Wednesday, July 31, 2019

طلاق ثلاثہ بل کے پاس ہونے کے بعد

طلاق ثلاثہ بل کے پاس ہونے کے بعد اب لکھنے سے زیادہ یہ کام کرنے کی ضرورت ہے:

  • سپریم کورٹ میں فوراً اسے چیلینج کیا جائے.
  • پروگراموں کے ذریعہ اس کی خامیوں سے عام مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے.
  • نام نہاد سیکولر پارٹیوں کا علی الاعلان بائیکاٹ کیا جائے.
  • طلاق ثلاثہ کے مقدمات میں پھنسنے والے لوگوں کے مقدمات کی پیروی کرنے کے لئے لیگل سیل بنایا جائے.
  • صوبائی سطح پر غیر بھاجپائی سرکاروں سے اپیل کی جائے کہ وہ اس بل کی مخالفت میں اپنی اپنی ایوان میں بل پیش کریں.
  • علاوہ ازیں علماء کو ایئر کنڈیشن سے نکل کر عوام میں بیداری مہم چلانی چاہئے تاکہ عوام اس آفت کا شکار ہونے سے بچیں اور دارالقضاء کی اہمیت و افادیت کو واضح کیا جائے تاکہ لوگ کورٹ کے بجائے دارالقضاء سے رجوع کریں.
مہدی حسن عینی

Tuesday, July 30, 2019

موب_لنچنگ کا حکیمانہ آزمودہ علاج

امریکہ کی افریقی نژاد آبادی نے لنچنگ کا مقابلہ کیسے کیا!
یاسر ندیم الواجدی
ماب لنچنگ نہ بھارت کے لیے نئی چیز ہے اور نہی ملک سے باہر دنیا کے لیے۔ البتہ منظم ماب لنچنگ کی روایت بھارت میں نئی ہے، جب کہ امریکہ میں 1882 سے شروع ہوکر یہ روایت 1981 میں ختم ہوئی۔ لہذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ افریقی نژاد لوگوں نے منظم ہجومی تشدد کا کیسے مقابلہ کیا اور وہ کیا اسباب وعوامل تھے جن کی بنیاد پر سو سال کے عرصے میں 3446 لوگوں کو تشدد کرکے ہلاک کیا گیا۔ واضح رہے کہ مذکورہ عدد ایک اندازے کے مطابق ماب لنچنگ کے مجموعی کیسسز کا ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ اس اعتبار سے امریکہ میں ہر ڈھائی دن میں ایک لنچنگ کا واقعہ ہوا ہے۔
1899 میں دی لنچنگ پرابلم کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی تھی جو اس وقت لائبریری آف کانگریس میں محفوظ ہے۔ مصنف نے اس وقت جو کچھ لکھا ہے، اس کا آج سے موازنہ کیجیے اور دیکھیے کہ بھارت میں ہجومی تشدد کرنے والوں اور امریکہ میں لنچنگ کرنے والوں کے درمیان کس قدر یکسانیت ہے، گویا آج کے دہشت گردوں نے اس دور کے دہشت گردوں کے حالات پڑھ کر یہ اقدامات شروع کیے ہیں۔ کتاب کے مطابق: "لنچنگ کا مقصد کالوں میں خوف پیدا کرنا اور معاشی، معاشرتی اور سیاسی میدانوں میں اپنی برتری برقرار رکھنا ہے". ایک افریقی نژاد شخص رچرڈ رائٹ کہتا ہے کہ "گوروں کے سامنے میرا خوف سے بھرا رویہ کسی تشدد کا نتیجہ نہیں تھا، مجھ پر کبھی تشدد نہیں ہوا، لیکن گوروں کے ذریعے اپنی نسل کے لوگوں پر ہونے والے جس تشدد کا مجھے علم تھا اس نے میرے رویے کو بدل کر رکھ دیا"۔
ان افریقی امریکیوں پر جو ایک طویل عرصے سے غلامی کی زندگی گزار رہے تھے اس وقت تشدد شروع ہوا، جب انھوں نے دستور میں دی ہوئی آزادی کا مطالبہ کیا اورسیاست میں حصہ داری کی غرض سے ووٹ کے لیے رجسٹریشن شروع کیا اور مقامی سطح کے الیکشن میں کھڑے بھی ہوگئے۔ کچھ علاقوں میں کالوں نے تجارت میں بھی قسمت آزمائی کی، جس کی وجہ سے مقامی گورے تاجروں نے ان کو دبانے کے لیے ہجومی تشدد کا سہارا لیا۔ کالوں پر عام طور سے تین طرح کے الزامات لگاکر تشدد کیا جاتا۔ یا تو ان کو کسی کے قتل میں ملوث مان لیا جاتا، یا پھر گوری عورت کے ساتھ ریپ کا الزام لگایا جاتا، حالانکہ وہ عورت اپنی مرضی سے کالے شخص کی محبت میں گرفتار ہوتی اور یا پھر مویشی چرانے کے الزامات لگاکر ہلاک کردیا جاتا۔ آج بھی بھارت میں مویشی سے متعلق الزامات کے تحت ہی ماب لنچنگ کے اکثر واقعات ہورہے ہیں۔
مذکورہ بالا کتاب کے مطابق: "لنچنگ کو ایک عوامی اجتماع کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ باقاعدہ مقامی اخبارات یا پھر پوسٹرز کے ذریعے لنچنگ کی اطلاع دی جاتی اور وقت مقررہ پر لوگ پہنچ جاتے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اپنی مخصوص طرز زندگی کا محافظ سمجھتے تھے۔ آج بھی واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے آنا فانا دہشت گرد جمع ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک مخصوص ثقافت کا علمبردار سمجھتے ہوے، وہ اپنے جرم کو انجام دیتے ہیں۔
مصنف کے مطابق: "مقامی اور ملکی میڈیا میں ان خبروں کو فوٹوز اور مکمل تفصیلات کے ساتھ شائع کیا جاتا۔ لنچنگ کرنے والے لوگ، لاش کے ساتھ فخریہ پوز دے کر فوٹو اترواتے اور خود ہی اخبارات کو ارسال کردیتے۔ اخبارات بھی ان تصاویر اور فراہم کردہ تفصیلات کو مرچ مصالحہ لگاکر شائع کرتے۔ مثلا دی نیویارک ورلڈ ٹیلی گرام میں چھپنے والی ایک سرخی کچھ یوں تھی: "ٹیکساس میں ہجوم نے ایک نیگرو کو ذبح کیا، مسلح لوگوں نے اس کا سینہ چاک کرکے دل نکال لیا"۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی سرخیوں سے ماب لنچنگ کا اثر دور تک جاتا تھا اور کالوں کو خوف میں مبتلا کر دیتا تھا۔
یونیورسٹی آف الینوائے کے کارلوس ہل نے دو ہزار نو میں اپنا پی ایچ ڈی مقالہ لکھا، جس کے عنوان کا ترجمہ ہے: "ھجومی تشدد کا مقابلہ: کالوں کی لنچنگ کے مقابلے کے لیے زمینی محنت"۔ اس کتاب میں مؤلف نے کالوں کے ذریعے لنچنگ کی بڑھتی ہوئی واردات کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے تین طریقے ذکر کیے ہیں۔
1- علاقے سے راہ فرار۔ یہ طریقہ عام طور پر وہ شخص اپناتا تھا جس کو اندازہ ہوجاتا تھا کہ گورے اس کا شکار کرسکتے ہیں۔ وہ عام طور پر امریکہ کے جنوبی صوبوں سے شمالی صوبوں میں اپنے خاندان سمیت ہجرت کرجاتا تھا۔ لاکھوں افریقی نژاد لوگوں نے جنوبی علاقوں سے شمالی علاقوں میں ہجرت کی ہے۔
2- مسلح دفاع۔ کالے یہ طریقہ آخری علاج کے طور پر ہی اختیار کرتے تھے۔ انھیں جب یہ لگتا تھا کہ وہ مارے جائیں گے اور بھاگنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں پچتا تھا، تو وہ آخری دم تک اپنی جان کے تحفظ کے لیے لڑتے تھے۔ وہ عام طور پر اس طریقے کو اس لیے اختیار نہیں کرتے تھے کہ کہیں جواب میں گورے مزید کالوں کا قتل نہ کرنے لگیں۔
3- سوشل کیپیٹل تھیوری: یعنی کالوں نے اپنے مشترکہ خطرات کے پیش نظر اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر جگہ جگہ ادارے، تنظیمیں اور سوسائٹیاں قائم کرنی شروع کردیں، جن کے نتیجے میں کالے ایک ہی علاقے میں آس پاس رہنے لگے، ان کی تعلیمی صورت حال کچھ بہتر ہوئی اور اس کے نتیجے میں ان کے حقوق کے لیے اٹھنے والی مضبوط آوازیں پیدا ہوگئیں۔ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور مالکم ایکس ان چنندہ لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے گوروں کے ظلم کے خلاف اپنی کمیونٹی کو بیدار کیا اور طاقتور تحریکوں کی قیادت کی۔ مالکم ایکس جنھوں نے اسلام قبول کرلیا تھا تعلیمی بیداری میں بھی فعال رہے۔ شکاگو میں قائم کردہ ان کا کالج آج بھی موجود ہے۔ انھوں نے ڈیموکریٹس (ان کی مثال بھارت میں کانگریسی ہندو ہیں) اور ریبپلیکنز (ان کی مثال بی جے پی والے ہیں) کے درمیان موازنہ کرتے ہوے ریپبلیکنز کو ایسے بھیڑیے سے تشبیہ دی جو کھل کر حملہ کرتا ہے اور ڈیموکریٹس کو ایسی لومڑی سے جو بظاہر تو ساتھ رہتی ہے لیکن موقع ملتے ہی اپنا نوالہ بنالیتی ہے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کا ردعمل امریکی کالوں سے بدتر ہے، جب کہ وہ ایک طویل عرصے تک غلام رہے تھے اور مسلمان طویل عرصے تک حکمراں۔ کالوں کا اپنایا ہوا دوسرا طریقہ وقتی اور انفرادی طور پر کارگر تھا، جب کہ تیسرا طریقہ اجتماعی طور پر۔ بھارت میں مسلمانوں کو اس تعلق سے وسیع پیمانے پر بیداری لانے کی ضرورت ہے۔

مدینے کی ریاست کی ایک جھلک

مدینے کی ریاست کی ایک جھلک
.
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا، اور اس مکان کا پرنالہ مسجد کی طرف تھا جب بارش ہوتی تو پرنالہ سے پانی گرتا جس کے چھینٹے نمازیوں پر پڑتے،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو پرنالے کو اکھاڑ پھینکا،
سیدنا عباس آئے دیکھا ان کے مکان کا پرنالہ اتار دیا گیا ہے، پوچھا یہ کس نے اتارا،
جواب ملا امیر المومنین نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھے تو اسے اتار دیا،
سیدنا عباس نے قاضی کے سامنے مقدمہ دائر کر دیا،
چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں،
امیر المومنین ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوئے تو جج صاحب لوگوں کے مقدمات سن رہے ہیں اور سیدنا عمر عدالت کے باہر انتظار کر رہے ہیں، کافی انتظار کے بعد جب سیدنا عمر عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو بات کرنے لگے، مگر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے روک دیا کہ پہلے مدعی کا حق ہے کہ وہ اپنا دعوی پیش کرے، یہ عمر کے دور کا چیف جسٹس ہے،
سیدنا عباس دعوی پیش کرتے ہیں کہ میرے مکان کا پرنالہ شروع سے مسجد نبوی کی طرف تھا، زمانہ نبوی کے بعد سیدنا ابوبکر کے دور میں بھی یہی رہا لیکن عمر نے میرے مکان کا پرنالہ میری عدم موجودگی میں میری اجازت کے بغیر اتار دیا ہے، لہذا مجھے انصاف چاہیے،
چیف جسٹس ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ بے فکر رہیں آپ کو انصاف ملے گا،
قاضی  نے سیدنا عمر سے پوچھا آپ نے سیدنا عباس کے گھر کا پرنالہ کیوں اتارا،
بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم کٹہرے میں کھڑا ہو کر کہتا ہے، سیدنا عباس کے مکان کا پرنالہ مسجد نبوی کی طرف تھا جب بارش ہوتی ہے پرنالے سے پانی بہتا ہے اور چھینٹے نمازیوں پر پڑتے ہیں جس سے نمازیوں کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے میں نے اسے اتار دیا،
آبی بن کعب نے دیکھا کہ سیدنا عباس کچھ کہنا چاہ رہے ہیں، پوچھا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟؟
سیدنا عباس کہتے ہیں یہ جس جگہ میرا مکان ہے یہاں رسول پاک نے اپنی چھڑی سے مجھے نشان لگا کر دیا اور میں نے اسی جگہ مکان بنایا پھر جب پرنالہ نصب کرنے کا وقت آیا تو رسول پاک نے کہا چچا میرے کندھے پر کھڑے ہو کر اس جگہ پرنالہ نصب کر دیں میں نے نبی پاک کے کندھے پر کھڑا ہونے سے انکار کیا مگر بھتیجے کے اصرار پر میں نے ان کے کندھے پر کھڑا ہو کر یہاں پرنالہ نصب کیا یہاں پرنالہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگوایا تھا،
ابی بن کعب نے پوچھا اس کا کوئی گواہ ہے آپ کے پاس،
سیدنا عباس جلدی سے باہر گئے اور کچھ انصار کو لے کر آئے انہوں نے گواہی دی کہ سیدنا عباس سچ کہہ رہے ہیں،
یہ سنتے ہی سیدنا عمر کے ہوش اڑ گئے اور رونے لگے، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی، اپنا پیارا نبی یاد آ گیا،  اور زمانہ نبوی کا منظر نظروں میں گھوم گیا،
عدالت میں سب کے سامنے یہ بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم سر جھکائے کھڑا ہے، جس کا نام سن کر قیصر و کسری کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا،
سیدنا عباس سے کہا مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ رسول پاک نے خود لگوایا ہے،
آپ چلیے میرے ساتھ جیسے رسول پاک نے یہ پرنالہ لگوایا تھا ویسے ہی آپ لگائیں،
چشم کائنات نے دیکھا!
وقت کا حاکم دونوں ہاتھ مکان کی دیوار سے ٹکا کر کھڑا ہو گیا بالکل اسی طرح جیسے رسول پاک کھڑے ہوئے تھے، سیدنا عباس امیر المومنین کے کندھوں پر کھڑے ہوئے اور دوبارہ اسی جگہ پرنالہ لگا دیا،
وقت کے حاکم کا یہ سلوک دیکھ کر سیدنا عباس نے مکان مسجد نبوی کو وقف کر دیا،
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 210، الحديث رقم : 1790،

بی جے پی سرکار کرے ہے ہوشیار

بی جے پی سرکار کے تیور کو دیکھتے ہوئے اہل مدارس قبل از وقت اپنا قبلہ درست کرلیں!
(1)بیرونی طلبہ کے تمام کاغذات جمع کرانے کے بعد ہی اپنے یہاں داخلہ لیں!
(2)اپنے مدرسوں کی رجسٹریشن ضرور کرائیں
(3)مدرسوں کی زمین کے تمام کاغذات کوجو مہتم حضرات نے بڑی چالاکی سے اپنے نام کرا لی ہے اسے وقف کرتے ہوئے اپنے ادارہ کو ذاتی جاگیر سے بدل کر مدرسہ کی شکل دیں؟
(4)مدرسہ کے تمام حساب کتاب کارجسٹر،سی ،اے، سے آڈٹ کرائیں ؟
(5)مدرسے کی تمام رسیدات کے لئے اندراج رجسٹر بناکرامد و صرف کی تفصیل اپنے یہاں ضرور رکھیں؟
مدرسین و ملازمین کے مع اسناد کے تمام کاغذات لیکر ہی اپنے مدرسے میں تقرر کریں؟
(6)مقامی لوگوں کو اعتماد اور بھروسے میں لیتے ہوئے ان کو اپنے مدرسے کی کمیٹی یا شوری میں ضرور شامل کریں؟
(7)بیرونی طلباء کے ساتھ ساتھ مقامی طلبہ کا داخلہ لیتے وقت ان کے تمام کاغذات کی فوٹو کاپی اور انکی رجسٹر حاضری اپنے یہاں ضرور ریکارڈ میں رکھیں؟
(8)بیرونی طلبہ سے پڑھائی کے علاوہ کوئی دوسرا کام ہرگز نہ لیں جیسےمنڈی سے سبزی،بیکری سے ناشتہ کے لیئے پاپے مطبخ میں ان سے کھاناپکوانا،ان کو کوپن دیکر بازاروں میں چندہ کرانا؟
(9)بیرونی طلبہ کے لئے کھیل کود ورزش،صفائی ستھرائی قیام و طعام علاج و معالجہ کا معقول انتظام رکھیں؟
(10)کیرایہ پر چل رہے مدارس مکان مالکان سے مدرسہ چلانے کے نام پر اگریمنٹ اور مقامی پولس اشٹیشن سے اپنے مدرسہ کا ویریفکیشن ضرور کرائیں؟
(11)اگر آپ کے پاس بیرونی طلبہ کی تعداد کم ہے تو مقامی طلبہ کی تعداد میں اضافہ ضرور کر لیں؟
موجودہ سرکار کی تیور ہمارے مدرسوں کے تئیں ٹھیک نہیں ہے وہ تمام پرائیویٹ مدرسوں کی سرکاری جانچ ضرور کرائےگی جسکا اعلان کئی جگہوں پر ہو گیا ہے سرکار کو گائیڈ لائن مہیا کرا دیا گیا ہے وہ لگ بھگ مندرجہ بالا امور پر ہی جانچ کرےگی اس لیئے تمام مدرسوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ قبل ازوقت اپنا قبلہ درست کر لیں
پھر نا کہنا ہمیں خبر نا ہوئی!
اس اپیل کو تمام اہل مدارس کو پہچا دی جائے!
اپیل کردہ:
*اعجاز احمد خان رزاقی*
*کل ہند صدر انجمن اصلاح المدارس*

داد کھجلی کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟

داد کھجلی کیا ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟

داد ایک طرح کا پھنگل انفکشن ہے جو ایک بار ہو نے پر پوری بوڑی میں بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔یہ کھجلی فنگس کی وجہ سے ہوتی ہے۔یہ بدن میں کہیں بھی اور کبھی بھی ہوسکتی ہے۔یہ ہر گروپ کے مردوعورت کو ہو سکتی ہے۔ مندرجہ ذیل طرح کے فنگل انفکشن عموما ہوتے ہیں:
athlete's foot.
yeast infection.
ringworm.
nail fungus.
oral thrush.

diaper rash.






علاج:

مختلف طریقہائے علاج میں مختلف انداز اختیار کیے جاتے ہیں۔طبِ یونانی میں خلطِ صفراء و بلغم کے مسہلات اور مصفیاتِ خون ادویہ کے علاوہ مقامی طور پر گندھک کے مراہم، کافور اور روغنِ گلاب میں تیار کردہ لوشن مسکنات کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ راحت طبِ جدید کی دواؤں سے ہی حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ پھپھوند اور اس کے بذروں (Spores)کو ختم کردینے والی ہوتی ہیں۔ ان ادویہ میں مقامی طور پر لگانے کے لیے کریم، لوشن، مراہم اور پاؤڈر دستیاب ہیں۔بار بار ہونے والے پھپھوندی مرض کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ جلد کی بیرونی سطح سے کچھ اندر بھی سرایت کر جاتی ہے خصوصاً سر اور ناخن کے؛ اس لیے اندرونی طور پر کھلانے والی چند گولیاں اور کیپسول بھی اب بازار میں دستیاب ہیں۔ مقامی طور پر لگانے کے لیے Terbinafine, Clotrimazole, Miconazole, Ketoconazoleجیسی کارگر دوائیں ملتی ہیں۔ اندرونی استعمال کے لیے Terbinafine, Griseofulvin, Fluconazole, Itraconazole دستیاب ہیں۔

داد کھجلی کی اسباب:
کسی insect bite  سے۔
سوکھے اور روکھے موسم کی وجہ سے۔
کسی طرح کے جلدی انفکشن کی وجہ سے۔
دوسرے کے استعمال شدہ صابون وغیرہ استعمال کرنے کی وجہ سے۔
کسی دوا سے الیرجی کی وجہ سے۔
بالوں میں ڈاون ڈرف کی وجہ سے۔

داد ہونے پر جسم پر اثرات یا لکشنڑ:

جگہ کا لال ہوجانا۔
پھنسی جیسے مواد سے بھرے ہوے نشان کا ابھرنا۔
کھجلی ہونا۔
انفکشن کی جگہ پر ابھار ہونا۔
چمڑوں کا سوکھنا اور اس میں پھٹن شروع ہوجانا۔

داد کھجلیخارش یا کھجلی جیسی بھی ہو عام طور پر بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اگر اسکا مناسب علاج نہ کیا جائے تو یہ نہ صرف پورے جسم پر پھیل سکتی ہے بلکہ یہ بیماری شدت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ کھجلی کئی اقسام کی ہوتی ہے لیکن عام طور پر جو کھجلی عام ہے یہ جو نما کیڑے کے جلد میں چلے جانے اور اسکے انڈے دینے کے بعد پیدا ہوتی ہے اور اگر اسکا بروقت علاج نہ کیا جائے تو آپکے گھر کے تمام افراد کو بھی لگ سکتی ہے۔ ذیل میں کھجلی ہونے کی چند علامات اور اس سے نجات کے طریقے بتائے گئے ہیں۔کھجلی کی علامات:کھجلی میں عام طور پر کسی بھی شخص کا سونا مشکل ہوجاتا ہے اور رات کو متاثرہ شخص میں کھجلی مزید شدت اختیار کرلیتی ہے۔کھجلی کی بیماری میں مبتلا ہونے کی دوسری بڑی علامات جلد پر سفید دانے نمودار ہونا ہے۔ اور عام طور پر یہ دانے پورے جسم پر پھیل جاتے ہیں۔کھجلی کی صورت میں ہتھیلیوں سے جلد چھلکے کی صورت میں اترنا شروع ہوجاتی ہے۔کھجلی میں۔

کچھ مزید اثرات:

مبتلا ہونے کی صورت میں متاثرہ شخص کے جسم پر موجود دانے بھی سوکھنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور ان پر کھرنڈ آنے کے علاوہ جسم پر زغم بھی تشکیل پانا شروع ہوجاتے ہیں۔کھجلی ہونے کی وجوہات کیا ہیں:کھجلی کس وجہ سے ہوتی ہے یہ ایک اسکن انفیکشن ہے جو آپکی جلد میں جونما جراثیم کے جلد میں انڈے دینے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس کیڑے کا نام اسکیبیز ہے۔کھجلی ایک شخص سے دوسرے شخص کو منتقل بھی ہوسکتی ہے جیسے عام طور پر کسی سے گلے ملنے سے منتقل ہونا۔کھجلی کے جراثیم بہت تیزی سے پھیلتے ہیں اور یہ متاثرہ شخص کے تولیے اور بستر وغیرہ استعمال کرنے سے بھی ہوسکتی ہے۔کھجلی کا علاج:کھجلی کے علاج کیلئے اسکاباقاعدہ طبی علاج بہت ضروری ہے اسکے لئے عام طور پر ٹیسٹ بھی کیے جاتے ہیں ۔ پھر باقاعدہ علاج کے ذریعے کھجلی کی بیماری میں اسکے کیڑے کے انڈوں کو جسم سے ختم کیا جاتا ہے۔ عام طور پر اس کے علاج کیلئے ڈاکٹر آپ کو لوشن یا کریم وغیر تجویز کرتے ہیں۔

داد دراصل ایک انفیکشن ہے جسے جلد کی پھپھو ند بھی کہا جاتا ہے۔یہ جلد کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے پہلے یہ ایک ریش کی طرح ہو تا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ پھیلنے لگتا ہے جو سرخ رنگ کے نشانوں کی طر ح ہو تا ہے۔ اس کو ٹھیک ہو نے میں وقت لگتا ہے اس لیے پر یشانہو نے کے بجائے تحمل سے اس کا علاج کر یں۔
پہلے داد والی جگہ پر تیز خارش ہو تی ہے جو نا قا بل بر داشت ہو تی ہے۔ بچوں میں یہ بیماری زیادہ پائی جاتی ہے۔چو نکہ یہ انفیکشن چھو نے سے بھی پھیلتا ہے اس لیے مطلو بہ شخص کو چھو نے سے گریزکریں ۔ اگر آپ کواس انفیکشن کا سامنا کرنا پڑتاہے تو آپ کو علاج سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے تا کہ اس انفیکشن کو روکا جا سکے۔

صفا ئی کا خیال رکھیں۔
اس بیماری سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ صفا ئی کا خا ص خیال رکھیں۔ دن میں دو بار نہا ئیں اور کسی اچھے صا بن کا استعمال کریں۔
اگر آپ کو انفیکشن کی علامات نظر آنے لگیں تو نیم کے پتوں کو پانی میں ابال کر اس سے غسل کر یں ۔

گندے کپڑے پہننے سے گر یز کر یں کیو نکہ یہ انفیکشن گندگی سے بڑھتا ہے۔
اگر آپ کی جلد پر داد چھو ٹا سا ہے تو اس پر اینٹی بیکٹیر یل کر یم لگا ئیں تا کہ اسے وہیں پر روکا جا سکے ۔

مزید تدابیر و مفید علاج:
لہسن
لہسن کے دو تین جو ئے پیس کر انھیں متا ثر ہ جگہ پر لگائیں اور کسی کپڑے سے باندھ دیں لہسن کی اینٹی سیپٹک خصوصیات انفیکشن کو ختم کر دیں گی۔
ٹی ٹر ی آئل
یہ داد سے نجات کا سب سے پر انا نسخہ ہے۔اس آئل میں بر ابر مقدار میں پانی شامل کر لیں اور داد والی جگہ پر دن میں دو بار لگائیں ۔
سیب کا سر کہ
سیب کا سر کہ روئی میں بھگو کر متا ثر ہ جگہ پر لگائیں اور تین روز تک اس کا استعمال کر یں۔
ہلدی
ہلدی کا رس متا ثر ہ جگہ پر لگانے سے افا قہ ہو گا نیز ہلدی کو پانی میں ملا کر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
نمک اور سر کہ
سرکے میں تھو ڑا سا نمک شامل کر کے متاثرہ جگہ پر لگائیں اور پھر دو گھنٹے بعد ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔
تلسی کے پتے
تلسی کے پتے پیس کر اس کا عر ق داد والی جگہ پر لگائیں یہ عمل دن میں دو بار کر نے سے خارش میں بھی کمی آئے گی نیز اس انفیکشن سے چھٹکارا بھی ملے گا۔
کچا پپیتا
کچچا پپیتا داد والی جگہ پر ہلکا ہلکا ملیں اس میں مو جو د غذائی اجزاء انفیکشن کو ٹھیک کر دیتے ہیں۔
لیمن گر اس ٹی
یہ چائے دن میں تین بار استعمالکرنے سے افا قہ ہو گا اس کے علاوہ اس ٹی کے استعمال شد ہ ٹی بیگ متاثر ہ جگہ پر رکھنے سے فائدہ ہو گا۔
آلو
کچے آلو کارس پینے سے اس بیماری میں افاقہ ہو گا۔
سنگھا ڑا
لیموں کے رس میں خشک سنگھا ڑے کو گھس کر لگائیں پہلے جلن ہو گی پھر ٹھنڈ ک پڑ جائے گی کچھ دن کے استعمال سے افا قہ ہو گا۔
چقندر
اس سبزی کو زیادہ عر صہ کھانے سے اس بیماری سے شفاء ملتی ہے۔
ٹیلویژن پر دکھائے جانیوالے اشتہارات کی وجہ سے مریضوں کو’داد‘ یعنی شرمگاہ اور اس کے آس پاس کے مقامات کی کھجلاہٹ کو سمجھانا قدرے آسان ہوگیا ہے۔ لوگ خود بھی اشتہار میں دکھائے جانیوالے مراہم کا استعمال کر لیتے ہیں۔ کچھ کو آرام بھی مل جاتا ہے لیکن بہت سے مزید پریشان ہو کر دواخانوں میں حاضر ہوتے ہیں۔
’داد‘ ایک طفیلی مرض ہے۔ اس میں شدید کھجلی اور بے چینی ہوتی ہے۔ اس کا سبب کچھ پھپھوند (Fungus) ہیں۔ انھیں عام طور سے ’رِنگ ورم‘ (Ringworm)کہتے ہیں۔ یہ ایک غلط نام ضرور ہے کیونکہ اس میں کسی کیڑے کا کوئی عمل نہیں ہے؛ لیکن دورِ قدیم میں ایسا تسلیم کیا جاتا تھا کہ یہ کسی کیڑے کے کاٹنے سے لاحق ہوتا ہے اور دائرے کی شکل میں پھیلتا ہے۔ اس لیے یہ نام پڑگیا تھا۔ آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ مگر بعد کے زمانوں میں تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا کہ اس کا سبب جلد پر اُگنے والی پھپھوند (Dermatophytes) یعنی جِلدی پھپھوند ہیں۔ علاوہ ازیں یہ صرف دائرے کی شکل میں نہیں پھیلتا بلکہ منحنی شکلوں میں بھی پھیلتا ہے۔ 
داد کا مرض جلد کی اوپری (بیرونی) سطح پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے معاون اسباب میں ’’گرمی (حرارت) اور نمی‘‘ والے علاقے ہیں یعنی جہاں پسینہ یا کوئی اور رطوبت (جیسے منہ، ناک اور کان کی رطوبتیں) کا اخراج ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں اس کے سبب کھجلی، چھلکے اور پرت کی پیدائش اور سر، ڈاڑھی وغیرہ پر گنج بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ مرض ایک سے دوسرے فرد میں تیزی سے منتقل ہوتا ہے؛ خواہ راست تعلق سے یا پھر تولیہ، کنگھیاں، کپڑے یا زیر جامے اور حتیٰ کہ سوئمنگ پول یا باتھ روم (ٹب) کے مشترکہ استعمال سے بھی یہ مرض ایک سے دوسرے میں منتقل ہو جاتا ہے۔ کچھ پالتو جانور جیسے بلی، کتے، خرگوش وغیرہ بھی اس مرض سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ اپنے نگراں یا مالک کو بھی متاثر  کرتے ہیں۔
یہ پھپھوند انسانی جلد کے اوپر ہی پلتی ہے۔ بالوں اور ناخنوں میں بھی ملتی ہے۔ پالتو جانوروں کی جلد میں بھی پناہ لیتی ہے اور مٹی میں بھی شامل رہتی ہے۔ اس لیے کس فرد کو کہاں سے پھپھوند نے متاثر کیا ہے اس کی تحقیق تقریباً ناممکن ہے۔ اس کی افزائش کے لیے بتایا جا چکا ہے کہ ’’گرمی اور نمی‘‘ کی موجودگی لازم ہے۔ایسے علاقے جہاں دو مقامات کی جلدیں آپس میں ملتی ہیں وہاں ’’گرمی اور نمی‘‘ بھی پائی جاتی ہے اس لیے وہاں اس مرض کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ رہتا ہے جیسے کنجران (جانگھوں کی بغل)، بغل، انگلیوں کے درمیان، گردن وغیرہ۔
حالانکہ مرض ایک ہی ہے، یعنی ’’داد‘‘، علامات و علاج بھی تقریباً یکساں ہوتے ہیں لیکن (برائے علاج) جسم کے حصوں سے منسوب کر کے اس کے مخصوص نام دئیے گئے ہیں جیسے:
٭ Tinea barbae (یعنی ڈاڑھی کی پھپھوند) یہ عام طور سے نائی کے یہاں سے برآمد ہوتی ہے۔ ٭inea capitis (سر کی پھپھوند) مدرسوں اور اسکولی بچوں میں عام ہے۔ ٭ Tinea corporis (جسمانی جلد کی پھپھوند) اس میں داد کے امتیازی اور مخصوص چکتّے (چٹّے) ظاہر ہوتے ہیں۔ ٭inea cruris (کنجران کی پھپھوند) یہ شرمگاہ کے آس پاس رانوں کے بغلی علاقوں اور کبھی اعضائے مخصوصہ مردانہ و زنانہ کی جلد پر بھی شدید خارش اور چٹے پیدا کرتی ہے۔ ٭inea faciei (چہرے کی پھپھوند) ڈاڑھی کے علاقوں سے ہٹ کر پیدا ہونے والے یہ بھی بے حد عام اور مخرش چٹے ہیں۔ ٭inea manus (ہتھیلیوں کی پھپھوند) یہ انگلیوں کے درمیانی حصوں کی پھپھوند کے ساتھ واقع ہوتی ہیں اور ہاتھوں کے اگلے یا پچھلے حصوں پر پھیلتی ہے۔ باورچی خانوں اور بیکری وغیرہ کے ملازمین یا پانی کے کام کرنے والوں میں عام ہے۔ ٭inea pedis (پیروں کی انگلیوں کی پھپھوند) عام طور سے کھلاڑیوں، دھوبی، کنسٹرکشن ورکرس وغیرہ کو متاثر کرتی ہے۔داد کی تمام اقسام میں اس کا علاج سب سے مشکل ہوتا ہے اور عام طور سے مریض کو دوبارہ بھی گھیر سکتا ہے۔ ٭inea unguium (ناخنوں کی پھپھوند) اسے Onychomycosis بھی کہا جاتا ہے۔ 

علامات:

علامات تمام صورتوں کی یکساں ہیں یعنی شدید خارش (خصوصاً رات کے وقت)، اکثر سوزش، چھلکے یا پرت جھڑنا۔

اسبابِ معاونہ:

ذاتی صاف صفائی کی کمی،پسینہ کا زیادہ اخراج، بعض دوائیں جیسے اینٹی بایوٹک دواؤں کا زیادہ عرصہ تک استعمال اور اسی طرح اسٹیرائیڈ کا بھی طویل مدت تک استعمال، ہاتھوں اور پیروں کا مسلسل نم رہنا، مصنوعی ریشوں (جرسی jersey) سے بنے زیر جامے اور بنیان و موزوں کا استعمال، وغیرہ۔

علاج میں غفلت:

یہ بالکل عام بات ہے کہ علاج شروع کرنے سے چند دنوں میں ہی علامات جاتی رہتی ہیں۔ اور مریض محسوس کرتا ہے کہ اسے داد سے چھٹکارا مل گیا ہے۔ اس کے بعد وہ علاج میں غفلت برتنا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ محض دو یا چار دنوں کے علاج سے پھپھوند یا فنگس پوری طرح سے ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسے تقریباً تین یا چار ہفتے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مریض ڈاکٹروں سے آکر یہ شکایت کرتے ہیں کہ مجھے علاج سے راحت مل جاتی ہے لیکن تمام تکالیف بار بار پلٹتی رہتی ہیں۔ اس لیے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ محض دو یا تین دنوں کے علاج سے آپ اس مرض سے چھٹکارا نہیں پاسکتے بلکہ کم از کم تین تا چار ہفتے مسلسل علاج کرتے رہنا ضروری ہے۔

احتیاط:

درجِ بالا تمام ادویہ کا استعمال اپنے معالج کی نگرانی میں ہی اور اس کی ہدایت کے مطابق کرنا چاہیے۔ ابتدائے مرض میں ہی علاج شروع کردیا جائے تو مرض شدت بھی اختیار نہیں کرتا اور مکمل چھٹکارے کے امکانات بہت روشن ہوتے ہیں۔ بدن پر گیلے کپڑے (خصوصاً برسات میں) ہوں تو انھیں جلد سے جلد تبدیل کر لیا جائے۔ پانی کے کام کے بعد ہاتھوں اور پیروں کے علاوہ ناخنوں پر موجود پانی کو فی الفور سکھا لینا چاہیے

ازقلم : محمد نورالدین ازہری
ایڈیٹر اسلامک کلچر بلاگ



Monday, July 29, 2019

لا تخلط بين عالِمَيْن اثنين

*إلى الباحثين: (لا تخلط بين عالِمَيْن اثنين):
1- لا تخلط بين (القرطبي) صاحب التفسير، و(القرطبي) صاحب شرح صحيح مسلم، فاﻷول يكنى أبا عبدالله، والثاني يكنى أبا العباس.
2 - لا تخلط بين (ابن رشد) صاحب: المقدمات، والبيان والتحصيل، وبين (ابن رشد) صاحب بداية المجتهد ونهاية المقتصد، فاﻷول ابن رشد الجد، والثانى ابن رشد الحفيد.
3- لا تخلط بين (الزرقاني) اﻷب صاحب: "شرح مختصر خليل"، و(الزرقاني) الابن صاحب: "شرح الموطأ".
4- لا تخلط بين (القرافي) صاحب كتاب الذخيرة، والفروق، و(القرافي) صاحب شرح موطأ مالك ومختصر خليل، فاﻷول اسمه أحمد بن إدريس، والثانى اسمه محمد بن يحيى.
5 - لا تخلط بين (ابن عرفة) صاحب كتاب الحدود، وبين (ابن عرفة) صاحب الحاشية المشهورة على الشرح الكبير للدردير، فاﻷول تونسى، والثانى دسوقي.
6 - لا تخلط بين (المازري) صاحب شرح التلقين وإيضاح المحصول، و(المازري) صاحب التعليق الكبير فى المذهب المالكى.
7- لا تخلط بين (الزركشي) شارح مختصر الخرقي، و(الزركشي) صاحب البرهان في علوم القرآن، فالأول حنبلي، والثاني شافعي.
8- لا تخلط بين (ابن تيمية) الجد صاحب المحرر،
و(ابن تيمية) الحفيد أحمد ابن عبدالحليم.
9- لا تخلط بين (ابن عبد الهادي) صاحب المحرر في الحديث، و(ابن عبد الهادي) صاحب مغني ذوي الأفهام،
فالأول في القرن الثامن، والآخر في القرن العاشر، وكلاهما حنبلي.
10- لا تخلط بين (أبي الحسن) علي بن محمد بن عبد الحق الزرويلي وشهرته الصُّغيِّر (ت 719ه‍) صاحب "التقييد على المدونة"، و(أبي الحسن) علي بن محمد بن محمد بن خلف المنوفي المصري (ت939ه‍)، صاحب ”كفاية الطالب الرباني شرح رسالة أبي زيد القيرواني“ المقرر على المعاهد الأزهرية.
11- (اللقاني): هناك أربعة من علماء المالكية يحملون نفس النسبة  لقرية لقانة من قرى مصر: برهان الدين إبراهيم بن محمد اللقاني قاضي القضاة (ت 896 هـ)، وتلميذه: شمس الدين محمد بن حسن اللقاني، له حاشية على خليل (ت 935 هـ)، وناصر الدين اللقاني محمد بن الحسن، صاحب التصانيف، له شرح على مختصر خليل (ت 958 هـ)، وهو أخو شمس الدين، أما الرابع فمتأخر عنهم وهو أبو الأمداد برهان الدين إبراهيم بن حسن اللقاني، له حاشية على خليل وله نظم جوهرة التوحيد (ت1041هـ).
12 - لا تخلط بين (الشاطبي) صاحب الموافقات والاعتصام و(الشاطبي) " القاسم بين فِيرُّه" مصنف الشاطبية في القراءات.
13-  لا تخلط بين (ابن العربي) المعافري المالكي صاحب العارضة والعواصم وأحكام القرآن، و(ابن عربي) المتصوف صاحب الفصوص والفتوحات، وكلاهما "محمد".
14- لا تخلط بين (ابن حجر العسقلاني) المحدث صاحب الفتح، و(ابن حجر الهيتمي) شارح المشكاة، وكلاهما "أحمد".
15- لا تخلط بين (أبي حامد الغزالي) المشهور بحجة الإسلام، و(الغزالي) الكاتب المعاصر وكلاهما "محمد".
16- لا تخلط بين (نافع) مولى ابن عمر، وبين (نافع) القارئ عن وَرْش، وكلاهما مدنيان.
17- لا تخلط بين (الجويني) الأب، وابنه إمام الحرمين أبي المعالي صاحب البرهان والورقات.
18- لا تخلط بين (ابن كثير) المقرئ و(ابن كثير) المفسر.
19 - لا تخلط بين (الرازي) الفيلسوف الطبيب صاحب الحاوي والشكوك، و(الرازي) الأصولي المفسر المتكلم.
20- لا تخلط بين (الترمذي) المحدث الحافظ صاحب السنن،  و(الترمذي) الحكيم صاحب النوادر.
21- لا تخلط بين (أبي مسلم  الأصفهاني الأديب  ) محمد بن علي الأصفهاني المعروف بـابن مَهْرَيَزْد الأديب أو ابن مهرايزد د)*(366 - 459 ه‍ = 976 - 1067 م) في القرن الخامس الهجري
و(أبي سلم  الأصفهاني المفسر ) محمد بن بحر (254ـ322 ) هو من مفسري القرن الرابع الهجري من المعتزلة ، كان كاتبا ، نحويا ، أديبا ،متكلما، مفسرا ، ومن رجال الدولة العباسية
22- لا تخلط بين ( ابن قيم الجوزية ) تلميذ ابن تيمية  صاحب كتاب  "زاد المعاد "   أبو عبدالله محمد بن أبي بكر الزرعي الدمشقي كان والده قيّما -اي مديرا - على المدرسة الجوزية - التي انشأها يوسف ابن عبد الرحمن  الجوزي -
و بين (ابن الجوزي)  - ت 592 هـ - : فهو الحافظ أبو الفرج عبدالرحمن الجوزي صاحب كتاب" صيد الخاطر" " وتلبيس إبليس"
23- لا تخلط بین( الامام النووي) الدمشقي أبو زكريا يحيى بن شرف الحزامي صاحب" رياض الصالحين"و " الأربعين النووية" و"المنهاج" في الفقه
و(النووي الجاوي) الإندونيسي محمد بن عمر  من أندنويسیا صاحب "عقیدة العوام" و" التفسير المنير لمعالم التنزيل"،  وكلاهما شافعیان.
24- لا تخلط بين (نافع القاريء )و( نافع المحدِّث ) (نافع بن عبد الرحمن بن أبي نعيم الليثي ﺍﻟﻤﻘﺮﺉ (70–169هـ) صاحب قراءة أهل الجزائر وليبيا عندما نقول  قراءة ورش عن نافع
والثاني أبو عبد الله نافع المدني مولى عبد الله بن عمر بن الخطاب علامة في الفقه، كثير الرواية للحديث ثقة. ويعد مالك بن أنس أشهر من لازمه وحدث عنه. لا يعرف له خطأ في جميع ما رواه.

मेरे पास खुदरा पैसे नहीं

"दुनिया के सबसे धनवान व्यक्ति बिल गेट्स से किसी ने पूछा - 'क्या इस धरती पर आपसे भी अमीर कोई है ? बिल गेट्स ने जवाब दिया - हां, एक व्यक्ति इस दुनिया में मुझसे भी अमीर है। कौन -!!!!! बिल गेट्स ने बताया: एक समय मे जब मेरी प्रसिद्धि और अमीरी के दिन नहीं थे, मैं न्यूयॉर्क एयरपोर्ट पर था.. वहां सुबह सुबह अखबार देख कर, मैंने एक अखबार खरीदना चाहा,पर मेरे पास खुदरा पैसे नहीं थे.. सो, मैंने अखबार लेने का विचार त्याग कर उसे वापस रख दिया.. अखबार बेचने वाले लड़के ने मुझे देखा, तो मैंने खुदरा पैसे/सिक्के न होने की बात कही.. लड़के ने अखबार देते हुए कहा - यह मैं आपको मुफ्त में देता हूँ.. बात आई-गई हो गई.. कोई तीन माह बाद संयोगवश उसी एयरपोर्ट पर मैं फिर उतरा और अखबार के लिए फिर मेरे पास सिक्के नहीं थे।उस लड़के ने मुझे फिर से अखबार दिया, तो मैंने मना कर दिया। मैं ये नहीं ले सकता.. उस लड़के ने कहा, आप इसे ले सकते हैं, मैं इसे अपने प्रॉफिट के हिस्से से दे रहा हूँ.. मुझे नुकसान नहीं होगा। मैंने अखबार ले लिया...... 19 साल बाद अपने प्रसिद्ध हो जाने के बाद एक दिन मुझे उस लड़के की याद आयी और मैंने उसे ढूंढना शुरू किया। कोई डेढ़ महीने खोजने के बाद आखिरकार वह मिल गया। मैंने पूछा - क्या तुम मुझे पहचानते हो ? लड़का - हां, आप मि. बिल गेट्स हैं. गेट्स - तुम्हे याद है, कभी तुमने मुझे फ्री में अखबार दिए थे ? लड़का - जी हां, बिल्कुल.. ऐसा दो बार हुआ था.. गेट्स- मैं तुम्हारे उस किये हुए की कीमत अदा करना चाहता हूँ.. तुम अपनी जिंदगी में जो कुछ चाहते हो, बताओ, मैं तुम्हारी हर जरूरत पूरी करूंगा.. लड़का - सर, लेकिन क्या आप को नहीं लगता कि, ऐसा कर के आप मेरे काम की कीमत अदा नहीं कर पाएंगे.. गेट्स - क्यूं ..!!! लड़का - मैंने जब आपकी मदद की थी, मैं एक गरीब लड़का था, जो अखबार बेचता था.. आप मेरी मदद तब कर रहे हैं, जब आप इस दुनिया के सबसे अमीर और सामर्थ्य वाले व्यक्ति हैं.. फिर, आप मेरी मदद की बराबरी कैसे करेंगे...!!! बिल गेट्स की नजर में, वह व्यक्ति दुनिया के सबसे अमीर व्यक्ति से भी अमीर था, क्योंकि--- "किसी की मदद करने के लिए, उसने अमीर होने का इंतजार नहीं किया था ".... अमीरी पैसे से नहीं दिल से होती है दोस्तों किसी की मदद करने के लिए अमीर दिल का होना भी बहुत जरूरी है..

Featured Post

*زحمت، رحمت اور فطرت* حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس کی بھلائی چاہتا ہے اس...