Sunday, July 14, 2019

ہندوستان سےمسلمانوں کا صفایا کیسے کیا جائے؟

#ہندوستان_سے_مسلمانوں_کا_صفایا_کیسے_کیا_جائے؟
وی ٹی راج شیکھر
ترجمہ محمد غزالی خان
یہ چشم کشا اور فکر انگیزمضمون دلت وائس، 16-31 مئی، 1999 ، میں شائع ہوا تھا جس میں معروف صحافی  وی ٹی راج شیکھر نے لکھا تھا: ’’ اس وقت تو محض بیج بوئے جا رہے ہیں فصل کاٹے جانے کا وقت تو ابھی آنا ہے۔ اور فصل کاٹے جانے  کے وقت ہندوستان میں جو کچھ کاٹا جا رہا ہوگا وہ وہی ہوگا جو اسپین میں ہوچکا ہے‘‘
میں نے گزشتہ ہفتے انگریزی والے مضمون کا لنک ایک دوست کی پوسٹ پر اپنے کمنٹ میں شامل کیا تھا جس پر کچھ دوستوں نے اس کے اردہ ترجمے کی فرمائش کی تھی۔ لہٰذا اردو ترجمہ حاضر ہے — غزالی
مسلمانوں نے اسپین پر 721   بعد از مسیح سے 780 بعد از مسیح تک حکومت کی۔ اس کے باوجود آج اسپین میں مسلمانوں کا وجود نہیں ہے۔ حالانکہ وہاں تمام شعبہ ہائے زندگی پر اسلام کے اثرات ہیں۔ اسپین کی زبان میں دیگر یوروپی زبانوں کی بانسبت عربی کے زیادہ الفاظ موجود ہیں، اس کی موسیقی پر عرب موسیقی کا اثر ہے، اس کی ثقافت پر یوروپین تہذیب کے بجائے عرب ثقافت  کی چھاپ ہے اور یہاں تک کے کہ عرب ناموں کی طرح یہاں ناموں کے شروع میں ’’ال‘‘ لگا ہوتا ہے۔ 1942 سے، جب غرناطہ میں مسلم سیاست کا آخری قلعہ مسمار ہوا تھا، اسپین میں مسلمانوں کے زوال کی شروعات ہو گئی تھی اور 120 سال بعد 1612 میں یہ زوال یہاں سے با عمل مسلمانوں کے آخری قافلے کی روانگی کے ساتھ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس سال کے بعد اسپین کے افق سے اسلام بالکل غائب ہو گیا۔
ایک قابل غورنکتہ یہ ہے کہ اسپین میں اسلام کی تنزلی کے اُس دور میں پوری مہذب دنیا پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ ترکی کی عثمانی خلافت قسطنطنیہ پر 1553 میں قبضہ کر چکی تھی اورجزیرہ نما بلقان کاتمام علاقہ اس کے زیر تسلط تھا۔ مصرمیں طاقت ور مملوک حاکم تھے۔ عباسیوں کے زیر حکمرانی ایران اپنے عروج پر تھا اور ہندوستان میں مغلوں کی حکومت تھی۔ اس کے باوجود اسپین کے مسلمانوں کو بچانے کیلئے ان عظیم افواج نے کچھ نہ کیا۔ اسپین میں اسلام کا خاتمہ کیسے ہوا؟ اس صدی کی 30 اور 40 کی دہائی میں ہندوستان کے ہندو فسطائیوں نے اس موضوع میں گہری دلچسپی لی تھی۔ انہوں نے اس کا مطالعہ اس غرض سے کیا تھا تاکہ ہندوستان میں اس کی نقل کی جا سکے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں اسپین کی کہانی دوہرائے جانے کو روکنے کیلئے مسلمانوں نے اپنے طور پر اس کا مطالعہ کیا تھا کیونکہ سب سے بڑی  اقلیت ہونے کی وجہ سے(1981 کی مردم شماری کے مطابق ان کا تناسب 11.35 ہے) وہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کیلئے سب سے بڑا درد سر بن گئے ہیں۔ مگر ہندوستان کے مسلمان اسپین کی تاریخ اور اس کی بنیاد پر تیار کی جانے والی سازشوں سے لا علم ہیں۔
یہاں ہمارا مقصد اس موضوع پر کچھ روشنی ڈالنا ہے تاکہ مسلمانوں کا سنجیدہ طبقہ اور ان سے ہمدردی رکھنے والے افراد اس پہلو پر مزید تحقیق کرلیں۔ ہندوستان کی طرح اسپین کے مسلمانوں کی بھی تین اقسام تھیں: (1)اصل عربوں کی  اولادیں (2) عرب باپوں اور اسپینی ماؤں کی اولادیں (3) جنہوں نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرلیا تھا۔  سقوط غرناطہ کے بعد اپنی جانیں (دولت نہیں کیونکہ دولت لیجانے کی اجازت نہیں تھی) بچانے کیلئے اصل عرب تیونس اور مراکش چلے گئے۔ بہت سے عیسائی حملہ آوروں کے ہاتھوں مارے گئے۔ وہ عرب جنہوں نے اسپین میں رہنے کو ترجیح دی انہیں بالآخر ’’غیر ملکی‘‘اور اسپین کو برباد کرنے والے قرار دے دیا گیاِ، جیسا کہ ہندوستان میں کیا جارہا ہے)۔ دیگر مسلمان یعنی مسلمان باپوں اور عیسائی ماؤں کی اولادیں یا عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والوں نے مکمل مذہبی آزادی دئے جانے کے شاہ فرنیڈانڈ کے اعلان پر یقین کرتے ہوئے  اسپین میں رہتے رہنے کا فیصلہ کیا۔ (ہندوستان میں بھی تو ہمیں یہ ہی بتایا جاتا ہے کہ مسلماوں کو مکمل مذہبی آزادی اور اقلیتی حقوق حاصل ہیں)۔ شروع کے سالوں میں ان کی زندگی اور املاک پر حملوں کو عارضی رویہ قرار دے کر معاف کردیا جاتا تھا۔
اس کا موازنہ 1947 میں تقسیم کے حالات سے کیجئے۔ (یہ مضمون 1999 میں لکھا گیا تھا۔ اسپین میں مسلمانوں پر حملوں اور قاتلوں اور جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا موازنہ گجرات، مظفر نگراور مالیگاؤں میں مسلمانوں کے قاتلوں کی یکے بعد دیگرے رہائی اور حکومت وقت کے ذریعے انہیں نوازے جانے سے کیجئے — مترجم)۔ اسپین میں مسلمانوں پر حملے محض اُسی وقت شروع نہیں ہوئے بلکہ 50 سال بعد تک اس سے کم شدت کے ساتھ وقتاً فوقتاً جاری رہے۔ بالکل جس طرح آج ہندوستان میں ہو رہا ہے۔ تقسیم کے بعد ابتدائی سالوں میں ہندوستانی مسلمانوں نے مزاحمت دکھائی اور حملہ آوروں کو جواب دیا۔ سڑکوں پر چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوئیں مگر آہستہ آہستہ یہ یک طرفہ حملوں میں بدل گئیں اور شکست مسلمانوں کی ہوئی۔ اور اب تو ہندو پولیس کو مسلمانوں کے قتل کی کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے۔
اسپین میں جس وقت منظم عیسائی گروپ قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے تھےِ، فرنیڈانڈ کی حکومت مسلمانوں کا نوکریوں سے صفایا کرنے کیلئے مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل پیرا تھی:
• انتظامیہ سے عربی زبان کو خارج کردیا گیا۔ جو اسکول مساجد سے منسلک تھے ان پر پابندی لگادی گئی کہ غیر مذہبی مضامین، مسلاً سائنس، تاریخ، ریاضی، اور فلسفہ نہ پڑھائیں۔ وہ صرف مذہبی تعلیم دے سکتے تھے۔
• تاریخ کی تعلیم جھوٹے واقعات کی بنیاد پر دی جانے لگی جس میں مسلمان دور حکومت ظلم اور صفاکی کا دور بتایا گیا۔ اسپین کی تعمیر میں مسلمانوں کے کردار کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔
• ہتھیار جمع کرنے اور خفیہ میٹنگوں کے انعقاد کے الزام کے بہانے مسلمانوں کے گھروں کی آئے دن تلاشی ہوتی تھی۔
• نسلً اصلی عربوں کے بارے میں مشہور کردیا گیا تھا کہ وہ ملک دشمن ہیں اور یہ کہ انھوں نے اسپین کو تباہ کیا ہے۔
• جن عیسائیوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ان کو یہ کہہ کر دوبارہ عیسائی بننے کی ترغیب دی گئی کہ ان کے اجداد کو زبردستی مسلمان بنالیا گیا تھا اور اب کیونکہ کوئی دباؤ موجود نہیں رہا، لہٰذا انہیں عیسائیت اختیار کر لینی چاہئے۔
• جن مسلمانوں کے اجداد عیسائی اور مسلمان تھے انہیں حرامی قرار دیا جاتا، ان کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور ان پر عیسائیت قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا تھا۔
• اسلامی طریقے سے ہونے والی شادیوں کا عدالت میں جا کر رجسٹریشن کروانا لازمی  کردیا گیا اوراسلامی قوانین کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔
اسپین میں اختیار کیا  گیا ہر طریقہ اِس وقت ہندوستان میں نہایت ہوشیاری اورمنظم طریقے کے ساتھ آزمایا جارہا ہے۔
اسپین میں مسلمانوں کا مذاق اڑایا گیا، ان کی تذلیل کی گئی اوران پر مسلسل حملے کئے جاتے رہے۔ مسلمانوں کی معیشت برباد کرنے کیلئے ان کی دوکانوں اور مکانوں کو نطرآتش کرنے کیلئے اسپین کے لوگوں کو ترغیب دی گئی۔ مسلمانوں کے عیسائیت قبول کرنے کی علامتی تقریبات منعقد  کر کے ان کی تشیہر کی گئی۔ ہندوستان میں ہر طرح کے ہندونازی— آریہ سماج، راما کرشنا مشن، وشوا ہندو پریشد وغیرہ — بالکل یہی کام انجام دے رہے ہیں۔ اسپین کے مسلمانوں کی پہلی دو نسلوں نے اپنے بچوں کو گھروں اور مساجد میں عربی پڑھاکر اور زبانی طور پر انہیں حقیقت سے روشناس کروا کر اپنے مذہب کی حفاظت کا غیر فعال طریقہ اختیار کیا۔ مگر آہستہ آہستہ ان کا جذبہ سرد پڑتا گیا۔ جب یہ حکم نافذ ہوا کہ شادی صرف سرکاری اداروں کے ذریعے ہی کی جا سکے گی توشروع شروع میں مسلمان دو تقریبات منعقد کرتے رہے۔ ایک سرکاری ادارے میں اور دوسری اپنے گھروں پراسلامی طریقے سے۔ آہستہ آہستہ دوسری تقریب پر پابندی عائد کردی گئی اورگھروں میں منعقد کی جانے والی یہ تقاریب بھی غائب ہو گئیں۔
اس دوران مسلم قیادت کے ساتھ مسلمانوں کا رابطہ ختم ہو گیا اورمسلم اشرافیہ نے بڑی تعداد میں ترکی، تیونس، مراکش اورمصرکی جانب ہجرت کرلی جہاں جذبہ ہمدردی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا گیا۔ اسپین کے غریب مسلمانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ بالکل یہی سب کچھ ہندوستان میں ہورہا ہے۔ امیراور انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان برہمنی اثرقبول کرتا جاررہا ہے۔ اس نے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی نقالی شروع کردی ہے کیونکہ وہ  غریب مسلمان (جو 95% ہیں) بد حال بستیوں میں رہتے ہیں اور مراعت یافتہ طبقے کی بانسبت وہ اسلام پرزیادہ عمل کرتے ہیں۔ مسلم کش فسادات میں انہیں لوگوں کی جانیں جاتی ہیں۔
اسپین میں جو بیج نصف صدی کے پہلے حصے میں بوئے گئے تھے، نصف صدی کے بعد ان کی فصل پوری طرح پک کر تیار ہو گئی تھی۔ اب مسلمانوں کی حفاظت کرنے کیلئے نہ کوئی قیادت باقی رہ گئی تھی اور نہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی با بصیرت شخصیت رہ گئی تھی۔ مذہبی قائدین، جنہیں دینیات کے علاوہ کسی اور چیز کا علم نہیں تھا، نے صورتحال سے نمٹنے کی بھر پور کوشش کی مگرحکومتی اداروں کے پروپیگنڈے، اس کی جانب سے دیا گیا لالچ ،عیسائیت قبول کرنے کے عوض بڑی بڑی پیشکشوں، اسلامی اقدار سے عوام کی ناواقفیت، اوران کے ذہنوں میں منظم طریقے سے پیدا کی گئی احساس کمتری کے سامنے علماء کی کوششیں بہت کمزور تھیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے سیاسی قیادت اور ایسی تنظیموں کی ضرورت تھی جن کے پاس حالات سے نمٹنے کیلئے وسا ئل دستیاب ہوں۔ جن مسلمانوں نے ترکی اور مصرکی مسلم حکومتوں سے مدد لینے کی بات کی مسلمانوں نے خود ان کی مخبری حکومت سے کی۔ مسلمانوں میں لڑنے کی خواہش کی عدم موجودگی کی وجہ سے کوئی بھی مسلم ملک ان کی مدد نہ کر سکا۔ جو مسلمان ترکی اور مصر میں ہجرت کر چکے تھے اُنہوں اِن حکومتوں کو اسپین کے مسلمانوں کی مدد کرنے کا خیال دل سے نکالنے کا مشورہ دیا کیونکہ اُن کی سوچ کے مطابق اِس سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم میں مزید شدت آجاتی۔ اُنہیں ایک احمد شاہ عبدالی کی ضرورت تھی مگر اس کا وہاں کوئی وجود نہیں تھا۔ عام مسلمان اسپین کے قومی دھارے میں شامل ہو گئے اور بے روزگار ہوجانے کی وجہ سے ملّا اسپین چھوڑ چھوڑ کر چلے گئے۔ جن مسلمانوں کواعتقاد کے لحاذ سے سخت سمجھا جاتا تھا ان کا آخری قافلہ اسپین کو  الوداع کہہ کر 1612 میں وہاں سے روانہ ہوگیا۔
ہندوستان میں بھی سیاسی قیادت اُن پارٹیوں کی دم چھلّا بن گئی جن کی قیادت اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے۔ صرف عالم دین مولانا ابولحسن ندوی نے ہندوستانی مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کی حفاظت کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہندوستان میں ’’تجربہ اسپین‘‘ پوری توانائی اور فعالیت کے ساتھ اپنایا جا رہا ہے۔ اردو زبان، جو ہندوستان میں اُتنی ہی اسلامی ہے جتنا اسپین میں عربی اسلامی تھی، کو ختم کیا جارہا ہے۔ اِس صورتحال کا مشاہدہ ہم نے بنگلور میں ہونے والے عالمی تبلیغی اجتماع میں کیا۔ (دلت وائس 15 مارچ 1985 )۔ یہ لوگ عوام میں پہنچنے کے بجائے نفسیاتی اور جسمانی گوشہ نشینی کا سہارا لے رہے ہیں۔ مسلمانوں کی جانوں اور املاک کی حفاظت کرنے کی غرض سے اٹھائےجانے والے کسی بھی قدم کو فرقہ واریت کا نام دے دیا جاتا ہے۔ کوئی مسلمان اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی تائید نہ بھی کر رہا ہو بلکہ ان کی محبت کا ڈھونگ کر رہا ہو تو اسے ’’نیشنلسٹ مسلم‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ مسلم عوام اور تعلیم یافتہ امیرمسلمانوں کے درمیان فاصلہ دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مسلمان قیادت خود بھی مسلمانوں کے قتل عام کو فطری بات سمجھتی ہے۔ جب کبھی بھی اس قسم کے مسا ئل کوبین الاقوامی اسلامی پلیٹ فارمز پر اٹھایا جاتا ہے تو اسے ہندوستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تعلیمی نصاب سے مسلم تاریخ خارج کردی گئی۔ نامورمسلمان جن کی اموات ہندوستان میں اور ہندوستان کیلئے ہوئیں ان کے نام لینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ٹیپو سلطان جس کی شہادت ہندوستان کیلئے ہوئی نئی نسل اُس تک کے نام سے نا آشنا ہے۔ اِس کے برعکس تاتیا ٹوپے، جس نے ہندوستان کیلئے نہیں بلکہ اپنی پینشن کیلئے جنگ کی تھی اور جھانسی لکشمی بائی جو اپنے سوتیلے بیٹے کو اپنے تخت کا وارث بنانے کیلئے لڑی تھی، ان کے نام ہرہندوستانی کے لبوں پر ہیں۔ سائنس، طب، موسیقی، آرٹ  کی خدمت یا بہادری کیلئے کسی مسلمان کو انعام نہیں دیا جاتا۔ انتہا تو یہ ہے کہ مولانا آزاد، قدوائی، سید محمود، ہمایوں کبیروغیرہ جنہوں نے حکمراں پارٹی کانگریس کے پرچم تلے ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی، ان کے ناموں پر کسی سڑک کا نام نہیں رکھا جاتا۔ تاریخ دوبارہ لکھی جا رہی ہے (Falsifying Indian History یعنی “تاریخ ہند کو جھوٹ سے آلودہ کرنے کا عمل” دلت وائس 16 اپریل 1985 ) مسلمانوں کو روزانہ مارا جارہا ہے اور ان کے مکان اور املاک جلائے جارہے ہیں۔ فوج، پولیس اور انتظامیہ کے دروازے ان کیلئے بند ہیں۔ اس کے باوجود اسلام کی حفاظت کی خاطرمسلم تنظیمیں خود رو گھاس کی طرح وجود میں آتی چلی جارہی ہیں۔ ہر کوئی اسلام کی حفاظت کیلئے فکرمند ہے، کوئی بھی مسلمانوں کی حفاظت نہیں کرنا چاہتا۔ ہم اس بارے میں واقعی فکرمند ہیں۔
حکمراں طبقے کی پالیسیوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اِس میں اور اسپین میں فرڈنانڈ اور ازابیل کی پالیسیوں میں بہت زیادہ مماثلت ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بیسوی صدی میں اقوام متحدہ کے منشوربرائے انسانی حقوق اور بین الاقوامی رائے عامہ کی وجہ سے اعلیٰ ذات کے ہندو زیادہ تیزاورمکاری میں زیادہ صلیقہ مند ہیں۔
آئے دن کے منظم مسلم کش فسادات میں جانی اورمالی نقصان، سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں میں خوف کی کیفیت، دفاع، افواج اور پولیس میں مسلمانوں کا صفایا کر کے ان شعبوں میں برہمنی سوچ کا فروغ دیا جانا، سرکاری نوکریوں اور اداروں میں تقرری کے دروازے مسلمانوں کیلئے بند کردینا، تعلیم اور ذرائع ابلاغ مثلاً ریڈیو اور ٹیلی ویژن وغیرہ میں برہمنی سوچ کا پھیلادیا جانا، 1947-48 میں، پنجاب، ہریانہ، یوپی، بہاراور مدھیہ پردیش، مہاراشٹرا، آندھرا پردیش، اور کرناٹک کے کچھ علاقوں سے اردو زبان کا خاتمہ،  آہستہ آہستہ اردواسکولوں کا بند کیا جانا، یہ سب مسلم دشمن پالیسیوں کی واضح مثالیں ہیں۔
نفسیاتی جنگ کے محاذ پرمسلم پرسنل لا، جسے اب یکساں سول کوڈ کا نام دے کر اسے تحلیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ہندو ثقافت کی بڑائی کا شور، ملک کی ترقی اور تعمیر میں مسلمانوں کی خدمات کو کم کرکے دکھانے کیلئے بدنام زمانہ مسلم دشمن شخصیات مثلاً ’’مہاتما‘‘ گاندھی، جی بی تلک، مدن موہن مالویہ، ویر ساورکر، لالا لاجپت رائے کو بطور ہیرو پیش کرنا، ہندوستان کی تاریخ دوبارہ لکھنا، جو کاروبار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہیں مثلاً گوشت کا کاروبار، اسے گناہ بتا کر گائے کی حفاظت کی پالیسیوں کو فروغ دینا اور مسلمانوں کے ذریعے امپورٹ ایکسپورٹ کے کاروبار کو اسمگلنگ سے تعبیر کرنا، یہ وہ حرکتیں ہیں جن سے ہندوستان کے سادہ لو عوام کو گمراہ کیا جاتا ہے جس سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے۔ مسلم اکثریتی حلقہ انتخاب کو مختلف طریقوں سے تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کے ووٹ بے وزن ہو جائیں اور ان علاقوں پرایسے انتہا پسند سیکولر مسلم لیڈروں کو مسلط کردیا جاتا ہے جنہوں نے اب گائے کی پرستش شروع کردی ہے اوران مناظر کو باقاعلہ ٹیلی ویژن پر دکھایا جاتا ہے۔ بد قسمتی سے حکومت سے ناامید مسلم قائدین ہندوؤں پر مزید انحصار کرنے لگتے ہیں اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ  ہندو (دلت) عوام اس پروپیگنڈے کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ اس وقت تو محض بیج بوئے جا رہے ہیں فصل کاٹے جانے کا وقت تو ابھی آنا ہے۔ اور فصل کاٹے جانے  کے وقت ہندوستان میں جو کچھ کاٹا جا رہا ہوگا وہ وہی ہوگا جو اسپین میں ہوچکا ہے الا یہ کہ مسلمان جلدی سے جوابی اقدامات کی تیاری کرلیں۔
یہی وقت ہے جب مسلمان یا ان میں دانشمند حضرات اٹھ کھڑے ہوں اور ہندوستان میں اسپین کی تاریخ دوہرائے جانے کو روک دیں۔ اسلام کی حفاظت ہمیشہ عوام نے کی ہے نہ کہ اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے۔ دولت مند مسلمانوں کا تناسب (کچھ استشناؤں کے علاوہ) پانچ فی صد بھی نہیں ہے جو استحصال کرنے والے اعلیٰ ذات والوں کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ طبقہ اسلام کی باتیں کرتا ہو مگر مسلمانوں کو بھول چکا ہے۔ برائے مہربانی یہ بات ذہن میں رکھیں کہ مذہب اپنے ماننے والوں کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ مذہب کے ماننے والے مذہب کی حفاظت کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہندوستان میں اسلام کو بچانے کیلئے مسلمانوں کو بچانا پڑے گا۔
ترجمہ محمد غزالی خان

Monday, April 8, 2019

سول سروس کا اڑان

مولانا شاھد رضا مصباحی ایک  عظیم
ہندوستان ہمارا بہت پیارا ملک ہے یہاں پر مختلف تہذیبیں اور مختلف مذھب کے ماننے والےلوگ  بستے ہیں.یہاں پر کافی تعداد میں مسلم بھی آباد ہیں ہر شخص کو اپنے مذھب پر عمل کی اجازت ہے کسی بھی طرح کی  تعلیم حاصل کرنے کا اختیار ہے اور باقاعدہ ہر شعبے کے الگ الگ ڈپارٹمنٹ قائم ہیں اور مزید اس میں ترقی کی راہیں سامنے آرہی ہیں لوگ آیے دن ترقی کے زینے کو چھورہے  ہیں اور گویا یہ کہ رہے ہیں کہ ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں.
انھیں ترقی حاصل کرنے والوں میں سے ایک نام محمد شاھد رضا مصباحی کا بھی ہے جنھوں نے ips آفیسر کا جو مقام حاصل کیا ہے وہ مصباحی برادران اور تمام مسلمانوں کے لیے بڑی خوشی کا موقع ہے
زمانہ طالب علمی میں جامعہ اشرفیہ میں شاھد صاحب سے کبھی کبھی ملاقات ہوجاتی تھی آج ان کی یہ عظیم کامیابی دیکھ کر گزشتہ زمانہ یاد آگیا
اللہ تعالی انھیں مزید ترقیاں عطا فرمائے
ہندوستان میں زمانہ قدیم سے مدارس کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے ہر دن اس کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے فارغین کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے والدین کی بے لوث خدمات کے بعد ایک طالب علم اعدادیہ سے فضیلت تک تمام مراحل پاس کرلیتا ہے اور اس کے بعد والدین کی آنکھوں میں ایک امید کی کرن روشن ہوتی ہے کہ بیٹا ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا ان کو کماکر کھلائے گا لیکن حال یہ ہے طالب علم  اگر اچھے نمبر اور مشہور جامعہ یا مدرسے سے فارغ ہے  تو تلاش و جستجو کے بعد زیادہ سے زیادہ دس ہزار کی نوکری حاصل کرلیتا ہے لیکن اس میں بھی بے شمار تکالیف بات بات پر انتظامیہ کمیٹی کی بے تکی باتیں ہر وقت معزول کیے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لیے چندہ کرنا ضروری ہے ورنہ جگہ جانے کاخطرہ ہے اگر سرکاری نوکری حاصل کرنا ہے تو مدارس کی موٹی کمائی پر راج کرنے والوں کو پہلے رشوت کے طور پر 20.سے 25لاکھ روپیے دینا ضروری ہوتے ہیں ایسے عالم میں ایک قابل باصلاحیت اور غریب عالم اس منصب کی حصول یابی سے محروم رہ جاتا ہے کیوں کہ اس کے پاس اتنی دولت نہیں ہے جس سے ان کا شکم پر کرسکے اور اس منصب پر ایسا مالدار شخص متمکن ہوجاتا ہے جس نے اپنے شب وروز مستی میں گزارے تھے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کامیاب اور باصلاحیت طلبہ کم اور کم علم. زیادہ فارغ ہورہے ہیں کیوں کہ مسند زریں پر بیٹھنے والا خود علم سے کورا ہے وہ دوسرے کی رہنمائی کیسے کرے گا ہر جگہ اگرچہ ایسا نہیں ہے لیکن آج کے دور میں اکثر ایسا ہی ہورہا ہے
ہر کمپنی کا یہ طریقہ ہوتا ہے جتنا مال انویسٹ ہوسکے اتنا ہی مال بناتی ہے لیکن مدارس کے منتظمین ہر سال سالانہ تعطیل کے موقع پر جگہ جگہ جلسے کا اعلان کرتے  ہیں کہ اس سال اتنے طلبہ فارع ہورہے ہیں اور اسی کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں اور ببانگ دھل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے جامعہ سے اتنے طلبہ فارع ہوگیے ہیں
لیکن اس پروڈکٹ کا کیا فائدہ
آپ نے کیا اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا ذمہ داری کا حق تو یہ تھا کہ آپ ہر سال فارغ ہونے والوں کے لیے  ان کی صلاحیت کے مطابق جگہ کا انتظام کرتے
آپ ایسا پروڈکٹ تیار کررہے ہیں جس کی مارکیٹ میں  کویی ویلو نہیں ایک نمبر سے فارع ہونے والا بھی اپنی جگہ کے لیے سرگرداں نظر آتا ہے
جگہ جگہ پریشان پھرنے کے بعد کویی مدرسہ مل گیا تو ٹھیک ہے ورنہ اب مساجد کی تلاش جاری رہتی ہے اکثر فارغ التحصیل کا یہی معمول رہتا ہے اور تنخواہ بھی معمولی رہتی ہے مساجد کی کمیٹی  کے  ظلم کی داستان تو ہر دن سننے کو ملتی ہی رہتی ہے 
اب ایسے عالم میں والدین اپنی باقی اولاد کے بارے میں کیا کبھی یہ ارادہ کریں گے کہ اسے بھی پہلے والے لڑکے  کی طرح. مدارس کے حوالے کردیں  ہر گز نہیں
پہلے تو شہر میں ہی مدارس زیادہ  ہوتے تھے  لیکن اب تو گاؤں میں بھی مدرسوں کا ایک  میلہ لگ گیا ہے ہر جبہ دستار والا ایک دوسرے جبہ دستار والے سے  ہنسی خوشی  سے ملنے کو تیار نہیں ہے 20.30  بچوں کو جمع کرکے اپنی دکان کی فکر کر رہا ہے ایسے عالم میں  مدارس اور قوم  دونوں کا نقصان ہوتا ہے چندہ بھی کئ حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے
اسی لیےفارغ تو زیادہ ہورہے ہیں لیکن کام کے افراد کم ہیں کیوں کہ اولا یا تو پڑھانے والے رشوت کے ذریعہ جگہ پائے ہیں یا پھر سالانہ جلسہ کے موقع فارغین کی تعداد دکھانا مقصود ہوتی ہے اسی لیے ہر مدرسے والا اس سے بہتر کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ کوشش  صرف تعداد میں اضافہ کے لیے ہوتی ہے صلاحیت مند ہے یا نہیں اس سے کوئی سرکار نہیں ہوتا ہے
میرا سوال ہر اس دین کے خیر خواہ ہر خانقاہ ھر اھل ثروت ہر مدرسے کی شکل میں دکان کھولنے والے ھل ذمہ دار سے ہے کہ مدرسوں کی تعداد بڑھانے سے کویی فایدہ نہیں اب ضرورت اس بات ہے کہ ہمارے انجینئرنگ کالج ہوں ہمارے میڈیکل کالج ہوں ہمارے ڈاکٹر ہوں ہمارے وکیل ہوں ہمارے قاضی ہوں ہمارے پولیس آفیسر ہوں ہمارے ips آفیسر ہوں لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ گاؤں کا پڑھا لکھا  طبقہ صرف ایک بڑا جامعہ قائم کرے باصلاحیت ہر شعبے کے اساتذہ فراہم کرے تعلیم  کا بہترین نظم ونسق قائم کرے عصری تعلیم کو خوب سے خوب فروغ دے طلبہ کی ذہنی فکروں کو پرکھیں جس میں جس فیلڈ کی خوبی دیکھیں اس کی طرف اس کی رھنمائی کریں اس سے چندہ بھی کئی حصوں میں تقسیم ہونے سے بچ جایے گا اور مقصد ایک نمایاں کامیابی ہوگا اس طرح ہر شعبے میں ایک عالم دین نظر آیے گا
کتنا پیارا وہ زمانہ ہوگا جب ہر ڈپارٹمنٹ میں عالم ہی عالم نظر آئیں گے
مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کی محنت کے مقابلہ میں اسکول میں اتنے زیادہ محنتی طلبہ نہیں ہوتے ہیں
بقول اشرف میاں کامیابی کے سارے زینے تمہارے لیے ہیں لیکن رھنمائی کی ضرورت ہے
مدارس میں داخلہ لینے والوں میں ایک تعداد غریب طلبہ کی رہتی ہے بعض تو کسی طرح گزر بسر کرکے دستار فضیلت حاصل کرلیتے ہیں ان میں سے بے شمار طلبہ کی یہ خواہشات رہتی ہیں کہ یونیورسٹی جاکر اور تعلیم حاصل کریں لیکن وہاں کا خرچ اور والدین کی جیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے ادھر والدین اب سوچنے لگتے ہیں کہ بیٹا اب کماکر کھلایے گا
اب ایسے عالم میں ھل مسلم اھل ثروت ہر خانقاہ اھل ثروت اور آج تو ہر خانقاہ اھل ثروت ہے وہ پرانے بزرگوں کے واقعات صرف کتابوں میں ملتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے اپنا سب کچھ راہ خدا می‍ں وقف کردیا کویی تارک الدنیا ہوگیے کسی نے گھاس کے پتے کھاکر زندگی گزاری
لیکن آج کا حال ہے کہ بظاھر جبہ دستار ہے  لیکن سراپا دنیا کی دولت میں گم. ہیں غریب مرید کے گھر پر جانے کا خیال بھی نہیں آتا صرف مالدار مرید ہی نظر میں بھاتے ہیں
اب ایسے عالم میں ان بظاھر جبہ دستار میں ملبوس دنیا سے دل لگانے والے مشائج سے اگر یہ امید لگائی جایے کہ آپ کچھ اس طرح کے کالج کھولیں  جس میں ہر فن کے ماھرین  کو لاییں اور مدارس سے فارغین کو ان کے آگے کی تعلیم حاصل کے مواقع فراہم کریں تو آج ایک شاھد رضا مصباحی ips آفیسر بنا ہے کل نہ جانے کتنے آفیسرس. وکلاء ڈاکٹرس  علماء کی صورت میں نظر آییں گے اور آج  جو لوگ  ان مدارس  سے جی چراتے ہیں ان سے فارغ ہونے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور  اپنے بچوں کے بارے میں بھی نیا فیصلہ کریں گے
آپ کالجز بناکر فیس بھی جاری کریں لیکن اتنی فیس رکھیں تاکہ  غریب مدارس سے فارغ آگے کی تعلیم جاری رکھ سکیں ورنہ اگر فیس کے بار سے تعلیم سے روکا تو آپ میں اور ان کالجزر کے افراد میں کیا فرق رہ جایے گا.
بس اسی پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں
ہوسکتا ہے ان میں سے کچھ باتیں کسی پر صادق آجاییں تو ھدف تنقید نہ بناییں صرف عمومی بات کی گئ ہے.
اللہ کرے دل میں اتر جایے میری بات.
محمد گل ریز رضا مصباحی

قرآن مجید کی پرنٹنگ عہد بہ عہد

دنیا کا پہلا پرنٹڈ قرآن 1537 میں اٹلی کے شہر وینس کے ایک پرنٹنگ پریس میں چھاپا گیا۔ دوسرا قرآن 1694 ہیمبرگ جرمنی اور تیسرا پرنٹڈ قرآن روس میں چھاپا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم ورلڈ میں کسی قسم کا پرنٹنگ پریس لگانا یا کوئ پرنٹڈ کتاب رکھنا حرام اور سخت جرم تھا ۔سلطان بایزید دوم نامی ایک خلیفہ نے 1485 میں علماء کی مدد سے پرنٹنگ پریس اور اسکی مصنوعات کو حرام قرار دے کر مسلم ورلڈ مین بین کردیا۔ اسکے بعد 1515 میں سلطان سلیم نامی ایک بادشاہ نے اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کے یہ فرمان جاری کیا سلطنت عثمانیہ میں کسی شہری کے پاس کوئ پرنٹنڈ کتاب پکڑی گئ تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپ میں 2 کروڑ سے زائد پرنٹڈ کتابیں بیچی جاچکی تھیں۔
اس سے پہلے 1492 عیسوی میں سلطنت عثمانیہ کی ایک ریاست اندولوسیہ (اندلس سپین) کے چند یہودیوں نے سلطان کو ایک عرضی دی کہ ان کے پاس اپنی پرنٹنگ پریس ہے اور وہ انہین اس سے استفادہ کرنے کی اجازت دیں۔ سلطان نے اس شرط پر اجازت دی کہ تم کسی مسلمان کو کوئ کتاب فروخت نہین کروگے۔
سواس طرح سپین کے یہودیوں اور عیسائیوں نے پرائیوٹ پریس سے لاکھوں کتابیں چھاپیں اور اس سے مسلمانوں کو چھوڑ کے تمام قومیں مستفید ہوئیں۔
یہ وہ وقت تھا جب یورپ اور نئے نئے امریکہ مین علوم و فنون انگڑائ لے کے بیدار ہورہے تھے اور مسلم ورلڈ جمود کا بستر اوڑھ کر سونے کی تیاری کررہی تھی۔ اسی کتابی ریولیشن سے ہزاروں عظیم سائنسدان، ڈاکٹر۔ماہر طعبیات، ریاضی دان، ماہر فلکیات پیدا ہوئے۔
حالنکہ ساتویں صدی سے تیریویں صدی تک سارا یورپ جہالت کی نیند سورہاتھا اور علوم و فنون کا خزانہ مسلمانوں کے پاس تھا۔ پہلی صلیبی جنگ جو کہ گیارویں صدی میں لڑی گئ جس مین عیسائیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا اور بہت سارے مال غنیمت کے ساتھ کاغذ بھی انکے ہاتھ لگا۔ اسی کاغذ سے بعد میں انہوں ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔
سترویں صدی تک مسلمانوں پر یہ جمود پوری طرح برقرار رہا ۔۔ بالآخر 1720 میں ایک نومسلم ابراہیم المقاتر (جوکچھ ماہ قبل ہی عیسائ سے مسلمان ہوا تھا) اس وقت کے مفتی اعظم کے پاس عرضی لے کرگیا کہ 300 سال ہوگئے یورپ میں پرنٹنگ پریس کو خدا کے لیئے اب تو جاگ جاو اور مسلم ورلڈ میں بھی اسکی اجازت دے دو، پھر اس نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئ کئ سو صفحات کی کتاب گرینڈ مفتی کودی جو پرنٹنگ پریس کے بارے میں تھی، کتاب کو پڑھ کے مفتی صاحب قائل ہوگئے لیکن انہوں نے تین کڑی شرائط کے ساتھ اسکی اجازت دی:
1۔ کوئ عربی کی کتاب پرنٹ نہین ہوگی
2۔ کوئ اسلامی کتاب پرنٹ نہین ہوگی
3۔ ہر چھپنے والی کتاب حکومت سے منظور شدہ ہوگی
اس طرح سلطنت عثمانیہ مین لولی لنگڑی پرنٹنگ پریس آئ۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔۔۔ یورپ علوم و فنون میں ہم سے 300 سال آگے نکل چکا تھا۔۔ اور اب یہ فاصلہ بڑھ کر 500 سال تک پہنچ چکا ہے۔

Thursday, April 4, 2019

مکڑی کا اپنے بچے کے باپ کا مرڈر

‮تحقیق کے مطابق مادہ مکڑی بچے دینے کے بعد نر مکڑی (اپنے بچوں کے باپ) کو قتل کر کے گھر سے باہر پھینک دیتی ہے۔ پھر جب اولاد بڑی ہو جاتی ہے، تو اپنی ماں کو قتل کر کے گھر سے باہر پھینک دیتی ہے۔ کتنا عجیب و غریب گھرانہ اوریقیناً بدترین گھرانہ ہے۔قرآن مجید کی ایک سورت ہے” العنکبوت” —- عنکبوت کو اردو میں
“مکڑی ” کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایاہے کہ سب سے بودا یا، کمزور گھر مکڑی کا ۔ہے – قرآن کا معجزہ دیکھیں، ایک جملے میں ہی اس گھرانے کی پوری کہانی بیان کر دی کہ “بے شک گھروں میں سے سب سے کمزور گھر عنکبوت کا ہے اگر یہ(انسان) علم رکھتے۔ ”انسان مکڑی کے گھر کی ظاہری کمزوری کو تو جانتے تھے، مگر اس کے گھرکی معنوی کمزوری یعنی دشمنی اور خانہ جنگی سے بے خبر تھے۔ اب جدید سائنس کی وجہ سے اس کمزوری سے بھی واقف ہو گئے، اس لیے اللہ نے فرمایا اگر یہ علم رکھتے یعنی مکڑی کی گھریلو کمزوریوں اور دشمنی سے واقف ہو تے۔اس سب کے باوجود اللہ تعالی نے ایک پوری سورت کانام اس بری خصلت والی کیڑے کے نام پر رکھا حالانکہ اس سورت کے شروع سے آخرتک گفتگو فتنوں کے بارے میں ہے۔سورت کی ابتدا یوں ہے : ” کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس بات پر چھوٹ جائیں گے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایمان لایا ہے اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا” اور فرمایا “لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں ۔جو کہتے تو ہیں کہ ہم نے ایمان لایا ہے مگر جب ان کو اللہ کی راہ میں اذیت دی جاتی ہے، تو لوگوں کی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھتے ہیں۔”ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مکڑی کا فتنوں اور آزمائشوں سے کیا تعلق ہے؟ درحقیقت، فتنے، سازشیں اور آزمائشیں بھی مکڑی کی جال کی طرح پیچیدہ ہیں اور انسان کے لیے ان کے درمیان تمیز کرنا ان کو بے نقاب کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مگر اللہ مدد کرے تو یہ کچھ بھی نہیں ہوتے.......

فیس بک Facebook

شادی شدہ ہوکر کسی عورت سے چکر چلانے یا ساری رات کسی کی بیوی سے فیس بک  اور واٹس ایپ پر باتیں کرنے کا شوق دل میں اٹھے تو شوق سے اپنا شوق پورا کریں۔*
لیکن شوق پورا کرنے سے پہلے ایک بار حضرت علامہ اقبال (رحمہ اللہ) والا پوز بنا کر سوچئے کہ اگر آپ کی بیوی کسی مرد سے چکر چلائے یا ساری رات کسی مرد سے فیس بک یا وٹس ایپ پر باتیں کرے تو آپ کو کیسا لگے گا؟
اگر آپ بین الاقوامی بے غیرت نہیں تو یقیناً برا لگے گا۔
بس فیس بک انگریزی کے دو لفظوں سے بنا ہوا ہے :
1- فیس face
2- بک book
پہلا لفظ فیس face یعنی چہره، یہاں آپ اللہ تعالی کے اس فرمان کو ضرور یاد رکھئے:
( یَّوۡمَ تَبۡیَضُّ وُجُوۡہٌ وَّ تَسۡوَدُّ وُجُوۡہٌ ۚ )
ترجمہ : اس دن جس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے ۔ ( آل عمران 106)
جن کے چہرے روشن ہوں گے درحقیقت قیامت کے دن وہی لوگ کامیاب ہوں گے اور یہ وه لوگ ہوں گے جو دنیا میں ایمان لائے اور نیک عمل کئے. اس کے بر عکس کفر و شرک اور گناه و معاصی کرنے والوں کے چہرے سیاہ اور کالے ہوں گے.
اب آپ کو اختیار ہے کہ فیس بک کا اچھا یا غلط استعمال کر کے آپ کون سے چہرے والوں میں شامل ہونا پسند کریں گے.
دوسرا لفظ بک book یعنی کتاب ہے، یہاں آپ اللہ کے اس فرمان کو ضرور یاد رکھئے :
وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا (13) اقْرَأْ كِتاابَكَ كَفَىٰ مِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا (14)
ترجمہ : ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پا لے گا ۔ [اس سے کہا جائے گا] لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے ۔ آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے ۔ (الإسراء 13-14)
یعنی یہاں فیس بک پر جو کچھ بھی آپ کر رہے ہیں وہ آپ کے نامہ اعمال میں لکھا جا رہا ہے اور وہ save ہو رہا ہے، کل قیامت کے دن وه نامہ اعمال آپ کو دیا جائے گا اور کہا جائے گا لیجئے خود پڑھئے آپ نے فیس بک اور پر کیا کچھ کیا ہے.
خلاصہ کلام اگر آپ چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن آپ کا face چہرہ روشن ہو اور آپ اپنی book کتاب یعنی نامہ اعمال دائیں ہاتهہ میں پا کر خوش ہوں تو آپ فیس بک (Facebook) کا اچھا استعمال کیجئے. اچھی چیزیں پوسٹ اور اپلوڈ کیجئے، کفریہ و فسقیہ، گناہ و معصیت اور بے حیائی و برائی کی چیزیں پوسٹ کرنے یا لائک like اور شیئر share کرنے سے پرہیز کیجئے.
اللہ تعالى ہم سب کو نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے.
دعاؤں میں مجھے اور میرے گھر والوں کو یاد رکھیں۔ برا لگے تو پھر اس شوق کو دل میں ہی دبا دیں اور اس کے علاوہ کچھ اچھے شوق بھی آپ کے دل میں اٹھتے ہوں گے، ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
جاتے جاتے ایک بات لکھ لیجئے شاید کام آجائے۔
تو بات وہ ہے کہ آج آپ مضبوط ہیں اور آپ کے بیوی بچے کمزور لیکن جس دن آپ کے جسم نے بوڑھاپے کی چادر اوڑھ لی تب آپ کمزور اور آپ کے بیوی بچے مضبوط ہوں گے۔ بس اگر آج آپ ان کے نہ ہوئے تو کل وہ آپ کے نہیں ہوں گے۔

قصیدہ معراجیہ

امام احمد رضاؔ اور قصیدۂ معراجیہ
1856ء میں روہیل کھنڈ بریلی کی علمی و ادبی فضا میں ایک پھول کھلا جس سے مشام علم و ادب معطر و معنبر ہو گئی- امام احمد رضا محدث بریلوی اُفق علم و ادب پر مہر درخشاں بن کر جلوہ بار ہوئے۔ ابر کرم بن کر گلستانِ ادب پر برسے اور اس کشتِ لالہ زار کو مزید حسن و زینت بخشی ۔ وہ عالم فاضل، مفتی، محقق سائنس داں، ریاضی داں، ماہر نجوم و فلکیات و ہیئت تھے اور ساتھ ساتھ صاحب طرز ادیب و باکمال شاعر بھی۔ اس بات پر اُن کے نثری جواہر پارے نیز نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ شاہد عدل ہیں۔ اُن کی حیات کے ہر ہر گوشے پر محققین تحقیق میں مصروف ہیں۔ کئی تحقیقاتی ادارے اکیڈمک طرز پر فروغ رضویات کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہاں ہم رضا بریلوی کے دیوان سے ایک قصیدہ ’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ پر مختصر تبصرہ کریں گے۔
دبستان لکھنو کے عظیم نعت گو شاعر سیّد محمد محسن کاکوروی مرحوم (م ۲۲ ۱۳ ھ / ۱۹۰۵ء) امام احمد رضا سے ملنے بریلی گئے۔ محسن کاکوروی اپنا لکھا ہوا ایک قصیدۂ معراج سنانا چاہتے تھے جو دُنیائے شعر و ادب میں ’’قصیدۂ لامیہ'‘ سے معروف و مشہور ہے۔ ظہر کے وقت چند اشعار سنائے، طے ہو اکہ نماز عصر کے بعد محسن کا قصیدہ سنا جائے گا۔ رضا بریلوی نے نمازِ عصر سے قبل ہی ایک عظیم الشان قصیدۂ معراجیہ تحریر فرمایا۔ عصر بعد محسن سے فرمایا پہلے میرا قصیدہ سن لو۔ جب محسن کاکوروی نے رضا بریلوی کا 67؍ اشعار پر مشتمل قصیدہ سنا تو اپنا قصیدہ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا اور کہا کہ ’’مولانا آپ کے قصیدے کے بعد مَیں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا۔‘‘
قصیدہ کیا ہے، ایک برستا جھرنا ہے جو اپنی پوری آب و تاب اور نغمگی کے ساتھ برس رہا ہے۔ ایک کیف آور اور وجد آفریں نغمہ، تشبیہات و تلمیحات اور نادر تراکیب و بندش کا مرقع ہے۔ برجستگی، شگفتگی، سلیقہ مندی و خوش اسلوبی اور سلاست و روانی کا عظیم شاہکار ہے۔ عارفانہ و عالمانہ نکات کا حامل اور کمالات شعر و سخن سے لب ریز اس قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کیلئے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
ملک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنادل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے
حضرت محدث اعظم ہندکچھوچھوی علیہ الرحمہ نے لکھنؤ کے استاذ شعراء کی مجلس میں جب اس قصیدہ کو سنایا تو سب پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور یہ قصیدہ ختم ہوتے ہی سب نے بیک زباں ہو کر کہا کہ ’’اس کی زبان تو کوثر و تسنیم سے دُھلی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ ماہر رضویات ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی رقمطراز ہیں: ’’ یہ نظم موسیقیت اور شاعرانہ نکتہ سنجی کا مرقع ہے۔ باوجود متبحر عالم دین ہونے کے رضا نے کمال کرب کے ذکر میں قرآن و حدیث کے الفاظ کے استعمال یااقتباسات کے ساتھ ریاضی کی اصطلاحات پر مبنی شعر کہے ہیں۔ تاکہ اِس نازک مضمون کو نبھا بھی سکیں اور شرعی پاس و وقار بھی برقرار رہے اور قارئین کو معانی کی بھول بھلیوں میں گم نہ کر کے اُن کے اذہان میں مضمون کو بآسانی اُتار بھی سکیں ؎
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
کمان امکاں کے جھوٹے نقطو تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
(امام احمد رضا اور محسن و امیر، از : ڈاکٹر عزیزی ص ۱۳)
اس قصیدہ میں جہاں عصری علوم کی تراکیب و اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے وہیں دینی عقائد اور اصطلاحات کی ترجمانی بھی کی گئی ہے، کہیں عقیدۂ ختم نبوت کا بیان ہے تو کہیں حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اولیت کا ذکر، کہیں رسول عظم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور نورانیت کا ذکر ہے تو کہیں خدائے بزرگ و برتر کی قدرت اور شانِ بے نیازی کا بیان ہے؎
نماز اقصیٰ میں تھا یہی سر عیاں ہو معنیِ اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اسی سے ملنے اُسی سے اُسکی طرف گئے تھے
تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے
رضا بریلوی کے اِس قصیدہ میں منظر کشی بھی عجیب کیف و سرور کا عالم پیدا کردیتی ہے اور علم نجوم و فلکیات کی اصطلاحات اس قصیدہ کو چار چاند لگادیتی ہیں۔ اس نوع کے چند اشعار دیکھیں ؎
یہ چھوٹ پڑتی تھی اُنکے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئینے تھے
یہ جھوما میزابِ زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر
پھوہار برسی تو موتی جھڑ کر حطیم کی گود میں بھرے تھے
خدا ہی دے صبر جان پر غم دکھاؤں کیوں کر تجھے وہ عالم
جب اُنکو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولہا بنا رہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلیں جھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے
اِسی طرح درج ذیل اشعار میں علم نجوم و فلکیات کی اصطلاحات کو استعمال کیا گیا ہے؎
وہ برج بطحا کا ماہ پارہ بہشت کی سیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارہ کہ اِس قمر کے قدم گئے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروروں منزل میں جلوہ کر کے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلئے تھے
الغرض اگر باریک بینی سے کوئی ادب شناس اس علمی و ادبی شہ پارے کا فنی و ادبی جائزہ لے تو نئے گوشے اور نئے جلوے سامنے آئیں گے۔ بقول احسن العلماء علامہ سیّد محمد حسن میاں برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ: ’’ محدث بریلوی کے ایک ایک شعر پر ڈاکٹریٹ کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘
(فکر رضا کے جلوے، از : توفیق احسن برکاتی , ص۳۳ ، ممبئی)
اِس بے مثال و بے نظیر قصیدے کے اختتام پر رضا بریلوی کس شان عاجزی و غلامی سے سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں رحمت سے حصہ طلب کررہے ہیں۔ اِس عدیم المثال قصیدہ کے تعلق سے وضاحت بھی کرتے ہیں کہ نہ مجھے شاعری کی ہوس و شوق ہے نہ اس بات کی پرواہ کہ اس میں کس شان و کمال علمی سے ردیف و قافیے اور تراکیب و استعمارات و محاورات کا استعمال کیا گیا ہے کہ پوری دُنیائے ادب اس کی مثال لانے سے قاصر ہے۔ یہ سب کچھ شہرت کے لئے نہیں بلکہ ہمارا مقصود و مدعا صرف اور صرف بارگاہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم میں مقبولیت حاصل کرنا ہے اور یہ اشعار و ظیفہ کے طور پر رقم ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو ؎
نبی رحمت شفیع اُمت رضا پہ للہ ہو عنایت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیے تھے..
از قلم: وسیم رضا

Tuesday, April 2, 2019

ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین

ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین فن جن سے علمی کارنامے متوقع تھے۔ امامت و خطابت کے اس پرلطف مرغن و مچرب اور آسان  راہ پر چل پڑے جس پر چلنے کے لیے خوش الحان قاری صاحب، حافظ صاحب ، ناطرہ مکمل اور اردو میں  پانچویں پاس کافی تھا۔۔۔یہ سوچنے کا مقام ہے۔۔۔کیوں؟ آج یہ مولوی تمام پلیٹ فارم پر قوم کو ایک ہی طعنہ دیتے ہیں کہ تم دنیادار ہو جب کہ خوبصورت رومال تک انہیں مانگنے کی عادت ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا اہم زینہ اس کا اقتصاد ہے جو قوم اقتصادی طور پر مضبوط ہے لوگ اسی کے  حس و حرکت کی نقالی کرتے ہیں۔۔۔اگر ہم مثبت فکر کو پروموٹ کرتے تو آج ہمارے پاس سیکڑوں شیخ زائد ہوتے اور ہم اپنے علماء کو دنیا کی بہترین سہولیات دیتے۔۔۔لیکن ہم نے خود قوم کو سلمڈاگ بنایا ہے۔۔عزت و عظمت کے سب سے اہم ظاہری سبب یعنی معاشیات کے لیے تگ و دو  کی misinterpreting کرکے قوم کو اس قدر مفلوج کیا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی وہ اپنے بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہیں۔۔جب کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تو شاید انہیں پیش قدمی کا حوصلہ ملتا۔۔۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اس قوم کا علاج، انہیں دنیا کی قیادت سکھانے میں مضمر  ہے خواہ وہ قیادت دینی ہو کہ دنیاوی، اقتصادی ہو کہ فکری۔
۔۔۔۔۔۔۔بلوگر کے قلم سے۔۔۔۔۔۔۔

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...