Friday, July 19, 2019

مدینہ ایجو کیشن ٹرسٹ کا ماسٹر پلان برائے طلبہ مدارس

مدینہ ایجو کیشن ٹرسٹ کا ماسٹر پلان برائے طلبہ مدارس
طلبہ مدارس بالعموم اور فارغین مدارس کو بالخصوص انگریزی زبان و ادب،کمپیوٹر، بقدر ضرورت انٹرنیٹ، میڈیا اور ٹکنیکل کورسیز و پروگرام کی تعلیم دینے کے لیے مدینہ ایجوکیشن ٹرسٹ، جولوہ آباد، کوڈرما نے پہلی بار ایک ماسٹرپلان ان کے لیے ترتیب دیا ہے۔جسے ولایتی سطح پر آنے والے وقتوں میں مختلف اداروں میں پہنچایا جائے گا۔ 
عنقریب اس کی پہلی اور مرکزی سینٹر کا اعلان کیاجائے گا۔
واضح رہے کہ الگ الگ صوبوں میں بھی اس کی مختلف شاخیں قائم کی جائیں گی۔ لیکن ابتداء میں یہ کام ضلع کوڈرما و نواح سے ہوتا ہوا صوبائی سطح پر کام کرےگا۔
آج کے زمانے میں وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کے لیےفضلائے مدارس کا انگریزی زبان و ادب اور کمپیوٹر کی تعلیم سے مزین ہونا بےحد ضروری ہے۔
اسی تقاضےکے پیشِ نظر ٹرسٹ نے فضلائے مدارس کے لیے اپنے اعتبار کا پہلا کورس “ڈپلوما اِن انگلش لینگویج اینڈ کمپیوٹر" ماہرین اسکالروں کی نگرانی میں ترتیب دیاہے۔ جسے سب سے پہلے ٹرسٹ کے تحت چل رہے ادارہ مدرسہ مدینة الرسول میں لانچ کیا جانا ہے۔ اور یہ کام ٹاسک رہائشی کوچنگ سینٹر اور قلندریہ پبلک اسکول کے تعاون سے پورا کیا جائے گا۔
۔دو سالہ اس کورس کو پڑھنے والے فضلائے مدارس معیاری انگریزی میں بولنے اور لکھنے پر قادر ہونے کے ساتھ جنرل اسٹڈیز اور کمپیوٹر سائنس میں بھی جہاں قابلِ قدرمقام حاصل کریں گے وہیں وہ اپنی زندگی کو معیاری بھی بنا سکیں گے۔

"ویلن ٹائن ڈے "

"ویلن ٹائن ڈے "
مغربی تہذیب نے بہت سے بے ہودہ رسوم و رواج کو جنم دیا۔ اوربدتہذیبی اور بد کرداری کے نئے نئے طریقوں کو ایجاد کیا۔جس کی پلیٹ میںاس وقت پوری دنیا ہے اور بطور خاص مسلم معاشرہ اس کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہوتے جارہا ہے۔ مختلف عنوانات سے دنوں کو منانے اور اس میں رنگ ریلیاں رچانے کے کلچر کو فروغ دینا شروع کیا۔اور اس کی آڑ میں بہت سی خرافات و اہیات اور بد اخلاقی و بے حیائی کو پھیلانے لگے۔چناں چہ ان ہی میں ایک 14 فروری کی تاریخ ہے جس کو ’’یوم عاشقاں ‘‘یا ’’یوم ِ محبت ‘‘کے نام سے منانا جاتا ہے اور تمام حدوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہر ہوتا ہے۔ اور تہذیب وشرافت کے خلاف کاموں کو انجام دیا جاتا ہے۔ اور ناجائز طور پر اظہار محبت کے لئے اس دن کاخاص اہتما م کیا جاتا ہے۔ چند سال قبل یہ لعنت اس درجہ ہمارے معاشرہ میں عام نہیں تھی لیکن اب رفتہ رفتہ نوجوان طبقہ اس کا غیر معمولی اہتمام کرنے لگا ہے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء وطالبات میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے اور گویا کہ یہ دن ان کے لئے دیگر تمام دنوں سے زیادہ اہمیت کا حامل بن گیا کیوں کہ اس دن وہ اپنی آرزو کی تکمیل اور اپنے جذبات کا اظہار کرسکتے ہیں اور غیر شرعی و غیر اخلاقی طورپر محبت کا راگ الاپ سکتے ہیں۔جب کہ شرعی اور اخلاقی نیز معاشرتی اعتبار سے اس کی بہت ساری خرابیاں اور مفاسد ہیں لیکن ان تمام کو بالائے طاق رکھ کر جوش ِ جنوں اور دیوانگی میں اس دن کو منانے کی فکروں میں اضافہ ہی ہوتے جارہا ہے۔آئیے اس کی حقیقت اورتاریخ کو جانتے ہیں تاکہ اس لعنت سے مسلم نوجوانوں کو بچایاجا سکے۔
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں بہت سے اقوا ل ہیں، اس کی ابتداء کے لئے کئی ایک واقعات کو منسوب کیا جاتا ہے۔ جن میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ :سترھویںصدی عیسوی میںروم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک راہبہ کی محبت میں مبتلا ہوگیا، چوں کہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا، اس لئے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ جسمانی تعلقات بھی قائم کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جا ئے گا۔راہبہ نے اس پر یقین کرلیا اور دونوں نے سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموما ہوا کرتا ہے یعنی ان دونوں کو قتل کردیا گیا۔ کچھ عرصے بعد چند لوگوں نے انھیں محبت کا شہید جان کر عقیدت کا اظہار کیا اور ان کی یاد میں یہ دن مناناشروع کردیا۔( ویلنٹائن ڈے :7)
بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اسی کے نام کردیا۔ کئی شرکیہ عقائد کے حامل لوگ اسے یونانی کیوپڈ( محبت کے دیوتا ) اور وینس ( حسن کی دیوی ) سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ لوگ کیوپڈ کوویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنی محبت کے زہر بھجے تیر نوجوان دلوں پر چلاکر انہیں گھائل کرتا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔( پادریوںکے کرتوت:285)اور بعض نے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ:سینٹ ویلنٹائن ڈے کو آج کل جس طرح عاشقوں کے تہوار کے طور پر منایا جارہا ہے یاویلنٹائن کارڈ بھیجنے کی جو نئی روایت چل پڑی ہے اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق یاتو رومیوں کے دیوتا لوپرکالیا کے حوالہ سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوار بار آوری یا پرندوں کے ایام اختلاط سے ہے۔ (ویلنٹائن ڈے، تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 40)
واقعہ بہر حال جو بھی ہو اور جس مقصد کے لئے بھی اس کا آغاز کیا گیا ہو لیکن آج اس رسم ِ بد نے ایک طوفان ِ بے حیا ئی برپا کردیا۔ عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہ ٔ نکاح کے تقد س کو پامال کردیا۔ اور نوجوان لڑکو ں اور لڑکیوں میں آزادی اور بے باکی کو پیدا کیا۔ معاشرہ کو پراگندہ کرنے اور حیا و اخلاق کی تعلیمات، اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ بر سرعام اظہار محبت کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ شرم و حیا،ادب وشرافت کو ختم کرڈالا۔اس کی وجہ سے جو نہایت شرمناک واقعات رونماں ہورہے ہیں اور تعلیم گاہوں اور جامعات میں جس قسم کی بے حیائی بڑھتی جارہی ہے اس کے لئے بعض قلم کاروں نے مستقل کتابیں لکھیں ہیں ( اوپر حوالے میں جن کتابوں کے نام ہم نے پیش کئے اس کا مطالعہ بھی کافی ہے ) تاکہ اس بے ہودگی سے نوجوان نسل کو روکا جاسکے۔
ویلنٹائن ڈے کی تباہیاں
ویلنٹائن ڈے نے پاکیزہ معاشرہ کو بڑی بے دردی کے ساتھ بد امن اور داغ دار کیا ہے۔ اخلاقی قدروںکو تہس نہس کیا ہے، اور رشتوں، تعلقات، احترام، انسانیت تمام چیزوں کو پامال کیا ہے۔ لال گلاب اور سر خ رنگ اس کی خاص علامت ہے، پھول کی تقسیم اور اس موقع پر ویلنٹائن کارڈ کا تبادلہ بھی اظہارِمحبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بڑی پیمانے پر اس کی تجارت ہوتی ہے اور ہوس پرست اس کو منھ بولے دام میں خریدتے ہیں۔ منچلوں کے لئے ایک مستقل تفریح کا سامان بن گیا۔ ویلنٹاین کی جھوٹی محبت کا انجام کیا ہوتا ہے اس کو مختصر جملوں میں بیان کیا کہ:٭عشق کا بھوت نفرت میں بدل گیا، محبت کی شادمی کا دردناک انجام، خاوند کے ہاتھوں محبوبہ کا قتل۔ ٭عشق کی خاطر بہن نے بھائی کا قتل کردیا۔٭محبوبہ محبوب سمیت حوالات میں بند۔٭محبت کی ناکامی پر دوبھائیوں نے خود کشی کرلی۔٭محبت کی ناکامی نوجوان ٹرین کے آگے گود گیا، جسم کے دوٹکڑے۔٭ناکام عاشق نے لڑکی کو والدین چچا اور ایک بچی سمیت قتل کرڈالا۔یہ وہ اخباری سرخیا ں ہیں جو نام نہاد محبت کی بناپر معاشرتی المیہ نبی آئے روز اخبارات کی زینت بنتی جارہی ہیں۔( ویلنٹائن ڈے، تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں :119)
آخری بات
یہ وہ تلخ حقائق اورویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریوں کی ایک مختصر روداد ہے،جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کے عنوان سے پوری دنیا میں کیا تباہ مچائی جاتی ہے اور کس طرح ایمان و اخلاق سے کھیلاجاتا ہے،معاشرہ کو بے حیا بنانے اور نوجوانوں میں بے غیرتی اور بے حیائی کو فروغ دینے میں اس دن کی کیا تباہیاں ہیں، اس حقیقت سے کسی عقل مند اور سلیم المزاج انسان کو انکار نہیںہوسکتا کہ اس وقت پوری دنیا میں بے حیائی کو پھیلانے اور بدکاری کو عام کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہورہی ہیں، نوجوانوں کو بے راہ رو کرنے اور بالخصوص مسلم نوجوانوں سے جذبہ ٔ ایمانی کو کھرچنے اور حیا واخلاق کے جوہر سے محروم کردینے کے یہ دن اور اس طرح کے بہت سے حربے اسلام دشمن طاقتیں استعمال کررہی ہیں۔امت ِمسلمہ کے نوجوانوں کو ان تمام لغویات اور واہیات قسم کی چیزوں بچنا ضروری ہے، اور معاشرہ کو پاکیزہ بنانے اور اخلاق وکردار کو پروان چڑھانے کے لئے اس طرح کے بے حیائی کو فروغ دینے والے دنوں کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے، اور ا س کے بالمقابل اسلام کی حیا کی پاکیزہ تعلیمات کو عام کرنے سکولوں،کالجوں، یونیورسٹیوں کے ماحول میں بالخصوص اور نوجوان اپنے افراد واحباب اور دوستوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس دن کو حیا کا دن منانے اور حیا کو عام کرنے کی ترغیب دینے کا دن بتانے کی کوشش کریں۔ ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو بچائیں جو کسی بھی اعتبار سے معاشرہ میں بے حیائی کے پھیلنے کا ذریعہ بنے اور دنیا والوں کو اسلام کی بلند ترین تعلیمات کا خوبصورت نمونہ پیش کرنے والے بنیں۔

بڑا آدمی کیسے بنا جائے؟

بڑا آدمی کیسے بنا جائے؟
ایک دن پروفیسر صاحب سے جوتا پالش کرنے والے بچے نے جوتا پالش کرتے کرتے پوچھا: ’’ماسٹر صاحب! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں‘‘
پروفیسر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا: ’دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے‘‘
بچے کا اگلا سوال تھا: ’’کیسے؟‘‘
پروفیسر نے اپنے بیگ سے چاک نکالا‘اوراسکےکھوکھے کی دیوار پر
دائیں سے بائیں تین لکیریں لگائیں‘
پہلی لکیر پر محنت‘ محنت اور محنت لکھا‘
دوسری لکیر پر ایمانداری‘ ایمانداری اور ایمانداری لکھا
اور تیسری لکیر پر صرف ایک لفظ ہنر (Skill) لکھا۔
بچہ پروفیسر کو چپ چاپ دیکھتا رہا‘ پروفیسر یہ لکھنے کے بعد بچے کی طرف مڑا اور بولا:
ترقی کے تین زینے ہوتے ہیں‘
پہلا زینہ محنت ہے.
آپ جو بھی ہیں‘ آپ اگر صبح‘ دوپہر اور شام تین اوقات میں محنت کر سکتے ہیں تو آپ تیس فیصد کامیاب ہو جائیں گے.
آپ کوئی سا بھی کام شروع کر دیں، آپ کی دکان‘ فیکٹری‘ دفتر یا کھوکھا صبح سب سے پہلے کھلنا چاہئے اور رات کو آخر میں بند ہونا چاہئے‘
آپ کامیاب ہو جائیں گے‘‘۔
پروفیسر نے کہا ’’ہمارے اردگرد موجود نوے فیصد لوگ سست ہیں‘ یہ محنت نہیں کرتے‘ آپ جوں ہی محنت کرتے ہیں آپ نوے فیصد سست لوگوں کی فہرست سے نکل کر دس فیصد محنتی لوگوں میں آ جاتے ہیں‘ آپ ترقی کیلئے اہل لوگوں میں شمار ہونے لگتے ہیں".
اگلا مرحلہ ایمانداری ہوتی ہے.
ایمانداری چار عادتوں کا پیکج ہے.
وعدے کی پابندی‘ جھوٹ سے نفرت‘ زبان پر قائم رہنا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنا۔
آپ محنت کے بعد ایمانداری کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لو‘ وعدہ کرو تو پورا کرو‘ جھوٹ کسی قیمت پر نہ بولو‘
زبان سے اگر ایک بار بات نکل جائے تو آپ اس پر ہمیشہ قائم رہو اور ہمیشہ اپنی غلطی‘ کوتاہی اور خامی کا آگے بڑھ کر اعتراف کرو‘
تم ایماندار ہو جاؤ گے۔
کاروبار میں اس ایمانداری کی شرح 50 فیصد ہوتی ہے.
آپ پہلا تیس فیصد محنت سے حاصل کرتے ہیں. آپ کو دوسرا پچاس فیصد ایمانداری دیتی ہے.
اور پیچھے رہ گیا 20 فیصد تو یہ 20 فیصد ہنر ہوتا ہے.
آپ کا پروفیشنل ازم‘ آپ کی سکل اور آپ کا ہنر آپ کو باقی 20 فیصد بھی دے دے گا.
"آپ سو فیصد کامیاب ہو جاؤ گے‘‘.
پروفیسر نے بچے کو بتایا۔
’’لیکن یہ یاد رکھو ہنر‘ پروفیشنل ازم اور سکل کی شرح صرف 20 فیصد ہے اور یہ 20 فیصد بھی آخر میں آتا ہے‘ آپ کے پاس اگر ہنر کی کمی ہے تو بھی آپ محنت اور ایمانداری سے 80 فیصد کامیاب ہو سکتے ہیں.
لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ بے ایمان اور سست ہوں اور آپ صرف ہنر کے زور پر کامیاب ہو جائیں۔
آپ کو محنت ہی سے سٹارٹ لینا ہو گا‘
ایمانداری کو اپنا اوڑھنا اور بچھونا بنانا ہو گا'
آخر میں خود کو ہنر مند ثابت کرنا ہوگا‘‘۔
پروفیسر نے بچے کو بتایا۔
"میں نے دنیا کے بے شمار ہنر مندوں اور فنکاروں کو بھوکے مرتے دیکھا‘
کیوں؟
کیونکہ وہ بے ایمان بھی تھے اور سست بھی'
اور میں نے دنیا کے بے شمار بےہنروں کو ذاتی جہاز اڑاتے دیکھا‘-
’تم ان تین لکیروں پر چلنا شروع کر دو، تم آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگو گے

طلاقیں کیوں ہوتی ہیں ؟؟؟؟

طلاقیں کیوں ہوتی ہیں ؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کراچی کی مثال لے لیں جہاں 2010 میں طلاق کے40410کیسسز رجسٹرڈ ہوئے ۔ 2015 میں صرف خلع کے 13433 سے زیادہ کیسسز نمٹائے گئے ۔ پنجاب میں 2012 میں 13299 ، 2013 میں 14243 ، 2014 میں 16942 جبکہ 2016 میں 18901 صرف خلع کے مقدمات کا فیصلہ دیا گیا ۔ چئیرمین آربیٹریشن کونسل اسلام آباد کے مطابق صرف لاہور شہر میں 2017 میں خلع کے واقعات 18901 سے بڑھ کر 20000 تک پہنچ گئے ۔ آپ کمال ملاحظہ کریں گجرانوالہ میں ماسٹرز کی طالبہ نے وین ڈرائیور کے ” چکر ” میں اپنے پڑھے لکھے ، محبت کرنے والے شوہر سے طلاق لے لی ۔ یہ میرے نہیں سیشن کورٹ گجرانوالہ کے الفاظ ہیں ۔ آپ حیران ہونگے صرف گجرانوالہ شہر میں 2005 سے 2008 تک طلاق کے 75000 مقدمات درج ہوئے ہیں ۔ ایک نیوز رپورٹ کے مطابق محض 10 مہینوں میں 12913 خلع کے مقدمات تھے ۔ صرف ستمبر کے مہینے میں گجرانوالہ شہر میں 2385 خلع کے مقدمات آئے ۔ آپ ہماری جینے مرنے کی قسمیں کھانے والی نسل کی سچی محبت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ 2017 میں 5000 خلع کے کیسسز آئے جن میں سے 3000 ” لو میرجز ” تھیں ۔ پاکستان کے دوسرے بڑے اور پڑھے لکھے شہر میں روزانہ اوسط 150 طلاقیں رجسٹرڈ ہوتی ہیں ۔ یہ تو دیگ کا صرف ایک دانہ ہے ۔ عرب ممالک میں طلاق و خلع کا اوسط تو کئی یورپی ممالک سے بھی گیا گذرا ہے ۔ اس سے انکار نہیں ہے کہ ان میں سے بہت سارے واقعات میں عام طور پر سسرال والوں کا لڑکی سے رویہ اور شوہر کا بیوی کو کوئی حیثیت نہ دینا بھی اصل وجوہات ہیں لیکن آپ کسی بھی دارالافتاء چلے جائیں ہفتے کی بنیاد پر سینکڑوں خطوط ہیں جو خواتین نہیں مرد حضرات لکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ہماری بیوی کو کسی اور کے ساتھ ” محبت ” ہوگئی ہے ۔ وہ مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے ۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے یا بچہ بھی ہے ۔ بتائیں کیا کروں ایک دارالافتا میں ایک خط آیاجس میں شوہر نے لکھا تھا کہ ” رات آنکھ کھلی تو بیوی بستر پر نہیں تھی ، بیڈروم سے باہر آیا تو صوفے پر لیٹی موبائل میں مصروف تھی ۔ اب وہ مجھ سے طلاق مانگ رہی ہے اور ہمارا ایک بچہ بھی ہے “۔ میں نے خود یہ واقعات سنے ہیں کہ شوہروں کے پیچھے عورتوں نے ان کی امانت میں خیانت کی ہے ۔ نبی مہربانﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالی کو جائز کاموں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ نبی مہربانﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالی کو جائز کاموں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ طلاق ہے “۔ ایک عالم دین نے کیا خوب فرمایا تھا ” یہ قوم اسلام پر مرنے کے لئیے تیار ہے لیکن اسلام پر جینے کے لئیے تیار نہیں ہے “۔ آپ قرآن کا مطالعہ کریں سورۃ البقرہ سے لے کر والناس تک چلے جائیں ۔ آپ کو نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ میں سے کسی ایک فرض کی تفصیلات نہیں ملینگی ۔ آپ کو یہ تک نظر نہیں آئیگا کہ نماز کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ کو ان عبادات کی تسبیحات تک نہیں پتہ چل پائینگی ۔ لیکن نکاح ، طلاق ، خلع ، شادی ، ازدواجی معاملات ، میاں بیوی کے تعلقات ، گھریلو ناچاقی ، کم یا زیادہ اختلاف کی صورت میں کرنے کے کام ۔آپ کو سارا کچھ اللہ تعالی کی اس مقدس ترین کتاب میں مل جائیگا جس کو ہم اور آپ” چوم چوم ” کر رکھتے ہیں ۔ آپ مان لیں کہ ہمارے معاشرے میں طلاق اور خلع کی سب سے بڑی وجہ عدم برداشت ہے ۔ یاد رکھیں اچھا اور صحت مند گھرانہ کسی اچھے مرد سے نہیں بنتا بلکہ ایک اچھی عورت کی وجہ سے بنتا ہے ۔ حضرت عمر نؓے فرمایا ” جب دین گھر کے مرد میں آتا ہے تو گویا گھر کی دہلیز تک آتا ہے لیکن اگر گھر کی عورت میں دین آتا ہے تو اس کی سات نسلوں تک دین جاتا ہے “۔ قربانی ، ایثار ، احسان ، درگذر ، معافی ، محبت اور عزت یہ اسلام اور قرآن کی ڈکشنری میں آتے ہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ ان جوڑوں کی طلاق زیادہ جلدی ہوجاتی ہے جو ” جوائنٹ فیملی ” میں نہیں رہتے ہیں ۔ مصر میں عبد الفتاح سیسی جیسا حکمران تک طلاقوں سے پریشان ہے ۔ کیونکہ مصر میں 40 فیصد شادیاں اگلے پانچ سالوں میں طلاق کی نذر ہوجاتی ہیں ۔ جنرل اتھارٹی برائے شماریات کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں ہر ایک گھنٹے میں پانچ طلاقیں ہوتی ہیں ۔ جبکہ عرب نیوز کے مطابق 2016 میں 157000 شادیوں میں سے 46000 کا انجام طلاق کی صورت میں ہوا ہے ۔ خواتین کی نہ ختم ہونے والی خواہشات نے بھی معاشرے کو جہنم میں تبدیل کیا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا نے گوٹھ گاؤں اور کچی بستیوں میں رہنے والی لڑکیوں تک کے دل میں ” شاہ رخ خان “جیسا آئیڈیل پیدا کر دیا ہے ۔ محبت کی شادیاں عام طور پر چند ” ڈیٹس ” ، کچھ فلموں اور تھوڑے بہت تحفے تحائف کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ لڑکیاں اور لڑکے سمجھتے ہیں کہ ہماری باقی زندگی بھی ویسے ہی گذرے گی جیسا فلموں میں دکھاتے ہیں ، لیکن فلموں میں کبھی شادی کے بعد کی کہانی دکھائی ہی نہیں جاتی ہے ۔ اس سے فلم فلاپ ہونے کا ڈر ہوتا ہے ۔ گھریلو زندگی کی تباہی میں سب سے بڑا عنصر ناشکری بھی ہے ۔ کم ہو یا زیادہ ، ملے یا نہ ملے یا کبھی کم ملے پھر بھی ہر حال میں اپنے شوہر کی شکر گزار رہیں ۔ سب سے بڑی تباہی اس واٹس ایپ اور فیس بک سوشل میڈیا نے مچائی ہے ۔ پہلے لڑکیاں غصے میں ہوتی تھیں یا ناراض ہوتی تھیں تو ان کے پاس اماں ابا اور دیگر لوگوں تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا ۔شوہر شام میں گھر آتا ، بیوی کا ہاتھ تھام کر محبت کے چار جملے بولتا ، کبھی آئسکریم کھلانے لے جاتا اور کبھی ٹہلنے کے بہانے کچھ دیر کا ساتھ مل جاتا اور اس طرح دن بھر کا غصہ اور شکایات رفع ہوجایا کرتی تھیں ۔ لیکن ابھی ادھر غصہ آیا نہیں اور ادھر واٹس ایپ پر سارے گھر والوں تک پہنچا نہیں ۔ یہاں میڈم صاحبہ کا ” موڈ آف ” ہوا اور ادھر فیس بک پر اسٹیٹس اپ لوڈ ہو گیا ۔ اور اس کے بعد یہ سوشل میڈیا کا جادو وہ وہ گل کھلاتا ہے کہ پورے کا پورا خاندان تباہ و برباد ہوجاتا ہے یا نتیجہ خود کشیوں کی صورت میں نکلتا ہے ۔ مائیں لڑکیوں کو سمجھائیں کہ خدارا ! اپنے شوہر کا مقابلہ اپنے باپوں سے نہ کریں ۔ ہوسکتا ہے آپکا شوہر آپ کو وہ سب نہ دے سکے جو آپ کو باپ کے گھر میں میسر تھا ۔ لیکن یاد رکھیں آپ کے والد کی زندگی کے پچاس ، ساٹھ سال اس دشت کی سیاحی میں گذر چکے ہیں اور آپ کے شوہر نے ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے ۔ آپ کو سب ملے گا اور انشاء اللہ اپنی ماں سے زیادہ بہتر ملے گا اگر نہ بھی ملے تو بھی شکر گذاری کی عادت ڈالیں سکون اور اطمینان ضرور ملے گا ۔ بیویاں شوہروں کی اور شوہر بیویوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعریف کرنا اور درگذر کرنا سیکھیں ۔ زندگی میں معافی کو عادت بنالیں ۔ خدا کے لئیے باہر والوں سے زیادہ اپنے شوہر کے لئیے تیار ہونے اور رہنے کی عادت ڈالیں ۔ساری دنیا کو دکھانے کے لئیے تو خوب ” میک اپ” لیکن شوہر کے لئیے ” سر جھاڑ منہ پھاڑ ” ایسا نہ کریں ۔ خدا کو بھی محبت کے اظہار کے لئیے پانچ دفعہ آپ کی توجہ درکار ہے ۔ ہم تو پھر انسان ہیں جتنی دفعہ ممکن ہو محبت کا اظہار کریں کبھی تحفے تحائف دے کر بھی کیا کریں ۔ قیامت کے دن میزان میں پہلی چیز جو تولی جائیگی وہ شوہر سے بیوی کا اور بیوی سے شوہر کا سلوک ہوگا ۔ یاد رکھیں مرد کی گھر میں وہی حیثیت ہے جو سربراہ حکومت کی ریاست میں ہوتی ہے ۔ اگر آپ ریاست کی بہتری کی بجائے ہر وقت سربراہ سے بغاوت پر آمادہ رہینگے تو ریاست کا قائم رہنا مشکل ہوجائیگا ۔ جس کو اللہ نے جو عزت اور مقام دیا ہے اس کو وہی عزت اور مقام دینا سیکھیں چاہے آپ مرد ہیں یا عورت ۔ ایک مثالی گھر ایک مثالی خاندان تشکیل دیتا ہے اور ایک مثالی خاندان سے ایک صحتمند معاشرہ وجود میں آتا ہے اوریہی اسلام کی منشاء ہے ۔

Thursday, July 18, 2019

Arun Jaitley 1 Ebrat he

Truth_of_Life

Arun Jaitley जी का नाम तो सुना ही होगा। कुछ दिनों पहले तक भारत सरकार में फाइनेंस मिनिस्टर थे, सैकड़ों लोग आगे-पीछे खड़े रहते थे। आज हाल देखिये, कैंसर से जूझ रहे हैं। पिछले 2 महीने से कीमोथेरेपी चल रही है। आज चमकदार चेहरे की वह रंगत उड़ी हुई हैं। आज जब हर कोई मनचाही मिनिस्ट्री पाने के लिए अपना सब कुछ क़ुर्बान करने के लिए राज़ी है, उस दौर में इन्होंने मिनिस्ट्री का भार उठाने से मना कर दिया।

यही जीवन का सत्य है। कुछ भी बन जाइए, केवल चंद दिनों की बादशाहत है। पोस्ट करने का मक़सद सिर्फ इतना है कि याद रखिये, हर आदमी को (हमे भी) काल के गाल में जाना है। अतः किसी को सताइये मत बल्कि यथासंभव लोगों की मदद कीजिये। पद, प्रतिष्ठा, पैसा सब कुछ यही रहने वाला है। हमारे द्वारा किये गये अच्छे व श्रेष्ठ कार्य से ही हमे याद किया जाएगा।।

کیا ہماری بہنیں محفوظ ہیں

*----کیا ہماری بہنیں محفوظ ہیں---؟*
*-------ایک جھنجوڑ دینے والا واقعہ---------*
*____کامران غنی صبا، پٹنہ______*

گزشتہ روز بس سے اسکول جاتے ہوئے میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی۔اس ملاقات نے مجھے اندر تک جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ میرے ہاتھ میں اردو کا اخبار تھا۔ نوجوان نے مسکراتے ہوئے مجھ سے اخبار طلب کیا۔ ’’معاف کیجیے گا، میرے پاس اردو کا اخبار ہے۔‘‘ میرے جواب پر اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ’ کوئی بات نہیں میں تھوڑی بہت اردو پڑھ لیتا ہوں۔‘مجھے لگا شاید یہ نوجوان مسلمان ہے، کیوں کہ بہت سارے مسلم نوجوان بھی اچھی طرح اردو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔ اس سے پہلے کہ مزیدمیں اس سے کچھ دریافت کرتا اُس نے خود ہی کہنا شروع کیا ’’ میری گرل فرنڈ مسلمان ہے اور اُس نے ہی مجھے اردو لکھنا پڑھنا سکھایا ہے۔‘‘مجھے اس کی بات پر زیادہ حیرانی نہیں ہوئی البتہ میں نے مزید وضاحت کے لیے براہ راست بات کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔’’آپ ہندو ہیں؟‘‘ میرے اس سوال پر وہ تھوڑی دیر تک مسکراتا رہا پھر کہنے لگا کہ میں خاندانی طور پر ہندو اور نظریاتی طور پر ’ناستک‘ (ملحد) ہوں، البتہ اب مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔
’’آپ اپنی مرضی سے مسلمان ہونا چاہتے ہیں یا آپ کی گرل فرنڈ کا حکم ہے۔‘‘
’’نہیں۔۔ اُس نے ایسا کبھی نہیں کہا ،ہاں مجھے اسلام کے بارے میں بتاتی ضرور ہے، لیکن شاید وہ خود بھی اپنے مذہب کے بارے میں بہت کم ہی جانتی ہے۔‘
اب وہ نوجوان خود ہی اپنے بارے میں تفصیل سے بتانے لگا۔ اس نے بتایا کہ وہ ’کانپور‘ کا رہنے والا ہے اور اپنے کسی دوست کی شادی میں بہار آیا ہوا ہے۔ نوجوان بہت زیادہ پڑھا لکھا نہیں لگ رہا تھا لیکن اُس کی باتوں میں سنجیدگی اور ٹھہرائو تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ اسلام کے متعلق جاننا چاہتا ہے لیکن اس خوف سے اپنی خواہش کا برملا اظہار نہیں کرتا کہ اس کے گھر والے اور سماج کے لوگ اسے جینے نہیں دیں گے۔ اس نے بتایا کہ اترپردیش کا ماحول بہت تیزی سے بدل رہا ہے۔ ہندوتنظیموں کا اثر و رسوخ دن بدن بڑھتا جا رہاہے۔ نئی حکومت بننے کے قبل سے ہی ہندو تنظیموں خاص طور سے ’’بجرنگ دل‘‘ اور ’’ہندو یووا واہنی‘‘ کے کام کرنے کے طریقوں میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اُس نوجوان نے بتایا کہ ہندو تنظیموں کی پوری کوشش مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کو ان کے دین سے بدظن کرنا ہے۔ اس کے لیے ان تنظیموں نے بہت ہی مضبوط لائحۂ عمل بنایا ہے۔ شادی شدہ عورتوں کو ’طلاق‘، ’گھریلو مظالم‘ اور آزادی کے نام پر ورغلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلمان عورتوں سے پیسے دے کر، نقاب پہنا کر اسلام مخالف بیانات رکارڈ کروائے جا رہے ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر وائرل کیا جا رہا ہے۔مسلم لڑکیوں کو ورغلانے کے لیے بہت ہی خطرناک منصوبے کے تحت کام ہو رہا ہے۔ اس کے لیے باضابطہ نوجوان لڑکوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔ انہیں خاص طور سے اردو زبان سکھائی جاتی ہے۔ لڑکیوں کے اندر جلد متاثر ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ لہذا جب وہ غیر مسلم لڑکوں کی زبان سے اردو زبان کے الفاظ اور اشعار سنتی ہیں تو فطری طور پر متاثر ہوتی ہیں اور یہیں سے ان کی بربادی کی داستان شروع ہو جاتی ہے۔ نوجوان نے بتایا کہ ہندو تنظیموں کی جانب سے ایک مسلمان لڑکی کو گمراہ کرنے کے عوض دو لاکھ روپے کی پیش کش کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کی جاتی ہے کہ چھ مہینے سے سال بھر کے اندر اندر لڑکی کو اس حالت میں لا کھڑا کرنا ہے کہ وہ یا تو خود کشی کر لے یا سماج میں منھ دکھانے کے لائق بھی نہ رہے۔
نوجوان کی باتوں نے مجھے اندر تک ہلا کر رکھ دیا۔ میں نے اپنے حوصلے کو جمع کرتے ہوئے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اُس سے سوال کیا کہ ’’ آپ کے پاس ایک اچھا موقع ہے، آپ دو لاکھ روپے کی پیش کش کیوں ٹھکرا رہے ہیں؟‘‘ ۔ میرے اس سوال پر وہ انتہائی سنجیدہ ہو گیا، کہنے لگا۔ ’’بھائی جان! ظلم ہندو کرے یا مسلمان، ظلم ظلم ہی ہوتا ہے ،اوپر والا ظلم کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کرتا۔‘‘
نوجوان کی منزل آ چکی تھی۔ وہ آداب، سلام اور مصافحہ کر کے بس سے اتر چکا تھا۔ اس کے جانے کے بعد میں سوچتا رہا کہ کیا اِن منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے ہمارے پاس بھی کوئی منصوبہ ہے؟ کیا ہماری بہنوں کے اندر وہ قوت ایمانی ہے کہ وہ ان ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں؟کیا مسلم لڑکیوں کی تربیت کا ہمارے پاس ایسا کوئی انتظام ہے کہ کوئی انہیں گمراہ نہ کر سکے؟مجھے نہیں معلوم کہ جس نوجوان سے میری ملاقات ہوئی اس کی باتوں میں کتنی سچائی تھی، ممکن ہے وہ خود بھی ’کسی منصوبہ‘ کے تحت کام کرتا ہو لیکن اُس کی باتوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا گھر سے باہر اسکول، کالجز اور یونیورسٹیز میں ہماری بہنیں محفوظ ہیں؟
------------------------------------------------------
*برائے کرم اس تحریر کو اپنی مسلم بہنوں کو ضرور فارورڈ کریں*

*ہندوستان میں مسلمان اپنی مالی حالت کیسے مضبوط کر یں۔

*ہندوستان میں مسلمان اپنی مالی حالت کیسے مضبوط کر یں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے معاشی حالت مستحکم کرنے کے کئی راستے ہیں. تجارت، زراعت، ملازمت اور قومی و ملکی سرمایہ میں حصہ داری وغیرہ. جہاں تک قومی و ملکی سرمایہ میں حصہ داری کی بات ہے تو اس کی جو بھی شکل ہو سرکاری ملازمت، سرکاری عہدے یا سرکاری مالیات سے استفادہ، اس سلسلے میں زیادہ توقع رکھنا فضول ہے. ہندوستان کے سابقہ و موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مستقبل قریب ہی نہیں بلکہ مستقبل بعید میں بھی مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے حصہ داری ملنا اگر ناممکن نہیں تو بعید الوقوع ضرور ہے. ہندوستان میں مسلمان ستر سالوں سے ترقی کرنے کے لئے اسی راستے کو اپنا سہارا اور امید کی کرن بناءے ہوءے ہیں جبکہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس راستے کے علاوہ باقی سارے راستے کھلے ہوءے ہیں اور وہ وسیع امکانات سے پر ہیں مگر مسلمان امکانات والے راستوں کو اختیار کرنے کے بجائے مشکلات والے راستے میں اپنی پوری توانائی صرف کر رہے ہیں

مسلمان زراعت، تجارت ،پرائیویٹ کمپنیوں و پرائیویٹ اداروں کے قیام اور پرائیویٹ اداروں میں ملازمت کے میدانوں میں اپنی جدوجہد اور محنت کے اعتبار سے بےپناہ کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں، یہاں وہ اس تعصب کے شکار نہیں ہوں گے جس کے شکار وہ سرکاری شعبوں میں ہوتے رہتے ہیں. ان میں سے بھی تجارت کا شعبہ ایسا ہے جہاں وہ اپنی محنت اور قسمت کے اعتبار سے لامحدود دولتوں کے مالک بن سکتے ہیں. یوں بھی تجارت کرنا سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے اور امانت دار تاجر کے لئے بڑے فضائل اور کافی بشارتیں احادیث میں آئی ہوئی ہیں. ایک حدیث میں ہے کہ سچا امانت دار تاجر قیامت کے روز انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا( التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین و الشہداء(ترمذی )

ادھر حال ہی میں میں نے ایک مسلمان کی دکان سے کچھ سامان خریدا، اس میں کچھ نقص تھا اس پر ان کو توجہ دلائی، میرے ساتھ ایک صاحب تھے، وہ بول گئے کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو پھر دوبارہ آپ کی دکان پر نہیں آئیں گے. اتنا سننا تھا کہ وہ مسلم دکاندار آپے سے باہر ہو گیا اور بجاءے اس کے کہ وہ اپنے سامان کے تعلق سے وضاحت و صفائی پیش کرتا، انھونے چیخنا چلانا اور دھمکانا شروع کردیا کہ آپ کے آسرے پر ہم نے دکان نہیں کھولی ہے، آپ کے جیسے کتنے خریدار لوگ آتے ہیں اور جاتے ہیں، آپ ہم کو دکان پر نہ آنے کی دھمکی کیا دیتے ہیں کیا آپ ہی سے ہماری دکان چلتی ہے؟ کسی نے اس سے کہا کہ آپ گاہک سے کس طرح بات کر رہے ہیں. اس پر انھوں نے کہا کہ مجھے ایسا گاہک نہیں چاہئیے، میرے پاس دوسرے بہت سے گاہک آتے رہتے ہیں. اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں. میں نے کہا یہ صرف اس دکاندار کی بات نہیں ہے، در اصل ہم لوگ مسلمان ہیں اور ہم لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے تجارت کرنا. ہم لوگوں کا کام ہے سائیکل کے ٹائروں کا پنچر بنانا اور دوسروں کی مزدوری کرنا. میں نے کہا ہمارے خطے میں مختلف ٹاؤن و شہر میں مارواڑی لوگوں کی دکانیں رہتی ہیں( وہ غالباً راجستھان کے اصل باشندے ہیں اور یہاں آکر آباد ہو گئے ہیں ) اگر آپ ان سے یہی جملہ کہتے کہ اب دوبارہ ہم آپ کی دکان پر نہیں آئیں گے تو وہ دسیوں بار منت سماجت کرتے اور سامان کے بارے میں صفائی پیش کرنے کے ساتھ اعتماد بحال کرنے کے لئے میٹھی میٹھی باتیں کرتے باوجودیکہ وہ کروڑوں کے مالک ہیں اور ہم مسلمان چند ہزار کے مالک نہیں ہوتے اور ذرا سی بات برداشت نہیں ہوتی جبکہ دکان کے اصول میں سے ہے سخت کلامی کا جواب سنجیدگی اور پیار سے دینا

یہ ایک ہی ایسا واقعہ نہیں، عموماً مسلمان دکانداروں سے سب لوگوں کو یہی شکایت رہتی ہے کہ وہ بد اخلاق، بد زبان اور بد دیانت ہوتے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ شکایت کرنے والے جب خود دکان رکھتے ہیں تو وہ بھی انھیں جیسی حرکتیں کرنے لگتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود مسلمان دکاندار دوسرے مسلمان دکانداروں کے طرز عمل کا خوب شکوہ کریں گے مگر ان کو خود اپنا طرز عمل نظر نہیں آءےگا . ایسے میں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب مسلمانوں کے لئے تجارت کا راستہ امکانات سے پر ہے اور انھوں نے اس کو بھی اپنی حرکتوں سے بند کر رکھا ہے تو اب ان کے لئے کون سا راستہ کھلے گا جس سے وہ اپنی ترقی کی منزل طے کریں گے؟

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...