Monday, April 8, 2019

سول سروس کا اڑان

مولانا شاھد رضا مصباحی ایک  عظیم
ہندوستان ہمارا بہت پیارا ملک ہے یہاں پر مختلف تہذیبیں اور مختلف مذھب کے ماننے والےلوگ  بستے ہیں.یہاں پر کافی تعداد میں مسلم بھی آباد ہیں ہر شخص کو اپنے مذھب پر عمل کی اجازت ہے کسی بھی طرح کی  تعلیم حاصل کرنے کا اختیار ہے اور باقاعدہ ہر شعبے کے الگ الگ ڈپارٹمنٹ قائم ہیں اور مزید اس میں ترقی کی راہیں سامنے آرہی ہیں لوگ آیے دن ترقی کے زینے کو چھورہے  ہیں اور گویا یہ کہ رہے ہیں کہ ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں.
انھیں ترقی حاصل کرنے والوں میں سے ایک نام محمد شاھد رضا مصباحی کا بھی ہے جنھوں نے ips آفیسر کا جو مقام حاصل کیا ہے وہ مصباحی برادران اور تمام مسلمانوں کے لیے بڑی خوشی کا موقع ہے
زمانہ طالب علمی میں جامعہ اشرفیہ میں شاھد صاحب سے کبھی کبھی ملاقات ہوجاتی تھی آج ان کی یہ عظیم کامیابی دیکھ کر گزشتہ زمانہ یاد آگیا
اللہ تعالی انھیں مزید ترقیاں عطا فرمائے
ہندوستان میں زمانہ قدیم سے مدارس کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے ہر دن اس کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے فارغین کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے والدین کی بے لوث خدمات کے بعد ایک طالب علم اعدادیہ سے فضیلت تک تمام مراحل پاس کرلیتا ہے اور اس کے بعد والدین کی آنکھوں میں ایک امید کی کرن روشن ہوتی ہے کہ بیٹا ان کے بڑھاپے کا سہارا بنے گا ان کو کماکر کھلائے گا لیکن حال یہ ہے طالب علم  اگر اچھے نمبر اور مشہور جامعہ یا مدرسے سے فارغ ہے  تو تلاش و جستجو کے بعد زیادہ سے زیادہ دس ہزار کی نوکری حاصل کرلیتا ہے لیکن اس میں بھی بے شمار تکالیف بات بات پر انتظامیہ کمیٹی کی بے تکی باتیں ہر وقت معزول کیے جانے کا ڈر لگا رہتا ہے اپنی جگہ برقرار رکھنے کے لیے چندہ کرنا ضروری ہے ورنہ جگہ جانے کاخطرہ ہے اگر سرکاری نوکری حاصل کرنا ہے تو مدارس کی موٹی کمائی پر راج کرنے والوں کو پہلے رشوت کے طور پر 20.سے 25لاکھ روپیے دینا ضروری ہوتے ہیں ایسے عالم میں ایک قابل باصلاحیت اور غریب عالم اس منصب کی حصول یابی سے محروم رہ جاتا ہے کیوں کہ اس کے پاس اتنی دولت نہیں ہے جس سے ان کا شکم پر کرسکے اور اس منصب پر ایسا مالدار شخص متمکن ہوجاتا ہے جس نے اپنے شب وروز مستی میں گزارے تھے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کامیاب اور باصلاحیت طلبہ کم اور کم علم. زیادہ فارغ ہورہے ہیں کیوں کہ مسند زریں پر بیٹھنے والا خود علم سے کورا ہے وہ دوسرے کی رہنمائی کیسے کرے گا ہر جگہ اگرچہ ایسا نہیں ہے لیکن آج کے دور میں اکثر ایسا ہی ہورہا ہے
ہر کمپنی کا یہ طریقہ ہوتا ہے جتنا مال انویسٹ ہوسکے اتنا ہی مال بناتی ہے لیکن مدارس کے منتظمین ہر سال سالانہ تعطیل کے موقع پر جگہ جگہ جلسے کا اعلان کرتے  ہیں کہ اس سال اتنے طلبہ فارع ہورہے ہیں اور اسی کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں اور ببانگ دھل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے جامعہ سے اتنے طلبہ فارع ہوگیے ہیں
لیکن اس پروڈکٹ کا کیا فائدہ
آپ نے کیا اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا ذمہ داری کا حق تو یہ تھا کہ آپ ہر سال فارغ ہونے والوں کے لیے  ان کی صلاحیت کے مطابق جگہ کا انتظام کرتے
آپ ایسا پروڈکٹ تیار کررہے ہیں جس کی مارکیٹ میں  کویی ویلو نہیں ایک نمبر سے فارع ہونے والا بھی اپنی جگہ کے لیے سرگرداں نظر آتا ہے
جگہ جگہ پریشان پھرنے کے بعد کویی مدرسہ مل گیا تو ٹھیک ہے ورنہ اب مساجد کی تلاش جاری رہتی ہے اکثر فارغ التحصیل کا یہی معمول رہتا ہے اور تنخواہ بھی معمولی رہتی ہے مساجد کی کمیٹی  کے  ظلم کی داستان تو ہر دن سننے کو ملتی ہی رہتی ہے 
اب ایسے عالم میں والدین اپنی باقی اولاد کے بارے میں کیا کبھی یہ ارادہ کریں گے کہ اسے بھی پہلے والے لڑکے  کی طرح. مدارس کے حوالے کردیں  ہر گز نہیں
پہلے تو شہر میں ہی مدارس زیادہ  ہوتے تھے  لیکن اب تو گاؤں میں بھی مدرسوں کا ایک  میلہ لگ گیا ہے ہر جبہ دستار والا ایک دوسرے جبہ دستار والے سے  ہنسی خوشی  سے ملنے کو تیار نہیں ہے 20.30  بچوں کو جمع کرکے اپنی دکان کی فکر کر رہا ہے ایسے عالم میں  مدارس اور قوم  دونوں کا نقصان ہوتا ہے چندہ بھی کئ حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے
اسی لیےفارغ تو زیادہ ہورہے ہیں لیکن کام کے افراد کم ہیں کیوں کہ اولا یا تو پڑھانے والے رشوت کے ذریعہ جگہ پائے ہیں یا پھر سالانہ جلسہ کے موقع فارغین کی تعداد دکھانا مقصود ہوتی ہے اسی لیے ہر مدرسے والا اس سے بہتر کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ کوشش  صرف تعداد میں اضافہ کے لیے ہوتی ہے صلاحیت مند ہے یا نہیں اس سے کوئی سرکار نہیں ہوتا ہے
میرا سوال ہر اس دین کے خیر خواہ ہر خانقاہ ھر اھل ثروت ہر مدرسے کی شکل میں دکان کھولنے والے ھل ذمہ دار سے ہے کہ مدرسوں کی تعداد بڑھانے سے کویی فایدہ نہیں اب ضرورت اس بات ہے کہ ہمارے انجینئرنگ کالج ہوں ہمارے میڈیکل کالج ہوں ہمارے ڈاکٹر ہوں ہمارے وکیل ہوں ہمارے قاضی ہوں ہمارے پولیس آفیسر ہوں ہمارے ips آفیسر ہوں لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ گاؤں کا پڑھا لکھا  طبقہ صرف ایک بڑا جامعہ قائم کرے باصلاحیت ہر شعبے کے اساتذہ فراہم کرے تعلیم  کا بہترین نظم ونسق قائم کرے عصری تعلیم کو خوب سے خوب فروغ دے طلبہ کی ذہنی فکروں کو پرکھیں جس میں جس فیلڈ کی خوبی دیکھیں اس کی طرف اس کی رھنمائی کریں اس سے چندہ بھی کئی حصوں میں تقسیم ہونے سے بچ جایے گا اور مقصد ایک نمایاں کامیابی ہوگا اس طرح ہر شعبے میں ایک عالم دین نظر آیے گا
کتنا پیارا وہ زمانہ ہوگا جب ہر ڈپارٹمنٹ میں عالم ہی عالم نظر آئیں گے
مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ کی محنت کے مقابلہ میں اسکول میں اتنے زیادہ محنتی طلبہ نہیں ہوتے ہیں
بقول اشرف میاں کامیابی کے سارے زینے تمہارے لیے ہیں لیکن رھنمائی کی ضرورت ہے
مدارس میں داخلہ لینے والوں میں ایک تعداد غریب طلبہ کی رہتی ہے بعض تو کسی طرح گزر بسر کرکے دستار فضیلت حاصل کرلیتے ہیں ان میں سے بے شمار طلبہ کی یہ خواہشات رہتی ہیں کہ یونیورسٹی جاکر اور تعلیم حاصل کریں لیکن وہاں کا خرچ اور والدین کی جیب اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے ادھر والدین اب سوچنے لگتے ہیں کہ بیٹا اب کماکر کھلایے گا
اب ایسے عالم میں ھل مسلم اھل ثروت ہر خانقاہ اھل ثروت اور آج تو ہر خانقاہ اھل ثروت ہے وہ پرانے بزرگوں کے واقعات صرف کتابوں میں ملتے ہیں کہ فلاں بزرگ نے اپنا سب کچھ راہ خدا می‍ں وقف کردیا کویی تارک الدنیا ہوگیے کسی نے گھاس کے پتے کھاکر زندگی گزاری
لیکن آج کا حال ہے کہ بظاھر جبہ دستار ہے  لیکن سراپا دنیا کی دولت میں گم. ہیں غریب مرید کے گھر پر جانے کا خیال بھی نہیں آتا صرف مالدار مرید ہی نظر میں بھاتے ہیں
اب ایسے عالم میں ان بظاھر جبہ دستار میں ملبوس دنیا سے دل لگانے والے مشائج سے اگر یہ امید لگائی جایے کہ آپ کچھ اس طرح کے کالج کھولیں  جس میں ہر فن کے ماھرین  کو لاییں اور مدارس سے فارغین کو ان کے آگے کی تعلیم حاصل کے مواقع فراہم کریں تو آج ایک شاھد رضا مصباحی ips آفیسر بنا ہے کل نہ جانے کتنے آفیسرس. وکلاء ڈاکٹرس  علماء کی صورت میں نظر آییں گے اور آج  جو لوگ  ان مدارس  سے جی چراتے ہیں ان سے فارغ ہونے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے اور  اپنے بچوں کے بارے میں بھی نیا فیصلہ کریں گے
آپ کالجز بناکر فیس بھی جاری کریں لیکن اتنی فیس رکھیں تاکہ  غریب مدارس سے فارغ آگے کی تعلیم جاری رکھ سکیں ورنہ اگر فیس کے بار سے تعلیم سے روکا تو آپ میں اور ان کالجزر کے افراد میں کیا فرق رہ جایے گا.
بس اسی پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں
ہوسکتا ہے ان میں سے کچھ باتیں کسی پر صادق آجاییں تو ھدف تنقید نہ بناییں صرف عمومی بات کی گئ ہے.
اللہ کرے دل میں اتر جایے میری بات.
محمد گل ریز رضا مصباحی

قرآن مجید کی پرنٹنگ عہد بہ عہد

دنیا کا پہلا پرنٹڈ قرآن 1537 میں اٹلی کے شہر وینس کے ایک پرنٹنگ پریس میں چھاپا گیا۔ دوسرا قرآن 1694 ہیمبرگ جرمنی اور تیسرا پرنٹڈ قرآن روس میں چھاپا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم ورلڈ میں کسی قسم کا پرنٹنگ پریس لگانا یا کوئ پرنٹڈ کتاب رکھنا حرام اور سخت جرم تھا ۔سلطان بایزید دوم نامی ایک خلیفہ نے 1485 میں علماء کی مدد سے پرنٹنگ پریس اور اسکی مصنوعات کو حرام قرار دے کر مسلم ورلڈ مین بین کردیا۔ اسکے بعد 1515 میں سلطان سلیم نامی ایک بادشاہ نے اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کے یہ فرمان جاری کیا سلطنت عثمانیہ میں کسی شہری کے پاس کوئ پرنٹنڈ کتاب پکڑی گئ تو اسے قتل کردیا جائے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب یورپ میں 2 کروڑ سے زائد پرنٹڈ کتابیں بیچی جاچکی تھیں۔
اس سے پہلے 1492 عیسوی میں سلطنت عثمانیہ کی ایک ریاست اندولوسیہ (اندلس سپین) کے چند یہودیوں نے سلطان کو ایک عرضی دی کہ ان کے پاس اپنی پرنٹنگ پریس ہے اور وہ انہین اس سے استفادہ کرنے کی اجازت دیں۔ سلطان نے اس شرط پر اجازت دی کہ تم کسی مسلمان کو کوئ کتاب فروخت نہین کروگے۔
سواس طرح سپین کے یہودیوں اور عیسائیوں نے پرائیوٹ پریس سے لاکھوں کتابیں چھاپیں اور اس سے مسلمانوں کو چھوڑ کے تمام قومیں مستفید ہوئیں۔
یہ وہ وقت تھا جب یورپ اور نئے نئے امریکہ مین علوم و فنون انگڑائ لے کے بیدار ہورہے تھے اور مسلم ورلڈ جمود کا بستر اوڑھ کر سونے کی تیاری کررہی تھی۔ اسی کتابی ریولیشن سے ہزاروں عظیم سائنسدان، ڈاکٹر۔ماہر طعبیات، ریاضی دان، ماہر فلکیات پیدا ہوئے۔
حالنکہ ساتویں صدی سے تیریویں صدی تک سارا یورپ جہالت کی نیند سورہاتھا اور علوم و فنون کا خزانہ مسلمانوں کے پاس تھا۔ پہلی صلیبی جنگ جو کہ گیارویں صدی میں لڑی گئ جس مین عیسائیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا اور بہت سارے مال غنیمت کے ساتھ کاغذ بھی انکے ہاتھ لگا۔ اسی کاغذ سے بعد میں انہوں ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔
سترویں صدی تک مسلمانوں پر یہ جمود پوری طرح برقرار رہا ۔۔ بالآخر 1720 میں ایک نومسلم ابراہیم المقاتر (جوکچھ ماہ قبل ہی عیسائ سے مسلمان ہوا تھا) اس وقت کے مفتی اعظم کے پاس عرضی لے کرگیا کہ 300 سال ہوگئے یورپ میں پرنٹنگ پریس کو خدا کے لیئے اب تو جاگ جاو اور مسلم ورلڈ میں بھی اسکی اجازت دے دو، پھر اس نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئ کئ سو صفحات کی کتاب گرینڈ مفتی کودی جو پرنٹنگ پریس کے بارے میں تھی، کتاب کو پڑھ کے مفتی صاحب قائل ہوگئے لیکن انہوں نے تین کڑی شرائط کے ساتھ اسکی اجازت دی:
1۔ کوئ عربی کی کتاب پرنٹ نہین ہوگی
2۔ کوئ اسلامی کتاب پرنٹ نہین ہوگی
3۔ ہر چھپنے والی کتاب حکومت سے منظور شدہ ہوگی
اس طرح سلطنت عثمانیہ مین لولی لنگڑی پرنٹنگ پریس آئ۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔۔۔ یورپ علوم و فنون میں ہم سے 300 سال آگے نکل چکا تھا۔۔ اور اب یہ فاصلہ بڑھ کر 500 سال تک پہنچ چکا ہے۔

Thursday, April 4, 2019

مکڑی کا اپنے بچے کے باپ کا مرڈر

‮تحقیق کے مطابق مادہ مکڑی بچے دینے کے بعد نر مکڑی (اپنے بچوں کے باپ) کو قتل کر کے گھر سے باہر پھینک دیتی ہے۔ پھر جب اولاد بڑی ہو جاتی ہے، تو اپنی ماں کو قتل کر کے گھر سے باہر پھینک دیتی ہے۔ کتنا عجیب و غریب گھرانہ اوریقیناً بدترین گھرانہ ہے۔قرآن مجید کی ایک سورت ہے” العنکبوت” —- عنکبوت کو اردو میں
“مکڑی ” کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایاہے کہ سب سے بودا یا، کمزور گھر مکڑی کا ۔ہے – قرآن کا معجزہ دیکھیں، ایک جملے میں ہی اس گھرانے کی پوری کہانی بیان کر دی کہ “بے شک گھروں میں سے سب سے کمزور گھر عنکبوت کا ہے اگر یہ(انسان) علم رکھتے۔ ”انسان مکڑی کے گھر کی ظاہری کمزوری کو تو جانتے تھے، مگر اس کے گھرکی معنوی کمزوری یعنی دشمنی اور خانہ جنگی سے بے خبر تھے۔ اب جدید سائنس کی وجہ سے اس کمزوری سے بھی واقف ہو گئے، اس لیے اللہ نے فرمایا اگر یہ علم رکھتے یعنی مکڑی کی گھریلو کمزوریوں اور دشمنی سے واقف ہو تے۔اس سب کے باوجود اللہ تعالی نے ایک پوری سورت کانام اس بری خصلت والی کیڑے کے نام پر رکھا حالانکہ اس سورت کے شروع سے آخرتک گفتگو فتنوں کے بارے میں ہے۔سورت کی ابتدا یوں ہے : ” کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اس بات پر چھوٹ جائیں گے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایمان لایا ہے اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا” اور فرمایا “لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں ۔جو کہتے تو ہیں کہ ہم نے ایمان لایا ہے مگر جب ان کو اللہ کی راہ میں اذیت دی جاتی ہے، تو لوگوں کی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھتے ہیں۔”ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ مکڑی کا فتنوں اور آزمائشوں سے کیا تعلق ہے؟ درحقیقت، فتنے، سازشیں اور آزمائشیں بھی مکڑی کی جال کی طرح پیچیدہ ہیں اور انسان کے لیے ان کے درمیان تمیز کرنا ان کو بے نقاب کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مگر اللہ مدد کرے تو یہ کچھ بھی نہیں ہوتے.......

فیس بک Facebook

شادی شدہ ہوکر کسی عورت سے چکر چلانے یا ساری رات کسی کی بیوی سے فیس بک  اور واٹس ایپ پر باتیں کرنے کا شوق دل میں اٹھے تو شوق سے اپنا شوق پورا کریں۔*
لیکن شوق پورا کرنے سے پہلے ایک بار حضرت علامہ اقبال (رحمہ اللہ) والا پوز بنا کر سوچئے کہ اگر آپ کی بیوی کسی مرد سے چکر چلائے یا ساری رات کسی مرد سے فیس بک یا وٹس ایپ پر باتیں کرے تو آپ کو کیسا لگے گا؟
اگر آپ بین الاقوامی بے غیرت نہیں تو یقیناً برا لگے گا۔
بس فیس بک انگریزی کے دو لفظوں سے بنا ہوا ہے :
1- فیس face
2- بک book
پہلا لفظ فیس face یعنی چہره، یہاں آپ اللہ تعالی کے اس فرمان کو ضرور یاد رکھئے:
( یَّوۡمَ تَبۡیَضُّ وُجُوۡہٌ وَّ تَسۡوَدُّ وُجُوۡہٌ ۚ )
ترجمہ : اس دن جس دن کچھ چہرے روشن ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے ۔ ( آل عمران 106)
جن کے چہرے روشن ہوں گے درحقیقت قیامت کے دن وہی لوگ کامیاب ہوں گے اور یہ وه لوگ ہوں گے جو دنیا میں ایمان لائے اور نیک عمل کئے. اس کے بر عکس کفر و شرک اور گناه و معاصی کرنے والوں کے چہرے سیاہ اور کالے ہوں گے.
اب آپ کو اختیار ہے کہ فیس بک کا اچھا یا غلط استعمال کر کے آپ کون سے چہرے والوں میں شامل ہونا پسند کریں گے.
دوسرا لفظ بک book یعنی کتاب ہے، یہاں آپ اللہ کے اس فرمان کو ضرور یاد رکھئے :
وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا (13) اقْرَأْ كِتاابَكَ كَفَىٰ مِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا (14)
ترجمہ : ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پا لے گا ۔ [اس سے کہا جائے گا] لے! خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے ۔ آج تو تو آپ ہی اپنا خود حساب لینے کو کافی ہے ۔ (الإسراء 13-14)
یعنی یہاں فیس بک پر جو کچھ بھی آپ کر رہے ہیں وہ آپ کے نامہ اعمال میں لکھا جا رہا ہے اور وہ save ہو رہا ہے، کل قیامت کے دن وه نامہ اعمال آپ کو دیا جائے گا اور کہا جائے گا لیجئے خود پڑھئے آپ نے فیس بک اور پر کیا کچھ کیا ہے.
خلاصہ کلام اگر آپ چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن آپ کا face چہرہ روشن ہو اور آپ اپنی book کتاب یعنی نامہ اعمال دائیں ہاتهہ میں پا کر خوش ہوں تو آپ فیس بک (Facebook) کا اچھا استعمال کیجئے. اچھی چیزیں پوسٹ اور اپلوڈ کیجئے، کفریہ و فسقیہ، گناہ و معصیت اور بے حیائی و برائی کی چیزیں پوسٹ کرنے یا لائک like اور شیئر share کرنے سے پرہیز کیجئے.
اللہ تعالى ہم سب کو نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے.
دعاؤں میں مجھے اور میرے گھر والوں کو یاد رکھیں۔ برا لگے تو پھر اس شوق کو دل میں ہی دبا دیں اور اس کے علاوہ کچھ اچھے شوق بھی آپ کے دل میں اٹھتے ہوں گے، ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔
جاتے جاتے ایک بات لکھ لیجئے شاید کام آجائے۔
تو بات وہ ہے کہ آج آپ مضبوط ہیں اور آپ کے بیوی بچے کمزور لیکن جس دن آپ کے جسم نے بوڑھاپے کی چادر اوڑھ لی تب آپ کمزور اور آپ کے بیوی بچے مضبوط ہوں گے۔ بس اگر آج آپ ان کے نہ ہوئے تو کل وہ آپ کے نہیں ہوں گے۔

قصیدہ معراجیہ

امام احمد رضاؔ اور قصیدۂ معراجیہ
1856ء میں روہیل کھنڈ بریلی کی علمی و ادبی فضا میں ایک پھول کھلا جس سے مشام علم و ادب معطر و معنبر ہو گئی- امام احمد رضا محدث بریلوی اُفق علم و ادب پر مہر درخشاں بن کر جلوہ بار ہوئے۔ ابر کرم بن کر گلستانِ ادب پر برسے اور اس کشتِ لالہ زار کو مزید حسن و زینت بخشی ۔ وہ عالم فاضل، مفتی، محقق سائنس داں، ریاضی داں، ماہر نجوم و فلکیات و ہیئت تھے اور ساتھ ساتھ صاحب طرز ادیب و باکمال شاعر بھی۔ اس بات پر اُن کے نثری جواہر پارے نیز نعتیہ دیوان ’’حدائق بخشش‘‘ شاہد عدل ہیں۔ اُن کی حیات کے ہر ہر گوشے پر محققین تحقیق میں مصروف ہیں۔ کئی تحقیقاتی ادارے اکیڈمک طرز پر فروغ رضویات کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہاں ہم رضا بریلوی کے دیوان سے ایک قصیدہ ’’قصیدۂ معراجیہ‘‘ پر مختصر تبصرہ کریں گے۔
دبستان لکھنو کے عظیم نعت گو شاعر سیّد محمد محسن کاکوروی مرحوم (م ۲۲ ۱۳ ھ / ۱۹۰۵ء) امام احمد رضا سے ملنے بریلی گئے۔ محسن کاکوروی اپنا لکھا ہوا ایک قصیدۂ معراج سنانا چاہتے تھے جو دُنیائے شعر و ادب میں ’’قصیدۂ لامیہ'‘ سے معروف و مشہور ہے۔ ظہر کے وقت چند اشعار سنائے، طے ہو اکہ نماز عصر کے بعد محسن کا قصیدہ سنا جائے گا۔ رضا بریلوی نے نمازِ عصر سے قبل ہی ایک عظیم الشان قصیدۂ معراجیہ تحریر فرمایا۔ عصر بعد محسن سے فرمایا پہلے میرا قصیدہ سن لو۔ جب محسن کاکوروی نے رضا بریلوی کا 67؍ اشعار پر مشتمل قصیدہ سنا تو اپنا قصیدہ لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا اور کہا کہ ’’مولانا آپ کے قصیدے کے بعد مَیں اپنا قصیدہ نہیں سنا سکتا۔‘‘
قصیدہ کیا ہے، ایک برستا جھرنا ہے جو اپنی پوری آب و تاب اور نغمگی کے ساتھ برس رہا ہے۔ ایک کیف آور اور وجد آفریں نغمہ، تشبیہات و تلمیحات اور نادر تراکیب و بندش کا مرقع ہے۔ برجستگی، شگفتگی، سلیقہ مندی و خوش اسلوبی اور سلاست و روانی کا عظیم شاہکار ہے۔ عارفانہ و عالمانہ نکات کا حامل اور کمالات شعر و سخن سے لب ریز اس قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کیلئے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک چمن کو آبادیاں مبارک
ملک فلک اپنی اپنی لے میں یہ گھر عنادل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رچی تھی شادی مچی تھی دھومیں
اُدھر سے انوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے
حضرت محدث اعظم ہندکچھوچھوی علیہ الرحمہ نے لکھنؤ کے استاذ شعراء کی مجلس میں جب اس قصیدہ کو سنایا تو سب پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور یہ قصیدہ ختم ہوتے ہی سب نے بیک زباں ہو کر کہا کہ ’’اس کی زبان تو کوثر و تسنیم سے دُھلی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ ماہر رضویات ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی رقمطراز ہیں: ’’ یہ نظم موسیقیت اور شاعرانہ نکتہ سنجی کا مرقع ہے۔ باوجود متبحر عالم دین ہونے کے رضا نے کمال کرب کے ذکر میں قرآن و حدیث کے الفاظ کے استعمال یااقتباسات کے ساتھ ریاضی کی اصطلاحات پر مبنی شعر کہے ہیں۔ تاکہ اِس نازک مضمون کو نبھا بھی سکیں اور شرعی پاس و وقار بھی برقرار رہے اور قارئین کو معانی کی بھول بھلیوں میں گم نہ کر کے اُن کے اذہان میں مضمون کو بآسانی اُتار بھی سکیں ؎
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصل خطوط واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
کمان امکاں کے جھوٹے نقطو تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
(امام احمد رضا اور محسن و امیر، از : ڈاکٹر عزیزی ص ۱۳)
اس قصیدہ میں جہاں عصری علوم کی تراکیب و اصطلاحات کا استعمال کیا گیا ہے وہیں دینی عقائد اور اصطلاحات کی ترجمانی بھی کی گئی ہے، کہیں عقیدۂ ختم نبوت کا بیان ہے تو کہیں حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اولیت کا ذکر، کہیں رسول عظم صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور نورانیت کا ذکر ہے تو کہیں خدائے بزرگ و برتر کی قدرت اور شانِ بے نیازی کا بیان ہے؎
نماز اقصیٰ میں تھا یہی سر عیاں ہو معنیِ اول آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے کر گئے تھے
وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اسی سے ملنے اُسی سے اُسکی طرف گئے تھے
تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں تقاضے وصال کے تھے
رضا بریلوی کے اِس قصیدہ میں منظر کشی بھی عجیب کیف و سرور کا عالم پیدا کردیتی ہے اور علم نجوم و فلکیات کی اصطلاحات اس قصیدہ کو چار چاند لگادیتی ہیں۔ اس نوع کے چند اشعار دیکھیں ؎
یہ چھوٹ پڑتی تھی اُنکے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نصب آئینے تھے
یہ جھوما میزابِ زر کا جھومر کہ آرہا کان پر ڈھلک کر
پھوہار برسی تو موتی جھڑ کر حطیم کی گود میں بھرے تھے
خدا ہی دے صبر جان پر غم دکھاؤں کیوں کر تجھے وہ عالم
جب اُنکو جھرمٹ میں لے کے قدسی جناں کا دولہا بنا رہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قندیلیں جھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے
اِسی طرح درج ذیل اشعار میں علم نجوم و فلکیات کی اصطلاحات کو استعمال کیا گیا ہے؎
وہ برج بطحا کا ماہ پارہ بہشت کی سیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارہ کہ اِس قمر کے قدم گئے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے کروروں منزل میں جلوہ کر کے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلئے تھے
الغرض اگر باریک بینی سے کوئی ادب شناس اس علمی و ادبی شہ پارے کا فنی و ادبی جائزہ لے تو نئے گوشے اور نئے جلوے سامنے آئیں گے۔ بقول احسن العلماء علامہ سیّد محمد حسن میاں برکاتی مارہروی علیہ الرحمہ: ’’ محدث بریلوی کے ایک ایک شعر پر ڈاکٹریٹ کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘
(فکر رضا کے جلوے، از : توفیق احسن برکاتی , ص۳۳ ، ممبئی)
اِس بے مثال و بے نظیر قصیدے کے اختتام پر رضا بریلوی کس شان عاجزی و غلامی سے سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں رحمت سے حصہ طلب کررہے ہیں۔ اِس عدیم المثال قصیدہ کے تعلق سے وضاحت بھی کرتے ہیں کہ نہ مجھے شاعری کی ہوس و شوق ہے نہ اس بات کی پرواہ کہ اس میں کس شان و کمال علمی سے ردیف و قافیے اور تراکیب و استعمارات و محاورات کا استعمال کیا گیا ہے کہ پوری دُنیائے ادب اس کی مثال لانے سے قاصر ہے۔ یہ سب کچھ شہرت کے لئے نہیں بلکہ ہمارا مقصود و مدعا صرف اور صرف بارگاہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم میں مقبولیت حاصل کرنا ہے اور یہ اشعار و ظیفہ کے طور پر رقم ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو ؎
نبی رحمت شفیع اُمت رضا پہ للہ ہو عنایت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصہ جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبول سرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیے تھے..
از قلم: وسیم رضا

Tuesday, April 2, 2019

ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین

ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین فن جن سے علمی کارنامے متوقع تھے۔ امامت و خطابت کے اس پرلطف مرغن و مچرب اور آسان  راہ پر چل پڑے جس پر چلنے کے لیے خوش الحان قاری صاحب، حافظ صاحب ، ناطرہ مکمل اور اردو میں  پانچویں پاس کافی تھا۔۔۔یہ سوچنے کا مقام ہے۔۔۔کیوں؟ آج یہ مولوی تمام پلیٹ فارم پر قوم کو ایک ہی طعنہ دیتے ہیں کہ تم دنیادار ہو جب کہ خوبصورت رومال تک انہیں مانگنے کی عادت ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا اہم زینہ اس کا اقتصاد ہے جو قوم اقتصادی طور پر مضبوط ہے لوگ اسی کے  حس و حرکت کی نقالی کرتے ہیں۔۔۔اگر ہم مثبت فکر کو پروموٹ کرتے تو آج ہمارے پاس سیکڑوں شیخ زائد ہوتے اور ہم اپنے علماء کو دنیا کی بہترین سہولیات دیتے۔۔۔لیکن ہم نے خود قوم کو سلمڈاگ بنایا ہے۔۔عزت و عظمت کے سب سے اہم ظاہری سبب یعنی معاشیات کے لیے تگ و دو  کی misinterpreting کرکے قوم کو اس قدر مفلوج کیا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی وہ اپنے بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہیں۔۔جب کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی تو شاید انہیں پیش قدمی کا حوصلہ ملتا۔۔۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اس قوم کا علاج، انہیں دنیا کی قیادت سکھانے میں مضمر  ہے خواہ وہ قیادت دینی ہو کہ دنیاوی، اقتصادی ہو کہ فکری۔
۔۔۔۔۔۔۔بلوگر کے قلم سے۔۔۔۔۔۔۔

Monday, April 1, 2019

اپریل فول اور جھوٹ

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِﺍﻟﺮَّﺣْﻤَﻦِﺍلرَّﺣِﻴﻢ
                  1st APRIL ka jhoot ek fitna
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الصِّدْقَ بِرٌّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا وَإِنَّ الْكَذِبَ فُجُورٌ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ كَذَّابًا قَالَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي رِوَايَتِهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
रसूल अल्लाह ﷺ ने फ़रमाया: सच नेकी है और नेकी जन्नत की तरफ़ रहनुमाई करती है और बंदा पूरी कोशिश से सच ही का क़सद करता रहता है हत्ता की वो अल्लाह ताला के नज़दीक सिद्दीक़(सच्चा) लिख दिया जाता है और झूट बेहूदगी है और बेहूदगी जहन्नुम की तरफ़ ले जाती है और बंदा झूट बोलने का क़सद होता रहता है हत्ता की उसे झूटा लिख दिया जाता है।
Rasool Allah ﷺ ne farmaya: sach neki hai aur neki jannat ki taraf rehnumai karti hai aur bandah poori koshish se sach hi ka qasad karta rehta hai hatta ke woh Allah taala ke nazdeek Siddiq(sachha) likh diya jata hai aur jhoot behudgi hai aur behudhi jahannum ki taraf le jati hai aur bandah jhoot bolne ka qasad hota rehta hai hatta ke usay jhoota likh diya jata hai.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچ نیکی ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بندہ پوری کوشش سے سچ ہی کا قصد کرتا رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ کج روی ہے اور کج روی جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور بندہ جھوٹ بولنے کا قصد ہوتا رہتا ہے حتی کہ اسے جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔
The Messenger of Allah (‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم) said: Telling of truth is a virtue and virtue leads to Paradise and the servant who endeavours to tell the truth is recorded as truthful, and lie is obscenity and obscenity leads to Hell-Fire, and the servant who endeavours to tell a lie is recorded as a liar.
 _*Sahih Muslim

Girl friend ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻨﺎﺅﻧﺎ ﺭﺷﺘﮧ

Girl friend ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻨﺎﺅﻧﺎ ﺭﺷﺘﮧ
ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﻋﺰﺕ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ، ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺭﻭﭖ ‏( ﻣﺎﮞ، ﺑﮩﻦ ، ﺑﯿﭩﯽ ، ﺑﯿﻮﯼ ‏) ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﺁﺝ ﮐﻞ ﺑﺪﻗﺴﻤﺘﯽ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﻏﻠﻂ ﺭﺷﺘﮧ ﺟﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ‏( Girlfriend ‏) ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ .
ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻏﻠﯿﻆ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﮯ ، ﮨﺮ ﺷﺮﯾﻒ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﮔﮭﻨﺎﺅﻧﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺷﺮﯾﻒ ﻟﮍﮐﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ،
ﻣﯿﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺕ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﺌﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﺰﺕ ﻭ ﻭﻗﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ، ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺫﻟﺖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﻮ ﮔﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺩ ﻣﺤﺾ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﻮ ﺭﻧﮕﯿﻦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ .
ﻣﺮﺩ ﺟﺲ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺰﺕ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﮐﺮﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮ ،ﺍُﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﮨﻮﭨﻠﻮﮞ ﯾﺎ ﭘﺎﺭﮐﻮﮞﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﺘﺎ . ﺍﺳﮯ ﻭﮦ ‏( Girlfriend ‏) ﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﮨﮯ !
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﻋﺰّﺕ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ . ﺍﯾﮏ ﺷﺮﯾﻒ ﻟﮍﮐﺎ ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺳﭻ ﻣﯿﮟ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺞ ﮐﺮ ﻋﺰﺕ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﻣﺎﻧﮕﮯ ﮔﺎ
ﺟﻮ ﻟﮍﮐﺎ ﯾﺎ ﻣﺮﺩ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ‏( Girlfriend ‏) ﮐﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ / ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﺌﮯ ، ﺟﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺟﺎﺋﺰ ﻣﻘﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺰﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﯽ !
ﺍﻭﺑﺎﺵ ﻟﮍﮐﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮭﻨﺴﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻧﺎﺩﺍﻥ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﻮﺵ ﺗﺐ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﺐ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﺮ ﺳﮯ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺧﺪﺍ ﻧﺨﻮﺍﺳﺘﮧ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﮯ ﺟﮭﺎﻧﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺁ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺟﺎﺋﺰ ﺗﻌﻠﻘﺎﺕ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﺖ ﺑﮭﻮﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﮐﻞ ﮐﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺧﻤﯿﺎﺯﮦ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﮕﺘﻨﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﻗﺎﺑﻞ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﻠﻂ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﮯ ﺗﻮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﺗﻮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮏ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ،
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﮐﺮﺍﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺴﺮﺍﻝ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﮩﻮ ﮐﻮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻗﺒﻮﻟﻨﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ، ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﻠﺦ ﺳﭽﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﯽ !
ﮔﺰﺍﺭﺵ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺮﺍﮦ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﻧﯿﭧ ﭘﺮ ﻟﮍﮐﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﯾﺎﮞ ﻧﮩﺒﻨﺎﺋﯿﮟ ، ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻮﭨﻮ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺩﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ،
ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺁﺧﺮ ، ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ؟؟؟
ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻥ ﻧﻘﺼﺎﻧﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﮯﺟﻮ ﮐﻞ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﮏ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ؟؟؟
ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﯿﻤﻠﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﮐﮭﯿﮟ ، ﻧﯿﭧ ﭘﺮ ﺍﻥ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮﮐﺎ ﺑﻨﺎ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮐﺎﭘﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻏﻠﻂ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺧﺒﺮ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﭼﯿﺰ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﮐﺎ ﺑﺎﻋﺚ ﺑﮭﯽ ﺑﻦ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ !!!
ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺌﯽ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﯾﺎ ﻭﮈﯾﻮ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺑﻠﯿﮏ ﻣﯿﻞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻏﻠﻂ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﻧﮯﺧﻮﺩﮐﺸﯽ ﮐﺮ ﻟﯽ !
ﺑﮩﺖ ﻟﻤﺒﯽ ﺑﺤﺚ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺲ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮨﻮ،
ﯾﮧ ﻏﯿﺮ ﻣﺴﻠﻢ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﻓﻌﻞ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ ﺟﻮ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﭘﺴﺘﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﮐﺮ ﺗﺒﺎﮦ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ ،
ﺍﺱ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﮐﻠﭽﺮ ﮐﯽ ﯾﻠﻐﺎﺭ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺻﺮﻑ ﺍﻭﺭ ﺻﺮﻑ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮬﻢ ﺑﮭﯽ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﻣﺎﺩﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺑﮭﻨﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺲ ﮐﺮ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ !
ﺍﺱ ﻟﺌﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﭼﺎﻧﺪ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺅ ﺟﺲ ﭘﺮ ﮨﺮ ﮐﺴﯿﮑﯽ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﮮ
ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﺳﻮ ﺭﺝ ﺑﻨﻮ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯽ ﺟﮭﮏ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﺠﺌﮯ ﮐﮧ
ﯾﺎﺭﺏّ ﺍﻟﻌﺰّﺕ ﺳﺐ ﮐﻮﺍﻣﯽ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻤﺎ ﺟﯿﺴﯽ ﺳﯿﺮﺕ ﻭ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺑﯿﭩﯽ، ﺑﮩﻦ، ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮞ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺩﮮ
ﺟﺲ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺮﺍ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺣﺒﯿﺐ ﺻﻠﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺖ ﻣﺤﻤﺪ ﷺ ﮐﮯ ﻓﺮﺯﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﮐﯽ ﮨﺮ ﮨﺮ ﺳﻨﺖ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻻﮔﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ.

بہت بھول کردی تونے

ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین فن جن سے علمی کارنامے متوقع تھے۔ امامت و خطابت کے اس پرلطف مرغن و مچرب اور آسان  راہ پر چل پڑے جس پر چلنے کے لیے خوش الحان قاری صاحب، حافظ صاحب ، ناطرہ مکمل اور اردو میں  پانچویں پاس کافی تھا۔۔۔یہ سوچنے کا مقام ہے۔۔۔کیوں؟ آج یہ مولوی تمام پلیٹ فارم پر قوم کو ایک ہی طعنہ دیتے ہیں کہ تم دنیادار ہو جب کہ خوبصورت رومال تک انہیں مانگنے کی عادت ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا اہم زینہ اس کا اقتصاد ہے جو قوم اقتصادی طور پر مضبوط ہے لوگ اسی کے  حس و حرکت کی نقالی کرتے ہیں۔۔۔اگر ہم مثبت فکر کو پروموٹ کرتے تو آج ہمارے پاس سیکڑوں شیخ زائد ہوتے اور ہم اپنے علماء کو دنیا کی بہترین سہولیات دیتے۔۔۔لیکن ہم نے خود قوم کو سلمڈاگ بنایا ہے۔۔عزت و عظمت کے سب اہم ظاہری سبب کی misinterpreting کرکے قوم کو اس قدر مفلوج کیا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی وہ اپنے بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہے۔۔جب کہ ان کی حوصلہ افزائی جاتی تو شاید وہ انہیں حوصلہ ملتا۔۔۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اس قوم کا علاج انہیں دنیا کی قیادت سکھانے میں ہے خواہ وہ قیادت دینی ہو کہ دنیاوی اقتصادی ہو کہ فکری۔
۔۔۔۔۔۔۔بلوگر کے قلم سے۔۔۔۔۔۔۔

دینی رہنمائوں کی کج فہمی

ایک سے بڑھ کر ایک ماہرین فن جن سے علمی کارنامے متوقع تھے۔ امامت و خطابت کے اس پرلطف مرغن و مچرب اور آسان  راہ پر چل پڑے جس پر چلنے کے لیے خوش الحان قاری صاحب، حافظ صاحب ، ناطرہ مکمل اور اردو میں  پانچویں پاس کافی تھا۔۔۔یہ سوچنے کا مقام ہے۔۔۔کیوں؟ آج یہ مولوی تمام پلیٹ فارم پر قوم کو ایک ہی طعنہ دیتے ہیں کہ تم دنیادار ہو جب کہ خوبصورت رومال تک انہیں مانگنے کی عادت ہے۔اور حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا اہم زینہ اس کا اقتصاد ہے جو قوم اقتصادی طور پر مضبوط ہے لوگ اسی کے  حس و حرکت کی نقالی کرتے ہیں۔۔۔اگر ہم مثبت فکر کو پروموٹ کرتے تو آج ہمارے پاس سیکڑوں شیخ زائد ہوتے اور ہم اپنے علماء کو دنیا کی بہترین سہولیات دیتے۔۔۔لیکن ہم نے خود قوم کو سلمڈاگ بنایا ہے۔۔عزت و عظمت کے سب اہم ظاہری سبب کی misinterpreting کرکے قوم کو اس قدر مفلوج کیا ہے کہ آج اکیسویں صدی میں بھی وہ اپنے بچوں کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر ہے۔۔جب کہ ان کی حوصلہ افزائی جاتی تو شاید وہ انہیں حوصلہ ملتا۔۔۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اس قوم کا علاج انہیں دنیا کی قیادت سکھانے میں ہے خواہ وہ قیادت دینی ہو کہ دنیاوی اقتصادی ہو کہ فکری۔

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...