*ہندوستان میں مسلمان اپنی مالی حالت کیسے مضبوط کر یں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے معاشی حالت مستحکم کرنے کے کئی راستے ہیں. تجارت، زراعت، ملازمت اور قومی و ملکی سرمایہ میں حصہ داری وغیرہ. جہاں تک قومی و ملکی سرمایہ میں حصہ داری کی بات ہے تو اس کی جو بھی شکل ہو سرکاری ملازمت، سرکاری عہدے یا سرکاری مالیات سے استفادہ، اس سلسلے میں زیادہ توقع رکھنا فضول ہے. ہندوستان کے سابقہ و موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مستقبل قریب ہی نہیں بلکہ مستقبل بعید میں بھی مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے حصہ داری ملنا اگر ناممکن نہیں تو بعید الوقوع ضرور ہے. ہندوستان میں مسلمان ستر سالوں سے ترقی کرنے کے لئے اسی راستے کو اپنا سہارا اور امید کی کرن بناءے ہوءے ہیں جبکہ واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس راستے کے علاوہ باقی سارے راستے کھلے ہوءے ہیں اور وہ وسیع امکانات سے پر ہیں مگر مسلمان امکانات والے راستوں کو اختیار کرنے کے بجائے مشکلات والے راستے میں اپنی پوری توانائی صرف کر رہے ہیں
مسلمان زراعت، تجارت ،پرائیویٹ کمپنیوں و پرائیویٹ اداروں کے قیام اور پرائیویٹ اداروں میں ملازمت کے میدانوں میں اپنی جدوجہد اور محنت کے اعتبار سے بےپناہ کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں، یہاں وہ اس تعصب کے شکار نہیں ہوں گے جس کے شکار وہ سرکاری شعبوں میں ہوتے رہتے ہیں. ان میں سے بھی تجارت کا شعبہ ایسا ہے جہاں وہ اپنی محنت اور قسمت کے اعتبار سے لامحدود دولتوں کے مالک بن سکتے ہیں. یوں بھی تجارت کرنا سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے اور امانت دار تاجر کے لئے بڑے فضائل اور کافی بشارتیں احادیث میں آئی ہوئی ہیں. ایک حدیث میں ہے کہ سچا امانت دار تاجر قیامت کے روز انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا( التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین و الشہداء(ترمذی )
ادھر حال ہی میں میں نے ایک مسلمان کی دکان سے کچھ سامان خریدا، اس میں کچھ نقص تھا اس پر ان کو توجہ دلائی، میرے ساتھ ایک صاحب تھے، وہ بول گئے کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو پھر دوبارہ آپ کی دکان پر نہیں آئیں گے. اتنا سننا تھا کہ وہ مسلم دکاندار آپے سے باہر ہو گیا اور بجاءے اس کے کہ وہ اپنے سامان کے تعلق سے وضاحت و صفائی پیش کرتا، انھونے چیخنا چلانا اور دھمکانا شروع کردیا کہ آپ کے آسرے پر ہم نے دکان نہیں کھولی ہے، آپ کے جیسے کتنے خریدار لوگ آتے ہیں اور جاتے ہیں، آپ ہم کو دکان پر نہ آنے کی دھمکی کیا دیتے ہیں کیا آپ ہی سے ہماری دکان چلتی ہے؟ کسی نے اس سے کہا کہ آپ گاہک سے کس طرح بات کر رہے ہیں. اس پر انھوں نے کہا کہ مجھے ایسا گاہک نہیں چاہئیے، میرے پاس دوسرے بہت سے گاہک آتے رہتے ہیں. اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں. میں نے کہا یہ صرف اس دکاندار کی بات نہیں ہے، در اصل ہم لوگ مسلمان ہیں اور ہم لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے تجارت کرنا. ہم لوگوں کا کام ہے سائیکل کے ٹائروں کا پنچر بنانا اور دوسروں کی مزدوری کرنا. میں نے کہا ہمارے خطے میں مختلف ٹاؤن و شہر میں مارواڑی لوگوں کی دکانیں رہتی ہیں( وہ غالباً راجستھان کے اصل باشندے ہیں اور یہاں آکر آباد ہو گئے ہیں ) اگر آپ ان سے یہی جملہ کہتے کہ اب دوبارہ ہم آپ کی دکان پر نہیں آئیں گے تو وہ دسیوں بار منت سماجت کرتے اور سامان کے بارے میں صفائی پیش کرنے کے ساتھ اعتماد بحال کرنے کے لئے میٹھی میٹھی باتیں کرتے باوجودیکہ وہ کروڑوں کے مالک ہیں اور ہم مسلمان چند ہزار کے مالک نہیں ہوتے اور ذرا سی بات برداشت نہیں ہوتی جبکہ دکان کے اصول میں سے ہے سخت کلامی کا جواب سنجیدگی اور پیار سے دینا
یہ ایک ہی ایسا واقعہ نہیں، عموماً مسلمان دکانداروں سے سب لوگوں کو یہی شکایت رہتی ہے کہ وہ بد اخلاق، بد زبان اور بد دیانت ہوتے ہیں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ شکایت کرنے والے جب خود دکان رکھتے ہیں تو وہ بھی انھیں جیسی حرکتیں کرنے لگتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ خود مسلمان دکاندار دوسرے مسلمان دکانداروں کے طرز عمل کا خوب شکوہ کریں گے مگر ان کو خود اپنا طرز عمل نظر نہیں آءےگا . ایسے میں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب مسلمانوں کے لئے تجارت کا راستہ امکانات سے پر ہے اور انھوں نے اس کو بھی اپنی حرکتوں سے بند کر رکھا ہے تو اب ان کے لئے کون سا راستہ کھلے گا جس سے وہ اپنی ترقی کی منزل طے کریں گے؟