Wednesday, September 18, 2019

بواسیر،بدہضمی،سردرد کا جڑسے علاج

1۔ بواسیر کا لاجواب جڑ توڑ نسخہ
بواسیر ،بدہضمی اور سردرد سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا،اور وہ بھی بلا کسی مصیبت کے،صرف گھریلو علاج کے ذریعے۔اور صرف چند معمولی کئر یعنی پرہیز کے ذریعے،ایک بار پڑھیں ، خود بخود اس علاج کے آپ عاشق ہو جائیں گے اور ہر ایک کو بتانا پسند بھی کریں گے۔
سوکھے ناریل کا اوپری ریشہ
اسے جلا کر کوٸلہ کی طرح ہو جانے پر پیس لیں
اور اس کالی راکھ میں تھوڑی شکر ملا کر روزانہ دونوں وقت کھانا کھانے کے بعد ایک ایک چمچہ کھا لیں
تقریباً دس دن تک
بواسیر چاہے خونی ہو یا بادی
دفع ہو جاٸے گی
  2]  غسل کے بعد سر  کو خشک کر لینا
غسل کرنے کے بعد سر کو گیلا نہ رہنے دیں
بلکہ فوراً تولیہ یا رومال سے رگڑ رگڑ کر خشک کر لیں
اس سے آپ کے سر کے بال سفید نہ ہونگے
دانت مضبوط رہیں گے
نظر کمزور نہ ہو گی
بدہضمی نہ ہو گی
سر درد کی بیماری نہ رہے گی
بدن میں کبھی درد نہ ہو گا
کان کے درد سے نجات ملے گی
3] بدہضمی دور کرنے کیلٸے
15 گرام ادرک کے ٹکڑے کو باریک پیس کر آدھا گلاس شکر کا شربت بناٸیں اور اس میں پیسی ہوٸی ادرک ڈال دیں
ایک چٹکی لاہوری نمک [ کالا نمک ]  اور کھانے والا سوڈا ملا کر پی لیں
بدہضمی فوراً دور ہو گی
4] کھانا کھاتے وقت ایک یا دو کچی ہری مرچ کھانا
اس سے بھی بد ہضمی دور ہو گی
سردی دور ہو گی
آواز کی کھرکھراہٹ دور ہو گی
گلے اور سینے سے بلغم صاف ہو جاٸے گا
قبض دور ہو گا
5]  زکام کو دور کرنے کیلٸے
زکام جب حد سے زیادہ ہوجاٸے یا ناک بہنے لگے تو تھوڑے سے کالے چنے میں دو تین جو لہسن کو ملاکر کھانے سے ناک بہنا بند ہو جاتی ہے
اور زکام سے نجات مل جاتی ہے
6] لہسن کو کچا یا بھون کر کھانے کے وقت کھانے سے بھی بد ہضمی دور ہوتی ہے
خون کا گاڑھا پن کم ہوتا ہے
بدن میں پھرتیلا پن آجاتا ہے
بے چینی دور ہوجاتی ہے
7] قبض کو دور کرنے کیلٸے
مولی کے پتے کو کچا سلاد کی طرح کھانا
یا ساگ کی طرح پکا کر روٹی سے کھا لینے سے سے بدہضمی اور قبض  دور ہوجاتی ہے
بقیہ نسخے بھی انشاء اللہ عام کٸے جاٸیں گے

کشمیریوں کو تو اپنا درد سنانے کا بھی حق نہیں

خون دل میں ڈبو لیا ہم نے
 کشمیریوں کو تو اپنا درد سنانے کا بھی حق نہیں ہے۔اپنے زخم دکھانے کا بھی ادھیکار نہیں ہے۔وہاں نہ کوئی پولیس چوکی اسے ظلم سے بچانے کے لئے ہے نہ کوئی فوجی کیمپ۔ *وہاں سیکوریٹی کے نام پر جو کچھ بھی ہے بس دو سنکی اور نہایت درجے کے کمیونل مودی+ شاہ کے سیاسی محل کے تحفظ کیلئے ہے



کسی انجام کی پرواہ کئے بنا میں نے بارہا کشمیر میں ہو رہے ظلم و زیادتی کے خلاف لکھا ہے۔اور اب بھی لکھ رہا ہوں۔ظلم کی داستان لکھتے لکھتے ہاتھ شل ہونے لگے ہیں۔اپنوں کی آہوں، نالوں،گریہ و زاریوں،سسکیوں کو محسوس کرتے کرتے سینے میں گھٹن سی ہونے لگی ہے۔قلم کی سیاہی بھی خشک پڑنے لگی ہے۔قرطاس پہ پھیلے حروف بھی خون کے آنسو میں تیرنے لگے ہیں۔ میرے زندہ مسلمان ہونے کی یہ بھی ایک چھوٹی سی دلیل ہے۔بقول شخصے
*کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا اعزاز سخن*
*ظلم  سہنے  سے  بھی  ظالم  کی مدد ہوتی ہے*
کشمیر کی اپ ڈیٹ خبریں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔یہ سوچ کر دل دہل اٹھتا ہے کہ کشمیریوں کو تو اپنا درد سنانے کا بھی حق نہیں ہے۔اپنے زخم دکھانے کا بھی ادھیکار نہیں ہے۔وہاں نہ کوئی پولیس چوکی اسے ظلم سے بچانے کے لئے ہے نہ کوئی فوجی کیمپ۔ *وہاں سیکوریٹی کے نام پر جو کچھ بھی ہے بس دو سنکی اور نہایت درجے کے کمیونل مودی+ شاہ کے سیاسی محل کے تحفظ کیلئے ہے۔* وہاں جتنے بھی ہیں سب کشمیری نوجوانوں، ماؤں،بہنوں کے ساتھ من چاہا برتاؤ روا رکھنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ سب کے دل و دماغ میں بھگوا وچار دھارا کو بالجبر یا بالفرح ایسا گھسیڑا گیا ہے کہ اب کشمیری عزت و ناموس اور حقوق کی حفاظت کے لئے نہیں، صرف کشمیر کے لئے کشمیر پر مسلح افواج کو مسلط کیا گیا ہے۔دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد اب تو ظلم کرنے والے ہاتھوں کو اس کا بھی خوف نہیں رہا کہ مجھ سے کوئی باز پرس بھی کرے گا۔کشمیری نوجوانوں کو پتھر باز بتا کر علیحدگی پسند بتا کر،دہشت گر کہ کر،ملیٹینٹ بول کر کبھی بھی کہیں بھی بولیٹ کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے بدلے میں ادھر بہادری کے تمغے ملنے والے ہیں ہندو انتہا پسند تنظیموں سے واہ واہی ملنے والی ہے۔ان کی ماں بہنوں کے ساتھ دن تو دن، رات کے کسی بھی حصے میں گھر میں گھس کر زیادتی کی جا سکتی ہے۔نہ کسی میڈیا کے کیمرے ہیں۔نہ کوئی عدالت کے نگہبان ہیں۔نہ کوئی انصاف پسند پرانی ہے۔اور نہ انہیں بعد میں انصاف ملنے کی امید ہے۔
یہ سوچ سوچ کر دل ڈوبنے لگتا ہے کہ ماں بہنوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا۔نوجوان لڑکے لڑکیاں کس کس بربریت سے گزر رہے ہوں گے۔سوشل میڈیا خبروں کے مطابق چالیس ہزار کمسن کم عمر لڑکوں کو جیل میں بنا کسی خطا کے بند کر دیا گیا ہے۔اس سے بڑا ظلم ہم آپ  اور کیا دیکھنا چاہتے ہیں صاحب؟
ایسے وقت میں مجھے بین الاقوامی ہیومن رائٹس فورم سے کوئی شکایت نہیں۔مجھے دنیا کی کسی بھی ایسی تنظیم سے کوئی شکوہ شکایت نہیں جو ایک جانور کے لئے بھی روڈ جام کر دیتی ہے،مظاہرے کرتی ہے مگر اب بالکل خاموش ہے۔مجھے ملک کے اندر بیٹھے سیکولر قسم کے ہندو نیتاؤں سے بھی کوئی شکایت نہیں جو سلیکٹیو سوچ کے ساتھ اپنی سیاست کی زمین ہموار کرنے میں بزی ہیں۔ملک کے سیکولر ڈیموکریٹک فورم سے تعلق رکھنے والے ان افراد سے بھی کوئی گلہ نہیں جو بات بات میں حقوق انسانی کی دہائیاں دیتے نہیں تھکتے۔مجھے اپنے مسلم نیتاؤں سے بھی کوئی گلہ شکوہ نہیں یہ تو ضمیر کا سودا کر کے جیب بھرنے ملت فروشی کرنے کے لئے ہی موجودہ سیاسی طوائف خانے میں آۓ ہیں، تو بھلا ان سے کیا امید وفا رکھنا؟
مگر ایک طبقہ جو احترام انسانیت کی درسگاہ سجاۓ خود کو داعی، دنیا کو اپنا مدعو قرار دیتا ہے وہ آج گنگ کیوں ہے؟ کیا وہ صرف زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلاۓ گا؟وہ طبقہ جو حقوق العباد جیسے ربانی و روحانی سبجیکٹ کا ماہر استاذ مانا جاتا ہے وہ کہاں ہے؟ کیا صرف لکچر دینے سے اس کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے؟ کیا یہ لوگ مولا علی سے بڑے صوفی ہیں جنہوں نے نہ جانے کتنے معرکوں میں علوی بسالت و شجاعت کا اوپن کردار ادا کیا ہے؟ کیا یہ لوگ خلفاۓ راشدین سے زیادہ پاکباز ہیں جو صداقت، عدالت، سخاوت و شجاعت جیسے اوصاف حمیدہ کے باوجود اعلاۓ کلمۂ حق کی خاطر نکل پڑے تھے؟اہل اللہ کا تمغہ گلے میں لٹکاۓ گھومنے والے یہ لوگ عمر فاروق سے زیادہ سیاست کو سمجھتے ہیں جنہوں نے اسلامی تاریخ کو نہ صرف  نیا باب دیا، بلکہ ریاست اسلامی کی سرحدی توسیع کے لئے لازوال و بے مثال فخریہ کارنامے بھی انجام دیئے ہیں؟
کیا وہ ائمۂ مجتہدین سے زیادہ خدا ترس ہیں کہ انہیں قال اللہ و قال الرسول سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ مظلوم طبقے کے لئے وقت بھی نکال سکیں؟
کل اگر ہجوم محشر میں ارباب جبہ و دستار سے ملت کی اس بے کسی، بے بسی، بے چارگی اور بربریت بھری مظلومیت پر ان کی خاموشی کے متعلق آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ لیا تو کیا جواب بنے گا؟؟کیا منہ دکھائیں گے یہ لوگ؟ کیا اتنی آسانی سے نکل جائیں گے؟
اگر یہ کشمیر کو انصاف دلانا چاہ لیں تو اس کے لئے ہتھیار اٹھانے کی چنداں ضرورت نہیں، تشدد و فساد مچانے
کی بالکل ضرورت نہیں،ملک میں چکا جام کرنے ریل روکنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ہم تو امن و شانتی والے پیغمبر کی امت ہیں۔نقض امن کا سبب کیوں بنیں؟فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں دراڑ کیوں ڈالیں؟صرف اتنا کرنے کی ضرورت ہے کہ جمہوری طریقے سے دو چار خانقاہیں اپنے مریدین، معتقدین و متوسلین کو لے کر جنتر منتر پہنچ جائیں تو اگلے دن کا سورج کشمیریوں کے لئے نوید حریت لے کر طلوع ہوگا جس سے مسرت کی ایسی بہار چلے گی کہ ان کے پزمال سے چہرے پر پڑے  ستم کے سارے گرد یکلخت اڑ جائیں گے۔
جب کوئی نقیب شریعت و معرفت الرحیل الرحیل کی صداۓ دلنواز لگاتا ہے تو خدا کی مدد اور فتح و نصرت کی روح افزا امید  سے خالی اور بزدلی سے بھرے ہوۓ لوگوں کو زندگی ہاتھ سے پھسلتی نظر آتی ہے۔سامنے موت کی کالی پرچھائی تیرتی نظر آتی ہے۔سچوئیشن سے ساز باز کرنے کو ترجیح دے دیتے ہے۔حالات سے سمجھوتا کر کے فرعون وقت کے دربار میں سر خم کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔خدا کی قسم!ایسا نہیں ہے کہ رب کی مدد اور فتح و ظفر کا اعزاز صرف قرون اولی و ثانیہ کے لوگوں کے لئے مخصوص تھا بلکہ ۲۱؍ویں صدی میں بھی نصرت ربانی ایسے خدا ترس و حریت پسند لوگوں کی منتظر ہے۔پر ملے تو کوئی؟
*پھر  بدل سکتا ہے  تیور  انہیں معلوم نہیں*
*ٹہنی بن سکتی ہے خنجر انہیں معلوم نہیں*
*بدر "   کیا  چیز  ہے   یہ  ذرا  ان کو  بتلاؤ*
*تین سو تیرہ"  کا  لشکر انہیں معلوم نہیں*
*مـشــــتـاق نــــوری*

قیادت، منافقت اور جمعیۃ علماء

*قیادت، منافقت اور جمعیۃ علماء*
 
  _مسلمان شرک نواز مولویوں کو پہچانیں_
مشرکینِ ہندوستان سرگرمِ عمل ہیں... ان کی اسلام مخالف سرگرمیاں انگریز کے دور میں بھی جاری تھیں... انگریز نے مملکت مسلمانوں سے چھینی... اس لئے انگریز نے مشرکین کا ساتھ دیا...مسلمان! دونوں کے مشترک دُشمن تھے... ملک کی آزادی کی تحریک ١٨٥٧ء میں علمائے حق نے شروع کی... مشرکین نے انگریز کا ساتھ دیا.. جس کا تذکرہ "الثورۃ الہندیۃ" میں قائد تحریکِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی نے برملا فرمایا...
*مشرکین کے سائے میں:* پھر آزادی کی جدوجہد آگے بڑھی... بعض مولویوں نے دینی غیرت کو مشرکین پر قربان کر دیا... حاملینِ شرک کو پیشوا بنا لیا...خود پیچھے پیچھے چل پڑے... اقبال نے مشاہدہ کی بنیاد پر نشان دہی کی تھی....
عجم ہنوز نداند رموز ديں، ورنہ
ز ديوبند حسين احمد! ايں چہ بوالعجبی ست
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبرز مقام محمد عربی ست
(تفہیم: عجمی لوگ ابھی تک دینِ اسلام کی حقیقت سے آگاہ نہ ہوئے... ورنہ یہ کیسے امکان کہ دیوبند کے حسین احمد مسلمانوں کو ایسی تلقین کرتے جو سراسر روحِ اسلام کے خلاف ہے...جو شخص مسلمان ہو کر یہ کہتا ہے کہ ملتِ اسلامیہ کی بنیاد وطن ہے... یا مسلمان غیرمسلموں کے ساتھ مل کر متحدہ قومیت بنا سکتے ہیں... یا مشرک اور مسلم باہم ایک قوم بن سکتے ہیں...وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے بلا شبہ بےخبر ہے...)
انھیں مولوی نما لیڈروں نے رسومِ شرکیہ میں شرکت کی... گاندھی کی قیادت قبول کی... ذبیحہ سے متعلق شرک کی خوشنودی چاہی... گنگا کو پوِتر مانا... شعائر اسلام سے منھ موڑا... اعلیٰ حضرت کی کتاب "المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ" پڑھ جائیے... قائدینِ جمعیۃ علما کی شرک نوازی آشکار ہو جائے گی...
*تازہ محرکات:* جمعیۃ علماء مسلم اتحاد کی دوہائی دیتی ہے... مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے... پھر مشرکین سے ایسا اتحاد کرتی ہے... ایسا سودا کرتی ہے... جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا... اسی فکر کے حامل مولوی سلمان ندوی نے بابری مسجد سے متعلق مشرک کاز کی تائید کی... جو مسلم پرسنل لا بورڈ کا چہرہ ہے... پھر رواداری کے نام پر موحد! مولوی مندروں کی صفائی کرتے پائے گئے... پھر یک جہتی کے نام پر پنڈتوں کے چرنوں میں نظر آئے... ہاں یہ امور اسی عہد میں ہو رہے تھے... جب مسلمانوں کو ستایا جا رہا تھا... جب اسلامی قوانین کو نشانہ بنایا جا رہا تھا... اقتدار کی چھاؤں میں جینے والے مولوی مسلمانوں میں ریلیاں نکلوا رہے تھے... اور دوسری طرف مشرکین سے خفیہ ملاقاتیں بھی جاری تھیں... مسلمانوں کو مشرکین کا خوف دلا دلا کر اپنی تعداد میں ظاہراً اضافہ کیا جا رہا تھا... پھر اسی تعداد کو ان ملت فروش قائدین اقتدار کے قدموں میں گروی بھی رکھ رہے تھے!!... اسے منافقت نہیں تو کون سا نام دیا جائے!!
*ابن الوقت:* تین طلاق بل کے ذریعے مسلمانوں کے شرعی معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے...ذبیحہ پر پابندی... ماب لنچنگ... مسلمانوں کا ہجومی قتل... تعصب کی وارداتیں... کشمیری مسلمانوں پر قیدو بند... مدت سے کرفیو کا نفاذ... انسانی حقوق کی پامالی...عصبیت و دہشت کے سائے دراز ہیں... اِن حالات میں جمعیۃ علما کی قیادت کی آر ایس ایس سربراہ سے ملاقات... کس پہلو کا پتہ دیتی ہے!!... یہ ماضی کی ٹانڈوی تاریخ سے بخوبی اُجاگر ہے... پھر اس کے معاً بعد جمعیۃ کی دوسری قیادت بھی سرگرمِ عمل ہوئی...چچا میاں سے دو قدم بڑھ گئی... حاملینِ شرک سے بغل گیر ہوئی... سلطان ہندوستان اورنگ زیب علیہ الرحمۃ سے موروثی بغض کا اظہار کیا... شرک سے پرانی دوستی کا رشتہ نبھایا... شیواجی کو موحد مسلم بادشاہ پر ترجیح دے دی... اپنی ابن الوقتی کا کھلا مظاہرہ کیا... تہیں چاک ہو رہی ہیں... کفر سے شیر و شکر ہو کر یہ قائدین کون سا پیغام دے رہے ہیں... ہم لائک کرتے ہیں قائدین اہلسنّت کی استقامت کو... جن کا ہمیشہ ایک چہرہ رہا... شرک سے بیزار رہے... کبھی سودے بازی نہیں کی... اب وہ طبقہ جو جمعیۃ علما کے سائے میں جینے کا خواہش مند ہے... وہ اس کا ذاتی معاملہ ہے... لیکن قریب ایک صدی کے حقائق جن کی شرک نوازی پر واضح ہوں... ان سے اتحاد کی بات کس منھ سے کی جاتی ہے... انھیں دو رکعت کے اماموں نے کفر و شرک کو حوصلہ دیا... اب مشرکین کا زور بڑھا تو قوم کو خوف زدہ کیا جا رہا ہے...یاسیت کے کنویں میں ڈھکیلا جا رہا ہے... اسلامی تاریخ خوشنودیِ شرک کے لیے مسخ کی جا رہی ہے... مسلمان! چہرے پہچانیں... اپنا مستقبل مشرک نواز گروہ کے ہاتھ گروی رکھنے سے بچیں...منافقت کی تہیں چاک کر دیں... عزم و یقیں کے ہزاروں چراغ فصیلِ ایمان پر فروزاں کریں...
***
*تجزیہ:* غلام مصطفٰی رضوی
(نوری مشن مالیگاؤں)
gmrazvi92@gmail.com
١٩ ستمبر ٢٠١٩ء

Saturday, September 14, 2019

عورت کے مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات:

‏عورت کے مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات:

غسل کے دوران مدینہ کی ایک عورت نے مردہ عورت کی ران پر ہاتھ رکھتے ہوئے یہ الفاظ کہے  کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے.
بس یہ بات کہنا تھا کہ اللہ تعالی نے اپنی ڈھیل دی ہوئی رسی کھینچ دی.
اس عورت کا انتقال مدینہ کی ایک بستی میں ہوا تھا اور غسل کے دوران جوں ہی غسل دینے والی عورت نے‏ مندرجہ بالا الفاظ کہے تو اس کا ہاتھ میت کی ران کے ساتھ چپک گیا۔ چپکنے کی قوت اس قدر تھی کہ وہ عورت اپنا ہاتھ کھینچتی تو میت گھسیٹتی تھی مگر ہاتھ نہ چھوٹتا تھا۔
جنازے کا وقت قریب آ رہا تھا اس کا ہاتھ میت کے ساتھ چپک چکا تھا اور بے حد کوشش کے باوجود جدا نہیں ہو رہا تھا، تمام عورتوں نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کر کھینچا، مروڑا، غرض جو ممکن تھا کیا مگر سب بے سود رہا!‏
دن گزرا ، رات ہوئی، دوسرا دن گزرا، پھر رات ہوئی سب ویسا ہی تھا، میت سے بدبو آنے لگی اور اس کے پاس ٹھہرنا ،بیٹھنا مشکل ہو گیا!
مولوی صاحبان، قاری صاحبان اور تمام اسلامی طبقے سے مشاورت کے بعد طے ہوا کہ غسال عورت کا ہاتھ کاٹ کر جدا کیا جائے‏اور میت کو اس کے ہاتھ سمیت دفنا دیا جائے۔ مگر اس فیصلے کو غسال عورت اور اس کے خاندان نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہم اپنے خاندان کی عورت کو معذور نہیں کر سکتے لہذا ہمیں یہ فیصلہ قبول نہیں!
دوسری صورت یہ بتائی گئی کہ میت کے جسم کا وہ حصہ کاٹ دیا جائے اور ہاتھ کو آزاد کر کے میت‏ دفنا دی جائے، مگر بے سود. اس بار میت کے خاندان نے اعتراض اٹھایا کہ ہم اپنی میت کی یہ توہین کرنے سے بہر حال قاصر ہیں.
اس دور میں امام مالک قاضی تھے. بات امام مالک تک پہنچائی گئی کہ اس کیس کا فیصلہ کیا جائے! امام مالک اس گھر پہنچے اور صورت حال بھانپ کر غسال عورت سے سوال کیا‏ "اے عورت! کیا تم نے غسل کے دوران اس میت کے بارے میں کوئی بات کہی؟"
غسال عورت نے سارا قصہ امام مالک کو سنایا اور بتایا کہ اس نے غسل کے دوران باقی عورتوں کو کہا کہ اس عورت کے فلاں مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے.
امام مالک نے سوال کیا "کیا تمھارے پاس اس الزام کو ثابت کرنے کے‏لیے گواہ موجود ہیں" عورت نے جواب دیا کہ اس کے پاس گواہ موجود نہیں. امام مالک نے پھر پوچھا "کیا اس عورت نے اپنی زندگی میں تم سے اس بات کا تذکرہ کیا؟" جواب آیا "نہیں"
امام مالک نے فوری حکم صادر کیا کہ اس غسال عورت نے چونکہ میت پر تہمت لگائی ہے لہذا ‏اس کو حد مقررہ کے مطابق 80 کوڑے لگائے جائیں!
حکم کی تعمیل کی گئی اور 70 بھی نہیں 75 بھی نہیں 79 بھی نہیں پورے 80 کوڑے مارنے کے بعد اس عورت کا ہاتھ میت سے الگ ہوا.
آج ہم تہمت لگاتے وقت ذرا بھی نہیں سوچتے. استغفراللہ
حوالہ:
بکھرے موتی،جلد اول
از مولانا محمد یوسف پالن پوری

Monday, September 2, 2019

سوگ کرنا ، ماتم کرنا ، چہرہ یا سینہ پیٹنا

سوگ کرنا ، ماتم کرنا ، چہرہ یا سینہ پیٹنا، غم وبےصبری کا اظہار کرنا ، نوحےکرنا، نوحے سننا، غم میں کالے کپڑےپہننا سب ناجائز و گناہ ہیں،
حوالہ جات شیعہ کتب سے.................!!
.
①میت پر(وفات کےفورا بعد والے)تین دن سے زیادہ سوگ.و.غم منانا جائز نہیں...(شیعہ کتاب مستدرک الوسائل2/448)
.
②شیعوں کے مطابق حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لا تلبسوا السواد فإنه لباس فرعون
ترجمہ:
کالے کپڑے نہ پہنو کہ بےشک یہ فرعونی لباس ہے...(شیعہ کتاب من لا یحضرہ الفقیہ1/251)

③ليس منا من لطم الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية
ترجمہ:جو چہرہ پیٹے اور گریبان پھاڑے(ماتم کرے) اور جاہلی چیخ و پکار کرے(آواز سے رونا دھونا کرے، نوحے کرے)وہ ہم میں سے نہیں...(بخاری حدیث1294)
یہ حدیث اہل تشیع کی کتاب مستدرک الوسائل جلد2 صفحہ452 میں بھی ہے
.
④النياحة من أمر الجاهلية
نوحہ کرنا جاہلی کاموں میں سے ایک ہے
ابن ماجہ حدیث1581
یہ حدیث اہلِ تشیع کی کتاب من لایحضر4/376 اور بحار الانوار جلد82 ص103 میں بھی ہے...
.
⑤لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم النائحة والمستمعة
ترجمہ:
رسول کریم علیہ السلام نےنوحہ کرنے والوں اور نوحہ سننےوالوں پر لعنت فرمائی.(ابوداؤد3128)
شیعہ کتاب مستدرک وسائل2/453

.
⑥مولا علی نےفرمایا
جزع کرنا(غم و بےصبری کا اظہار کرنا،نوحےماتم کرنا)گناہ ہے.(ماخذ شیعہ کتاب مسکن الفواد ص4)
.
.
اہم نوٹ:
شاید کسی کے ذہن میں آئے کہ شیعہ اپنی کتابوں میں ایسا لکھیں اور عمل اسکے برخلاف کریں یہ کیسے ہوسکتا ہے،شیعوں کے پاس بھی کوئی نہ کوئی دلیل ضرور ہوگی.....؟؟
.
جواب:
ٹوٹی پھوٹی کمروز جھوٹی دلیل ہر ایک کے پاس ہوتی ہے اس سے
دھوکہ مت کھائیے حتی کہ شیطان نے بھی ٹوٹی پھوٹی کمزور جھوٹی دلیل دے کر سجدہ آدم سے انکار کیا تھا....شیعہ کتب جھوٹ و تضاد مکر و فریب سے بھری پڑی ہیں، ماتم نوحے غم کالے لباس وغیرہ کے متعلق بھی انکی جھوٹی روایات موجود ہیں.........شیعہ کتاب سے وہی بات معتبر کہلائے گی جو قرآن و سنت کے موافق ہو
.
امام جعفر صادق نے فرمایا:
الناس ﺃﻭﻟﻌﻮﺍ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﻋﻠﻴﻨﺎ، ﻭﻻ ﺗﻘﺒﻠﻮﺍ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﻣﺎ ﺧﺎﻟﻒ ﻗﻮﻝ ﺭﺑﻨﺎ ﻭﺳﻨﺔ ﻧﺒﻴﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ
ترجمہ:
امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ لوگ جو(بظاہر)ہم اہلبیت کے محب کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے باتیں،حدیثیں گھڑ لی ہیں اور ہم اہلبیت کی طرف منسوب کر دی ہیں جوکہ جھوٹ ہیں،
تو
ہم اہل بیت کی طرف نسبت کرکے جو کچھ کہا جائے تو اسے دیکھو کہ اگر وہ قرآن اور ہمارے نبی حضرت محمد کی سنت کے خلاف ہو تو اسے ہرگز قبول نہ کرو
(رجال کشی ﺹ135, 195،بحار الانوار2/246,250)
.
.

①دوستو، بھائیو ، اور احباب ذی وقار خاص کر سوشل میڈیا چلانے والے حضرات......خوب ذہن نشین کر لیجیے کہ کسی بھی کتاب یا تحریر یا تقریر یا پوسٹ میں کوئی بات کوئی حدیث لکھی اور اور اہلبیت بی بی فاطمہ ، حضرت علی یا امام جعفر صادق یا کسی بھی اہلبیت کا نام لکھا ہو
تو
اسے فورا سچ مت تسلیم کیجیے، اگرچہ بظاہر اچھی بات ہو
کیونکہ اچھی بری بہت سی باتیں شیعوں نے،لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ لی ہیں اور نام اہلبیت میں سے کسی کا ڈال دیا ہے....اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے
.
ویسے تو ہربات کی تصدیق معتمد عالم سے کرائیے مگر بالخصوص جب اہلبیت کے نام سے لکھا ہوا ہو تو اب ڈبل لازم ہے کہ اسکی تصدیق کرائیے پھر بےشک پھیلائیے
کیونکہ
امام جعفر صادق نے صدیوں پہلے متنبہ کر دیا تھا کہ نام نہاد جھوٹے محبانِ اہلبیت نے اہلبیت کی طرف ایسی باتیں منسوب کر رکھی ہیں جو اہلبیت نے ہرگز نہیں کہیں....
.
.
②وہ جو کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر بننے والے فرقوں میں سے سب سے زیادہ جھوٹے شیعہ ہیں......بالکل سچ کہتے ہیں، جس کی تائید امام جعفر صادق کے قول سے بھی ہوتی ہے
.
.
③امام جعفر صادق کے قول سے واضح ہوتا ہے کہ اہلبیت بالخصوص حضرت علی، بی بی فاطمہ، امام جعفر صادق، حسن حسین وغیرہ کی باتیں اگر قرآن و سنت کے متصادم ہوں تو سمجھ لو کہ یہ انکا قول ہی نہیں بلکہ کسی نے اپنی طرف سے جھوٹ بول کر انکی طرف منسوب کر دیا ہے
لیھذا
کسی بھی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا اہلبیت رضوان اللہ علیھم اجمعین یا کسی بھی عالم مفتی صوفی پیر فقیر کسی کی بھی بات یا عمل قرآن و سنت کے خلاف ہو تاویل.و.تطبیق ممکن نہ ہو تو وہ ہرگز معتبر نہیں بلکہ قرآن و سنت معتبر و مقدم ہے...........!!
.
.
④فقہ اہلسنت دراصل قرآن سنت صحابہ اہلبیت کا نچوڑ ہے...فقہ اہلسنت ہی دراصل فقہ جعفریہ ہے.... باقی جو شیعہ والی فقہ جعفریہ ہے وہ شیعوں کا جھوٹ ہے جو امام جعفر صادق وغیرہ آئمہ و اہلبیت کی طرف منسوب کیا گیا ہے.

این آرسی سولہ سو کڑوڑ کی بربادی کیوں؟

این آرسی  سولہ سو کڑوڑ کی بربادی کیوں؟

      بہت شور سنتے تھے ہاتھی کی دم کا، لیجئے ۳۱ اگست کو آسام میں این آر سی کی حتمی فہرست آگئی، ...... وہ سارے لوگ ہکا بکا ہیں جو برسوں سے چیخ رہے تھے کہ آسام میں کڑوڑوں گھس پیٹھئے ( مسلمان پڑھا جائے) ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں ان  گھس پیٹھیوں کی شناخت کی جائے اور ان کو نکال باہر کیا جائے، ...........اس چیخ پکار میں صرف بھاجپا کے لوگ نہیں تھے بلکہ کانگریس سمیت دوسری پارٹیوں کے لوگ بھی شامل تھے، نتیجہ کیا ہوا؟
   آسام میں سوا تین کڑوڑ کی آبادی ہے ۲۰۱۳ سے اب تک سات برسوں میں سولہ سو کڑوڑ روپئے خرچ کرنے بعد جب گزشتہ سال این آرسی کی پہلی فہرست آئی تھی اُس میں تقریبا چالیس لاکھ  افراد کے نام شامل نہیں تھے، فہرست میں بے شمار غلطیاں تھیں، جونام شامل تھے اُن میں اسپیلنگ کی غلطیاں تو تھی ہی،  بہت سے ایسے تھے جن کانام توشامل تھا ان کے لڑکوں کا نہیں تھا، کسی لڑکے کا تھا تو اُس کے والدین میں دونوں یا کسی ایک کا نام شامل نہیں تھا، ایسا بھی تھا کہ ماں کی جگہ بیوی کا نام، بیوی کی جگہ بہن کا نام درج کیا گیا تھا ـ  سابقہ فہرست جاری ہونے کے بعد بہت ہنگامہ ہوا، اُس کے بعد دوبارہ مہلت دی گئی تاکہ جن کا نام شامل ہونے سے رہ گیا ہے وہ اپنے دستاویز دکھا کر اپنا نام شامل کرائیں جن کا نام غلط درج ہوگیا ہے وہ تصحیح کرالیں، لوگ بڑی مشکلوں اور سینکڑوں روپے خرچ کرکے دور دراز  واقع این آرسی سینٹر پہونچے، سپریم کورٹ کی جانب سے حتمی فہرست جاری کرنے کی تاریخ  ۳۱ اگست ۲۰۱۹ دی گئی تھی ـ
   
   بہر حال فہرست جاری ہوگئی مگر وہی ڈھاک کے تین پات، اس بار بھی وہی ساری غلطیاں موجود ہیں، مذکر کو مونث بنادیا گیا ہے، ایک خاندان میں اگر چار کے نام موجود ہیں تو تین کے نہیں ہیں، جبکہ سارے خاندان نے ایک جیسے دستاویز پیش کئے تھے ـ ........ اس بار ایک نئے انداز کی غلطی بھی سامنے آرہی ہے، کچھ ایسے لوگ ہیں جن کا نام پچھلی فہرست میں تھا اس بار غائب ہے ـ

  ہاں اِس بار ایسے لوگوں کی تعداد جن کا نام فہرست میں شامل نہیں تھا چالیس لاکھ سے گھٹ کر اُنیس لاکھ رہ گئی ہے، .......... دوسری مزے کی بات یہ ہے کہ ان ۱۹ لاکھ میں اکثریت یعنی بارہ لاکھ ہندو ہیں صرف سات لاکھ مسلمان ہیں،  اُن میں بھی بیشتر ایسے ہیں جن سے فارم وغیرہ بھرنے میں غلطیاں ہوگئی تھیں، خاندان کے متعدد افراد میں ناموں کی اسپیلنگ کا فرق تھا، ابھی چار ماہ کا وقت پھر دیا گیا ہے کہ ایسے لوگ اپنے ناموں کی تصحیح کرالیں، .......  کہاں توحلق پھاڑ پھاڑ کڑوڑوں مسلمان گھس پیٹھیوں کی بات کی جارہی تھی کہاں صرف سات لاکھ مسلمان، ان میں سے پیشتر انشااللہ فہرست میں شامل ہوجائیں گے ـ
  اس طرح کی فہرست دیکھ کر فرقہ پرستوں کا رنگ اُڑ گیا ہے ـ شاید حکومت کو اس کا اندازہ پہلے ہی سے تھا اسی لئے وزیر اعلی نے فہرست جاری ہونے سے ایک دن قبل کہہ دیا تھا کہ جن لوگوں کا نام فہرست میں نہ آئے انھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ایسے لوگوں کے لئے راستہ نکالا جائے گا،........ آسام کے ایک منتری تواتنے بوکھلا گئے کہ انھوں نے بیان دے دیا کہ یہ این آرسی بکواس ہے، ہندوؤں کے خلاف سازش کی گئی ہے ـ ....... اب سوال یہ ہے کہ اگر سازش کی گئی ہے تو کس نے کی ہے، مرکز میں بھی آپ کی حکومت ہے اور ریاست میں بھی  !

     اگر خدانخواستہ فہرست میں شمولیت سے رہ جانے والے بارہ لاکھ ہندوؤں کے بجائے مسلمان ہوتے اور صرف سات لاکھ ہندو ہوتے تو اب تک پورے ملک میں جشن ہوچکا ہوتا مٹھائیاں بٹ رہی ہوتیں ـ

   اس موقعہ پر ذرا سوچئے آسام کی صرف تین کڑوڑ آبادی کو شمار کرنے میں سات سال اور سولہ سو کڑوڑ روپئے خرچ ہوگئے ( یعنی ایک آدمی پر تقریبا ساڑھے پانچ سو روپئے) پھر بھی صحیح فہرست نہیں آسکی،  اگر یہی این آرسی پورے ملک کی ایک سو تیس کڑوڑ کی آبادی پر نافذ کیا جاتا تو کتنا عرصہ لگتا؟  تقریبا سترہ لاکھ کڑوڑ سے زیادہ صرف جاتے،  ....... ہمارے ملک کی موجودہ اقتصادی صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے روز مرہ اخراجات کے لئے رزرو بنک پر دباؤ ڈال کر ایک لاکھ ستر ہزاز کڑوڑ حاصل کرنے پڑے ہیں  ایسے میں ہمارا ملک سترہ لاکھ کڑوڑ خرچ کرنے کا متحمل ہوسکتا تھا ؟

   آگے سوال یہ ہے کہ اب  کیا ہوگا  ؟ چار ماہ کی مدت تو اُن لوگوں کو دی گئی ہے جو رہ گئے ہیں،  چار ماہ بعد اُن لوگوں کے پیش کردہ کاغذات کی جانچ ہوگی، جانچ میں کتنا وقت لگتا ہے پتہ نہیں، اندازہ یہ ہے کہ سال ڈیڑھ سال بعد رپورٹ آئیگی،  پھر جو رہ جائیں گے اُنھیں ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حق ہوگا، ہائی کورٹ سے فیصلہ آنے میں کم ازکم ڈیڑھ دوسال کا وقت لگ سکتا ہے، پھر ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ!

    اندازہ ہے کہ اس پورے پروسس میں پانج سے چھ سال کا وقت لگ سکتا ہے، پانچ چھ سال میں کون سی حکومت آتی ہے کون سی جاتی ہے کچھ پتہ نہیں نیز اُس وقت ملک کی کیاصورت حال ہوگی کون کون سے نئے مدعے سامنے آئیں گے  یہ آنے والا وقت بتائے گا ......... فی الحال ہمیں لگتا ہے کہ این آرسی کا کھیل ختم ہوچکا ہے ـ

   ان سب کے باوجود ہم ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت  سے حکومت سے یہ سوال کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں کہ آسام میں سولہ سو کڑوڑ روپئے کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے؟   
 از ـ  محمود احمد خاں دریابادی

Sunday, September 1, 2019

जी हां यह कौम मुर्दा है

जी हां यह कौम मुर्दा है
मुर्दों से भी बदतर है
जिस्म का छलनी होना सुने थे। मगर पैलेट गन से कश्मीरी जवानों की छलनी होती जिसमें और अंधी होती आंखें देख भी लीं।
खुदा ही जाने उन पर क्या-क्या कयामत टूटती होंगी।
बेचारे कश्मीरी नौजवान बूढ़े बच्चे और मर्द रातों में जागकर अपनी मां और बहनों की इज्जत व आबरू की रखवाली करते हैं लेकिन रातों-रात उन्हें  उठा लिया जाता है। अब तक न जाने कितने नौजवान अपने मां बाप से दूर हो चुके हैं जिनकी अब तक कोई सुराग नहीं मिल पाई है।
International मीडिया आज यह दिखा रही है।
सब कुछ नहीं दिखा रही है
लेकिन जो दिख रहा है उसे ही देखा जाए तो आंखों से आंसू आने लगता है
कश्मीरियों की जगह अपने आप को महसूस करो तब उनकी तकलीफ कुछ समझ में आएगी
जानवरों की तरह पेट भर कर खाने और घोड़ा बेचकर सोने से तुम्हारा मर जाना ही बेहतर है।
लेखक : मोहम्मद नूरुद्दीन

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...