خون دل میں ڈبو لیا ہم نے
کشمیریوں کو تو اپنا درد سنانے کا بھی حق نہیں ہے۔اپنے زخم دکھانے کا بھی ادھیکار نہیں ہے۔وہاں نہ کوئی پولیس چوکی اسے ظلم سے بچانے کے لئے ہے نہ کوئی فوجی کیمپ۔ *وہاں سیکوریٹی کے نام پر جو کچھ بھی ہے بس دو سنکی اور نہایت درجے کے کمیونل مودی+ شاہ کے سیاسی محل کے تحفظ کیلئے ہے
کسی انجام کی پرواہ کئے بنا میں نے بارہا کشمیر میں ہو رہے ظلم و زیادتی کے خلاف لکھا ہے۔اور اب بھی لکھ رہا ہوں۔ظلم کی داستان لکھتے لکھتے ہاتھ شل ہونے لگے ہیں۔اپنوں کی آہوں، نالوں،گریہ و زاریوں،سسکیوں کو محسوس کرتے کرتے سینے میں گھٹن سی ہونے لگی ہے۔قلم کی سیاہی بھی خشک پڑنے لگی ہے۔قرطاس پہ پھیلے حروف بھی خون کے آنسو میں تیرنے لگے ہیں۔ میرے زندہ مسلمان ہونے کی یہ بھی ایک چھوٹی سی دلیل ہے۔بقول شخصے
*کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا اعزاز سخن*
*ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے*
*ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے*
کشمیر کی اپ ڈیٹ خبریں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔یہ سوچ کر دل دہل اٹھتا ہے کہ کشمیریوں کو تو اپنا درد سنانے کا بھی حق نہیں ہے۔اپنے زخم دکھانے کا بھی ادھیکار نہیں ہے۔وہاں نہ کوئی پولیس چوکی اسے ظلم سے بچانے کے لئے ہے نہ کوئی فوجی کیمپ۔ *وہاں سیکوریٹی کے نام پر جو کچھ بھی ہے بس دو سنکی اور نہایت درجے کے کمیونل مودی+ شاہ کے سیاسی محل کے تحفظ کیلئے ہے۔* وہاں جتنے بھی ہیں سب کشمیری نوجوانوں، ماؤں،بہنوں کے ساتھ من چاہا برتاؤ روا رکھنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ سب کے دل و دماغ میں بھگوا وچار دھارا کو بالجبر یا بالفرح ایسا گھسیڑا گیا ہے کہ اب کشمیری عزت و ناموس اور حقوق کی حفاظت کے لئے نہیں، صرف کشمیر کے لئے کشمیر پر مسلح افواج کو مسلط کیا گیا ہے۔دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد اب تو ظلم کرنے والے ہاتھوں کو اس کا بھی خوف نہیں رہا کہ مجھ سے کوئی باز پرس بھی کرے گا۔کشمیری نوجوانوں کو پتھر باز بتا کر علیحدگی پسند بتا کر،دہشت گر کہ کر،ملیٹینٹ بول کر کبھی بھی کہیں بھی بولیٹ کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے بدلے میں ادھر بہادری کے تمغے ملنے والے ہیں ہندو انتہا پسند تنظیموں سے واہ واہی ملنے والی ہے۔ان کی ماں بہنوں کے ساتھ دن تو دن، رات کے کسی بھی حصے میں گھر میں گھس کر زیادتی کی جا سکتی ہے۔نہ کسی میڈیا کے کیمرے ہیں۔نہ کوئی عدالت کے نگہبان ہیں۔نہ کوئی انصاف پسند پرانی ہے۔اور نہ انہیں بعد میں انصاف ملنے کی امید ہے۔
یہ سوچ سوچ کر دل ڈوبنے لگتا ہے کہ ماں بہنوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا۔نوجوان لڑکے لڑکیاں کس کس بربریت سے گزر رہے ہوں گے۔سوشل میڈیا خبروں کے مطابق چالیس ہزار کمسن کم عمر لڑکوں کو جیل میں بنا کسی خطا کے بند کر دیا گیا ہے۔اس سے بڑا ظلم ہم آپ اور کیا دیکھنا چاہتے ہیں صاحب؟
ایسے وقت میں مجھے بین الاقوامی ہیومن رائٹس فورم سے کوئی شکایت نہیں۔مجھے دنیا کی کسی بھی ایسی تنظیم سے کوئی شکوہ شکایت نہیں جو ایک جانور کے لئے بھی روڈ جام کر دیتی ہے،مظاہرے کرتی ہے مگر اب بالکل خاموش ہے۔مجھے ملک کے اندر بیٹھے سیکولر قسم کے ہندو نیتاؤں سے بھی کوئی شکایت نہیں جو سلیکٹیو سوچ کے ساتھ اپنی سیاست کی زمین ہموار کرنے میں بزی ہیں۔ملک کے سیکولر ڈیموکریٹک فورم سے تعلق رکھنے والے ان افراد سے بھی کوئی گلہ نہیں جو بات بات میں حقوق انسانی کی دہائیاں دیتے نہیں تھکتے۔مجھے اپنے مسلم نیتاؤں سے بھی کوئی گلہ شکوہ نہیں یہ تو ضمیر کا سودا کر کے جیب بھرنے ملت فروشی کرنے کے لئے ہی موجودہ سیاسی طوائف خانے میں آۓ ہیں، تو بھلا ان سے کیا امید وفا رکھنا؟
مگر ایک طبقہ جو احترام انسانیت کی درسگاہ سجاۓ خود کو داعی، دنیا کو اپنا مدعو قرار دیتا ہے وہ آج گنگ کیوں ہے؟ کیا وہ صرف زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلاۓ گا؟وہ طبقہ جو حقوق العباد جیسے ربانی و روحانی سبجیکٹ کا ماہر استاذ مانا جاتا ہے وہ کہاں ہے؟ کیا صرف لکچر دینے سے اس کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے؟ کیا یہ لوگ مولا علی سے بڑے صوفی ہیں جنہوں نے نہ جانے کتنے معرکوں میں علوی بسالت و شجاعت کا اوپن کردار ادا کیا ہے؟ کیا یہ لوگ خلفاۓ راشدین سے زیادہ پاکباز ہیں جو صداقت، عدالت، سخاوت و شجاعت جیسے اوصاف حمیدہ کے باوجود اعلاۓ کلمۂ حق کی خاطر نکل پڑے تھے؟اہل اللہ کا تمغہ گلے میں لٹکاۓ گھومنے والے یہ لوگ عمر فاروق سے زیادہ سیاست کو سمجھتے ہیں جنہوں نے اسلامی تاریخ کو نہ صرف نیا باب دیا، بلکہ ریاست اسلامی کی سرحدی توسیع کے لئے لازوال و بے مثال فخریہ کارنامے بھی انجام دیئے ہیں؟
کیا وہ ائمۂ مجتہدین سے زیادہ خدا ترس ہیں کہ انہیں قال اللہ و قال الرسول سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ مظلوم طبقے کے لئے وقت بھی نکال سکیں؟
یہ سوچ سوچ کر دل ڈوبنے لگتا ہے کہ ماں بہنوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا۔نوجوان لڑکے لڑکیاں کس کس بربریت سے گزر رہے ہوں گے۔سوشل میڈیا خبروں کے مطابق چالیس ہزار کمسن کم عمر لڑکوں کو جیل میں بنا کسی خطا کے بند کر دیا گیا ہے۔اس سے بڑا ظلم ہم آپ اور کیا دیکھنا چاہتے ہیں صاحب؟
ایسے وقت میں مجھے بین الاقوامی ہیومن رائٹس فورم سے کوئی شکایت نہیں۔مجھے دنیا کی کسی بھی ایسی تنظیم سے کوئی شکوہ شکایت نہیں جو ایک جانور کے لئے بھی روڈ جام کر دیتی ہے،مظاہرے کرتی ہے مگر اب بالکل خاموش ہے۔مجھے ملک کے اندر بیٹھے سیکولر قسم کے ہندو نیتاؤں سے بھی کوئی شکایت نہیں جو سلیکٹیو سوچ کے ساتھ اپنی سیاست کی زمین ہموار کرنے میں بزی ہیں۔ملک کے سیکولر ڈیموکریٹک فورم سے تعلق رکھنے والے ان افراد سے بھی کوئی گلہ نہیں جو بات بات میں حقوق انسانی کی دہائیاں دیتے نہیں تھکتے۔مجھے اپنے مسلم نیتاؤں سے بھی کوئی گلہ شکوہ نہیں یہ تو ضمیر کا سودا کر کے جیب بھرنے ملت فروشی کرنے کے لئے ہی موجودہ سیاسی طوائف خانے میں آۓ ہیں، تو بھلا ان سے کیا امید وفا رکھنا؟
مگر ایک طبقہ جو احترام انسانیت کی درسگاہ سجاۓ خود کو داعی، دنیا کو اپنا مدعو قرار دیتا ہے وہ آج گنگ کیوں ہے؟ کیا وہ صرف زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلاۓ گا؟وہ طبقہ جو حقوق العباد جیسے ربانی و روحانی سبجیکٹ کا ماہر استاذ مانا جاتا ہے وہ کہاں ہے؟ کیا صرف لکچر دینے سے اس کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے؟ کیا یہ لوگ مولا علی سے بڑے صوفی ہیں جنہوں نے نہ جانے کتنے معرکوں میں علوی بسالت و شجاعت کا اوپن کردار ادا کیا ہے؟ کیا یہ لوگ خلفاۓ راشدین سے زیادہ پاکباز ہیں جو صداقت، عدالت، سخاوت و شجاعت جیسے اوصاف حمیدہ کے باوجود اعلاۓ کلمۂ حق کی خاطر نکل پڑے تھے؟اہل اللہ کا تمغہ گلے میں لٹکاۓ گھومنے والے یہ لوگ عمر فاروق سے زیادہ سیاست کو سمجھتے ہیں جنہوں نے اسلامی تاریخ کو نہ صرف نیا باب دیا، بلکہ ریاست اسلامی کی سرحدی توسیع کے لئے لازوال و بے مثال فخریہ کارنامے بھی انجام دیئے ہیں؟
کیا وہ ائمۂ مجتہدین سے زیادہ خدا ترس ہیں کہ انہیں قال اللہ و قال الرسول سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ مظلوم طبقے کے لئے وقت بھی نکال سکیں؟
کل اگر ہجوم محشر میں ارباب جبہ و دستار سے ملت کی اس بے کسی، بے بسی، بے چارگی اور بربریت بھری مظلومیت پر ان کی خاموشی کے متعلق آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ لیا تو کیا جواب بنے گا؟؟کیا منہ دکھائیں گے یہ لوگ؟ کیا اتنی آسانی سے نکل جائیں گے؟
اگر یہ کشمیر کو انصاف دلانا چاہ لیں تو اس کے لئے ہتھیار اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں، تشدد و فساد مچانے
کی بالکل ضرورت نہیں،ملک میں چکا جام کرنے ریل روکنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ہم تو امن و شانتی والے پیغمبر کی امت ہیں۔نقض امن کا سبب کیوں بنیں؟فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں دراڑ کیوں ڈالیں؟صرف اتنا کرنے کی ضرورت ہے کہ جمہوری طریقے سے دو چار خانقاہیں اپنے مریدین، معتقدین و متوسلین کو لے کر جنتر منتر پہنچ جائیں تو اگلے دن کا سورج کشمیریوں کے لئے نوید حریت لے کر طلوع ہوگا جس سے مسرت کی ایسی بہار چلے گی کہ ان کے پزمال سے چہرے پر پڑے ستم کے سارے گرد یکلخت اڑ جائیں گے۔
کی بالکل ضرورت نہیں،ملک میں چکا جام کرنے ریل روکنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ہم تو امن و شانتی والے پیغمبر کی امت ہیں۔نقض امن کا سبب کیوں بنیں؟فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں دراڑ کیوں ڈالیں؟صرف اتنا کرنے کی ضرورت ہے کہ جمہوری طریقے سے دو چار خانقاہیں اپنے مریدین، معتقدین و متوسلین کو لے کر جنتر منتر پہنچ جائیں تو اگلے دن کا سورج کشمیریوں کے لئے نوید حریت لے کر طلوع ہوگا جس سے مسرت کی ایسی بہار چلے گی کہ ان کے پزمال سے چہرے پر پڑے ستم کے سارے گرد یکلخت اڑ جائیں گے۔
جب کوئی نقیب شریعت و معرفت الرحیل الرحیل کی صداۓ دلنواز لگاتا ہے تو خدا کی مدد اور فتح و نصرت کی روح افزا امید سے خالی اور بزدلی سے بھرے ہوۓ لوگوں کو زندگی ہاتھ سے پھسلتی نظر آتی ہے۔سامنے موت کی کالی پرچھائی تیرتی نظر آتی ہے۔سچوئیشن سے ساز باز کرنے کو ترجیح دے دیتے ہے۔حالات سے سمجھوتا کر کے فرعون وقت کے دربار میں سر خم کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔خدا کی قسم!ایسا نہیں ہے کہ رب کی مدد اور فتح و ظفر کا اعزاز صرف قرون اولی و ثانیہ کے لوگوں کے لئے مخصوص تھا بلکہ ۲۱؍ویں صدی میں بھی نصرت ربانی ایسے خدا ترس و حریت پسند لوگوں کی منتظر ہے۔پر ملے تو کوئی؟
*پھر بدل سکتا ہے تیور انہیں معلوم نہیں*
*ٹہنی بن سکتی ہے خنجر انہیں معلوم نہیں*
*بدر " کیا چیز ہے یہ ذرا ان کو بتلاؤ*
*تین سو تیرہ" کا لشکر انہیں معلوم نہیں*
*ٹہنی بن سکتی ہے خنجر انہیں معلوم نہیں*
*بدر " کیا چیز ہے یہ ذرا ان کو بتلاؤ*
*تین سو تیرہ" کا لشکر انہیں معلوم نہیں*
*مـشــــتـاق نــــوری*
मौजूदा मंत्री मिनिस्टर लोकतंत्र और संविधान की धज्जियां उड़ा रहे हैं
ReplyDeleteमौजूदा मंत्री मिनिस्टर लोकतंत्र और संविधान की धज्जियां उड़ा रहे हैं
ReplyDelete