے ان کے پاس دو رسول بھیجے۔ تو شہر والوں نے ان کو جھٹلایا۔ تو ہم نے تیسرےرسول کے ذریعے طاقت بخشی۔ پس ان تینوں نے شہر والوں سے کہا کہ ہم لوگ تم لوگوں کو اللہ تعالی کی وحدانیت کی دعوت دینے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ تو شہر والوں نے کہا کہ تم لوگ تو ہم ہی لوگوں کی طرح بشر ہو۔ رحمان نے کچھ نہیں بھیجا ہے تم لوگ جھوٹے ہو۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی جانتا ہے کہ اس نے ہمہیں تمہاری طرف بھیجاہے۔ اور ہماری ذمہ داری تو صرف صاف صاف اللہ کا حکم پہنچانا ہے۔ تو شہر والوں نے کہا کہ ہم لوگ تمہیں منحوس سمجھتے ہیں۔ تم لوگ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ نہیں تو ہم لوگ ضرور تمہیں سنگسار کریں گے۔ اور ہم لوگوں کے ذریعہ تمہیں سخت دردناک تکلیف پہنچے گی۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری نحوست ہی تمہارے ساتھ ہے۔ تمہیں سمجھایا جاتا ہے تو تم بدکتےہو۔ بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔
*اسی درمیان شہر کے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا۔اور کہا کہ اے میری قوم!ان رسولوں کی پیروی کرو۔ یہ تم سے کچھ بدلہ نہیں مانگتے۔ اور یہ ہدایت یافتہ ہیں۔ ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ کہ ہم اس کی بندگی نہ کریں جس نے مجھے پیدا کیا۔ اور اس کی طرف سب کو لوٹنا ہے۔ کیا اللہ تعالی کے سوا اور کوئی خدا ٹھہراؤں؟ اگر رحمان میرا کچھ برا چاہے تو ان کی سفارش کچھ کام نہ آئے۔ اور نہ وہ مجھے بچا سکیں۔ بے شک جب تو میں کھلی گمراہی میں ہوں۔ بے شک میں تمہارے رب پہ ایمان لاتا ہوں۔ تم میری بات سنو۔وہ شہر والوں کو سمجھا رہے تھے اور بدلے میں شہر والوں نے انہیں پتھر مار کر شہید کر دیا* اسی نوجوان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حضرت عروہ بن مسعود ثقفی کی تمثیل پیش کی: کہ "انہوں نے اپنی قوم کو دین کی دعوت دی تو ان کی قوم نے تیر مار کر انہیں شہید کر دیا"۔
 *چوتھی دعوت* 
حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے کچھ دنوں بعد انہوں نے قبیلہ ہوازن پہ نظر ڈالی جو شکست کے بعد بھی رسول کونین کے عفو و درگزر سے خوشحال تھے۔ قریش کی خود سپردگی کے بعد جعرانہ میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی کے لیے مال غنیمت میں سے اتنا دیا کہ اس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ پھر قرب و جوار کے تمام قبائل کا جوق در جوق اسلام قبول کرنا اور ایک پاکیزہ زندگی کی ابتدا کرنا بھی ان کے پیش نظر تھی۔ ان اسباب وعلل کے ساتھ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے لیے تین مرتبہ ہدایت کی دعا کرنا بھی قبول ہوئی۔ *اور بنو ثقیف نے یہ مشورہ کیا کہ ہمارا بھی ایک وفد مدینہ جاکر اپنے شرطوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہونے کی بات کرے*۔ چنانچہ ان کے سردار  عبد یالیل بن عمرو اپنے دو حلیفوں کے ساتھ اور قبیلہ بنو مالک میں سے تین کل چھ افراد پر مشتمل یہ وفد رمضان 9 ہجری میں مدینہ پہنچا۔ مسجد نبوی میں ان کے لیے خیمہ لگایا گیا تھا تاکہ یہ لوگ صحابہ کو نماز پڑھتے ہوئےدیکھ سکیں اور قرآن سن سکیں۔ پھر ایک دن ان لوگوں نے حضور کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ان شرطوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی بات کی کہ ہم نماز نہیں پڑھیں گے، زکات نہیں دیں گے، جہاد نہیں کریں گے، شراب نوشی اور سود خوری نہیں چھوڑیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور کر لیا۔ تو وہاں موجود صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ یہ کیسا اسلام ہے؟ اس کے جواب میں آقا کریم کی یہ حدیث ملاحظہ کریں۔ جو حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب وہ زکات بھی دیں گے اور جہاد بھی کریں گے۔ پہلے یہ مسلمان تو ہوجائیں۔ (ابو داود کتاب الخراج باب طائف حدیث نمبر 1251-1252) 
ان لوگوں نے یہ شرط بھی رکھی کہ ہم بت نہیں توڑیں گے۔ تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ شرط نہیں مانی۔ اور فرمایا کہ شرک کے ساتھ اسلام قبول نہیں ہے۔ بت کو توڑنے ہی ہوں گے۔ اب اگر تم اپنے ہاتھ سے نہیں توڑنا چاہتے ہو تو میں خالد بن ولید کو بھیجتا ہوں وہ طائف جاکر "لات" کے مجسمہ کو توڑ دیں گے۔ چنانچہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے طائف جاکر وہاں کے بتوں کو توڑ ڈالا تھا۔ بےشک آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور امن کی خاطر صلح حدیبیہ کے بعد یہ دوسرا مرحلہ تھا جب کفار کے بے جا اور نامعقول شرائط کو بھی قبول کرلیاتھا۔ لیکن نتائج کے اعتبار سے مہینوں نہیں۔ بلکہ کچھ ہی دنوں بعد طائف کے لوگ کامل مؤمن اور صحابی رسول بن گئے۔ جس کی فضیلت بے شمار ہیں۔ دین طاقت سے نہیں بلکہ اخلاق حسنہ اور حکمت عالیہ سے پھیلا ہے اور حکمت و دانائی مومن کا حق ہے۔ جو آج ہم سے دور ہے۔ کامیابی کے لیے ہمیں اصل اسلام کی طرف لوٹ کر پاکیزہ کلمات، اخلاق حسنہ اور حکمت و دانائی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگااور دین کی دعوت پیش کرنی ہو گی۔
 محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

علما کی زبوں حالی: اسباب و تدارک

تین قسطیں یکجا


تحریر: شہادت حسین فیضی، کوڈرما جھارکھنڈ

میں مدرسہ کی آفس میں میں تھا کہ ایک حافظ صاحب تشریف لائے جو میرے شاگرد وں میں سے تھے۔ موصوف امام ہیں اور ایک گاؤں کے مکتب میں پڑھاتے ہیں انکی چھ لڑکیاہیں اور شاید سب سے چھوٹے دولڑکے ہیں انہیں اپنی بیٹی کی شادی کرنی تھی جس کا رشتہ طئے ہو چکا تھا اور تاریخ بھی طئے تھی انہوں نے بڑی ہی لجاجت کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کی دعوت پیش کی اورعرض گزار ہوئے کہ حضرت میرے لیے ایک تصدیق نامہ تحریر کر دیں تاکہ کچھ لوگوں سے مل کر بیٹی کی شادی کا انتظام کر سکوں آپ جانتے ہیں کہ میں کثیر العیال ہوں اور آمدنی کے اعتبار سے قلیل ترین آمدنی پہ گزر بسر کرتا ہوں۔ میں نے کہا تشریف رکھیں لکھ دیتا ہوں لیٹرپیڈ نکالا اور پھر لکھنے کی کوشش کی لیکن ہاتھ کانپ گیا اور آنکھ سے آنسوبھی ٹپک پڑے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے تصدیق نامہ لکھنے سے معذرت کرلی۔ میں نے سوچا کہ یا اللہ یہ حافظ صاحب جو شریفانہ وضع قطع رکھتے ہیں انکے سینہ مبارک میں قرآن مقدس جیسی لا ریب کتاب محفوظ ہے،عرصہ سے لوگوں کی امامت کر رہے ہیں اور تعلیم قرآن جیسے عزت و شان والا کام کر رہے ہیں اتنی عظیم شخصیت حقیر سی رقم کے لیے دنیا داروں کے سامنے دست سوال دراز کریں گے؟ بیٹی کی شادی کے لئے انہیں بھیک مانگنا ہوگا؟ ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ کوئی کم ظرف انہیں ڈانٹ دے جھڑک دے دروازہ سے باہر کردے۔ اگر ایسا ہوا تو کیا دنیا والوں پہ عذاب نہ آئے گا؟ یقیناً ایسا ہونا قہر خداوندی کو دعوت دیناہے۔
میں نے کہا ان شاء اللہ آپکی بیٹی کی شادی متعینہ تاریخ پہ ہی ہوگی۔ پھر میں نے انہیں تسلی دی اور کچھ مخصوص رہنمائی بھی کی۔ بیشک اللہ تعالیٰ جو کار ساز و مالک ہے اپنے حبیب پاک ﷺ کے صدقے حافظ صاحب کے مسائل کو حل فرما دیااور شادی بھی ہو گئی۔
ایک عالم دین مسنون وضع قطع کے حامل نوجوان میرے پاس تشریف لائے سلام ودعا کے بعد انہوں نے بہت ہی عاجزی کے ساتھ یہ درخواست کی کہ مجھے کہیں نہ کہیں رکھوادیں خواہ تنخواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ میں بہت ضرورت مند ہوں۔ میں نے کہا کہ حضرت مجھے سوال نہیں کرنا چاہئے لیکن معذرت کے ساتھ کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ آخر آپ کے ساتھ کیا پریشانی لاحق ہو گئی ہے؟کہ آپ کم سے کم تنخواہ میں کام کرنے کو تیار ہیں؟ان کے آنکھوں آنسو آگئے اور وہ رو پڑے۔ میں نے کسی عالم دین کو اپنی ضرورت کے لیے روتے ہوئے پہلی مرتبہ دیکھا تھا اس لیے کافی دیر تک خاموشی کے ساتھ ان کو دیکھتا رہا۔ پھر جب وہ کچھ مطمئن ہوئے تو انہوں نے کہا کہ حضرت میں فلاں گاؤں میں امامت کرتا تھا۔اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد نرینہ سے نوازا ،خوشی دوبالا ہوئی لیکن کچھ دنوں کے بعد میرے بچے کی طبیعت خراب ہو گئی اور مجھے باربار اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہوتاتھاجس سے میری غیر حاضری ہونے لگی اور رقم کی ضرورت بھی بڑھنے لگی خیر میں پیشگی تنخوہ اور کچھ لوگوں سے قرض لے کر بچے کا علاج کراتا رہا۔ لیکن گاؤں والے میری غیرحاضری سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے میری چھٹی کر دی۔اب میں مقروض بھی ہوں،بے روزگار بھی ہوں اور میرا بیٹا بیمار بھی ہے۔اسے علاج کی سخت ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مسائل کو حل فرمادیا بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتابھی ہے اور نوازتا بھی ہے۔
پڑھنے کے بعد مدرسہ ومسجدسے ۳۵سال سے منسلک ہوں اس درمیان اس طرح کے بہت سارے واقعات پیش آئے لیکن ان میں سے ماضی قریب کے یہ دو واقعہ جسکو میں نے پیش کیا ہے علمائے کرام کی زبوں حالی کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں حالانکہ واقعات اور بھی ہیں۔
بہت سارے لوگ اس طرح کے وقعات بیان کرتے ہیں اور میں نے بھی دو واقعہ بیان کر دیاہے۔واٹس اپ،فیس بک، اخبار ات وغیرہ میں علمائے کرام و ائمہء مساجد کے بارے میں افسوس کے جملے ادا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اور کچھ خانقاہ یہ ا علان کررہے ہیں کہ علماء و ائمہ اس وقت بہت زیا دہ محتاج ہیں ان کی مدد کرنی چاہئے یعنی انہیں بھیک یا خیرات دینی چاہیے۔ پتہ نہیں لوگوں نے ان کی اپیل پہ عمل کیا یا نہیں۔لیکن ایک بات واضح ہو گئی کہ علماء غریب، مفلوک الحال اورقابل رحم اور زکاة وصدقات کے مستحق ہیں۔ اس معلوما ت کے بعد نہ تو کسی عام آدمی نے نہ کسی عالم نے اور نہ ہی کسی مفتی نے اس کا حل پیش کیا کہ علما ء کی مفلوک الحالی کیسے ختم ہوگی۔علماء وائمہ سے ہمدردی رکھنے والے عالموں سے اور غیر عالموں سے گذارش ہے کہ علماء و ائمہ فارغ البال کیسے ہوں اس کی ترکیب بتائی جائے۔ وہ خیرات لینے والے نہ رہیں بلکہ ان کی عالمانہ شان کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ دینے والے ہوں اور یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ کیا ایسا ہوبھی سکتاہے؟ ان شا ء اللہ ایسا ہوگا، لیکن کیسے؟خیرات دینے سے یا غریب علماء کانفرنس کرنے سے؟ یا علماء کی تنظیم بنانے سے؟ یا احتجاجی مظاہرہ کرنے سے؟ کیا ان سب کے علاوہ دین وسنت میں کوئی ایسی ترکیب ہے جس پہ عمل کرکے علماء باوقار ہوں؟ ان سوالوں کے جواب عنایت کریں کرم ہوگا۔
قارئین کے جواب کا انتظار رہے گا تاکہ کوئی ٹھوس پالیسی بنائی جاسکے۔

زبوں حالی کے اسباب

وجہ اول:
قیام مدارس اسلامیہ کے مقاصد کی غلط تعبیرو تعین۔ کہ فارغین مدارس اسلامیہ صرف امام،مؤذن و مکتب کے معلم ہی بنیں گے۔ انہیں بس انہیں کاموں کے لیے تیار کیا جائے گا، کیوں کہ ان کی تعلیم پہ زکوٰۃ،خیرات،صدقات کی رقم خرچ کی جاتی ہے …انہیں شرطوں کے ساتھ ہی زکوٰۃ وصدقات جو ان کے لیے حرام تھیں حلال کی گئیں ہیں کہ مدرسہ میں پڑھ کر یہ لوگ امامت کریں گے اور قرآن وحدیث کی تعلیم دیں گے۔ ان کے علاوہ اگرانہیں کوئی اور تعلیم وہنر دیا گیا تو حیلۂ شرعیہ کی جو علت ہے وہ فوت ہوجائے گی۔
گویا اے عالمو،حافظو،قاریو، مفتیو،اور خطیبو! تم زکوٰۃ، فطرات کھا کر پڑھے ہو جو عام لوگوں کے لیے حرام تھی،تم نے اپنے لیے اس کو اسی لیے حلال کیا ہے کہ تم صرف یہی کا م کروگے۔اور یہ کہہ کر علمائے کرام کو روز اول سے ہی احساس کمتری کا شکار بنایا جاتا ہے۔
وجہ دوم:
تمام مدارس اسلامیہ میں داخلہ شوال میں ہو تا ہے اورتکمیل تعلیم کی سند شعبان میں دے کر رخصت کیاجاتاہے۔تعلیم کا دورانیہ دس سا ل کا ہو یا بارہ سال کا، اول دن سے ہی ناظم اعلیٰ ہوں یا مہتمم، صدرالمدرسین ہوں یا عام مدرسین، بچوں کی تعلیم کی ابتداکچھ اس طرح کرتے ہیں۔

مثلاً

(الف) ناظم اعلیٰ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں ”بچے آپ تمام لوگ پابندی سے نماز با جماعت ادا کیا کریں مدرسہ کے صدر صاحب کا گھر قریب ہی ہے وہ آپ کودیکھ رہے ہوتے ہیں۔ خبر دار اگر آپ نماز میں کوتا ہی کریں گے تو صدر صاحب ناراض ہوں گے-اس لیے ان کی ناراضگی سے بچنے کے لیے نمازوں کی پابندی ضروری ہے“۔
(ب) صدرالمدرسین بچوں کوموقع بموقع سمجھاتے رہتے ہیں۔ بچے آپ بڑوں کا ادب کریں راستہ میں جو ملے انہیں سلام کریں ایسا نہ ہو کہ آپ انہیں سلام نہ کریں اور نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائیں کہ اس سے محلے کے لوگ ناراض ہوں گے پھر اگر وہ چندہ دینا بند کردیں گے تو مدرسہ کیسے چلے گا ؟ اس لئے آپ لو گ سلام ضرور کیا کریں۔
(ج) دیگر اساتذہ کچھ اس طرح بچوں کے دل ودماغ پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔کہ بچو! مدرسہ کے عہدیداران اور اراکین واساتذہ کی خوب عزت کریں، ان سے ڈریں، وہ تمہارے لیے بڑی بڑی قربانیاں دیتے ہیں۔اگر وہ کچھ بولیں، ڈانٹیں اگرچہ زیادتی ہی کیوں نہ ہو،ان سے منہ نہ لگانا ورنہ خارجہ کردیا جائے گا۔اس لئے کہ وہی لوگ مدرسہ چلاتے ہیں، ہماری تنخواہ اور کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کو تھوڑا برداشت کرنا ہی ہوگا۔خبردار! اگر وہ ناراض ہوگئے تو تمہارا یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔اور اگر وہ خوش ہوئے تو وہ بہت نوازیں گے۔
میں یہ کوئی فرضی کہانی پیش نہیں کر رہا ہوں بلکہ دوران طالب علمی میں نے یہ سب کچھ دیکھا ہے اور ابھی بھی دیکھتا ہوں، اورمیں نے پہلے بھی سنا ہے اور اب بھی سنتا ہوں۔
شروع سے اخیر تک بچوں کو صدر صاحب،سکریٹری صاحب، اراکین، عوام سے ڈرایا جاتا ہے اور انہی لوگوں کو خوش کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسی کو دین کی خدمت کہتے ہیں۔اور اس طرح غیر محسوس طور پر علماء کرام کو شروع ہی سے مرعوب ومغلوب بنایا جاتا ہے۔نتیجتاً انکے دلوں میں عوام کا خوف اور اسباب سے محبت،اللہ کے خوف اور رسول کی محبت سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
مثال اول:- ایک مرتبہ مجھ سے ایک صاحب نےکہا کہ ہمارے گاؤں میں فلاں مولانا صاحب امام ہیں جب وہ ہمارے یہاں ہوتے ہیں تو نماز بھی پڑھاتے ہیں اور لوگوں کو نماز کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ لیکن جب وہ گھر جاتے ہیں تووضع قطع کے ساتھ نمازیں بھی چھوڑتے ہیں۔ میں نے کہا کہ وہ یہاں عوام کے ڈر سے نماز پڑھتے ہیں اور پڑھاتے ہیں انہیں دوران تعلیم عوام سے ہی ڈرناسکھایا گیا ہے اور عوام کو خوش رکھنے کا طریقہ ہی بتایا گیا ہے۔تو انہوں نے جو سیکھا ہے اسی پہ وہ عمل پیرا ہیں۔ اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟۔
و ہ پڑھ رہے تھے تو عوام کو خوش کرنے کے لئے اورآج وہ پڑھا رہے ہیں تو عوام کو خوش کرنے کے لئے۔نہ کل للہیت تھی نہ آج للہیت ہے۔الا ماشاء اللہ!
مثال دوم:- ہمیں دس بارہ سال تک خوشامد پرستی سکھائی جاتی ہے نتیجتاًہم خوشامد پرست ہو جاتے ہیں، اور ہمیں بھی خوشامد پرستی ہی اچھی لگتی ہے۔ ہم سوال کرنے سے ڈرتے ہیں اور ہم سے کوئی سوال کرتا ہے تو ہم اسے ڈراتے ہیں۔کل مدرسہ سے خارجہ کا ڈر تھا اور آج بزرگوں کا بے ادب کہہ کر سماج، معاشرہ، واٹس اپ،اور اسلام سے بھی خارجہ کر دیا جاتا ہے یاخارج کردئیے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے۔
وجہ سوم:- ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مدارس اسلامیہ کے فارغین کو دوران تعلیم دس بارہ سال تک تسلسل کے ساتھ ان کے ذہن و فکر پہ ایک لکیر کھینچ دی جاتی ہے اور مسلسل کہا جاتا ہے کہ جتنی بحثیں کرنی ہو،سوال کرنا ہو اس دائرہ کے اندر رہ کر ہی کرنا ہے۔ اور اگر کوئی طالب علم جرأت و ہمت کرکے کچھ سوال کر بھی دیا تو اس کو مطمئن کرنے کے بجائے اس سے کہا جاتا ہے کہ تم فلاں امام سے زیادہ جانتے ہو؟ انہو ں نے جو کہا ہے وہی صحیح ہے اور تمہارے ذہن میں جو بات آئی ہے وہ غلط ہے۔ اب اگر اس نے پھر سوال کردیا کہ کیوں غلط ہے؟ تو اسے ڈانٹ دیا جاتاہے اور خاموش رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اس کے باوجود اگر وہ خاموش نہ ہوا تو بزرگوں کا بے ادب کہہ کر خارجہ کر دیا جاتا ہے۔ اور اسکے خارجہ کو بطور عبرت تمام لڑکوں میں تشہیر کی جاتی ہے کہ سوال کروگے تو یہی انجام ہوگا۔خیر چاہتے ہو تو مغلوب الذہن بن کر علم حاصل کرو۔
الغرض قدامت پرستی واکابر پرستی کی ایک دیوار ہے جس سے باہر جانے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔
پوری دنیا میں صرف ایک کتاب ہے جسے حرف آخر کی حیثت حاصل ہے وہ قرآن مقدس ہے۔ اس کے بعد ہزاراوں ہزار کتابیں جو صحیح ہیں ان میں سے بعض اصح کتب بعد کتاب اللہ کے د رجے کے ہیں۔ جیسے بخاری شریف وغیرہ لیکن خطاکا امکان اس میں بھی موجود ہے۔
ایسے ہی انبیاء ومرسلین معصوم ہیں انکے علاوہ حرف آخر کوئی نہیں ہے۔ لیکن ہمارے ذہن وفکر پہ یہ کہہ کر تالا لگادیاجاتا ہے کہ ہمارے اکابرین کے اقوال حرف آخر ہیں، ان میں قیل و قال کرنا گمراہیت ہے۔ یہ فکر ی انجماد ہمیں لکیر کا فقیر بنا کر رکھا ہے۔ اور ہمیں نئی منزل اور نئی جہت میں جاکر دین کے ساتھ دنیا کی خوش حالی حاصل کرنے سے روکتا ہے۔
جبکہ اسلام دین فطرت ہے اور اس میں ہر سوال کا جواب موجود ہے ہر مسئلہ کا حل موجود ہے۔ اسلام کبھی کسی کے ذہن وفکر پہ پہرہ نہیں بیٹھاتا بلکہ اسلام تو آزادی فکر و رائے کا حمایتی ہے۔ ہاں سلیقہ مندی ضروری ہے، تہذیب وشائستگی لازمی ہے۔
گویا خوداری اور خودی کو ختم کرکے علمائے کرام کو نفس کشی کے نام پرتدریجاًگداگری سکھائی جاتی ہے اور اس کے نتیجے ہمارے سامنے ہیں۔
وجہ چہارم:- علماء وحفاظ کی جماعت یہ مظلوموں کی جماعت ہے۔وہ اس طرح کہ پڑھنے کے وقت ان پہ جو رقم صرف کی گئی وہ اس کے مستحق نہیں تھے بلکہ انکے لیے حرام تھی، لیکن مجبوراًانہیں عالم وحافظ بنانے کے لیے حلال کی گئی ہے۔ یعنی حرام کو حلال کہہ کر ان کو کھلایا گیااور ان پراحسان بھی جتایا گیا کہ آپ حضرات کی تعلیم ہماری زکوٰۃ وفطرہ کی رقم سے ہوئی ہے۔پھر جب یہ تعلیم یافتہ ہوگئے یعنی عالم،حافظ،مفتی بن گئے تو انہیں روز گار کے طور پر وہ کام دیا گیا جس کی اجرت لینی جائز نہیں تھی لیکن انکی مجبوری کو دیکھ کر انکے لیے حلال کیا گیا۔
امامت کرنا،آذان دینا،دین کی دعوت دینا، قرآن وحدیث کی تعلیم دیناوغیرہ۔یہ وہ عظیم کام ہیں جس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ دنیاوالوں سے اس کی اجرت لینا حرام و ناجائز تھی۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لیکرحضور اکر ﷺ تک جتنے انبیاء ومرسلین تشریف لائے کسی نے بھی دین کی تبلیغ واشاعت کے بدلے میں امت سے اجرت قبول نہیں کی۔
خلفائے راشدین،صحابہء کرام، تابعین،تبع تابعین، ائمۂ مجتہدین وغیرہم رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی دینی تبلیغ واشاعت اور امامت وخطابت کی اجرت قبول نہیں کی ہے۔
کیوں؟
اس لئے کہ یہ اتنا اہم کام ہے کہ اس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے۔ دنیا کا کوئی شخص اس کی اجرت یا قیمت دے ہی نہیں سکتا تو پھر اس کالینا کیونکر جائز ہو گا؟۔
لیکن ہم علماء کرام اور حفاظان عظام کو بلی کا بکرا بنایا گیا اور ہم ہی لوگوں نے یہ فتویٰ دیا کہ اب لوگوں میں للہیت باقی نہیں رہی،اس لئے امامت و خطابت کی اجرت لینا جائز ہے۔اور ہم اجرت لیکر امامت بھی کرتے ہیں،خطابت بھی کرتے ہیں اور دینی تعلیم بھی دیتے ہیں۔
اس کو آپ اس طرح سمجھیں کہ پڑھنے کے وقت جو جائز نہیں تھاوہ جائز بنا کر ہم کو پڑھایا گیا اور جب پڑھ چکے توہمیں ایسا روزگار دیا گیا جو جائز نہیں تھا لیکن ہما رے لیے جائزکیا گیا۔ اور اب جن لوگوں نے مذکورہ دونوں صورتوں میں جواز کا فتویٰ دیا ہے اگر ان کا فتویٰ امکان خطا کے طور پر غلط ہو گیا تو ہم علمائے کرام و حفاظان عظام کی پوری زندگی گویاکہ حرام وناجائز کاموں میں گزری ہیں۔ العیاذ باللہ۔
ذبوں حالی کے اسباب تو اور بھی ہیں، لیکن میں اسی پہ اکتفا کرتا ہوں۔

زبوں حالی کا تدارک

علماء کی زبوں حالی کے تدارک کی چار صورتیں پیش کرتا ہوں جو میرے فکر و خیال میں بہتر ہے تا ہم خطا کا امکان موجود ہے۔
اول:- قیام مدارس اسلامیہ کے مقاصد کی صحیح تعبیر وتشریح۔
(۱) مدارس اسلامیہ دینی تعلیم کے لیے قائم کیے گئے ہیں اور دینی تعلیم سے مراد صرف نماز،روزہ،حج اور زکوٰۃ کی تعلیم نہیں ہے۔ بلکہ اس میں ہروہ علم شامل ہے جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچتی ہے۔ ہاں اس کے ہر رکن و طریقہ اورذریعہ میں شریعت کی پاسداری لازمی ہے۔ یعنی مدارس اسلامیہ میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل شرعیہ کی بھی تعلیم دی جائے اور معاشی خوشحالی اور صحت مند زندگی کے لیے وہ علوم وفنو ن بھی قرآن وحدیث کے حوالے سے سکھائے جائیں جواس کے لیے ضروری ہوں۔اس کی مثال اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات پاک ہے کہ انہوں نے عقائد اور نمازوغیرہ کے ساتھ طب، حکمت،اور دوسرے سائنسی واقتصادی اور معاشراتی علوم فنون بھی حاصل کیے۔ ان میں مہارت تامہ کے ساتھ کتابیں بھی تصنیف کی۔کیا ہمارے لیے ان کی زندگی نمونۂ عمل نہیں ہے؟ اگر ہے تو ہمیں بھی اپنے مدارس میں بچوں کو حسب لیاقت ان علوم و فنون سے آراستہ کرنا چاہیے جن کو حاصل کرنے کے بعد مدرسے کے فارغین صرف امامت و خطابت اور مکتب میں پڑھانے کو مجبور نہ ہوں۔
(۲) مکتب، مدرسہ،دارالعلوم اور جامعہ یہ جوچار درجے ہیں ان کے نام کے ساتھ اس کی حیثیت کا تعین کیا جائے۔ اب جن اداروں کی جو حیثیت ہو اسی اعتبار سے اس ادارے کا نام رکھا جائے اور اس میں معیاری تعلیم کا انتظام ہو۔اکثر لوگ مکتب کو جامعہ لکھتے ہیں جو اہل خرد کے نزدیک وجہ تضحیک ہے۔
(۳) علم کی تقسیم دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کے نام سے نہ کیا جائے بلکہ مفید علم اور مضر علم کے اعتبار سے کیا جائے۔ جو علم مفید ہے وہ دینی تعلیم میں شامل ہے۔ اور جو علم مضر ہے یعنی جس علم سے انسانیت ومعاشرہ اور دین کو نقصان پہونچتاہو اس کو سیکھناسکھانا دونوں ناجائز و ممنوع ہے۔
(۴) اسکے بعد ان شاء اللہ فارغین مدارس اسلامیہ معاشیات کے لیے مسجد ومدرسہ کے محتاج نہیں رہیں گے اور مدرسہ ومسجد کے لیے بھی اچھے اور قابل امام ومعلم دستیاب ہوں گے اور علماء و ائمہ کی قدر ومنزلت میں اضافہ بھی ہوگاان شاء اللہ تعالیٰ۔
دوم:- طریقۂ تعلیم وتربیت کی اصلاح۔
پوری دنیا میں جہاں بھی تعلیم گاہ ہے خواہ وہ ملک کوئی بھی ہو، وہاں کا معاشرہ جیسا بھی ہو، مذہب،تہذیب وتمدن بھی الگ الگ ہو سکتے ہیں لیکن ایک چیز ہر اچھی تعلیم گاہ کے لیے مشترک ہے وہ یہ کہ وہاں تعلیم حاصل کر رہے بچوں میں تین طرح کی خوبیاں پیدا کی جاتی ہیں۔اب جن اداروں میں ان تین طرح کی خوبیاں پیدا کرنے کی صلاحیت جتنی زیادہوتی ہیں وہ ادارہ اتناہی زیادہ اچھا کہلاتا ہے اور الحمد للہ وہ تینوں خوبیاں قرآن وحدیث سے منصوص ہیں۔
پہلی خوبی:- اعتماد،بھروسہ،یقین۔
طالب علم جو علم حاصل کر رہا ہے اس پر اس کو مکمل اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ علم سب سے بہتر علم ہے۔یہ علم اسکے روشن مستقبل کا ضامن ہے،یہ علم اسے باوقار زندگی جینے کا سلیقہ عطا کرے گا۔اس علم کے ذریعہ ہم وہ راستہ طئے کریں گے جن راستوں پہ چلنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے،جن پراللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں،جن راستوں کی نشاندہی آقا کریم ﷺ نے کی ہے، اس علم کے ذریعہ طالب علم میں خود اعتمادی پیدا ہو، وہ مطمئن ہو کر حصول علم میں مشغول رہے اور ہر دن اسکا اعتماد بڑھتا جائے۔ اساتذہ کی خوشگوار اورپروقار زندگی بچوں کے لیے نقش راہ ہو،نمونہ ہو،اساتذہ کی عزت ووقار دیکھ کر بچوں کو رشک آئے،اساتذہ ایسے قابل،پر اعتماد،خوددار،عزم وحوصلہ سے بھر پور،ماں باپ کی طرح مشفق و مہر بان ہوں،اور اساتذہ و بچوں کے درمیان ایسا پاکیزہ رشتہ ہو کہ جس رشتے کو باپ اور بیٹی کے پاکیزہ رشتہ سے تشبیہ دی جا سکے، اوران کی صحبت وخدمت کو بچے اپنے لیے بہت بڑی نعمت تصور کریں۔ ادارہ میں ایسا پاکیزہ ماحول ہو کہ ہر لمحہ بچوں میں پاکیزہ اعتماد کا اضافہ ہو۔
الغرض تعلیم کا مقصد یہ ہو کہ طالب علم کو اللہ تعالیٰ کی رزاقیت اور اس کی رحمت و مغفرت پہ کامل اعتمادہو، تعلیم کے ذریعہ جو اس میں صلاحیت پیدا ہورہی ہے اس صلاحیت پہ اس کو کامل اعتماد ہو کہ وہ صلاحیت ہمیں دنیا وآخرت میں کبھی بھی ذلیل نہیں ہونے دے گی، بلکہ اس خوبی سے ہمیں دنیا میں بھی عزت ووقار نصیب ہو گی اورآخرت کی کامیابی بھی حاصل ہوگی۔یقینی طور پر وہ مدارس اسلامیہ جو اپنے بچوں میں اس طرح کے اعتماد پیدا کر پارہے ہیں وہ قابل مبارکباد ہیں۔
دوسری خوبی:- ایجاد،اختراع اور نئے رنگ وآہنگ کی تلاش۔
کسی بھی کامیاب تعلیمی ادارے کی یہ روح کی حیثیت ہے کہ وہاں زیر تعلیم بچوں میں کچھ نیا کرنے کاجذبہ، نئی فکر، نئے میدان عمل کی تلاش،انسانیت کی عروج و ارتقاء کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کرنا، افہام وتفہیم،تبلیغ و اشاعت اورتحقیق و تفتیش کے نئے ذرائع وطریقے کا ایجاد کرنا یا استعمال کرنے کا ہنر سیکھنا،جدت طرازی وجدت پسندی کاخوگر بننااور اسکو فروغ دینا،یہ سب اور اس طرح کی دیگر خوبیوں کا پایا جانا ایک کامیاب طالب علم کا خاصہ اور ایک کامیاب تعلیمی ادارے کا حصہ ہے۔
جبکہ اکثر مدارس اسلامیہ کا حال اقبال کے اس شعر میں ہے۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
یہ مرحلے کٹھن ہیں قوموں کی زندگی میں
الا ما شا ء اللہ۔
بہت سے دینی ادارے ہیں جہاں نئے ر نگ و آہنگ کے ساتھ تعلیم دی جاتی ہے اور طلباء کو نئے چیلنجیز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے،ایسے اداروں کو مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔نیچے سے لیکر اوپر تک تمام مدارس اسلامیہ میں شروع ہی سے بچوں میں حوصلہ مندی، نیا جوش و جذبہ اورمحنت ولگن کے ساتھ نئی بلندیوں تک رسائی کا عزم واستقلال پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دینی ادارے میں زیر تعلیم بچے بھی احساس کمتری سے باہر نکل کر باوقار زندگی کا شعورحاصل کرسکیں اور زندگی کی حقیقت کو سمجھیں اور حالات کے سامنے زیر نہ ہوں بلکہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
اگر دینی اداروں میں اس طرح کا ماحول اور سازگار فضا نہیں بنائی گئی تو دن بدن مدرسے بھی کمزور ہوں گے اور انکے فارغین بھی۔ دیکھا اور محسوس یہ کیا جا رہا ہے کہ مدرسوں میں پڑھنے کے لیے بچے دستیاب نہیں ہیں۔میں نے اس طرح کابھی اشتہار دیکھاہے کہ معلم کو اتنی اتنی تنخواہ دی جائے گی‌لیکن شرط یہ ہے کہ کم ازکم دس بچوں کو مدرسہ میں پڑھنے کے لیے لےکر آئیں۔
ضرورت ہے کہ دینی اداروں میں بھی بچوں کو ایسی کھلی فضا فراہم کی جائے جہاں وہ آزادی کے ساتھ سوچ سکیں،سوال کر سکیں، آزادی کے ساتھ لکھ سکیں اور بول سکیں۔ذہنی بالیدگی اور شعور وآگہی کے عروج و ارتقا کے لیے ضروری ہے کہ آزادانہ ماحول میں دین وسنت پہ عمل کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کاخوف،رسول اللہ ﷺ کی محبت، قرآن و سنت سے تمسک کا بچوں کے درمیان عملی مظاہرہ کیا جائے۔ پھر بچوں سے اساتذہ ومنتظمین کے نقش قدم پہ چلنے کی تلقین کی جائے۔ساتھ ہی تصوف کا رنگ،خدمت خلق کا جذبہ پیدا کیا جائے۔اکثر ہوتایہ ہے کہ اساتذہ ومنتظمین خود کو اصول و ضوابط سے ماوراء تصور کرتے ہیں اور بچوں کو سختی کے ساتھ اصول و ضوابط کا پابند بنانا چاہتے ہیں اور یہی قول وفعل کا تضادبچوں کی زندگی میں منفی اثر ڈالتا ہے۔

مقصود ہے اس بزم میں اصلاح مفاصد
نشتر جو لگاتا ہے وہ دشمن نہیں ہوتا

تیسری خوبی:- کردار سازی
کسی بھی تعلیمی ادارے کی اہمیت وشہرت اور اس کی ناموری اس بنیاد پہ ہوتی ہے کہ وہاں زیر تعلیم طلباء کے کردارو عمل کتنے اچھے ہیں۔ قابل اعتماد، بھروسے مند اور تہذیب واخلاق سے کس قدر آراستہ وپیراستہ ہیں۔ مدارس اسلامیہ میں کردار سازی کاعمل ہوتا ہے اس میں کوئی شک نہیں اور یہ اس کا خاصہ بھی ہے۔لیکن موجودہ دور میں حالات نے کچھ ایسے کروٹ بدلے ہیں کہ کردار سازی کا عمل کچھ رک سا گیا ہے اور کچھ بدلا بھی ہے۔آج اکثردینی ادارے دین کیلئے کردار سازی کم کرتے ہیں، مشرب ومسلک کے لیے زیادہ ذہن سازی کرتے نظر آرہے ہیں۔ اس سے دین وسنت کی روح جو اصل ہے وہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ضرورت ہے کہ کردار سازی کاعمل پھر سے صحابۂ کرام و سلف صا لحین کے نقش قدم پہ چل کر اور قرآن وسنت کے مطابق کی جائے۔ فارغین ادارہ مومن کامل بن کر نکلیں اور انکے کردار وگفتار میں مومنانہ شان اور عالمانہ وقار وعظمت نظر آئے۔انہیں دیکھ کر اور سن کر اللہ یاد آئے،رسول اللہﷺ کی محبت و عقیدت میں اضافہ ہو،سلف صالحین وبزرگان دین کی محبت واطاعت کا جذبہ پیدا ہو،حسن کردار،حسن گفتار اور حسن عمل کا نمونہ نظر آئے ۔
سوم: دس بارہ سال کی طویل زندگی مدرسہ میں گزارنے کے بعد بھی طالب علم اگر صوم و صلاۃ کا پابند نہ بن سکا، نفاست وپاکیزگی کا خوگر نہ بنا،صبر و تحمل اور حلم وبرد باری کا پیکر نہ بنا، تو میں سمجھتا ہوں کہ دس بارہ سال اس کے برباد ہوگئے۔ مدرسے کی تعلیم کے بعد دین ودنیا کی کامیابی سے اس کو نزدیک ہونے کے بجائے وہ دور ہو گئے تو یہ قابل افسوس ہے۔کردار سازی:
دینی اداروں میں کردرا سازی کے لیے قرآن وسنت کے حوالے سے تین طرح کے اصول و ضوابط نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ان ضوابط پر روشنی ڈالنے سے پہلے میں تمثیلاً ایک واقعہ پیش کرتا ہوں۔
ایک آفس کے سامنے ایک شخص نے جیب سے چشمہ نکالا اور پہن کر اپنی آفس میں داخل ہوا،انجانے میں چشمے کے ساتھ اس کا بٹوا بھی نکل کر زمین پہ آگرا،وہ شخص آفس کے کاموں میں مشغول ہوگیا اور کافی دیر تک وہ بٹوا یوں ہی زمین پہ پڑارہا، لیکن کسی نے بھی اس کی جانب توجہ نہیں دی۔ کچھ دیر بعد جب وہ شخص باہر نکلا تو اس نے اپنا بٹوا اٹھایا اور چلا گیا۔ میں نے جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ آفس کے چاروں جانب اندر باہر سی سی کیمرے لگے ہوئے ہیں اور یہ سبھی کو معلوم بھی ہے کہ جب بھی کسی نے کسی کا گرا ہوا سامان اٹھایا وہ پکڑا گیا۔ اس لیے اس پور ے کیمپس میں کسی بھی طرح کا کرپشن نہیں ہوتا، یہاں آنے جانے والے لوگ سبھی اچھے اور ایمان دار ہیں۔ بیشک سب اچھے اور ایماندار ہوں گے۔ لیکن انہیں اچھا اور ایماندار بنانے میں سی سی ٹی وی کیمرے کابھی بہت بڑاتعاون ہے۔
زنا جسکی سزا سو کوڑے سے لیکر موت تک کی ہے اس سے روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لاتقربو الزنا۔ زنا کے قریب مت جاؤ۔ زنا کرنا تو بہت ہی سنگین جرم ہے خبردار ایسے ماحول میں بھی نہ جاؤجہاں زنا ہونے کا امکا ن ہو۔ یعنی تدبیر و حکمت اور اسباب و وسائل کو بھی قدر استطاعت استعمال کرنا چاہیے تاکہ اصول و ضوابط میں پاسداری قائم رہے۔
(۱) مدارس اسلامیہ میں بھی با لکل شفافیت ہونی چاہئے۔ ایسا ماحول اور انتظام ہونا چاہیے کہ جہاں جرم کرنا محال ہو جائے۔اس کے لیے دیگر وسائل کے ساتھ پہریدا ر اور سیسی کیمرے لگائے جائیں۔ ساتھ ہی تمام بچوں کے ذہن وفکر میں یہ بات راسخ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے، کراماً کاتبین ہمارے اعمال کو لکھ رہے ہیں،ہمیں قیامت میں اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے،ہمارا کوئی عمل رب قدیر کی گرفت سے باہر نہیں۔
(۲) جس طرح سے سالانہ امتحان میں اچھی کار کردگی پہ انعام دیا جاتا ہے اسی طرح اچھے اخلاق وکردار کا مظاہرہ کرنے والے بچوں کو بھی انعام واکرام سے نوازاجانا چاہیے۔ اور اس کے لیے ایک غیر جانب دار نظام ہو۔ اس لیے کہ اس میں اگر تھوڑی سی بھی جانب داری کی گئی تو سارا انعام واکرام بیکار چلاجائے گا۔ کیوں کہ ایمانداری کی پرکھ با لکل ایمانداری سے ہونی چاہیے۔
(۳) ان سب تدابیر کے باوجود بھی اگر کسی طالب علم سے کوئی غلطی ہو جائے تو اسے ایک متعینہ اصول وضوابط کے تحت ہی کوئی سزا دینی چاہیے اور اس میں بھی ادارہ واساتذہ کو بالکل غیر جانب داری کا مظاہر ہ کرنے کی ضروت ہے۔
ان شاء اللہ العزیز اگر مذکورہ بالا نکات پہ توجہ دی گئی تو علمائے کرام کی زبوں حالی بھی ختم ہو گی اور ائمۂ مساجد، خطبائے کرام ونعت خوان رسو ل اکرم ﷺ کی عزت وقار میں اضافہ بھی ہو گا۔
(۴) دینی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کے دل ودماغ میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ تم زکوٰۃ،صدقات کھا کر تعلیم حاصل کرتے ہو۔جو تمہارے لئے جائز نہیں تھا حیلۂ شرعی کے بعد جائز کیا گیا۔ لہٰذا علت حیلۂ شرعیہ کی رعایت ہر حال میں کرنی ہو گی۔
پوری زندگی علمائے کرام اس احساس کمتری میں مبتلا رہتے ہیں کہ ذریعۂ تعلیم بوجہ مجبوری ہمارے لیے جائز تھا۔اور کبھی معاشرہ بھی اس کا طعنہ دیتا ہے۔
حیلۂ شرعی کے موجودہ طریقۂ کار:
ابھی دینی اداروں کو فقراء ومساکین کے ماتحت رکھ کر کسی غریب ومسکین شخص یا کسی غریب ومسکین طالب علم کے ذریعہ اموال زکات و صدقات کاحیلۂ شرعی کرتے ہیں اور پھر مدارس اسلامیہ میں اس کو استعمال کرتے ہیں۔ یہی کام وہ دینی تنظیمیں بھی کرتی ہیں جو خود کو پاسبان ملت شمار کرتی ہیں۔
ممکنہ بہتر طریقے کی ضرورت:
میں اس سلسلے میں جسارت وجرأت کے ساتھ، نیز معذرت وتوبہ اور روجوع کے ساتھ ایک معروضہ پیش کرتا ہوں۔ اس سلسلے میں علمائے کرام سے استصواب رائے اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی گزارش بھی کرتا ہوں۔
معروضات و نمونے:
مصارف زکوٰۃ و صدقات واجبہ کا ایک مصرف فی سبیل اللہ بھی ہے۔
(١) مجاہدین اسلام جو جہاد میں جاتے ہیں ان کے بارے میں آقا کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنے گھروں سے جہاد کے لیے نکلتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے۔علمائے کرام نے اس حدیث کو سامنے رکھ کر فتویٰ دیا کہ مجاہد بھی مصارف زکوٰۃ میں شامل ہے۔ کہ وہ اللہ کے راستے میں ہے۔
(٢) آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حج بیت اللہ کے لیے گھر سے نکلا وہ اللہ کے راستے میں ہے۔ لہٰذا حاجی بھی فی سبیل اللہ کے ضمن میں مصارف زکوٰۃمیں شامل ہے۔
(٣) رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔من خرج فی طلب العلم فھو فی سبیل اللہ۔ یعنی جو علم حاصل کرنے کے لیے نکلا وہ اللہ کے راستے میں ہے۔
مجاہد وحاجی کی طرح طالب علم کو فی سبیل اللہ میں کیوں شمار نہیں کیا جا سکتا؟ ہا ں میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں اور آپ جیسے عام مسلمان یہ کام نہیں کر سکتے بلکہ فقہائے اسلام ومفتیان عظام ہی اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یہ انہیں کے دائرۂ اختیار میں ہے۔جو کبھی خود مدرسہ کے طالب علم بھی رہے ہیں!۔۔۔ الا ماشاء اللہ!۔۔۔
اگر طالب علم بھی فی سبیل ا للہ میں شمار ہو جا ئے تو پھر حیلۂ شرعیہ کے بعد حلال ہونے کا مسئلہ ختم ہو جائےگا۔ اور طالب علم بھی مجاہد فی سبیل للہ اور عازم حج بیت اللہ کی طرح ایک منفرد عزت وحشمت کا حامل ہوگا۔
فوائد:
طلبۂ مدارس کی ایک عزت وقار ہوگی،اور پھر علماء کرام و مفتیان عظام و فقہائے اسلا م کو نظر حقارت سے دیکھنے کی کسی کوہمت نہیں ہوگی۔ فراغت کے بعد رقوم مرحومہ کے نام پر یہ دوکام جو ہما رے لیے عام طور پر مختص کیے جاتے ہیں یعنی امامت کرنا اور قرآن پڑھانا اور اصلا جس کی دنیاوی اجرت لینا جائز نہیں ہے۔اور فی زماننا وہ ہمارے لیے بوجہ مجبوری جائزکر کے ہمیں دیا جاجاتاہے اور ہم سے نوکروں جیسا سلوک کرکے ہم سے وہ کام بھی کروایا جاتا ہے جو امام وقت اور دینی معلم کے شان کے خلاف ہے۔اور اس روشن خیالوں کا طعنہ مستزاد، اس کا مداوا کسی‌قدرممکن ہو سکے گا۔
اس سلسلے میں میرا ناقص مشورہ ہے کہ ہر مسجد کے ساتھ ایک فلاحی ادارہ قائم ہو اور علماء و حفاظ کو اس فلاحی ادارے میں بطور فل ٹائم ملازم تقرر کیا جائے اور انہیں امامت و دعوت کا فی سبیل اللہ کام بطور عظمت دی جائے ،کہ آپ اس فلاحی ادارے کے سربراہ ہیں، اس لیے یہ آپ کی ہی شان وعظمت ہے کہ عوام‌ آپ کی امامت میں نماز اد کریں۔اور دینی تعلیم کی ترویج و اشاعت اور دعوت و اصلاح آ پ کے ذریعے ہو۔ یہ کام آپ حلقۂ درس میں کریں، تقریرو خطابت سے انجام دیں یا تحریری طور پر کریں، یہ سب آپ کا حسن عمل اور حسن کردار کامظہر ہوگا۔
گاؤں اورقصبات کے وہ لوگ جو سالانہ جلسہ میں پانچ لاکھ خرچ کر سکتے ہیں۔ پانچ لاکھ کے بجٹ سے ایک فلاحی ادارہ ضرور قائم کر سکتے ہیں۔جو ان کے دینی و دنیاوی فلاح کے لیے بہتر ادارہ ہو سکتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کام ایک دن میں نہیں ہوگا۔ اس کے لیے طویل مدتی پروگرام کے تحت ذہن سازی کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر سلیقے سے کوئی کام کیا جائے تو وہ ضرور پورا ہوگا۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ:

گل ادب کو کترتا ہے اب وہی ظالم
جو دیکھنے میں پورا ادیب لگتا ہے

Wednesday, December 30, 2020

عمل‌ پیہم کا‌ فلسفہ اور قانون فطرت

تحریر: محمد شہادت حسین فیضی

کوڈرما، جھارکھنڈ، 9431538584




بے محنتِ پیہم کوئی جوہر نہیں کھلتا

جہد پیہم کے حسیں خبط کو سر میں رکھنا
پاؤں تھک جائیں تو سوچوں کو سفر میں رکھنا

عمل پیہم کا لغوی معنی ہے: مستقل اور متواتر عمل

یقین محکم ، عملِ پیہم ، محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں( بانگ درا)

کامیابی‌ کا زینہ ، زینہ بزینہ ہے
کامیابی کا 1% انحصار آپ کے جذبۂ عمل اور 99% انحصار آپ کی تسلسل کے ساتھ محنت پر ہوتا ہے۔”
عن عائشة رضي الله عنها ، أنها قالت: سُئل رسول الله ﷺ : أي الأعمال أحب إلى الله؟ قال: ” أدوَمها وإن قلَّ ” (متفق عليه)
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم‌ نے فرمایا کہ "وہ عمل جو تسلسل کے ساتھ کیاجائے گرچہ وہ تھوڑا تھوڑا ہو”
اس‌حدیث پاک کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
-آہستہ آہستہ بلندی پہ چڑھنے والا تادیر بلندی پہ باقی رہتا ہے
_تدریج و استمرار اللہ کو بھی پسند ہے
-پھونک پھونک کر قدم رکھنے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
-لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں اور اس کے عمل در آوری میں تدریج واستمرار کی بہت اہمیت ہے۔
-ہروہ کامیابی جس میں نقصان کا خدشہ کم سے کم ہو اس کے لیے تدریج لازم و ضروری ہے۔
-سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے والا کامیاب ہوتا ہے
تدریج‌ کا مفہوم:
تدریج یعنی آہستہ آہستہ رک رک کر بمقتضائے حال ترقی کی کوشش کرنا یا بلندی پہ جانے کی سعی کرنا یا سماج و معاشرہ میں تبدیلی لانے کی جدوجہد کرنا یہ سنت رسول ہے۔مشیت رب العالمین ہے۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں پودے کے لیے تیار مٹی میں ایک ساتھ کدواورساگون (درخت) کا دانہ ڈالا گیا ایک ماہ تک آبیاری اور دیکھ ریکھ کے بعد یہ دیکھا گیا کہ ساگون کے صرف دو کونپلے نکلے ہیں جبکہ کدو کی لت کافی بڑی ہو گئی ہے۔ کاشتکار سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو اس عقلمند کاشتکار نے بتایا کہ اللہ تعالی کی مشیت ہے کہ جو چیز جتنی تیزی سے بڑھتی ہے اس کا خاتمہ بھی جلدی ہو جاتا ہے۔ اور جو چیز دھیرے دھیرے پروان چڑھتی ہے وہ تادیر قائم رہتی ہے۔ کدو کی لت صرف پانچ سے چھ ماہ میں اپنی عمر پوری کر کے ختم ہو جائے گی جبکہ ساگون کی عمر پچاس سے ساٹھ سال تک ہے اور پھر وہ فرنیچر وغیرہ میں سالہاسال کارآمد‌رہتا ہے اور پھر جلاون میں بھی مفید ہوکر ختم ہوتا ہے۔
تدریج کا قرآنی مفہوم
قرآن مقدس سے پہلے جتنی کتابیں اور صحائف نازل ہوئیں سب کے سب ایک بارگی نازل ہوئی انبیاء ومرسلین جنہیں کتاب یا صحیفہ ملنی تھی انہیں ایک بارگی عطا کر دی گئی۔ ایسا اس لیے بھی ہوتا تھا کہ یہ کتابیں اور صحائف ایک مخصوص قوم اور مخصوص مدت کے لیے راہ ہدایت ہوتی تھی چونکہ ان کے انبیاء و مرسلین بھی کسی خاص علاقے اور کسی خاص قوم کے لیے ہی مبعوث ہوتے تھے۔ اور انبیاءو مرسلین بھی وقفہ در وقفہ تشریف لاتے تھے۔ بلکہ ایک ہی مدت میں مختلف اقوام و ملک کے لیے متعدد انبیاء ومرسلین مبعوث ہوا کرتے تھے۔ لیکن ان کے گزرنے کے بعد بہت جلد ان کے دین کا بھی خاتمہ ہوجاتا تھا۔ بخلاف آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مقدس کے۔ قرآن مقدس رک رک کر اور تھوڑا تھوڑا وقفہ وقفہ سے 23 سال کی مدت میں نازل ہوا. اللہ تعالی فرماتا ہے۔ ترجمہ : اور قرآن ہم نے جدا جدا کر کے اتارا تاکہ تم(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر حکم سناؤ. اور ہم نے اسے تدریجاً نازل کیا (سورہ بنی اسرائیل(17) آیت نمبر 106)۔
قرآن پیدائش سے لے کر موت تک کے تمام مراحل کے لیے مشعل راہ ہے بلکہ ماقبل پیدائش اور مابعد موت کے بھی حقائق و احوال پر جامع ہے۔ جس سے ایک بہترین سماج و معاشرہ جو اپنے تمام خوبیوں کا جامع ہو تشکیل کرتا ہے۔ گویا ایک بہتر سماج و معاشرہ کی تشکیل کے لیے 23 سال کی مدت صرف ہوئی۔ ایک خراب معاشرہ سے اچھے معاشرہ کی تشکیل ارتقائی (Evolotionary) طور پر مکمل ہوئی۔کہ ایک اچھائی کے بعد دوسری اچھائی پھر تیسری،چوتھی اس طرح سے 23 سال میں اسلام اچھائیوں کا ایسا جامع دین ومذہب ہوگیا جس کو صبح قیامت تک باقی رہنا ہے۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادى سینا۔
تدریج اور سیرت النبی
دنیا میں خیالی انقلابی شخصیات بھی بہت ہیں لیکن مستند انقلابی شخصیات بھی ہزاروں میں ہیں اور ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کا مقام ان تمام میں اول ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے ہے کہ رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے پر امن انقلاب (Peaceful Revolution) کے ذریعہ گمراہوں کو راہبر بنادیا۔
خود نہ تھے جو راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اول تا آخر ذہن و فکر کی تبدیلی کے لیے تبلیغ وتحریک کو اور لوگوں میں اقامت دین کے لیے احکامات کو نافذ کرنے میں تدریج و تعدیل سے کام لیاہے۔ ردعمل کے طور پر فوری اقدام کرنا آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں نہیں ہے بلکہ حالات و واقعات کے مطابق قدم بقدم (Step by step) زینہ بزینہ آگے بڑھنا بلندی پہ جانا یا معاشرہ میں تبدیلی لانا سنت کریمہ متواترہ ہے۔
أسوۂ حسنہ کے نمونے:
اسکی مثال فتح مکہ 8 ہجری کے بعد قریب قریب پورے حجاز میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین پر قبضہ نہیں کرنا تھا بلکہ زمین پر بسنے والے انسانوں کے دلوں پر قبضہ کرنا تھا۔ اس کے لیے دو طریقے اپنائے گئے۔
(1) فوری طور پر احسان و سلوک کا معاملہ کیا گیا کہ سب کو پناہ دی گئی۔ پھر سب کو معاف کر دیا گیا۔ اور ثقیف و ہوازن کے مال غنیمت میں سے انہیں اتنا دیا گیا کہ وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔(2) دوسری جانب قدیم رسم و رواج کو ختم کرنے اور اسلامی شرعی احکام و قوانین کے نفاذ میں تدریجاً عمل کیاگیا۔ چنانچہ فتح مکہ رمضان 8 ہجری کےدو ماہ بعد جو پہلا حج ہوا وہ قدیم زمانۂ جاہلیت کے رسم و رواج کے مطابق ہی ہوا۔ یعنی آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے بطور اصلاح شرک کا خاتمہ کیا کہ انسانی گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے جسے اللہ تعالی معاف نہیں فرماتا ہے۔ ایک سال تک حج و عمرہ کے رسم و رواج میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی کہ حج و عمرہ ان کے لیے ایک جذباتی عمل تھا۔ جس میں تعرض اصلاح سے فرقہ بندی اور گروپ بندی ہونےکا خدشہ تھا۔ اور جب ایک سال تک لوگ توحید پر قائم رہ لیے تو دوسرے سال یعنی 9 ہجری کا حج بھی دو طریقے سے ادا کیے گئے مسلمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قیادت میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق حج ادا کیے جبکہ کفار و مشرکین کو چھوٹ تھی کہ وہ جیسے چاہیں حج ادا کریں۔ تاہم 9 ہجری کے حج کے لیے حضرت ابوبکر کو روانہ کرنے کے بعد ہی سورۂ توبہ کی آیت نمبر 28 نازل ہوئی جس میں کفار و مشرکین کو حرم شریف میں آنے سے روکا گیا ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اس آیت کریمہ کے ساتھ مکہ بھیجا تاکہ لوگوں کے درمیان یہ اعلان کردیں کہ آئندہ سال سے کفار و مشرکین حرم میں داخل نہیں ہو سکتے۔ یہ پابندی دو حج کے بعد تیسرے حج سے نافذالعمل ہوا۔ اس کی حکمتیں کیا تھیں؟ ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ مشرکین کا مشرکانہ طور پر حج کرنا یا برہنہ ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرنا آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند تھا۔ اپنی اس نظافت طبع کی بنیاد پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اقتدار حاصل ہونے کے بعد بھی دو سال تک خود کو حج کرنے سے روک لیا اور کفار و مشرکین کو دو سال تک حج و عمرہ کی اجازت دی تاکہ وہ مسلمانوں سے مل جل کر اور انہیں دیکھ کر، سمجھ کر اسلام قبول کر لیں۔ اور اس کے بہتر و مثبت نتائج سامنے آئے کہ اس دو سال کے بعد پورے خطۂ حجاز میں ایک بھی کافر و مشرک باقی نہ رہا۔
تدریج اور نفوذ شریعت
10 ہجری کا حج جسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے کے موقع پر اللہ تعالی نے آیت کریمہ "آج تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا” نازل فرمایا یعنی 10 ہجری کو دین مکمل ہوا۔ جس کی ابتدا تئیس سال قبل دعوت توحید سے ہوئی تھی۔ انسانوں سے بے شمار گناہ سرزد ہوئے ہیں ان میں سب سے عظیم گناہ شرک ہے اور ہزاروں نیکیاں ہیں لیکن تمام نیکیوں کی اصل عقیدۂ توحید ہے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے سب سے بڑی نیکی جو اصل نیکی ہے توحید کی دعوت دی اور سب سے بڑے گناہ شرک سے بچا یا۔ پھر تدریجاً دوسرے گناہوں سے روکا اور دوسری نیکیوں کا حکم دیا۔ بخاری شریف کی یہ حدیث ملاحظہ کریں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قرآن کریم کا جو حصہ پہلے نازل ہوا وہ مفصل سورتوں میں سے ایک سورہ ہے جس میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے۔یہاں تک کہ جب لوگوں کے دلوں میں اسلام راسخ ہو گیا تو اس کے بعد حلال و حرام کے احکامات نازل ہوئے۔ اگر شروع میں ہی یہ حکم نازل ہوتا کہ شراب نا پینا تو لوگ کہتے کے شراب کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ اور اگر یہ حکم نازل ہوتا کہ زنا نہ کرنا تو لوگ کہتے کہ ہم زنا کبھی ترک نہیں کریں گے (بخاری شریف کتاب التفسیر باب تالیف القرآن)
اللہ تعالی نے دین اسلام کے تمام قوانین و احکامات ایک بارگی امت پر نازل نہیں فرمائی بلکہ تدریجا تئیس سال کی مدت میں پورا قرآن نازل ہوا اور دین مکمل ہوا۔ معلوم ہوا کہ تدریج نہ صرف آقا کریم کی سنت ہے بلکہ یہ سنت الہی بھی ہے۔
ایک آدمی چھلانگ لگا کر چھت پر چڑھ سکتا ہے لیکن اس کے گر کر مجروح ہونے کا خدشہ ہے جبکہ سیڑھی کے ذریعے چڑھنے والے کا بغیر کسی نقصان کے منزل تک پہنچنا یقینی ہے۔
ایک عام کافر و مشرک کو مسلمان بنانے میں بھی تدریجی عمل کی ضرورت ہے ایسا ہی ایک عام مسلمان کو کامل مؤمن بنانے میں بھی تدریجی عمل کی ضرورت ہے۔ ایسا ہی سماج و معاشرہ میں بھی اصلاح و تبدیلی کے لیے منصوبہ بند تدریجی عمل کی ضرورت ہے۔
پچھلی دو صدیوں کی تنزلی‌ کے اسباب
پچھلے دو سو سالوں میں مسلمانوں کی تنزلی پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ محسوس ہوگا کہ اس درمیان پوری دنیا میں سب سے زیادہ مسلمان قتل کیے گئے یا شہید ہوئے۔ پھر ان مظالم سے بچنے کے لیے سب سے زیادہ تنظیم اور تحریک مسلمانوں نے ہی بنائی ہے اور چلائی ہے اور اس حفاظتی اقدام سے بھی مسلمانوں کا ہی جانی و مالی نقصان ہوا۔ نتیجے کے اعتبار سے یہ ساری تنظیمیں تحریکیں صفر ثابت ہوئی ہیں اور ختم بھی ہوگئیں۔ اور اگر ان میں سے کچھ باقی بھی ہیں تو وہ کالعدم ہیں حالانکہ اس درمیان حج و عمرہ کرنے والوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ علماء، حفاظ اورقراء کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے اور دینی تبلیغ و اشاعت کے کام بھی زور و شور سے چل رہے ہیں۔ کثرت سے دینی مدارس و جامعات قائم ہوے ہیں۔ کثیر تعداد میں مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ ساتھ ہی نمازیوں میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ ان سب کے باوجود مسلمان ہر دن تنزلی کی جانب گامزن ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہمیں اسی کو دریافت کرنا ہے میری ناقص فکروفہم کے مطابق اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم نے مسواک، نکاح، وضو، نماز جیسے عبادات کی سنتوں پر خصوصی توجہ دی اور اسی کو دین کامل سمجھ لیا ہے جب کہ اقامت دین اور حصول اقتدار اعلی کی کوشش کے تعلق سے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنتیں ہیں مثلا ہر معاملے میں عدل و احسان، تدریجی اقدام، توازن و میانہ روی، عفوودرگزر، مشاورت میں اختلاف رائے کو قبول کرنا، سب وشتم کرنے والوں کو لقمہ تر سے خاموش کرنا، انتقام نہ لیناوغیرہ جیسی سنتوں سے روگردانی کرنا ہے۔
بمصطفے برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست
چوں باونرسیدی ہمہ بو لہبی است

قرآن_کا_حکم_ہے_سائنس_پڑھو




وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

 اورہم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
ہم مسلمان ہیں اور ہم نے قرآن کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ اس کے بعد بھی  ہم ذلیل و خوار ہیں؟ اس کی وجہ کیاہے؟کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں؟ اور رسمی طور پر قرآن سے منسلک ہیں؟ یا اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ ہم نے مسلمان ہونے اور قرآن نہ چھوڑنے کا صحیح مفہوم نہیں سمجھا ہے؟۔ آئیے ہم اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے متعدد طبقات کا ذکر ہے۔ مثلا مسلمان، مومن، محسن، متقی،صالح، قانع اور صابرو شاکر وغیرہ۔ لیکن ہم یہاں صرف مسلمانوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ جس کی جانب علامہ اقبال نے مذکورہ شعر میں اشارہ کیا ہے کہ کس طرح کے مسلمان گزشتہ زمانے میں معزز تھے؟ کیاوہ تارک الدنیا مسلمان تھے؟ مجذوب وپاگل تھے، پیادہ پا، گدڑی پوش، ملنگ، ملیچھ، خاک آلود، خاک نشیں، ٹاٹ پوش، نیم برہنہ، اور نیم پاگل، وغیرہ تھے؟ یا وہ مسلمان معزز تھے جنہوں نے دنیا کو فتح کیا۔ جاہ و حشم کے ساتھ دنیا پر حکومت کی، بڑے بڑے شہر بسائے، حفاظت کے لیے قلعے اور آرام کے لیے محلات کی تعمیر کی، خشکی اور تری میں سفری سہولت کے لیے نئے نئے ایجادات کیے، عمدہ اور لذیذ کھانوں کے اسباب پیدا کیے، عمدہ اور آرام دہ لباس کے لیے کارخانے قائم کیے، علاج و معالجہ کے لیے شفاخانہ اور دوا ساز کمپنیاں قائم کیں، سائنس ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس وغیرہ کے لیے تجربہ گاہیں اور ریسرچ سینٹر بنائے،علمی و تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیاں قائم کیں۔ کس طرح کے مسلمانوں کو آپ کامیاب اور معزز سمجھتے ہیں؟ یا ہم کس طرح کے مسلمان بننا چاہتے ہیں؟ اس طرح کے اور بھی سیکڑوں سوالات ہیں،لیکن دو لفظوں میں اگر ہم اپنی‌تنزلی اور مغلوبیت کا راز بتاسکیں تو وہ ہے ہمارا فکری تضاد،کہ ہم بات کرتے‌ہیں‌معزز،محترم،اشرف اور خیرامت کی لیکن روش اپناتے ہیں کاہلی،سستی،بزدلی،قلندری،فقیری اور جاہلیت کی۔
 اصل واقعہ یہ ہے کہ ہم فکری تضاد کا شکار ہوکر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کی خواہش تو ہے کہ ہمیں شان و شوکت کی زندگی نصیب ہو جو کہ ایک اسلامی‌سوچ بھی  ہے۔ لیکن ہم نے طریقہ اپنا رکھا ہے Dark Age کے رہبانیوں اور پادریوں کا جہاں ہر طرف جہالت اور توہم پرستی کا دور دورہ تھا۔ہم فخرکناں ہیں تارک الدنیا مجذوب اور خاک نشین ہونے پر۔ یعنی تسخیرکائنات کے رموز و معارف اور قدیم و جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم جس سے یہ اعجاز حاصل ہوتا ہے اسے علم دنیا کہہ کر ہم نے مسترد کر دیاہے اور اپنی ساری توانائی ایسے علم و ہنر کے حصول میں صرف کردی جس سے محض مجذوب، خاک نشیں، اورتارک الدنیا ہوا جاسکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات اور اس کے انقلابی مزاج‌ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مقدس میں جو ہمیں تعلیم دی ہے اس میں دنیا و آخرت کی کامیابی اور عزت و حشمت کا حکم ہے۔ میں قرآن مقدس سے تین حوالے پیش کرتا ہوں۔
(1) چنانچہ اللہ تعالی نے  سورہ "البقرہ"کی آیت نمبر 201/ 202  میں مسلمانوں کو جو سب سے بہتر دعا مانگنے کا سلیقہ سکھایا ہے وہ یہ ہے۔ ترجمہ: "مسلمانوں میں سے جو لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں اچھی زندگی عطا فرما اور آخرت میں بھی اچھائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا۔ تو اللہ تعالی وہ سب کچھ دیتا ہے جو وہ مانگتے ہیں یا کماتے ہیں اور اللہ تعالی جلد حساب لینے والا ہے۔"
 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے ہمیں سب سے پہلے اچھی دنیا مانگنے کا حکم دیا ہے اور ظاہر ہے کہ جب ہم اللہ تعالی سے اچھی دنیا مانگیں گے تو اچھی دنیا کے لیے کوشش بھی کریں گے تبھی ہم مومن کامل اور عامل قرآن ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے "تم ہی سر بلند رہو گے شرط ہے کہ مومن رہو."( آیت نمبر139 سورہ آل عمران)
گویا کہ مسلمانوں کا معزز ہوناایمان کے شرائط میں سے ہے اور دنیا کی اچھی زندگی کے لیے جس علم کا حصول ضروری تھا   غلط فہمی سے ہم نے اس کو علم دنیا کہہ کر اس سے دوری اختیار کرلی ہے جسکے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
(2) اللہ تعالی نے غار حرا میں جو پہلی پانچ آیتیں نازل فرمائی تھی وہ سب کے سب علم سے ہی متعلق ہیں۔مفسرین فرماتے ہیں کہ پہلی وحی میں إقرأ یعنی لفظ پڑھ کی تکرار بتاتا ہے کہ قرآن و اسلام کا پہلا مطالبہ ہم سب سے حصول علم کا ہے۔
پہلی وحی کے ابتدائی پانچ آیتوں کا مفہوم سمجھیں؛
(١) پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے ساری کائنات کی تخلیق فرمائی ہے تمہارے فائدے کے لیے۔ اپنے  رب کے نام سے ان حقائق و خصائل کی معرفت حاصل کرو جو اللہ تعالی نے اس دنیا میں پیدا فرمایا ہے،تاکہ تم اس سے مستفیض ہو سکو،اور دنیا تمہارے لیے مسخر ہو جائے۔ (٢) پڑھو عناصر اربعہ کے بارے میں جو خون کے لوتھڑے کی شکل میں ہے ،جس سے اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا۔سوچو انسان کی تخلیق کی ابتدا کیسے ہوتی ہے؟ اوراس کی نشونما اور انتہا کیسے ہوتی ہے۔ اس کے تراکیب وحقائق کی معرفت حاصل کرو تاکہ صحت مند رہ سکو اور اللہ کی ربوبیت،خلاقیت اور صانع ازل کی نازک اور پیچیدہ ترین صنعت یعنی جسم انسانی پر غور و فکر کرکے اپنے معبود حقیقی پر ایمان پختہ کر سکو۔ (٣) پڑھو اس رب کے نام  سے جو بڑا ہی کریم ہے کہ اس سے زیادہ کرم والا اور کوئی نہیں ہے، یعنی جو بھی پڑھو اس کے کرم کی بھیک سمجھ کر‌ پڑھو،علم کا دائرہ حلت و حرمت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے، حصول علم میں دامن اسلام اور منہج خداوندی چھوٹنے نہ پائے، کبھی علم کا غرور نہ ہونے پائے،بیشک تمہارا رب بہت ہی کرم فرمانے والا ہے۔
(٤)جس نے علم بالقلم یعنی تحریری علم حاصل کرنے کا حکم دیاہے(جن میں سب سے قیمتی قرآن مقدس ہے ،جس میں  کائنات کی ہر چیز کا روشن بیان ہے۔قلمی تحریر یہ اللہ کی بہت عظیم‌ نعمت ہے۔اس نعمت کے بعد ہم اپنی تحقیق کو لکھنے اور دوسروں کی ریسرچ کو پڑھنے کے قابل ہوے۔)
(٥) اے انسان تو اللہ تعالی کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہارے اندر ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ تم معلومات کی ترتیب سے مجہولات کو معلوم کر سکتے ہو۔تم دنیا کے بارے میں جو کچھ نہیں جانتے ہو جاننے کی کوشش کرو۔ جان جاؤ کہ یہ دنیا تمہارے فائدے کے لیے ہے اور اس دنیا سے فائدہ تم تبھی اٹھا سکتے ہو جب تمہارے پاس اس کے رموز و حقائق کا علم ہوگا اس لیے اللہ تعالی نے تمہیں وہ علم دیا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔
(آیت نمبر 1 تا 5/ سورہ علق پارہ /30)
ان پانچ آیتوں کی شکل میں اللہ کا سب سے پہلا حکم جو مسلمانوں کو دیا گیا وہ خالصتاً وہ علوم ہیں جس کو موجودہ زمانے میں سائنس و ٹیکنالوجی، بائیولوجی، سوشولوجی، میٹرولوجی، کامرس، جغرافیہ وغیرہ وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جس وقت یہ آیت کریمہ جب نازل ہوئی اس وقت نہ تو نماز، روزہ، حج، زکوۃ، وغیرہ  فرض ہوئی تھی۔ اور نہ ہی شراب، جوا اور بیغیر اللہ کا نام لیے ذبح کئے گئے جانور کا گوشت حرام ہوا تھا۔ یعنی اس وقت اوامر و نواہی کا حکم ہی نہیں آیا تھا،جس کو موجودہ دور میں علم دین کہا جاتا ہے، تو اسے پڑھنے کا حکم کیوں کر دیا جائے گا؟ معلوم ہوا کہ ان پہلی پانچ آیاتوں میں ان علوم کو پڑھنےکا حکم دیا گیا جسے نا سمجھی کی وجہ سے ہم علم دنیا کہہ کر دوری بنائےہوئے ہیں۔ قرآن مقدس کی اس طرح کی آیتوں پر عمل نہ کرنے کو ہی علامہ اقبال نے تارک قرآں سے تعبیر کی ہے۔ یعنی اللہ تعالی کے احکامات کو نہ مان کر ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہیں۔ 
 *(3) سورہ البقرہ آیت نمبر 31سے 34تک کا مفھوم* 
آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالی نے ساری کائنات کی تخلیق کے ساتھ ساتھ فرشتوں اور جناتو ں کو بھی پیدا فرما چکا تھا اور ان تمام تخلیقات میں فرشتوں کا مرتبہ سب سے افضل و اعلیٰ تھا۔ اسی لیے فرشتوں نے تخلیق آدم پر اعتراض کیا تھا۔ اور جب اللہ تعالی نے حضرت آدم کی تخلیق فرمائی تو چاہا کے ایک علمی مظاہرہ کے ذریعے فرشتوں پہ یہ واضح کردیا جائے کہ حضرت آدم تم سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم اس کائنات عالم کی چیزوں کے نام وخاصیت کو بتاؤ۔ جواب میں فرشتوں نے عرض کی کہ یا رب العالمین ہمیں دنیا اور دنیا کی چیزوں سے کیا مطلب؟ ہم تو بس وہی جانتے ہیں جو تو نے ہمیں بتایا ہے.
ہمیں تو صرف تیری ہی فرماں برداری کرنی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام اور اس کی خاصیت بتا دی اور فرشتوں کے سامنے بلا کر حکم دیا کہ اےآدم تم ان چیزوں کے نام اور اس کی خاصیتوں  کو بتاؤ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے سب کچھ بتا دیا۔ تواللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ تم نے دیکھ لیا کہ آدم تم سے افضل و اعلی ہیں۔ اس لیے اب سجدہ تعظیمی کرکے ان کی عظمت کو تسلیم کرو۔ تمام فرشتوں نے حضرت آدم کو سجدہ کر کے ان کی عظمت کو تسلیم لی۔
آدم علیہ السلام پہلےانسان ہیں۔ انہیں اللہ تعالی نے جس چیز کی سب سے پہلے تعلیم دی وہ تعلیم وہی ہے جس کو موجودہ دور میں سائنس و ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس کہا جاتا ہے ہے۔ گویا انسان اول کو خلاق عالم نے سب سے پہلے سائنس کی تعلیم دی، تسخیر کائنات کا علم دیا اور پھر فرشتوں کے سامنے علمی مظاہرہ کروا کر اور فرشتوں سے سجدہ کروا کر اللہ تعالی نے یہ بتا دیا کہ عظمت، بزرگی، شان و شوکت اور جاہ و حشمت، سطوت و نکبت اور رعب و دبدبہ انہیں علوم سے حاصل ہوگی۔ اور جو ان علوم کو حاصل نہیں کریں گے اور یہ کہیں گے کہ ہمیں دنیا سے کیا مطلب ہمیں تو صرف آخرت چاہیے ایسے لوگوں کو ذلیل و خوار ہونا ہوگا، دوسروں کے سامنے جھکنا ہوگا، کیونکہ علم سائنس سے رو گردانی کرنا  یہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کے بھی خلاف ہے اور شان مؤمن کے بھی خلاف ہے۔
 *خلاف پیغمبر کسے راہ گزید 
ہرگز بمنزل نہ خواہد رسید* 
قرآن و حدیث پہ ہزاروں یونیورسٹیوں میں لاکھوں اسکالرس ریسرچ کر رہے ہیں، تحقیقی مقالہ لکھ رہے ہیں۔ لیکن اس کا موضوع ہے فرض، واجب سنت، مستحب، حرام، ناجائز، مکروہ تحریمی اور مکروہ تنزیہی وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ قرآن مقدس کی پہلی آیت پہلے انسان کی پہلی تعلیم اور سب سے بہتر دعا کے ذریعہ اللہ تعالی نے جس علم کو حاصل کرنے کا حکم مسلمانوں کو دیا ہے اس اعتبار سے قرآن و حدیث ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اور ہمارا یہ عمل اللہ تعالی کی مشیت کے بھی خلاف ہے۔ 
مذہب اسلام تقریبا ایک ہزار سال تک حالت نمو یعنی ترقی پذیر رہا۔ ان ہزار سالوں میں جو مسلمان محدث، مفسر، فقیہ اور مجتہد ہوتے تھے وہی بہترین حکیم،طبیب سیاست داں، سپہ سالار، جنرل اور کرنل ہوا کرتے تھے۔ وہی امام مسجد، امیرالمومنین اور بادشاہ وقت بھی ہوا کرتے۔ وہی سائنسداں، ریاضی داں، اور ماہر معاشیات، گورنر اورافسر ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد ایک منظم سازش کے تحت علم کی ناجائز تقسیم علم دین اور علم دنیا سے کی گئی اور یہ سمجھایا گیا کہ علم دین یعنی عقائد کے ساتھ نماز، روزہ وغیرہ کے مسائل و حقائق کی معرفت کی تعلیم ہی اصل تعلیم ہے۔ اور دنیا میں حصول اقتدار اور غلبہ کی کوشش کرنا یہ جہنم کا راستہ ہے اس غلط روی اور غلط زاویہ نظر نے مسلمانوں کو قعر مذلت میں پہنچا دیا ہے۔ جو اس کی منزل نہیں تھی اور جو مسلمانوں کی منزل تھی اس پر غیروں کا قبضہ ہو گیا۔ کہ انہوں نے غیر مسلم ہونے کے باوجود قرآن کے ان احکامات پر عمل کیا جس کا تعلق تسخیر کائنات یعنی سائنس سے تھا۔
اس کی مثال دنیا کے وہ پانچ ممالک ہیں جنہیں اقوام متحدہ میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔اگرمسلمان اپنی حالت میں تبدیلی چاہتے ہیں تو انہیں اپنے فکر و خیال میں تبدیلی لانی ہوگی دین و سنت میں ریسرچ اور تحقیق کے ذریعہ اسے کامل کرنے کی فکر چھوڑنی ہوگی۔ کیوں کہ دین مکمل ہو چکا ہے۔  مزید بیجا تحقیق سے فرقہ بندی ہی پیدا ہوگی۔ اس لیے ہمارے اسلاف نے چار فقہ اسلامی پہ اجماع کرکے اجتہاد کا راستہ بند کردیاہے۔ ضرورت ہے کہ پھر سے مسلمانوں کی جامعات میں ریسرچ اور تحقیق کا موضوع دنیا و مافیہا اور اس سے استفادہ کی صورتیں ہوں۔ ہمیں پھر تسخیر کائنات اور استفادہ من الکائنات کا علم و ہنر سیکھنا ہوگا تبھی ہمیں ہماری منزل ملے گی۔ 
محمد شہادت حسین فیضی
9431538584

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...