Sunday, March 31, 2019

قرآن مجید میں سولہ دلوں کا ذکر

قرآن مجید میں سولہ دلوں کا ذکر
*(۱) سخت دل :* یہ ایسے دل ہیں جو عبرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی سخت ہی رہتے ہیں ۔ مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کا ر تمہارے دل سخت ہو گئے ہیں پتھروں کی طرح سخت بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے کیونکہ پتھروں میں کوئی تو ایسا بھی ہوتا ہےجس میں سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ۔کوئی پھٹتا ہے اور اسمیں سے پانی نکل آتا ہے اور کوئی خدا کے خوف سے لرزکر گر بھی جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان (سخت دل والوں) سے بے خبر نہیں (الم:ع۷)

*(۲) زنگ آلود دل:* اعمال بد کی وجہ سے دلوں پر زنگ چڑھ جاتا ہے ۔اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے انسانوں کو حق بات بھی افسانہ ہی نظر آتی ہے۔ بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔(المطففین:۱۴)

*(۳) گناہ آلود دل:* شہادت کو جو لوگ چھپاتے ہیں اور حق بات کہنے سے گریز کرتے ہیں سمجھ لو ان کے دل گناہ آلودہو گئے ہیںاور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر
نہیں۔ (البقرہ:۲۸۳)

*(۴) ٹیڑھے دل:* جو لوگ فتنہ وفسادپھیلاتے ہیں جان لو کہ ان کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ۔لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے رہتے ہیں اور ان کو معنیٰ پہنانے کی کو شش کرتے ہیں ۔حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (آل عمران :۷)

*(۵) دانش مند دل :* جسے دل کی کجی کا خوف ہو وہ دانش مند ہے۔دانش مند دل والے اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ (آل عمران:۸)

*(۶) نہ سوچنے والے دل:* جو لوگ اپنے دلوں سے سوچتے نہیں وہ جہنمی ہیںاور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے جن اور انسان ہیں جن کو ہم نے جہنم کیلئے پیدا کیا ہے ۔ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ۔ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں ، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں۔ (البقرہ)

*(۷) لرز اٹھنے والے دل:* اللہ کا ذکر سن کر جس کا دل لرز اٹھے وہ سچا مومن ہے ۔(الانفال:۳)

*(۸) ٹھپہ لگے ہوئے دل:* جو حد سے گذر جائیگا اس کے دل پر ٹھپہ لگ جا ئیگا۔یعنی ہدایت حاصل نہ کر سکے گا ۔اس طرح ہم حد سے گذر جانےوالوں کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیتے ہیں(یونس:۴۷)

*(۹) مطمئن دل:* اللہ کی یاد کرنے والا دل ہی مطمئن ہوتا ہے ۔اور ہم ہی اسے اطمنان دیتے ہیں۔ (الرعد:۲۸)

*(۱۰) مجرم دل:* اللہ کا کلام سننے کے بعد آگ کی طرح گرم ہو نے والا مجرم دل رکھتا ہے اس کے دل میں جرائم کی گرمی ہوتی ہے
(سورہ زمر:۱۱)

*(۱۱) کانپ اٹھنے والے دل:* اللہ کا ذکر سن کر جس کا دل کانپ اٹھے وہ مومن ہے ۔(الحجر)

*(۱۲) اندھے دل :* جو نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی عبرت حاصل نہ کرے اس کا دل اندھا ہے ۔(الحج۴۵)

*(۱۳) قلب سلیم دل :* حشر کے دن صرف قلب سلیم ہی فائدہ دے گا ۔جب کہ نہ کوئی مال فائدہ دے گا نہ اولاد بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لئے ہوئےاللہ کے حضور حاضر ہو۔( الشعر۸۸۔۸۹)

*(۱۴) بے ایمان دل:* جس کا دل کڑھنے لگے سمجھ لو کہ وہ بے ایمان اور منکر آخرت ہے۔(الزمر۴۵)

*(۱۵) متکبر دل:* اللہ ہر متکبر اور جبار کے دل پر ٹھپہ لگا دیتا (المومن۳۴)

*(۱۶) ایمان والے دل :* جن لوگوں کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلتے ہیں وہ ایمان والے ہیں ۔ (الحدید۱۶)

عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح

عوام میں مشہور غلط فہمیوں کی اصلاح
بشکل سوال و جواب
         
:سوال:-عوام میں مشہور ہے کہ روزہ رکھنے کے لئے سحری کھانا ضروری ہے تو کیا یہ صحیح ہے ؟
جواب :-روزہ رکھنے کیلئے سحری کھانا ضروری نہیں بغیر سحری کے بھی روزہ رکھنا جائز ہے البتہ مستحب یہ ہے کہ سحری کھا کر روزہ رہے
(فتاوی فیض الرسول
ص 513 ج 1)
:سوال:-کیا انجکشن لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
:جواب :-نہیں! انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
(فتاوی فیض الرسول
ص 516 ج 1)
:سوال :-ناپاکی کی حالت میں میاں بیوی روزہ رہے تو روزہ ہوتا ہے یا نہیں ؟
:-جواب :-ناپاکی  کی حالت میں روزہ رہے تو روزہ ہو جائے گا البتہ نماز نہ پڑھنے کے سبب دونوں گنہگار ہوں گے
(فتاوی فیض الرسول
ص514 ج 1 )
:-سوال :-2⃣1⃣ کیا رمضان کی راتوں میں میاں بیوی کا ہم بستر ہونا گناہ ہے ؟
:-جواب :-رمضان کی راتوں میں میاں بیوی کا ہم بستر ہونا گناہ نہیں بلکہ جس طرح رمضان کی راتوں میں کھانا پینا جائز ہے اسی طرح میاں بیوی کا ہم بستر ہونا بھی جائز ہے
(فتاوی فیض الرسول
ص 516 ج1 )
:-سوال :-3⃣1⃣افطار کی دعا افطار کے   بعد  پڑھے یا پہلے ؟
:-جواب :-افطار کے بعد پڑھے (فتاوی فیض الرسول
ص 651 ج 4)
:-سوال :- 4⃣1⃣درمیان اذان افطار کریں یا اذان کے بعد ؟
:-جواب :-سورج ڈوبنے کے بعد بلا تاخیر فورا افطار کریں اور اگر افطار سے پہلے اذان شروع ہو جائے تو ٹھوڑا کھا پی کر ٹھہر جائیں اور اذان کا جواب دیں پھر اس کے بعد جو چاہیں کھائیں پئیں اس لئے کہ اذان کے وقت جواب کے علاوہ کسی دوسرے کام میں مشغول ہونا منع ہے
(فتاوی فیض الرسول
ص 514 ج  1 )
:-سوال :-5⃣1⃣ کیا روزہ دار کیلئے دوپہر بعد مسواک کرنا مکروہ ہے ؟
:-جواب :-مسواک دوپہر سے پہلے کرے یا دوپہر کے بعد کسی وقت مکروہ نہیں
بہار شریعت میں ہے" اکثر لوگوں میں مشہور ہے کہ دوپہر بعد روزہ دار کے لئے مسواک کرنا مکروہ ہے یہ ہمارے مذہب کے خلاف ہے "
(ص 997 ج 5
مکتبہ المدینہ)
:-سوال:-6⃣1⃣کچھ لوگ اعتکاف میں چپ چاپ بیٹھے رہنے کو ضروری سمجھتے ہیں کہ بولنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے  کیا یہ صحیح ہے ؟
:-جواب :- اعتکاف میں نہ چپ رہنا ضروری ہے اور نہ محض خاموشی کوئی عبادت بلکہ حالت اعتکاف میں قرآن مجید کی تلاوت کرے تسبیح درود کا ورد رکھے نوافل پڑھے اور دینی کتابوں کا مطالعہ کرے محض چپ چاپ بیٹھے نہ رہے البتہ بری باتوں سے چپ رہنا ضروری ہے
(درمختارص 441 ج 3)
:-سوال :- 7⃣1⃣کیا کھٹی ڈکار آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
:-جواب :-کھٹی ڈکار آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا البتہ سحری کے وقت کھانے میں احتیاط برتنا چاہئیے
(فتاوی رضویہ
ص 516 587 ج 4 )
:-سوال :-8⃣1⃣جمعہ کو روزہ کے لئے خاص کرنا کیسا ہے ؟
:-جواب :- جمعہ کو روزہ کے لئے خاص کرنا منع ہے البتہ جمعہ کے پہلے یا بعد ایک دن اور روزہ رکھے تو اب جمعہ کے دن رکھنے میں کوئی حرج نہیں
(صحیح مسلم شریف
ص 360 ج 1 )

Saturday, March 30, 2019

اذان بلال اور سورج کا نکلنا

اذان بلال اور سورج کا نکلنا
عوام الناس سے لے کر خواص تک ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ حضرت سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان میں لکنت تھی جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ اذان کے کلمات کو صحیح طور پر ادا نہیں کر پاتے تھے؛ ایک مرتبہ آپ کو اذان دینے سے روکا گیا اور جب آپ نے اذان نہیں دی تو سورج ہی نہیں نکلا!
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت بلال کی "سین" اللہ تعالی کے نزدیک "شین" ہے-
اس واقعے کو کچھ مقررین بڑے شوق سے بیان کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کو بھی ایسی مسالے دار روایات سننے میں بڑا مزا آتا ہے-
کئی معتبر علما نے اس روایت کا رد کیا ہے اور اسے موضوع و منگھڑت قرار دیا ہے لیکن پھر بھی کچھ مقررین اپنی عادت سے مجبور ہیں- مقررین کی پیشہ ورانہ مجبوری اُنھیں ایسی روایات چھوڑنے نہیں دیتی،
ع    ذرا سا جھوٹ ضروری ہے داستاں کے لیے
اس روایت کے متعلق علماے محققین کی آرا ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:
(1) امام ابن کثیر (م774ھ) اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے-
(البداية والنهاية، ج5، ص477)
(2) امام شیخ عبد الرحمن سخاوی (م904ھ) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد برہان سفاقسی کے حوالے سے علامہ جمال الدین المزی کا قول نقل کرتے ہیں کہ یہ روایت عوام کی زبانوں پر تو مشہور ہے لیکن ہم نے کسی بھی کتاب میں اسے نہیں پایا-
(المقاصد الحسنة، ص190، ر221)
(3) امام سخاوی ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ ابن کثیر نے کہا کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور اسی طرح علامہ جمال الدین المزی کا قول گزر چکا-
(ایضاً، ص397، ر582، ملتقطاً)
(4) علامہ عبد الوہاب شعرانی (م973ھ) اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ عوام کی زبان پر تو مشہور ہے لیکن اصول میں ہم نے اس بارے میں کوئی تائید نہیں دیکھی-
(البدر المنیر فی غریب احادیث البشیر والنذیر، ص117، ر915 بہ حوالہ جمال بلال)
(5) علامہ شعرانی مزید لکھتے ہیں کہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں-
(ایضاً، ص186، ر1378)
(6) امام ملا علی قاری حنفی (م1014ھ) نے بھی اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے-
(الاسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الکبری، ص140 ،ر76)
(7) علامہ بدر الدین زرکشی (م794ھ) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ حافظ جمال الدین المزی فرماتے ہیں کہ یہ روایت عوام کی زبان پر تو مشہور ہے لیکن اس بارے میں ہم نے امہات الکتب میں کچھ بھی نہیں دیکھا اور اس روایت کے بارے میں شیخ برہان الدین سفاقسی کا بھی یہی قول ہے-
(اللآلی المنثورۃ فی الاحادیث المشھورۃ، ص207، 208)
(8) علامہ ابن المبرد المقدسی (م909ھ) اس روایت کو لکھنے کے بعد علامہ جمال الدین المزی کا قول نقل کرتے ہیں کہ مستند کتب میں اس کا کوئی وجود نہیں-
(التخریج الصغیر والتحبیر الکبیر، ص109، ر554)
(9) علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی (م1162ھ) اس روایت کو لکھنے کے بعد امام جلال الدین سیوطی کا قول نقل کرتے ہیں کہ امہات الکتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا اور امام ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور علامہ جمال الدین المزی سے نقل کرتے ہوئے شیخ برہان سفاقسی فرماتے ہیں کہ عوام کی زبان پر تو ایسا مشہور ہے لیکن اصل کتب میں ایسا کچھ بھی وارد نہیں ہوا-
(کشف الخفاء و مزیل الالباس، ص260، ر695)
(10) علامہ عجلونی مزید لکھتے ہیں کہ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں-
(ایضاً، ص530، ر1520)
(11 تا 15) اس روایت کا رد ان کتب میں بھی موجود ہے:
"تمیز الطیب من الخبیث"، "تذکرۃ الموضوعات للھندی"، "الدرر المنتثرۃ للسیوطی"، "الفوائد للکرمی"، "اسنی المطالب"-
(16) علامہ شریف الحق امجدی (م1421ھ) لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ بعض کتابوں میں درج ہے لیکن تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ روایت موضوع، منگھڑت اور بالکلیہ جھوٹ ہے-
(فتاوی شارح بخاری، ج2 ،ص38)
(17) علامہ عبد المنان اعظمی (م1434ھ) لکھتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان سے معزول کرنے کا ذکر ہم کو نہیں ملا بلکہ عینی جلد پنجم، صفحہ نمبر 108 میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کے لیے سفر اور حضر ہر دو حال میں اذان دیتے اور یہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ دونوں حضرات کی آخری زندگی تک مؤذن رہے-
(فتاوی بحر العلوم، ج1، ص109)
(18) مولانا غلام احمد رضا لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ موضوع و منگھڑت ہے، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ سے کلمات اذان صحیح (طور پر) ادا نہیں ہو پاتے تھے-
(ملتقطاً: فتاوی مرکز تربیت افتا، ج2، ص647)
ان دلائل کے بعد اب اس روایت کے موضوع و منگھڑت ہونے میں کوئی شک باقی نہیں.
کے,المصباحی

Friday, March 29, 2019

ضروری اِصْطِلاحات

* ضروری اِصْطِلاحات *
جب ہم علمی کتابیں پڑھتے ہیں تو اُن میں کچھ علامات نظرآتی ہیں ، جن کی تفصیل یہ ہے -
*1:* الخ ( اَ لَ خْ ) ⬅
کسی قول ، مصرعے یا جملے وغیرہ کا کچھ حصہ لکھنے کے بعد " الخ " لکھ دیا جاتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی مزید آگے بھی ہے ، اِسے آخرتک دیکھیں -
مثلاً: مصطفیٰ جان رحمت۔۔۔۔۔الخ
*2:* ١٢ ⬅ بعض کتابوں کے حاشیے کے آخر میں " ١٢ " لکھا ہوتا ہے -
علم اعداد میں لفظِ " حَد " کے بارہ عدد ہیں ، اور حد کا معنیٰ ہے اختتام ؛ تو " ١٢ " کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں پر حاشیے کی عبارت ختم ہوگئی ہے ، حاشیے کی یہی حد ہے -
*3:* منہ ( مِ نْ ہُ ) ⬅
بعض کتابوں کے حاشیے کے آخر میں " منہ " بھی لکھا ہوتا ہے اور یہ مصنف خود لکھتاہے ؛ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ حاشیہ کسی اور کا نہیں ، میرا ( کتاب لکھنے والے کا ) اپنا ہے -
*4:* ١٢منہ ⬅
بعض حواشی میں یہ دونوں ہوتے ہیں ، جن سے یہی مراد ہوتاہے کہ یہ حاشیہ مصنف کا ہے جو کہ یہاں تک ختم ہوگیاہے ( اس سے آگے جواضافہ ہوگا وہ محشی کا ہوگا مصنف کا نہیں ) -
*5:* ایضاً ( اَ یْ ضَ نْ ) ⬅
جب ایک ہی بات ، یا حوالے کو دُھرانا مقصودہوتا ہے ، یا ایک ہی چیز کے مختلف مطالب بیان کرنا ہوتے ہیں تو بار بار تفصیل لکھنے کے بجائے نیچے " ایضاً " لکھ دیا جاتاہے -
مثلاً:
☀️ بخاری شریف کے بیالیسویں صفحے سے دو حدیثیں بیان کرنی ہیں تو پہلی حدیث کے نیچے حوالہ لکھیں گے :
بخاری شریف ص 42 -
اس کے بعد والی حدیثِ پاک لکھ کر حوالہ لکھنے کے بجائے " ایضاً " لکھ دینا ہی کافی ہوگا ؛ اِس سے پڑھنے والا سمجھ جائے گا کہ اِس حدیث کا بھی وہی حوالہ ہے جواوپر والی حدیث کا ہے -
☀️ میرزا داغ دہلوی کہتے ہیں :
جوتم کو ہم سے نفرت ہےتوہم کوتم سے ایضاً ہے
جو تم نظریں بدلتے ہو تو ہم بھی دل بدلتے ہیں
یعنی تم کوہم سے نفرت ہے تو ہم کو بھی تم سے ایضاً ( یعنی نفرت ) ہی ہے -
☀️ " بات " ، ایک لفظ ہے جس کے مختلف معانی ہیں ، جنھیں ہم اس طرح بھی بیان کرسکتے ہیں :
بات: بہ معنیٰ قول - جیسے معروف کاشعرہے:
زلف رخ پہ جوچھٹی رات ہوئی یا نہ ہوئی
کیوں نہ کہتاتھا مری بات ہوئی یا نہ ہوئی
ایضاً : شہرت - جیسے سحر کہتاہے:
اپنی توہرطرح بسر اوقات ہوگئی
وہ بات کی کہ شہر میں اک بات ہوگئی
ایضاً: عادت - جیسے امیر کا شعر ہے:
بت میں نہ وفا کی بات پائی
بے عیب خدا کی ذات پائی
یہاں ہرجگہ لفظِ بات لکھ کر اس کا معنی لکھنے کے بجائے ایضاً لکھ دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ تمام معانی " بات "  کے ہیں -
*6:* ع ⬅
یہ مصرع کی علامت ہے ، علما و اُدَبا جب مصرع نقل کرتے ہیں تو " ع " لگاتے ہیں -
*7:*  ؎  ⬅ یہ شعر یا نظم کی علامت ہے ، اگر آپ اپنی تحریر میں صرف مصرع لکھنا چاہتے ہیں تو " ع " استعمال کریں ، اور اگر ایک یا زیادہ شعر لکھنا چاہتے ہیں تو یہ "   ؎ " علامت استعمال کریں -
اِنھیں گَڈمَڈ نہیں کرنا چاہیے ؛ یہ نہ ہو کہ شعر کی جگہ مصرع کی علامت اور مصرع کی جگہ شعر کی علامت درج کردیں -
راوالپنڈی کے ایک صاحب نے کتاب لکھی تھی جس میں دیگر غلطیوں کے ساتھ ان علامات کو بھی گڈمڈ کردیا تھا -
گجرات کے ایک مفتی صاحب نے دیگر غلطیوں کے ساتھ اس پر بھی اُن کا سخت تعقب کیا اور اِسے کم علمی وجہالت قرار دیا -
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے ساتھ بھی یہ ماجرا پیش آجائے ، اس لیے " ع اور  ؎ " کا استعمال ذہن میں رکھیں.

*جاگو ووٹر جاگو اپنی قیمت پہچانو !*

*ایک نیتا ووٹ مانگنے کیلئے ایک بوڑھے آدمی کے پاس گیا اور انہے/ 1000 روپئے پکڑاتے ہوئے کہا. "بابا جی. اس بار ووٹ مجھے دیں! "*
*بابا جی نے کہا ' بیٹا مجھے پیسے نہیں چاہیئے. پر تمہیں ووٹ چاہیئے تو ایک گدھا خرید کے لا دو!*
*نیتا کو ووٹ چاہیئے تھا. وہ گدھا خریدنے نکلا ! مگر کہی بھی. /20000 سے کم قیمت کوئی گدھا نہیں ملا! تو واپس آکر بابا جی سے بولا ' مناسب قیمت پر کوئی گدھا نہیں ملا !*
*کم سے کم /20000 کا گدھا ہے*
*اس لیئے میں آپ کو گدھا تو نہیں دے سکتا پر /1000 دے سکتا ھوں !*
*بابا جی نے کہا. "بیٹا اور شرمندہ نا کرو ! "*
*"تمہاری نظر میں میری قیمت گدھے سے بھی کم ہے جب گدھا /20000 سے کم میں نہیں بکا میں تو ھوں  /1000 میں کیسے بک سکتا ھوں ؟؟؟؟؟؟*
*جاگو ووٹر جاگو اپنی قیمت پہچانو !*

ذہنی مریض تھا

ذہنی مریض تھا
مگر جانتا تھا کہ یہ مسلمانوں کی مسجد ہے،
ذہنی مریض تھا
مگر جانتا تھا کہ جدید اسلحہ کیسے استعمال کرنا ہے،
ذہنی مریض تھا
مگر جانتا تھا کہ کیمرہ سر پر لگا کر ویڈیو لائیو چلانی ہے،
ذہنی مریض تھا
مگر جانتا تھا کہ ایک دو کو نہیں بلکہ تین چار درجن مسلمانوں کو شہید کرنا ہے۔
ذہنی مریض تھا
مگر جانتا تھا کہ ابھی جمعے کا وقت ہے اور ابھی ہی مسجد میں جانا چاہیے۔۔۔۔۔
کب تک؟؟؟ آخر کب تک؟؟؟
صرف مسلمان ہی دہشت گردی کا نشانہ بنتے رہیں گے؟؟؟ وہاں نیوزی لینڈ میں نمازیوں کو مار کر، پوری دنیا کا رخ کرائسٹ چرچ کی طرف پھیر کر وہاں اسرائیل نے غزہ پر حملہ کردیا جس کی کسی کو خبر ہی نہیں۔۔۔۔
وہ سب کچھ کرکے بھی امن پسند اور مسلمان کچھ نہ کرکے بھی دہشت گرد

حافظ قرآن اور تراویح


 حافظ قرآن اور تراویح میں قرآن
فراٹے کے ساتھ.....
تیز دوڑتی اور پھسلتی زبان ،
شتابدی سے بھی تیز ،
راجدھانی سے بھی آگے ،
ہوائ جہاز کی رفتار کا مقابلہ کرنے والی زبان ،
کیا پڑھ رہی ہے پتہ نہیں ؟
مگر پڑھے جارہی ہے ،پڑھے جا رہی ہے
بہت غور سے سننے کے بعد یا کبھی رفتار کم ہو تو لگتا ہے کہ ہاں حافظ صاحب قرآنی آیات کی تلاوت فرمارہے ہیں۔
بہت حیرت ہوتی ہے  جب لوگوں کو قرآن جلد سننے کے بعد  فخریہ اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے دیکھتا ہوں ،
جو نا تو قرآنی الفاظ کے معانی سے دلچسپی رکھتے ہیں اور ناہی مفاہیم آیات سے ان کے کوئ مطالب وابستہ ہوتے ہیں ۔
میرے ایک دوست ہیں جو بہت اچھے حافظ ہیں ، میں نے ان سے ایک دن پوچھا ، یار تم اچھے حافظ قرآن ہو تراویح کیوں نہیں سناتے ہو ؟
موصوف نے اس کے جواب میں جب راز سے پردہ اٹھایا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں
۔میرے دوست نے بتایا کہ دیکھو آج کے زمانے میں ہمارے ملک میں جو تراویح رائج ہے اس میں ثواب کا تو سوال ہی نہیں ، الٹا قرآن کی لعنت سنانے والے کے نصیبے میں بھی آتی ہے اور سننے والے کے بھی ،
تم لوگ عالم ہو جانتے ہوگے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
*" بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں جن پر قرآن لعنت بھیجتا ہے"*
آج تم جتنے بھی تراویح میں قرآن سنانے والے حفاظ سے مل لو کسی کا مطمح نظر یہ نہیں ہوتا کہ ہم قرآن پڑھ کر ثواب حاصل کریں گے
        
           *۔الاماشاءاللہ*۔
اکثر تراویح میں ملنے والی رقوم کی لالچ میں تراویح کے لئے محنت کرتے ہیں ،
ہزار کوشش کے باوجود بھی مجھے اس بات کے تاریخی شواہد نہیں ملے کہ ہمارے ہندوستان میں الفاظ کو توڑ مروڑ کر برق رفتاری سے تراویح میں قرآن پڑھنے کی رسم کب اور کہاں سے شروع ہوئ ؟
اور علماءکرام اور مفتیان عظام نے اس بات کی طرف توجہ کیوں نہیں  دی کہ اتنی تیز رفتاری سے قرآن پڑھنے کے فوائدونقصانات کیا ہیں ہمارے مذہب مقدس میں اس نہج پر اس عظیم ترین کتاب کی تلاوت جائز بھی ہے کہ نہیں.....؟
خود قرآن جس فصاحت بلاغت کے بلند وبالا معیار کے ساتھ سب سے اونچے رتبے کے فصیح وبلیغ کی طرف سے تخلیقی کائنات کے ابلغ وافصح ذات گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا  ، کیا ان سے ایک بھی روایت ایسی ملتی ہے کہ آقائے کریم علیہ الصلوہ والتسلیم نے آندھی طوفان کی طرح برق رفتاری سے قرآن پڑھا ہو یا اپنے کسی بھی جان نثار کو پڑھنے کی اجارت بھی دی ہو ۔
ہمیں تو کئی آیتیں ایسی ملتی ہیں جس میں آہستہ ، ٹھہر کراور اس کے اسرار ورموزکی طرف توجہ دے کر پڑھنے کی تاکید ملتی ہے ،
آقاء کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر یاد کرنے کے لئے قرآن کو جلدی جلدی پڑھنا چاہا تو اللہ تبارک وتعالی نے اس سے  بھی منع فرمادیا
*" ان علینا جمعہ وقرآنہ فاذا قرانہ فاتبع قرآنہ ثم ان علینا بیانہ "*
خود سوچئے جس پر قرآن نازل ہوا جب اسے بھی مصلحتا قرآن جلد جلد پڑھنے کی اجازت نہیں تو ایک عام شخص کو جسے مفہوم قرآن سے دور کا بھی واسطہ نہیں کیون کر قرآن کی توہیں کی اجازت دی جا سکتی ہے ؟
*" ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیہ "*
  آہستگی کے ساتھ ٹھہر کر پڑھنے کی تاکید کی
*" ورتل القرآن ترتیلا "* کہ قواعد و تجاوید کی رعایت کرتے ہوئے مکمل آہستگی کے ساتھ  رک رک کر تلاوت کی جائے
۔سورہ دخان کی آیت
*" وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھذاالقرآن مھجورا "*
کےتحت  مفسرین فرماتے ہیں اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ میری امت قرآن کے معانی میں  غوروفکر کرنا چھوڑ دے گی ۔
سوچئے جس برق رفتاری سے ہمارے ہندوستانی ریل حافظ اور ہوائ جہاز حافظ قرآن پڑھتے ہیں کیا قرآن کے الفاظ کے معانی سمجھنا ممکن ہیں ؟؟؟؟؟
جس طرز پر قرآن پڑھنے سے خود قرآن لعنت کرے،
پڑھنے اور سننے سے کیا فائدہ ؟؟
ایک مخصوص جماعت نے  بڑی چالاکی سے قوم مسلم میں یہ گمراہی پھیلا کر اس بدعت سیئہ کا سہرا بھی اپنے سر باندھا ہے ۔
  حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالی علیہ کا ایک واقعہ اس تعلق سے بڑا ہی سبق آموز ہے ، ان سے کسی نے شکایت کی کہ آپ کا فلاں شاگرد عشاء کے بعد کھڑا ہوتا ہے اور فجر سے پہلے نوافل میں پورا ایک قرآن پاک ختم کر لیتا ہے ،
امام صاحب بنفس نفیس اس شاگرد کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے پوچھا کہ ایسا ایسا آپ کے متعلق سن رہا ہوں کیا صحیح ہے ؟
شاگرد نے اثبات میں جواب دیا آپ نے فرمایا آج رات جب آپ قرآن پڑھنے کھڑے ہوں تو تصور کیجیے گا کہ آپ قرآن مجھے سنا رہے ہو ،
اگلے دن امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے پوچھا کہیے کیسا رہا ؟
شاگرد نے جواب دیا حضور آج تو صرف دس پارے ہی پڑھ سکا ،
آپ نے اگلا سبق دے دیا فرمایا آج کھڑے ہونا تو تصور کرنا کہ اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سنا رہا ہوں ،
اگلے دن امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے پوچھا سنائے کیسا رہا ؟،
شاگرد نے جواب دیا حضور اس کیفیت کے ساتھ تو میں ایک پارہ بھی ایک رات میں نہیں پڑھ سکا ۔
آپ نے اس سے بھی آگے بڑھ کر اگلا سبق دے دیا ، آپ نے فرمان بردار شاگرد کو حکم کیا کہ آج پڑھنے کے لئے کھڑے ہونا تو یہ تصور کرکے پڑھنا کہ خود رب تبارک وتعالی کو قرآن سنا رہا ہوں ،
اب اگلے دن استاذ محترم کے حالات پوچھنے پر شاگرد نے جو جواب دیا وہ بڑا تعجب خیز ہے اس نے کہا حضور
" آج پوری رات اس تصور کے ساتھ سورہ فاتحہ کی تلاوت بھی نہیں کر سکا۔
ہمارے دین متین میں ہر شئی کا حق متعین ہے ،
قرآن کا حق کیا ہے ؟
یہ بات ذہن میں رہے کہ جس قدر کسی شئی کے حق کا درجہ کم ہوگا اسی درجہ ثواب بھی کم سے کم  ہوتا چلا جائے گا
۔ادنی درجا  میں قرآن کا حق یہ ہے کہ اسے ٹھہر ٹھہر کر، صاف صاف ، اطمنان سے ، خشوع وخضوع اور تجاوید قواعد کے ساتھ پڑھا جائے ۔
کیا رمضان کے مبارک مہینے میں ہمارے حفاظ قرآن کا ادنی حق بھی ادا کر رہے ہیں ؟؟
جن حفاظ کو ایک رات میں کم از کم پانچ  /5 پارہ پڑھنا ہوتا ہے کبھی ان سے پوچھئے ! خشوع خضوع ، تضرع ، انکساری اور قواعدوتجاوید کا گذر بھی ان کے دلوں پر ہوتا ہے ؟
یہ پانچ پارے بھی جب  نماز تراویح میں پڑھنا ہوں  توذہن ودماغ کی کیفیات کا کیا حال ہوتا ہے  وہی لوگ بتا سکتے ہیں جو قرآن کی لعنت کا طوق اپنے گلے میں لٹکانے کے شوقین ہیں  ۔
کیا آج کے زمانے میں منصب افتاء اور بلند وبالا علمی مسند پر قابض حضرات امام مالک رحمہ اللہ کی سنت پر عمل کر کے قوم میں رائج ہوچکی اس بدعت سیئہ  پر پابندی نہیں لگا سکتے ؟
کوشش کریں تو ضرور لگا سکتے ہیں ۔
سوچیئے.......... کہیں قوم کی تباہی اور بربادی کی ایک وجہ یہ بھی تو نہیں کہ اللہ کا مقدس کلام مہینے بھر مسلمانوں کی بڑی جماعت پر لعنت بھیجتا ہے ۔
فاعتبروا یااولی الابصار........

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...